Mar 5, 2009

بے خَبری

آج دفتر کے ایک ساتھی سے کھانے کے دوران، پانچ چھ ماہ کی واقفیت کے بعد، پہلی دفعہ ایک ذاتی سا مکالمہ ہوا جو کچھ انہوں نے اسطرح سے شروع کیا۔
"آپ نے رات وہ تجزیہ سنا تھا؟"انہوں نے ایک پروگرام کا نام لیتے ہوئے کہا۔
"جی نہیں"
"آپ اُن صاحب کے پروگرام تو دیکھتے ہونگے" انہوں نے اس تجزیہ نگار کا نام لیتے ہوئے کہا۔
"جی نہیں"
"آپ خبریں تو دیکھتے ہیں ناں"
"جی نہیں"
"تو پھر ٹی وی پر کیا دیکھتے ہیں۔"
"کچھ بھی نہیں، میں ٹی وی نہیں دیکھتا۔"
"واقعی!!!۔۔۔۔۔اچھا تو پھر فلمیں دیکھتے ہونگے۔"
"اب وہ بھی نہیں دیکھتا۔"
"وہ فلم دیکھی ہے آپ نے" انہوں نے کسی فلم کا نام لیتے ہوئے کہا۔
"جی نہیں"
"تو پھر گھر جا کر آپ کیا کرتے ہیں"
اسکے بعد اس مکالمے کے طول و عرض میں تو ضرور وسعت پیدا ہوئی لیکن مجھے کچھ مزید "الٹے سیدھے" سوالوں کا جواب دینا پڑا، جیسے وصی شاہ یا نسیم حجازی یا عشق کے عین، شین یا الف، ب، جیم، دال وغیرہ وغیرہ کے متعلق لیکن یہ واقعہ میرے بلاگز کی فہرست میں اضافہ ضرور کر گیا۔

اسے میری بے خبری کہیئے، یا غفلت یا جہالت یا بے حسی یا کچھ اور لیکن یہ حقیقت ہے کہ حالاتِ حاضرہ نام کی چیز کی طرف سے میرے دل میں ایک بیزاری سی پیدا ہو گئی ہے، وجہ تو ماہرینِ نفسیات ہی بتا سکتے ہیں اور شکر کے میرے بلاگ کا قاری فرائڈ نہ ہوا ورنہ کچھ نادر قسم کی وجہ دریافت ہوتی لیکن میں اس بیزاری پر بہت خوش ہوں کہ زندگی میں چین اور سکون ہے، کم از کم حالاتِ حاضرہ کی طرف سے، اور فی زمانہ اس طرف سے سکون کا مطلب ہے کہ آپ کی بے شمار پریشانیاں ختم ہو گئیں جن پر بحث بحث کر کروڑوں انسان بے حال ہوئے جا رہے ہیں۔

زمانے کی رفتار عجب ہے، ایک شور شرابہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا تیار، مرزا عبدالقادر بیدل نے شاید اسی لیے کہا تھا۔

بستہ ام چشمِ امید از الفتِ اہلِ جہاں
کردہ ام پیدا چو گوھر، در دلِ دریا کراں
ترجمہ، میں نے دنیا والوں کی محبت کی طرف سے اپنی چشمِ امید بند کر لی ہے اور گوھر کی طرح سمندر کے دل (صدف) میں اپنا ایک (الگ تھلگ) گوشہ بنا لیا ہے۔

یہ شعر مجھے برابر دن رات یاد آتا ہے یا اگر اسے خودنمائی نہ سمجھا جائے تو عرض کروں کہ اپنی یہ رباعی بھی اکثر یاد آتی ہے جو کم و بیش ایک سال پہلے کہی تھی۔

شکوہ بھی لبوں پر نہیں آتا ہمدم
آنکھیں بھی رہتی ہیں اکثر بے نم
مردم کُش یوں ہوا زمانے کا چلن
اب دل بھی دھڑکتا ہے شاید کم کم

متعلقہ تحاریر : محمد وارث, میری یادیں

13 comments:

  1. حضرت آج کے دور میں تو بے خبری بھی شاید ایک نعمت ہے۔ تجزیہ نگار لوگوں‌کو وہی سناتے ہیں جو لوگ سننا چاہتے ہیں۔ کیونکہ مختلف لوگ مختلف سچائیاں سننا چاہتے ہیں اس لیے تجزیوں کا ایک بازار لگا ہوا ہے لوگ اپنی پسند کا تجزیہ خریدتے ہیں‌ پھر اس کی نمائش کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں اس لیے بے خبر رہنا بھی بڑا مشکل ہوگیا ہے کہ کسی نہ کسی کا تجزیہ کہیں‌نہ کہیں سے آپ تک پہنچ جاتا ہے

    ReplyDelete
  2. آپ نے اپنے آخری فقرہ میں جواب لکھ دیا ہے ۔ آپ شاعر ہیں اور شاعر کی اپنی دنیا ہوتی ہے جس میں کوئی دوسرا جھانک نہیں سکتا
    آپ تبصرہ کے پریویو کو فعال بنائیے ۔ پریویو پر اگر تبصرہ میں کوئی غلطی نظر آئے تو اسے درست کرنے کی آپشن نظر نہیں آئی

    ReplyDelete
  3. علم بڑی دولت ہے
    اور
    لا علمی ہزار نعمت ہے
    :D

    ReplyDelete
  4. شکریہ راشد صاحب، آپ نے بجا کہا بے خبری ایک نعمت ہے یا جیسے بھائی ڈفر نے لکھا کہ لاعلمی ہزار نعمت ہے اور میں شکرگزار ہوں اللہ تعالیٰ کا ان نعمتوں پر۔
    نوازش اجمل صاحب، پریویو میں اگر کوئی غلطی نظر آئے تو اس منسوخ کردیں وہ پھر آپ کو تبصروں کے خانے میں لے آئے گا یہ منسوخی پریویو پر دائیں طرف ایک کراس کی صورت میں نظر آتی ہے، اور دوبارہ تبصرے کے خانے میں غلطی درست ہو سکتی ہے۔ ویسے بلاگ سپاٹ پر اردو ایڈیٹر کی کمی بہت محسوس ہوتی ہے۔

    ReplyDelete
  5. Main DuFFer ki baat se Sehmat hoon

    ReplyDelete
  6. جس قسم کے حالات پیدا ہو چکے ہیں۔ اس میں ٹی وی نہ دیکھنا ہی مناسب لگتا ہے۔ آپ اچھا کرتے ہیں۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں!

    ReplyDelete
  7. بے خبری نہیں بے حسی

    ReplyDelete
  8. بجا فرمایا شیعب صاحب۔
    بدتمیز، بے حسی ہی سہی، اور شکریہ اپنا نے بے حسی پر ہی چھوڑ دیا آپ اس 'نِک' کے ساتھ کچھ بھی لکھ سکتے تھے :)

    ReplyDelete
  9. آپ تو بہت اچھا کرتے ہیں۔

    ReplyDelete
  10. اس خوبصورت تحریر کے وجود میں آنے کا سبب بننے والے دفتر کے ان ساتھی کا میری طرف سے بھی شکریہ ادا کر دیجیے گا۔

    ReplyDelete
  11. صاحب آپ کی تحریر میں‌ جو ادبی چاشنی ہے وہ تو اب مشہور ادیبوں کی تحریروں میں بھی کم ہی نظر آتی ہے۔ اتنی اچھی نثر لکھی ہے کہ آپ کے نقطہ نظر سے متفق نہ ہونے کے باوجود اختلاف نہ کرنے کو جی چاہتا ہے۔ اپنی ایک کمی کا بھی احساس ہوتا ہے کہ اے کاش! ہم نے بھی فارسی پڑھی ہوتی تو شعرو ادب کے بے پناہ خزانے سے مستفید ہو سکتے۔
    آخر میں ایک مصرعہ جس شاید انور مسعود کا ہے کہ
    حالات حاضرہ کو کئی سال ہوگئے

    ReplyDelete
  12. نوازش فاتح صاحب، اجی صاحب دفتر والوں کو تو میری ان 'انڈر گراؤنڈ' سرگرمیوں کا علم ہی نہیں ہے ورنہ 'پنڈوراز باکس' کھل جائے، تب تک کیلیے آپ کا شکریہ میرے پاس محفوظ ہے۔

    جعفر صاحب بہت شکریہ آپ کا بھائی، جناب کہاں یہ خاکسار اور کہاں ادیب و شعراء اکرام بس یونہی خیالاتِ پریشاں لکھ دیتا ہوں۔ فارسی نہ جاننے اور نہ پڑھنے کا مجھے بھی بہت افسوس ہے، کاش پڑھی ہوتی تو اس بیش بہا خزانے سے کچھ جواہر ہمارے ہاتھ بھی لگ جاتے۔

    ReplyDelete