Mar 19, 2009

خواجہ الطاف حسین حالی کی چند رباعیات

Altaf، Hussain، Hali, Altaf Hussain Hali, urdu poetry, poetry, classical urdu poetry, ghazal, خواجہ، الطاف، حسین، حالی، خواجہ الطاف حسین حالی، اردو شاعری، کلاسیکی اردو شاعری، شاعری، غزل، رباعی، Rubai
Altaf Hussain Hali, خواجہ الطاف حسین حالی
سر سید احمد مرحوم کے رفقاء میں جن احباب نے خاص مقام حاصل کیا اور ان کے پیغام کو ہندوستان کے کونے کونے میں پھیلایا، ان میں مولانا خواجہ الطاف حسین حالی پانی پتی کا نام تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جا چکا ہے۔ مولانا حالی نے 'ادبی محاذ' سنبھالا تھا اور اس زمانے کی مقبول لیکن لغویات سے پُر شاعری کے خلاف جہاد بالقلم کیا۔ مولانا کی طویل نظم "مد و جزرِ اسلام" جو کہ "مسدسِ حالی" کے نام سے مشہور ہے کہ بارے میں سر سید احمد خان فرماتے تھے کہ جب خدا مجھ سے پوچھے گا کہ دنیا سے کیا لایا تو کہوں گا کہ حالی سے مسدس لکھوا کر لایا ہوں۔

مولانا نے جہاں نظم میں اپنے قلم کے جوہر دکھلائے وہیں وہ میدانِ نثر کے بھی شاہسوار تھے اور ایسی سلیس اور رواں اردو لکھی کہ اہلِ زبان بھی عش عش کر اٹھے۔ انکی مشہور تصنیفات، جوکہ اردو ادب میں زندہ و جاوید ہو چکی ہیں، میں "مقدمۂ شعر و شاعری" جو کہ دراصل ان کے شعری دیوان کا مقدمہ تھا لیکن یہ اتنا مقبول ہوا اور اس نے پرانی اور پامال شعری روش کو بدلنے میں وہ کام کیا کہ ایک علیحدہ تصنیف کے طور مشہور ہوا، "یادگارِ غالب" جو کہ غالب کی سوانح عمری اور "حیاتِ جاوید" جو کہ سر سید احمد خان کی سوانح عمری ہے۔ یہ کتب نہ صرف پڑھی جاتی رہی ہیں بلکہ رہتی دنیا تک پڑھی جاتی رہیں گی کہ اپنے اپنے موضوع پر سند اور اتھارٹی کی حیثیت رکھتی ہیں۔

مولانا کے دیوان، جو رنگِ سخنِ قدیم و جدید سے معمور ہے، میں قطعات، غزلیات اور پابند نظموں کے ساتھ پند و نصائح و حقیقت و معرفت و مذہب و فلسفہ و کشاکشِ زیست سے لبریز رباعیات بھی موجود ہیں جن میں سے چند درج کرتا ہوں۔ سب سے پہلے مولانا کی مشہور و معروف رباعی جس سے انہوں نے مسدس کا آغاز کیا ہے۔

تنزّلِ اہلِ اسلام
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
اسلام کا گِر کر نہ ابھرنا دیکھے
مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے

صلحِ کُل
ہندو سے لڑیں نہ گبر سے بیر کریں
شر سے بچیں اور شر کے عوض خیر کریں
جو کہتے ہیں یہ کہ، ہے جہنّم دنیا
وہ آئیں اور اس بہشت کی سیر کریں

کم ہمتی
جبریہ و قدریہ کی بحث و تکرار
دیکھا تو نہ تھا کچھ اس کا مذہب پہ مدار
جو کم ہمت تھے ہو گئے وہ مجبور
جو باہمت تھے بن گئے وہ مختار

عشق
ہے عشق طبیب دل کے بیماروں کا
یا گھر ہے وہ خود ہزار آزاروں کا
ہم کچھ نہیں جانتے پہ اتنی ہے خبر
اک مشغلہ دلچسپ ہے بیکاروں کا

ترکِ شعر عاشقانہ
بُلبُل کی چمَن میں ہم زبانی چھوڑی
بزم شعرا میں شعر خوانی چھوڑی
جب سے دلِ زندہ تُو نے ہم کو چھوڑا
ہم نے بھی تری رام کہانی چھوڑی

مکر دریا
حالی راہِ راست جو کہ چلتے ہیں سدا
خطرہ انہیں گرگ کا نہ ڈر شیروں کا
لیکن اُن بھیڑیوں سے واجب ہے حذر
بھیڑوں کے لباس میں ہیں جو جلوہ نما

نیکی اور بدی پاس پاس ہیں
جو لوگ ہیں نیکیوں میں مشہور بہت
ہوں نیکیوں پر اپنے نہ مغرور بہت
نیکی ہی خود اک بدی ہے گر ہو نہ خلوص
نیکی سے بدی نہیں ہے کچھ دُور بہت

آزادگانِ راست باز کی تکفیر
یاروں میں نہ پایا جب کوئی عیب و گناہ
کافر کہا واعظ نے انہیں اور گمراہ
جھوٹے کو نہیں ملتی شہادت جس وقت
لاتا ہے خدا کو اپنے دعوے پہ گواہ

توحید
ہندو نے صنم میں جلوہ پایا تیرا
آتش پہ مغاں نے راگ گایا تیرا
دہری نے کیا دہر سے تعبیر تجھے
انکار کسی سے بن نہ آیا تیرا

دوستوں سے بیجا توقع
تازیست وہ محوِ نقشِ موہوم رہے
جو طالبِ دوستانِ معصوم رہے
اصحاب سے بات بات پر جو بگڑے
صحبت کی وہ برکتوں سے محروم رہے

عیش اور عشرت
عشرت کا ثمر تلخ سوا ہوتا ہے
ہر قہقہہ پیغامِ بُکا ہوتا ہے
جس قوم کو عیش دوست پاتا ہوں
کہتا ہوں کہ اب دیکھیے کیا ہوتا ہے

نیکوں کی جانچ
نیکوں کو نہ ٹھہرائیو بد اے فرزند
اک آدھ ادا ان کی اگر ہو نہ پسند
کچھ نقص انار کی لطافت میں نہیں
ہوں اس میں اگر گلے سڑے دانے چند

گدائی کی ترغیب
اک مردِ توانا کو جو سائل پایا
کی میں نے ملامت اور بہت شرمایا
بولا کہ ہے اس کا ان کی گردن پہ وبال
دے دے کے جنہوں نے مانگنا سکھلایا

رباعیاتِ قدیم
ہو عیب کی خُو کہ ہو ہنر کی عادت
مشکل سے بدلتی ہے بشر کی عادت
چھٹتے ہی چھٹے گا اس گلی میں جانا
عادت اور وہ بھی عمر بھر کی عادت
--------
مرنے پہ مرے وہ روز و شب روئیں گے
جب یاد کریں گے مجھے تب روئیں گے
الفت پہ، وفا پہ، جاں نثاری پہ مری
آگے نہیں روئے تھے تو اب روئیں گے
--------
کیا پاس تھا قولِ حق کا، اللہ اللہ
تنہا تھے، پہ اعدا سے یہ فرماتے تھے شاہ
میں اور اطاعتِ یزیدِ گمراہ
لا حَولَ و لا قُوّۃَ الّا باللہ

متعلقہ تحاریر : اردو شاعری, الطاف حسین حالی, رباعی

5 comments:

  1. حالی سے میرا تعارف بس نصاب ہی کی حد تک محدود رہا-آپ کے بلاگ پر ان کا کلام پڑھ کر بڑا لطف آیا

    ReplyDelete
  2. اصحاب سے بات بات پر جو بگڑے
    صحبت کی وہ برکتوں سے محروم رہے

    Buhat Zabardast

    ReplyDelete
  3. شکریہ انا اور بلاگ پر خوش آمدید۔ شکریہ بلو آپ کے تبصرے کیلیے

    ReplyDelete
  4. ماشاءاللہ آپ نے بہت محنت اور تحقیق سے لکھا ہے۔ مبارکباد قبول کیجیے۔۔۔

    ReplyDelete
  5. نوازش جعفر صاحب، بہت شکریہ۔

    ReplyDelete