Apr 17, 2009

فیضان

لاہور میں، میں قریب قریب اڑھائی سال رہا لیکن بالکل اسی طرح جسطرح گوہر صدف میں رہتا ہے، میری دوڑ اپنے ہاسٹل سے کالج تک اور زیادہ سے زیادہ پرانی انارکلی تک ہی ہوتی تھی، جہاں میں مہینے میں دو تین بار لازمی طور پر کتابیں خریدنے جایا کرتا تھا۔ میرے کالج اور ہوسٹل کے ساتھی باقاعدہ پروگرام بنا کر لاہور کے تاریخی مقامات بھی دیکھنے جایا کرتے تھے اور فلمیں بھی لیکن مجھ پر ہمیشہ سنگ و خشت میں مقید رہنا ہی شاید نازل ہوا ہے اور اس پر دوستوں کے طنز کا بھی بارہا نشانہ بنا۔ لیکن ایک موقع ایسا آیا کہ میں بھی کشاں کشاں چلنے کو تیار ہو گیا، ہمارے ایک دوست نے بتایا کہ انکے کالج میں ایک مشاعرہ ہو رہا ہے سو چلو اور میں تیار ہو گیا، میرے اسطرح فوری تیار ہونے پر سبھی دوست حیران بھی ہوئے کہ میں حجام کے پاس جانے سے پہلے بھی کئی کئی دن 'تیاری' کرتا اور سوچتا رہتا ہوں۔

وہ مشاعرہ واقعی یادگار تھا اور میرے لیے تو خاص طور پر یادگار کہ میری زندگی کا یہ پہلا اور آخری مشاعرہ ہے جس میں میں نے شرکت کی اور سنا۔ اس مشاعرے میں کئی نامور، سنجیدہ اور مزاحیہ شاعر موجود تھے جن میں منیر نیازی، امجد اسلام امجد، ضیاءالحق قاسمی، پروفیسر عنایت علی خان، خالد مسعود خان وغیرہ شامل تھے۔ پنڈال میں پہنچے تو وہاں تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں تھی اور مجھے بہت پیچھے نشست ملی، اپنے پسندیدہ شاعروں کے اتنے قریب آ کر اتنا دُور رہنا میرے لیے ناممکن تھا سو کرسی سے اٹھا اور اسٹیج کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا اور تین چار گھنٹے تک سارا مشاعرہ کھڑے ہو کر سنا۔ داد تو میں بڑھ چڑھ کر دے ہی رہا تھا اسکے بعد فرمائشیں بھی شروع کر دیں، منیر نیازی مرحوم ان دنوں کافی ضعیف ہو چکے تھے لیکن ہم کافی دیر تک ان سے ان کا کلام سنتے رہے، اور میں نے ان سے انکی مشہور پنجابی نظم 'کج شہر دے لوگ وی ظالم سن' بھی سننے کا شرف حاصل کیا۔ میری فرمائشیں حد سے زیادہ بڑھ گئیں تو خالد مسعود بول ہی اٹھے کہ 'بندہ تو ایک ہے اور فرمائشیں پورے پنڈال کی طرف سے کر رہا ہے۔"۔

مشاعرہ ختم ہوا تو شعراء کرام سے ہاتھ ملانے کی سعادت بھی حاصل ہوئی، منیر نیازی سے کجھ باتیں بھی ہوئیں، ان کے ارد گرد کافی طالب علم کھڑے تھے، مجھے دیکھ کر مسکرائے اور کہنے لگے" ذرا بچوں کو تنقید پڑا رہا ہوں"، دراصل وہ گلہ کر رہے تھے کہ ان کو اردو شاعری میں وہ مقام نہیں ملا جس کے وہ حقدار تھے اور ان سے کمتر شعراء اپنی "پی آر" اور تعلقات کی وجہ سے زیادہ شہرت حاصل کر گئے۔ پروفیسر عنایت علی خان سے ملا تو کہنے لگے، 'یار آپ تو بہت اچھے سامع ہیں، سارا مشاعرہ کھڑے ہو کر سنا۔"
اس وقت میرے پاس آٹو گراف لینے کیلیے کوئی چیز موجود نہ تھی، ایک دوست کے ہاتھ میں ڈائری دیکھی تو اسی پر شعرائے کرام سے آٹو گراف حاصل کرنے کی سعادت حاصل ہوئی، لیکن افسوس وہ سنگ دل دوست اپنی ڈائری کسی طور مجھے دینے پر رضامند نہ ہوا اور یوں وہ متاع چھن گئی، لیکن ایک یادگار اور لازوال خزانہ اس مشاعرے کے حوالے سے جو میرے پاس ہے وہ کوئی نہیں چھین سکتا، امجد اسلام امجد اسٹیج سے نیچے اترے تو ان کے جوتے اسٹیج کے نیچے کہیں دُور پہنچ چکے تھے، اس خاکسار نے نہ صرف انکے جوتے نکالے بلکہ ان کو 'سیدھا بھی کیا' بلکہ میں کہہ سکتا ہوں کہ اس مشاعرے کو سننے کیلیے میرا غیر ارادی طور پر تیار ہو جانا صرف اور صرف اساتذہ کی جوتیاں سیدھی کرنے کیلیے ہی تھا۔ بقولِ شاعر
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشَد خدائے بخشندہ

(یہ سعادت اپنے زورِ بازو سے حاصل نہیں ہوتی، تا وقتیکہ بخشنے والا خدا نہ بخشے)۔

متعلقہ تحاریر : محمد وارث, میری یادیں

7 comments:

  1. محمد وارث صاحب پھر وہی کہوں گی بہت خوب لکھا ،آپ کے لکھنے میں کیا جادو ہے کہ جب تک پورا پڑھا جا جائے چھوڑنے کو دل نہیں کرتا ، مینر نیازی کی جس پنجابی کی نظم کا آپ نے کہا یہ میرے والد صاحب نے مجھے کافی پہلے سنائی تھی یہ انکی پسندیدہ نظم تھی ۔ اور تب مجھے پنجابی کی کوئی خاص سمجھ نہیں تھی لیکن آپ یقین کرو اسکے بعد پھر میری بھی یہ پسندیدہ نظم بن گئ

    کس دا دوش سی کس دا نئیں سی
    اے گلاں ہُن کرن دیاں نئیں

    ویلے لنگ گئے ہُن توبہ والے
    راتاں ہُن ہوکے بھرن دیاں نئیں

    جو ہویا او تے ہونا ہی سی
    تے ہونیاں روکے رکدیاں نئیں

    اک واری جَد شروع ہو جاوے
    تےگل فیر ایویں مُکدی نئیں

    کُج انج وی راہواں اوکھیاں سَن
    کج گَل وچ غم دا طوق وی سی

    کج شہر دے لوک وی ظالم سَن
    کج سانوں مرن دا شوق وی سی

    ReplyDelete
  2. قبلہ اساتذہ کی جوتیاں سیدھی کرنے کا فیضان تو آپ کی ہر تحریر میں مزید نمایاں‌ہو کر سامنے آتا جارہا ہے۔۔ امید ہے کہ دوست کا دل پسیج جائے گا اور آٹوگراف بک واپس مل جائے گی۔۔ اگلے ہفتے ہمارے یہاں مشاعرہ ہورہا ہے۔۔دیکھیں کوئی جوتی الٹاتا ہے یا نہیں‌

    ReplyDelete
  3. پرانی یادیں اور وہ بھی جب ادبی رنگ لیے ہوئے ہوں تو پڑھ کر مزہ آتا ہے۔

    ReplyDelete
  4. آپ پر رشک آرہا ہے (اور تھوڑا سا حسد بھی) :grin:
    غالب کو بھی منیر نیازی والی شکایت تھی ۔۔ ناقدری کی۔۔۔
    آج غالب کا نام اور اردو شاعری مترادف ہیں۔۔۔
    منیر نیازی کا وقت بھی آئے گا۔۔۔
    یہ میری خواہش بھی ہے اور پیشگوئی بھی۔۔

    ReplyDelete
  5. بہت شکریہ آپ سب کا، نوازش۔
    تانیہ آپ نے تو چار چاند لگا دیئے اس بلاگ پوسٹ کو منیر نیازی کی خوبصورت نظم شیئر کر کے، نوازش۔
    راشد صاحب قبلہ، آپ نے جس طرح قلم پایا ہے جناب تو بس ہمیں بھی اپنی جوتیاں سیدھی کرنے والوں میں سے سمجھیں، ویسے آج کل جوتا سیدھا کرنے کی بجائے جوتا پھینکنے کی روایت چل نکلی ہے، دیکھیئے یہ بات مشاعروں تک کب پہنچیتی ہے :)۔
    افضل صاحب، نوازش آپ کی۔
    جعفر صاحب، حسد اور رشک کیوں قبلہ :)۔ اور منیر نیازی واقعی اچھے شاعر تھے۔

    ReplyDelete
  6. زبردست لکھا ہے وارث صاحب آپ نے،اور مشاعرے کے احوال نے تو مزہ ہی دوبالا کر دیا

    ReplyDelete
  7. بہت شکریہ انا، نوازش۔

    ReplyDelete