May 8, 2009

علمِ عروض - کچھ اصول اور شاعرانہ صوابدید

اس موضوع پر یہ دوسری تحریر ہے، آپ نے اگر پہلی تحریر نہیں پڑھی تو آپ سے استدعا ہے کہ اس تحریر کو بہتر سمجھنے کیلیے پہلی تحریر پر بھی ایک نظر ڈال لیں

ہجّے دو طرح کے ہوتے ہیں، ہجائے بلند یا دوحرفی ہجا اور ہجائے کوتاہ یا یک حرفی ہجا اور ان کو بالترتیب 2 اور 1 سے ظاہر کیا جا سکتا ہے لیکن کچھ 'خصوصی ہجے' بھی ہوتے ہیں جن کو شاعر کی صوابدید پر چھوڑا جاتا ہے کہ وہ اسے ہجائے بلند سمجھے یا ہجائے کوتاہ۔ کیوں؟ اس کیلیے ہمیں کچھ وزن اور بحروں وغیرہ پر تھوڑا سا مزید کام کرنا پڑے گا۔ اور کچھ تقطیع یا علمِ عروض کے اصول ہیں جن کو بدلا نہیں جا سکتا، اسکی مثالیں بھی آگے آ رہی ہیں۔

پچھلی تحریر میں ہم نے دیکھا تھا کہ 'سبق پہلا' جسے ہجوں میں 2221 میں ظاہر کیا جا سکتا ہے دراصل علمِ عروض میں ایک وزن ہے جسے 'مفاعیلن' کہا جاتا ہے۔ اسی مفاعیلن کو اگر ایک مصرعے میں ہم چار بار دہرائیں تو اس سے ایک بڑی خوبصورت بحر بنتی ہے جسے 'بحر ہزج' کہا جاتا ہے۔ اب یہاں ایک بار بار پھر میں اصطلاحات اور انکے مطلب وغیرہ کو کسی 'اچھے' وقت کیلیے چھوڑتا ہوں، فی الحال اہم بات یہ ہے کہ مفاعیلن کو ایک مصرعے میں چار بار دہرانے سے ایک بحر کا وزن حاصل ہوتا ہے، تھوڑا سا غور کرنے کی ضرورت ہے۔

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
یا علامتوں میں
2221 2221 2221 2221

یا اگر یہ بھی مشکل ہے تو وہی ہمارا پرانا سبق یعنی
سبق پہلا، سبق پہلا، سبق پہلا، سبق پہلا
واہ واہ واہ، میاں وارث کیا خوب مصرعہ لکھا ہے اس پر گرہ تو لگاؤ ذرا۔
گرہ، حضرت وہ کیا ہوتی ہے۔
اسی وزن میں ایک اور مصرعہ تو کہو بھئی۔
لو جی یہ کیا مشکل ہے، ابھی لو
ملا ہم کو، ملا ہم کو، ملا ہم کو، ملا ہم کو
واہ واہ، کیا خوبصورت شعر ہے

سبق پہلا، سبق پہلا، سبق پہلا، سبق پہلا
ملا ہم کو، ملا ہم کو، ملا ہم کو، ملا ہم کو

محترم قارئین، آپ نے دیکھا کہ کیسے کچھ الفاظ مل کر ایک شعر بن گئے اور بالکل وزن میں، اوپر دیئے گئے خود ساختہ شعر کو اگر آپ ہجوں میں توڑیں تو نوٹ کریں گے کہ ہجائے کوتاہ اور بلند دونوں ایک ہی ترتیب سے ایک دوسرے کے مقابل آ رہے ہیں اور ہم نے دیکھا تھا کہ یہی وزن ہے۔ اب اس فضول شعر پر لعنت ڈالتے ہیں اور قبلہ و کعبہ مرشدی، خلد آشیانی، میرزا اسد اللہ خان نوشہ کا ایک شعر دیکھتے ہیں۔

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

میرا خیال ہے کہ آپ بہت کچھ سمجھ رہے ہونگے، جی ذرا اس کو ہجوں میں توڑنے کی کوشش تو کریں۔ مشکل ہے، چلیں جی میرے ساتھ ہی سہی۔

ہزاروں یعنی ہَ زا روں
اب اس کو اگر علامتوں مین لکھیں تو ہَ 1، زا 2، رو 2

لیکن بھائی نون غنہ کدھر گیا تو یاد رکھنے کا ایک اصول، نون غنہ کا تقطیع یا شعر میں کوئی وزن نہیں ہوتا۔ کیوں اس کو گولی ماریئے کہ میں کہیں اور نکل جاؤنگا پھر کبھی سہی۔ اسکے مقابل نون معلنہ یعنی جسکا اعلان کیا جاتا ہے جیسے 'جہان' میں، تو اسکا وزن ہوتا ہے لیکن غنہ جیسے 'جہاں' میں اسکا وزن نہیں ہوتا۔

خواہشیں - یعنی خوا ہِ شیں
لیکن کیا خواہش میں واؤ بولی جاتی ہے، نہیں تو پھر صرف یہ نمائشی ہے اور تقطیع یا شعر میں وہ واؤ جو بولنے میں نہیں آتی اور جسے واؤ معدولہ کہا جاتا ہے، کوئی وزن نہیں رکھتی۔ اور یہ بھی ایک اصول ہے یعنی
خواہشیں یعنی خا ہِ شے یعنی 2 1 2
شعر میں اگلا لفظ 'ایسی' یعنی اے سی یعنی 22۔
اگلا لفظ 'کہ'، کہ کا مسئلہ تھوڑا ٹیرھا ہے، روایتی ماہرین کہتے ہیں کہ 'کہ' کو ہجائے کوتاہ یعنی 1 سمجھنا ایک اصول ہے جسے بدلا نہیں جا سکتا لیکن کچھ 'نرم دل، مہربان اور جدید' ماہرینِ فن کہتے ہیں کہ اس کو اصول نہیں شاعر کی صوابدید پر چھوڑنا چاہیئے کہ چاہے اسے ہجائے کوتاہ سمجھے یا ہجائے بلند کہ 'کہ' بھی دو حرفوں سے مل کر بن رہا ہے یعنی ک اور ہ۔ خاکسار کا شمار موخر الذکر میں ہوتا ہے، ماہرین میں نہیں بلکہ 'کہ' کو شاعر کی صوابدید پر چھوڑنے کیلیے۔ لیکن یہ فقط کسی 'نئے شاعر' کیلیے ہے، اپنی شاعری میں میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ کسی اصول کو چاہے وہ کتنا فرسودہ ہی کیوں نہ ہو، توڑا نہ جائے۔ سو کہ برابر ہے 1 کے۔
شعر میں اگلا لفظ 'ہر، - واہ جی واہ آپ تو بہت جلد سمجھ گئے کہ یہ 2 ہے جبکہ کسی بھی 'ہر' کو سمجھنا اتنا آسان نہیں ہے جتنا آپ سمجھ رہے ہیں۔
اگلا لفظ - خواہش یعنی خا ہش یعنی 2 2
اگلا لفظ 'پہ' ۔ ایک اور اصول، پہ ہجائے کوتاہ یا 1 ہے بظاہر یہ دوحرفوں ہی سے مل کر بنا ہے۔
اگلا لفظ 'دم' جی 2 ہے۔
اور نکلے جی یہ نک اور لے یعنی 2 2 ہے۔
پھر دیکھیئے

ہزارو - 221
خاہشے - 212
ایسی - 22
کہ - 1
ہر - 2
خاہش - 22
پہ -1
دم - 2
نکلے - 22

اب مصرعے کو پھرلکھتے ہیں اور اسکے نیچے ہر لفظ کی علامت یعنی

ہزاروں/ خواہشیں/ ایسی/ کہ/ ہر/ خواہش/ پہ/ دم/ نکلے
22/2/1/22/2/1/22/212/221
کیا آپ اس ترتیب میں کسی پیٹرن کو دیکھ سکتے ہیں، چلیں دیکھتے ہیں
2221/2221/2221/2221
یہ پیٹرن کچھ جانا پہچانا سا نہیں لگ رہا؟
2221/2221/2221/2221
سبق پہلا/ سبق پہلا/سبق پہلا/ سبق پہلا
ملا ہم کو/ملا ہم کو/ملا ہم کو/ملا ہم کو
مفاعیلن/مفاعیلن/مفاعیلن/مفاعیلن
ہزاروں خوا/ہشیں ایسی/کہ ہر خواہش/پہ دم نکلے
2221/2221/2221/2221
تھوڑا سا مشکل مرحلہ ہے لیکن انتہائی اہم، وزن یہ نہیں ہے کہ ہر لفظ کے مقابل اس جیسا دوسرا لفظ آئے بلکہ وزن یہ ہے کہ ہر ہجائے بلند کے مقابل ہجائے بلند اور ہر ہجائے کوتاہ کے مقابل ہجائے کوتاہ آئے۔ پھر دیکھیں
ہزاروں خوا، مفاعیلن کے مقابل آ رہا ہے، یعنی شعر میں ایک لفظ مکمل یعنی ہزاروں اور ایک ٹوٹا ہوا لفظ 'خوا'، بحر کے وزن مفاعیلن کے برابر آ رہا ہے، یعنی ضروری نہیں کے بحر کے وزن کے مقابل شعر کا مکمل لفظ آئے بلکہ ضروری یہ ہے کہ وزن میں ہجائے کوتاہ کے مقابل ہجائے کوتاہ اور ہجائے بلند کے مقابل ہجائے بلند آئے اور وہ بالکل آ رہا ہے یعنی
مفاعیلن
یا
م فا عی لن
یا
2 2 2 1
یا
ہَ زا رو خا
اسی طرح اگلا رکن
مفاعیلن
یا
2 2 2 1
ہِ شے اے سی
اور اگلا رکن
مفاعیلن
2221
کہ ہر خا ہش
اور
مفاعیلن
2221
پ دم نک لے
پھر دیکھیئے

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
ہزارو خا/ہ شے اے سی/کہ ہر خا ہش/پہ دم نک لے
مفاعیلن/مفاعیلن/مفاعیلن/مفاعیلن
2221/2221/2221/2221

تو گویا 'ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے' میں آپ نے ایک پیٹرن ڈھونڈ لیا، اور دراصل پیٹرن کا نام ہی بحر ہوتا ہے۔
اب اگلا مصرع، مختصراً
بُ ہَت نکلے - مفاعیلن - 2221
مرے ارما - مفاعیلن - 2221
یاد رکھنے کہ ایک بات اگر 'میرے' لکھا جاتا یعنی 'یا' کے ساتھ تو یہ مے رے یعنی 22 ہوتا لیکن پیٹرن کے مطابق یہاں پر شاعر کو 21 چاہیئے تھا یعنی پہلے ہجائے کوتاہ اور پھر ہجائے بلند سو اس نے 'مرے' یعنی 'یا' کے بغیر لکھ کر اس کو 21 بنا لیا اور یہ بھی ایک شاعرانہ صوابدید ہے کہ میرے، مرے، تیرے، ترے، میرا، مرا، تیرا، ترا وغیرہ الفاظ کو شاعر اپنی ضرورت کے مطابق لا سکتا ہے اور میری کم عقلی یہ کہ میں ہمیشہ یہی سمجھتا رہا کہ شاعر 'میرے' کو ' مرے' شاعرانہ 'ٹچ' کیلیے لکھتے ہیں وہ تو بعد میں سمجھ آیا، جیسے آج آپ کو، کہ یہ تو ان بیچاروں کی ایک بہت بڑی مجبوری ہوتی ہے۔

ن لے کن پر - مفاعیلن - 2221
ایک اصول یہ کہ دو چشمی ھ کا کوئی وزن نہیں ہوتا سو 'پھر' ایسے ہی ہے جیسے 'پر' یعنی فقط ایک ہجائے بلند یا 2۔
بِ کم نکلے - مفاعیلن - 2221
بھئی یہ 'بھی' کی دو چشمی ھ تو مانا کہ گنی نہیں جائے گی لیکن اسکی 'ی' کون کھا گیا۔ سو عرض ہے کہ یہ بھی ایک شاعرانہ صوابدید ہے کہ وہ کچھ الفاظ کے آخر میں جو حرفِ علت یعنی الف، واؤ اور ی ہوتا ہے اس کو گرا سکتا ہے اپنی ضرورت پوری کرنے کیلیے، یہ چونکہ ایک طول طلب قصہ ہے سو کسی اگلی پوسٹ میں انشاءاللہ۔ فقط یہ یاد رکھیں کہ شاعر نے یہاں ہجائے کوتاہ پورا کرنے کیلیے ایک ہجائے بلند کے آخری حرف کو گرا کر اسے ہجائے کوتاہ بنا لیا ہے۔
پھر دیکھیں
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
بہت نک لے/مرے ارما/ن لے کن پر/بِ کم نک لے
مفاعیلن/مفاعیلن/مفاعیلن/مفاعیلن
2221/2221/2221/2221


اب اگر آپ دونوں مصرعوں کو بیک وقت دیکھیں

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

لیکن بس بھئی اب اسی شعر کی خود تقطیع کرنے کی کوشش کریں اور مزید مشق کیلیے اسی غزل کے باقی اشعار کی بھی۔ جن احباب کو غالب پسند نہیں ہے وہ اس کیلیے اقبال کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔ بانگِ درا کی مشہور و معروف نظم 'طلوعِ اسلام' اسی بحر میں ہے، اور اسکا یہ شعر تو ہر کسی کو یاد ہی ہوگا۔

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

اور جن احباب کو غالب اور اقبال دونوں سے کوئی شغف نہیں ہے وہ محمد رفیع کے اس سدا بہار اداس گانے کی ذرا تقطیع کرنے کی کوشش کریں۔

بھری دنیا میں آخر دل کو سمجھانے کہاں جائیں

محبّت ہو گئی جن کو وہ دیوانے کہاں جائیں

اور جو احباب بحر ہزج کی کچھ مزید غزلیات اور انکی تقطیع دیکھنا چاہیں وہ موضوعات اور ٹیگز کے تحت 'بحر ہزج مثمن سالم' کا ٹیگ دیکھیں کہ ہماری مذکورہ بحر کا مکمل نام یہی ہے۔

اور ایک بات جو انتہائی اہم ہے کہ اس علم میں 'مشق' کی بہت ضرورت ہے بالکل اسی طرح جس طرح ریاضی کے سوال حل کیئے جاتے ہیں، قلم و قرطاس سے ہمارا رشتہ تو ٹوٹ چکا اور ماؤس اور کی بورڈ سے نیا رشتہ استوار ہوا لیکن یقین مانیئے جو لطف کاغذ اور قلم میں ہے وہ اس برقی بلخ اور بخارے میں نہیں۔

متعلقہ تحاریر : تقطیع, علم عروض

43 comments:

  1. بہت اچھی اور معلوماتی پوسٹ ہے. میرا بھی دل کررہا ہے کہ اس کو لسانیات اور صوتیات کے حساب سے بیان کروں. کوشش کرتا ہوں کسی دن کہ اسے ایسے بیان کروں جیسے مجھے سمجھ آتی ہے.

    ReplyDelete
  2. پچھلی پوسٹ پر کچھ سوالات تھے میرے
    لیکن اس پوسٹ میں آپ نے تقریبا سارے جوابات دے دیئے ہیں
    شکریہ

    ReplyDelete
  3. ذبردست بہت اچھی تحریر ہے

    امید

    ReplyDelete
  4. شکریہ شاکر صاحب، ہاں ضرور لکھیئے گا۔
    جعفر، یہ اچھی علامت نہیں کہ سب سوالوں کے جواب مل جائیں، شاید آپ بھی بُور ہو گئے ہیں :)
    بہت شکریہ امید، نوازش۔

    ReplyDelete
  5. السلام علیکم
    جاری رکھیں صاحب. . بہت مزہ آ رہا ہے اور سمجھ بھی خوب آ رہا ہے. . .

    ReplyDelete
  6. محترم تقطیع ہمارے ایم اردو کے کورس میں شامل تھی۔ اور آج بھی مجھے یاد ہے کہ پرچے میں یہ سوال حل کرنے کے لیے ہمیں کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے۔ مشہور مصرعوں کو خوب رٹ کر وہ سوال حل کیا۔ مگر اب ایسا لگتا ہے کہ آپ کے اسباق پڑھ کر ہم بھی کچھ نہ کچھ اس میدان میں سدھ بدھ پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

    ReplyDelete
  7. ہمارا تبصرہ شاید چھپا نہیں ہو سکتا ہے ہم اسے کاپی کرنا بھول گئے ہوں. ہم نے گزارش کی تھی کہ چھوٹے چحوٹے ٹوٹکوں کی فہرست بنا دیجیے جسے پاکٹ بک کا نام دیا جائے. اس میں شعر کی تقطیع کے چیدہ چیدہ اصول، شاعر کی صوابدید والے الفاظ، گرائے جانے والے حروف، بے وزن حروف وغیر ہ وغیرہ ہوں.

    ReplyDelete
  8. سب سوالوں کے نہیں جو پوسٹ پڑھ کر ذہن میں آئے تھے صرف ان کے
    :grin:
    اگر ہوسکے تو اس شعر کی تقطیع کردیں
    ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
    میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

    ReplyDelete
  9. بہت شکریہ عین لام میم اور وہاب صاحب۔
    افضل صاحب یقیناً لیکن میرے خیال میں ‘شارٹ کٹ‘ کسی بھی علم کا نہیں ہوتا بہرحال ان ٹوٹی پھوٹی تحریروں سے شاید کچھ ‘بن‘ ہی جائے۔
    جعفر، یہ غزل اور شعر بحر مجتث ہے، انشا اللہ اسکی تقطیع بھی لکھنے کو کوشش کرونگا کہ اس بحر میں بہت ‘زحاف‘ یا ویری ایشنز ہیں، لیکن ایک بات کے پہلے مصرعے میں ‘اک‘ ہے اور دوسرے میں ‘ایک‘ یہ بیچارے نیازی صاحب کی مجبوری تھی کہ ایسے لکھتے فقط اور فقط وزن کی وجہ سے!

    ReplyDelete
  10. بحور و اوزان پر یہ مفید ربط ملا
    http://awzan.com/bu7oor/bu7oor1.html

    ReplyDelete
  11. شکریہ باسم صاحب ربط کیلیے، ویسے اردو میں ‘علم عروض‘ لکھ کر گوگل کرنے سے سب سے زیادہ روابط عربی ویب سائٹس یا فورمز کے ملتے ہیں جیسے کہ ایک آپ نے لکا، لیکن شاید اس علم کو کسی دوسری زبان میں سمجھنا جبکہ اس پر دسترس بھی نہ ہو، ناممکن سی بات ہے۔ ویسے میرے علم عروض پر میرے مطالعے میں اردو، انگریزی اور فارسی میں کتب کے ساتھ ساتھ ایک آدھ عربی کتاب بھی رہی ہے اور حقیقتاً مجھے ان سے بھی بہت مدد ملی اس کو سمجھنے میں۔

    ReplyDelete
  12. ایک شعر کی تقطیع ملاحظہ ہو
    یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتِح عالم
    یقی =21=مفا
    محکم=22=عی لن
    عمل=21=مفا
    پیہم=22=عی لن
    محبت=221=مفاعی
    فاتحے=212=لن، مفا
    عالم=22=عی لن
    جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
    جہادے=221=مفا عی
    زندگانی=2212=لن،مفا عی
    میں=2=لن
    ہیہ=21=مفا(ہیں=2 ہونا چاہیے تھا)
    مردوں=22=عی لن
    کی(کِ)=1=مَ
    شمشیریں=222=فا عی لن
    اس شعر میں “ہیں‘ کی وضاحت کیجیے گا۔
    اور آج پتا چلا اس شعر کو پڑھنے کا انداز کیا ہونا چاہیے
    ایک اور شعر
    خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
    خدی21/کو2/کر2/بلن21/ات2/نا2/کِ1 ہر2/تق2/دی2/ر1(یہاں کیا ہوا ہے)سے2/پہ2/لے2

    خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
    خدا21/بن2/دے2/سِ 1خُد2/پو2/چھے2/بتا21/تے2/ری2/رضا21/کیا(“کیا“)/ہے2
    اس شعر میں “کیا“ کو 2 آنا چاہیے مگر یہ 21 آرہا ہے
    یہ اشعار بھی اسی بحر کے لگتے ہیں اگر ہاں تو مزید سوال اگلی بار
    نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
    تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

    فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
    اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

    مٹادے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
    یہ دانہ خاک میں ملکر گلِ گلزار ہوتا ہے

    ReplyDelete
  13. باسم، آپ نے جتنے بھی اشعار لکھے وہ سبھی بحر ہزج (مثمن سالم) میں ہیں تو گویا آپ کو اس بحر کی پہچان ہوگئی، مبارک ہو۔
    “ہیں“ دراصل فا یا 2 ہی ہے لیکن اس کو 1 بوقتِ ضرورت بنایا جا سکتا ہے، یعنی نون غنہ تو ہے ہی نہیں، باقی رہا ‘ہے‘ تو اسکی ی گرا دی باقی ‘ہِ‘ رہ گیا اور اس کو 1 سمجھ لیا۔ انشاءاللہ اگلی پوسٹ ایسے ہی الفاظ پر لکھنے کا ارادہ ہے۔
    “کیا“ یعنی استفہامیہ میں ‘ی‘ کو ساقط سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ کھینچ کر نہیں پڑی جاتی سو یہ صرف ‘کا‘ یا ہجائے بلند یا 2 ہے۔ اسکے مقابلے میں ‘کیا‘ بمعنی کرنا میں ی کی آواز پوری ہے سو اسے کِ یا یا 1 2 سمجھیں گے۔
    خودی والے شعر میں آپ نے بلندکی دال کا کیا کیا ہے؟ اس میں دال نہیں گرے گی اور کوئی حرفِ صحیح گر بھی نہیں سکتا صرف حروفِ علت یا ہائے ہوز ہ کو گرایا جا سکتا ہے۔ دراصل یہاں الف کا وصال ہوا ہے اور وہ ساقط ہوا ہے اور یہ ‘بُ لن دت نا‘ ہے۔ الفِ وصل اور ساقط کرنے کے اصول انشاءاللہ کچھ بنیادی چیزوں کے بعد تفصیل سے لکھوں گا۔
    کسی قسم کی بھی وضاحت کے سلسلے میں ضرور لکھیئے گا۔

    ReplyDelete
  14. تقدیر سے پہلے
    میں ر کا کیا قصہ ہے؟
    اورکیا بڑی یے (ے)بھی گرتی ہے؟

    ٹائپو کی غلطی پرایک شعر
    اگر پہنچے خبر نوشہ کو وارث کے مظالم کی
    کہیں سورج کی بھی شامت جو ہر خواہش پہ “دن“ نکلے

    ReplyDelete
  15. ‘ر‘ کا کوئی قصہ نہیں ہے، تقدیر یعنی تق دی ر، یعنی 2 2 1 اور بحر کے عین مطابق
    خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
    خ دی کو کر - مفاعیلن - 2221
    بُ لن دت نا - مفاعیلن - 2221
    کہ ہر تق دی - مفاعیلن - 2221
    ر سے پہلے - مفاعیلن - 2221

    اور شکریہ ٹائپو کی منظوم نشاندہی کیلیے، گویا اب ہمیں ہی میاؤں، واہ میاں :)
    نوازش آپ کی، اور خوشی ہے کہ ایک کم از کم ایک بحر آپ کے کنٹرول میں آ گئی اور آپ اس میں شعر کہہ سکتے ہیں۔

    ReplyDelete
  16. ہمیں امید تھی کہ اس معاملے میں ‘مانو بی‘ کو زحمت دی جائے گی
    اب اس پر بھی شعر ملاحظہ ہو
    اگر ہوتا جو وارث تویہ کہہ دیتا جواباً میں
    ارے بلی ہماری ہے ہمیں ہی میاؤں کرتی ہے
    اس میں میاؤں درست بیٹھا ہے؟
    پچھلے پیغام میں ے کے متعلق بھی سوال تھا
    جواب عنایت فرمادیں ۔

    ReplyDelete
  17. بڑی ‘ے‘ بلا تکلف گرائی جاتی ہے، جیسے ‘میرے، تیرے، کے، سے، کیسے، جیسے‘ کی بڑی ے۔
    میاؤں، تھوڑا سا غلط ہو گیا، میرا مطلب ہے میاؤں نہیں بلکہ اسکا وزن :) یہ دراصل ‘ماؤ‘ ہے فقط یعنی ایک ہجائے بلند اور ایک ‘فلیکسیبل‘ یا خصوصی ہجا جسے چاہے بلند سمجھیں یا کوتاہ یعنی یہ 22 ہے یا 12۔ منطق یہ ہے کہ میاؤں میں بھی جو ‘ی‘ ہے وہ دب کر نکلتی ہے بالکل ‘کیا‘ استفہامیہ یا ‘پیاس‘ یا ‘پیار‘ کی ی کی طرح۔ یاد رکھنے کی بات یہ کہ یہ والی ‘ی‘ گرائی نہیں جاتی بلکہ اسکا وزن ہی نہیں ہوتا یعنی یہ شاعر کی صوابدید نہیں ہے کہ ی رکھے یا نہ، بلکہ اصول ہے کہ اسکا وزن نہیں ہے، اسکے مقابل ‘ؤ‘ شاعر کی صوابدید ہے کہ اسے ہجائے بلند سمجھے یا کوتاہ اسکی مرضی ہے۔

    ReplyDelete
  18. السلام علیکم !
    محترمی جناب محمد وارث صاحب !
    امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے اور الحمد للہ ہم بھی خیریت سے ہیں
    عزیزم ! آپ کا اردو زبان میں یہ ذاتی بلاگ دیکھ انتہائی مسرت ہوئی ہے
    اور یہ کہ آپ نے جو علم و عروض کے اسرارورموز شاعری کے دلدادہ حضرات
    تک بہم پنچائے ہیں بلا شبہ یہ ایک نہ صرف کار عظیم ہے بلکہ اس قسم کی
    تحاریر کافی وقت لے لیتی ہیں بہر کیف آپ کی اس انمول کاوش سے بندہ ناچیر
    جوکہ ایک سینئر صحافی اور اردو ادب کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے کو کافی
    علمی استفادہ ہوا آپکی اس تحریر سے بندہ نے بہت کچھ سیکھ لیا ہے ایک گزارش
    ہے کہ براہ کرم اس سلسلہ کو توڑیں مت اور تواتر سے جاری رکھیں علاوہ ازیں
    آپکی اس کاوش عظیم کی تعریف کرنے کیلئےبندہ ناچیز کے پاس الفاظ نہیں جس سے
    اس تحریر کی مدح بیان کی جائے۔۔۔ بہر کیف بہت ہی اچھا ہے جاری رکھیں۔۔
    آپ سے انشاء اللہ گاہے گاہے برقی رابطہ رہے گا اور بس دعا کیا کریں۔۔۔
    آپ کا خیر اندیش۔۔۔۔
    نعمان نیر کلاچوی (سینئر ایڈیٹر : روزنامہ درپن لاہور اینڈ ڈیرہ اسماعیل خان )

    ReplyDelete
  19. استاذ محترم! میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جب "میاؤں" میں "ما" 2 اور "ؤ" شاعرانہ صوابدید کے مطابق 1 ہے تو مصرع بے وزن کیسے ہے۔
    میاؤں= 12
    ارے بلی =2221
    ہماری ہے =2221
    ہمیں ہی ما =2221
    ؤ کرتی ہے =2221

    ReplyDelete
  20. نعمان نیر کلاچوی صاحب، خاکسار کے بلاگ پر خوش آمدید اور بہت شکریہ آپ کا اظہارِ پسندیدگی کیلیے، انشاءاللہ مقدور بھر اس موضوع پر لکھتا رہونگا۔
    باسم، سمجھنے سے تو میں بھی قاصر ہوں کہ کیسے لکھ دیا کہ ‘میاؤں‘ وزن میں نہیں آ رہا شاید اسکی وضاحت لکھنے میں کچھ زیادہ ہی مشغول ہو گیا تھا :)

    ReplyDelete
  21. ہی ہی ہی
    یعنی کہ علم کے دریا بہہ رہے ہیں اس بلاگ پر تو
    مجھے تو لگتا ہے کہ میں بلاگ چھوڑ کر شاعر بن سکتا ہوں
    =))

    ReplyDelete
  22. میرے پچھلے تبصرے کو بالکل بالکل تعریف کے زمرے میں لیا جانا چاہئے

    ReplyDelete
  23. سر جی یہ تو بتائیں کہ خواہش یا خواب کے ہجے پڑھنے کے لئے کس طرح کریں گے؟
    و معدولہ تو پڑھ لیں گے لیکن خ کو الف سے کس طرح ملائیں گے؟

    ReplyDelete
  24. بھائی، چونکہ واؤ معدولہ بولنے میں نہیں آتی تو میرے خیال میں ہم اسے ‘خ واؤ الف خا، ہ زیر ش ہش، خاہش تلفظ کریں گے اسی طرح خ واؤ الف خا، بے ساکن خاب کا تلفظ۔

    ReplyDelete
  25. بہت شکریہ جناب
    دراصل امی کی اور میری گرما گرم بحث ہو رہی تھی آپ کے سبقوں سے متعلق
    اور یہاں آکر ہم دونوں پھنس گئے تھے
    =))

    ReplyDelete
  26. خوشی ہوئی محترم یہ جان کر، ماشاءاللہ۔

    ReplyDelete
  27. جناب آپ نے کمال کر دیا۔ عروض کے خفیہ خزانے کھول کے رکھ دیئے۔ آپکے سمجھانے کا انداز بڑا پر اثر اور سہل ہے۔
    ایک سوال، آ کا وزن ایک ہو گا یا دو؟
    http://khizan.wordpress.com

    ReplyDelete
  28. خوش آمدید نعیم صاحب۔ 'آ' میں دراصل دو الف گنے جاتے ہیں یعنی یہ ایک سببِ خفیف ہے یعنی 'فع' یا 2۔

    ReplyDelete
  29. بہت ہی کارآمد لکھا ہے آپ نے اپنا علم جھاڑنے کی بجائے سکھانے والی بات کی ہے۔ امید ہے آپ مزید لکھیں گے

    ReplyDelete
  30. بہت شکریہ غلام عباس صاحب، نوازش آپ کی۔

    ReplyDelete
  31. Replies
    1. بہت عمدہ کہا تم نے کہ دل سے کہہ رہے ہیں ہم
      کبھی ہم سے نہ لکھنے کا نہ کہناتم بڑے بھیّا

      اصلاح کی ضرورت ہے،
      حرف مشدد کے ہجے کیسے کرینگے اور ئ اور ؤ جیسے ھروف کی ہجا کیسے ہوگی

      آپنے مجھ جیسے جاہل کو کافی کچھ سکھا دیا سو جزاک اللہ

      Delete
    2. جی یہ شعر مفاعیلن چار بار پر موزوں ہوتا ہے، تقطیع کچھ یوں ہے۔

      بُ ہت عم دہ - مفاعیلن
      کَ ہا تم نے - مفاعیلن
      کِ دل سے کہہ - مفاعیلن
      رہے ہے ہم - مفاعیلن

      کَ بی ہم سے - مفاعیلن
      نَ لک نے کا - مفاعیلن
      نَ کہنا تم - مفاعیلن
      بڑے بی یا - مفاعیلن

      مشدد حرف دو بار لکھا جاتا ہے۔ ئ اور ؤ کو چاہے ہجائے کوتاہ سمجھیں چاہے ہجایے بلند، مثلاً

      لگاؤ

      آخری ؤ کی وجہ سے چاہے اسے فعول سمجھیں چاہے فعولن۔

      Delete
  32. عجب غم کھا رہا ہم کو کہ آکر تم نہ بولے کچھ
    کبھی ایسا بھی کرتے ہیں دکھوں کو بانٹ دیتے ہیں

    اصلاح کا امیدوار ہوں استاذ جی، اپنے ایک دوست کے انتقال پہ یہ شعر کہا

    دوست، فوت اور گشت جیسے حروف میں جو دو ساکن حروف ہیں ان دونوں کے الگ الگ ہجائے کوتاہ ہوں گے؟

    ReplyDelete
    Replies
    1. دوست میں تو ٣ ساکن حروف آرہے ہیں، کیا یہاں واو کا ہجا ہوگا کہ اس کی آواز دب کر نکلتی ہے

      Delete
    2. جی شعر تو آپ کا وزن میں ہے۔

      فوت اور گشت دونوں کا وزن فاع ہے لیکن جہاں پر تین ساکن اکھٹے آ جائیں جیسے دوست میں واؤ، سین اور تے، تینوں ساکن ہیں اسی طرح گوشت، پوست وغیرہ تو اس کا اصول یہ ہے کہ آخری یعنی تیسرا ساکن کالعدم ہو جاتا ہے یعنی گنا ہی نہیں جاتا اور باقی جو رہتا ہے اس کا وزن فاع بنتا ہے یعنی

      دوست، گوشت، پوست سب کا وزن فاع ہے۔

      Delete
  33. بحر ہزج یہ ہزج کا تلفظ کیا ہے اور اس کا مطلب کیا ہے

    ReplyDelete
    Replies
    1. جی ہَزَج یعنی چمن کے وزن پر ہے، اس کا مطلب کیا ہے یہ تو کسی عروض کی کتاب میں دیکھنا پڑے گا۔

      Delete
  34. جزاک اللہ
    اللہ نے آپ جیسا استاد بلا مانگے دے دیا، اسکو بڑا احسان ہے

    ReplyDelete
  35. بہت عمدہ, اگرچہ یہ کافی پرانی پوسٹ ہے, لیکن آج کچھ تلاش کرتے ہوئے آپ کے اس بلاگ سےآشنائی ہوئی. میں علم عروض پر کچھ کتب پڑھ چکا ہوں, اور وہ اپنی جگہ بہت اچھی کتابیں ہیں, لیکن جتنا سھل کر کے آپ نے سمجھایا ہے اس کا جواب نہیں, میری رائے میں آپ کو علم عروض پر اسی طرز پر ایک آسان سی کتاب ضرور مرتب کرنی چاہیے, آپ کے اندر مشکل بات کو آسان لفظوں میں بیان کرنے کی بھرپور صلاحیت ہے.

    ReplyDelete
    Replies
    1. آپ کی تشریف آوری اور تبصرے کے لیے شکریہ محترم۔ علم عروض پر ایک آسان سی کتاب لکھنے کا خواب میں بھی کئی سالوں سے دیکھ رہا ہوں، شاید کبھی حقیقت بن ہی جائے۔ والسلام

      Delete