Jun 12, 2009

بحرِ مُتَقارِب - ایک تعارف

اردو محفل پر ایک سوال پوچھا گیا تھا کہ علامہ اقبال کے درج ذیل خوبصورت شعر کی بحر کیا ہے اور اسکی تقطیع کیسے ہوگی، اسکے جواب میں خاکسار نے بحرِ مُتقَارِب کا مختصر تعارف لکھا تھا، اس کو قطع و برید اور ترمیم کے ساتھ یہاں لکھ رہا ہوں۔

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

یہ شعر بحر مُتَقارِب مثمن سالم میں ہے۔ مثمن کا مطلب آٹھ یعنی اس بحر کے ایک شعر میں آٹھ رکن اور ایک مصرعے میں چار۔ سالم کا مطلب ہے کہ اس بحر میں جو رکن ہے وہ مکمل ہے اور کہیں بھی اس میں تبدیلی نہیں کی گئی۔ اسے متقارب کیوں کہتے ہیں اسکی تفصیل چھوڑتا ہوں۔
یہ بحر ایک مفرد بحر ہے، مفرد کا مطلب ہے کہ اس بحر میں اصل میں ایک ہی رکن ہے اور اسکی بار بار تکرار ہے، یہ مثمن ہے تو مطلب ہوا کہ اس بحر کے ایک شعر میں ایک ہی رکن کی آٹھ بار تکرار ہے۔ مفرد کے مقابلے میں مرکب بحریں ہوتی ہیں جن میں ایک سے زائد ارکان ہوتے ہیں۔

اس بحر کا رکن ہے 'فَعُولُن' یعنی فَ عُو لُن یعنی 1 2 2 ہے اور اس بحر میں اسی ایک رکن کی بار بار تکرار ہونی ہے۔ اسکے مقابلے میں آپ بحرِ متدارک دیکھ چکے ہیں کہ اسکا رکن 'فاعلن' ہے، کیا آپ فعولن اور فاعلن میں کوئی مماثلت دیکھ سکتے ہیں۔

فعولن یا 1 2 2

اب اگر پہلے ہجائے کوتاہ کو اٹھا کر پہلے ہجائے بلند کے بعد رکھ دیں یعنی 2 1 2 تو یہ وزن فاعلن ہے، متقارب اور متدارک میں بس اتنا ہی فرق ہے، ان دونوں میں یہ مماثلت اس وجہ سے ہے کہ دونوں بحریں ایک ہی دائرے سے نکلی ہیں، تفصیل کسی اچھے وقت کیلیے اٹھا رکھتا ہوں۔

بحرِ متقارب کا وزن ہے

فعولن فعولن فعولن فعولن

(یہ بات نوٹ کریں کہ جب بحر کا نام لکھتے ہیں تو ایک مکمل شعر میں جتنے رکن ہوتے ہیں انکی تعداد بتائی جاتی ہے لیکن جب وزن لکھتے ہیں تو صرف ایک مصرعے کا لکھتے ہیں، یہ مثمن بحر ہے یعنی آٹھ رکن ایک شعر میں ہیں لیکن جب وزن لکھا تو صرف ایک مصرعے کا کیونکہ دوسرا مصرع ہو بہو پہلے کا عکس ہوتا ہے۔)

اب اس شعر کی تقطیع دیکھتے ہیں

سِ تا رو - 1 2 2 - فعولن (یاد رکھنے کی ایک بات کہ نون غنہ کا وزن نہیں ہوتا سو اسے تقطیع میں بھی شمار نہیں کرتے، اس لیئے ستاروں کا نون غنہ تقطیع میں نہیں آرہا اور نہ ہی اسکا کوئی وزن ہے)

سِ آ گے - فعولن 1 2 2 (یاد رکھنے کی دوسری بات، حرف علت الف، واؤ یا یے کو ضرورت شعری کے وقت وزن پورا کرنے کیلیئے لفظ سے گرا کر اور اسے اضافت یعنی زیر، زبر، پیش سے بدل کر اسکا وزن ختم کر سکتے ہیں کیونکہ اضافتوں کا بھی کوئی وزن نہیں ہوتا۔ وجہ یہ ہے کہ بولنے میں کوئی فرق نہیں پڑتا اور فائدہ یہ کہ وزن پورا ہو جاتا ہے، یہاں 'سے' کو 'سِ' یعنی س کے نیچے زیر لگا کر سمجھا جائے گا تا کہ وزن پورا ہو اور اسی کو اخفا کہتے ہیں جسے اس بلاگ کے قاری بخوبی جانتے ہیں۔

جَ ہا او - فعولن 1 2 2 (جہاں کا نون غنہ پھر محسوب نہیں ہو رہا کہ اس کا کوئی وزن نہیں)۔)

ر بی ہے - فعولن 1 2 2 (یاد رکھنے کی اگلی بات کہ دو چشمی ھ کا بھی شعر میں کوئی وزن نہیں ہوتا اس لیئے بھی کو بی سمجھتے ہیں)

اَ بی عش - 1 2 2 - فعولن
ق کے ام - 1 2 2 - فعولن
ت حا او - 1 2 2 - فعولن
ر بی ہے - 1 2 2 - فعولن

بلاگ کے قارئین کیلیے ایک اور شعر کی تقطیع

تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں
یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں

ت ہی زن - 1 2 2 - فعولن
د گی سے - 1 2 2 - فعولن
ن ہی یہ - 1 2 2 - فعولن
ف ضا ئے - 1 2 2 - فعولن
ی ہا سے - 1 2 2 - فعولن
ک ڑو کا - 1 2 2 - فعولن (سینکڑوں میں جو نون ہے اس کو مخلوط نون کہا جاتا ہے یعنی وہ نون جو ہندی الفاظ میں آتا ہے اور اسکا وزن نہیں ہوتا)۔
ر وا او - 1 2 2 - فعولن
ر بی ہے - 1 2 2 - فعولن

متقارب بہت خوبصورت بحر ہے اور اردو شاعری میں کافی استعمال ہوتی ہے، اسی بحر میں علامہ کی ایک اور خوبصورت غزل ہے۔

ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

اور ایک اور خوبصورت غزل

نہ آتے، ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی

اور غالب کی انتہائی خوبصورت غزل

جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں ارَم دیکھتے ہیں

بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشۂ اہلِ کرم دیکھتے ہیں

اور مرزا رفیع سودا کی یہ خوبصورت غزل دراصل سودا کی اسی زمین میں غالب نے اوپر والی غزل کہی ہے۔

غرَض کفر سے کچھ نہ دیں سے ہے مطلب
تماشائے دیر و حرَم دیکھتے ہیں

اور خواجہ حیدر علی آتش کی یہ خوبصورت غزل

زمینِ چمن گُل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

نہ گورِ سکندر، نہ ہے قبرِ دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے

اور اب اگر اس بحر میں کہے ہوئے مزید کلام کی تلاش ہے تو خواجہ الطاف حسین حالی کی 'مدّ و جزرِ اسلام' المعروف بہ 'مسدسِ حالی' کے سینکڑوں اشعار دیکھ لیں۔

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا

مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا

فقیروں کا ملجا، ضعیفوں کا ماویٰ
یتمیوں کا والی، غلاموں کا مولیٰ

کسی وضاحت کی صورت میں ضرور لکھیئے گا۔

----

متعلقہ تحاریر : بحر متقارب, بحر متقارب مثمن سالم, تقطیع, علم عروض

26 comments:

  1. السلام علیکم
    جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے یہ سوال ایم اے راجا صاحب نے کیا تھا ۔ اور محفل پر میں نے اور راجا بھائی نے آپ کو بہت تنگ کیا تھا اس بحر کے بارے میں ہیں نا ۔ بہت اچھا مضمون ہے اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے آمین

    ReplyDelete
    Replies
    1. اس کی بحر کیا ہوگی
      طلب جو میں نے کیا انسے پیار ٹھوڑا سا

      Delete
    2. بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع
      افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
      آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فَعِلان بھی آ سکتے ہیں۔
      طلب جُ مے - مفاعلن
      نِ کیا اُن - فعلاتن
      سِ پار تھو - مفاعلن
      ڑا سا - فعلن

      Delete
  2. سب اوپر سے گزر گیا :(

    ReplyDelete
  3. محترمی و مکرمی جناب محمد وارث صاحب سلمہ
    السلام علیکم کے بعد از خیریت کے عرض ہے کہ یہ جو علماء عروض کے نزدیک
    تیسرا دائرہ مجتلبہ ہے جس کے تین ارکان ہیں اور نو اجزاء ہیں اور جو مسدس ہے
    تین بحریں ہزج 1 رجز 2 رمل 3
    جبکہ تین ارکان میں سے مفاعیلن 1 مستفعلن 2 فاعلاتن 3 ہیں
    جبکہ اسکے نو اجزاء ہیں ؟ براہ کرم اسکے نو اجزاء کے متعلق احقر کو ذرا تفصیل سے
    آگاہ کر دیں کیونکہ ان نو اجزاء کی سمجھ کم علم کے ذہن سے بالا تر ہے تاکہ احقر آپکے وسیع ترین علم سے استفادہ کرسے ۔۔۔۔

    نعمان نیر کلاچوی سینیئر ایڈیٹر روزنامہ درپن لاہور اینڈ ڈیرہ اسمٰعیل خان

    ReplyDelete
  4. نوازش آپ سب کی۔
    خرم، صحیح کہا۔
    جعفر، آپ کا بھی شکریہ اس ‘شکریے‘ کیلیے۔
    فیصل صاحب، مجھے افسوس ہے کہ میرے وضاحتوں میں کافی کمی رہ گئی۔
    کلاچوی صاحب، آپ کے سوال کا جواب آپ کے سوال میں ہی پوشیدہ ہے، دراصل رکن کو جز بھی کہتے ہیں اور یہ کہ عربی زبان کی ایک بہت بڑی خصوصیت ایجاز و اختصار ہے اسلیے وہ دائروں سے مسدس بحروں کا انفکاک کرتے تھے جب کہ فارسی، اردو والے مثمن بحروں کا،اصل عربی دائرے میں چونکہ تین ارکان اور مسدس بحر کا مطلب ہر مصرعے میں تین رکن تو گویا یہ نو اجزا ہو گئے، فارسی، اردو عروض میں یہاں یہی تین رکن اور بارہ اجزا ہوتے ہیں کہ مثمن بحریں ہیں۔

    ReplyDelete
  5. محترمی و مکرمی جناب محمد وارث صاحب
    السلام علیکم ! کے بعد از خیریت کے عرض ہے کہ قبلہ ایک شعر لکھ رہا ہوں
    براہ کرم اسکی بحر اور تقطیع بمع مکمل تفصیل و توضیح کے مرحمت فرما دیں
    تاکہ احقر کے ناقص ذہن میں پائی جانے والی الجھن دور ہو جائے۔۔۔۔۔۔
    یادش بخیر گوشہ ء زنداں پہ فخر ہے
    ان کے طفیل دیدہ ء گریاں پہ فخر ہے

    نعمان نیر کلاچوی سینیئر ایڈیٹر روزنامہ درپن لاہور اینڈ ڈیرہ اسمٰعیل خان

    ReplyDelete
  6. کلاچوی صاحب اس شعر کی بحر، 'بحرِ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف' ہے اور اسکے افاعیل 'مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن' ہیں۔

    شعر کی تقطیع کچھ یوں ہے
    یادش بَ - مفعول
    خیر گوشَ - فاعلات
    ء زندا پہ - مفاعیل
    فخر ہے - فاعلن

    ان کے طُ - مفعول
    فیل دیدَ - فاعلات
    ء گر یا پہ - مفاعیل
    فخر ہے - فاعلن
    فخر عین کے سکون کے ساتھ یعنی فَخَر نہیں ہے بلکہ فخر ہے۔
    اگر آپ اس بحر میں کہی کچھ غزلیات اور انکی تقطیع افاعیل کی علامتیں اور کچھ مزید وضاحت دیکھنا چاہتے ہیں تو اس بلاگ کی سائیڈ بار میں 'موضوعات اور ٹیگز' کے ضمن 'بحر مضارع' کا ربط دیکھیئے، کچھ خوبصورت غزلیات آپ کو مشق کیلیے ملیں گے۔
    والسلام
    خاکسار

    ReplyDelete
  7. بحر کے شروع میں ایک "بچوں والے" ;;) شعر کی مدد سے ارکان کو سمجھا دیا جائے تو زیادہ مفید رہے گا جیسے "علم عروض اور ہجے" والی پوسٹ میں ہوا تھا۔
    اب بحر متقارب میں کچھ اشعار کی تقطیع
    کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہلِ محفل
    چراغِ سحر ہوں، بجھا چاہتا ہوں
    کُ ئی دم - 1 2 2 - فعولن ۔ (واؤ حذف ہے مگر یہ شاعر کی صوابدید ہے یا مجبوری؟)
    کَ مہما - 1 2 2 - فعولن ۔ (کا میں اخفاء ہوا ہے)
    ہُ اے اہ - 1 2 2 - فعولن ۔ (ہو میں اخفاء ہوا ہے)
    لِ محفل - 1 2 2 - فعولن
    چراغے - 1 2 2 - فعولن ۔ (غِ میں اشباع ہوا ہے)
    سحر ہو - 1 2 2 - فعولن
    بجا چا - 1 2 2 - فعولن
    ہتا ہو - 1 2 2 - فعولن

    یہ پوچھا ترا نام کیا، کام کیا ہے
    نہیں آنکھ کو دید تیری گوارا
    یِ پو چا - 1 2 2 - فعولن
    ترا نا - 1 2 2 - فعولن
    م کا کا - 1 2 2 - فعولن ۔ (کیا جیسی ی کا وزن نہیں ہوتا)
    م کا ہے - 1 2 2 - فعولن
    نہی آ - 1 2 2 - فعولن
    ک کو دی - 1 2 2 - فعولن ۔ (آنکھ میں نون مخلوط اور کھ میں ھ کا وزن نہیں ہوگا)
    د تیری - 1 2 2 - فعولن
    گوارا - 1 2 2 - فعولن

    عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے
    نگاہِ مسلماں کو تلوار کر دے
    عزائم - 1 2 2 - فعولن
    کُ سینو - 1 2 2 - فعولن
    مِ بیدا - 1 2 2 - فعولن
    رکردے - 1 2 2 - فعولن
    نگاہے - 1 2 2 - فعولن ۔ (ہ میں اشباع ہوا ہے)
    مسلما - 1 2 2 - فعولن
    کُ تلوا - 1 2 2 - فعولن
    رکردے - 1 2 2 - فعولن

    ReplyDelete
  8. محترمی و مکرمی جناب محمد وارث صاحب سلمہ
    السلام علیکم ! کے بعد از خیریت کے عرض خدمت ہے کہ قبلہ اپنا ایک تازہ ترین
    شعر لکھ رہا ہوں براہ کرم اس کا بغور جائزہ لے لیں اگر موزوں معلوم ہو رہا ہے تو
    پھر اس سے غزل کی جسارت کروں گا؟
    اک شام میرے نام وہ کرکے چلا گیا
    گاہکوں کی طرح قرض چکانے وہ آیا تھا

    نعمان نیر کلاچوی سینیئر ایڈیٹر روزنامہ درپن لاہور اینڈ ڈیرہ اسمٰعیل خان

    ReplyDelete
  9. ایک اور بحر کی پہچان مبارک ہو باسم آپ کو۔ ‘کوئی‘ کے دونوں ہجے فیلکسیبل یا ‘لچکیلے‘ ہیں یعنی ان دونوں، کو اور ئی کو چاہے کوتاہ سمجھو یا بلند، شاعر کی حکومت ہے! ‘کیا‘ استفہامیہ میں یائے مخلوط ہے جیسے پیاس میں، یا جیسے کہ آپ نے لکھا آنکھ میں نون مخلوط، اور ان سب کا کوئی وزن نہیں ہوتا۔ اور آئندہ ‘شعر ‘ لکھنے کی بھی کوشش کرونگا!
    ایک استدعا آپ سے یہ کہ اگر شعر لکھتے ہوئے کسی شعر کے خالق کا نام اگر آپ کے ذہن میں تو ضرور لکھا کریں، ایک تو مجھے بھی معلوم ہو جائے گا دوسرا ‘حق بحقدار رسید‘ والا نیک معاملہ ہو جائے گا :)

    ReplyDelete
  10. کلاچوی صاحب، اس شعر میں گاہکوں غلط بندھا ہے، گاہک سے کام چلتا ہے، لیکن شاید ایک گاہک سے نہ بھی چلتا ہو :) مصرع اولیٰ کے حسن کو آپ نے سرِ بازار لا کر بٹھا دیا تو شعر کا سارا چلن کاروباری ہو گیا۔ امید ہے کہ غزل ضرور مکمل کریں گے!

    ReplyDelete
  11. محترمی و مکرمی جناب محمد وارث صاحب حفظہ اللہ تعالی
    السلام علیکم ! کے بعد از خیریت کے عرض ہے کہ
    اللہ اکبر ، کیا کہنے جناب والا
    محترم ! یقین جانئے کہ ہماراسخنی قبلہ تو آپ ہی درست کررہے ہیں
    البتہ صحافت نے ہمیں بھی اس مصرع کی طرح سر بازار لا کر بٹھا دیا ہے
    اخبار کی غو بغو نے شاید ادب سے کچھ بے بہرہ کر دیا ہے
    خیر کوئی فکر نہیں وہ اس لئے کہ آپ جیسے شفیق دوست ہمراہ ہوں تو
    رخت سفر کی نیستی کا بھی کوئی خوف نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
    کوشش کروں گا کہ مصرع اولی کے حسن کو برقرار رکھ سکوں ہاں اگر آپ کے ذہن
    میں گاہکوں کی جگہ کوئی اور موزوں لفظ موجود ہو تو ضرور فرمائیے گا۔۔۔۔۔
    قبلہ ایک اہم بات کی وضاحت اگر برا ہ کرم کر دیں تو احقر پر عنایت ہوگی
    ماہرین عروض کیا اس چیز کی اجازت دیتے ہیں کہ ہم کسی حرف کو با وجود ساکن
    ہونے کے اسے مشدد بنا دیں مثال کے طور پر لفظ سہیلی ہے جس کا درست تلفظ
    س ہے لی ہے مگر کیا ہم اسے اپنی ضرورت پوری کرنے کیلئے ہائے ہوزہ کو مشدد
    بنا سکتے ہیں مثال کے طور پر س ہے لی کو ہم سہ ہے لی باندھ دیں تو کیا ایسا کرنا جائز قرار دیا گیا ہے یا نہیں؟ قبلہ اسکی ذرا مفصل توضیح فرما دیں؟

    نعمان نیر کلاچوی سینیئر ایڈیٹر روزنامہ درپن لاہور اینڈ ڈیرہ اسمٰعیل خان

    ReplyDelete
  12. کلاچوی، اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ خود سے الفاظ کا تلفظ تبدیل کیا جائے، لیکن اہم بات یہ ہے کہ اردو میں کئی ایسے الفاظ مستعمل ہیں جن کا تلفظ دو طرح سے کیا جاتا ہے سو ان کو کسی طرح بھی شعر میں باندھا جا سکتا ہے، ایک لفظ آپ نے لکھا، کچھ یہ ہیں۔
    اٹھا بروزن فَعِل
    اٹھّا بروزن فعلن
    اُمید بروزن فعول
    اُمّید بروزن مفعول
    بچہ بروزن فَعِل
    بچّہ بروزن فعلن
    پچیس بروزن فعول
    پچّیس بروزن مفعول
    پکا بروزن فَعِل
    پکّا بروزن فعلن
    تنور بروزن فعول
    تنّور بروزن مفعول
    وغیرہ وغیرہ

    ReplyDelete
  13. سلام علیکم
    وارث صاحب
    آج ہی میں نے آپ کی بلاگ کا یہ حصہ دیکھا ہے، علم عروض کو آپ کے بیان نے تو چارچاند لگادیے۔ کاش آپ جیسا استاد پہلے ملا ہوتا، تو میرے نمبر بہتر آتے۔ :)
    بہت شکریہ جناب، جزاک اللہ

    ReplyDelete
  14. اس بلاگ میں واقعی بہت مزہ آیا، شاعری کی روح شاید اسی کو کہتے ہیں۔ ایک سوال عرض ہے "کیا ہر کوئی اپنی شاعری دست دارازیاں بغرض تصحیح بھیج سکتاہے؟ اگر "ہاں" تو کس پتے پر؟ جزاکم اللہ خیرا

    ReplyDelete
  15. بہت شکریہ عطا رفیع صاحب، آپ مجھ سے اس ایڈریس پر رابطہ کر سکتے ہیں، ویسے اصلاح کیلیے بہتر ہے آپ اردو محفل فورم میں شمولیت حاصل کر لیں تا کہ دیگر احباب بھی آپ کے کلام پر رائے دے سکیں۔

    waris9[at]yahoo[dot]com

    ReplyDelete
  16. وارث بھائی بعد سلام ........ عرض ہے کہ آپ ضرورکسی بھی شعر کی بحر معلوم کرنے کا کلیہ اور طریقہ لکھیں تاکہ مبتدیوں کو کوئی کلام پڑھ کر سمجھنے میں آسانی ہو جائے. --------------- جیلانی----------------

    ReplyDelete
  17. وارث صاحب عروض کے حوالے سے آپ کے تمام مضامین کا بغور مطالعہ کر چکا ہوں۔ مگر میرے خیال میں جب تک بحر کی پہچان نہ ہو تقطیع یا عروض کا علم سیکھنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے۔ میں خود آپ کو اپنی مثال دیتا چلوں۔ کے شعر پڑھتے وقت میری توجہ زیادہ تر مضمون کی طرح رہتی ہے اس لیے ہر شعر مجھے ایک جیسا ہی معلوم ہوتا ہے۔ مگر یہ مسئلہ ترنم سے شعر کو پڑھنے سے حل کیا جاسکتا ہے۔ اور بحروں کی پہچان ممکن ہو جاتی ہے۔ اس لیے آپ سے گزارش ہے کے اس حوالے سے بھی کوئی مضمون تحریر فرمایئے ۔ تاکہ نئے سیکھنے والوں کو اس سے مدد مل سکے۔

    ReplyDelete
  18. وہاب صاحب، میرے خیال میں یہ اتنا آسان کام نہیں ہے کیونکہ بحر کی پہچان تبھی ہو سکتی ہے جب تقطیع پر عبور حاصل ہو جائے اور یہ علم ہو جائے کہ کونسی بحر میں کونسے ارکان ہیں۔ بحریں سینکڑوں کی تعداد میں ہیں، لیکن ایک سروے کے مطابق اب تک کی تمام اردو شاعری کا پچانوے فیصد حصہ صرف 37 بحروں میں ہے اور دیوانِ غالب میں تقریباً 19 بحریں استعمال ہوئی ہیں سو کم از کم 37 بحروں کی پہچان تو لازمی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان 37 بحروں میں زیادہ تر بحریں بحر رمل، اور بحر ہزج گروپ کی ہیں، ان دونوں بحروں کی کم از کم چھ چھ سات سات قسمیں بہت استعمال ہوتی ہیں اور پھر مضارع ہے۔

    ایک اور بات یہ ہے کہ آج کل کی زیادہ تر شاعری کل ملا کے پانچ سات بحروں میں ہے صرف۔ مزید یہ کہ آج کل کے 75 فیصد یا اس سے بھی زیادہ شاعروں کو بحروں کے نام کا علم نہیں ہوگا لیکن ان کو ارکان کی پہچان ہوتی ہے اور یہ علم ہوتا ہے کہ وہ کس ترتیب سے آتے ہیں سو وہ باوزن شاعری کرتے ہیں۔

    تقطیع اور اسکے بعد کسی بھی بحر کے ارکان کی پہچان، صرف اس پر عبور حاصل کرنے کے بعد ہی بحروں کی پہچان ہو سکتی ہے، بہرحال میں دیکھتا ہوں کہ اگر کسی "شارٹ کٹ" قسم کا مضمون اگر لکھ سکوں تو۔

    ReplyDelete
  19. محترم مجھے آپ سے پورا اتفاق ہے۔ مگر جب ایک دفعہ بحر کی پہچان ہو جاتی ہے۔ تو سیکھنے کا عمل کافی آسان ہو جاتا ہے۔ میں تو خود بحر کو ترنم سے پہچانتا ہوں۔ کچھ بحریں ایسی ہیں جو کہ ایک ہی لے میں گائی جاسکتی ہیں۔ مگر اس کا حل پھر تقطیع میں نکل آتا ہے۔ میں ایک چھوٹی سی مثال دینا چاہوں گا۔ بحر رمل مثمن مقصور کو میں کچھ اس طرح سے پہچانتا ہوں۔ کہ نقش فریادی ہے کس کی شوخیء تحریر کا کو اگر لتا جی کے گائے ہوئے گیت کی طزز آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے گایا جائے تو فورا بحر کی پہچان ہو جاتی ہے۔ اس طرح اس بحر کی ہر غزل اور شعر کو اس طرز میں گایاجاسکتا ہے۔ اس طرح ہر بحر کے لیے میں کسی مشہور طرز کو بنیاد بنایا ہے۔
    میری ان باتوں کا مطلب ہرگز ہرگز یہ نہیں کہ اس طرح سے بندہ تقطیع سیکھ جاتا ہے۔ مگر سیکھنے میں آسانی ضرور پیدا ہو جاتی ہے۔

    ReplyDelete
  20. اسلام علیکم۔۔۔۔
    میرا نام شرافت علی ہے ۔۔
    اپ سے درخواست ہے کہ مجھے بحر کو نام دینے کے
    متعلق تفصیل سے سمجھایا جائے تو بہت مہربانی ہوگی۔۔۔
    جیسے۔۔۔۔ بحر : ہزج مسدس اخرب مقبوض محذوف
    مفعول مفاعلن فعولن ۔۔۔۔۔
    کو یہ نام کس طرح دیا گیا ہے اور کونسی بنیاد پر دیا گیا ہے ۔۔۔۔
    اور اگر میں کچھ ایسے ارکان کو ملاوں جس کی بحر کے نام کے بارے میں مجھ کو پتہ نہ ہو تو کیسے اس کو نام دے سکتا ہوں۔۔۔
    مہرابانی کر کے اپ میری اس الجھن میں مدد کرے اور تفصیل سے بیان کریں کیونکہ کہ میں نے اب علم عروض سیکھنے کا ارادہ کیا ہے ۔امید ہے اپ میری مدد کرینگے۔۔۔
    شکریہ
    وسلام۔۔۔۔

    ReplyDelete
    Replies

    1. بحروں کے نام صرف نظری یا مطالعاتی جہت کے لیے اہم ہیں وگرنہ عملی طور پر کسی منظومے پر نام سے کچھ اثر نہیں پڑتا۔ کوئی شعر وزن میں ہونا چاہیے چاہے اس کی بحر کا نام معلوم ہو یا نہ ہو۔

      سالم بحروں کے نام آسان ہوتے ہیں، مزاحف کے مشکل کے ان کے نام زحافات پر مشتمل ہوتے ہیں، جس بحر کا آپ نے ذکر کیا یعنی ہزج مسدس اخرب مقبوض محذوف تو اس کا نام ہزج ہے کیونکہ اس کا بنیادی رکن مفاعیلن ہے۔ مسدس ہے کیونکہ ایک مصرعے میں تین اور ایک شعر میں چھ رکن ہیں سو مسدس ہوئی۔

      باقی رہے زحافات تو
      اخرب نام ہے خرم اور کف کو جمع کرنے کا۔ خرم کہتے ہیں رکن کے پہلے حرف کے گرانے کو اور کف کہتے ہیں آخری حرف گرانے سو مفاعیلن پر خرم سے میم گر گیا اور کف سے نون گر گیا یعنی خرم اور کف کو جمع کیا مفاعیلن پر تو اخرب ہوا جس کی وجہ سے وہ 'فاعیل' رہ گیا جس کو 'مفعول' سے بدل دیا۔

      مقبوض کہتے ہیں کہ کسی رکن پر کف کا زحاف استعمال کرنے کو، کف میں کسی رکن کے پہلے سبب میں سے دوسرا حرف گرانے کو۔ سو مفاعیلن میں پہلا سبب 'عی' ہے سو اس میں قبض کی وجہ سے یے گر جائے گی اور باقی 'مفاعلن' رہ جائے گا۔

      محذوف کہتے ہیں حذف زحاف کے استعمال کو، اور حذف میں کسی رکن کا آخری سبب مکمل گر جاتا ہے یعنی مفاعیلن میں پورا 'لُن' گر کر 'مفاعی' رہ گیا جس کو فعولن سے بدل گیا۔

      سو
      بحر ہزج مسدس اخرب مقبوض محذوف میں
      ہزج بحر کا بنیادی نام ہے کہ مفاعیلن اس کا رکن ہے
      مسدس اس لیے کہ ایک مصرعے میں تین اور شعر میں چھ رکن ہیں۔
      اخرب میں مفاعیلن سے مفعول ملا
      مقبوض سے دوسرا رکن مفاعلن ملا
      محذوف سے تیسرا رکن فعولن ملا
      سو اس کے رکن
      مفعول مفاعلن فعولن
      یوں بحر کے نام ہیں اس کے زحاف چھپے ہوئے ہیں۔

      Delete