Jan 29, 2010

چائے خانہ

یہ تحریر خاص اردو محفل کیلیے لکھی گئی تھی، اپنے بلاگ کے قارئین سے بھی شیئر کر رہا ہوں، میرا اس سلسلے میں مزید لکھنے کا ارادہ ہے۔
------

چائے خانہ

پروفیسر تنقید علی خان۔ "۔۔۔۔۔۔ تو جناب میں عرض کر رہا تھا کہ جب تک ہمارے ادبا و شعرا ناخالص دودھ کی بنی ہوئی چائے پیتے رہیں گے، انکی معروضی رویے انکے عروضی رویوں سے الجھتے ہی رہیں گے اور وہ کبھی بھی اس اعلیٰ قسم کی ادبیات تخلیق نہیں کر سکتے جسے تخلیق کہا جا سکے۔"

مولانا سبز وار۔ "قبلہ میرا تو ماننا ہے کہ جب تک گوالا باوضو ہو کر اور قبلہ رو ہو کر، اسمِ اعظم کا ورد کرتے ہوئے دودھ نہیں دوہے گا تب تک ایسا ہی ناخالص دودھ آتا رہے گا چاہے اس میں پانی ملایا جائے یا نہ ملایا جائے، کیا آپ نے نہیں سنا، علامہ فرما گئے ہیں، نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں سب دھاریں۔"

داد مقصود۔ "واہ واہ واہ، اجی واہ واہ واہ، کیا کہنے جناب، واہ واہ واہ۔"

مولانا سبزوار۔ "آداب۔"

لال خان احمر۔ "میرا کہنا یہ ہے کہ دودھ میں پانی اور پانی میں دودھ ملانے والے دونوں قسم کے گوالوں کو جب تک سولی پر نہیں لٹکایا جاتا اور جب تک انکی بھینسوں کو قومیایا نہیں جاتا تب تک نہ تو اس ملک کے حالات درست ہو سکتے ہیں اور نہ ہی اچھا شعر و ادب تخلیق ہو سکتا ہے، وہ شعر و ادب جو ترقی پسندی کی جان ہے، وہ شعر و ادب جس کی تعلیمات اعلیٰ حضرات لینن اور اسٹالن نے فرمائی ہیں، اپنے نصب العین تک پہنچنے اور ملک میں جدلیاتی مادیت کے نفاذ کے لیے از حد ضروری ہے کہ سب گوالوں کو پھانسی دے دی جائے، ہمارے قبلہ و کعبہ جنابِ فیض احمد فیض فرما گئے ہیں

اے چائے نوشو اٹھ بیٹھو، وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب دودھ اُبالے جائیں گے، جب جیل گوالے جائیں گے۔"

داد مقصود۔ "واہ واہ واہ، اجی واہ واہ واہ، کیا کہنے جناب، واہ واہ واہ۔"

قاضی قدیر اللہ۔ "چھوڑیں آپ یہ باتیں، فیض احمد فیض کو چائے سے کیا تعلق، وہ تو کڑوے جوشاندے پیتے تھے، اور پھر ان کو گزرے ابھی جمہ جمہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے، کوئی ایک آدھ صدی گزرے گی تو پھر دیکھیں گے کہ ان کی شاعری میں کوئی دم خم بھی تھا یا نہیں، جبکہ دوسری طرف ہمارے علامہ کی پیش بینی دیکھیئے، آج سے کئی دہائیاں پہلے، ایک ہی شعر میں ہمارے اور گوالوں کے متعلق ایسا کلام فرما گئے ہیں کہ صدیوں تک زندہ و جاوید ہو گیا ہے، کیا پیش بینی تھی یعنی کہ انہوں نے اپنی دُور رس نگاہوں سے دیکھ لیا تھا کہ قاضی قدیر فتویٰ دے گا جب کہ ابھی ہم تولد بھی نہیں ہوئے تھے۔"

لال خان احمر۔ "کونسا شعر'"

قاضی قدیر اللہ۔

"تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے دودھ ملاوٹ کی سزا مرگِ گوالات"

مولانا سبز وار۔ "جزاک اللہ۔"

داد مقصود۔ "واہ واہ واہ، اجی واہ واہ واہ، کیا کہنے جناب، واہ واہ واہ۔"


ساگر ندیم ساگر۔ "ہمیں مردہ پرستی کی سمندر سے نکلنا ہوگا، کب تک ہم اسی بحرِ ذخار کے غوطے کھاتے رہیں گے جبکہ آپ کے سامنے نئے عہد کے ساگر موجزن ہیں، لیکن کسی کا ہماری طرف دھیان ہی نہیں جاتا، سب پی آر کا شاخسانہ ہے، کسی نے ہماری نظم کا ذکر تک نہیں کیا جو ہم نے گوالوں کے موضوع پر لکھی تھی۔"

داد مقصود ۔"ارشاد"

ساگر ندیم ساگر۔

"کاش میں ایک گوالے کا ہی سجّن ہوتا
وہ بڑے پیار سے چاؤ سے بڑے مان کے ساتھ
تازہ خالص، کبھی تو، دودھ پلاتا مجھ کو"

داد مقصود۔ "واہ واہ واہ، اجی واہ واہ واہ، کیا کہنے جناب، واہ واہ واہ۔"

آتش قربان آتش۔ "سرقہ"


ساگر ندیم ساگر۔ "کیا کہا؟"

آتش قربان آتش۔ "سرقہ"

ساگر ندیم ساگر۔ "تم ہوتے کون ہو میری نظم کو سرقہ کہنے والے، تم آج تک خود تو ایک بھی کام کا مصرع کہہ نہیں سکے اور میری تخلیق کو تم سرقہ کہتے ہو۔"

آتش قربان آتش۔ "تمہیں کیا علم شاعری کیا ہے؟ اور میری شاعری کیا ہے، تم، تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

مولانا سبزوار۔ "صبر، بھائیو صبر، میرا خیال ہے، قاضی قدیراللہ صاحب سے فتویٰ لے لیتے ہیں۔"

قاضی قدیراللہ۔ "اتنے چھوٹے سے مسئلے پر ہمارا فتویٰ، یہ فیصلہ تو پروفیسر تنقید علی خان صاحب ہی کر دیں گے۔ لیکن یہ فیصلہ تو ہوتا رہے گا لیکن چائے کدھر ہے؟ کیا نام ہے اس چائے والے کا؟"

داد مقصود۔ "اسد اللہ"

قاضی قدیر اللہ۔ "اسد، او اسد۔"

پروفیسر تنقید علی خان۔ "جی جی بلائیے اس کو، چائے نہیں ملی تو سر میں درد شروع ہو گیا۔"

مولانا سبزوار۔ "بھئی ہم پر تو اللہ کی رحمت ہے، کوئی نشہ نہیں لگایا خود کو، چائے، لسی، دودھ، دہی، سب پر الحمدللہ کہتے ہیں، بقولِ شاعر

چاء ہے یا دہی ہے تو
میری زندگی ہے تو"

داد مقصود۔ "واہ واہ واہ، اجی واہ واہ واہ، کیا کہنے جناب، واہ واہ واہ۔"

قاضی قدیراللہ۔ "اسد، اوئے اسد کے بچے'"

اسداللہ۔ "جی جی، حضور حاضر ہو گیا۔"

پروفیسر تنقید علی خان۔ "چائے کدھر ہے بھئی۔"

اسداللہ۔ "کیا بتاؤں حضور، پہلے تو خالص دودھ نہیں مل رہا تھا، وہ ملا تو چینی غائب، وہ لایا تو اب گیس نہیں آ رہی، چائے کیسے بناتا۔"

قاضی قدیراللہ۔ "تو کیا چائے نہیں ملے گی؟"

اسداللہ۔ "ملے گئی کیوں نہیں حضور، ایسی چائے پلاؤں گا کہ کیا یاد کریں گے آپ۔"

مولانا سبزوار۔ "لیکن بناؤ گے کیسے، گیس تو آ نہیں رہی۔"

اسداللہ۔ "حضور، اس کا حل میں نے ڈھونڈ لیا تھا، وہ جو لائبریری سے دیوانِ غالب لایا تھا اس کو جلایا ہے چائے بنانے کیلیے، لیکن وہ تھا ہی کتنا، چند تو صفحےتھے، دودھ تک گرم نہیں ہوا اس سے، اب کلیاتِ میر جلا رہا ہوں، ابھی لاتا ہوں چائے۔"

پروفیسر تنقید علی خان۔ "خوب بدلہ لیا ہے بھئی غالب سے، غالب نے اپنا تخلص اسد چھوڑا اور اس اسد نے غالب کا دیوان ہی جلا دیا، اسے کہتے ہیں تاریخ اپنے آپ کو مدوری دور میں دہراتی ہے۔"

داد مقصود۔ "واہ واہ واہ، اجی واہ واہ واہ، کیا کہنے جناب، واہ واہ واہ۔"

اسداللہ۔ "لیجیئے حضور چائے حاضر ہے، ایسی چائے آپ نے کبھی نہیں پی ہوگی جس کے بنانے میں دیوانِ غالب اور کلیاتِ میر کو جلایا گیا ہے بلکہ غالب اور میر کا خون کیا گیا ہے۔"

قاضی قدیراللہ۔ "ہاں بھئی چائے تو واقعی بہت اچھی ہے، پہلی چسکی میں ہی لطف آگیا۔"

مولانا سبزوار۔

"تیری چائے کی کیا کریں تعریف
اسداللہ خاں قیامت ہے"

داد مقصود۔ "واہ واہ واہ، اجی واہ واہ واہ، کیا کہنے جناب، واہ واہ واہ۔"

اسداللہ۔ "بہت شکریہ جناب، آپ چائے سے لطف اندوز ہوں، میں ابھی بِل بنوا کر آیا۔"
----

اسداللہ۔ "ہائیں، یہ سب کدھر گئے، بھاگ گئے؟ واہ بے شاعرو، بِل دیے بغیر ہی بھاگ گئے، اور جاتے ہوئے گلاس اور کپ بھی توڑ گئے، اب لائبریری والوں کو کیا جواب دونگا جن سے دیوانِ غالب اور کلیاتِ میر مانگ کر لایا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں لیکن کیا بھی ہو جائے گا، فضول ہی کتابیں ہونگی جو انہوں نے مجھے دے دی تھیں۔"

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 11, 2010

بخوانندۂ کتابِ زبور - اقبال

بخوانندۂ کتابِ زبور
(کتاب زبورِ عجم پڑھنے والوں سے)

اسے آپ علامہ اقبال کی شہرہ آفاق کتاب 'زبورِ عجم' کا دیباچہ سمجھ لیں کہ اقبال نے زبورِ عجم کے قارئین سے خطاب کیا ہے، کُل تین شعر ہیں اور کیا لاجواب شعر ہیں۔ ایک ایک شعر اپنے اندر ایک جہان لیے ہوئے ہے۔

می شَوَد پردۂ چشمِ پرِ کاہے گاہے
دیدہ ام ہر دو جہاں را بنگاہے گاہے

کبھی تو گھاس کا ایک تنکا میری آنکھوں کا پردہ بن جاتا ہے اور کبھی میں ہر دو جہاں کو ایک نگاہ میں دیکھ لیتا ہوں۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال
علامہ محمد اقبال
Allama Iqbal
وادیِ عشق بسے دور و دراز است ولے
طے شود جادۂ صد سالہ بآہے گاہے

عشق کی وادی یا منزل بہت دور ہے لیکن کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ سو سال کا راستہ ایک آہ میں طے ہو جاتا ہے۔

در طلب کوش و مدہ دامنِ امید ز دست
دولتے ہست کہ یابی سرِ راہے گاہے

طلب میں لگا رہ اور امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑ، یہ ایک ایسی دولت ہے کہ کبھی کبھی سرِ راہ بھی ہاتھ آجاتی ہے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 5, 2010

فارسی غزلِ غالب مع تراجم - مژدۂ صبح دریں تیرہ شبانم دادند

غالب کی درج ذیل غزل کا شمار بھی غالب کی شاہکار غزلوں میں سے ہوتا ہے۔ یہ غزلِ مسلسل ہے اور اس میں غالب کی شاعرانہ تعلی عروج پر ہے۔ غالب کو اپنی شاعرانہ عظمت اور منفرد شخصیت کا بھر پور اور شدید احساس تھا اور اردو کلام میں بھی انہوں نے اس کا اظہار کیا ہے لیکن اس غزل میں تو اس موضوع کو انہوں نے دوام بخش دیا ہے۔ صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کے الفاظ میں "اس میں صرف حسنِ بیان ہی نہیں بلکہ شعر کہنے والے کے دل و دماغ اور اسکی سوچ کی گہرائی اور وسعت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ اسلوبِ بیان کی فنکارانہ مہارت اور ندرت نے اشعار میں بڑا حسین لطف پیدا کیا ہے"۔

اس غزل کے اشعار 3 تا 8 خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ مولانا الطاف حسین حالی ان اشعار کے متعلق یادگارِ غالب میں ارشاد فرماتے ہیں۔ "قضا و قدر نے جو کچھ عرب کی فتوحات کے وقت عجم سے چھینا اسکے عوض میں مجھ کو، کہ میں بھی عجمی الاصل ہوں، کچھ نہ کچھ دیا"۔

صوفی تبسم نے مولانا حالی کی رائے سے تھوڑا اختلاف کیا ہے، فرماتے ہیں "خادم اس سلسلے میں صرف اتنا کہنے کی جسارت کرتا ہے کہ مجھے مولانا کے الفاظ عرب کی فتوحات سے اختلاف ہے۔ مرزا صاحب اپنے آپ کو ایرانی اور تورانی، تہذیبی روایت کا وارث سمجھتے تھے اور اس پر نازاں تھے، اور اس بات کو قدرت کی طرف منسوب کرتے تھے۔ قدیم ایرانی شوکت و جاہ سے انھیں جو کچھ ملا، وہ تاج و گوہر کی صورت میں نہیں بلکہ ادب پاروں کی شکل میں ملا"۔

پروفیسر رالف رسل، مطلع کے بعد باقی کے اشعار کے متعلق یوں رائے زن ہیں۔

"The remaining verses lament the passing of the glory and the beauty of ancient, pre-Islamic Iran, where fire was worshiped, wine was drunk, there were idols in the temples, and the blowing of conches accompanied worship. Ghalib claims he is the heir to all this, and that his poetry has the power to re-create it............ Ghalib prided himself on this ability."


غزل پیشِ خدمت ہے۔
Mirza Ghalib, مرزا غالب, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
Mirza Ghalib, مرزا غالب
شعرِ غالب
مژدۂ صبح دریں تیرہ شبانم دادند
شمع کشتند و ز خورشید نشانم دادند

صوفی غلام مصطفٰی تبسم
ان سیاہ راتوں میں مجھے صبح کی بشارت دی گئی۔ شمع کو بجھا دیا اور سورج کی نشان دہی کی گئی۔

افتخار احمد عدنی
شمع گل کرکے سحر نور فشاں دی مجھ کو
اور اک طلعتِ خورشید نشاں دی مجھ کو

پروفیسر رالف رسل
In my dark nights they brought me the good tidings of the morning
Put out the candles, turning me towards the rising sun


شعرِ غالب
رخ کشودند و لب ہرزہ سرایم بستند
دل ربودند و دو چشمِ نگرانم دادند

صوفی تبسم
مجھے اپنا جلوہ دکھا کر میرے بیہودہ گو لبوں کو سی دیا گیا، میرا دل چھین لیا اور اسکے عوض دیکھنے والی دو آنکھیں عطا کر دی گئیں۔

عدنی
اک جھلک ایسی دکھائی کہ کیا مہر بلب
دل مرا چھین کے چشمِ نگراں دی مجھ کو

رسل
They showed their faces, and at once my babbling tongue was silenced
They took my heart away from me, and gave me eyes to see


شعرِ غالب
سوخت آتش کدہ ز آتش نفسم بخشیدند
ریخت بتخانہ ز ناقوس فغانم دادند

صوفی تبسم
آتش کدہ جل کر راکھ ہوا تو اسکی آگ میرے سانس کو مل گئی۔ بت خانہ گرا تو اسکے ناقوس کی فریاد مجھے عطا ہوئی۔

عدنی
سرد آتشکدہ کرکے مجھے آتش بخشی
ہوا ناقوس جو خاموش، فغاں دی مجھ کو

رسل
They burnt the fire-temples, and breathed their fire into my spirit
Cast idols down, and let the conches sound in my lament


شعرِ غالب
گہر از رایتِ شاہانِ عجم برچیدند
بعوض خامۂ گنجینہ فشانم دادند

صوفی تبسم
شاہانِ عجم کے جھنڈوں کے موتی اُتار لیے گئے اور اسکے عوض وہ قلم عنایت ہوا جو خزانہ لٹانے والا ہے۔

عدنی
سب گہر رایتِ شاہانِ عجم کے چن کر
اک قلم، نادر و گنجینہ فشاں دی مجھ کو

رسل
They plucked the pearls that once had decked the banner of their kings
And gave me them to scatter from the treasury of my pen


شعرِ غالب
افسر از تارکِ ترکانِ پشنگی بردند
بسخن ناصیۂ فرکیانم دادند

صوفی تبسم
ترکوں کے سر سے تاج اتار لیا گیا اور مجھ کو شاعری میں اقبالِ کیانی مرحمت ہوا۔


شعرِ غالب
گوہر از تاج گسستند و بدانش بستند
ہر چہ بردند بہ پیدا، بہ نہانم دادند

صوفی تبسم
تاج سے موتی توڑ لیے گئے اور انھیں علم و دانش میں جڑ دیا گیا، جو کچھ علی الاعلان لوٹا تھا وہ مجھے خاموشی اور پوشیدہ طور پر دے دیا۔

عدنی
تھے جو سب تاج کے گوہر مری دانش میں جڑے
اور خاموشی سے یہ نقدِ گراں دی مجھ کو

رسل
Prised from their crown, they set the jewels in my crown of wisdom
All that men saw them take away, they secretly gave back


شعرِ غالب
ہر چہ در جزیہ ز گبراں، مئےِ ناب آوردند
بشبِ جمعۂ ماہِ رمضانم دادند

صوفی تبسم
آتش پرستوں سے جو شراب جزیے کے طور پر لی گئی، وہ ماہ رمضان کی شبِ جمعہ کو مجھے عنایت ہوئی۔

عدنی
وہ مےِ ناب جو ہاتھ آئی بطورِ جزیہ
بہ شبِ جمعۂ ماہِ رمضاں دی مجھ کو

رسل
The wine they took as tribute from the worshippers of fire
They gave to me one Friday in the month of Ramazan


شعرِ غالب
ہر چہ از دستگہِ پارس بہ یغما بردند
تا بنالم ہم ازآں جملہ زبانم دادند

صوفی تبسم
غرض کہ پارس کی جو پونجی لٹ گئی تھی، اس میں سے زبان مجھے دے دی تاکہ میں فریاد کروں۔

عدنی
فارس کی ساری متاع لوٹ کے اس کے بدلے
بہرِ فریاد فقط ایک زباں دی مجھ کو

رسل
From all they took in booty from the treasures of Iran
They gave to me a tongue in which to utter my lament


شعرِ غالب
دل ز غم مردہ و من زندہ ہمانا ایں مرگ
بود ارزندہ بماتم کہ امانم دادند

صوفی تبسم
میرا دل تو (غم) سے مر چکا ہے لیکن میں زندہ ہوں، اسکی وجہ لازماً یہی ہے کہ موت میرے ماتم کے مناسب تھی، اس سے مجھے محفوظ رکھا اور اسے سلامت رکھا تاکہ وہ میرا ماتم کرتی رہے۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔