Mar 30, 2010

نمی دانم کجا رفتم - شیخ شرف الدین پانی پتی معروف بہ بوعلی شاہ قلندر کی ایک غزل

جن دوستوں نے استاد فتح علی خان قوال کی آواز میں امیر خسرو کی مشہور نعت، 'نمی دانم چہ منزل بُود' سن رکھی ہے وہ جانتے ہونگے کہ اس میں انہوں نے نمی دانم کی مناسبت سے بوعلی قلندر (شیخ شرف الدین پانی پتی) کے دو تین اور اشعار بھی گائے ہیں جن میں نمی دانم آتا ہے۔ ایک عرصے سے خواہش تھی کہ یہ اشعار علیحدہ سے گائے ہوئے بھی مل جائیں بلآخر یہ خواہش ہمارے نئے اور پیارے دوست توصیف امین نے پوری کر دی۔ نئے دوست تو میرے کئی بنتے ہیں لیکن ان میں پیارے وہی ہوتے ہیں، میرے لیے نہ کہ اللہ کو، جو صاحبِ ذوق بھی ہوں اور غالب کے طرفدار بھی یعنی سخن فہم اور ماشاءاللہ آپ میں دونوں خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ انہوں نے جب مجھے اس قوالی کی فائل بھیجی تو انتہائی خوشی ہوئی اور اسی خوشی میں آپ دوستوں کو بھی شامل کر رہا ہوں کہ میری خوشیاں کچھ اسی قسم کی ہوتی ہیں۔

شیخ شرف الدین پانی پتی معروف بہ بوعلی قلندر کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں، آپ کا شمار برصغیر کے نامور اولیاء میں ہوتا ہے اور کئی کرامات آپ سے منسوب ہیں، پانی پت میں آپ کا مزار، بلا تفریقِ مذہب و ملت، مرجعِ خلائق ہے جس کی دو تصاویر نیچے عقیدت مندوں کیلیے بطور تبرک شامل کر رہا ہوں۔ آپ ایک بلند پایہ اور قادر الکلام شاعر بھی تھے۔ انسائیکلوپیڈیا اسلامیکا (دانشنامۂ جہانِ اسلام) کا مضمون نگار آپ کی شاعری کے متعلق لکھتا ہے۔ "بوعلی قلندر در نظم و نثر پارسی استاد بود۔" اسی مضمون سے علم ہوتا ہے کہ آپ کا ایک دیوان بھی شائع ہوا تھا جو آپ کی غزلیات، قصائد اور رباعیات کا مجموعہ تھا، حیدرآباد دکن سے آپ کے اشعار کا ایک مجموعہ "کلامِ قلندری" نامی بھی شائع ہوا تھا، اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اب یہ کتب کہیں سے ملتی ہیں یا نہیں۔ اسکے علاوہ آپ نے تین مثنویاں بھی تخلیق کی تھیں جس میں ایک کا نام "گل و بلبل" ہے۔ آپ کے کلام کے اردو اور پنجابی ترجمے بھی شائع ہو چکے ہیں۔

آپ کا ایک قطعہ تو انتہائی معروف ہے، اور کیا خوبصورت اور عقیدت سے بھرا قطعہ ہے

حیدریّم، قلندرم، مستم
بندۂ مرتضیٰ علی ہستم
پیشوائے تمام رندانم
کہ سگِ کوئے شیرِ یزدانم
میں حیدری ہوں، قلندر ہوں، مست ہوں، علی مرتضیٰ (ع) کا بندہ ہوں، میں تمام رندوں کا امام ہوں کہ شیرِ خدا (ع) کے کوچے کا کتا ہوں۔

غزل لکھنے سے پیشتر اسکی ہیت کے بارے میں ایک بات ضرور کہنا چاہونگا، مطلع سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزل کے قوافی "جمال، وصال" وغیرہ ہیں لیکن دوسرے اشعار میں ان قوافی کا تتبع نہیں کیا گیا بلکہ ہر شعر کو بظاہر چار ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا ہے، اور ہر ٹکڑے میں قافیہ لایا گیا ہے جو کہ مطلع کے قوافی سے مختلف ہیں اور پھر ردیف وہی مطلع والی۔ غزل کی ہیت میں ایسا لکھنا میرے لیے واقعی ایک نئی بات ہے، شاید صاحبانِ علم و فضل اس پر کچھ روشنی ڈال سکیں۔ مزید یہ کہ یقیناً یہ غزل مکمل نہیں ہے، اسلیے اگر کسی دوست کے علم میں مزید اشعار ہوں تو ضرور شیئر کریں۔

مَنَم محوِ جمالِ اُو، نمی دانم کُجا رفتم
شُدَم غرقِ وصالِ اُو، نمی دانم کجا رفتم
میں اسکے جمال میں محو ہوں اور نہیں معلوم کہاں جا رہا ہوں، بس اُسی کے وصال میں غرق ہوں اور نہیں جانتا کہاں جا رہا ہوں۔

غلامِ روئے اُو بُودَم، اسیرِ بُوئے اُو بودم
غبارِ کوئے اُو بودم، نمی دانم کجا رفتم
میں اس کے چہرے کا غلام ہوں، اسکی خوشبو کا اسیر ہوں، اسکے کُوچے کا غبار ہوں، اور نہیں جانتا کہاں جا رہا ہوں۔

بہ آں مہ آشنا گشتم، ز جان و دل فدا گشتم
فنا گشتم فنا گشتم، نمی دانم کجا رفتم
اُس ماہ رُو کا آشنا ہو کر گھومتا ہوں، جان و دل فدا کیے ہوئے گھومتا ہوں، خود کو فنا کیے ہوئے گھومتا ہوں اور نہیں جانتا کہاں جا رہا ہوں۔

شدم چوں مبتلائے اُو، نہادم سر بہ پائے اُو
شدم محوِ لقائے او، نمی دانم کجا رفتم
میں اس کے عشق میں ایسے مبتلا ہوں کہ اس کے پاؤں پر سر رکھے ہوں اور ہمہ وقت اسکے دیدار میں محو اور نہیں جانتا کہاں جا رہا ہوں۔

قلندر بُوعلی ہستم، بنامِ دوست سرمستم
دل اندر عشقِ اُو بستم، نمی دانم کجا رفتم
میں بُو علی قلندر ہوں اور دوست کے نام پر سرمست ہوں اور میرے دل میں بس اُسی کا عشق ہے، اور نہیں جانتا کہاں جا رہا ہوں۔


تصاویر بشکریہ وکی پیڈیا
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Mazar Bu Ali Shah Qalandar, مزار بوعلی شاہ قلندر
مزار شریف شیخ شرف الدین پانی پتی بوعلی قلندر
Mazar Bu Ali Shah Qalandar

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Mazar Bu Ali Shah Qalandar, مزار بوعلی شاہ قلندر
 مزار شریف شیخ شرف الدین پانی پتی بو علی قلندر
Mazar Bu Ali Shah Qalandar

یہ کلام بہت سے قوالوں نے گایا ہے جس میں استاد نصرت فتح علی خان مرحوم بھی شامل ہیں لیکن میں یہاں استاد بہاالدین قوال کی آواز میں شامل کر رہا ہوں۔




مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 13, 2010

جگر مرادآبادی کی ایک فارسی غزل مع ترجمہ - کعبہ در پائے یار دیدم دوش

جگر مُرادآبادی کا شمار غزل کے آئمہ میں سے ہوتا ہے، فقر و فاقہ و مستی میں زندگی بسر کی اور یہی کچھ شاعری میں بھی ہے۔ کسی زمانے میں ان کا ہندوستان میں طوطی بولتا تھا اور ہر طرف جگر کی غزل کی دھوم تھی۔ انکے کلیات میں انکا کچھ فارسی کلام بھی موجود ہے۔ انکے مجموعے "شعلۂ طور" سے ایک فارسی غزل کے کچھ اشعار ترجمے کے ساتھ "تبرک" کے طور پر لکھ رہا ہوں۔

کعبہ در پائے یار دیدم دوش
ایں چہ گفتی جگر، خموش خموش
میں نے کل رات کعبہ یار کے پاؤں میں دیکھا، اے جگر یہ تو نے کیا کہہ دیا (راز کی بات برسرِ عام کہہ دی)، خاموش ہوجا، خاموش۔


حسن پنہاں و جلوہ ہاست بجوش
اصل خاموش و فرع ہا بخروش
حُسنِ ازلی تو نظر سے پنہاں ہے مگر (کائنات میں) اسکے جلوے جوش مار رہے ہیں، اصل تو خاموش ہے لیکن اسکی شاخوں (فروع) نے شور مچایا ہوا ہے۔

اے اسیرِ تعیّناتِ جہاں
تو چہ دانی کہ چیست مستی و ہوش
اے کائنات کی تعیّنات (مقرر اور مسلط کی ہوئی چیزوں) کے اسیر، تُو کیا جانے کہ مستی کیا ہے اور ہوش کیا ہے۔
Jigar Muradabadi, جگر مُرادآبادی, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
Jigar Muradabadi, جگر مُرادآبادی
بادہ پیش آر تا کنم آغاز
داستاں ہائے عشقِ آفت کوش
جام سامنے لا کہ میں آغاز کروں اس عشق کی داستانوں کا جو کہ ہمیشہ آفتوں کی تلاش میں رہتا ہے۔

بے خبر رو کہ ہوش در مستیست
ہوشیار آ کہ بے خودیست بہ ہوش
بے خبر چلا چل کہ ہوش تو مستی ہی میں ہے، ہوشیار بن کر آ جا کہ ہوشیاری میں بھی بے خودی سی ہے۔
گفتہ بودم فسانہ از مستی
تو شنیدی چرا ز عالمِ ہوش
میں تو اپنا افسانۂ ذوق و شوق مستی میں کہہ رہا ہوں، تو کیوں اسے عالمِ ہوش میں سن رہا ہے، اس کو سمجھنے کیلیے ضروری ہے کہ سننے والا بھی عالمِ مستی میں ہو۔

قاضیا یک نظر بسوئے جگر
آں کہ یک خادم است و حلقہ بگوش
جنابِ قاضی، ایک نظر جگر کی طرف بھی کہ وہ آپ کا ایک خادم اور حلقہ بگوش ہے۔ قاضی سے مراد جگر کے مرشد  قاضی سید عبدالغنی شاہ صاحب ہیں جیسا کہ جگر نے اپنی کتاب میں خود لکھا ہے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 3, 2010

فَرقے نہ نہد عاشق در کعبہ و بتخانہ - علامہ اقبال کی ایک خوبصورت غزل

فَرقے نہ نہد عاشق در کعبہ و بتخانہ
ایں جلوتِ جانانہ، آں خلوتِ جانانہ
عاشق کعبہ اور بت خانہ میں کوئی فرق روا نہیں رکھتا، اس کیلیئے یہ (بت خانہ) اگر محبوب کی جلوت ہے تو وہ (کعبہ) محبوب کی خلوت ہے۔

شادم کہ مزارِ من در کوئے حرم بستند
راہے ز مژہ کاوم از کعبہ بہ بتخانہ
میں خوش ہوں کہ میرا مزار کعبہ کے کوچے میں ہے، میں اپنی پلکوں سے کعبہ سے بت خانہ تک کا راستہ بنا رہا ہوں۔

از بزمِ جہاں خوشتر، از حور و جناں خوشتر
یک ہمدمِ فرزانہ، وزبادہ دو پیمانہ
دنیا کی محفل سے بہتر ہے، حوروں اور جنت سے بہتر ہے ایک عقل مند دوست اور دو پیمانوں میں بادہ۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال
علامہ محمد اقبال
Allama Iqbal
ہر کس نگہے دارَد، ہر کس سُخَنے دارَد
در بزمِ تو می خیزَد، افسانہ ز افسانہ
ہر شخص اپنی نگاہ رکھتا ہے، ہر کوئی اپنی (ہی) بات رکھتا ہے، تیری بزم میں (جب تیرا ذکر چلتا ہے) تو بات سے بات نکلتی ہی چلی جاتی ہے اور ہر کسی کی پاس کہنے کیلیے اپنی ہی کہانی ہوتی ہے۔

ایں کیست کہ بر دلہا آوردہ شبیخونے؟
صد شہرِ تمنّا را یغما زدہ تُرکانہ
یہ کون ہے کہ جس نے دلوں پر شب خون مارا ہے اور تمناؤں کے سینکڑوں شہروں کو ترکوں کی طرح حملہ کر کے لوٹ لیا ہے۔

در دشتِ جنونِ من جبریل زبوں صیدے
یزداں بہ کمند آور اے ہمّتِ مردانہ
میرے جنون کے بیابان میں جبریل تو ایک ادنٰی شکار ہے، اے ہمتِ مردانہ خدا پر کمند ڈال۔

اقبال بہ منبر زد رازے کہ نہ باید گفت
نا پختہ بروں آمد از خلوتِ میخانہ
اقبال نے منبر پر (سرِ عام) وہ راز کہہ دیا ہے جو کہ نہیں کہنا چاہیئے تھا، وہ (شاید) میخانہ کی خلوت سے خام نکلا ہے۔

(پیامِ مشرق)

------
بحر - بحر ہزج مثمن اخرب
یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی ہر مصرع دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا ہے اور ہر ٹکڑا، ایک مصرع کے احکام میں آ سکتا ہے۔
افاعیل - مَفعُولُ مَفَاعِیلُن / مَفعُولُ مَفَاعِیلُناشاری نظام - 122 2221 / 122 2221
تقطیع -
فَرقے نہ نہد عاشق در کعبہ و بتخانہ
ایں جلوتِ جانانہ، آں خلوتِ جانانہ
فرقے نَ - مفعول - 122
نہَد عاشق - مفاعیلن - 2221
در کعبَ - مفعول - 122
و بتخانہ - مفاعیلن - 2221
ای جلوَ - مفعول - 122
تِ جانانہ - مفاعیلن - 2221
آ خلوَ - مفعول - 122
تِ جانانہ - مفاعیلن - 2221
مزید پڑھیے۔۔۔۔