Apr 27, 2010

پطرس بخاری کی ایک غزل - ہم آں داغے کہ بَر دل از تو دارَم حرزِ جانم شد

سید احمد شاہ (پطرس) بخاری یوں تو اپنے مضامین کی وجہ سے اردو ادب میں زندہ و جاوید ہو گئے ہیں لیکن مرحوم ایک نابغۂ روزگار اور ہمہ جہتی و سیمابی شخصیت کے مالک تھے۔ نچلا بیٹھنا انکی سرشت میں ہی نہیں تھا اور بڑے بڑے پہاڑوں سے ٹکرا جانا انکی عادتِ ثانیہ تھی۔ تقسیمِ برصغیر سے پہلے"نیازمندانِ لاہور" کے نام سے ایک گروپ بنا کر اور یو پی کے قلمکاروں سے خوب خوب ٹکر لے کر، اردو کے سب سے بہترین مرکز کے طور پر لاہور کی برتری، یو پی اور حیدر آباد (دکن) پر ثابت کرتے رہے۔ "ضربِ کلیم" میں علامہ کی ایک خوبصورت نظم ہے "ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام"، اقبال کے شارحین اس نظم کے سیاق و سباق میں عموماً یہ تو لکھتے ہیں کہ یہ نظم علامہ نے ایک فلسفے کے شائق سید کے ساتھ گفتگو کے بعد لکھی تھی لیکن اس "سید زادے" کا نام نہیں لکھتے۔ اس راز سے پردہ، مرحوم محمد طفیل، مدیرِ نقوش نے اپنی کتاب "جناب" میں پطرس پر خاکہ لکھتے ہوئے ان الفاظ میں اٹھایا ہے۔

"ایک دفعہ اقبال اور پطرس کی برگساں کے فلسفے پر بات چل نکلی، باتیں ہوئیں۔ دلیلیں لیں اور دیں، کوئی بھی قائل نہ ہوا، بالآخر اقبال چپ ہو گئے، جب پطرس چلے گئے تو اقبال نے ایک نظم پطرس کے بارے میں کہی جسکا عنوان" ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام" تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غور کیجیئے اقبال پطرس کے بارے میں نظم کہتے ہیں، اقبال اس وقت اپنے عروج کی آخری بلندیوں پہ تھے اور پطرس بلندیوں کی طرف ہمک رہے تھے مگر حوصلہ دیکھیئے، پہاڑ سے ٹکر لے لی۔"

یہ تو خیر انکی "جراتِ رندانہ" کا ایک واقعہ تھا، لیکن ان کا "شوقِ فضول" انکے مضامین کی شکل میں، اس "منزلِ مُراد" پر پہنچنے کا واضح اشارہ ہے جس کا ذکر غالب نے اپنے شعر کے مصرعِ اولیٰ میں کیا ہے۔ پطرس کو سب سے خوبصورت خراجِ تحسین بھی شاید محمد طفیل ہی نے پیش کیا ہے، لکھتے ہیں "مرحوم انگریزی اتنی جانتے تھے جتنی سارے پاکستانی مل کر جانتے ہیں اور اردو جتنی جانتے تھے اتنی اردو کے سارے پروفیسر مل کر بھی نہیں جانتے، اگر کسی پروفیسر کو میرا تبصرہ برا لگے تو وہ مرحوم جیسا ایک جملہ لکھ کر تو دیکھے"۔

یادگارِ پطرس کے طور پر تبرکاً اپنے اس ہیچ مایہ بلاگ کو انکی ایک خوبصورت فارسی غزل سے سجا رہا ہوں۔

ہم آں داغے کہ بَر دل از تو دارَم حرزِ جانم شد
ہم آں چشمے کہ نامِندَش سخن گو، راز دارم شد

اُن تمام داغوں کو جو میرے دل پر تیرے عطا کردہ تھے میں نے بہت احتیاط سے (چھپا چھپا کر) رکھا، وہ آنکھ بھی جسے سخن گو (راز فاش کرنے والی) کہا جاتا ہے میری راز داں تھی (محبت کا راز فاش نہیں کرتی تھی)۔

دِلے بُود و در آغوشَم نگنجید و جہانم شد
خیالے داشتم از سرگزشت و آسمانم شد

ایک دل تھا اور جب وہ ہمارے پہلو میں نہ سمایا تو جہان بن گیا، اور اپنی (مظلوم و محروم) سرگزشت کا خیال آیا تو وہ (بے رحم) آسمان بن گیا۔

مپرس اے داورِ محشر، چہ می پرسی، چہ می پرسی
نگاہِ حسرت آلایم کہ می بینی، بیانم شد

اے داورِ محشر نہ پوچھ، تو مجھ سے کیا پوچھنا چاہتا ہے؟ (میں کیا بتاؤں) کہ میری حسرت آلایم نگاہ جو تو دیکھ رہا ہے وہی میرا بیان بن گئی ہے یعنی میری حسرت و یاس بھری آنکھوں میں دیکھ لے تجھے اپنے سارے سوالوں کے جواب مل جائیں گے۔

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Patras Bokhari, پطرس بخاری
سیّد احمد شاہ پطرس بخاری
Patras Bokhari
نگہ دزدیدہ افگندی بدِل چوں رازِ جاں دارم
نظر کردی بہ بے باکی و فصلِ داستانم شد

تیری دزدیدہ نگاہ جو دل پر پڑی تو میں نے اسے رازِ جاں بنا لیا، تو نے بیباکی سے دیکھا تو وہ ہماری داستان کا ایک باب بن گیا۔

دگر قدحِ جنوں در دہ کہ ہم در منزلِ اوّل
خیالِ وحشَتَم واماند و گردِ کاروانَم شد

اے قضا و قدر کے کارکنوں، جنون کا ایک اور جام مجھے دو کہ پہلی منزل میں ہی، میری وحشت کا خیال واماندہ (خستہ، کم) ہوا اور میں کارواں کی گرد بن گیا۔

پطرس بخاری کی تخلیقات اس ویب سائٹ پر پڑھی جا سکتی ہیں، اس پوسٹ میں شامل تصویر بھی اسی سائٹ سے لی ہے۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 22, 2010

وای آں دل کہ در آں مہرِ بلوچاں نَبوَد - ضیا بلوچ صاحب کی ایک غزل

ضیا بلوچ صاحب، فیس بُک پر ہمارے دوست ہیں، انکی ایک خوبصورت فارسی غزل شیئر کر رہا ہوں۔ مطلع انہوں نے اپنے مخصوص پس منظر میں کہا ہے لیکن دیگر اشعار انتہائی خوبصورت ہیں، شعریت اور تغزل سے بھرپور۔ میں نے یہ غزل فیس بُک پر پڑھی تو بہت پسند آئی اور اس کو شیئر کرنے کی اجازت بھی ان سے حاصل کر لی۔ ترجمہ بھی انہوں نے خود ہی کیا ہوا تھا، سو میرا کام بھی آسان ہوا۔

وای آں دل کہ در آں مہرِ بلوچاں نَبوَد
مردہ آں تن کہ فدای رہِ بولاں نبود

افسوس اُس دل پر جس میں بلوچوں کیلیے مہر نہیں ہے، اُس شخص کا شمار مردوں میں ہے جو بولان کی راہ میں فدا نہ ہوا۔


کور چشمی کہ نگاہی بہ رُخِ غم نکند
تیرہ قلبی کہ در آں درد فروزاں نبود

وہ آنکھ اندھی ہے جسے غم دکھائی نہ دے، وہ دل تاریک ہے جس میں درد فروزاں نہیں ہوتا۔


دوش در میکدۂ عشق شنیدم سخنی
نیست سوزی کہ تہِ شیشۂ رنداں نبود
کل رات عشق کے میخانے میں، میں نے یہ بات سنی کہ کوئی ایسا سوز نہیں ہے جو رندوں کے شیشے (دل) میں نہیں ہے۔


ز تب و تابِ نگاہت نہ درخشد رُخِ دوست
تا دلِ تو، چو ستارہ، سرِ مژگاں نبود
تیری نگاہ کی تب و تاب سے دوست کا چہرہ نہیں دمکتا جب تک کہ تیرا دل ستارے کی مانند پلکوں پر روشن نہ ہو۔


نبود مہرِ جہاں تاب کُلاہِ مجنوں
چاکِ دامان اگر تا بہ گریباں نبود
سورج کسی دیوانے کی سر کی زینت نہیں بنتا اگر اس کے دامن کا چاک گریباں تک نہ پہنچے۔


حیف صد حیف بر آں غنچۂ لب بستہ ضیا
کز نفَسہای بہاری گُلِ خنداں نبود

صد افسوس اس لب بستہ کلی پر ضیا جو بادِ بہاری کے چلنے پر بھی نہ کِھل سکے۔


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 5, 2010

ایک زمین، تین شاعر - رومی، عراقی، اقبال

پیرِ رومی کی یہ غزل اتنی خوبصورت ہے کہ ان کے دو مریدوں، مریدِ عراقی اور مریدِ ہندی، نے بھی اس میں طبع آزمائی کی ہے اور کیا خوب کی ہے۔ پیرِ رومی اور مریدِ ہندی کے بارے میں کچھ نہ کہنا ہی بہتر ہے کہ ہر کوئی ان دو کے متعلق جانتا ہے اور انکے "تعلق" کے متعلق بھی لیکن "مریدِ عراقی" کا تھوڑا سا تعارف ضروری ہے۔

شیخ فخرالدین ابراہیم عراقی، ساتویں صدی ہجری (تیرہویں صدی عیسوی) کے ایک نامور صوفی بزرگ اور شاعر تھے۔ آپ ہمَدان، ایران میں پیدا ہوئے اور اوائلِ عمر میں ہی قلندروں کی ایک ٹولی میں شامل ہو کر دنیا کی سیر و سیاحت کو نکل کھڑے ہوئے۔ شیخ محمد اکرام، "آبِ کوثر" میں شیخ بہاءالدین زکریا سہروردی (رح) کا ذکر کرتے ہوئے، ضمنی طور پر عراقی کا حال اسطرح لکھتے ہیں۔

"وہ [عراقی] شیخ شہاب الدین سہروردی کے بھانجے تھے [شیخ اکرام کی اس بات کے برعکس ایک روایت میں ہے کہ آپ ہمدان سے بغداد تشریف لے گئے تھے اور وہاں شیخ شہاب الدین سہروردی کے مرید ہوئے اور انہوں نے ہی آپ کو عراقی کا خطاب دیا] اور ان دنوں اثنائے سیر و سیاحت میں ملتان تشریف لائے تھے۔ شیخ بہاءالدین زکریا سے وہ اتنے متاثر ہوئے کہ وہ کہتے تھے، بر مثالِ مقناطیس کہ آہن را کشد، شیخ مرا جذب می کند و مقیّد خواہد کرد، ازیں جا زود تر باید رفت [مقناطیس کی طرح کہ جسطرح وہ لوہے کو کھینچتا ہے، شیخ نے مجھے جذب کر لیا ہے اور اپنا مقیّد بنا لیا ہے، اس جگہ سے جلد از جلد چلے جانا چاہیئے]۔ شیخ نے بھی اپنے مرشد کے خواہر زادے کی بڑی خاطر داری کی، اپنی بیٹی اس سے بیاہ دی اور عراقی ایک عرصہ ملتان میں مقیم رہے۔ وہ نہایت دل گداز شعر لکھتے تھے، چنانچہ "نفحات الانس" میں مولانا جامی لکھتے ہیں کہ شیخ بہاءالدین زکریا کی خانقاہ میں عراقی نے چلّہ کشی شروع کی تو ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ ان پر ایک وجد کی کیفیت طاری ہو گئی، انہوں نے ۔۔۔ [ایک] ۔۔۔ غزل کہی اور اسے بلند آواز سے پڑھنا شروع کیا۔ اہلِ خانقاہ نے اس پر اعتراض کیا کیونکہ خانقاہ میں سوائے ذکر اور مراقبہ کے کوئی اور چیز رائج نہ تھی [سہروردیہ سلسلے میں سماع سے اجتناب کیا جاتا ہے]، انہوں نے شیخ سے بھی اس کی شکائت کی، لیکن انہوں نے فرمایا کہ یہ چیزیں تمھیں منع ہیں، اسے منع نہیں۔"

ایک روایت کے مطابق آپ پچیس سال تک شیخ بہاءالدین زکریا کی خدمت میں رہے اور انہوں نے بوقتِ وصال آپ کو ہی اپنا خلیفہ اور جانشین نامزد کیا، لیکن اس روایت کا ذکر شیخ محمد اکرام نے نہیں کیا بلکہ ان کے مطابق شیخ بہاءالدین زکریا کے جانشین انکے صاحبزادے شیخ صدرالدین تھے۔ بہرحال ملتان سے نکل کر عراقی نے حج کا قصد کیا اور مکہ و مدینہ کی زیارت کے بعد آپ قونیہ، ترکی میں مولانا رومی کی خدمت میں تشریف لے گئے اور ایک عرصہ تک انکی خدمت میں حاضر رہے اور سماع کی محفلوں میں حصہ لیتے رہے، مولانا رومی سے آپ کی ملاقات ہوئی یا ان کے صاحبزادے سے آپ ملے، اس سلسلے میں بھی مختلف روایات ہیں۔ اس کے بعد (شاید مولانا کے وصال کے بعد) آپ شام چلے گئے اور وہیں وفات پائی، آپ کا مزار دمشق میں ہے۔

عراقی کے متعلق یہ کچھ تفصیلات لکھنا مجھے ضروری محسوس ہوئیں کیونکہ انکے متعلق ویب پر بہت کم معلومات ملتی ہیں لیکن خوش قسمتی سے ان کی شاعری، جو کہ تصوف کی چاشنی سے لبریز ہے، محفوظ بھی ہے اور ویب پر عام ملتی بھی ہے، ان کا دیوان اس ربط پر پڑھا جا سکتا ہے

اب ان تینوں بزرگوں کی غزلیں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں جو کہ ایک ہی زمین (یعنی مولانا رومی کی زمین) میں ہیں، فقط اس معمولی فرق کے ساتھ کہ اقبال نے اپنی غزل میں قافیہ تھوڑا سا بدل دیا ہے لیکن بہرحال زمین وہی مولانا رومی کی ہے۔ مزید برآں یہ کہ مریدِ ہندی کو، پیرِ رومی کی یہ غزل شاید زیادہ ہی پسند تھی کہ اپنی کتب میں دو بار اس غزل کے اشعار لکھے ہیں، اسرارِ خودی اور جاوید نامہ میں۔

غزلِ مولانا جلال الدین رومی

بکشائے لب کہ قندِ فراوانَم آرزوست
بنمائے رخ کہ باغ و گلستانم آرزوست

اپنے لب کھول یعنی باتیں کر کہ مجھے بہت زیادہ شیرینی کی آرزو ہے اور اپنا چہرہ دکھا کہ مجھے باغ اور گلستان کی آرزو ہے۔

یک دست جامِ بادہ و یک دست زلفِ یار
رقصے چنیں میانۂ میدانم آرزوست

ایک ہاتھ میں شراب کا جام ہو اور دوسرے ہاتھ میں یار کی زلف، اور اسطرح بیچ میدان کے رقص کرنے کی آرزو ہے۔

دی شیخ با چراغ ہمی گشت گردِ شہر
کز دیو و دد ملولم و انسانم آرزوست

کل رات ایک بوڑھا شخص چراغ ہاتھ میں لیے شہر میں گھومتا رہا اور کہتا رہا کہ میں شیطانوں اور درندوں سے ملول ہوں اور کسی انسان کو دیکھنے کی آرزو ہے۔

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Maulana Rumi, مولانا رُومی
مولانا جلال الدین رُومی - ایک خاکہ
Maulana Rumi
زیں خلقِ پرشکایتِ گریاں، شدم ملول 
آں ‌هائے هوئے و نعرهٔ مستانم آرزوست
میں اس خلق سے، جو ہر وقت گریاں( اور مصائب) کی شکایت ہی کرتی ہے، ملول ہو گیا ہوں اور ھائے ھو یعنی مستی اور نعرۂ مستانہ کی آرزو ہے۔

واللہ کہ شہر بے ‌تو، مرا حبس می ‌شود
آوارگی و کوه و بیابانم آرزوست
واللہ کہ تیرے بغیر شہر میرے لیے حبس بن گیا ہے، مجھے آوارگی اور پہاڑوں اور بیابانوں کی آرزو ہے۔

گفتی ز ناز بیش مرنجاں مرا، برو
آں گفتَنَت کہ بیش مرنجانم آرزوست
تو نے ناز سے مجھے کہا کہ 'مجھے زیادہ تنگ نہ کرو اور چلے جاؤ"، یہ جو تو نے کہا کہ مجھے زیادہ تنگ نہ کرو، مجھے تم سے یہی بات سننے کی آرزو ہے۔ (چلے جانے والی بات کوئی عاشق کیسے سن سکتا ہے)۔

اے عقل تو ز شوق پراکندہ گوئے شو
اے عشق نکتہ ہائے پریشانم آرزوست
اے عقل تو شوق (عشق) کی وجہ سے بہکی بہکی باتیں کرنے والی بن جا، اے عشق مجھے تیری پریشان کر دینے والی لطیف باتوں کی ہی آرزو ہے۔

ایں آب و نانِ چرخ چو سیل است بیوفا
من ماہیَم، نہنگم و عمّانم آرزوست
یہ آسمان کا دیا ہوا آب و دانہ، سیلاب کی طرح بیوفا ہے کہ آیا اور چلا گیا، میں تو ایک مچھلی کی طرح ہوں اور سمندر و مگر مچھوں کی آرزو رکھتا ہوں یعنی ا نکے درمیان رہ کر رزق حاصل کرنے کی آرزو رکھتا ہوں، یعنی اصل رزق تو وہ ہے جو جدوجہد سے ملے نہ کہ دوسروں کا بخشا ہوا۔

جانم ملول گشت ز فرعون و ظلمِ او
آں نورِ جیبِ موسیِٰ عمرانم آرزوست

میری جان فرعون اور اسکے مظالم کی وجہ سے ملول و دل گرفتہ ہے، مجھے عمران کے بیٹے موسیٰ کے گریبان کے نور(یدِ بیضا) کی آرزو ہے یعنی موجودہ زمانے کے فرعونوں کیلیے بھی معجزوں کے ساتھ کسی موسیٰ کی آرزو ہے۔

زیں ہمرہانِ سست عناصر دلم گرفت
شیرِ خدا و رستمِ دستانم آرزوست
ان سست عناصر والے (دنیا پرست) ہمراہیوں نے مجھے دل گرفتہ کر رکھا ہے، مجھے شیرِ خدا (ع) اور دستان کے بیٹے رستم کی آرزو ہے یعنی بلند ہمت، حوصلہ مند اور بے لوث لوگوں کی سنگت چاہیئے۔

گفتم کہ یافت می نشَوَد جستہ ایم ما
گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست
میں نے کہا، ہم جسے ڈھونڈتے ہیں وہ نہیں ملتا، اُس نے کہا کہ جو نہیں ملتا مجھے تو اسی کی آرزو ہے۔
----------

غزلِ فخر الدین عراقی

یک لحظہ دیدنِ رخِ جانانم آرزوست
یکدم وصالِ آں مہِ خوبانم آرزوست

ایک لحظہ کیلیے رُخِ جاناں دیکھنے کی آرزو ہے، ایک دم کیلیے اُس مہِ خوباں کے وصال کی آرزو ہے۔

جاناں، ز آرزوئے تو جانم بہ لب رسید
بنمائے رخ، کہ قوّتِ دل و جانم آرزوست

اے جاناں تیری آرزو میں میری جان لبوں تک آ گئی، میری طرف رُخ کر کہ میری آرزو ہے کہ میرے دل و جان کو تقویت پہنچے یعنی تیرے دیدار سے زندہ ہو جاؤں۔

ور لحظہ ‌ای بہ کوئے تو ناگاه بگذرم
عیبم مکن، کہ روضۂ رضوانم آرزوست

ایک لحظ کیلیے ناگاہ تیرے کوچے کی طرف سے گذر گیا، عیب مت کر مجھے روضۂ رضوان (جنت) کی آرزو ہے کہ تیرا کوچہ میرے لیے مانندِ جنت ہے۔

وز روئے آں کہ رونقِ خوباں ز روئے توست
دایم نظارهٔ رخِ خوبانم آرزوست

تیرا چہرہ کہ دنیا کے سب خوباں کی رونق تیرے چہرے ہی سے ہے، اور مجھے اس رخِ خوباں یعنی تیرے چہرے کے دائمی نظارے کی آرزو ہے۔

سودائے تو خوش است و وصالِ تو خوشتر است
خوشتر ازیں و آں چہ بوَد؟ آنم آرزوست

تیرا جنون (و ہجر) خوب ہے اور تیرا وصال خوب تر ہے، ان دونوں سے خوب تر اگر کوئی چیز ہے تو پھر مجھے اُسی کی آرزو ہے یعنی تیرے ہجر و وصال سے بڑھ کر کوئی چیز تو عاشق کیلیے ہو نہیں سکتی سو وہ اور کس چیز کی خواہش کرے۔

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Fakhruddin Iraqi, شیخ فخرالدین عراقی ایک خاکہ
شیخ فخرالدین عراقی - ایک خاکہ
Fakhruddin Iraqi
ایمان و کفرِ من همہ رخسار و زلفِ توست
در بندِ کفر مانده و ایمانم آرزوست

میرا ایمان اور کفر بس تیرے رخسار اور زلفیں ہیں (تیرے چہرے کا نور میرے لیے مانندِ نورِ ایمان ہے اور تیری زلفوں کی سیاہی مانندِ تاریکیِ کفر)، مجھے کفر کی قید (تیری زلفوں کی قید) اور ایمان (تیرے چہرے) کی آرزو ہے۔

دردِ دلِ عراقی و درمانِ من تو ای
از درد بس ملولم و درمانم آرزوست

عراقی کے دل کا درد اور اسکا درمان بھی فقط تو ہی ہے، اس دردِ دل (یعنی تیرے ہجر) سے بہت ملول ہوگیا ہوں اور اب اسکے درمان (تیرے وصال و دیدار) کی آرزو ہے۔
----------

غزلِ علامہ محمد اقبال

تیر و سنان و خنجر و شمشیرم آرزوست
با من میا کہ مسلکِ شبّیرم آرزوست
مجھے تیر و نیزہ و خنجر و شمشیر کی آرزو ہے، (اے دنیا پرست و آسائش پسند) میرے ساتھ مت آ کہ مجھے مسلکِ شبیر (ع) کی آرزو ہے۔

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال
علامہ محمد اقبال
Allama Iqbal
از بہرِ آشیانہ خس اندوزیَم نگر
باز ایں نگر کہ شعلۂ در گیرم آرزوست
ایک آشیانہ بنانے کیلیے میرا تنکا تنکا جمع کرنا دیکھ، اور پھر یہ بھی دیکھ کہ مجھے اس آشیانے کو جلا ڈالنے کی آرزو ہے۔

گفتند لب ببند و ز اسرارِ ما مگو
گفتم کہ خیر، نعرۂ تکبیرم آرزوست
اُس نے کہا کہ اپنے لب بند رکھ اور ہمارے اسرار کسی سے مت کہہ، میں نے کہا کہ خیر (میں آپ کی بات مان لیتا ہوں) لیکن مجھے نعرۂ تکبیر (اللہ اکبر) بلند کرنے کی آرزو ہے یعنی اسی ایک نعرے (اللہ کی کبریائی ببان کرنے) سے سب چھوٹے بڑے راز خود بخود ہی ظاہر ہو جاتے ہیں۔

گفتند ہر چہ در دِلَت آید ز ما بخواہ
گفتم کہ بے حجابیِ تقدیرم آرزوست
اُس نے کہا کہ جو کچھ بھی تیرے دل میں ہے ہم سے مانگ، میں نے کہا کہ میری آرزو یہ ہے کہ میری تقدیر مجھ پر بے حجاب یعنی آشکار ہو جائے۔

از روزگارِ خویش ندانم جز ایں قدَر
خوابم ز یاد رفتہ و تعبیرم آرزوست
اپنی زندگی کے بارے میں، میں کچھ نہیں جانتا لیکن صرف اتنا کہ ایک خواب تھا جو بُھول گیا اور اب اس بُھولے ہوئے خواب کی تعبیر کی آرزو ہے۔

کو آں نگاہِ ناز کہ اوّل دِلَم رَبُود
عُمرَت دراز باد، ہماں تیرم آرزوست
وہ نگاہِ ناز کدھر گئی کہ جس نے اوّل اوّل ہمارے دل کو لوٹا تھا، تیری عمر دراز ہو مجھے اُسی تیر (نگاہِ ناز) کی آرزو ہے (اسلام کے گم گشتہ عروج و قرنِ اول کی خواہش کر رہے ہیں اور بلند اقبالی کی دعا بھی دے رہے ہیں)۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔