Oct 31, 2010

کیا حال سناواں دل دا - کافی خواجہ غلام فرید

اس کافی میں کوئی سحر ہے اور میں بھی اسکے سحر میں لڑکپن کے زمانے سے گم ہوں جب پی ٹی وی پر اسے پٹھانے خان کی آواز میں پہلی بار سنا تھا، سمجھ تب بھی نہیں آئی تھی اور اب بھی نہیں آتی تھی کیونکہ سرائیکی میں ہے، تاوقتیکہ چند دن پہلے میرے ہاتھوں بی۔اے پنجابی کی ایک کتاب لگی اور اس میں یہ کافی ترجمے سمیت مل گئی۔ اس کافی کے ساتھ میری بہت سی یادیں وابستہ ہیں، ان کو دہرانے کا یہ محل نہیں ہے لیکن اپنے دل و دماغ میں تو تازہ کر ہی سکتا ہوں سو کر رہا ہوں، آپ بھی کیجیے۔

کیا حال سُناواں دِل دا
کوئی محرم راز نہ مِل دا

دلِ زار کا حال کیا سناؤں کہ کوئی محرم راز ہی نہیں ملتا۔

مونہہ دُھوڑ مٹی سر پایم
سارا ننگ نموج ونجایم
کوئی پُچھن نہ ویہڑے آیم
ہتھوں اُلٹا عالم کِھل دا

ننگ نموج - عزت و شرم، ونجایم - گم کرنا، ہتھوں - بلکہ، کھل دا - ہنستا ہے
اس عشق نے میرے چہرے اور سر میں مٹی ڈال دی ہے اور ساری عزت و شرم و وقار برباد ہو گیا ہے، اور کوئی بھی میرا یہ حال دیکھنے میرے گھر نہیں آیا بلکہ الٹا لوگ ٹھٹھا اور مذاق کرتے ہیں۔

آیا بھار برہوں سِر باری
لگی ہو ہو شہر خواری
روندے عمر گذاریم ساری
ناں پایم ڈس منزل دا

برہوں - ہجر، ڈس - سراغ
میرے سر پر ہجر کا بھاری بوجھ آن پڑا ہے، اور شہر شہر رسوائی اور خواری ہو رہی ہے، اور اسی حالت میں ساری عمر روتے روتے گزر گئی ہے لیکن پھر بھی منزل کا کوئی سراغ نہیں ملا۔

دل یار کِتے کُرلاوے
تڑپاوے تے غم کھاوے
دُکھ پاوے سُول نبھاوے
ایہو طَور تینڈے بیدل دا

میرا دل یار کی جدائی میں روتا ہے، تڑپتا ہے اور غم کھاتا ہے، دکھ سہتا ہے اور درد برداشت کرتا ہے، تیرے عاشق کی یہی حالت ہے۔

مزار خواجہ غلام فرید, Punjabi Poetry, پنجابی شاعری, Khawaja Ghulam Farid
Mazar Khawaja Ghulam Farid, مزار خواجہ غلام فرید
کئی سہنس طبیب کماون
سے پڑیاں گھول پیاون
مینڈے دل دا بھید نہ پاون
پوے فرق نہیں ہِک تِل دا

سہنس - تجربہ کار، سے - سو
کئی سیانے اور تجربہ کار طبیب مرا علاج کر رہے ہیں، سو سو دوائیں گھول گھول کر پلا رہے ہیں، لیکن وہ میرے دل کا راز نہیں پاتے اور انکے اس درمان سے مجھے کوئی ذرہ برابر فرق نہیں پڑتا۔

پُنوں ہُوت نہ کھڑ موکلایا
چھڈ کلہڑی کیچ سدھایا
سُوہنے جان پچھان رُلایا
کُوڑا عذر نبھایم گِھل دا

نہ کھڑ موکلایا - ساتھ نہ لے کے گیا، کُوڑا - جھوٹا، گِھل دا، کچی نیند کا
پنوں مجھے ساتھ نہیں لے کے گیا اور اکیلی چھوڑ کر کیچ چلا گیا ہے، اس کی جان پہچان نے رلایا ہے اور اس نے سب کچھ بھلا دیا ہے اور میں نے اس حالتِ زار میں کچی نیند کا جھوٹا بہانہ کر لیا ہے۔

سُن لیلیٰ دھانہہ پکارے
تینڈا مجنوں زار نزارے
سُوہنا یار توڑیں ہک وارے
کدی چا پردہ محمِل دا

دھانہہ -فریاد، زار نزار - غموں کا مارا ہوا، کمزور
اے لیلیٰ میری فریاد سن لے، تیرا یہ مجنوں غموں کا مارا ہوا ہے۔ اے دوست کبھی ایک بار محمل کا پردہ اٹھا کر مجھے اپنا دیدار عطا کر دے۔

دل پریم نگر ڈوں تانگھے
جتھاں پینڈے سخت اڑانگے
نہ یار فرید نہ لانگھے
ہے پندھ بہوں مشکِل دا

ڈوں - طرف، تانگھے - چاہے، اڑانگے - دشوار، لانگھے - رستے، پندھ - سفر
دل پریم نگر کی طرف جانے کی چاہ رکھتا ہے، لیکن وہاں کے راستے بڑے دشوار ہی ہیں اور فرید ادھر کی راہوں سے واقف نہیں ہے، یہ سفر بہت ہی مشکل ہے۔

کیا حال سناواں دل دا
کوئی محرم راز نہ مِل دا


اور پٹھانے خان کی خوبصورت گائیکی




مزید پڑھیے۔۔۔۔

Oct 14, 2010

اندھے

پنجابی کا ایک بڑا پیارا محاورہ ہے، "لیروں لیر کرنا"، پنجابی دوست اس محاورے کی روح تک پہنچ گئے ہوں گے، اردو میں اس کا قریب ترین مترادف شاید دھجیاں اڑانا ہوگا لیکن جو "لیروں لیر" کرنے میں مولوی مدن کی سی بات ہے وہ دھجیاں اڑانے میں کہاں۔ نہ جانے کیوں جب بھی "لیروں لیر" میرے ذہن میں آتا ہے تو ساتھ ہی "لیگوں لیگ" بھی آ جاتا ہے۔ اردو کے حروفِ تہجی گنتے جایئے ختم ہو جائیں گے لیکن مسلم لیگ کے ساتھ جڑے ہوئے حروف ختم نہیں ہونگے۔ لیگ کی تقسیم تو تقسیم سے پہلے ہی شروع ہو گئی تھی، جناح لیگ اور شفیع لیگ تاریخ پر نظر رکھنے والے احباب سے پوشیدہ نہیں ہونگی لیکن وہ دونوں واقعی لیڈر تھے اور پھر ان کے درمیان "بائنڈنگ فورس" کے طور پر علامہ بھی حیات تھے سو اتحاد ہو گیا، لیکن تقسیم کے بعد الامان و الحفیظ، لیگ نے باندیوں والا روپ دھار لیا اور اسکا حشر بھی ویسا ہی ہوا۔

اس معروضے سے یہ نہ سمجھا جائے کہ خاکسار پیپلز پارٹی کا حامی ہے، حامی ہونا تو دور کی بات مجھے تو اس پارٹی کے نام کا مطلب ہی ایک زمانے کے بعد سمجھ میں آیا، یادش بخیر، بچپن کے دن تھے، بھٹو مرحوم کو پھانسی دی گئی تو والدہ نے رو رو کر بُرا حال کر لیا، ماموں مرحوم انکے غم میں برابر کے شریک تھے لیکن اللہ جنت نصیب کرنے والدِ مرحوم، کہ "جماعتیے" تھے، برابر اپنے موقف پر اڑے رہے کہ جو بھی ہوا صحیح ہوا۔ نتیجتہً گھر کی فضا مکدر رہنے لگی لیکن پھر ایک جادو گر نے ایسا جادو کیا اور "اِس لام اُس لام" کا ایسا جنتر منتر کیا کہ والدہ اور ماموں بھی پکے لام لیگیے ہو گئے، لیکن گھر میں "پپل پارٹی پپل پارٹی" کی تکرار برابر ہوتی رہتی تھی اور یہ خاکسار انہی الفاظ کی جھنکار و تکرار میں پروان چڑھا۔

پپل پارٹی سے ہمیشہ میرے ذہن میں پپل (پیپل) کا درخت آتا تھا جو گھر کے باہر سڑک کے کنارے موجود تھا اور سارا دن اسکی چھاؤں میں کھیلتے گذر جاتا تھا۔ وہ بھی کیا دن تھے، گاؤں میں گھر کے اندر درخت ہوتے تھے اور محلوں میں گھر کے باہر، کہیں پیپل، کہیں ٹاہلی، کہیں کیکر اور کہیں "دریک" (نہ جانے اس کو اردو میں کیا کہتے ہیں)، اب تو مدت ہو گئی "دریک" کا درخت دیکھے ہوئے گو ٹاہلی اور کیکر پھر کہیں نظر آ جاتے ہیں۔ دریک پر جب اسکے "درکونے" لگتے تھے تو ان سے جیبیں بھر لی جاتی تھیں اور ہر آتے جاتے لڑکے کے سر میں چھپ کر "درکونا" مارنے کا لطف لیا جاتا تھا۔ درکونے، غلیلے کے طور پر بھی کام آتے تھے اور چھوٹی موٹی چڑیا اس سے مر بھی جاتی تھی، ہزاروں بار غلیل چلائی ہوگی لیکن مجھ سے تو آج تک ایک چڑیا بھی زخمی نہ ہوئی کہ ہمیشہ نشانہ خطا ہی ہوا بلکہ الٹا غلیل کا گوپیا اور اسکی ربر میرے دوسرے ہاتھ پر زور سے لگتی تھی اور میں "سی سی" کر اٹھتا تھا۔ لیکن آفرین ہے ان بندوقوں والوں پر، دہائیوں سے بندوقیں چلا رہے ہیں، شکار پر شکار کرتے چلے جا رہے ہیں، کبھی کوئی نشانہ خطا نہیں ہوا اور کبھی "بیک فائر" بھی نہیں ہوا۔

اسی پیپل کی چھاؤں میں اکثر بنٹے کھیلا کرتا تھا، دو یا چار حریف جب آمنے سامنے بیٹھ کر بنٹے کھیلتے تھے تو اکثر ایک یا دو یا عموماً چاروں ہی ایک نعرہ لگاتے تھے" یا بے ایمانی تیرا ہی آسرا"، یہ اس بات کی علامت ہوتا تھا کہ اس جنگ میں سب جائز ہے، کھیلتے سب تھے لیکن ہاتھ ایک مار جاتا تھا۔ ہڑبونگ اس وقت مچتی تھی جب کہیں سے اچانک بوڑھا ماما محمد حسین چھاپا مارتا تھا اور لڑکوں سے سارے بنٹے چھین کر قریب بہنے والی بڑی سی بدرو میں پھینک دیتا تھا۔

اپنے "اِس لامی جمہور (یا) پاکستان" کا بھی اس وقت کچھ یہی حال ہے، چاروں طرف سے "یا بے ایمانی تیرا ہی آسرا، یا بے ایمانی تیرا ہی آسرا" کے نعرے بلند ہو رہے ہیں اور ادھر ماما محمد حسین کہیں تاک میں لگا ہوا ہے، کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونا ہے، بہتر ہے اندھے ہی ہو جائیں۔ کہتے ہیں، ایک دفعہ میانوالی کے کسی دُور افتادہ گاؤں کے دو مُلّے کسی کام سے کراچی گئے اور وہاں ہاکس بے چلے گئے، کچھ دیر تو وہ دونوں مبہوت کھڑے وہاں کے "نظارے" دیکھتے رہے، پھر ایک دوسرے سے کہنے لگا، "اُوئے مام دینا میں تے انّاں ہو گیاں تُوں اکھاں بند کر لے"۔

----------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Oct 4, 2010

در حلقۂ فقیراں، قیصر چہ کار دارد؟ - شیخ فخرالدین عراقی کی ایک غزل

در حلقۂ فقیراں، قیصر چہ کار دارد؟
در دستِ بحر نوشاں، ساغر چہ کار دارد؟

فقیروں کی مجلس میں قیصر (و کسریٰ، بادشاہوں) کا کیا کام، دریا نوشوں کے ہاتھ میں ساغر کا کیا کام۔

در راہِ عشق بازاں، زیں حرف ہا چہ خیزد؟
در مجلسِ خموشاں، منبر چہ کار دارد؟

عشاق کی راہ میں، یہ الفاظ سے کیا اٹھتے ہیں ( ان کو عقل و دانش و وعظ و پند سے کیا واسطہ) کہ خاموشوں کی مجلس میں منبر کا کیا کام۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Fakhruddin Iraqi, شیخ فخرالدین عراقی ایک خاکہ
شیخ فخرالدین عراقی ایک خاکہ
Fakhruddin Iraqi
جائے کہ عاشقاں را درسِ حیات باشد
ایبک چہ وزن آرد؟ سنجر چہ کار دارد؟

اس جگہ جہاں عاشقوں کو درس حیات ملتا ہے، ایبک کا کیا وزن اور سنجر (یعنی بادشاہوں) کا کیا کام۔

جائے کہ ایں عزیزاں جامِ شراب نوشند
آبِ زلال چبود؟ کوثر چہ کار دارد؟

اور یہ عزیز (عشاق) جہاں جامِ شراب پیتے ہیں وہاں آب حیات کیا اور (آبِ) کوثر کیا۔

در راہِ پاکپازاں، ایں حرف ہا چہ خیزد؟
بر فرقِ سرفرازاں، افسر چہ کار دارد؟

پاکبازوں کی راہ میں یہ الفاظ سے کیا اٹھتے ہیں (انکی بے سر و سامانی پر) کہ کامیاب لوگوں کے سر پر تاج کا کیا کام ہے۔

دائم تو اے عراقی، می گوئی ایں حکایت
با بوئے مشکِ معنی، عنبر چہ کار دارد؟

اے عراقی تو ہمیشہ ہی ایسی حکایتیں کہتا رہ، کہ تیرے کلام کے معنی میں جو خوشبو ہے اسکے آگے عنبر کی خوشبو کیا۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔