Jul 21, 2011

کسی انسان کو اپنا نہیں رہنے دیتے - صغیر ملال

صغیر ملال مرحوم کی ایک خوبصورت غزل

کسی انسان کو اپنا نہیں رہنے دیتے
شہر ایسے ہیں کہ تنہا نہیں رہنے دیتے

ان سے بچنا کہ بچھاتے ہیں پناہیں پہلے
پھر یہی لوگ کہیں کا نہیں رہنے دیتے

پہلے دیتے ہیں دلاسہ کہ بہت کچھ ہے یہاں
اور پھر ہاتھ میں کاسہ نہیں رہنے دیتے

کبھی ناکام بھی ہو جاتے ہیں وہ لوگ کہ جو
واپسی کا کوئی رستہ نہیں رہنے دیتے

دائرے چند ہیں گردش میں ازل سے جو یہاں
کوئی بھی چیز ہمیشہ نہیں رہنے دیتے

جس کو احساس ہو افلاک کی تنہائی کا
دیر تک اس کو اکیلا نہیں رہنے دیتے

زندگی پیاری ہے لوگوں کو اگر اتنی ملال
کیوں مسیحاؤں کو زندہ نہیں رہنے دیتے

-----

بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)

اشاری نظام - 2212 2211 2211 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

کسی انسان کو اپنا نہیں رہنے دیتے
شہر ایسے ہیں کہ تنہا نہیں رہنے دیتے

کِ سِ انسا - فعلاتن - 2211
ن کُ اپنا - فعلاتن - 2211
ن ہِ رہنے - فعلاتن - 2211
دیتے - فعلن - 22

شہر ایسے - فاعلاتن - 2212
ہِ کہ تنہا - فعلاتن - 2211
ن ہِ رہنے - فعلاتن - 2211
دیتے - فعلن - 22

متعلقہ تحاریر : اردو شاعری, اردو غزل, بحر رمل, بحر رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع, تقطیع, صغیر ملال

4 comments:

  1. سبحان اللہ وارث بھائی !

    بہت خوبصورت غزل کا انتخاب کیا ہے آپ نے. پڑھ کر دل خوش ہو گیا۔

    صغیر ملال کے کچھ ہی اشعار میں نے پڑھے ہیں لیکن جتنا بھی پڑھا بہت اچھا لگا۔

    شکریہ اس عمدہ انتخاب کا۔

    ReplyDelete
  2. بہت شکریہ احمد صاحب۔

    ReplyDelete
  3. بہت خوب وارث بھائی
    اسے بھی ملاحظہ کیجیے:

    سوز غم، جوش جنوں، عشق بتاں رہنے دیا
    یعنی دل میں اک نہ اک چنگیز خاں رہنے دیا

    شاعر: نامعلوم

    ReplyDelete