Feb 25, 2011

وشوامتر - ناصر علی

یہ مضمون کچھ دن قبل فیس بُک پر ایک ادبی گروپ میں منعقدہ جناب ناصر علی کی کتاب "اور" کی تقریبِ رونمائی کیلیے لکھا گیا تھا، یہاں بھی اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں۔

------
بات کو ایک وضاحت سے شروع کرنے کے سوا میرے پاس کوئی چارہ نہیں ہے اور وہ یہ کہ خاکسار نہ تو کوئی نقاد ہے اور نہ ہی اس کا کتابوں پر مضمون لکھنے کا کوئی تجربہ ہے بلکہ کسی بھی کتاب پر مضمون لکھنے کا یہ پہلا تجربہ ہے۔، بلکہ پہلا تجربہ کیا مجھے تو کوئی کتاب بھی اس طرح زندگی میں پہلی بار ملی ہے، اس سے پہلے ایک دو ادبی جریدے ملے تھے لیکن کتاب کا ملنا ایک بالکل ہی نیا تجربہ تھا اور اس پر مستزاد مضمون لکھنا سو اس مضمون میں روایتی اور سکہ بند ادبی مضمونوں والی یقیناً کوئی بات نہیں ہوگی بلکہ کتاب پڑھ کر جو بھی میں نے محسوس کیا صاف صاف اور سیدھے سیدھے لفظوں میں لکھ دیا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں نے ناصر علی صاحب کی کتاب کو تختۂ مشق بنایا ہے، اور اس کا آپ کو پورا حق ہے، لیکن یہ بات کہنے کا مجھے بھی حق ہے کہ ناصر علی صاحب نے خود اپنی کتاب کو میرے ہاتھوں سے تختۂ مشق بنوایا ہے سو اس مضمون کے پردے سے جو کچھ بھی نکلے گا اس کی ساری ذمہ داری ناصر علی صاحب پر ہے۔

کوئی دو ہفتے ادھر کی بات ہے، شام کو تھکا ہارا اپنے کمرے میں بیٹھا تھا، حسبِ معمول سوچ رہا تھا کہ کیا پڑھوں، آزاد کی دربارِ اکبری شروع کر رکھی تھی لیکن اس کو پڑھنے کو دل نہیں کر رہا تھا، آزاد کی انشا پردازی اپنی جگہ لیکن کچھ معرکوں کو اتنی طوالت دی ہے کہ جی اوب جاتا ہے اور میں کتاب کے کسی ایسے ہی مقام پر تھا، ابھی انہی سوچوں میں تھا کہ آج کی رات کس کے ساتھ بسر کی جائے کہ فون کی گھنٹی بجی فون کسی اجنبی نمبر سے تھا، خیر سنا، آواز آئی۔ "ایک لاوارث، محمد وارث کو ڈھونڈ رہا ہے۔" یقین مانیے یہ شگفتہ جملہ سن کر ساری تھکاوٹ اور کلفت ہوا ہو گئی اور کچھ دیر تک خوب مزے کی گپ شپ ہوئی اور اگلی گفتگو کیلیے یہ بات تمہید ہو گئی۔ یہ تھا میرا ناصر علی صاحب سے تعارف، گو فیس بُک پر ان سے "آشنائی" تھی لیکن فیس بُک کی آشنائی کسی کالج یا یونیورسٹی کے مختلف جماعتوں کے طالب علموں کی آپس میں آشنائی جیسی ہی ہوتی ہے۔ اس پہلی گفگتو میں ناصر علی صاحب نے مجھے دو کتابیں بھیجنے کا مژدہ سنایا، ایک رفیع رضا صاحب کی اور ایک انکی اپنی "اور" جس کی تقریب کے سلسلے میں ہم سب موجود ہیں۔

خیر، ایک دو دن بعد دونوں کتابیں ملیں، اور جیسا کہ بہت سے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ ایک دم ہی سے کتاب ابتدا سے شروع نہیں کرتے، میں نے بھی کتاب کی ورق گردانی شروع کی جیسے جیسے اشعار نظر سے گزرتے گئے، میں سرشار ہوتا گیا اور غالب کا مصرع "میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے" بار بار دماغ میں تازہ ہوتا رہا۔ ناصر صاحب سے پھر بات ہوئی نے ان کا حکم تھا کہ اس پر کچھ لکھوں بھی۔

لکھنے کا ذہن میں آیا تو سب سے پہلے جو لفظ میرے ذہن میں آیا وہ "وشوامتر" تھا، یہ ہزاروں سال قبل کے ایک رشی کا نام، ہے جس کا لفظی فارسی ترجمہ علامہ اقبال نے "جاوید نامہ" میں "جہان دوست" کے نام سے کیا ہے۔ اور ناصر علی کی ذات اور کتاب پر مضمون کیلیے مجھے یہ نام انتہائی موزوں لگا کیونکہ ناصر علی جہان دوست ہیں۔ کچھ عرض کر دوں۔

علم دوست ایک اصطلاح ہے جو بہت مشہور ہے اور بہت فخر کے ساتھ استعمال کی جاتی ہے لیکن یہ علم دوست اصطلاح بہت گمراہ کن ہے، خالی خولی علم دوستی کسی کام کی نہیں ہے، کیونکہ صرف علم سے محبت ضروری نہیں کہ آدمی کو انسان بنا دے، علم آدمی کو وحشی درندہ بھی بنا سکتا ہے اور اس نے بنایا ہے، تاریخِ عالم اس بات پر گواہ ہے اور اسی لیے مولانا رُومی نے کہا تھا

علم را بر تن زنی مارے بُوَد
علم را بر دل زنی یارے بُوَد

علم دوستی کے ساتھ اگر انسان دوستی نہیں ہوگی تو وہ علم سانپ ہی بنے گا، اور اگر علم دوستی کے ساتھ انسان دوستی بھی شامل ہو جائے تو وہ جہان دوستی ہو جائے گی اور مجھے کہنے دیجیئے کہ ناصر علی کہ شاعری میں علم دوستی کے ساتھ انسان دوستی ہے اور وہ خود جہان دوست ہیں یعنی کہ وشوامتر۔ اور جو جہان دوست ہے وہ سب سے پیار کرے گا، اس جہان سے بھی جو "فتنہ و فساد" کی آماجگاہ ہے، دیکھیے گا کیا کہتے ہیں ناصر علی

جہانِ خوبصورت میں ہوا خوش
میں اس مٹی کی مورت میں ہوا خوش

میں لامکاں کے لیے کیوں مکاں کو رد کر دوں
زمیں اماں ہے میں کیسے اماں کو رد کر دوں

ایسا انسان دل کا صاف ہوگا

ناصر علی میں نے دلِ زندہ میں بہت کچھ
رکھا ہے مگر میل ملا کر نہیں رکھا

 اور از ناصر علی - سرورق

ایسا انسان دینِ محبت کا ماننے والا اور کیشِ انسانیت پر چلنے والا ہے

ہمارا دین تو ناصر علی محبت ہے
اسی طرح کے مسلمان میں خدا ملے گا

سامنے اس کے کھڑے ہو کے کھڑے کیا ہونگے
یار ہم لوگ محبت سے بڑے کیا ہونگے

زباں پہ لفظ، بدن میں لہو محبت ہے
تجھے خبر ہی نہیں ہے کہ تو محبت ہے

آدم زادو، سب کا اس میں فائدہ ہوگا
انسانیت تو سب کے مطلب کا حق ہے

ایسا انسان وسیع المشرب صوفی ہوگا، جو پکار پکار کر کہے گا کہ اے خدا کے بندو اگر کسی منزل کی تلاش ہی میں ہو تو اپنی نظر منزل پر رکھو، راہ اور راستے کے جھگڑوں میں کیوں پڑتے ہو، پیار محبت کے ساتھ بھی تو یہ راستے کاٹے جا سکتے ہیں

اس دنیا کے خالق کے گھر جانے والے
جتنے ہم ہیں اتنے رستے ہو سکتے ہیں

بجھاؤ پیاس مگر پیار کی سبیل کے ساتھ
بٹھاؤ لکشمی دیوی کو میکَئیل کے ساتھ

کچھ ایسا نقشۂ انسانیت بناؤ تم
کہ دیوتاؤں کا جھگڑا نہ ہو خلیل کے ساتھ

ایسا انسان دلوں کی خلیج کو پاٹے گا نہ کے رشتۂ الفت کو کاٹے گا، کہتے ہیں کسی نے بابا فرید کی خدمت میں ایک قینچی پیش کی، آپ نے کہا مجھے قینچی مت دو جو کاٹتی ہے بلکہ سوئی دو جو سیتی ہے، میں نے ناصر علی کو صوفی کہا تو غلط نہیں کہا

لگے جو ہاتھ قلندر ترا سوئی تاگا
دلوں کے بیچ پروتا رہوں دھمالوں کو

جہان دوست اور انسان دوست، حضرتِ انسان کی عظمت کے گن گائے گا، اس کا دل انسان کے لیے دھڑکے گا اور اس کا دماغ انسان کی فلاح اور امن کیلیے ہی سوچے گا، فقط انسان کیلیے

نہ خوف کھاؤ کہ اسلام کا ہے یہ قلعہ
بناؤ اپنا کلیسا اسی فصیل کے ساتھ

خدا کرے کہ مرے گیت ہوں فلسطینی
خدا کرے کہ انہیں گاؤں اسرَئیل کے ساتھ

ہمارے چشمۂ زم زم کو بھی خوشی ہوگی
اگر تجھے ترے اشنان میں خدا ملے گا

اور یہ بھی بتائے گا کہ اپنی اور انسان کی معرفت ہی خدا کی معرفت ہے

اسی تڑپ، اسی میلان میں خدا ملے گا
قریب آ، تجھے انسان میں خدا ملے گا

پکار حضرتِ انسان کے لیے لبیک
تجھے اسی رہِ آسان میں خد املے گا

اٹھائے پھرتا ہوں تسبیح بھی صلیب کے ساتھ
مجھے اسی سر و سامان میں خدا ملے گا

اور ایسا انسان اپنی ذاتی زندگی اور روزمرہ کی زندگی میں بھی انہی رویوں کا مالک ہوگا۔ اردو شاعری میں ماں کی عظمت اور ماں کی محبت پر بہت کچھ لکھا گیا ہے، باپ کی عظمت پر شاید ہی کوئی شعر میری نظر سے گزرا ہو، ناصر علی کا شعر دیکھیے

میں اپنے باپ سے ناصر علی بڑا خوش ہوں
یہ میرا باپ نہیں چار سو محبت ہے

اور یہ چار سو محبت خود ناصر علی کا روپ دھار لیتی ہے جب وہ خود بحیثیت شوہر اور باپ کے کہتا ہے

مرا نو سال کا بیٹا ہے ناصر
میں بیٹے کی حضورت میں ہوا خوش

میری بیوی مرے بستر پہ سنورتی ہوئی رات
میرا بیٹا، مرے ہاتھوں میں ہمکتا ہوا دن

اپنے گرتے ہوئے بالوں میں کہاں دیکھتا ہوں
زندگی میں تجھے بچوں میں رواں دیکھتا ہوں

اور ایسان انسان دوست اور جہان دوست انسان جب اپنے اردگرد ہمہ گیر مذہبی منافرت اور منافقت پھیلی ہوئی دیکھتا ہے تو بے اختیار چلا اٹھتا ہے

ڈرا رہے ہو بہت آتشِ جہنم سے
تمھارے دین کی لگتا ہے لاج آگ سے ہے

ارے یہ کوئی طریقہ ہے بات کرنے کا
وہاں کا ذکر کروں اور یہاں کو رد کر دوں

اور ایسا انسان اپنے معاشرے سے اور اس میں آکٹوپس کی طرح پھیلے ہوئے غلط اور بیمار ذہنیت کے مظہر رویوں سے، اور معاشرے کے معاشی، معاشرتی اور سیاسی معاملات سے کیسے لاتعلق رہ سکتا ہے سو ببانگِ دہل اظہار کرتا ہے

کبھی خیرات کے بل اور کبھی صدقات کے بل
پیر مشہور ہوا ایسی کرامات کے بل

عجب فسانۂ ھل من مزید سنتا ہوں
ذرا خدا نے جو دوزخ میں لات کی اور بس

کل شب سر میں درد تھا میرے، اور ہمسایے میں
اللہ ھُو، اللہ ھُو، اللہ ھُو نے تنگ کیا

آسماں نامِ خدا لگ گئے ہیں سات کے سات
اور زمیں نامِ زمیندار لگا دی گئی ہے

جدھر بھی جاؤں میں ناصر علی، تباہی ہے
وطن فسانۂ عاد و ثمود لگتا ہے

بتا رہی ہے لگی آگ شہر شہر مجھے
کہ بادشاہ سلامت کا تاج آگ سے ہے

ناصر علی اس شاہ کی ہم لوگ رعایا
جس شاہ کی تعظیم گرانی سے بھری ہے


خرد افروزی - جزا یا سزا

ایک الہامی کتاب میں ہے کہ آدم و حوا کو جنت سے اس لیے نکالا گیا کہ انہوں نے "نیک و بد" کی پہچان والے درخت کا پھل کھا لیا تھا سو وہ خدا کی مانند نیک و بد کی پہچان کرنے والے بن گئے سو بطورِ سزا جنت سے نکال دیے گئے۔

جی، نیک و بد کی پہچان یعنی عقل مندی اور خرد افروزی گناہ ہے اور سزا بھی رکھتی ہے۔ اور یہ صرف ایک مذہب کا حال نہیں ہے، تمام مذاہبِ عالم "عقل" کے خلاف ہی رہے ہیں۔ جب ابنِ رُشد نے کہا تھا کہ سچائیاں دو ہیں، ایک مذہب کی اور دوسری فلسفے کی تو ساری اسلامی علمی دنیا امام غزالی کی قیادت میں اسکے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی اور اسلامی دنیا میں ابنِ رشد کے اس خیال کی مکمل بیخ کنی کر دی گئی لیکن اسپین اور فرانس کے کچھ علما اور طلبا کے اذہان میں یہ خیال جڑ پکڑ گیا اور پھر باقاعدہ ایک تحریک بنی، اور فلسفے کی تاریخ میں یہ تحریک "ابنِ رشدیت" کے نام سے جانی گئی جس نے فلسفے اور سائنس کو کلیسا کی قید سے آزاد کروانے کی بنیاد رکھی۔

یہ معروضہ یوں ذہن میں آ گیا کہ کتاب کے مطالعے کے دوران مجھ پر یہ بھی انکشاف ہوا کہ ناصر علی کے شعروں میں کچھ سائنسی اور فلسفیانہ نظریات بھی آ گئے ہیں، نہ جانے کیسے۔ مجھے نہیں علم کہ ناصر علی نے خالص سائنس کا مطالعہ کس حد تک کیا ہے لیکن یہ ضرور جانتا ہوں کہ شاعروں کے الہام پر سائنسدان عش عش کر اٹھتے ہونگے۔ مثلاً یہ اشعار دیکھیے جن میں ناصر علی انہی باتوں کا اظہار کیا ہے۔

خوش ہو رہا ہوں، دانشِ انساں نے لے لیا
رستہ میانِ شمس و قمر اپنے ہاتھ میں

سائنس حواسِ خمسہ سے باہر کسی چیز کو نہیں مانتی۔

شعاعِ شوق کہے، آنچ کا بنا ہوا ہوں
مگر حواس کہیں، پانچ کا بنا ہوا ہوں

اس کائنات کا وجود ہی توازن پر ہے، توازن نہ ہو تو یہ کائنات پلک جھپکنے میں تباہ و برباد و فنا ہو جائے

مرے بدن کا توازن بتا رہا ہے مجھے
کہ میں ضرور کڑی جانچ کا بنا ہوا ہوں

--------
زمیں سے تا بہ خلا مستقل تحرّک ہے
سو طے ہوا ہے کہ ہیجان میں خدا ملے گا

مادہ کی سب سے چھوٹی اکائی کسی زمانے میں ایٹم تھی، پھر ایٹم بھی ٹوٹا اور اسکے اندر مزید چھوٹے ذرات دریافت ہو گئے، الیکڑون،پروٹان، نیوٹران، یہ بھی ٹوٹے مزید چھوٹے ذرے دریافت ہوئے۔ بات یہیں رکی نہیں، کوانٹم تھیوری نے ثابت کیا کہ مادہ ٹھوس حالت میں ہے ہی نہیں، بلکہ مادہ بھی متحرک لہروں یا ویوز سے بنا ہے، اب یہ ناصر علی کا الہام ہی ہے جو اوپر والا شعر ہوا۔

------
اے رہِ عمرِ رواں، کیا ابتدا، کیا انتہا
اک تسلسل ہے یہاں، کیا ابتدا، کیا انتہا

یہ شعر سٹیڈی اسٹیٹ تھیوری ہے کہ کائنات ازل سے یونہی ہے اور ابد تک یونہی رہے گی۔

-------
میں اک ایسا خط ہوں ناصر جس کو کھینچنے والا
جتنا سیدھا کھینچ لے اس میں خم رہ جاتا ہے

اس شعر میں مجھے لگتا ہے کہ ناصر علی نے انسانی خمیر میں جو روایتی ٹیڑھ ہے اسکا ذکر کیا ہے، اگر ایہام گوئی کا دور ہوتا تو میں کہتا کہ یہ قریب کے معنی ہیں، دُور کے معنی کچھ اور ہیں اور وہی شاعر کے پیشِ نظر ہیں کہ کسی زمانے میں دو متوازی اور سیدھی لائنوں کی تعریف یہ کی جاتی تھی کہ وہ کبھی بھی آپس میں نہیں ملتیں اور انفینٹی یا لامحدودیت تک ایسے ہی سیدھی اور متوازی رہیں گی۔ آئن سٹائن کے تھیوری آف ریلیٹی وٹی نے ثابت کیا ہے اس کائنات میں نامحسوس سا خم ہے، سو دو متوازی اور سیدھی لائنیں بھی کسی نہ کسی مقام پر آپس میں جا ملیں گی۔

اور از ناصر علی

روایتی شاعری سے متنفر ناصر علی

ذاتی طور پر مجھے عشق و محبت اور گل و بلبل کی حکایات سے پرخاش نہیں ہے، میں اسے بھی شاعری کا عظیم جزو مانتا ہوں بشرطیکہ وارداتِ قلبی شاعر کی اپنی ہو، احساسات اسکے اپنے ہوں، اندازِ بیاں اسکا اپنا ہو، خیال آفرینی کی طرف اسکی توجہ ہو اور اس سے ہم انکار بھی نہیں کر سکتے کیونکہ جتنے انسان ہیں اتنے ہی سب کے اپنے اپنے منفرد احساسات ہیں سو ان کو سننے میں کچھ حرج نہیں۔

لیکن صرف شعر برائے شعر کہنا اور وہ بھی کسے سچے جذبے کے بغیر واقعتاً جگالی ہی ہے، ناصر علی اس حقیقت کا مکمل ادراک رکھتے ہیں اور اسکا اظہار بھی کرتے ہیں۔

چھوڑو ابہام کی باتیں فقط اتنا سوچو
شاعروں نے بھی یہاں شعر گھڑے کیا ہونگے

اے کسی حسنِ تغزّل کو ترستی ہوئی آنکھ
شعر بنتا ہے مری جان کسی بات کے بل

تمھارے شعر کے پچّیس تیس مضموں ہیں
جگالتے ہو مسلسل انھی خیالوں کو

سمجھ پڑے جو یہاں نوجواں دماغوں کو
تمھارے شعر میں ایسی زبان ہے کہ نہیں

غزل میں عشق و محبت کی بات کی اور بس
خراب ایک حسینہ کی ذات کی اور بس

مت یوں ہی لفظ ڈھال شعروں میں
بات دل سے نکال شعروں میں

غزل غزل وہی مضمون باندھتے ہیں ہم
غزل غزل وہی طرزِ کہن چلی ہوئی ہے

بات کو زلفِ گرہ گیر سے باندھا ہوا ہے
شعر کو حسن کی تفسیر سے باندھا ہوا ہے

اور آخر میں ناصر علی کی کتاب میں موجود غزلوں کی زمینوں اور ردیفوں کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہونگا کہ کتاب پڑھتے ہوئے یہ خوشگوار احساس بھی قاری کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہے کہ جو شاعر دوسروں کو جگالی کرنے سے منع کر رہا ہے وہ خود بھی اس "گناہ" سے پاک ہے۔ ناصر علی کی زمینیں منفرد اور انکی اپنی ہیں، ردیفیں جو بقول مولانا شبلی نعمانی اردو فارسی شاعری میں سم و تال کا سا کام دیتی ہیں وہ انتہائی خوبصورت ہیں، میں چاہ رہا تھا کہ ان ردیفوں کی نشاندہی کر دوں لیکن مضمون کی طوالت کے خوف سے قلم زد کرتا ہوں کہ جو احباب کتاب دیکھ چکے ہیں وہ جانتے ہی ہیں اور جو دیکھیں گے وہ جان جائیں گے۔

محمد وارث
سیالکوٹ
20.02.2011

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 21, 2011

رباعی کے حوالے سے کچھ استفسارات اور میرے جوابات

رباعی کے اوزان کے حوالے سے اس خاکسار نے ایک مضمون لکھا تھا "رباعی کے اوزان پر ایک بحث"، اسی مضمون کے حوالے سے فیس بُک پر ایک دوست نے کچھ استفسارات کیے تھے، وہ اور ان کا جواب لکھ رہا ہوں۔

استفسار: یہ جو ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ "لا حول ولا قوۃ الا باللہ " رباعی کا وزن ہے ۔۔ تو کیا یہ چوبیس اوزان میں سے ایک ہے ؟ اور وہ وزن کیا ہے ؟

جواب: دراصل قرآن مجید کی چند ایک آیات  اور کچھ احادیث ایسی ہیں جو اتفاقاً کسی نہ کسی وزن پر موزوں ہو جاتی ہیں۔  انہی میں سے حدیث کا یہ کلمہ بھی ہے کہ رباعی کے ایک وزن پر آ جاتا ہے۔

اسکی تقطیع کچھ یوں ہے

لا حول و لا قوّۃ الا باللہ

لا حولَ - مفعول
و لا قو وَ - مفاعیل
تَ اِل لا بل - مفاعیلن
لا ہ - فاع

یعنی اسکا وزن 'مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع' ہے۔

بعض لوگ ضرورت شعری کے تحت اللہ کی ہ گرا دیتے ہیں اس صورت میں آخری رکن فاع کی جگہ فع آ جائے گا اور یوں بھی رباعی کا وزن ہی رہے گا لیکن یہاں ایسی کوئی ضرورت نہیں ہے سو بہتر ہے کہ اللہ کا مکمل وزن لیا جائے۔

یہ رباعی کا ایک انتہائی مستعمل وزن ہے، اور اساتذہ عموماً رباعی کے سلسلے میں سب سے پہلے یہی وزن یاد کروایا کرتے تھے۔

مولانا الطاف حسین حالی کی ایک رباعی جس میں انہوں نے یہ وزن باندھا ہے

کیا پاس تھا قولِ حق کا، اللہ اللہ
تنہا تھے، پہ اعدا سے یہ فرماتے تھے شاہ
میں اور اطاعتِ یزیدِ گمراہ
لا حَولَ و لا قُوّۃَ الّا باللہ

استفسار: غالب کی مشہور رباعی جس پر ماہرین عروض نے اعتراض کیا ہے

دل رک رک کر بند ہوگیا ہے غالب

اور کہا جاتا ہے کہ اس میں ایک " رک " کا لفظ زیادہ ہے ۔۔ اس بارے میں وارث صاحب کی رائے کیا ہے

جواب: غالب کی مذکورہ رباعی کی بھی دلچسپ صورتحال ہے۔

دُکھ جی کے پسند ہو گیا ہے غالب
دل رک رک کر بند ہو گیا ہے غالب
واللہ کہ شب کو نیند آتی ہی نہیں
سونا سوگند ہو گیا ہے غالب

کہا جاتا ہے کہ رباعی کے اوزان پر گرفت بہت مشکل ہے اور بڑے بڑے شاعر بھی اسکے اوزان کے بارے میں خطا کر جاتے ہیں جیسے کہ غالب سا شاعر بھی کہ اوپر والی رباعی میں دوسرا مصرع رباعی کے وزن سے خارج ہے۔

غالب کے مذکورہ مصرعے پر سب سے پہلے یہ اعتراض علامہ نظم طباطبائی نے اپنی شرح دیوانِ غالب میں کیا تھا اور اسکے بعد سے 'سخن فہموں' اور 'غالب کے طرف داروں' میں اس پر خوب خوب بحث ہوئی ہے۔

میرے لیے حیرت اور مزے کی بات یہ ہے کہ مولانا غلام رسول مہر نے اپنے مرتب کردہ دیوانِ غالب اور اپنی شہرہ آفاق شرح 'نوائے سروش' دونوں میں یہ رباعی لکھتے ہوئے ایک 'رُک' دوسرے مصرعے سے نکال دیا ہے گویا اپنی طرف سے تصحیح کر دی ہے اور اسکی متنازعہ حیثیت پر بالکل بھی بحث نہیں کی ہے حالانکہ مستند یہی ہے کہ غالب نے ' رک رک کر' ہی کہا ہے۔

یہ بات بھی بالکل ٹھیک ہے کہ اگر مذکورہ مصرعے میں سے ایک 'رک' نکال دیا جائے تو مصرعہ وزن میں آ جاتا ہے۔ لیکن اس پر دو اعتراض ہیں ایک تو یہ کہ اگر مصرعہ اس طرح کر دیا جائے

دل رُک کر بند ہو گیا ہے غالب

تو وزن میں ضرور آئے گا لیکن اس مصرعے کی ساری دلکشی ختم ہو جائے گی بلکہ 'فضول سا' مصرعہ ہو جائے گا۔ دوسرا یہ کہ غالب سے قادر الکلام شاعر کو کیا علم نہیں تھا کہ مصرع بے وزن ہو رہا ہے اور رباعی کے اوزان میں نہیں آ رہا؟

مولانا نجم الدین غنی رامپوری نے علمِ عروض پر اپنی شہرہ آفاق کتاب 'بحر الفصاحت' میں بھی یہ اعتراض غالب کے مصرعے پر کیا ہے اور اسکا جواب اس کتاب کے مرتب سید قدرت نقوی نے دیا ہے۔ انہوں نے اس پر ایک علیحدہ سے مضمون بھی لکھا ہے جو کہ افسوس میری نظر سے نہیں گزرا۔

قدرت نقوی صاحب کے بقول لفظ 'بند' گو فارسی کا لفظ ہے اور وتد ہے یعنی اسکا وزن 'فاع' ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ غالب نے اس لفظ کا ہندی استعمال کیا ہے اور 'بند' کی نون کو نون فارسی کی بجائے مخلوط نون سمجھا ہے، اور جیسا کہ اہلِ علم جانتے ہیں کہ نون مخلوط کا کوئی وزن نہیں ہوتا جیسا کہ لفظ 'آنکھ' میں اس نون کا کوئی وزن نہیں ہے سو نقوی صاحب کے بقول غالب نے اس کو سبب باندھا ہے یعنی 'بند' کا وزن 'بد' یا 'فع' لیا ہے۔

اگر نقوی صاحب کے مفروضے کو مان لیا جائے تو پھر غالب کا مصرع وزن میں آ جاتا ہے یعنی

دل رک رک کر بند ہو گیا ہے غالب

دل رک رک - مفعولن
کر بد ہُ - مفعول
گیا ہے غا - مفاعیلن
لب - فع

یعنی اسطرح یہ مصرع 'مفعولن مفعول مفاعیلن فع' کے وزن پر آ کر موزوں ہو جاتا ہے۔

اس خاکسار کی بھی رائے میں یہ غالب کی عروضی غلطی نہیں ہے، یہ ماننا بہت مشکل ہے کہ غالب کو رباعی کے اوزان کا علم نہ ہو، بلکہ یہ غالب کی اجتہادی غلطی ہے کہ انہوں نے مصرعے کی دلکشی برقرار رکھنے کیلیے 'بند' کا غلط وزن لے لیا ہے، کیونکہ بہرحال بند میں نون مخلوط نہیں ہے بلکہ یہ لفظ فارسی کا ہے اور اس میں نون فارسی ہے جیسے 'رنگ' جنگ وغیرہ میں۔

استفسار: اقبال کی دو بیتیاں جنہیں عرف عام میں رباعی بھی کہا جاتا ہے اور غالبا" اقبال نے انہیں خود بھی رباعی کہا ہے ۔ اور وہ رباعی کے اوزان میں نہیں آتے ۔کیا ان سے قطعات کو رباعی کہنے کا جواز نکلتا ہے؟ مثلاً "تراشیدم، پرستیدم، شکستم" والا قطعہ۔

جواب: یہ بات تو طے ہے کہ رباعی اور قطعے میں بنیادی فرق وزن کا ہی ہے، باقی فرق ضمنی سے ہیں۔ جو دو شعر رباعی کے مذکورہ چوبیس اوزان میں ہیں وہ رباعی ہے وگرنہ قطعہ۔

اگر اس فرق کو روا نہ رکھیں تو پھر رباعی بہ حیثیت صنف کے ختم ہی جائے گی لہذا اس خاکسار کی ذاتی رائے میں اقبال نے اپنی دو بیتوں یا قطعات کو جو اپنی کتابوں میں رباعی لکھا ہے تو اس سے قطعے کو رباعی کہنے کا جواز نہیں نکلتا۔

لیکن اس بات سے ایک بڑا اہم سوال یہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ پھر اقبال نے ان دو بیتوں یا قطعات کو رباعی کیوں کہا اور ان کی زندگی میں ہی جو اردو اور فارسی کتب طبع ہوئیں ان کو رباعی ہی لکھا ہے گویا یہ انکی اجازت سے لکھا گیا ہے حالانکہ وہ رباعی کے اوزان میں نہیں ہے۔ تو پھر کیا وجہ تھی؟ یہ تو ممکن نہیں ہے کہ وہ رباعی کے اوزان کو نہ جانتے ہوں۔

خاکسار کے محدود علم میں ایسی کوئی کتاب یا مضمون نہیں گزرا جس میں اقبال سے اس بابت میں استفسار کیا گیا ہو کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ اگر علامہ کا جواب مل جاتا تو بات صاف ہو جاتی ہے لیکن اس کی غیر موجودگی ظاہر ہے ہم صرف قیاس ہی کر سکتے ہیں کہ علامہ نے ایسا کیوں کیا۔

میرے نزدیک، رباعی کا چونکہ لغوی مطلب چار مصرعے والی ہے تو ہو سکتا ہے کہ اقبال نے اس وجہ سے ان قطعات کو رباعی لکھ دیا ہو۔

ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ فارسی کے ایک قدیم اور مشہور شاعر ہیں بابا طاہر عریاں، انہوں نے صرف رباعیات ہی کہی ہیں اور انکے کلام کو 'دو بیتی' بھی کہا جاتا ہے اور رباعی بھی حالانکہ وہ رباعی کے مروجہ اوزان میں نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اقبال نے انکے تتبع میں ایسا کیا ہو۔ واللہ اعلم بالصواب

لیکن ایک بات تو طے ہے کہ فارسی کے قدیم شعرا سے لیکر ہمارے عہد کے شعرا تک، جتنے بھی مشہور رباعی گو شعرا ہیں انہوں نے جب بھی رباعی کہی رباعی کے اوزان میں ہی کہی سو رباعی اور قطعہ میں فرق ضروری ہے۔

--------

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 3, 2011

رباعی کے اوزان پر ایک بحث

رباعی بھی خاصے کی چیز ہے، قدما اس کے چوبیس وزن بنا گئے سو عام شعرا کو اس سے متنفر کرنے کیلیے یہی کافی ہے کہ رباعی کے چوبیس وزن ہیں، حالانکہ اگر تھوڑا سا تدبر و تفکر کیا جائے اور ان اوزان کو ایک خاص منطقی ترتیب اور انداز سے سمجھا جائے تو ان اوزان کو یاد رکھنا اور ان پر عبور حاصل کرنا کچھ مشکل نہیں ہے، اور یہ مضمون بنیادی طور پر اسی موضوع پر ہے جس میں رباعی کے اوزان کو ایک خاص ترتیب سے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ایک عرض یہ کرتا چلوں کہ ضروری نہیں کہ ایک رباعی میں مخلتف اوزان ہی اکھٹے کیے جائیں، اگر ایک ہی وزن میں چاروں مصرعے ہوں تو پھر بھی رباعی ہے اور اگر ایک ہی وزن میں بیسیوں رباعیاں ہوں تو پھر بھی رباعیاں ہی ہیں لیکن اس میں مختلف اوزان کو اکھٹا کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ شاعر اپنے مافی الضمیر کو بہتر سے بہتر انداز میں اور مختلف الفاظ کے چناؤ کے ساتھ بیان کر سکتا ہے اور پھر بنیادی طور ان اوزان میں فرق بھی بہت تھوڑا ہے، جس سے آہنگ پر فرق نہیں پڑتا، مثال کے طور پر، چوبیس میں سے بارہ اوزان تو صرف فع کو فاع اور فعِل کو فعول سے بدلنے سے حاصل ہو جاتے ہیں، تفصیل انشاءاللہ نیچے آئے گی۔

رباعی کی بحر، افاعیل اور انکی ترتیب

رباعی کی بحر، بحرِ ہزج ہے جسکا بنیادی رکن 'مفاعیلن' ہے اور اسی مفاعیلن کے مختلف وزن ہی، جو مختلف زحافات کے استعمال سے حاصل ہوتے ہیں، اس میں استعمال ہوتے ہیں۔

رباعی میں دس افاعیل آتے ہیں، جو کہ مفاعیلن ہی سے حاصل ہوتے ہیں، زحافات کے نام اور ان کے استعمال کا طریقہ لکھ کر اس مضمون کو بالکل ہی ناقابلِ برداشت نہیں بنانا چاہتا، صرف افاعیل لکھ رہا ہوں۔

1- مفاعیلن
2- مفاعیل
3- مفعولن
4- مفاعلن
5- مفعول
6- فاعلن
7- فعول
8- فَعِل
9- فاع
10- فع

اس میں نوٹ کرنے کی خاص بات یہ ہے کہ 'فعولن' اس فہرست میں نہیں ہے، یعنی فعولن جو کہ مفاعیلن سے حاصل ہونے والا ایک انتہائی مستعمل رکن ہے وہ رباعی میں نہیں آتا، اگر آئے گا تو رباعی کا وزن خراب ہو جائے گا۔

کسی بھی مثمن بحر کی طرح، رباعی کی بحر کے بھی چار رکن ہیں یعنی

صدر (یا ابتدا)، حشو، حشو، عرض (یا ضرب)

اور نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ اوپر والے دس افاعیل میں سے جو بھی چار بحر میں استعمال ہونگے انکی اس بحر کی ترتیب میں اپنی اپنی جگہ مخصوص ہے، جیسے

- صدر یعنی پہلے رکن میں ہمیشہ مفعول آئے گا یا مفعولن، کوئی اور رکن نہیں آ سکتا۔

- ضرب یعنی چوتھے رکن میں ہمیشہ فع، فاع، فعِل اور فعول میں سے کوئی ایک آئے گا، اور کوئی رکن نہیں آ سکتا۔

- مفاعلن اور فاعلن ہمیشہ پہلے حشو یعنی دوسرے رکن میں ہی آئیں گے، اور کسی بھی جگہ نہیں آ سکتے۔

- مفاعیلن اور مفاعیل دونوں حشو میں یعنی دوسرے اور تیسرے رکن میں آسکتے ہیں، کسی اور جگہ نہیں آتے۔

- مفاعیلن اور مفاعیل کے علاوہ، مفعولن، مفعول بھی دونوں حشو میں آ سکتے ہیں۔

اسکے علاوہ، رباعی کے مختلف افاعیل کی ترتیب یاد رکھنے میں قدما کا جو کلیہ سب سے اہم ہے وہ کچھ یوں ہے جو کہ مرزا یاس یگانہ نے اپنی کتاب "چراغِ سخن" میں لکھا ہے۔

سبب پئے سبب و وتد پئے وتد

یوں سمجھیے کہ یہی رباعی کے اوزان کی کلید ہے یعنی ایک سبب کے بعد ہمیشہ سبب آئے گا اور ایک وتد کے بعد ہمیشہ وتد آئے گا، مثال کے طور پر، ایک شاعر ایک رباعی شروع کرتا ہے اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ رباعی یا تو مفعول سے شروع ہوگی یا مفععولن سے۔

فرض کریں، رباعی مفعول سے شروع ہوتی ہے، یعنی پہلا رکن مفعول ہو گیا، اب دوسرے رکن میں جو تمام افاعیل آ سکتے ہیں وہ یہ ہیں

مفاعیلن
مفاعیل
مفاعلن
مفعولن
مفعول
فاعلن

اب اس بنیادی کلیے کو ذہن میں رکھیے کہ سبب کے بعد سبب اور وتد کے بعد وتد، پہلا رکن مفعول ہے جو کہ وتد پر ختم ہو رہا ہے سو اگلا رکن لازمی وتد سے شروع ہوگا، اوپر والی فہرست میں جو افاعیل وتد سے شروع ہو رہے ہیں وہ یہ ہیں

مفاعیلن
مفاعیل
مفاعلن

یعنی مفعول کے بعد اب صرف ان تین میں سے کوئی رکن آئے گا، فرض کریں مفاعیل آیا اور ہمارے پاس دو رکن ہو گئے یعنی

مفعول مفاعیل

اب مفاعیل بھی وتد پر ختم ہو رہا ہے سو اگلا رکن بھی لازمی وتد سے شروع ہوگا، یہ پھر تین ہیں، مفاعیلن، مفاعیل، مفاعلن لیکن ہم جانتے ہیں کہ مفاعلن تیسرے رکن میں نہیں آ سکتا سو مفاعیلن اور مفاعیل میں سے کوئی آئے گا، فرض کریں مفاعیلن لیا تو اب تین رکن ہو گئے

مفعول مفاعیل مفاعیلن

اب رہ گیا چوتھا رکن، جس میں فع، فاع، فعِل اور فعول ہی آ سکتے ہیں، کلیہ ذہن میں رکھیے، مفاعیلن سبب پر ختم ہو رہا ہے سو اگلا رکن سبب سے شروع ہوگا، وہ فع ہے سو رباعی کا وزن مل گیا

مفعول مفاعیل مفاعیلن فع

اب کسی بھی بحر کی طرح، آخری رکن میں عملِ تسبیغ کی یہاں بھی اجازت ہے سو فع کو فاع کریں اور دوسرا وزن بھی مل گیا

مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع

اوپر والے کلیات کو استعمال کرتے ہوئے ہم نے رباعی کے دو وزن حاصل کر لیے، اب انہی کی مدد سے ہم رباعی کے سارے وزن یعنی چوبیس حاصل کریں گے۔

اساتذہ نے رباعی کو دو شجروں میں تقسیم کیا ہے، جو رباعی مفعول سے شروع ہوتی ہے، اسکے بارہ اوزان کو شجرۂ اخرب کہتے ہیں اور جو رباعی مفعولن سے شروع ہوتی ہے اسکے بارہ اوزان کو شجرۂ اخرم کہتے ہیں، اور یہ دونوں نام بھی زحافات کے نام پر ہیں۔ یہاں ایک وضاحت یہ کہ بعض قدیم اساتذہ نے اخرب اور اخرم اوزان کو ایک ہی رباعی میں باندھنے سے منع کیا ہے، لیکن اس بات کو کوئی بھی رباعی گو شاعر نہیں مانتا اور بلاتکلف اخرب اور اخرم کے اوزان ایک ہی رباعی میں جمع کرتے ہیں۔

شجرۂ اخرب اور اسکے بارہ اوزان

ان اوزان کو شجرہ کہا جاتا ہے لیکن اس خاکسار کے محدود مطالعے میں عروض کی کوئی ایسی کتاب نہیں ہے جس میں اس کو ایک شجرہ کی طرح واضح کیا گیا ہو، خاکسار یہ کوشش کر رہا ہے، ممکن ہے کسی کتاب میں اسے اس صورت میں لکھا گیا ہو، شجرے کی تصویر دیکھیے، تصویر کو بڑا دیکھنے کیلیے اس پر کلک کیجیے۔

urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, رباعی اوزان شجرہ اخرب, Rubai

اب اس شجرہ کو اوپر والے اصولوں کی روشنی میں کھول کر بیان کرتا ہوں۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس شجرہ میں پہلے رکن میں ہمیشہ مفعول آتا ہے جو وتد پہ ختم ہوتا ہے سو اگلا رکن مفاعیلن، مفاعیل اور مفاعلن ہونگے جو کہ وتد سے شروع ہوتے ہیں، سب سے پہلے مفاعیلن کو لیتے ہیں سو

مفعول مفاعیلن

یہ سبب پر ختم ہوا سو اگلا رکن لازمی سبب سے شروع ہوگا جو کہ تین ہیں یعنی مفعولن، مفعول اور فاعلن لیکن ہم جانتے ہیں کہ تیسرے رکن میں فاعلن نہیں آ سکتا سو صرف دو رہ گئے، مفعولن اور مفعول اور ان دو افاعیل سے یہ اوزان حاصل ہوئے

مفعول مفاعیلن مفعولن
مفعول مفاعیلن مفعول

اب مفعولن سبب پر ختم ہوا سو اگلا رکن فع ہوگا جو کہ سبب ہے سو پہلا مکمل وزن مل گیا

مفعول مفاعیلن مفعولن فع (وزن نمبر 1)

فع کو فاع سے بدلیں دوسرا وزن حاصل ہو گیا

مفعول مفاعیلن مفعولن فاع (وزن نمبر 2)

اب تیسرے رکن میں مفعول کو لیں تو یہ وتد پر ختم ہوا سو چوتھا رکن وتد سے شروع ہوگا جو فعِل ہے سو

مفعول مفاعیلن مفعول فعِل (وزن نمبر 3)

فعِل کو فعول سے بدل لیں، ایک اور وزن مل گیا

مفعول مفاعیلن مفعول فعول (وزن نمبر 4)

اب پھر دوسرے رکن پر چلتے ہیں اور اگلے چار وزن حاصل کرتے ہیں، مفعول کے بعد مفاعیل لائے یعنی

مفعول مفاعیل

مفاعیل وتد پر ختم ہوا سو اگلا رکن وتد سے شروع ہوگا، مفاعلن یہاں نہیں آ سکتا سو مفاعیلن یا مفاعیل ہونگے یعنی

مفعول مفاعیل مفاعیلن
مفعول مفاعیل مفاعیل

مفاعیلن سبب پر ختم ہوا سو فع آئے گا یعنی

مفعول مفاعیل مفاعیلن فع (وزن نمبر 5)

مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع (وزن نمبر 6)


تیسرے رکن میں مفاعیل لائیے جو وتد پر ختم ہوا سو اگلا رکن فعِل ہوا

مفعول مفاعیل مفاعیل فعِل (وزن نمبر 7)

مفعول مفاعیل مفاعیل فعول (وزن نمبر 8)


آٹھ وزن مل گئے، اگلے چار دوسرے رکن میں مفاعلن لانے سے ملیں گے یعنی

مفعول مفاعلن

یہ بھی وتد پر ختم ہوا سو اگلا رکن وتد سے شروع ہوگا جو کہ دو ہیں، مفاعیلن اور مفاعیل کیونکہ مفاعلن تیسرے رکن میں نہیں آ سکتا

مفعول مفاعلن مفاعیلن
مفعول مفاعلن مفاعیل

مفاعیلن کے ساتھ فع آئے گا سو

مفعول مفاعلن مفاعیلن فع (وزن نمبر 9)

مفعول مفاعلن مفاعیلن فاع (وزن نمبر 10)

مفاعیل کے ساتھ فعِل آئے گا سو

مفعول مفاعلن مفاعیل فعِل (وزن نمبر 11)

مفعول مفاعلن مفاعیل فعول (وزن نمبر 12)

گویا ایک خاص ترتیب سے چلتے ہوئے ہمیں رباعی کے بارہ وزن مل گئے، اگلے بارہ وزن شجرہ اخرم کے ہیں اور اسی طرح حاصل ہونگے۔


شجرۂ اخرم اور اسکے بارہ اوزان

پہلے اس شجرہ کی تصویر دیکھ لیں، بڑا دیکھنے کیلیے اس پر کلک کیجیے۔

urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, رباعی اوزان شجرہ اخرم, Rubai

جیسا کہ ہمیں علم ہے کہ یہ شجرہ ہمیشہ مفعولن سے شروع ہوتا ہے جو کہ سبب پر ختم ہوتا ہے سو دوسرا رکن سبب ہی سے شروع ہوگا، جو کہ تین ہیں، مفعولن، مفعول اور فاعلن۔ مفعولن سے شروع کرتے ہیں

مفعولن مفعولن

یہ بھی سبب پر ختم ہوا سو تیسرا رکن بھی سبب سے شروع ہوگا، وہ دو ہیں، مفعولن اور مفعول کیونکہ فاعلن یہاں نہیں آ سکتا سو

مفعولن مفعولن مفعولن
مفعولن مفعولن مفعول

مفعولن سبب پر ختم ہوا سو لازمی طور پر اگلا رکن سبب سے شروع ہوگا جو فع ہے سو

مفعولن مفعولن مفعولن فع (وزن نمبر 1)

اور فع کو فاع سے بدلیں تو

مفعولن مفعولن مفعولن فاع (وزن نمبر 2)

تیسرے رکن میں مفعول لائیں جو وتد پر ختم ہوا سو چوتھا رکن لازمی فعِل ہوگا سو

مفعولن مفعولن مفعول فعِل (وزن نمبر 3)

اور فعِل کو فعول سے بدلیں تو

مفعولن مفعولن مفعول فعول (وزن نمبر 4)

اب واپس دوسرے رکن پر چلتے ہیں اور مفعولن کے بعد مفعول لاتے ہیں یعنی

مفعولن مفعول

اب مفعول وتد پر ختم ہوا، تیسرا رکن لازمی وتد سے شروع ہوگا، یہ تین ہیں، مفاعیلن مفاعیل اور مفاعلن لیکن ہم جانتے ہیں کہ مفاعلن کبھی بھی تیسرے رکن میں نہیں آئے گا سو دو رہ گئے، مفاعیلن اور مفاعیل یعنی

مفعولن مفعول مفاعیلن
مفعولن مفعول مفاعیل

مفاعیلن کے بعد فع آیا تو

مفعولن مفعول مفاعیلن فع (وزن نمبر 5)

اور

مفعولن مفعول مفاعیلن فاع (وزن نمبر 6)

اب تیسرے رکن میں مفاعیل لائیں تو یہ وتد پر ختم ہوا سو اسکے بعد فعِل آیا یعنی

مفعولن مفعول مفاعیل فعِل (وزن نمبر 7)

اور مفعولن مفعول مفاعیل فعول (وزن نمبر 8)

اب واپس دوسرے رکن کی طرف چلتے ہیں وہاں ہم فاعلن کو چھوڑ آئے تھے، اس کو لائیں گے تو مزید چار وزن مل جائیں گے۔

مفعولن فاعلن

فاعلن وتد پر ختم ہوا سو اگلا رکن مفاعیلن، مفاعیل یا مفاعلن ہوگا، مفاعلن باہر ہوگیا تو مفاعیلن اور مفاعیل رہ گئے

مفعولن فاعلن مفاعیلن
مفعولن فاعلن مفاعیل

مفاعیلن کے بعد فع آیا تو

مفعولن فاعلن مفاعیلن فع (وزن نمبر 9)

اور

مفعولن فاعلن مفاعیلن فاع (وزن نمبر 10)

تیسرے رکن میں مفاعیل لائے تو اسکے بعد فعِل آیا سو

مفعولن فاعلن مفاعیل فعِل (وزن نمبر 11)

اور مفعولن فاعلن مفاعیل فعول (وزن نمبر 12)

اور یوں ہمیں 'سبب پئے سبب و وتد پئے وتد" کے اصول اور افاعیل و ارکان کی خاص ترتیب پر چلتے ہوئے دونوں شجروں کے بارہ بارہ اوزان یعنی کل چوبیس وزن مل گئے۔

یہ وہ طریقہ جس کو سمجھتے ہوئے اس خاکسار نے رباعی کے اوزان کو سمجھا، اسکے علاوہ بھی کئی ایک طریقے ہیں لیکن میں نے اس میں کوشش کی ہے کہ اوزان کو ایک خاص منطقی ترتیب سے لاؤں، امید ہے قارئین کیلیے یہ طریقہ رباعی کے اوزان سمجھنے کیلیے کارآمد اور فائدہ مند ہوگا۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔