Mar 17, 2012

متفرق فارسی اشعار - 5

غلط گفتی "چرا سجّادۂ تقویٰ گِرو کردی؟"
بہ زہد آلودہ بودم، گر نمی کردم، چہ می کردم؟

(یغمائے جندقی)

تُو نے یہ غلط کہا ہے کہ "پارسائی کا سجادہ (پیر مغاں کے پاس) گروی کیوں رکھ دیا؟"۔ میں زہد سے آلودہ ہو گیا تھا اگر ایسا نہ کرتا تو کیا کرتا؟
-----

حافظ از بادِ خزاں در چمنِ دہر مرنج
فکرِ معقول بفرما، گلِ بے خار کجاست

(حافظ شیرازی)

حافظ، زمانے کے چمن میں خزاں کی ہوا سے رنج نہ کر، صحیح بات سوچ، بغیر کانٹے کے پھول کہاں ہے؟
-----

شمع خود را می گدازَد درمیانِ انجمن
نورِ ما چوں آتشِ سنگ از نظر پنہاں خوش است

(میر رضی دانش)

شمع انجمن میں اپنا جلوہ دکھاتی ہے (اور صبح تک ختم ہو جاتی ہے)، ہمارا نور آتشِ سنگ کی طرح نظر سے پنہاں ہے لیکن اچھا ہے (کہ دائمی ہے)۔
-----

مَپُرس وجہ سوادِ سفینہ ہا غالب
سخن بہ مرگِ سخن رس سیاہ پوش آمد

غالب، میری بیاضوں کی سیاہی کا سبب مت پوچھ، (کہ میری) شاعری سخن شناس انسانوں کی موت پر سیاہ (ماتمی) لباس پہنے ہوئے ہے۔

(غالب دھلوی)
-----

شاخِ نہالِ سدرۂ، خار و خسِ چمن مَشو
منکرِ او اگر شدی، منکرِ خویشتن مشو

(علامہ اقبال)

تُو سدرہ کے پودے کی شاخ ہے، چمن کا کوڑا کرکٹ مت بن، اگر تُو اُس کا منکر ہو گیا ہے تو اپنا منکر تو نہ بن۔
-----

جاں بہ جاناں کی رسد، جاناں کُجا و جاں کُجا
ذرّه است ایں، آفتاب است، ایں کجا و آں کجا

(ھاتف اصفہانی)

(اپنی) جان، جاناں پر کیا واروں کہ جاناں کہاں اور (میری) جان کہاں۔ یہ (جان) ذرہ ہے، (وہ جاناں) آفتاب ہے، یہ کہاں اور وہ کہاں۔
-----

رباعی

در کعبہ اگر دل سوئے غیرست ترا
طاعت ہمہ فسق و کعبہ دیرست ترا
ور دل بہ خدا و ساکنِ میکده ‌ای
مے نوش کہ عاقبت بخیرست ترا

(ابوسعید ابوالخیر)

کعبہ میں اگر تیرا دل غیر کی طرف ہے، (تو پھر) تیری ساری طاعت بھی سب فسق ہے اور کعبہ بھی تیرے لیے بتخانہ ہے۔ اور (اگر) تیرا دل خدا کی طرف ہے اور تو (چاہے) میکدے میں رہتا ہے تو (بے فکر) مے نوش کر کہ (پھر) تیری عاقبت بخیر ہے۔
-----

من تو شُدم تو من شُدی، من تن شُدم تو جاں شُدی
تا کس نہ گوید بعد ازیں، من دیگرم تو دیگری

(امیر خسرو دہلوی)

میں تُو بن گیا ہوں اور تُو میں بن گیا ہے، میں تن ہوں اور تو جان ہے۔ پس اس کے بعد کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں اور ہوں اور تو اور ہے۔
-----

دل کہ جمع است، غم از بے سر و سامانی نیست
فکرِ جمعیّت اگر نیست، پریشانی نیست

(نظیری نیشاپوری)

دل (خاطر) جمع ہے، سو بے سر و سامانی کا کوئی غم نہیں ہے، اگر جمع کرنے کی فکر نہ ہو تو (دنیا میں) کوئی پریشانی نہیں ہے۔
-----

آں کیست نہاں در غم؟ ایں کیست نہاں در دل؟
دل رقص کناں در غم، غم رقص کناں در دل

(جگر مراد آبادی، شعلۂ طور)

وہ کیا ہے جو غم میں چُھپا ہے، یہ کیا ہے جو دل میں چُھپا ہے، (کہ) دل غم میں رقص کناں ہے، اور غم دل میں رقص کناں ہے۔
-----

متعلقہ تحاریر : فارسی شاعری

2 comments: