May 26, 2012

غزل - زندگی سے نظر ملاؤ کبھی - پروین شاکر

پروین شاکر کی ایک خوبصورت غزل

زندگی سے نظر ملاؤ کبھی
ہار کے بعد مسکراؤ کبھی

ترکِ اُلفت کے بعد اُمیدِ وفا
ریت پر چل سکی ہے ناؤ کبھی

اب جفا کی صراحتیں بیکار
بات سے بھر سکا ہے گھاؤ کبھی

شاخ سے موجِ گُل تھمی ہے کہیں
 ہاتھ سے رک سکا بہاؤ کبھی

Parveen Shakir, پروین شاکر. Urdu Poetry, Urdu Ghazal, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, اردو شاعری، اردو غزل، علم عروض، تقطیع
Parveen Shakir, پروین شاکر
اندھے ذہنوں سے سوچنے والو
 حرف میں روشنی ملاؤ کبھی

بارشیں کیا زمیں کے دُکھ بانٹیں
آنسوؤں سے بجھا الاؤ کبھی

اپنے اسپین کی خبر رکھنا
کشتیاں تم اگر جلاؤ کبھی

(پروین شاکر)

-------


بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن مُفاعِلُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)۔ تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)

اشاری نظام - 2212 2121 22
ہندسوں کو اردو رسم الخط کے مطابق پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 2212 پہلے پڑھیے۔ اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

زندگی سے نظر ملاؤ کبھی
ہار کے بعد مسکراؤ کبھی

زندگی سے - فاعلاتن - 2212
نظر ملا - مفاعلن - 2121
ؤ کبی - فَعِلن - 211

ہار کے بع - فاعلاتن - 2212
د مسکرا - مفاعلن - 2121
ؤ کبی - فَعِلن - 211
---------

متعلقہ تحاریر : اردو شاعری, اردو غزل, بحر خفیف, پروین شاکر, تقطیع

10 comments:

  1. بارشیں کیا زمیں کے دُکھ بانٹیں
    آنسوؤں سے بجھا الاؤ کبھی

    بہت خوب وارث بھائی بہت اچھی غزل کا انتخاب کیا ہے آپ نے۔

    ReplyDelete
  2. غزل تو خوبصورت ہے ہی مگر آپ کی تشریح کے بعد اس کی خوبصورتی اور کھل کر سامنے آئی ہے۔
    مشورہ
    آپ کے بلاگ کا بائیں طرف والا کالم کچھ زیادہ طوالت پکڑ گیا ہے۔ آپ یا تو تین کالمی بلاگ بنالیں اور بائیں کالم کا آدھا بوجھ دائیں کالم پر ڈال دیں۔
    وقتی طور پر آپ مضمون والے کالم میں ایک سے زیادہ تحاریر بھی دکھا سکتے ہیں اس طرح اس کی لمبائی بائیں کالم جتنی ہو جائے گی اور بائیں کالم کو آخر تک اکیلے پن کا احصاس نہیں ہو گا۔

    ReplyDelete
  3. بہت اچھا کام کر رہے ہیں آپ۔کیا آپ آپ علامہ اقبال کی نظم مسجد قرطبہ کی نظم کی بحر پر روشنی ڈلیں گے
    نیازمند
    کے اشرف

    ReplyDelete
  4. بہت شکریہ آپ سب دوستوں کا، نوازش۔

    افضل صاحب آپ کے مشورے پر یقیناً عمل کرنے کو کوشش کرونگا۔

    خواجہ اشرف صاحب اقبال کی نظم مسجد قرطبہ بحر منسرح مثمن مطوی مکسوف میں ہے اور افاعیل مفتعلن فاعلن مفتعلن فاعلن ہیں۔ یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتی ہے اور ہر ٹکڑے میں مسبغ رکن آ سکتا ہے یعنی یہاں دونوں فاعلن کو فاعلان میں بدلا جا سکتا ہے،

    سلسلہٴ روز و شب ، نقش گرِ حادثات
    سلسلہٴ روز و شب ، اصلِ حيات و ممات

    سلسلہٴ - مفتعلن
    روز شب - فاعلن
    نقش گ رے - مفتعلن
    حادثات - فاعلان

    ReplyDelete
  5. وارث بھائی، کیا یاد کروا دیا آپ نے۔ زندگی میں پہلی و آخری بڑی شکست کے بعد میں نے کسی کو یہ غزل لکھ کر دی تھی۔ "اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے"

    ReplyDelete
  6. فہد صاحب چلیں اسی بہانے آپ کی کچھ یادیں تازہ ہوئیں ناگوار ہی سہی لیکن یادیں تو ہیں
    :)

    ReplyDelete
  7. بہت اچھا انتخاب ہے۔

    ReplyDelete
  8. شکریہ آپ کا کوثر بیگ صاحبہ

    ReplyDelete