May 21, 2012

متفرق فارسی اشعار - 6

حسنِ یوسف، دمِ عیسٰی، یدِ بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا داری

(مولانا عبدالرحمن جامی)

آپ (ص) رکھتے ہیں یوسف (ع) کا حسن، عیسٰی (ع) کا دم (وہ الفاظ جس سے وہ مردوں کو زندہ کرتے تھے) اور موسٰی (ع) کا سفید ہاتھ والا معجزہ یعنی کہ وہ تمام کمالات جو باقی سب حسینوں (نبیوں) کے پاس تھے وہ تنہا آپ (ص) کی ذات میں اللہ نے جمع کر دیئے۔
--------

با ہر کمال اندکے آشفتگی خوش است
ہر چند عقلِ کل شدۂ بے جنوں مباش

(عبدالقادر بیدل)

ہر کمال کے ساتھ ساتھ تھوڑی آشفتگی (عشق، دیوانگی) بھی اچھی (ضروری) ہے، ہر چند کہ تُو عقلِ کُل ہی ہو جائے، جنون کے بغیر مت رہ۔
--------

از من بگیر عبرت و کسبِ ہنر مکن
با بختِ خود عداوتِ ہفت آسماں مخواہ

(عرفی شیرازی)

مجھ سے عبرت حاصل کر اور ہنر پیدا کرنے کا خیال چھوڑ دے، تو کیوں چاہتا ہے کہ سات آسمانوں کی دشمنی خواہ مخواہ مول لے لے۔
--------

ز خود آنرا کہ پادشاہی نیست
بر گیاہیش پادشاہ شمار

(حکیم سنائی)

جس شخص کو اپنی ذات پر حکمرانی نہیں تو اسے صرف گھاس پر بادشاہ شمار کرو (وہ ایک ایسا بادشاہ ہے جس کے پاس کچھ  اختیار نہیں۔)
--------

گر دلے داری بہ دلبندی بدہ
ضایع آں کشور کہ سلطانیش نیست

(سعدی شیرازی)

اگر دل رکھتا ہے تو اسے کسی دلدار کو دے دے، ضایع ہو جاتی ہے وہ سلطنت کہ جسکا کوئی سلطان نہ ہو۔
--------

حسنِ تو دیر نپاید چو ز خسرو رفتی
گل بسے دیر نماند چو شد از خار جدا

(امیر خسرو)

تیرا حسن زیادہ دیر تک قائم نہیں رہے گا، جب تو خسرو کے پاس سے چلا گیا کہ جب کوئی پھول کانٹے سے دور ہو جاتا ہے تو وہ زیادہ دیر تک نہیں رہتا۔
--------

تُو و طوبٰی و ما و قامتِ یار
فکرِ ہر کس بقدرِ ہمّتِ اوست

تو اور طوبیٰ (کا خیال) ہے میں (ہوں) اور دوست کا قد و قامت، ہر کسی کی فکر اسکی ہمت کے اندازے کے مطابق ہوتی ہے۔
--------

سرکشی با ہر کہ کردی رام او باید شدن
شعلہ ساں از ہر کجا برخاستی آنجانشیں

(ابو طالب کلیم کاشانی)

تُو نے جس کے ساتھ سرکشی کی ہے پھر اس کی اطاعت کر لے، شعلے کی طرح جس جگہ سے اٹھا تھا اُسی جگہ پر بیٹھ جا۔
--------


Persian poetry with Urdu Translation, Farsi Poetry with Urdu Translation, Allama Iqbal Persian poetry with urdu translation, فارسی شاعری مع اردو ترجمہ، اقبال کی فارسی شاعری مع اردو ترجمہ
رباعی

احوالِ جہاں بر دلم آساں می کُن
و افعالِ بدم ز خلق پنہاں می کن
امروز خوشم بدارد، فردا با من
آنچہ ز کرمِ توی سزد آں می کن

(عمر خیام)

(اے خدا)، زمانے کے حالات میرے دل کیلیئے آسان کر دے، اور میرے بُرے اعمال لوگوں (کی نظروں) سے پنہاں کر دے، میرا آج (حال) میرے لیئے بہت خوش کن ہے اور کل (مستقبل) میرے حق میں، جیسا تیرا (لطف و رحم و) کرم چاہے ویسا ہی کر دے۔
--------

اوّل‌ آں‌ کس‌ کہ‌ خریدار شدش‌ مَن‌ بُودم‌
باعثِ‌ گرمیِ بازار شدش‌ من بودم‌

(وحشی بافقی)

سب سے پہلا وہ کون تھا جو اسکا خریدار بنا، میں (آدم، آدمی) تھا۔ اسکے بازار کی گرمی کا باعث میں بنا تھا۔
--------

بیا بہ مجلسِ اقبال و یک دو ساغر کش
اگرچہ سر نتراشد قلندری داند

(اقبال لاہوری)

اقبال کی مجلس (محفل) کی طرف آؤ اور ایک دو ساغر کھینچو، اگرچہ اس کا سر مُنڈھا ہوا نہیں ہے (لیکن پھر بھی) وہ قلندری رکھتا (قلندری کے اسرار و رموز جانتا) ہے۔
--------

درمیانِ قعرِ دریا تختہ بندم کردہ ای
باز می گوئی کہ دامن تر مکن ہشیار باش

(شاعر۔ نا معلوم)

دریا کی منجدھار میں مجھے تختے پر باندھ کر چھوڑ دیا ہے اور پھر کہتے ہو کہ خبردار ہشیار رہنا تمھارا دامن تر نہ ہونے پائے۔
--------

متعلقہ تحاریر : فارسی شاعری

9 comments:

  1. واہ، بہت خوب اشعار کا انتخاب کیا ہے آپ نے، اور آپ کی بدولت یہ اشعار ہمیں سمجھ بھی آگئے۔ اس تحریر کا آخری شعر وہ پہلا فارسی شعر ہے جو میں نے اپنے چچا سے سنا تھا اور جو مجھے بہت پسند ہے اور مجھے ہمیشہ یاد رہتا ہے۔

    ReplyDelete
  2. شکریہ احمد صاحب۔ مذکورہ شعر واقعی بہت مشہور ہے اور میں نے بہت عرصہ پہلے پڑھا تھا غالب کے نام سے لیکن غالب کے فارسی کلیات میں یہ شعر نہیں ملا۔

    ReplyDelete
  3. درمیانِ قعرِ دریا تختہ بندم کردہ ای
    باز می گوئی کہ دامن تر مکن ہشیار باش

    وارث صاحب یہ شعر اکبر الہ آبادی کا ہے۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. اکبر الہ آبادی کی ایک مزاحیہ نظم میں یہ آخری شعر کوٹیشن مارک میں ہے ممکن ہے کسی اور کا ہو

      Delete
    2. جی بلاشبہ کسی اور ہی کا ہے کیونکہ یہ شعر ان کتب میں بھی موجود ہے جو اکبر الہ آبادی سے پہلے کی ہیں۔

      Delete
  4. بہت شکریہ جناب اسد صاحب اور بلاگ پر خوش آمدید۔

    ReplyDelete
  5. Replies
    1. اساتذہ کے کلام کا لفظی ترجمہ کرنے سے مفہوم نہیں سمجھ آتا۔ بلکہ بسا اوقات مفہوم معدوم ہو جاتا ہے۔ جیسے حافظ کا شعر : تُو و طوبی ما و قامت یار ۔ اصل میں تو مفہوم یہ ہے کہ ملا کی دوڑ مسجد تک - تخیل کی اڑان بس بسات کے مطابق ہی ہوتی ہے ۔ شکریہ اچھے اشعار شیر کرنے کا

      Delete