Jul 24, 2012

روش روش پہ ہیں نکہت فشاں گُلاب کے پھول- مجید امجد

مجید امجد کی ایک خوبصورت غزل

روش روش پہ ہیں نکہت فشاں گُلاب کے پھول
حسیں گلاب کے پھول، ارغواں گُلاب کے پھول

اُفق اُفق پہ زمانوں کی دُھند سے اُبھرے
طیور، نغمے، ندی، تتلیاں، گلاب کے پھول

کس انہماک سے بیٹھی کشید کرتی ہے
عروسِ گُل بہ قبائے جہاں، گلاب کے پھول

جہانِ گریۂ شبنم سے کس غرور کے ساتھ
گزر رہے ہیں، تبسّم کناں، گلاب کے پھول

یہ میرا دامنِ صد چاک، یہ ردائے بہار
یہاں شراب کے چھینٹے، وہاں گلاب کے پھول

کسی کا پھول سا چہرہ اور اس پہ رنگ افروز
گندھے ہوئے بہ خمِ گیسواں، گلاب کے پھول

خیالِ یار، ترے سلسلے نشوں کی رُتیں
جمالِ یار، تری جھلکیاں گلاب کے پھول
Majeed Amjad, مجید امجد, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, Urdu Poetry, Urdu Shairi, اردو شاعری، علم عروض، تقطیع، بحر، بحر مجتث
Majeed Amjad, مجید امجد

مری نگاہ میں دورِ زماں کی ہر کروٹ
لہو کی لہر، دِلوں کا دھواں، گلاب کے پھول

سلگتے جاتے ہیں چُپ چاپ ہنستے جاتے ہیں
مثالِ چہرہِ پیغمبراں گلاب کے پھول

یہ کیا طلسم ہے یہ کس کی یاسمیں باہیں
چھڑک گئی ہیں جہاں در جہاں گلاب کے پھول

کٹی ہے عمر بہاروں کے سوگ میں امجد
مری لحد پہ کھلیں جاوداں گلاب کے پھول

(مجید امجد)
-----

قافیہ - آں یعنی الف نون غنہ اور ان سے پہلے زبر کی آواز جیسے فشاں، ارغواں، تتلیاں، دھواں وغیرہ۔

ردیف - گلاب کے پھول

بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
(آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فعِلان بھی آ سکتے ہیں)

علامتی نظام - 2121 / 2211 / 2121 / 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 2121 پہلے ہے اور اس میں بھی 1 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)

پہلے شعر کی تقطیع -

روش روش پہ ہیں نکہت فشاں گُلاب کے پھول
حسیں گلاب کے پھول، ارغواں گُلاب کے پھول

روش روش - مفاعلن - 2121
پ ہِ نکہت - فعلاتن - 2211
فشا گلا - مفاعلن - 2121
ب کِ پھول - فَعِلان - 1211

حسی گلا - مفاعلن - 2121
ب کِ پھولر - فعلاتن - 2211، الف کا وصال یا سقوط ہوا ہے۔
غوا گلا - مفاعلن - 2121
ب کِ پھول - فَعِلان - 1211
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jul 19, 2012

زبورِ عجم سے علامہ اقبال کی ایک فارسی غزل مع اردو ترجمہ- دلِ بے قیدِ من با نورِ ایماں کافری کردہ

دلِ بے قیدِ من با نورِ ایماں کافری کردہ
حرم را سجدہ آوردہ، بتاں را چاکری کردہ

میرے بے قید دل نے ایمان کے نور کے ساتھ کافری کی ہے کہ سجدہ تو حرم کو کرتا ہے لیکن چاکری اور غلامی بتوں کی کرتا ہے۔

متاعِ طاعتِ خود را ترازوے برافرازد
ببازارِ قیامت با خدا سوداگری کردہ

(زاہد، عابد، صوفی) اپنے اطاعت کے مال و متاع کو ترازو میں تولتا ہے، گویا کہ قیامت کے بازار میں خدا کے ساتھ سوداگری کرتا ہے۔ اس خیال کا اظہار علامہ نے اپنے اردو اشعار میں بھی کیا ہے اور ان سے پہلے بھی بہت سے شعرا نے کیا ہے کہ خدا کی اطاعت بغیر کسی لالچ کے ہونی چاہیے۔

زمین و آسماں را بر مرادِ خویش می خواہد
غبارِ راہ و با تقدیرِ یزداں داوری کردہ

انسان زمین و آسمان کو اپنی من چاہی خواہشات کے مطابق دیکھنا چاہتا ہے حالانکہ وہ راہ کے گرد و غبار جیسا ہے اور پھر بھی خدا کی تقدیر کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے۔

گہے با حق در آمیزد، گہے با حق در آویزد
زمانے حیدری کردہ، زمانے خیبری کردہ

(بے یقینی اور تذبذب میں مبتلا انسان) کبھی تو حق کے ساتھ گھل مل جاتا ہے اور کبھی حق کے مخالف ہو جاتا ہے اور اس سے مقابلہ کرتا ہے یعنی کسی لمحے حضرت علی ع کی طرح حیدری کرتا ہے اور دوسرے لمحے خیبر کے مرحب کی طرح ہو جاتا ہے جس نے حضرت علی سے مقابلہ کیا تھا۔ دوسرے مصرعے میں تلمیح تو ہے ہی، تشبیہ بھی بہت خوبصورت ہے۔
Allama Iqbal, علامہ اقبال, Allama Muhammad Iqbal, Allama Iqbal Persian-Farsi poetry with Urdu Translation, Ilm-e-Arooz, Ilm--e-Urooz, Taqtee, Behr, علم عروض، تقطیع، بحر، بحر ہزج، بحر ہزج مثمن سالم، علامہ اقبال کی فارسی شاعری مع بمع اردو ترجمہ، علامہ محمد اقبال
Allama Iqbal, علامہ اقبال

بایں بے رنگیٴ جوہر ازو نیرنگ می ریزد
کلیمے بیں کہ ہم پیغمبری ہم ساحری کردہ

(حق ناشناس اور دو رنگی میں مبتلا آدمی سے) اپنے جوہر کی بے رنگی کے باوجود نیرنگ کا ظہور ہوتا رہتا ہے یعنی وہ ایک ایسے کلیم کی مانند ہے جو پیغمبری بھی کرتا ہے اور ساحری بھی کرتا ہے۔

نگاہش عقلِ دُوراندیش را ذوقِ جنوں دادہ
ولیکن با جنونِ فتنہ ساماں نشتری کردہ

اُسکی نگاہ نے دوراندیش عقل کو ذوقِ جنوں دیا لیکن فتنہ سامان جنون کے ساتھ نشتری بھی کی یعنی اس کو نشتر لگائے۔ عجب خوبصورت شعر ہے کہ ایک طرف اُس کی نگاہ اگر عقل کو ذوق جنون دیتی ہے تو دوسری طرف جنون کو بھی نشتر لگا لگا کر قابو میں رکھتی ہے۔

بخود کے می رسد ایں راہ پیمائے تن آسانے
ہزاراں سال منزل در مقامِ آزری کردہ

خود تک کیسے پہنچ سکتا ہے یہ تن آسان راہ چلنے والا کہ وہ ہزاروں سال مقامِ آزر میں ہی بیٹھا رہا۔ یعنی انسان کی اصل منزل یہ ہے کہ وہ خود تک پہنچے اور اس کیلیے ضروری ہے کہ جہدِ مسلسل میں لگا ہی رہے اور راہ کی آرام دہ جگہوں پر بیٹھا ہی نہ رہے۔

(علامہ محمد اقبال، زبورِ عجم)
------

قافیہ - آری یعنی ری اور اُس سے پہلے زبر کی آواز، یعنی کافری، چاکری، سوداگری وغیرہ
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ری سے پہلے زبر کی آواز قافیہ ہے تو اصل لفظ تو کافِر ہے یعنی فے کے نیچے زیر ہے تو زبر کیسے آئی تو اسکا جواب یہ ہے کہ لفظ کافر عربی میں تو کافِر ہی ہے لیکن فارسی اور اردو میں فے کی زبر کے ساتھ یعنی کافَر بھی استعمال ہوتا ہے جیسے، مرزا غالب نے پتھر، ساغر اور  پر کا قافیہ کافَر کیا ہے، اسی طرح اس غزل میں بھی ہے۔

ردیف۔ کردہ

بحر - بحر ہزج مثمن سالم

افاعیل - مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن

علامتی نظام - 2221 / 2221 / 2221 / 2221
(ہندسوں کو اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 1 پہلے اور 222 بعد میں)

تقطیع -

دلِ بے قیدِ من با نورِ ایماں کافری کردہ
حرم را سجدہ آوردہ، بتاں را چاکری کردہ

دِلے بے قے - مفاعیلن - 2221
دِ من با نُو - مفاعیلن - 2221
ر ایما کا - مفاعیلن - 2221
فری کردہ - مفاعیلن - 2221

حرم را سج - مفاعیلن - 2221
دَ آوردہ - مفاعیلن - 2221
بتا را چا - مفاعیلن - 2221
کری کردہ -مفاعیلن - 2221
------


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jul 16, 2012

متفرق فارسی اشعار - 7

مولانا ابو الکلام آزاد نے "غبارِ خاطر" میں امیر الامرا شریف خان شیرازی کا یہ شعر لکھا ہے:

بگذر مسیح، از سرِ ما کُشتگانِ عشق
یک زندہ کردنِ تو بصد خوں برابرست

(اے مسیح، ہم عشق کے ہلاک شدگان کر سر پر سے گذر جا کہ تیرا ایک مردہ کو زندہ کرنا، (کسی کے ارمانوں کے) سو خون کرنے کے برابر ہے۔

مالک رام دہلوی نے "غبارِ خاطر" کے حواشی میں مغل شہنشاہ جہانگیر (جو کہ شاعر بھی تھا) کی کتاب "توزکِ جہانگیری" کے حوالے سے اس شعر کے متعلق مندرجہ ذیل واقع لکھا ہے۔ جو میں اپنے ترجمے کے ساتھ لکھ رہا ہوں۔

"جہانگیر لکھتا ہے کہ جب یہ شعر میرے سامنے پڑھا گیا تو بے اختیار میری زبان پر یہ شعر آ گیا:

از من متاب رُخ کہ نِیَم بے تو یک نَفَس
یک دل شکستنِ تو بصد خوں برابرست

(میری طرف سے منہ مت پھیر کہ تیرے بغیر میں ایک لحظہ بھی نہیں ہوں، تیرا ایک دل کو توڑنا، سو خون کرنے کے برابر ہے۔ )

اس پر دربار کے سب موزوں طبع نے ایک ایک شعر کہہ کر پیش کیا، ان میں ملّا علی احمد مُہرکَن کا یہ شعر بھی تھا:

اے محتسب ز گریۂ پیرِ مغاں بترس
یک خم شکستنِ تو بصد خوں برابرست"

(اے محتسب، پیرِ مغاں کی آہ و زاری پر ترس کھا کہ تیرا ایک جام کو توڑنا، سو خون کرنے کے برابر ہے)۔
------

میانِ عاشق و معشوق ہیچ حائل نیست
تو خود حجابِ خودی حافظ از میاں بر خیز

(حافظ شیرازی)

عاشق اور معشوق کے درمیان کوئی بھی چیز قطعاً حائل نہیں ہے، اے حافظ تو خود ہی اپنا حجاب ہے سو درمیان سے اٹھ جا یعنی اپنی خودی کو ختم کر دے تا کہ عاشق اور معشوق کے درمیان کوئی چیز حائل نہ رہے۔
------

وقت است کہ بکشائم مے خانۂ رومی باز
پیرانِ حرَم دیدم در صحنِ کلیسا مست

(اقبال)

(اب) وقت ہے کہ میں رومی کا میخانہ دوبارہ کھولوں (کیونکہ) میں نے حرم کے پیروں کو کلیسا کے صحن میں مست دیکھا ہے۔

Persian poetry with urdu translation, farsi poetry with urdu translation, فارسی شاعری مع اردو ترجمہ، فارسی شاعری بمع اردو ترجمہ، فارسی شاعری اردو ترجمے کے ساتھ

رُوئے نِکو معالجۂ عمرِ کوتہ ست
ایں نسخہ از علاجِ مسیحا نوشتہ ایم

(نظیری نیشاپوری)

کسی نیک آدمی کا چہرہ (دیدار) عمرِ کوتاہ کا علاج ہے، یہ نسخہ ہم نے مسیحا کے علاج (نسخوں) میں سے لکھا ہے۔
------

ہَماں بہتر کہ لیلٰی در بیاباں جلوہ گر باشَد
ندارَد تنگنائے شہر تابِ حسنِ صحرائی

(صائب تبریزی)

یہی بہتر ہے کہ لیلٰی کسی بیاباں میں جلوہ گر ہو، کہ تنگنائے شہر (شہر کے تنگ کوچے / تنگ دل لوگ) حسنِ صحرائی کی تاب (قدر) نہیں رکھتے۔
------

موجیم کہ آسودگیِ ما عدمِ ماست
ما زندہ بہ آنیم کہ آرام نگیریم

(ابو طالب کلیم کاشانی)

ہم موج (کی طرح) ہیں کہ ہمارا سکون ہمارا عدم (مٹ جانا) ہے، ہم اسی وجہ سے زندہ ہیں کہ آرام (سکون) نہیں کرتے۔ یعنی زندگی جہدِ مسلسل کا نام ہے۔
------

شعلہ چکد، غم کرا، گل شگفد، مزد کو
شمعِ شبستانیم، بادِ سحر گاہیم

(اگر مجھ سے) شعلے ٹپکتے ہیں تو اسکا کسے غم ہے؟ (اور اگر میری وجہ سے) پھول کھلتے ہیں تو اسکا کیا صلہ؟ میں تو شبستان میں جلنی والی شمع ہوں (یا پھر) بادِ سحر ہوں۔

غالبِ نام آورم، نام و نشانم مپرس
ہم اسد اللہ ام و ہم اسد اللہیم

میں نام ور غالب ہوں، میرا نام و نشان مت پوچھو، میں اسد اللہ بھی ہوں یعنی یہ میرا نام ہے اور اسد اللہ علی ع کا ماننے والا بھی ہوں اور یہ میرا نشان ہے۔

(غالب دھلوی)
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jul 12, 2012

اک زخم بے رفو ہے مجھے اب پتا چلا - غزل علی ارمان

اک زخم بے رفو ہے مجھے اب پتا چلا
اے زندگی یہ تُو ہے مجھے اب پتا چلا

جس کے لیے یہ دل ہے لہو سے بھرا ہوا
وُہ اور آرزو ہے مجھے اب پتا چلا

میں جس سے مانگتا رہا پانی تمام عمر
تصویرِ آبجو ہے مجھے اب پتا چلا

پہلےمیں رنگِ گل کو سمجھتا تھا رنگِ گل
یہ بھی مرا لہو ہے مجھے اب پتا چلا

اب لینے آ گیا ہے سکوتِ فنا مجھے
تو کتنی خوش گلو ہے مجھے اب پتا چلا

شکوہ شرابِ شوق کی قلّت کا تھا عبث
ہر غنچہ اک سبو ہے مجھے اب پتا چلا
Ali Arman, علی ارمان, Urdu Poetry, Urdu Shairi, Urdu Ghazal, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Behr, Taqtee, اردو شاعری، اردو غزل، علم عروض، بحر، تقطیع
Ali Arman, علی ارمان

اس شہرِ دل میں ہیں کئی صحرا بسے ہوئے
سانسیں نہیں یہ لُو ہے مجھے اب پتا چلا

جس نے شجر حجر سے کیا آدمی مجھے
یہ وحشتِ نمو ہے مجھے اب پتا چلا

نقش و نگارِ نغمہٴ ہستی کی ابتدا
بس اک صدائے ہُو ہے مجھے اب پتا چل

علی ارمان
------

 بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف

افاعیل - مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے، جیسے کہ اس غزل کے تیسرے شعر کے پہلے مصرعے کے آخر میں ہے۔

اشاری نظام - 122 / 1212 / 1221 / 212
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 122 پہلے ہے اور اس میں بھی 22 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع-

اک زخم بے رفو ہے مجھے اب پتا چلا
اے زندگی یہ تُو ہے مجھے اب پتا چلا

اک زخم - مفعول - 122
بے رفو ہِ - فاعلات - 1212
مُجے اب پَ - مفاعیل - 1221
تا چلا - فاعلن - 212

اے زند - مفعول - 122
گی یِ تُو ہِ - فاعلات - 1212
مُجے اب پَ - مفاعیل - 1221
تا چلا - فاعلن - 212
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jul 6, 2012

تم تو کرو ہو صاحبی، بندے میں کچھ رہا نہیں - غزل میر تقی میر

میر تقی میر کی ایک انتہائی خوبصورت غزل

ملنے لگے ہو دیر دیر، دیکھیے کیا ہے کیا نہیں
تم تو کرو ہو صاحبی، بندے میں کچھ رہا نہیں

بوئے گُل اور رنگِ گُل، دونوں ہیں دل‌ کش اے نسیم
لیک بقدرِ یک نگاہ، دیکھیے تو وفا نہیں

شکوہ کروں ہوں بخت کا، اتنے غضب نہ ہو بتاں
مجھ کو خدا نخواستہ، تم سے تو کچھ گلِا نہیں
Mir Taqi Mir, میر تقی میر, Urdu Poetry, Urdu Shairi, Urdu Ghazal, Classical Urdu Poetry, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, Meer Taqi Meer, اردو شاعری، اردو غزل، کلاسیکی ارو شاعری، علم عروض، تقطیع، بحر
Mir Taqi Mir, میر تقی میر

نالے کِیا نہ کر سُنا، نوحے مرے پہ عندلیب
بات میں بات عیب ہے، میں نے تجھے کہا نہیں

چشمِ سفید و اشکِ سرخ، آہ دلِ حزیں ہے یاں
شیشہ نہیں ہے مے نہیں، ابر نہیں ہوا نہیں

ایک فقط ہے سادگی، تس پہ بلائے جاں ہے تو
عشوہ کرشمہ کچھ نہیں، آن نہیں ادا نہیں

آب و ہوائے ملکِ عشق، تجربہ کی ہے میں بہت
کر کے دوائے دردِ دل، کوئی بھی پھر جِیا نہیں

ہوئے زمانہ کچھ سے کچھ، چھوٹے ہے دل لگا مرا
شوخ کسی بھی آن میں، تجھ سے تو میں جدا نہیں

نازِ بُتاں اٹھا چکا، دیر کو میر ترک کر
کعبے میں جا کے رہ میاں، تیرے مگر خدا نہیں

(میر تقی میر)
------

بحر - بحر رجز مثمن مطوی مخبون

افاعیل - مُفتَعِلُن مُفاعِلُن /مُفتَعِلُن مُفاعِلُن
یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتی ہے اور ہر ایک ٹکڑا ایک مصرعے کے حکم میں آ سکتا ہے یعنی ہر ٹکڑے کے اختتام پر عملِ تسبیغ جائز ہے یعنی ہر مفاعلن کو مفاعلان بنا سکتے ہیں۔ جیسا کہ اس غزل کے پہلے شعر کے پہلے مصرعے کے پہلے ٹکڑے میں، دوسرے شعر کے پہلے مصرعے کے دوسرے ٹکڑے میں اور کئی ایک اور جگہوں ہر ہے۔

اشاری نظام - 2112 2121 / 2112 2121
ہندسوں کو اردو طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیں یعنی 2112 پہلے ہے۔ اس بحر میں ہر 2121 کو 12121 میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

تقطیع-

ملنے لگے ہو دیر دیر، دیکھیے کیا ہے کیا نہیں
تم تو کرو ہو صاحبی، بندے میں کچھ رہا نہیں

مل نِ لگے - مفتعلن - 2112
ہُ دیر دیر - مفاعلان - 12121
دیک ے کا - مفتعلن - 2112
ہِ کا نہی - مفاعلن - 2121

تم تُ کرو - مفتعلن - 2112
ہُ صاحبی -مفاعلن - 2121
بندِ مِ کچ - مفتعلن - 2112
رہا نہی - مفاعلن - 2121
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jul 4, 2012

ایک گلی کی بات تھی، اور گلی گلی گئی - غزلِ جون ایلیا

حالتِ حال کے سبب، حالتِ حال ہی گئی
شوق میں کچھ نہیں گیا، شوق کی زندگی گئی

ایک ہی حادثہ تو ہے، اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی، بات نہیں سنی گئی

بعد بھی تیرے جانِ جاں، دل میں رہا عجب سماں
یاد رہی تری یہاں، پھر تری یاد بھی گئی

صحنِ خیالِ یار میں، کی نہ بسر شبِ فراق
جب سے وہ چاندنہ گیا، جب سے وہ چاندنی گئی
Jaun Elia, جون ایلیا, Urdu Poetry, Urdu Shairi, Urdu Ghazal, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, اردو شاعری، اردو غزل، بحر، علم عروض، تقطیع
Jaun Elia, جون ایلیا

اس کے بدن کو دی نمود، ہم نے سخن میں اور پھر
اس کے بدن کے واسطے، ایک قبا بھی سی گئی

اس کی امیدِ ناز کا، ہم سے یہ مان تھا کہ آپ
عمر گزار دیجیے، عمر گزار دی گئی

اس کے وصال کے لیے، اپنے کمال کے لیے
حالتِ دل کہ تھی خراب، اور خراب کی گئی

تیرا فراق جانِ جاں، عیش تھا کیا مرے لیے
یعنی ترے فراق میں، خوب شراب پی گئی

اس کی گلی سے اٹھ کے میں، آن پڑا تھا اپنے گھر
ایک گلی کی بات تھی، اور گلی گلی گئی

جون ایلیا

----

بحر - بحر رجز مثمن مطوی مخبون

افاعیل - مُفتَعِلُن مفاعلن /مُفتَعِلُن مفاعلن
یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتی ہے اور ہر ایک ٹکڑا ایک مصرعے کے حکم میں آ سکتا ہے یعنی ہر ٹکڑے کے اختتام پر عملِ تسبیغ جائز ہے یعنی ہر مفاعلن کو مفاعلان بنا سکتے ہیں۔ جیسا کہ اس غزل کے چوتھے  اور آٹھویں شعروں کے پہلے مصرعے کے آخری ٹکڑے میں اور پانچویں شعر کے دوسرے مصرعے کے پہلے ٹکڑے میں اور آخری شعر کے پہلے مصرعے کے پہلے ٹکڑے میں۔

اشاری نظام - 2112 2121 / 2112 2121
ہندسوں کو اردو طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیں یعنی 2112 پہلے ہے۔ اس بحر میں ہر 2121 کو 12121 میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

تقطیع-

حالتِ حال کے سبب، حالتِ حال ہی گئی
شوق میں کچھ نہیں گیا، شوق کی زندگی گئی

حا لتِ حا - مفتعلن - 2112
ل کے سبب - مفاعلن - 2121
حالتِ حا - مفتعلن - 2112
ل ہی گئی - مفاعلن - 2121

شوق مِ کچ - مفتعلن - 2112
نہی گیا - مفاعلن - 2121
شوق کِ زن - مفتعلن - 2112
دگی گئی - مفاعلن - 2121
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔