Sep 7, 2013

غزلِ نظیری نیشاپوری مع اردو ترجمہ - سبزہٴ عیش ز بوم و برِ ہجراں مَطَلب

نظیری نیشاپوری کی ایک غزل کے کچھ اشعار

سبزہٴ عیش ز بوم و برِ ہجراں مَطَلب
نیشکر حاصلِ مصر است ز کنعاں مَطَلب

سبزہٴ عیش ہجر کی ویران اور بنجر زمین سے نہ چاہ، نیشکر مصر کا حاصل ہے اسے کعنان سے طلب نہ کر۔

رَسَنِ زُلف پئے حیلہ ور آویختہ اند
جُز دِلِ تشنہ ازاں چاہِ زَنَخداں مَطَلب

زُلف کی رسی دھوکے اور حیلے سے لٹکائی ہوئی، چاہِ زنخداں (ذقن) سے تشنہ دل کے سوا کچھ نہ طلب کر۔

فرض و سُنّت بتماشائے تو از یادم رفت
پردہ بر رُوئے فگن یا ز من ایماں مَطَلب

تیری دیدار کی وجہ سے میں فرض و سنت سب بھول گیا، یا تو اپنے چہرے پر پردہ ڈال دے یا پھر مجھ سے ایمان طلب نہ کر۔
persian poetry with urdu translation, farsi poetry with urdu translation,naziri nishapuri   ، نظیری نیشاپوری، فارسی شاعری مع اردو ترجمہ

لختِ دل قَوت کُن و شکّرِ احباب مخواہ
دُودِ دل سُرمہ کُن و کُحلِ صفاہاں مَطَلب

اپنے دل کے ٹکڑوں کو ہی اپنی خوارک بنا اور دوسروں کی شکر نہ چاہ، اپنے دل کے دھویں کو سرمہ بنا لے اور اصفاہانی سرمے کی خواہش نہ رکھ۔

آبِ حیواں ز کفِ دُرد کشاں می جوشد
گو خضَر دشت مَپیما و بیاباں مَطَلب

آبِ حیات تو دُرد کشوں کے کف سے اُبلتا ہے، خصر سے کہو کہ دشت پیمائی نہ کر اور بیاباں طلب نہ کر۔

جلوہ از حوصلہ بیش است نظیری، ہُشدار
کشتیِ نوح نشد ساختہ، طوفاں مَطَلب

اے نظیری، جلوہ حوصلے سے کہیں زیادہ ہے، ہوش کر، کشتیِ نوح تو بنائی ہی نہیں سو طوفان طلب نہ کر۔
----

قافیہ - آں یعنی الف، نون  اور ان سے پہلے زبر کی آواز جیسے ہجراں میں راں، کنعاں میں عاں، ایماں میں ماں وغیرہ وغیرہ ۔

ردیف - مَطَلب

بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)۔

علامتی نظام - 2212 / 2211 / 2211 / 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

سبزہٴ عیش ز بوم و برِ ہجراں مَطَلب
نیشکر حاصلِ مصر است ز کنعاں مَطَلب

سبزَ اے عے - فاعلاتن - 2212
ش ز بومو - فعلاتن - 2211
بَ رِ ہجرا - فعلاتن - 2211
مَ طَلب - فَعِلن - 211

نیشکر حا - فاعلاتن - 2212
صَلِ مصرس - فعلاتن - 2211
ت ز کنعا - فعلاتن - 2211
مَ طَلب - فَعِلن - 211
----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 3, 2013

صائب تبریزی کی ایک غزل مع اردو ترجمہ- آبِ خضر و مئے شبانہ یکیست

صائب تبریزی کی ایک خوبصورت غزل

آبِ خضر و مئے شبانہ یکیست
مستی و عمرِ جاودانہ یکیست

آبِ حیات اور رات کی شراب ایک ہی چیز ہیں، مستی اور عمرِ جاودانہ ایک ہی چیز ہیں۔

بر دلِ ماست چشم خوباں را
صد کماندار را نشانہ یکیست

ہمارے ہی دل پر خوباؤں کی نظر ہے، سینکڑوں کمانداروں کیلیے نشانہ ایک ہی ہے۔

پیشِ آں چشمہائے خواب آلود
نالہٴ عاشق و فسانہ یکیست

اُن خواب آلود آنکھوں کے سامنے، عاشق کا نالہ و فریاد اور افسانہ ایک ہی چیز ہیں۔

کثرتِ خلق، عین توحید است
خوشہ چندیں ہزار و دانہ یکیست

مخلوق کی کثرت عین توحید ہے کہ خوشے چاہے ہزاروں ہوں دانہ تو ایک ہی ہے۔
persian poetry with urdu translation, farsi poetry with urdu translation,Saib Tabrizi,   ، صائب تبریزی، فارسی شاعری مع اردو ترجمہ،
یادگار صائب تبریزی، ایران
پلہٴ دین و کفر چوں میزان
دو نماید، ولے زبانہ یکیست

دین اور کفر کے پلڑے ترازو کی طرح دو ہیں لیکن ان کی سوئی تو ایک ہی ہے۔

عاشقے را کہ غیرتے دارد
چینِ ابرو و تازیانہ یکیست

غیرت مند عاشق کیلیے، محبوب کی چینِ ابرو اور تازیانہ ایک ہی چیز ہیں۔

پیشِ مرغِ شکستہ پر صائب
قفس و باغ و آشیانہ یکیست

صائب، پر شکستہ پرندے کیلیے، قفس اور باغ اور آشیانہ ایک ہی چیز ہیں
----

قافیہ - آنہ یعنی نہ اور اُس سے پہلے الف کی آواز یا حرکت جیسے شبانہ میں بانہ، جاودانہ میں دانہ، نشانہ میں شانہ وغیرہ۔

ردیف -یکیست۔

 بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن مُفاعِلُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)۔ تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)

علامتی  نظام - 2212 / 2121 / 22
ہندسوں کو اردو رسم الخط کے مطابق پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 2212 پہلے پڑھیے۔ اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -
آبِ خضر و مئے شبانہ یکیست
مستی و عمرِ جاودانہ یکیست

آبِ خضرو - فاعلاتن - 2212
واضح رہے کہ خضر کا تلفظ حرفِ دوم کی حرکت اور سکون دونوں طرح مستعمل ہے۔
مئے شبا - مفاعلن - 2121
نَ یکیس - فَعِلان - 1211

مستِ یو عم - فاعلاتن - 2212
رِ جاودا - مفاعلن - 2121
نَ یکیس - فَعِلان - 1211
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 22, 2013

باپ کا ہے جبھی پسر وارِث - خواجہ الطاف حُسین حالی

باپ کا  ہے جبھی پسر وارِث
ہو ہنر کا بھی اُس کے گر وارِث

گھر ہنر ور کا ناخلف نے لیا
تیرا ہے کون اے ہنر وارث

فاتحہ ہو کہاں سے میّت کی
لے گئے ڈھو کے سیم و زر وارث

ہوں اگر ذوقِ کسب سے آگاہ
کریں میراث سے حذر وارث

خاک و کرمانِ گور و خویش و تبار
ایک میّت اور اس قدَر وارث

واعظو دین کا خدا حافظ
انبیا کے ہو تم اگر وارث

قوم بے پر ہے، دین بے کس ہے
گئے اسلام کے کدھر وارث
Altaf، Hussain، Hali, Altaf Hussain Hali, urdu poetry, poetry, classical urdu poetry, ghazal, خواجہ، الطاف، حسین، حالی، خواجہ الطاف حسین حالی، اردو شاعری، کلاسیکی اردو شاعری، شاعری، غزل, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Behr, Taqtee, علم عروض، تقطیع، بھر
Altaf Hussain Hali, خواجہ الطاف حسین حالی
تصویر بشکریہ کرناٹک اردو اکاڈمی، بنگلور

ہم پہ بیٹھے ہیں ہاتھ دھوئے حریف
جیسے مردہ کے مال پر وارث

ترکہ چھوڑا ہے کچھ اگر حالی
کیوں ہیں میّت پہ نوحہ گر وارث

خواجہ الطاف حسین حالی
-----


قافیہ - اَر یعنی رے ساکن اور اُس سے پہلے زبر کی حرکت جیسے پسر میں سَر، گر، ہنر میں نَر، زر، اگر میں گر، وغیرہ۔

ردیف -وارث۔

 بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن مُفاعِلُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)۔ تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)

علامتی  نظام - 2212 / 2121 / 22
ہندسوں کو اردو رسم الخط کے مطابق پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 2212 پہلے پڑھیے۔ اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

باپ کا ہے جبھی پسر وارث
ہو ہنر کا بھی اُس کے گر وارث

باپ کا ہے - فاعلاتن - 2212
جَبی پسر - مفاعلن - 2121
وارث - فعلن - 22

ہو ہنر کا - فاعلاتن - 2212
بِ اُس کِ گر - مفاعلن - 2121
وارث - فعلن - 22
-----


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 16, 2013

عکسِ جاناں ہم، شہیدِ جلوہٴ جانانہ ہم - احسان دانش

عکسِ جاناں ہم، شہیدِ جلوہٴ جانانہ ہم
آشنا سے آشنا، بیگانہ سے بیگانہ ہم

تجھ کو کیا معلوم گزری کس طرح فرقت کی رات
کہہ پھرے اک اک ستارے سے ترا افسانہ ہم

بند ہیں شیشوں میں لاکھوں بجلیاں پگھلی ہوئیں
کب ہیں محتاجِ شرابِ مجلسِ میخانہ ہم

ہے دمِ آخر، سرھانے لوریاں دیتی ہے موت
سنتے سنتے کاش سو جائیں ترا افسانہ ہم

پڑ گئی کس مہرِ سیما کی نگاہِ برق پاش
دیکھتے ہیں دل میں دنیا بے تجلّی خانہ ہم
Ehsan Danish, احسان دانش، Urdu Poetry, Urdu Shairi, Urdu Ghazal, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, اردو شاعری، اردو غزل، علم عروض، تقطیع، بحر
Ehsan Danish, احسان دانش

تیرے ہر ذرّے پہ تا روزِ قیامت سجدہ ریز
ہم رہیں گے، اے زمینِ کوچہٴ جانانہ، ہم

منزلِ اُلفت میں ہیں احسان دونوں سدّ ِ راہ
کھائیں کیوں آخر فریبِ کعبہ و بتخانہ ہم

احسان دانش
------

قافیہ - نانہ یعنی الف، نون، ہ اور الف سے پہلے زبر کی آواز یا حرکت جیسے جانانہ میں نانہ،۔ بیگانہ میں گانہ، افسانہ میں سانہ، میخانہ میں خانہ، خانہ، وغیرہ۔

ردیف - ہم۔

بحر - بحر رمل مثمن محذوف

 افاعیل: فاعلاتُن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
آخری رکن فاعلن میں مسبغ رکن فاعلان بھی آ سکتا ہے جیسے دوسرے شعر کے پہلے مصرعے کے الفاظ "فرقت کی رات" میں ٹکڑے "قت کی رات" کی تقطیع فاعلان ہوگی، وغیرہ۔

علامتی نظام - 2212 / 2212 / 2212 / 212
ہندسوں کو اردو طرز پر پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 2 پہلے اور 1 بعد میں ہے۔ آخری 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے۔

تقطیع -

عکسِ جاناں ہم، شہیدِ جلوہٴ جانانہ ہم
آشنا سے آشنا، بیگانہ سے بیگانہ ہم

عکس جانا - فاعلاتن - 2212
ہم شہیدے - فاعلاتن - 2212
جلوَ اے جا - فاعلاتن - 2212
نانہ ہم - فاعلن - 212

آشنا سے - فاعلاتن - 2212
آشنا بے - فاعلاتن - 2212
گانہ سے بے - فاعلاتن - 2212
گانہ ہم - فاعلن - 212
-----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 14, 2013

سرِ حیات اک الزام دھر گئے ہم بھی - خالد احمد

سرِ حیات اک الزام دھر گئے ہم بھی
کلام بھی نہ جیا اور مر گئے ہم بھی

یہ عہد ایک مسیحا نفَس میں زندہ تھا
رہا نہ وہ بھی سلامت، بکھر گئے ہم بھی

چمک اُٹھا تھا وہ چہرہ، دھڑک اُٹھا تھا یہ دل
نہ اُس نے راستہ بدلا، نہ گھر گئے ہم بھی

بتوں کی طرح کھڑے تھے ہم اک دوراہے پر
رُخ اُس نے پھیر لیا، چشمِ تر گئے ہم بھی

کچھ ایسے زور سے کڑکا فراق کا بادل
لرز اُٹھا کوئی پہلو میں، ڈر گئے ہم بھی
Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, Urdu Poetry, Urdu Shairi, اردو شاعری، علم عروض، تقطیع، بحر، بحر مجتث, خالد احمد، Khalid Ahmad
Khalid Ahmad, خالد احمد

جدائی میں بھی ہم اک دوسرے کے ساتھ رہے
کڈھب رہا نہ وہ، خالد سنور گئے ہم بھی

خالد احمد
-----

قافیہ - اَر یعنی رے ساکن اور اس سے پہلے زبر کی آواز جیسے دھر، مر، بکھر، گھر وغیرہ۔

ردیف - گئے ہم بھی۔

بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فَعِلان بھی آ سکتے ہیں۔

علامتی نظام - 2121 / 2211 / 2121 / 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 2121 پہلے ہے اور اس میں بھی 1 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)

تقطیع -

سرِ حیات اک الزام دھر گئے ہم بھی
کلام بھی نہ جیا اور مر گئے ہم بھی

سرے حیا - مفاعلن - 2121
ت اِ کل زا - فعلاتن - 2211 اک اور الزام میں الف کا وصال ہوا ہے۔
م در گئے - مفاعلن - 2121
ہم بی -فعلن - 22

کلام بی - مفاعلن - 2121
نَ جیا او - فعلاتن - 2211
ر مر گئے - مفاعلن - 2121
ہم بی -فعلن - 22
-----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 16, 2013

اک معمّہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا - فانی بدایونی

خلق کہتی ہے جسے دل ترے دیوانے کا
ایک گوشہ ہے یہ دنیا اسی ویرانے کا

اک معمّہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا

حُسن ہے ذات مری، عشق صفَت ہے میری
ہوں تو میں شمع مگر بھیس ہے پروانے کا

کعبہ کو دل کی زیارت کے لیے جاتا ہوں
آستانہ ہے حرم میرے صنم خانے کا

مختصر قصّہٴ غم یہ ہے کہ دل رکھتا ہوں
رازِ کونین خلاصہ ہے اس افسانے کا

زندگی بھی تو پشیماں ہے یہاں لا کے مجھے
ڈھونڈتی ہے کوئی حیلہ مرے مر جانے کا
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, ilm-e-urooz, behr, taqtee, Fani Badayuni, فانی بدایونی، اردو شاعری، اردو غزل، تقطیع، بحر، علم عروض
Fani Badayuni, فانی بدایونی
تصویر بشکریہ کرناٹک اردو اکاڈمی، بنگلور
تم نے دیکھا ہے کبھی گھر کو بدلتے ہوئے رنگ
آؤ دیکھو نہ تماشا مرے غم خانے کا

اب اسے دار پہ لے جا کے سُلا دے ساقی
یوں بہکنا نہیں اچھّا ترے مستانے کا

دل سے پہنچی تو ہیں آنکھوں میں لہو کی بوندیں
سلسلہ شیشے سے ملنا تو ہے پیمانے کا

ہڈّیاں ہیں کئی لپٹی ہوئی زنجیروں میں
لیے جاتے ہیں جنازہ ترے دیوانے کا

وحدتِ حُسن کے جلووں کی یہ کثرت اے عشق
دل کے ہر ذرّے میں عالم ہے پری خانے کا

چشمِ ساقی اثرِ مے سے نہیں ہے گل رنگ
دل مرے خون سے لبریز ہے پیمانے کا

لوح دل کو، غمِ الفت کو قلم کہتے ہیں
کُن ہے اندازِ رقم حُسن کے افسانے کا

ہر نفَس عمرِ گزشتہ کی ہے میّت فانی
زندگی نام ہے مر مر کے جیے جانے کا

فانی بدایونی

-----

قافیہ - آنے یعنی الف، نون  اور رے اور الف سے پہلے زبر کی آواز جیسے دیوانے میں وانے، ویرانے میں رانے، پیمانے میں مانے، صنم خانے میں خانے، سمجھانے میں جھانے وغیرہ وغیرہ ۔

ردیف - کا

بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)۔ جیسے ساتویں شعر کے پہلے مصرعے کا آخری ٹکڑا "ہوئے رنگ" فَعِلان پر تقطیع ہوگا۔ اسی طرح دسویں شعر کے دوسرے مصرعے کا پہلا ٹکڑا "لیے جاتے" فَعِلاتن پر تقطیع ہوگا۔ بارہویں شعر کے پہلے مصرعے کا آخری ٹکڑا "گل رنگ" فعلان پر تقطیع ہوگا۔ وغیرہ وغیرہ

علامتی نظام - 2212 / 2211 / 2211 / 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

خلق کہتی ہے جسے دل ترے دیوانے کا
ایک گوشہ ہے یہ دنیا اسی ویرانے کا

خلق کہتی - فاعلاتن - 2212
ہِ جسے دل - فعلاتن - 2211
ترِ دیوا - فعلاتن - 2211
نے کا - فعلن - 22

ایک گوشہ - فاعلاتن - 2212
ہِ یِ دنیا - فعلاتن - 2211
اسِ ویرا - فعلاتن - 2211
نے کا - فعلن - 22
---

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 14, 2013

متفرق فارسی اشعار - 9

حافظ شیرازی کی ایک غزل کے تین اشعار

نیکیِ پیرِ مُغاں بیں کہ چو ما بَدمستاں
ہر چہ کردیم، بچشمِ کَرَمش زیبا بُود

پیرِ مغاں کی نیکی تو دیکھ کہ ہم جیسے بد مستوں نے جو کچھ بھی کیا وہ اسکی نگاہِ کرم میں اچھا (مناسب) تھا۔

مُطرب از دردِ مَحبّت غزلے می پرداخت
کہ حکیمانِ جہاں را مژہ خوں پالا بود

مطرب محبت کے درد سے ایسی غزل گا رہا تھا کہ دنیا کے حکیموں (عقل مندوں) کی پلکیں خون سے آلودہ تھیں۔

قلبِ اندودۂ حافظ برِ او خرج نَشُد
کہ معامل بہمہ عیبِ نہاں بینا بود

حافظ کے دل کا کھوٹا سکہ اُسکے سامنے نہ چلا (چل سکا)، اس لئے کہ معاملہ کرنیوالا تمام پوشیدہ عیبوں کا دیکھنے والا تھا۔
----------

خمارِ ما و درِ توبہ و دلِ ساقی
بیک تبسّمِ مینا، شکست و بست و کُشاد

(مخلص خان عالمگیری)

ہمارا خمار، توبہ کا دروازہ اور ساقی کا دل، مینا کے ایک تبسم سے، ٹوٹ گیا (خمار) اور بند ہو گیا (توبہ کا دروازہ) اور کِھل اٹھا (دلِ ساقی)۔
----

تُو اے پیماں شکن امشب بما باش
کہ ما باشیم فردا یا نہ باشیم

(ابوالفیض فیضی)

اے پیماں شکن آج کی رات ہمارے ساتھ رہ، کہ کل ہم ہوں یا نہ ہوں۔
-----

ما ز آغاز و ز انجامِ جہاں بے خبریم
اوّل و آخرِ ایں کہنہ کتاب افتادہ است

ابو طالب کلیم کاشانی (ملک الشعرائے شاہجہانی)۔

ہم اس جہان کے آغاز اور انجام سے بے خبر ہیں کہ یہ ایک ایسی پرانی (بوسیدہ) کتاب ہے کہ جس کے شروع اور آخر کے ورق گر گئے ہیں۔
-----

اگرچہ وعدۂ خوباں وفا نمی دانَد
خوش آں حیات کہ در انتظار می گذرَد

(صائب تبریزی)

اگرچہ خوباں کا وعدہ، وفا ہونا نہیں جانتا (وفا نہیں ہوتا، لیکن) وہ زندگی بہت خوب ہے جو انتظار میں گزرتی ہے۔
-----

اہلِ ہمّت را نباشد تکیہ بر بازوئے کس
خیمۂ افلاک بے چوب و طناب استادہ است

(ناصر علی سرہندی)

ہمت والے لوگ کسی دوسرے کے زورِ بازو پر تکیہ نہیں کرتے، (دیکھو تو) آسمانوں کا خیمہ چوب اور طنابوں کے بغیر ہی کھڑا ہے۔
----
Persian poetry with urdu translation, farsi poetry with urdu translation, فارسی شاعری مع اردو ترجمہ، فارسی شاعری بمع اردو ترجمہ، فارسی شاعری اردو ترجمے کے ساتھ

دل خاکِ سرِ کوئے وفا شُد، چہ بجا شُد
سر در رہِ تیغِ تو فدا شُد، چہ بجا شُد

(عبدالقادر بیدل)

ہمارا دل، کوئے وفا کی خاک ہوگیا، کیا ہی خوب ہوا، اور سر تیری تلوار کی راہ میں فدا ہوگیا، کیا ہی اچھا ہوا۔
---

ما و خاکِ رہگذر بر فرقِ عریاں ریختن
گُل کسے جوید کہ او را گوشۂ دستار ہست

(غالب )

ہم ہیں اور اپنے ننگے سر (فرقِ عریاں) پر رہگزر کی خاک ڈالنا، پُھول تو وہ تلاش کرے کہ جس کے پاس دستار ہو۔
----

حق اگر سوزی ندَارَد حکمت است
شعر میگردَد چو سوز از دل گرفت

(اقبال)

سچائی میں اگر سوز نہیں ہے تو وہ (فقط عقل و) حکمت ہے، لیکن وہی سچائی جب دل سے سوز حاصل کر لیتی ہے تو شعر بن جاتی ہے۔
----

گماں مبر کہ ستم کردی و وفا نہ کُنَم
بیا بیا کہ ہماں شوق و آرزو باقی است

یہ گمان نہ کر کہ تُو نے مجھ پر ستم کیئے ہیں تو میں وفا نہیں کرونگا، آجا، آجا کہ (اب بھی میرا) وہی شوق اور وہی آرزو باقی ہیں۔

فدائے صُورَتِ زیبا رُخے کہ فانی نیست
نثارِ حُسنِ حسینے کہ حُسنِ اُو باقی است

میں اس خوبصورت چہرے والی صورت پر فدا ہوں کہ (جسکی خوبصورتی) فانی نہیں ہے، میں اس حسین کے حسن پر قربان ہوں کہ جسکا حسن باقی (رہنے والا) ہے۔

(اکبر الٰہ آبادی - دیوان)
-----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 12, 2013

قطعہ شیخ سعدی شیرازی مع ترجمہ

شیخ سعدی شیرازی  کا ایک خوبصورت قطعہ

گِلے خوش بوئے در حمّام روزے
رسید از دستِ مخدومے بہ دستم

ایک دن حمام میں، ایک مہربان کے ہاتھ سے مجھ تک ایک خوشبودار مٹی پہنچی۔

بدو گفتم کہ مشکی یا عبیری
کہ از بوئے دل آویزِ تو مستم

میں نے اس سے کہا کہ تو مشکی ہے یا عبیری (دونوں اعلیٰ خوشبو کی قسمیں ہیں) کہ تیری دل آویز خوشبو سے میں مَیں مست ہوا جاتا ہوں۔

بگفتا من گِلے ناچیز بُودم
و لیکن مدّتے با گُل نشستم

اس نے کہا میں تو ناچیز مٹی تھی لیکن ایک مدت تک گُل کے ساتھ نشست رہی ہے۔
Saadi Shirazi, Mazar Saadi Shirazi, Persian poetry with urdu translation, farsi poetry with urdu translation, فارسی شاعری مع اردو ترجمہ، فارسی شاعری بمع اردو ترجمہ، فارسی شاعری اردو ترجمے کے ساتھ، مزار شیخ سعدی شیرازی
Mazar Saadi Shirazi, مزار شیخ سعدی شیرازی
جمالِ ہمنشیں در من اثَر کرد
وگرنہ من ہمہ خاکم کہ ہستم

اور ہمنشیں کے جمال نے مجھ پر بھی اثر کر دیا ہے وگرنہ میری ہستی تو محض خاک ہے۔

شیخ سعدی شیرازی علیہ الرحمہ
-----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 6, 2013

شیخ غلام قادر گرامی کی نعتیہ رباعیات مع اردو ترجمہ

پچھلی صدی کے مشہور فارسی شاعری شیخ غلام قادر گرامی کی کچھ نعتیہ رباعیات

آں ختمِ رُسل شاہِ عرب ماہِ عجم
آں موجِ نخست است ز دریائے قِدم
در تابشِ آفتابِ محشر چہ غم است
دستِ من و دامنِ رسولِ اکرم

وہ ختمِ رُسل کے جو شاہِ عرب اور ماہِ عجم ہیں۔ وہ جو قدامت کے دریا کی پہلی موج ہیں۔ ہمیں محشر کے آفتاب کی گرمی کا کیا غم کہ محشر میں ہم نے اپنے ہاتھ سے دامنِ رسولِ اکرم ص تھاما ہوگا۔
---

گویم ز مسیحا و محمد سخنے
ثانی دگرست نقسِ اوّل دگرست
نسبت در ماہ و مہر من میدانم
کامل دگرست فردِ کامل دگرست

میں مسیح ع اور محمد ص سے کچھ عرض کرنے کی جسارت کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ دوسرا یعنی مسیح ع کچھ اور ہیں اور اس کائنات کے پہلے نقش یعنی حضورِ اکرم ص کچھ اور ہیں۔ میں چاند، جو محدود روشنی کا حامل ہوتا ہے، اور سورج کہ جسکی ضیا پاشیوں سے سارا جہاں چمکتا ہے، کی نسبت اور فرق کو بخوبی جانتا ہوں کہ کامل ہونا یعنی بتدریج مکمل ہونا کچھ اور چیز ہے اور سراسر اور مکمل ترین اور ہر طرح سے اکمل ہونا کچھ اور ہے۔
----

خاور چکد از شبم بایں تیرہ شبی
کوثر چکد از لبم بایں تشنہ لبی
اے دوست ادب کہ در حریمِ دلِ ماست
شاہنشہِ انبیا رسولِ عربی

میری راتوں میں اس تمام تیرگی کے باوجود سورج چمکتے ہیں۔ میری اس تشنہ لبی کے باوجود میرے ہونٹوں سے کوثر کے قطرے ٹپکتے ہیں۔ اے دوست ادب کہ ہمارے دل کے حریم میں شاہنشاہِ انبیا رسولِ عربی ص بستے ہیں۔
----

پیغمبرِ ما کہ انبیا راست امام
جبریل آوردش از خداوند پیام
بودش برحِکمِ فطرت انجام آغاز
در دائرہِ نبوّت آغاز انجام

ہمارے پیغمر ص کہ جو تمام انبیا کے امام ہیں اور جبریلِ امین انکے پاس خدا کا پیغام لائے۔ آپ ص کا انجام اور آغاز دونوں فطرت کی حکمتوں پر مبنی تھے، گویا آپ دائرہ نبوت کا ایک ایسا مقام ہیں کہ جہاں سے آغاز بھی ہوتا ہے اور اختتام بھی۔
----
Rubaiyat, Rubai, persian poetry with urdu translation, farsi poetry with urdu translation, Sheikh Ghulam Qadir Grami, ،رباعیات شیخ غلام قادر گرامی  مع اردو ترجمہ،  فارسی شاعری مع اردو ترجمہ، رباعی، نعت
شیخ غلام قادر گرامی, Sheikh Ghulam Qadir Grami

فاراں دگرست کوہِ سینا دگرست
موسیٰ دگر و مثیلِ موسیٰ دگرست
در موسیٰ و مصطفیٰ چہ رمزیست غریب
ساحل دگرست، عینِ دریا دگرست

کوہِ فاران کچھ اور چیز ہے اور کوہِ سینا کچھ اور، مُوسیٰ ع کچھ اور ہیں اور مثیلِ مُوسیٰ ص کچھ اور۔ مُوسیٰ ع اور مصطفیٰ ص کے درمیان کیا ہی منفرد رمز ہے کہ ساحل کچھ اور چیز ہے یعنی مُوسیٰ اور عین دریا کچھ اور یعنی حضورِ اکرم ص۔
----

اے ختمِ رُسل جانِ جہاں فارقلیط
خوانند ترا بر آسماں فارقلیط
می گفت مسیح در بشاراتِ جلیل
من میروم آید بجہاں فارقلیط

اے آخری رسول ص، زمانے کی جان فارقلیط۔ آپ ص کو آسمانوں پر فارقلیط کہا جاتا ہے۔ مسیح ع نے اپنی عظیم و جلیل بشارات میں کہا کہ میں جا رہا ہوں اور اب دنیا میں فارقلیط ص آتے ہیں۔
----

ما را در سینہ داغِ ماہِ عرب ست
بر ما نظرش بے سببی ہا سبب ست
رمزیست نگفتنی بگویم اے دوست
میم است کہ پردہ دارِ عینِ عرب ست

ہمارے سینے میں ماہِ عرب یعنی رسولِ اکرم ص کا ہی عشق اور سوز ہے۔ ہمارے حال پر انکی نظر ہے سو تمام بے سر و سامانی کے باوجود یہی انکی نظرِ کرم ہی سارے سبب ہیں۔ اے دوست میں تجھ سے ایک ناگفتنی رمز کہتا ہوں کہ میم عرب کے عین کی پردہ دار ہے۔ آخری مصرعے میں وحدت الوجودی صوفیا کا عقیدہ بیان ہوا ہے۔
----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 12, 2013

کُوچہٴ دلبر میں مَیں، بُلبُل چمن میں مست ہے - غزلِ آتش

کُوچہٴ دلبر میں مَیں، بُلبُل چمن میں مست ہے
ہر کوئی یاں اپنے اپنے پیرہن میں مست ہے

نشّہٴ دولت سے منعم پیرہن میں مست ہے
مردِ مفلس حالتِ رنج و محن میں مست ہے

دورِ گردوں ہے خداوندا کہ یہ دورِ شراب
دیکھتا ہوں جس کو میں اس انجمن میں مست ہے

آج تک دیکھا نہیں یاں آنکھوں نے روئے خمار
کون مجھ سا گنبدِ چرخِ کہن میں مست ہے

گردشِ چشمِ غزالاں، گردشِ ساغر ہے یاں
خوش رہیں اہلِ وطن، دیوانہ بن میں مست ہے

Khwaja Haider Ali Aatish, خواجہ حیدر علی آتش، Urdu Poetry, Urdu Shairi, Urdu Ghazal, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, اردو شاعری، اردو غزل، علم عروض، تقطیع، بحر
Khwaja Haider Ali Aatish, خواجہ حیدر علی آتش

ہے جو حیرانِ صفائے رُخ حلب میں آئنہ
بوئے زلفِ یار سے آہو ختن میں مست ہے

غافل و ہشیار ہیں اُس چشمِ میگوں کے خراب
زندہ زیرِ پیرہن، مردہ کفن میں مست ہے

ایک ساغر دو جہاں کے غم کو کرتا ہے غلط
اے خوشا طالع جو شیخ و برہمن میں مست ہے

وحشتِ مجنوں و آتش میں ہے بس اتنا ہی فرق
کوئی بن میں مست ہے کوئی وطن میں مست ہے

خواجہ حیدر علی آتش
-------

قافیہ - مَن یعنی نون ساکن اور اس سے پہلے زبر کی آواز جیسے چمن میں من، پیرہن میں ہن محن میں حن، انجمن میں من، بن وغیرہ۔

ردیف - میں مست ہے۔

بحر - بحر رمل مثمن محذوف

 افاعیل: فاعلاتُن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
آخری رکن فاعلن میں مسبغ رکن فاعلان بھی آ سکتا ہے جیسے تیسرے شعر کے پہلے مصرعے کے الفاظ "دورِ شراب" میں ٹکڑے "رے شراب" کی تقطیع فاعلان ہوگی، وغیرہ۔

علامتی نظام - 2212 2212 2212 212
ہندسوں کو اردو طرز پر پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 2 پہلے اور 1 بعد میں ہے۔ آخری 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے۔

تقطیع -

کُوچہٴ دلبر میں مَیں، بُلبُل چمن میں مست ہے
ہر کوئی یاں اپنے اپنے پیرہن میں مست ہے

کُوچہ اے دل - فاعلاتن - 2212
بر مِ مےبُل - فاعلاتن - 2212
بُل چمن مے - فاعلاتن - 2212
مست ہے - فاعلن - 212

ہر کُ ئی یا - فاعلاتن - 2212
اپ نِ اپنے - فاعلاتن - 2212
پیرہن مے - فاعلاتن - 2212
مست ہے - فاعلن - 212
-----
مزید پڑھیے۔۔۔۔