Showing posts with label استاد سلامت علی خان. Show all posts
Showing posts with label استاد سلامت علی خان. Show all posts

May 5, 2012

کلاسیکی موسیقی - ترانہ

ترانہ، برصغیر پاک و ہند کی کلاسیکی موسیقی میں گانے کا ایک خاص اور دلفریب انداز جس میں فارسی، عربی اور ہندی کے کچھ بے معنی الفاظ کی درمیانی (مدھ) اور تیز (دُرت)لے میں اس خوبصورتی کے ساتھ تکرار کی جاتی ہے کہ سماں بندھ جاتا ہے اور سننے والے مسحور ہو جاتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ ترانہ، گانے کا طریقہ اور اسکے بول دونوں، خاص امیر خسرو کی اختراع  ہے، کچھ محقیقین کو اس میں اعتراض بھی ہے۔ لیکن شاید حقیقت یہی  ہے کہ ترانہ امیر خسرو ہی کی ایجاد ہے اور اس صنف کو مقبول بھی امیر خسرو نے کیا ہے، اور پچھے سات سو سال سے برصغیر میں ترانہ گایا اور سنا جا رہا ہے، واضح رہے کہ ترانہ فارسی شاعری کی ایک صنف کا بھی نام ہے۔

ترانہ کی اختراع کے بارے میں ایک دلچسپ حکایت بھی چلی آ رہی ہے، جو موضوع ہی سہی لیکن دلچسپی سے خالی نہیں، کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ علاءالدین خلجی کے دربار میں موسقی کا ایک مقابلہ ہوا جس کے آخر میں صرف دو گائیک رہ گئے، ایک ہندو پنڈت اور دوسرے امیر خسرو۔ ہندو پنڈت نے جب دیکھا کہ حریف بہت سخت ہے اور یہ جانتے ہوئے کہ وہ سنسکرت نہیں جانتا، سنسکرت کے کچھ بھاری بھر کم الفاظ انتہائی تیز لے میں گائے، جواب میں امیر خسرو نے انہی سروں میں اور اسی لے کے ساتھ فارسی کے کچھ بے معنی الفاظ گائے اور درباریوں کا دل جیتتے ہوئے  مقابلہ بھی جیت لیا اور یوں ترانہ ایجاد ہوا۔
amir, khusro, amir khusro, امیر خسرو، امیر، خسرو، کلاسیکی موسیقی، موسیقی، ترانہ، classical music, tarana
امیر خسرو علیہ الرحمة، ایک خاکہ
یہ کہانی گھڑی ہوئی اور موضوع ہی سہی لیکن صنف ترانہ پر بہت خوبصورتی سے روشنی ڈالتی ہے۔ ترانہ نام ہی خالص تجریدی موسیقی کے تجربے کا ہے۔ ترانہ کے مقابلے میں دیگر کلاسیکی گائیکی کے جتنے بھی اوضاع ہیں جیسے خیال، دھرپد اور ٹپہ جو کہ دونوں اب بہت حد تک متروک ہو چکے ہیں، ٹھمری یا  دادرا وغیرہ، ان سب میں با معنی الفاظ یا شاعری کو گایا جاتا ہے لیکن ترانہ میں شاعری کا عنصر سرے سے نکال ہی دیا گیا ہے اور خالص تجریدی موسیقی پر اس کی بنیاد رکھی گئی ہے تا کہ سننے والوں کا ذہن شاعری میں نہ بھٹکے اور ان کا دھیان صرف موسیقی میں رہے اور خالص موسیقی اور سروں سے لطف اندوز ہوں جب کہ بعض دفعہ تجرے کے طور پر ترانہ میں کچھ اشعار بھی گائے جاتے ہیں، جیسا کہ امیر خسرو ہی کا ایک ترانہ "یارِ من بیا بیا" ہے جس میں امیر خسرو کا ایک شعر بھی گایا جاتا ہے لیکن ایسی مثالیں چند ایک ہی ہیں اور زیادہ ترانے فقط بے معنی الفاظ پر مشتمل ہیں۔

جیسا کہ اوپر ذکر آیا ترانہ عموماً مدھ اور درت لے میں گایا جاتا ہے لیکن بلمپت یا دھیمی لے میں بھی ترانہ گایا جاتا ہے گو اسکی مثالیں خال خال ہی ہیں۔ ترانہ کو کسی بھی راگ میں علیحدہ بھی گایا جا سکتا ہے اور کسی خیال کے آخر میں بھی، ہر دوصورت میں یہ لطف سے خالی نہیں، لیکن چونکہ خیال اور اس میں بھی بڑا خیال کافی طویل ہوتا ہے لہذا علیحدہ سے گائے ہوئے ترانے آج کل زیادہ مقبول ہوتے ہیں۔

ترانہ میں جن بے معنی الفاظ کی بار بار تکرار ہوتی ہے ان میں سے کچھ نیچے درج کر رہا ہوں، یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے عام طور پر یہ سارے الفاظ انہتائی سہل اور ادا کرنے میں ثقیل نہیں ہیں، جیسے

او دانی
تو دانی
نادر دانی
تنن
درآ
تا نا
تا نی
تا نوم
توم
دھیم
ری
یعلا
یعلی
وغیرہ وغیرہ

کچھ موسیقاروں نے اوپر مندرج فارسی الفاظ کو معنی پہنانے کی بھی کوشش کی ہے جیسا کہ ان کا کچھ نہ کچھ مطلب نکالا بھی جا سکتا ہے لیکن یہ کوشش کچھ زیادہ کامیاب نہیں ہوئی اور اس کا حسن انہی بے معنی الفاظ کی تکرار ہی میں ہے وگرنہ جتنی دیر میں کوئی سننے والا کسی جملے کے معنی ڈھونڈنے کی کوشش کرے گا اتنی دیر میں گائیک کہیں سے کہیں پہنچ چکا ہوگا۔

ان بے معنی الفاظ کے ساتھ ساتھ ترانہ میں سرگم کے سروں کی خوبصورت تکرار اور کچھ سازوں مثلاً طبلہ، پکھاوج، ستار وغیرہ کے بول جیسے دھا، ترکٹ، تک، دِر دِر وغیرہ کی بھی تکرار کی جاتی ہے۔ گائیک کے منہ سے ساز کے بول اور ساز کی انہی بولوں کی آواز، ایک سماں باندھتے ہیں جسے ہوا میں گرہ باندھنے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

برصغیر میں تقریباً ہر کلاسیکی گائیک نے ترانہ بھی ضرور گایا ہے، انہی میں سے کچھ اپنی پسند کے اور جو یوٹیوب پر مل سکے ہیں یہاں شامل کر رہا ہوں۔

سب سے پہلے میرے پسندیدہ گائیک استاد بڑے غلام علی خان صاحب مرحوم قصور گھرانہ کا ایک ترانہ۔







استاد فتح علی خان پٹیالہ گھرانہ کا ایک ترانہ، جو انہوں نے راگ درباری خیال گاتے ہوئے گایا ہے۔


ایک اور عظیم فنکار، استاد سلامت علی خان مرحوم، شام چوراسی گھرانہ، راگ سرسوتی میں ترانہ


اگر آپ میری پسند کچھ اور ترانے سننا چاہتے ہیں تو یہ ربط دیکھیے یا یو ٹیوب پر اپنی پسند کے ترانوں سے بھی لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
---------

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 23, 2012

راگ درباری کانہڑہ - ایک تعارف

راگ درباری برصغیر کی موسیقی کے مقبول ترین راگوں میں سے ہے اور مقبولیت میں اس سے زیادہ شاید صرف راگ بھیرویں ہی ہے۔ سینکڑوں ہزاروں بندشیں، غزلیں اور گیت درباری میں بنے ہیں اور بنائے جا رہے ہیں، گانے اور پہچاننے میں بھی آسان ہے لیکن اسے اس کی نزاکتوں کے ساتھ گانا صرف اساتذہٴ فن ہی کا کام ہے۔

مانا جاتا ہے کہ اس راگ کو میاں تان سین نے دربارِ اکبری میں گانے کیلیے خاص طور پر اختراع کیا تھا اور اسی لیے اس راگ میں گھمبیرتا ہے اور اسے راگوں کی دنیا میں گھمبیر، بارعب، با وقار، سنجیدہ اور متین  راگ سمجھا جاتا ہے۔

 میں یہاں درباری کا مختصر تعارف لکھ رہا ہوں اور اس میں گائے ہوئے ایک دو خیال اور غزلیں وغیرہ بھی اس کے ساتھ شامل ہیں۔

 نوٹیشن کا طریقہ
 تیور سروں کو یہاں پورے نام سے ظاہر کیا جائے گا، مثال کے طور پر تیور گندھار کیلیے "گا" لکھا جائے گا جب کہ کومل سُروں کو پورے نام کی بجائے صرف پہلے حرف سے ظاہر کیا جائے گا یعنی کومل گندھار کو "گ" سے ظاہر کیا جائے گا۔  تار سپتک یعنی اوپر والی سپتک کے سر کے بعد ایک ڈیش - لگائی جائے یعنی تار سپتک کے سا کو، "سا-" کے ساتھ ظاہر کیا جائے گا اور مندر سپتک یعنی نچلی سپتک کے سر سے پہلے ڈیش لگائی جائے گی یعنی مندر سپتک کے سا کو "-سا" سے ظاہر کیا جائے گا۔ جب کہ کسی سُر کے ساتھ کوئی ڈیش نہ ہونے کا مطلب ہے کہ وہ مدھ سپتک یعنی درمیانی سپتک کا سر ہے اور بنیادی سپتک بھی یہی مدھ سپتک ہے۔

 راگ - درباری کانہڑہ
 یہ اس راگ کا مکمل نام ہے اور یہ کانہڑے کی ایک شکل ہے، عام طور پر (یا پیار سے) اسے صرف درباری ہی کہا جاتا ہے۔

 ٹھاٹھ - اساوری
 ایک خوبصورت ٹھاٹھ یعنی راگوں کا گروپ جس کا بنیادی راگ، راگ اساوری ہے ١ور اس راگ کے نام پر ہی اس ٹھاٹھ کا نام ہے۔ اس خاکسار کو ذاتی طور پر یہ ٹھاٹھ حد سے زیادہ پسند ہے کیونکہ میرے کچھ پسندیدہ ترین راگوں یعنی دربای، اساوری، جونپوری کا تعلق اسی ٹھاٹھ سے ہے۔

 اساوری ٹھاٹھ میں، رکھب یعنی رے تیور ہے جبکہ گندھار یعنی گا، مدھم یعنی ما، دھیوت یعنی دھا اور نکھاد یعنی نی، چاروں کومل سر ہیں۔  جبکہ کھرج سا اور پنچم پا ہوتے ہی اچل ہیں یعنی انکے کومل اور تیور سُر نہیں ہوتے۔ اگر شُدھ سُروں میں بات کریں تو اس ٹھاٹھ میں سا، رے، ما اور پا شدھ سر ہیں۔ اور یہی ترتیب درباری میں ہے۔

 جاتی یا ذات - سمپورن + کھاڈو (یا شاڈو)
 یعنی آروہی میں سات سر اور اوروہی میں چھ سر۔ اوروہی میں دھیوت ورجت ہے یعنی نہیں لگایا جاتا۔

 آروہی یا ترتیبِ صعودی
 یعنی نیچے سے اوپر جاتے ہوئے اس راگ کے سر یہ ہیں۔

 -ن سا رے گ رے سا، م پا د ن سا-

 (کچھ اساتذہ آخری ٹکڑے کو م پا د ن رے- سا- بھی کہتے ہیں)

 اوروہی یا ترتیبِ نزولی
 یعنی اوپر سے نیچے آتے ہوئے

 سا- د ن پا، م پا، گ م رے سا

 یہاں ایک بات کی وضاحت بہت ضروری ہے۔ جیسے کہ اس راگ کی جاتی میں لکھا گیا کہ اوروہی میں دھیوت ورجت ہے یعنی نہیں لگایا جاتا لیکن اوروہی لکھتے ہوئے آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ دھیوت یعنی د لکھا گیا ہے تو پھر یہ ورجت کیسے ہوا یا اوروہی کھاڈو کیسے ہوئی۔ اس بات کی وضاحت آج تک کسی کتاب یا ویب سائٹ پر میری نظر سے نہیں گزری سب یہی لکھ دیتے ہیں کہ دھیوت ورجت ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ اوروہی میں دھیوت تو لگ رہا ہے لیکن اپنی ترتیب میں نہیں یعنی سا- کے بعد نکھاد کی جگہ دھیوت آ گیا ہے اور دھیوت کے فوری بعد پنچم کی بجائے نکھاد ہے یوں " د ن" کا ٹکڑا اوروہی کا حصہ بننے کی بجائے آروہی کا حصہ بن گیا ہے اور یہی اس بات کا مطلب ہے کہ دھیوت اوروہی میں ورجت ہے۔ یعنی اوروہی میں کبھی بھی دھیوت کے بعد پنچم نہیں آے گا بلکہ دھیوت کے بعد ہمیشہ ہی نکھاد آئے گا اور نکھاد کے بعد پنچم اور یہی اس راگ کی نزاکت ہے جسے قائم رکھنا بہت ضروری ہے اس کی خلاف ورزی کرنے سے درباری، درباری نہیں رہے گا۔

سروں کی مزید تفہیم کیلیے ایک تصویر شامل کر رہا ہوں جس میں درباری کے سروں کی ہارمونیم پر نشاندہی کی گئی ہے۔


 پکڑ
 یعنی سروں کے وہ ٹکڑے جو کسی راگ میں بار بار لگائے جاتے ہیں اور راگ اس سے پہچانا جاتا ہے۔ درباری کی مختلف پکڑیں مشہور ہیں، کچھ مشہور اسطرح سے ہیں

 گ م رے سا
 -د -ن سا رے سا
 وغیرہ

 وادی سُر - رکھب
 یعنی کسی راگ کا سب سے اہم سُر، جس کو بار بار لگایا جاتا ہے یا اس پر رکا جاتا ہے یا اس پر زور دیا جاتا ہے-

 سَم وادی سُر - پنچم
 وادی سُر کے بعد دوسرا سب سے اہم سُر-

 وقت - رات کا دوسرا پہر یا آدھی رات
 یعنی وہ خاص وقت جس میں عموماً کوئی راگ گایا جاتا ہے اور اپنا سماں باندھ دیتا ہے۔

 درباری کی کچھ مزید خصوصیات
 - اس میں دو سُر یعنی کومل گندھار اور کومل دھیوت کا اندوہلن کیا جاتا ہے یعنی ان سُروں کو جھولایا جاتا ہے اور یہ اس راگ کا خاص انگ ہے جو اس کو دوسروں سے الگ کرتا ہے اور بہت لطف دیتا ہے۔
 - یہ پوروانگ کا راگ ہے یعنی عام طور پر نچلے سروں میں گایا جاتا ہے۔
 - یہ راگ بلمپت لے یعنی دھیمی لے (سلو ٹیمپو) میں زیادہ اچھا لگتا ہے۔ - اسکی آروہی میں کومل گندھار دُربل یعنی کمزور رہتا ہے یعنی اس سُر پر زیادہ زور نہیں دیا جاتا۔

------

سب سے پہلے عصرِ حاضر کے تان سین استاد بڑے غلام علی خان مرحوم ( قصور پٹیالہ گھرانہ) کی راگ درباری میں ایک انتہائی خوبصورت بندش  "انوکھا لاڈلا"۔



اور میرے ایک اور پسندیدہ گلوکار استاد فتح علی خان پٹیالہ گھرانہ کی ایک خوبصورت بندش راگ درباری میں



ایک خوبصورت ترانہ اسی راگ میں, استاد نزاکت علی اور استاد سلامت علی شام چوراسی گھرانہ


اور مہدی حسن کی ایک خوبصورت غزل کو بکو پھیل گئی۔۔۔۔۔۔۔۔



فلم بیجو باورا کے لیے گائی گئی اُستاد امیر خان کی راگ درباری میں خوبصورت سرگم


اسکے علاوہ کچھ اور خوبصورت غزلیں جو اسی راگ میں ہیں، انکے نام لکھ رہا ہوں

- ہنگامہ ہے کیوں برپا - غلام علی
- تسکیں کو ہم نہ روئیں - اقبال بانو
- آ میرے پیار کی خوشبو - استاد امانت علی

اس پوسٹ میں یو ٹیوب کی بہت زیادہ ویڈیوز نہیں لگا رہا کہ کچھ قارئین کو کوفت نہ ہو، اگر آپ اس راگ میں بنائی گائی میری پسند کی کچھ اور چیزیں سننا چاہتے ہیں تو یہ ربط دیکھیے، بصورتِ دیگر آپ کی اپنی پسند کیلیے یو ٹیوب تو ہے ہی۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔