Showing posts with label بحر کامل. Show all posts
Showing posts with label بحر کامل. Show all posts

May 9, 2008

غزل سراج اورنگ آبادی

خبرِ تحیرِ عشق سن، نہ جنوں رہا، نہ پری رہی
نہ تو تُو رہا، نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی

شۂ بے خودی نے عطا کیا، مجھے اب لباسِ برہنگی
نہ خرد کی بخیہ گری رہی، نہ جنوں کی پردہ دری رہی

چلی سمتِ غیب سے اک ہوا کہ چمن ظہور کا جل گیا
مگر ایک شاخِ نہالِ غم جسے دل کہیں سو ہری رہی

نظرِ تغافلِ یار کا گلہ کس زباں سے کروں بیاں
کہ شرابِ حسرت و آرزو، خمِ دل میں تھی سو بھری رہی

وہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی لیا درس نسخۂ عشق کا
کہ کتاب عقل کی طاق پر جو دھری تھی سو وہ دھری رہی

ترے جوشِ حیرتِ حسن کا اثر اس قدر ہے یہاں ہوا
کہ نہ آئینے میں جِلا رہی، نہ پری میں جلوہ گری رہی

کیا خاک آتشِ عشق نے دلِ بے نوائے سراج کو
نہ خطر رہا، نہ حذر رہا، جو رہی سو بے خطری رہی
(سراج اونگ آبادی دکنی)
——–
بحر - بحر کامل مثمن سالم
افاعیل - مُتَفاعِلُن مُتَفاعِلُن مُتَفاعِلُن مُتَفاعِلُن
اشاری نظام - 21211 21211 21211 21211
تقطیع -
خبرِ تحیرِ عشق سن، نہ جنوں رہا، نہ پری رہی
نہ تو تُو رہا، نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی
خَ بَ رے تَ حی - مُتَفاعِلُن - 21211
یُ رِ عشق سن - مُتَفاعِلُن - 21211
نَ جنو رہا - مُتَفاعِلُن - 21211
نَ پری رہی - مُتَفاعِلُن - 21211
نَ تُ تو رہا - مُتَفاعِلُن - 21211
نَ تُ مے رہا - مُتَفاعِلُن - 21211
جُ رہی سُ بے - مُتَفاعِلُن - 21211
خَ بَ ری رہی - مُتَفاعِلُن - 21211
مزید پڑھیے۔۔۔۔