Showing posts with label بحر ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف. Show all posts
Showing posts with label بحر ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف. Show all posts

Oct 8, 2012

اے تیرِ غمت را دلِ عُشّاق نشانہ - غزل مولانا ہلالی استر آبادی مع اردو ترجمہ

اے تیرِ غمَت را دلِ عُشّاق نشانہ
خلقے بتو مشغول و تو غائب ز میانہ

اے کہ تیرے غم کے تیر کا نشانہ عشاق کا دل ہے، ساری خلقت تجھ میں مشغول ہے اور تو درمیان سے غائب ہے۔

مجنوں صِفَتَم در بدر و خانہ بخانہ
شاید کہ ببینم رُخِ لیلیٰ بہ بہانہ

میں، مجنوں کی طرح در بدر اور خانہ بخانہ (پھرتا ہوں) شاید کہ کسی بہانے ہی سے رخ لیلیٰ کا دیدار ہو جائے۔

گہ معتکفِ مسجد و گہ ساکنِ دیرَم
یعنی کہ ترا می طلبم خانہ بخانہ

کبھی میں مسجد میں حالتِ اعتکاف میں ہوں اور کبھی مندر کا ساکن ہوں، یعنی میں خانہ بخانہ تیرا ہی طالب ہوں (کہ مسجد و مندر میں تو ہی ہے)-

حاجی بہ رہِ کعبہ و من طالبِ دیدار
اُو خانہ ہمی جوید و من صاحبِ خانہ

حاجی کعبے کا مسافر ہے اور میں تیرے دیدار کا طالب ہوں، یعنی وہ تو گھر ڈھونڈتا ہے اور میں گھر والے کو۔

تقصیرِ ہلالی بہ اُمیدِ کرمِ تُست
یعنی کہ گنہ را بہ ازیں نیست بہانہ

ہلالی کی تقصیروں کو تیرے کرم کی ہی امید ہے یعنی کہ گناہوں کیلیے اس سے بہتر کوئی بہانہ نہیں ہے۔

مولانا ہلالی اَستر آبادی
----

قافیہ - آنہ یعنی الف نون اور ہائے ہوز ساکن اور الف سے پہلے زبر کی آواز۔ جیسے نشانہ میں شانہ، میانہ میں یانہ، بہانہ میں ہانہ اور خانہ۔ واضح رہے کہ الف سے پہلے ہمیشہ زبر کی آواز ہی ہوتی ہے۔

ردیف - اس غزل کی ردیف نہیں ہے یعنی یہ غزل غیر مُردّف ہے۔

بحر - بحرِ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف

 افاعیل: مَفعُولُ مَفَاعیلُ مَفَاعیلُ فَعُولُن
آخری رکن فعولن کی جگہ مسبغ رکن فعولان بھی آ سکتا ہے۔ جیسے چوتھے شعر کے پہلے مصرعے میں "طالبِ دیدار" میں جز "بِ دیدار" فعولان کے وزن پرں تقطیع ہوگا۔ اسی طرح مقطع کے پہلے مصرعے میں بھی۔

علامتی نظام - 122 / 1221 / 1221 / 221
(آخری رکن 221 کی جگہ 1221 بھی آ سکتا ہے)
ہندسوں کو اردو رسم الخظ کے مطابق یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی  122 پہلے ہے اور اس میں بھی 2 پہلے ہے۔

 تقطیع -

اے تیر غمَت را دلِ عُشّاق نشانہ
خلقے بتو مشغول و تو غائب ز میانہ

اے تیر - مفعول - 122
غمت را دِ - مفاعیل - 1221
لِ عشّاق - مفاعیل - 1221
نشانہ - فعولن - 221

خلقے بَ - مفعول - 122
تُ مشغول - مفاعیل - 1221
تُ غائب ز - مفاعیل - 1221
میانہ - فعولن - 221
----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 14, 2012

حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا - قتیل شفائی

حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا
ٹوٹے بھی جو تارا تو زمیں پر نہیں گرتا

گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا

سمجھو وہاں پھل دار شجر کوئی نہیں ہے
وہ صحن کہ جِس میں کوئی پتھّر نہیں گرتا

اِتنا تو ہوا فائدہ بارش کی کمی سے
اِس شہر میں اب کوئی پھسل کر نہیں گرتا

انعام کے لالچ میں لکھے مدح کسی کی
اتنا تو کبھی کوئی سخنور نہیں گرتا

حیراں ہے کوئی روز سے ٹھہرا ہوا پانی
تالاب میں اب کیوں کوئی کنکر نہیں گرتا
Qateel Shifai, قتیل شفائی, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Urdu Poetry, Urdu Shairy, Urdu Ghazl, Taqtee, Behr, علم عروض، تقطیع، اردو شاعری، اردو غزل
Qateel Shifai, قتیل شفائی

اُس بندہٴ خوددار پہ نبیوں کا ہے سایا
جو بھوک میں بھی لقمہٴ تر پر نہیں گرتا

کرنا ہے جو سر معرکہِ زیست تو سُن لے
بے بازوئے حیدر، درِ خیبر نہیں گرتا

قائم ہے قتیل اب یہ مرے سر کے ستوں پر
بھونچال بھی آئے تو مرا گھر نہیں گرتا
-----

قافیہ - اَر یعنی رے ساکن اور اس سے پہلے زبر کی آواز جیسے قلندر میں دَر، پَر، سمندر میں دَر، پتھر میں تھَر، کر وغیرہ۔

ردیف - نہیں گرتا

بحر - بحرِ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف

 افاعیل: مَفعُولُ مَفَاعیلُ مَفَاعیلُ فَعُولُن
آخری رکن فعولن کی جگہ مسبغ رکن فعولان بھی آ سکتا ہے۔

علامتی نظام - 122 / 1221 / 1221 / 221
(آخری رکن 221 کی جگہ 1221 بھی آ سکتا ہے)
ہندسوں کو اردو رسم الخظ کے مطابق یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی  122 پہلے ہے اور اس میں بھی 2 پہلے ہے۔

 تقطیع -

حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا
ٹوٹے بھی جو تارا تو زمیں پر نہیں گرتا

حالات - مفعول - 122
کِ قدمو پِ - مفاعیل - 1221
قلندر نَ - مفاعیل - 1221
ہِ گرتا - فعولن - 221

ٹوٹے بِ - مفعول - 122
جُ تارا تُ - مفاعیل - 1221
زمی پر نَ - مفاعیل - 1221
ہِ گرتا - فعولن - 221
----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 16, 2012

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام - غزل اکبر الہ آبادی

غمزہ نہیں ہوتا کہ اشارہ نہیں ہوتا
آنکھ ان سے جو ملتی ہے تو کیا کیا نہیں ہوتا

جلوہ نہ ہو معنی کا تو صورت کا اثر کیا
بلبل گلِ تصویر کا شیدا نہیں ہوتا

اللہ بچائے مرضِ عشق سے دل کو
سنتے ہیں کہ یہ عارضہ اچھّا نہیں ہوتا
Urdu Poetry, Akbar Allahabadi, اکبر الہ آبادی, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-urooz, Prosody, meters, Behr, Taqtee, ااردو شاعری، اردو غزل، تقطیع، علم عروض،
Akbar Allahabadi, اکبر الہ آبادی

تشبیہ ترے چہرے کو کیا دوں گُلِ تر سے
ہوتا ہے شگفتہ مگر اتنا نہیں ہوتا

میں نزع میں ہوں آئیں تو احسان ہے اُن کا
لیکن یہ سمجھ لیں کہ تماشا نہیں ہوتا

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
-----

قافیہ - آ یعنی الف اور اس سے پہلے زبر کی آواز جیسے اشارہ کا را، کیا کا آ، شیدا کا دا وغیرہ۔

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ایسے قافیے ہائے ہوز یعنی ہ کے ساتھ بھی کیے جا سکتے ہیں جیسے اشارہ میں قافیہ را کی بجائے رہ ہے لیکن اس کی اجازت ہے بشرطیکہ اس کا اعلان مطلع میں کیا جائے یعنی ایک ایسا قافیہ مطلع میں لایا جائے اور بعد میں جتنے مرضی لے آئیں جیسے اس غزل میں چہرہ قافیہ بھی آ سکتا تھا۔

ردیف - نہیں ہوتا

بحر - بحرِ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف

 افاعیل: مَفعُولُ مَفَاعیلُ مَفَاعیلُ فَعُولُن
آخری رکن فعولن کی جگہ مسبغ رکن فعولان بھی آ سکتا ہے، جیسے کہ اس غزل کے آخری شعر کے پہلے مصرعے میں الفاظ "ہیں بدنام" کی تقطیع فعولان کے وزن پر ہوگی۔

علامتی نظام - 122 / 1221 / 1221 / 221
(آخری رکن 221 کی جگہ 1221 بھی آ سکتا ہے)
ہندسوں کو اردو رسم الخظ کے مطابق یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی  122 پہلے ہے اور اس میں بھی 2 پہلے ہے۔

 تقطیع -

غمزہ نہیں ہوتا کہ اشارہ نہیں ہوتا
آنکھ ان سے جو ملتی ہے تو کیا کیا نہیں ہوتا

غمزہ نَ - مفعول - 122
ہِ ہوتا کِ - مفاعیل - 1221
اشارہ نَ - مفاعیل - 1221
ہِ ہوتا - فعولن - 221

آ کُن سِ - مفعول - 122 - یہاں "آنکھ ان" میں الف کا وصال نوٹ کریں۔
جُ ملتی ہِ - مفاعیل - 1221
تُ کا کا نَ - مفاعیل - 1221
ہِ ہوتا - فعولن - 221
-----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 15, 2012

ہر چہرے میں آتی ہے نظر یار کی صورت - واصف علی واصف

ہر چہرے میں آتی ہے نظر یار کی صورت
احباب کی صورت ہو کہ اغیار کی صورت

سینے میں اگر سوز سلامت ہو تو خود ہی
اشعار میں ڈھل جاتی ہے افکار کی صورت

 جس آنکھ نے دیکھا تجھے اس آنکھ کو دیکھوں
ہے اس کے سوا کیا ترے دیدار کی صورت

پہچان لیا تجھ کو تری شیشہ گری سے
آتی ہے نظر فن ہی سے فنکار کی صورت
Urdu Poetry, Urdu Shairy, Urdu Ghazal, Wasif Ali Wasif, واصف علی واصف, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behar, اردو شاعری، اردو غزل، علم عروض، تقطیع، بحر
Wasif Ali Wasif, واصف علی واصف
اشکوں نے بیاں کر ہی دیا رازِ تمنّا
ہم سوچ رہے تھے ابھی اظہار کی صورت

اس خاک میں پوشیدہ ہیں ہر رنگ کے خاکے
مٹّی سے نکلتے ہیں جو گلزار کی صورت

دل ہاتھ پہ رکھّا ہے کوئی ہے جو خریدے؟
دیکھوں تو ذرا میں بھی خریدار کی صورت

صورت مری آنکھوں میں سمائے گی نہ کوئی
نظروں میں بسی رہتی ہے سرکار کی صورت

واصف کو سرِدار پکارا ہے کسی نے
انکار کی صورت ہے نہ اقرار کی صورت

واصف علی واصف

غزل بشکریہ اردو محفل
------

بحر - بحرِ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف

 افاعیل: مَفعُولُ مَفَاعیلُ مَفَاعیلُ فَعُولُن
(آخری رکن فعولن کی جگہ مسبغ رکن فعولان بھی آ سکتا ہے)

اشاری نظام - 122 1221 1221 221
(آخری رکن 221 کی جگہ 1221 بھی آ سکتا ہے)
ہندسوں کو اردو رسم الخظ کے مطابق یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی  122 پہلے ہے اور اس میں بھی 2 پہلے ہے۔

 تقطیع -

ہر چہرے میں آتی ہے نظر یار کی صورت
احباب کی صورت ہو کہ اغیار کی صورت

ہر چہرِ - مفعول - 122
مِ آتی ہِ - مفاعیل - 1221
نظر یار - مفاعیل - 1221
کِ صورت - فعولن - 221

احباب - مفعول - 122
کِ صورت ہُ - مفاعیل - 1221
کِ اغیار - مفاعیل - 1221
کِ صورت - فعولن - 221
--------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 14, 2012

ہرچند کہ ساغر کی طرَح جوش میں رہیے - غزل شان الحق حقّی

ہرچند کہ ساغر کی طرَح جوش میں رہیے
ساقی سے ملے آنکھ تو پھر ہوش میں رہیے

کچھ اس کے تصوّر میں وہ راحت ہے کہ برسوں
بیٹھے یونہی اس وادیٔ گُل پوش میں رہیے

اک سادہ تبسّم میں وہ جادو ہے کہ پہروں
ڈوبے ہوئے اک نغمۂ خاموش میں رہیے

ہوتی ہے یہاں قدر کسے دیدہ وری کی
آنکھوں کی طرح اپنے ہی آغوش میں رہیے

ٹھہرائی ہے اب حالِ غمِ دل نے یہ صورت
مستی کی طرح دیدۂ مے نوش میں رہیے
shan, haqqi, shan-ul-haq-haqqi, poetry, urdu poetry, ghazal, شان، شان الحق حقی، اردو شاعری، اردو غزل، شاعری، غزل
ڈاکٹر شان الحق حقّی, Shan-ul-Haq Haqqi
ہمّت نے چلن اب یہ نکالا ہے کہ چبھ کر
کانٹے کی طرح پائے طلب کوش میں رہیے

آسودہ دلی راس نہیں عرضِ سُخن کو
ہے شرط کہ دریا کی طرح جوش میں رہیے

ہستی میں وہ حالت ہے دل و جاں کی کہ جیسے
جا کر کسی مینارۂ خاموش میں رہیے

کیوں دیکھیے خونابہ فشانی کو کسی کی
آرائشِ رخسار و لب و گوش میں رہیے

یا ربط خدایانِ جفا کیش سے رکھیے
یا حلقۂ یارانِ وفا کوش میں رہیے

حقّی وہی اب پھر غمِ ایّام کا دکھڑا
یہ محفلِ رنداں ہے ذرا ہوش میں رہیے

ڈاکٹر شان الحق حقّی
--------
بحر - بحرِ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف

 افاعیل: مَفعُولُ مَفَاعیلُ مَفَاعیلُ فَعُولُن
(آخری رکن فعولن کی جگہ مسبغ رکن فعولان بھی آ سکتا ہے)

اشاری نظام - 122 1221 1221 221
(آخری رکن 221 کی جگہ 1221 بھی آ سکتا ہے)

 تقطیع -


ہرچند کہ ساغر کی طرَح جوش میں رہیے
ساقی سے ملے آنکھ تو پھر ہوش میں رہیے


ہر چند - مفعول - 122
کہ ساغر کِ - مفاعیل - 1221
طرَح جوش - مفاعیل - 1221
مِ رہیے - فعولن - 221

ساقی سِ - مفعول - 122
ملے آک - مفاعیل - 1221
تُ پر ہوش - مفاعیل - 1221
مِ رہیے - فعولن - 221
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 25, 2009

مرزا رفیع سودا کی ایک غزل - گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی

Mirza Rafi Sauda, مرزا رفیع سودا, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
Mirza Rafi Sauda, مرزا رفیع سودا
مرزا رفیع سودا کا شمار ان خوش قسمت شعراء میں ہوتا ہے جنہیں میر تقی میر شاعر بلکہ "مکمل شاعر" سمجھتے تھے۔ اردو شاعری کی بنیادوں کو مضبوط تر بنانے میں سودا کا نام لازوال مقام حاصل کر چکا ہے اور جب تک اردو اور اردو شاعری رہے گی انکا نام بھی رہے گا۔
سودا کی ایک غزل جو مجھے بہت زیادہ پسند ہے۔
گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بر اندازِ چمن، کچھ تو اِدھر بھی

کیا ضد ہے مرے ساتھ، خدا جانئے ورنہ
کافی ہے تسلّی کو مرے ایک نظر بھی

اے ابر، قسم ہے تجھے رونے کی ہمارے
تجھ چشم سے ٹپکا ہے کبھو لختِ جگر بھی

اے نالہ، صد افسوس جواں مرنے پہ تیرے
پایا نہ تنک دیکھنے تَیں رُوئے اثر بھی

کس ہستیٔ موہوم پہ نازاں ہے تو اے یار
کچھ اپنے شب و روز کی ہے تجھ کو خبر بھی

تنہا ترے ماتم میں نہیں شام سیہ پوش
رہتا ہے سدا چاک، گریبانِ سحر بھی

سودا، تری فریاد سے آنکھوں میں کٹی رات
آئی ہے سحر ہونے کو ٹک تو کہیں مر بھی
--------
بحر - بحرِ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
افاعیل: مَفعُولُ مَفَاعیلُ مَفَاعیلُ فَعُولُن
(آخری رکن فعولن کی جگہ فعولان یا مفاعیل بھی آ سکتا ہے)
اشاری نظام - 122 1221 1221 221
(آخری رکن 221 کی جگہ 1221 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع -
گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بر اندازِ چمن، کچھ تو اِدھر بھی
گل پے کِ - مفعول - 122
ہِ اورو کِ - مفاعیل - 1221
طرف بلکہ - مفاعیل - 1221
ثمر بی - فعولن - 221
اے خانہ - مفعول - 122
بَ رَندازِ - مفاعیل - 1221 (الفِ وصل ساقط ہوا ہے)۔
چمن کچ تُ - مفاعیل - 1221
اِدَر بی - فعولن - 221

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 27, 2009

بابائے اردو شاعری، ولی دکنی کی ایک غزل - تجھ لب کی صِفَت لعلِ بدخشاں سوں کہوں گا

بابائے اردو شاعری، شمس ولی اللہ المعروف بہ ولی دکنی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ آپ نے اردو شاعری کو حسن عطا کیا اور جو شاعری پہلے صرف منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے کی جاتی تھی آپ نے اسے باقاعدہ ایک صنف کا درجہ دیا اور یوں ایک ایسی بنیاد رکھی جس پر اردو شاعری کی پرشکوہ عمارت تعمیر ہوئی۔
مولانا محمد حسین آزاد، "آبِ حیات" میں فرماتے ہیں۔
ولی دکنی, Wali Dakani, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
ولی دکنی ایک خاکہ، Wali Dakani
"اس زمانے تک اردو میں متفرق شعر ہوتے تھے۔ ولی اللہ کی برکت نے اسے وہ زور بخشا کہ آج کی شاعری، نظمِ فارسی سے ایک قدم پیچھے نہیں، تمام بحریں فارسی کی اردو میں لائے۔ شعر کو غزل اور غزل کو قافیہ ردیف سے سجایا، ردیف وار دیوان بنایا۔ ساتھ اسکے رباعی، قطعہ، مخمس اور مثنوی کا راستہ بھی نکالا۔ انہیں ہندوستان کی نظم میں وہی رتبہ ہے جو انگریزی کی نظم میں چوسر شاعر کو اور فارسی میں رودکی کو اور عربی میں مہلہل کو۔"

مولانا آزاد کے زمانے تک ولی دکنی کو اردو کا پہلا شاعر مانا جاتا تھا، جدید تحقیق سے گو یہ اعزاز تو انکے پاس نہیں رہا لیکن اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے جو اوپر مولانا نے کہی ہے۔

ولی کی ایک خوبصورت غزل لکھ رہا ہوں، اس غزل میں جو متروک الفاظ ہیں انکے مترادف پہلے لکھ دوں تاکہ قارئین کو دشواری نہ ہو۔

سوں - سے
کوں - کو، کر
یو - یہ
سری جن - محبوب

تجھ لب کی صِفَت لعلِ بدخشاں سوں کہوں گا
جادو ہیں ترے نین، غزالاں سوں کہوں گا

دی حق نے تجھے بادشَہی حسن نگر کی
یو کشورِ ایراں میں سلیماں سوں کہوں گا

تعریف ترے قد کی الف دار، سری جن
جا سرو گلستاں کوں خوش الحاں سوں کہوں گا

مجھ پر نہ کرو ظلم، تم اے لیلٰیِ خوباں
مجنوں ہوں، ترے غم کوں بیاباں سوں کہوں گا

دیکھا ہوں تجھے خواب میں اے مایۂ خوبی
اس خواب کو جا یوسفِ کنعاں سوں کہوں گا

جلتا ہوں شب و روز ترے غم میں اے ساجن
یہ سوز ترا مشعلِ سوزاں سوں کہوں گا

یک نقطہ ترے صفحۂ رخ پر نہیں بے جا
اس مُکھ کو ترے صفحۂ قرآں سوں کہوں گا

زخمی کیا ہے مجھ تری پلکوں کی انی نے
یہ زخم ترا خنجر و بھالاں سوں کہوں گا

بے صبر نہ ہو اے ولی اس درد سے ہرگاہ
جلدی سوں ترے درد کی درماں سوں کہوں گا

———————

بحر - بحرِ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف

افاعیل: مَفعُولُ مَفَاعیلُ مَفَاعیلُ فَعُولُن(آخری رکن فعولن کی جگہ فعولان یا مفاعیل بھی آ سکتا ہے)

اشاری نظام - 122 1221 1221 221
(آخری رکن 221 کی جگہ 1221 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

تجھ لب کی صِفَت لعلِ بدخشاں سوں کہوں گا
جادو ہیں ترے نین، غزالاں سوں کہوں گا

تج لب کِ - مفعول - 122
صِفَت لعل - مفاعیل - 1221
بدخشا سُ - مفاعیل - 1221
کہو گا - فعولن - 221

جادو ہِ - مفعول - 122
ترے نین - مفاعیل - 1221
غزالا سُ - مفاعیل - 1221
کہو گا - فعولن - 221
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Oct 18, 2008

دو شاعر دو غزلیں

فیض احمد فیض اور احمد فراز اردو شاعری کے دو بہت بڑے نام ہیں، ان دونوں شاعروں کی دو دلچسپ اور مشہور و معروف غزلیں جو ایک ہی زمین میں ہیں۔
غزلِ فیض
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچّھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے

دردِ شبِ ہجراں کی جزا کیوں نہیں دیتے
خونِ دلِ وحشی کا صلہ کیوں نہیں دیتے

مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Faiz Ahmed Faiz, فیض احمد فیض
فیض احمد فیض, Faiz Ahmed Faiz
ہاں نکتہ وَرَو لاؤ لب و دل کی گواہی
ہاں نغمہ گَرَو ساز صدا کیوں نہیں دیتے

پیمانِ جنوں ہاتھوں کو شرمائے گا کب تک
دل والو، گریباں کا پتا کیوں نہیں دیتے

بربادیٔ دل جبر نہیں فیض کسی کا
وہ دشمنِ جاں ہے تو بُھلا کیوں نہیں دیتے
———————
غزلِ فراز
خاموش ہو کیوں دادِ جفا کیوں نہیں دیتے
بسمل ہو تو قاتل کو دعا کیوں نہیں دیتے

وحشت کا سبب روزنِ زنداں تو نہیں ہے
مہر و مہ و انجم کو بجھا کیوں نہیں دیتے
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee، Ahmed Faraz, احمد فراز
احمد فراز, Ahmed Faraz
اک یہ بھی تو اندازِ علاجِ غمِ جاں ہے
اے چارہ گرو، درد بڑھا کیوں نہیں دیتے


منصف ہو اگر تم تو کب انصاف کرو گے
مجرم ہیں اگر ہم تو سزا کیوں نہیں دیتے

رہزن ہو تو حاضر ہے متاعِ دل و جاں بھی
رہبر ہو تو منزل کا پتا کیوں نہیں دیتے

کیا بیت گئی اب کے فراز اہلِ چمن پر
یارانِ قفس مجھ کو صدا کیوں نہیں دیتے
———————
بحر - بحرِ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
(دونوں غزلیں ایک ہی بحر میں ہیں)
افاعیل: مَفعُولُ مَفَاعیلُ مَفَاعیلُ فَعُولَن
(آخری رکن فعولن کی جگہ فعولان یعنی مفاعیل بھی آ سکتا ہے)
اشاری نظام - 122 1221 1221 221
(آخری رکن 221 کی جگہ 1221 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع -
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچّھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے
بے دم ہُ - مفعول - 122
ء بیمار - مفاعیل - 1221
دوا کو نَ - مفاعیل - 122
ہِ دیتے - فعولن - 221
تم اچ چ - مفعول - 122
مسیحا ہُ - مفاعیل - 1221
شفا کو نَ - مفاعیل - 1221
ہِ دیتے - فعولن - 221
مزید پڑھیے۔۔۔۔