Showing posts with label جدید فارسی شاعری. Show all posts
Showing posts with label جدید فارسی شاعری. Show all posts

Apr 22, 2010

وای آں دل کہ در آں مہرِ بلوچاں نَبوَد - ضیا بلوچ صاحب کی ایک غزل

ضیا بلوچ صاحب، فیس بُک پر ہمارے دوست ہیں، انکی ایک خوبصورت فارسی غزل شیئر کر رہا ہوں۔ مطلع انہوں نے اپنے مخصوص پس منظر میں کہا ہے لیکن دیگر اشعار انتہائی خوبصورت ہیں، شعریت اور تغزل سے بھرپور۔ میں نے یہ غزل فیس بُک پر پڑھی تو بہت پسند آئی اور اس کو شیئر کرنے کی اجازت بھی ان سے حاصل کر لی۔ ترجمہ بھی انہوں نے خود ہی کیا ہوا تھا، سو میرا کام بھی آسان ہوا۔

وای آں دل کہ در آں مہرِ بلوچاں نَبوَد
مردہ آں تن کہ فدای رہِ بولاں نبود

افسوس اُس دل پر جس میں بلوچوں کیلیے مہر نہیں ہے، اُس شخص کا شمار مردوں میں ہے جو بولان کی راہ میں فدا نہ ہوا۔


کور چشمی کہ نگاہی بہ رُخِ غم نکند
تیرہ قلبی کہ در آں درد فروزاں نبود

وہ آنکھ اندھی ہے جسے غم دکھائی نہ دے، وہ دل تاریک ہے جس میں درد فروزاں نہیں ہوتا۔


دوش در میکدۂ عشق شنیدم سخنی
نیست سوزی کہ تہِ شیشۂ رنداں نبود
کل رات عشق کے میخانے میں، میں نے یہ بات سنی کہ کوئی ایسا سوز نہیں ہے جو رندوں کے شیشے (دل) میں نہیں ہے۔


ز تب و تابِ نگاہت نہ درخشد رُخِ دوست
تا دلِ تو، چو ستارہ، سرِ مژگاں نبود
تیری نگاہ کی تب و تاب سے دوست کا چہرہ نہیں دمکتا جب تک کہ تیرا دل ستارے کی مانند پلکوں پر روشن نہ ہو۔


نبود مہرِ جہاں تاب کُلاہِ مجنوں
چاکِ دامان اگر تا بہ گریباں نبود
سورج کسی دیوانے کی سر کی زینت نہیں بنتا اگر اس کے دامن کا چاک گریباں تک نہ پہنچے۔


حیف صد حیف بر آں غنچۂ لب بستہ ضیا
کز نفَسہای بہاری گُلِ خنداں نبود

صد افسوس اس لب بستہ کلی پر ضیا جو بادِ بہاری کے چلنے پر بھی نہ کِھل سکے۔


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 20, 2008

فریدون مشیری کی نظم - معراج

فریدون مشیری جدید فارسی شاعری کا ایک معتبر نام ہیں اور نوجوان ایرانی نسل میں انتہائی مقبول، انکی ایک نظم پیش کر رہا ہوں جو مجھے بہت پسند آئی۔ اس نظم میں کوئی "انوکھی" بات نہیں ہے بلکہ وہی خیال ہے جو شعراء کرام کے ہاں ہمیشہ سے موجود رہا ہے اور اسے علامہ اقبال نے بھی بہت خوبصورتی سے اپنی شاعری میں استعمال کیا ہے۔
انکا کلام اس ویب سائٹ پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے، وہیں سے یہ نظم حاصل کی ہے۔ اردو ترجمہ کرنے کی ‘جرأت’ خود ہی کی ہے اسلیے اگر کہیں خامی نظر آئے تو درگزر کا طلبگار ہوں۔ فریدون مشیری کی آفیشل ویب سائٹ ملاحظہ کیجیئے۔

Fereydoon Moshiri, فریدون مشیری, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
Fereydoon Moshiri, فریدون مشیری
معراج


گفت: آنجا چشمۂ خورشید هاست
(اُس نے کہا، اس جگہ سورجوں کا چشمہ ہے)
آسماں ها روشن از نور و صفاست
(آسمان نور سے روشن اور منور ہیں)
موجِ اقیانوس جوشانِ فضاست
(فضا سمندروں کی طرح جوش مار رہی ہے)
باز من گفتم که: بالاتر کجاست
(میں نے پھر پوچھا کہ اس سے اوپر کیا ہے)
گفت : بالاتر جهانی دیگر است
(اس نے کہا اس سے بالا ایک دوسرا جہان ہے)
عالمی کز عالمِ خاکی جداست
(وہ ایک ایسا عالم ہے کہ عالمِ خاکی سے جدا ہے)
پهن دشتِ آسماں بے انتهاست
(اور آسمانوں کے طول و عرض، پہنائیاں بے انتہا ہیں)
باز من گفتم که بالاتر کجاست
(میں پھر پوچھا کہ اس سے پرے کیا ہے)
گفت : بالاتر از آنجا راه نیست
(اس نے کہا، اس سے آگے راستہ نہیں ہے)
زانکه آنجا بارگاهِ کبریاست
(کیونکہ اس جگہ خدا کی بارگاہ ہے)
آخریں معراجِ ما عرشِ خداست
(ہماری آخری معراج، رسائی خدا کا عرش ہی ہے)
باز من گفتم که : بالاتر کجاست
(میں نے پھر پوچھا کہ اس سے بالاتر کیا ہے)
لحظه ای در دیگانم خیره شد
(ایک لحظہ کیلیئے میری اس بات سے وہ حیران و پریشان ہو گیا)
گفت : ایں اندیشه ها بس نارساست
(اور پھر بولا، تمھاری یہ سوچ اور بات بے تکی اور ناقابلِ برداشت ہے)
گفتمش : از چشمِ شاعر کن نگاه
(میں نے اس سے کہا، ایک شاعر کی نظر سے دیکھ)
تا نپنداری که گفتاری خطاست
(تا کہ تجھے یہ خیال نہ رہے کہ یہ بات خطا ہے)
دور تر از چشمۂ خورشید ها
(سورجوں کے چشمے سے دور)
برتر از ایں عالمِ بے انتها
(اس بے انتہا عالم سے بر تر)
باز هم بالاتر از عرشِ خدا
(اور پھر خدا کے عرش سے بھی بالا)
عرصۂ پرواز مرغِ فکرِ ماست
(ہماری فکر کے طائر کی پرواز کی فضا ہے)
——–
بحر - بحر رمل مسدس محذوف
افاعیل - فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلُن
(آخری رکن فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)
اشاری نظام - 2212 2212 212
(آخری 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)۔
تقطیع -
گفت: آنجا چشمۂ خورشید هاست
آسماں ها روشن از نور و صفاست
گفت آ جا - فاعلاتن - 2212
چشمَ اے خُر - فاعلاتن - 2212
شید ھاس - فاعلان - 1212
آسما ھا - فاعلاتن - 2212
روشَ نز نو - فاعلاتن - 2212 (الف وصل استعمال ہوا ہے)۔
رُو صفاس - فاعلان - 1212
مزید پڑھیے۔۔۔۔