Showing posts with label رالف رسل. Show all posts
Showing posts with label رالف رسل. Show all posts

Jan 5, 2010

فارسی غزلِ غالب مع تراجم - مژدۂ صبح دریں تیرہ شبانم دادند

غالب کی درج ذیل غزل کا شمار بھی غالب کی شاہکار غزلوں میں سے ہوتا ہے۔ یہ غزلِ مسلسل ہے اور اس میں غالب کی شاعرانہ تعلی عروج پر ہے۔ غالب کو اپنی شاعرانہ عظمت اور منفرد شخصیت کا بھر پور اور شدید احساس تھا اور اردو کلام میں بھی انہوں نے اس کا اظہار کیا ہے لیکن اس غزل میں تو اس موضوع کو انہوں نے دوام بخش دیا ہے۔ صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کے الفاظ میں "اس میں صرف حسنِ بیان ہی نہیں بلکہ شعر کہنے والے کے دل و دماغ اور اسکی سوچ کی گہرائی اور وسعت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ اسلوبِ بیان کی فنکارانہ مہارت اور ندرت نے اشعار میں بڑا حسین لطف پیدا کیا ہے"۔

اس غزل کے اشعار 3 تا 8 خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ مولانا الطاف حسین حالی ان اشعار کے متعلق یادگارِ غالب میں ارشاد فرماتے ہیں۔ "قضا و قدر نے جو کچھ عرب کی فتوحات کے وقت عجم سے چھینا اسکے عوض میں مجھ کو، کہ میں بھی عجمی الاصل ہوں، کچھ نہ کچھ دیا"۔

صوفی تبسم نے مولانا حالی کی رائے سے تھوڑا اختلاف کیا ہے، فرماتے ہیں "خادم اس سلسلے میں صرف اتنا کہنے کی جسارت کرتا ہے کہ مجھے مولانا کے الفاظ عرب کی فتوحات سے اختلاف ہے۔ مرزا صاحب اپنے آپ کو ایرانی اور تورانی، تہذیبی روایت کا وارث سمجھتے تھے اور اس پر نازاں تھے، اور اس بات کو قدرت کی طرف منسوب کرتے تھے۔ قدیم ایرانی شوکت و جاہ سے انھیں جو کچھ ملا، وہ تاج و گوہر کی صورت میں نہیں بلکہ ادب پاروں کی شکل میں ملا"۔

پروفیسر رالف رسل، مطلع کے بعد باقی کے اشعار کے متعلق یوں رائے زن ہیں۔

"The remaining verses lament the passing of the glory and the beauty of ancient, pre-Islamic Iran, where fire was worshiped, wine was drunk, there were idols in the temples, and the blowing of conches accompanied worship. Ghalib claims he is the heir to all this, and that his poetry has the power to re-create it............ Ghalib prided himself on this ability."


غزل پیشِ خدمت ہے۔
Mirza Ghalib, مرزا غالب, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
Mirza Ghalib, مرزا غالب
شعرِ غالب
مژدۂ صبح دریں تیرہ شبانم دادند
شمع کشتند و ز خورشید نشانم دادند

صوفی غلام مصطفٰی تبسم
ان سیاہ راتوں میں مجھے صبح کی بشارت دی گئی۔ شمع کو بجھا دیا اور سورج کی نشان دہی کی گئی۔

افتخار احمد عدنی
شمع گل کرکے سحر نور فشاں دی مجھ کو
اور اک طلعتِ خورشید نشاں دی مجھ کو

پروفیسر رالف رسل
In my dark nights they brought me the good tidings of the morning
Put out the candles, turning me towards the rising sun


شعرِ غالب
رخ کشودند و لب ہرزہ سرایم بستند
دل ربودند و دو چشمِ نگرانم دادند

صوفی تبسم
مجھے اپنا جلوہ دکھا کر میرے بیہودہ گو لبوں کو سی دیا گیا، میرا دل چھین لیا اور اسکے عوض دیکھنے والی دو آنکھیں عطا کر دی گئیں۔

عدنی
اک جھلک ایسی دکھائی کہ کیا مہر بلب
دل مرا چھین کے چشمِ نگراں دی مجھ کو

رسل
They showed their faces, and at once my babbling tongue was silenced
They took my heart away from me, and gave me eyes to see


شعرِ غالب
سوخت آتش کدہ ز آتش نفسم بخشیدند
ریخت بتخانہ ز ناقوس فغانم دادند

صوفی تبسم
آتش کدہ جل کر راکھ ہوا تو اسکی آگ میرے سانس کو مل گئی۔ بت خانہ گرا تو اسکے ناقوس کی فریاد مجھے عطا ہوئی۔

عدنی
سرد آتشکدہ کرکے مجھے آتش بخشی
ہوا ناقوس جو خاموش، فغاں دی مجھ کو

رسل
They burnt the fire-temples, and breathed their fire into my spirit
Cast idols down, and let the conches sound in my lament


شعرِ غالب
گہر از رایتِ شاہانِ عجم برچیدند
بعوض خامۂ گنجینہ فشانم دادند

صوفی تبسم
شاہانِ عجم کے جھنڈوں کے موتی اُتار لیے گئے اور اسکے عوض وہ قلم عنایت ہوا جو خزانہ لٹانے والا ہے۔

عدنی
سب گہر رایتِ شاہانِ عجم کے چن کر
اک قلم، نادر و گنجینہ فشاں دی مجھ کو

رسل
They plucked the pearls that once had decked the banner of their kings
And gave me them to scatter from the treasury of my pen


شعرِ غالب
افسر از تارکِ ترکانِ پشنگی بردند
بسخن ناصیۂ فرکیانم دادند

صوفی تبسم
ترکوں کے سر سے تاج اتار لیا گیا اور مجھ کو شاعری میں اقبالِ کیانی مرحمت ہوا۔


شعرِ غالب
گوہر از تاج گسستند و بدانش بستند
ہر چہ بردند بہ پیدا، بہ نہانم دادند

صوفی تبسم
تاج سے موتی توڑ لیے گئے اور انھیں علم و دانش میں جڑ دیا گیا، جو کچھ علی الاعلان لوٹا تھا وہ مجھے خاموشی اور پوشیدہ طور پر دے دیا۔

عدنی
تھے جو سب تاج کے گوہر مری دانش میں جڑے
اور خاموشی سے یہ نقدِ گراں دی مجھ کو

رسل
Prised from their crown, they set the jewels in my crown of wisdom
All that men saw them take away, they secretly gave back


شعرِ غالب
ہر چہ در جزیہ ز گبراں، مئےِ ناب آوردند
بشبِ جمعۂ ماہِ رمضانم دادند

صوفی تبسم
آتش پرستوں سے جو شراب جزیے کے طور پر لی گئی، وہ ماہ رمضان کی شبِ جمعہ کو مجھے عنایت ہوئی۔

عدنی
وہ مےِ ناب جو ہاتھ آئی بطورِ جزیہ
بہ شبِ جمعۂ ماہِ رمضاں دی مجھ کو

رسل
The wine they took as tribute from the worshippers of fire
They gave to me one Friday in the month of Ramazan


شعرِ غالب
ہر چہ از دستگہِ پارس بہ یغما بردند
تا بنالم ہم ازآں جملہ زبانم دادند

صوفی تبسم
غرض کہ پارس کی جو پونجی لٹ گئی تھی، اس میں سے زبان مجھے دے دی تاکہ میں فریاد کروں۔

عدنی
فارس کی ساری متاع لوٹ کے اس کے بدلے
بہرِ فریاد فقط ایک زباں دی مجھ کو

رسل
From all they took in booty from the treasures of Iran
They gave to me a tongue in which to utter my lament


شعرِ غالب
دل ز غم مردہ و من زندہ ہمانا ایں مرگ
بود ارزندہ بماتم کہ امانم دادند

صوفی تبسم
میرا دل تو (غم) سے مر چکا ہے لیکن میں زندہ ہوں، اسکی وجہ لازماً یہی ہے کہ موت میرے ماتم کے مناسب تھی، اس سے مجھے محفوظ رکھا اور اسے سلامت رکھا تاکہ وہ میرا ماتم کرتی رہے۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 13, 2009

رالف رسل از محمود ہاشمی



بابائے اردو برطانیہ، پروفیسر رالف رسل مرحوم کے بارے میں یہ خاکہ 'نقوش' کے سالنامہ جون 1985ء میں چھپا تھا، اسے اپنے بلاگ کے قارئین کیلیے پیش کر رہا ہوں۔ انکی ایک یادگار تصویر انکی، غالب کی فارسی غزلیات کے انگریزی ترجمے کی کتاب سے لی ہے، 'غالب کی فارسی غزلوں سے انتخاب' نامی اس کتاب میں رالف رسل کے انگریزی ترجمے کے ساتھ ساتھ افتخار احمد عدنی کے منظوم تراجم ہیں اور یوں یہ کام ایک شاہکار بن گیا ہے۔ خاکسار کا مرتب کردہ، اس کتاب میں سے کچھ غزلیات کا انتخاب مع دیگر تراجم، اردو لائبریری کے اس ربط پر دیکھا جا سکتا ہے

رالف رسل از محمود ہاشمی
رالف رسل کا نام میں نے آج سے چالیس پینتالیس سال پہلے سنا تھا، ایک محفل میں ایک صاحب نے باتوں باتوں میں کہا۔
"یار، ایک انگریز ہے لیکن اردو بولتا ہے تو معلوم ہوتا ہے ماں کے پیٹ سے سیکھ کر آیا ہے۔"
محفل میں ایک کشمیری صاحب بیٹھے تھے، انہوں نے کہا۔
"یار، کوئی کشمیری پنڈت ہوگا، گورا رنگ دیکھ کر تم نے اسے انگریز سمجھ لیا۔"
وہ صاحب بولے۔
بابائے اردو برطانیہ پروفیسر رالف رسل, Ralph Russel, رالف رسل
Ralph Russel, رالف رسل
"بھئی کشمیری پنڈت ہوتا تو نام ہی سے پتا چل جاتا، رالف رسل نام تھا، کیا یہ نام کسی کشمیری پنڈت کا ہو سکتا ہے؟"
لیکن ہمارے کشمیری دوست ہر بات جھٹلانے اور کسی کی ہرگز ہرگز نہ ماننے کے موڈ میں تھے، فوراً بولے۔
"اچھا تو تم رحمت رسول کی بات کر رہے ہو، بھئی وہ واقعی کشمیری پنڈت نہیں، سوری، آئی ایم ویری ویری سوری۔ اصل میں اسکا خاندان اور ڈاکٹر اقبال کا خاندان کشمیر کی وادی سے ایک ساتھ نکلے تھے۔ ڈاکٹر اقبال کے بڑے بزرگ نے جونہی سرحد پار کی اور پنجاب کے شہر سیالکوٹ پہنچے تو وہیں ٹِک گئے لیکن رحمت رسول کے باوا نے دلی جا کر دم لیا۔ یہ رحمت رسول خالص دلی کی پیداوار ہے، پر ہے بڑا مسخرہ، بالکل انگریز لگتا ہے اور یار لوگ دوسروں کو بیوقوف بنانے کیلیے اسے لیے پھرتے ہیں، انگریز کہہ کر تعارف کراتے ہیں اور اسکا رالف رسل نام بتاتے ہیں۔"
اُن صاحب نے جنہوں نے یہ ذکر شروع کیا تھا، کچھ کہنے کیلیے اپنا منہ کھولا، لیکن محفل پر ہنسی کا ایک ایسا دورہ پڑ چکا تھا کہ اس نقار خانے میں انکی آواز طُوطی کی آواز بن کر رہ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور بات آئی گئی ہو گئی۔
کچھ دن بعد پھر اُسی محفل میں جانے کا اتفاق ہوا تو وہ صاحب جنہوں نے رالف رسل کو رحمت رسول بنا کر اور اس کا شجرۂ نسب کشمیر کی وادی سے دریافت کر کے دلی سے جوڑا تھا، ذرا سنجیدگی کے مُوڈ میں تھے اور باتیں رالف رسل ہی کی ہو رہی تھیں، وہ کہہ رہے تھے۔
"یار جب میں یہ سنتا ہوں کہ ایک انگریز رالف رسل اردو بولتا ہے اور صحیح بولتا ہے تو مجھے خوشی ہوتی ہے لیکن جب لوگ اُس کی اِس خوبی کا ذکر اسطرح کرتے ہیں جیسے کوئی معجزہ ظہور میں آ گیا ہو، تو جی چاہتا ہے اپنا سر پیٹ لوں یا کہنے والے کا سر پھوڑ دوں۔ میں بھی رالف رسل کی عظمت کا معترف ہوں لیکن میں اُس سے محض اس لیے متاثر نہیں ہوتا کہ وہ اردو صحیح بولتا ہے، آخر ہم میں سے بھی بہت سے اسکی مادری زبان انگریزی بولتے ہیں اور اکثر صحیح بولتے ہیں۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں میں اِس انگریز کا معترف ہوں تو اس لیے کہ اس نے اس اردو کو اپنایا ہے جسے اپنے گھر میں بھی وہ عزت اور احترام نہیں ملتا جو اسکا حق ہے۔ ہمارے لیے اردو سے زیادہ انگریزی "محترم" ہے۔ ہم انگریزی زبان میں قابلیت بڑھانے کو ترقی کی معراج سمجھتے ہیں اور ان لوگوں کو جو اردو کے متوالے ہیں، کمتر قسم کی مخلوق سمجھ کر قبول کرتے ہیں۔ اردو کروڑوں عوام کی زبان ضرور ہے لیکن ہمارے خواص اس سے بدکتے ہیں۔ وہ لوگ جو اردو میں ادب تخلیق کرتے ہیں اور شعر و شاعری کو اپنا شعار بناتے ہیں انہیں بھی ہمارے خواص ہی برداشت کرتے ہیں، کچھ اپنی وسیع القلبی کا مظاہرہ کرنے کیلیے اور بعض اوقات محض تفریحِ طبع اور دل بہلاوے کی خاطر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
میرا دوست بہت سنجیدہ ہو رہا تھا، اس نے کہا۔ "رالف رسل ہمارے لیے اہم ہے، بہت اہم ہے۔ ہمیں اپنی زبان کو اپنے ہاں کے خواص میں قابلِ قبول بنانے کیلیے اس جیسے خاص الخاص انگریز کی بڑی ضرورت ہے، اسکا وجود ہمیں احساس دلاتا ہے کہ دیکھو تم خواہ مخواہ احساسِ کمتری میں مارے جا رہے ہو، مجھے دیکھو، اگر تمھاری یہ اردو اتنی ہی گئی گزری ہوتی تو مجھے کیا پڑی تھی کہ اپنے منہ کا ذائقہ خراب کرتا اور اس سے محبت کی جوت جگاتا۔"
میں سمجھتا ہوں میرے اس کشمیری دوست نے غلط نہیں کہا تھا۔
یہ درست ہے کہ رالف رسل کے علاوہ اور بھی بہت سے انگریزوں نے اردو کو قابلِ توجہ سمجھا بلکہ بعض نے تو اردو میں شاعری تک کی اور حقہ پی پی کر شعر کہے، لیکن یہ عام طور پر اس زمانے کی باتیں ہیں جب انگریز اور اسکی انگریزی نے ابھی ہمیں اپنے دام میں گرفتار نہیں کیا تھا۔ ہمارا اپنا تشخص برقرار تھا اور ہمیں اس پر ناز بھی تھا۔ انگریزوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان میں تازہ وارد تھی اور ایک نئے ملک کے لوگوں کو سمجھنے اور ان میں مقبول ہونے کے لیے انگریز اس طرح کا ہر اقدام کر رہا تھا جو اس کو مفیدِ طلب معلوم ہوتا تھا۔ ملک کا مکمل طور پر حاکم بن جانے کے بعد محبتوں کا یہ زمانہ بہت حد تک ختم ہو گیا۔ اب ہماری باری تھی اور ہم پر لازم ہونے لگا تھا کہ انگریزی کو اپنائیں، تاہم اب بھی حکمران طبقے کے کچھ لوگ اردو میں دلچسپی لینے پر مجبور تھے۔ اِن میں عام طور پر وہ پادری تھے جو "نیٹوز" میں مذہب کا پرچار کرنے کیلیے اردو سیکھتے تھے۔ انہیں زبان کے لطیف پہلوؤں سے کوئی غرض نہ تھی اور وہ ایک "کام چلاؤ" قسم کی اردو سے مطمئن تھے۔ پادریوں کے علاوہ ایک اور قابلِ ذکر طبقہ جو اردو سیکھتا تھا اور اسے "ہندوستانی" کہتا تھا، برطانوی افسران اور انکی میم صاحبائیں تھیں جو اپنے نوکروں، خانساموں اور مالیوں وغیرہ پر حکم چلانے کے لیے یہ "دردِ سر" مول لیتی تھیں۔ انکا مبلغِ علم عام طور پر اسطرح کے چند جملوں تک محدود ہوتا تھا کہ "کٹنا بجا ہے" اور "آل دی سب چیز ٹیک ہے۔"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زبان کے صحیح تلفظ، لب و لہجہ اور اسکے دوسرے لوازمات کی طرف توجہ دینے کی نہ ان میں سے کسی کو ضرورت تھی اور نہ وہ اس کیلیے محنت کرنے کیلیے تیار تھے۔ بہرحال کچھ انگریز ایسے بھی تھے اور اب بھی ہیں جنہوں نے اردو کے ساتھ اگر اپنا تعلق قایم کیا تو اسے ایک اہم زبان سمجھ کر اور نہایت خلوص کے ساتھ۔ انہوں نے رالف رسل کی طرح اردو کے قواعد و ضوابط بھی سیکھے، اسکا مزاج بھی اپنایا اور اس سے تہذیبی رشتے بھی جوڑے۔ لیکن ان کی تعداد کم۔۔۔۔۔۔۔بہت کم تھی، اور انہیں ہاتھ۔۔۔۔۔صرف ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔ اب البتہ انکی تعداد بڑھ رہی ہے اور اس میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا اگر یہ کہا جائے کہ اسکی ایک وجہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔خاصی بڑی وجہ رالف رسل ہیں۔ انگریزوں کی اردو دان برادری جو رالف رسل کے بعد پیدا ہوئی ہے اور ہو رہی ہے وہ کسی نہ کسی طرح رالف رسل ہی کا پر تو ہے۔ اس ایک چراغ سے کئی نئے چراغ جلے ہیں اور اس سلسلہ میں زندہ و تابندہ رالف رسل اور اسکی "گل افشانیِ گفتار" کا بہت بڑا دخل ہے۔
رالف رسل صاحب سے میری پہلی ملاقات ان دنوں ہوئی جب میں برطانیہ میں نووارد تھا اور یہاں کی دوسری "قابلِ دید" چیزوں کے ساتھ ساتھ ان سے ملنا اور انہیں دیکھنا ضروری کاموں میں سے ایک تھا۔ چنانچہ میں نے یہ ضروری کام کیا اور اس رالف رسل کو دیکھا جو برطانیہ کی اس انگریز دنیا میں اردو کا چراغ جلائے بیٹھا ہے۔ اسکے بعد چلتے چلاتے کی دو چار اور ملاقاتیں بھی ہوئیں جن میں سے ایک مجھے خاص طور پر یاد ہے۔
ہم دونوں کو اوپر کی ایک منزل سے نیچے اترنا تھا اور ہم جلدی میں تھے، کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ بٹن دبانے کے بعد کچھ دیر 'لفٹ' کا انتظار کرنا پڑتا ہے لیکن کچھ ایسا اتفاق ہوا کہ جونہی ہم نے بٹن دبایا لفٹ سامنے آ کھڑی ہوئی، اس پر رالف رسل صاحب نے ایک نعرہ لگایا۔
"زندہ باد!"
میں نے چونک کر انہیں دیکھا اور دل میں سوچا "یہ شخص صرف اردو بولتا ہی نہیں، اردو کے ساتھ رہنا بھی جانتا ہے۔"
لیکن انکے اصل جوہر مجھ پر پچھلے چار پانچ سال میں کھلے، جب مجھے انہیں ذرا زیادہ قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور مجھے معلوم ہوا کہ یہ صرف اردو بولتے ہی نہیں اور خود اردو پڑھ کر لندن یونیورسٹی کے سکول آف اورینٹل اینڈ افریکن سٹڈیز میں صرف اردو پڑھانے پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ انہوں نے یہ بیڑا بھی اٹھا رکھا ہے کہ سارے برطانیہ کو اردو دان بنا کر دم لیں گے۔ اس سلسلہ میں لندن سے گلاسگو تک کا قریب قریب ہر شہر انکی زد میں ہے۔ اِس شہر میں ایشیائی بچوں کو اردو پڑھانے جا رہے ہیں تو اُس شہر میں انگریز بالغوں کیلیے اردو پڑھانے کا کورس جاری کر رکھا ہے۔ آج ایک شہر میں وہاں کے کسی سکول کے ہیڈ ٹیچر کو اس بات پر آمادہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنے سکول میں اردو کو باقاعدہ نصاب میں شامل کر لے تو کل کسی اور شہر میں وہاں کے ایجوکیشن آفیسر، انسپکٹر یا ایڈوایئزر کو برطانوی سکولوں میں اردو پڑھانے کی اہمیت کا قائل کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ رالف رسل صاحب کی بھاگ دوڑ ہی کا نتیجہ ہے کہ لندن میں ایک اردو کانفرنس ہوئی اور پھر دوسرے سال بڑے دھڑلے سے ایک اور ہوئی۔ دونوں کانفرنسوں میں ملک کے اربابِ اقتدار اور محکمۂ تعلیم کے با اثر نمائندوں کو خاص طور پر شریک کیا گیا تا کہ برطانوی ذہنوں پر اردو کے بارے میں کم علمی کے جو غلاف چڑھے ہیں وہ اتر جائیں، اور وہ بھی اپنے ہاں کے سکولوں میں اردو کو ایک باقاعدہ مضمون کی حیثیت دینے کے بارے میں سوچیں اور عملی قدم اٹھائیں۔
ایک صاحب سے جو یہاں کے سکولوں میں پنجابی زبان کو نصاب میں شامل کرنے کے بارے میں بڑے مستعد ہیں، ایک کانفرنس میں ملاقات ہوئی تو کہنے لگے۔
"برطانیہ کے ایشیائیوں میں سب سے زیادہ پنجابی بولنے والے ہیں اس لحاظ سے یہاں کے سکولوں میں پنجابی کو اردو سے پہلے اسکا جائز مقام ملنا چاہیئے لیکن معاملہ اسکے برعکس ہے۔ تم لوگ بڑے خوش قسمت ہو کہ تمہیں ایک رالف رسل مل گیا ہے ورنہ تم اردو والے تو انشاءاللہ، ماشاءاللہ والے ہو، ہر کام اللہ کے سپرد کر کے خود کچھ نہیں کرتے، اگر یہ رالف رسل نہ ہوتا تو تم بس مشاعرے ہی کرتے رہتے اور ہم تمھارے بچوں کو بھی گورمکھی رسم الخط میں پنجابی پڑھا دیتے۔"
مانچسٹر میں ایک انجمن ہے جسکا نام ہے "نیشنل ورکنگ پارٹی اون سٹیریلز فار اردو ٹیچنگ"، اسکے معتمد وہاں کے کرس لیوکی صاحب ہیں لیکن روحِ رواں ہمارے رالف رسل ہی ہیں۔ یہ انجمن اس لیے قایم کی گئی ہے کہ برطانوی سکولوں میں اردو پڑھنے والے طلباء کے لیے مناسب اور موزوں کتب کی جو کمی محسوس ہوتی ہے اس پر سوچ و بچار کرے اور اس کمی کو دور کرنے کیلیے عملی اقدامات کرے۔ مانچسٹر میں اردو کے استادوں کے گروپ نے اپنے ہاں کے سکولوں کیلیے کچھ ابتدائی کتابیں تیار کی ہیں اور اس سلسلہ میں خاصا مفید کام ہو رہا ہے۔ کچھ عرصہ ہوا، انجمن کی ایک میٹنگ میں طے پایا کہ ایک "اردو نیوز لیٹر" چھپنا چاہیئے تا کہ اردو پڑھنے پڑھانے کے سلسلہ میں جو کام ہو رہا ہے اسکا دوسروں کو بھی پتا چلتا رہے۔ اب مسئلہ درمیان میں یہ آن پڑا کہ یہ "نیوز لیٹر" کون تیار کرے اور اسے متعلقہ افراد اور انجمنوں تک پہنچانے کی ذمہ داری کس کی ہو؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم میں سے جو سگریٹ پیتے تھے انہوں نے سگریٹ اور پائپ والوں نے اپنے پائپ سلگا لیے اور ہر شخص ایک گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ آخر کار وہ شخص جو سگریٹ پیتا ہے نہ پائپ، اور جو اسطرح کے کاموں کیلیے کسی گہری سوچ اور "اندیشہ ہائے دور و دراز" کا قائل نہیں اور جسکا نام رالف رسل ہے، آڑے آیا اور بولا۔
"یہ کام میں کر دیا کروں گا۔"
ہم سب نے عافیت کی سانس لی۔
اس انجمن کو بھی (جس کی افادیت اسکے نام ہی سے ظاہر ہے) متحرک رکھنے میں رالف رسل کا بڑا حصہ ہے ورنہ مجھ ایسے شاید محض "نشستند و گفتند و برخاستند" پر ہی مطمئن رہتے۔ رالف رسل جو خود "جاوداں، پیہم دواں اور ہر دم جواں" رہتے ہیں دوسروں کو محض "تصورِ جاناں کئے ہوئے" بیٹھے نہیں دیکھ سکتے۔ ایک مرتبہ میری جو شامت آئی تو میں نے ان سے کہہ دیا کہ "میں اردو کا ایک قاعدہ لکھ رہا ہوں۔"
جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ قاعدہ واقعی لکھا گیا۔ رالف رسل نے اس میں کچھ اسطرح دلچسپی لی کہ مجھے خیریت اسی میں نظر آئی کہ قاعدہ مکمل ہو ہی جائے تو اچھا ہے ورنہ رالف رسل صاحب سے جو تھوڑی بہت صاحب سلامت ہے وہ جاتی رہے گی۔
شروع شروع میں تو میں ان سے کہتا رہا کہ لکھ رہا ہوں، اب یہ کر رہا ہوں، اب وہ کر رہا ہوں، پھر ایک دن کہنے کو کچھ اور نہ سوجھا تو کہا۔
"بس اب مکمل ہی سمجھئے، کسی دن آپ کو فرصت ہو تو دکھاؤں گا تا کہ آپ کی رائے معلوم ہو سکے۔"
چند دن بعد ہی انکا ٹیلی فون آیا کہ۔
"میرے پاس فلاں دن خالی ہے، آپ اپنا قاعدہ لیکر یہاں آ جائیے یا میں آپ کے ہاں آتا ہوں۔"
اور پھر مقررہ دن، مقررہ وقت پر رالف رسل صاحب کاغذ، پنسل اور کاربن پیپر سے لیس لندن سے ستر میل کا سفر کر کے غریب خانہ پر پہنچ گئے، میں نے پوچھا۔
"کاغذ اور پنسل کی بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن یہ کاربن پیپر کس لیے؟"
بولے۔ "یہ اس لیے ہے کہ اگر کسی بات پر ہم میں اختلافِ رائے ہو تو بحث و تمحیص کے بعد ہم جس نتیجہ پر پہنچیں اسے لکھ لیں اور اسکی ایک کاربن کاپی بنا لیں تا کہ ہم دونوں کے پاس تحریر کی نقل رہے، اسطرح بعد میں چیک کرنے میں آسانی ہوگی۔"
پھر انہوں نے میرے لکھنے کی میز کا جائزہ لیا جس کے ساتھ ایک کرسی تھی، کہنے لگے، "اس کے ساتھ ایک اور کرسی لگا لیجیئے۔"
میں نے کہا۔ "یہ کس لیے؟"
"یہ اس لیے کہ ہم دونوں ایک ساتھ بیٹھ کر مسودہ پڑھیں گے، میز پر یہ کام بہتر ہوگا۔"
چنانچہ یہ کام ہوا اور بہتر ہوا اور بخیر و خوبی تمام ہوا، جس جذبہ اور لگن سے انہوں نے کام کیا اور ایک ایک لفظ اور ایک ایک جملہ کی جس طرح چھان پھٹک کی، وہ میرے بس کی بات نہ تھی۔ اس دوران ایک مرتبہ انہوں نے حروفِ تہجی کی بناوٹ اور لفظوں میں انکی بدلی ہوئی صورتوں پر کچھ اسطرح باتیں کیں کہ میں نے دفعتاً سوچا "اس شخص کی زبان کے بنیادی قواعد اور ان کی باریکیوں پر کتنی گہری نظر ہے، نہ جانے اپنی اردو پڑھائی کا آغاز اس نے کس قاعدے سے کیا ہوگا (ظاہر ہے وہ میرا قاعدہ تو ہو نہیں سکتا!)"۔
میں نے رالف رسل سے پوچھا۔ "آپ نے اردو کا کون سے قاعدہ پڑھا تھا؟"۔
وہ مسکرائے اور بولے، "میں نے کوئی قاعدہ واعدہ نہیں پڑھا لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، آپ کا یہ قاعدہ بے حد ضروری ہے۔"
"یہ قاعدہ بیحد ضروری ہے اور اردو نصاب کے لیے وہ کتاب لکھنا وقت کی بہت بڑی ضرورت ہے۔"
چنانچہ رالف رسل اس مقصد کیلیے کاغذ، پنسل اور کاربن پیپر سنبھالے ستر میل سے بھی زیادہ لمبے لمبے سفر کرتے ہیں، خود لکھتے ہیں، دوسروں سے لکھواتے ہیں اور مجھے یقین ہے برطانیہ میں اردو کا یہ "گنجِ گراں مایہ"، یونیورسٹی میں اپنے تدریسی فرائض سے سبکدوش ہونے کے بعد اپنے لیے کہیں زیادہ مصروفیت پیدا کر لے گا اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے گا جب تک برطانیہ میں بسنے والے تمام مرد، عورتیں، بچے، جوان اور بوڑھے اردو بولنے، پڑھنے اور لکھنے لگیں گے۔
میری دعا ہے خدا انہیں کم از کم اتنی عمر ضرور دے کہ وہ یہ کام اپنی زندگی میں مکمل کر سکیں۔

(نقوش، سالنامہ جون 1985ء)

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jul 16, 2008

غالب کی ایک شاہکار فارسی غزل مع منظوم تراجم - دود سودائے تُتق بست آسماں نامیدمش

غالب کی مندرجہ ذیل غزل نہ صرف غالب کی ایک شاہکار غزل ہے بلکہ غالب کے فلسفے و فکر کو سمجھنے میں مشعلِ راہ بھی ہے۔ صوفی تبسم اس غزل کے تعارف میں فرماتے ہیں کہ “غالب نے اس غزل کے بیشتر شعروں میں اس کائنات کے بارے میں ایک خاص زاویہ نظر پیش کیا ہے کہ یہ سب کچھ جو ہمیں نظر آرہا ہے اس کا وجود خارجی کوئی نہیں، یہ انسانی ذہن ہی کی تخلیق ہے۔ یہ ایک سیمیا ہے۔ ایک طلسم ہے جو انسانی وہم نے باندھ رکھا ہے”۔
جس زاویہ نظر کی طرف صوفی تبسم نے اشارہ کیا ہے، فلسفے میں یہ ایک باقاعدہ سکول آف تھاٹ ہے اور نام اسکا “مثالیت پسندی” یا آئیڈیل ازم ہے اور یہ مادیت پسندی یا میٹریل ازم کی عین ضد ہے۔ لبِ لباب اس سلسلہ فکر کا وہی ہے جو صوفی صاحب نے بیان کر دیا ہے، اسکے برعکس مادیت پسند، مادے کو ہی سچائی قرار دیتے ہیں اور مادے کو ذہن پر ترجیح دیتے ہیں۔ مثالیت پسندی کی ابتدا تو شاید قبل از سقراط قدیم یونانی فلسفیوں فیثا غورث اور پارمی نائدیس نے کی تھی لیکن اسکا پہلا جاندار مبلغ افلاطون تھا اور جرمن فلاسفر ہیگل نے اسے بامِ عروج پر پہنچا دیا۔ اس سلسلہ فکر کے چند مشہور فلاسفہ میں فلاطینوس، ڈیکارٹ، لائبنیز، ہولباخ، جارج برکلے، عمانویل کانٹ، فشٹے وغیرہم شامل ہیں۔
یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ غالب کو تصوف سے خاص شغف تھا، اور وہ وحدت الوجودی تھے، جیسا کہ مولانا حالی اور دیگر شارحین و ناقدینِ غالب نے بیان فرمایا ہے، جیسے ڈاکٹر شوکت شبزواری صاحب “فلسفہ کلامِ غالب” میں اور کئی مشہور و معروف ناقدین “نقدِ غالب” میں بیان فرماتے ہیں۔ طوالت کے خوف سے اقتباسات خذف کرتا ہوں۔
دراصل وحدت الوجود اور مثالیت پسندی کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مثالیت پسندی، وحدت الوجود کا حصہ ہے۔ وحدت الوجود کا فلسفہ مسلمانوں میں شام کے نسطوری عیسائیوں کے ذریعے آیا تھا جنہوں نے اسے اسکندریہ کے صوفی مثالیت پسند فلسفی فلاطینوس سے حاصل کیا تھا۔ یہی وہ فلاطینوس ہے جسکی تحریروں کو ایک زمانے تک مسلم مفکر ارسطو کی تحریریں سمجھتے رہے۔ قصہ مختصر، غالب چونکہ “وجودی” تھے لامحالہ مثالیت پسندی انکے کلام میں آگئی۔
غزل پیشِ خدمت ہے۔

شعرِ غالب
دود سودائے تُتق بست آسماں نامیدمش
دیدہ بر خوابِ پریشان زد، جہاں نامیدمش
صوفی تبسم۔ ترجمہ
خیالِ خام کا ایک دھواں سا ہمارے سر پر چھا گیا، میں نے اسکا نام آسمان رکھ دیا۔ آنکھوں نے ایک پریشان خواب دیکھا اور میں نے اسے جہان کہہ دیا۔
صوفی تبسم۔ منظوم ترجمہ
دود افسون نظر تھا، آسماں کہنا پڑا
ایک پریشاں خواب دیکھا اور جہاں کہنا پڑا
افتخار احمد عدنی
دود کا پردہ تھا جس کو آسماں کہتا تھا میں
اور اک خوابِ پریشاں کو جہاں کہتا تھا میں
پروفیسر رالف رسل
My hot sighs raised a canopy: I said, this is the sky
My eyes beheld a troubled dream: I said, this is the world

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Mirza Ghalib, مرزا غالب
مرزا غالب, Mirza Ghalib
شعرِ غالب
وہم خاکے ریخت در چشمم بیاباں دیدمش
قطرہ بگداخت، بحرِ بیکراں نامیدمش
تبسم
وہم نے میری آنکھوں میں خاک ڈال دی اور وہ مجھے بیاباں بن کر نظر آئی۔ ایک قطرہ تھا جو پگھل کر رہ گیا میں نے اسے بحرِ بیکراں کا نام دیا۔
تبسم، منظوم
تھا غبارِ وہم وہ، میں نے بیاباں کہہ دیا
تھا گداز قطرہ، بحرِ بیکراں کہنا پڑا
عدنی
ایک مٹھی خاک تھی صحرا جسے سمجھا کیا
اور اک قطرے کو بحرِ بیکراں کہتا تھا میں
رسل
My fancies threw dust in my eyes: I said, this is the desert
The drop of water spread: I said, this is the boundless sea


شعرِ غالب
باد دامن زد بر آتش نو بہاراں خواندمش
داغ گشت آں شعلہ، از مستی خزاں نامیدمش
تبسم
ہوا نے آگ کو بھڑکایا میں نے اسے بہار کہہ دیا۔ اسی آگ کے شعلے جل کر جب داغ بن کر رہ گئے تو میں نے اسے خزاں کا نام دیا۔
تبسم، منظوم
آگ بھڑکائی ہوا نے، میں اسے سمجھا بہار
شعلہ بن کر داغ جب ابھرا خزاں کہنا پڑا

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Sufi Tabassum, صوفی غلام مصطفیٰ تبسم
صوفی تبسم, Sufi Tabassum
عدنی
آگ بھڑکی جب ہوا سے میں یہ سمجھا ہے بہار
داغ جب شعلے ہوئے، ان کو خزاں کہتا تھا میں
رسل
I saw flames leaping in the wind: I cried out, spring is coming
They danced themselves to ashes, and I said, autumn has come


شعرِ غالب
قطرہٴ خونے گرہ گردید، دل دانستمش
موجِ زہرابے بہ طوفاں زد زباں نامیدمش
تبسم
ایک قطرہء خوں تھا بل کھا کر گرہ بن گیا اور میں نے اسے دل سمجھ لیا۔ ایک زہراب کی لہر تھی اس میں تلاطم برپا ہوا میں نے اسے زباں کہہ دیا۔
تبسم، منظوم
قطرۂ خوں کا تھا پیچ و تاب، دل جانا اسے
لہر تھی زہراب غم کی اور زباں کہنا پڑا
عدنی
قطرہء خوں کی گرہ تھی جس کو دل جانا کیا
موج تھی زہراب کی جس کو زباں کہتا تھا میں
رسل
The drop of blood became a clot: I knew it as my heart
A wave of bitter water rolled: I said, this is my speech


شعرِ غالب
غربتم نا سازگار آمد، وطن فہمیدمش
کرد تنگی حلقہء دام آشیاں نامیدمش

تبسم
پردیس مجھے راس نہ آیا ناچار میں نے اسے وطن سمجھ لیا۔ حلقہء دام تنگ نکلا میں نے اسے آشیاں کہہ دیا۔
تبسم، منظوم
ناموافق تھی بہت غربت، وطن کہتے بنی
تنگ نکلا حلقہء دام آشیاں کہنا پڑا
عدنی
جب نہ غربت راس آئی میں اسے سمجھا وطن
تنگ ہوا جب حلقہء دام آشیاں کہتا تھا میں

رسل
In exile I felt lost: I said, this country is my country
I felt the snare’s noose tightening: I said, this is my nest


شعرِ غالب
بود در پہلو بہ تمکینے کہ دل می گفتمش
رفت از شوخی بہ آئینے کہ جاں نامیدمش
تبسم
وہ ہمارے پہلو میں اس شان سے بیٹھا تھا کہ میں نے اسے دل کہا، وہ اس انداز سے اٹھ کر گیا کہ اسے جاں کہنا پڑا۔
تبسم، منظوم
اس طرح پہلو میں آ بیٹھا کہ جیسے دل تھا وہ
اس روش سے وہ گیا اٹھ کر کہ جاں کہنا پڑا
عدنی
تھا وہ جب تمکین سے پہلو میں، دل سمجھا اسے
اور شوخی سے ہوا رخصت تو جاں کہتا تھا میں

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Iftikhar Ahmed Adani, افتخار احمد عدنی
افتخار احمد عدنی, Iftikhar Ahmed Adani
رسل
She sat in pride close to my side: I said, she is my heart
Capriciously she rose and left: There goes my soul


شعرِ غالب
ہر چہ از جاں کاست در مستی بہ سود افزودمش
ہرچہ با من ماند از ہستی زیاں نامیدمش
تبسم
مستی کے عالم میں جو کچھ زندگی میں کمی واقع ہوئی میں نے اسے نفع میں شمار کیا اور میری ہستی میں سے جو کچھ بچ رہا اسے نقصان سمجھ لیا۔ یعنی زندگی کے وہی لمحات تھے جو عالمِ مستی اور ذوق و شوق میں گزر گئے، بقیہ زندگی تو گویا زندگی ہی نہ تھی۔
تبسم، منظوم
کٹ گئی جو عمر مستی میں وہی تھا سودِ زیست
بچ رہا جو کچھ بھی مستی میں زیاں کہنا پڑا
عدنی
عمر جو مستی میں گزری اس کو جانا میں نے سود
ہوش میں جتنی کٹی اس کو زیاں کہتا تھا میں
رسل
All that I lost in ecstasy accrued to me as gain
All that remained of consciousness I designated loss


شعرِ غالب
تا ز من بگسست عمرے، خوشدلش پنداشتم
چو بہ من پیوست لختے، بد گماں نامیدمش
تبسم
جب تک وہ مجھ سے ایک طویل عرصے کیلیے الگ ہو کر رہا میں اسے ایک خوش ذوق انسان سمجھتا رہا۔ جب وہ تھوڑی مدت کیلیے مجھ سے آ ملا تو میں نے اسے بد گماں کا لقب دیا۔
عدنی
مہرباں سمجھا کیا جب تک رہا وہ مجھ سے دور
اور قریب آیا تو اس کو بد گماں کہتا تھا میں
رسل
For years she held aloof from me: I said, she favours me
She came close for a while: I said, she has her doubts of me


شعرِ غالب
اُو بہ فکر کشتنِ من بود، آہ از من کہ من
لاابالی خواندمش، نامہرباں نامیدمش
تبسم
وہ میرے مارنے کی فکر میں تھا۔ کتنی افسوس کی بات ہے کہ میں اسے لا ابالی کہتا رہا اور نامہرباں کے نام سے پکارتا رہا۔
عدنی
گھات میں تھا قتل کی وہ اور اسے سمجھے بغیر
لا ابالی بے خبر، نا مہرباں کہتا تھا میں
رسل
She was intent on slaying me. Alas for me, that I
Declared she was indifferent, said that she was unkind


شعرِ غالب
تانہم بروے سپاس خدمتے از خویشتن
بود صاحب خانہ امّا میہماں نامیدمش
تبسم
وہ صاحبِ خانہ تھا اور میں اسے میہماں کہتا رہا تاکہ میں اسکی کوئی خدمت کرکے اس پر کوئی احسان دھر سکوں۔
تبسم، منظوم
تھا مجھے منظور اسے مرہونِ منت دیکھنا
تھا وہ صاحب خانہ لیکن میہماں کہنا پڑا
عدنی
اپنی خدمت کا فقط احساں جتانے کیلیے
تھا وہ صاحب خانہ لیکن میہماں کہتا تھا میں
رسل
To make her feel obliged to me for all I did for her
She was my host, and yet I told myself, she is my guest


شعرِ غالب
دل زباں را راز دان آشنائی ہا نخواست
گاہ بہماں گفتمش، گاہے فلاں نامیدمش
تبسم
میرا دل نہیں چاہتا تھا کہ میری زباں محبت اور دوستی کی رازداں ہو اس لیے جب بھی محبوب کا تذکرہ آیا میں نے اسے کبھی فلاں، کبھی فلاں کہا۔
شعرِ غالب
ہم نگہ جاں می ستاند، ہم تغافل می کشد
آں دمِ شمشیر و ایں پشتِ کماں نامیدمش
تبسم
اسکا التفات بھی جاں ستاں ہے اور اسکا تغافل بھی مار ڈالتا ہے۔ اسکی توجہ تلوار کی دھار ہے اور اسکی بظاہر بے التفاتی پشتِ کمان کی طرح ہے کہ جس سے تیر نکل کر زخم لگاتا ہے۔


شعرِ غالب
در سلوک از ہر چہ پیش آمد گزشتن داشتم
کعبہ دیدم نقش پائے رہرواں نامیدمش
تبسم
راہِ سلوک میں جو کچھ راستے میں آیا اسے نظر انداز کرکے آگے نکل گیا۔ کعبے کو دیکھا تو اسے رہروانِ راہِ سلوک کا نقشِ پا کہہ دیا۔
تبسم، منظوم
یوں طریقت میں ہر اک شے سے نظر آگے پڑی
کعبے کو بھی نقش پائے رہرواں کہنا پڑا
عدنی
چھوڑ پیچھے راہِ حق میں جو نظر آیا بڑھا
کعبے کو اک نقشِ پائے رہرواں کہتا تھا میں
رسل
I journeyed on beyond each stage I set myself to cover
I saw the Kaba as the tracks of those who had gone on

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Ralph Russell, رالف رسل
رالف رسل, Ralph Russell
شعرِ غالب
بر امیدِ شیوہء صبر آزمائی زیستم
تو بریدی از من و من امتحاں نامیدمش

تبسم
میں اس امید پر جیتا تھا کہ تیرا جور و ستم کا شیوہ میری طاقتِ صبر کو آزمانے کیلیے ہے، تو مجھ پر ستم ڈھاتا رہے گا اور میں زندہ رہوں گا۔ لیکن تو مجھے چھوڑ کر چلا گیا اور میں نے اس ترے چلے جانے کو امتحان قرار دیا۔
تبسم، منظوم
شیوہء صبر آزمائی پر ترے جیتا تھا میں
یوں تری فرقت کو اپنا امتحاں کہنا پڑا
عدنی
شیوہء صبر آزمائی کے سہارے میں جیا
تو ہوا مجھ سے الگ تو امتحاں کہتا تھا میں
رسل
My hopes told me, she likes to try my powers of endurance
You served all our ties: I said, she is just testing me


شعرِ غالب
بود غالب عندلیبے از گلستانِ عجم
من ز غفلت طوطیِ ہندوستاں نامیدمش
تبسم
غالب تو گلستانِ ایران کی ایک بلبل تھا، میں نے غفلت میں اسے طوطیِ ہندوستاں کہہ دیا۔
--------


بحر - بحر رمل مثمن محذوف


افاعیل - فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلُن
(آخری رکن فاعلن میں فاعِلان بھی آ سکتا ہے)


اشاری نظام - 2212 2212 2212 212
(آخری 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)


تقطیع -
دود سودائے تُتق بست آسماں نامیدمش
دیدہ بر خواب پریشان زد، جہاں نامیدمش


دود سودا - فاعلاتن - 2212
ئے تتق بس - فاعلاتن - 2212
تاسما نا - فاعلاتن - 2212 (الف وصل استعمال ہوا ہے)
میدمش - فاعلن - 212


دیدَ بر خا - فاعلاتن - 2212
بے پریشا - فاعلاتن - 2212
زد جہاں نا - فاعلاتن - 2212
میدمش - فاعلن - 212

مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 28, 2008

غالب کی ایک خوبصورت فارسی غزل مع منظوم تراجم - ز من گَرَت نہ بُوَد باور انتظار بیا

غالب کی مندرجہ ذیل غزل صوفی تبسم کے پنجابی ترجمے اور غلام علی کی گائیکی کی وجہ سے شہرہ آفاق مقبولیت حاصل کر چکی ہے اور میری بھی پسندیدہ ترین غزلوں میں سے ہے۔

شعرِ غالب
ز من گَرَت نہ بُوَد باور انتظار بیا
بہانہ جوئے مباش و ستیزہ کار بیا

اردو ترجمہ خواجہ حمید یزدانی
میں تیرے انتظار میں ہوں، اگر تجھے اس کا یقین نہیں ہے تو آ اور دیکھ لے۔ اس ضمن میں بہانے مت تلاش کر، بے شک لڑنے جھگڑنے کا طور اپنا کر آ۔

منظوم ترجمہ پنجابی صوفی تبسم
میرے شوق دا نیں اعتبار تینوں، آ جا ویکھ میرا انتظار آ جا
اینویں لڑن بہانڑے لبھنا ایں، کی تو سوچنا ایں سِتمگار آ جا

منظوم اردو ترجمہ صوفی تبسم
دکھا نہ اتنا خدا را تو انتظار آ جا
نہ ہو ملاپ تو لڑنے کو ایک بار آ جا

منظوم ترجمہ چوہدری نبی احمد باجوہ
نہیں جو مانتے تم میرا انتظار آؤ
بہانہ جو نہ بنو، ہاں ستیزہ کار آؤ


منظوم ترجمہ اردو افتخار احمد عدنی
تجھے ہے وہم، نہیں مجھ کو انتظار آجا
بہانہ چھوڑ، مری جاں ستیزہ کار آجا


انگلش ترجمہ پروفیسر رالف رسل
You cannot think my life is spent in waiting? Well then, come
Seek no excuses; arm yourself for battle and then come
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, مرزا غالب, Mirza Ghalib
مرزا غالب, Mirza Ghalib
شعرِ غالب
بہ یک دو شیوہ ستم دل نمی شوَد خرسند
بہ مرگِ من، کہ بہ سامانِ روزگار بیا


یزدانی
میرا دل تیرے دو ایک اندازِ ستم سے خوش نہیں ہوتا، تجھے میری موت کی قسم تو اس سلسلے میں زمانے بھر کا سامان لے کر آ۔


باجوہ
ستم کی اک دو ادا سے نہیں یہ دل خورسند
بلا ہو، موت ہو، آشوبِ روزگار آؤ


عدنی
جفا میں بخل نہ کر، میرے دل کی وسعت دیکھ
ستم کی فوج لیے مثلِ روز گار آجا


رسل
These meager modes of cruelty bring me no joy. By God
Bring all the age’s armoury to use on me, and come


شعرِ غالب
بہانہ جوست در الزامِ مدّعی شوقَت
یکے بَرَغمِ دلِ نا امیدوار بیا


یزدانی
ہمارا دل تیرے عشق میں رقیب پر الزام دھرنے کے بہانے سوچتا رہتا ہے یعنی یہ کہ رقیب تجھے ہماری طرف نہیں آنے دیتا، تو کبھی یا ذرا ہمارے اس نا امید دل کی اس سوچ کے برعکس آ۔


باجوہ
تمھارے شوق کو الزامِ مدعی کا ہےعذر
کبھی بَرَغمِ دلِ نا امیدوار آؤ


شعرِ غالب
ہلاکِ شیوۂ تمکیں مخواہ مستاں را
عناں گسستہ تر از بادِ نو بہار بیا


یزدانی
تو اپنے مستوں یعنی عاشقوں کیلیے یہ مت چاہ یا پسند کر کے وہ تیرے شیوہء تمکیں (دبدبہء غرورِ حسن) کے نتیجے میں‌ ہلاک ہو جائیں، تو نو بہار کی ہوا سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ آ۔


باجوہ
ہلاکِ شیوۂ تمکیں نہ کیجیے مستوں کو
عناں گسستہ مرے ابرِ نو بہار آؤ


عدنی
ہلاک شیوۂ تمکیں سے کر نہ مستوں کو
حجاب چھوڑ کر اے بادِ نو بہار آجا


Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Sufi Ghulam Mustafa Tabassum, صوفی غلام مصطفی تبسم
صوفی غلام مصطفیٰ تبسم, Sufi Tabassum
رسل
Why seek to slay your lovers by your awesome majesty
Be even more unbridled than the breeze of spring, and come


شعرِ غالب
ز ما گسستی و با دیگراں گرو بستی
بیا کہ عہدِ وفا نیست استوار بیا


یزدانی
تو نے ہم سے تو پیمانِ وفا توڑ لیا اور دوسروں یعنی رقیبوں کے ساتھ یہ عہد باندھ لیا۔ آ، تو ہماری طرف آ کیونکہ عہدِ وفا کوئی محکم عہد نہیں‌ ہے۔


باجوہ
جو ہم سے کٹ کے بندھا غیر سے ہے عہد نیا
جہاں میں عہدِ وفا کب ہے استوار آؤ


عدنی
جو تو نے غیر سے باندھا اسے بھی توڑ صنم
ہوا ہے عہدِ وفا کب سے استوار آ جا


رسل
You broke with me, and now you pledge yourself to other men
But come, the pledge of loyalty is never kept. So come


شعرِ غالب
وداع و وصل جداگانہ لذّتے دارَد
ہزار بار بَرَو، صد ہزار بار بیا


یزدانی
فراق اور وصل دونوں میں اپنی اپنی ایک لذت ہے، تو ہزار بار جا اور لاکھ بار آ۔


تبسم پنجابی
بھانویں ہجر تے بھانویں وصال ہووئے ،وکھو وکھ دوہاں دیاں لذتاں نے
میرے سوہنیا جا ہزار واری ،آ جا پیاریا تے لکھ وار آجا


تبسم اردو
وداع و وصل میں ہیں لذّتیں جداگانہ
ہزار بار تو جا، صد ہزار بار آ جا


باجوہ
جدا جدا ہے وداع اور وصل کی لذّت
ہزار بار اگر جاؤ، لاکھ بار آؤ


عدنی
وداع و وصل ہیں دونوں کی لذّتیں اپنی
ہزار بار جدا ہو کے لاکھ بار آجا


Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, افتخار احمد عدنی, Iftikhar Ahmed Adani
افتخار احمد عدنی, Iftikhar Ahmed Adani
رسل
Parting and meeting - each of them has its distinctive joy
Leave me a hundred times; turn back a thousand times, and come


شعرِ غالب
تو طفل سادہ دل و ہمنشیں بد آموزست
جنازہ گر نہ تواں دید بر مزار بیا


یزدانی
تو ایک بھولے بھالے بچے کی طرح ہے اور رقیب تجھے الٹی سیدھی پٹیاں پڑھا رہا ہے، سو اگر تو ہمارا جنازہ نہیں دیکھ سکا تو کم از کم ہمارے مزار پر ہی آ جا۔


تبسم پنجابی
تُو سادہ تے تیرا دل سادہ ،تینوں ایویں رقیب کُراہ پایا
جے تو میرے جنازے تے نیں آیا، راہ تکدا اے تیری مزار آ جا


تبسم اردو
تو سادہ دل ہے بہت اور رقیب بد آموز
نہ وقتِ مرگ گر آیا، سرِ مزار آ جا


باجوہ
ہو تم تو سادہ مگر ہمنشیں ہے بد آموز
جنازہ مل نہ سکے گا، سرِ مزار آؤ


شعرِ غالب
فریب خوردۂ نازَم، چہا نمی خواہَم
یکے بہ پُرسَشِ جانِ امیدوار بیا


یزدانی
میں ناز و ادا کا فریب خوردہ یعنی مارا ہوا ہوں، میں‌ کیا کیا نہیں چاہتا، یعنی میری بہت سی آرزوئیں ہیں، تو ہماری امیدوار جان کا حال احوال تو پوچھنے آ۔


باجوہ
فریب خوردہ ہوں میں ناز کا اسے چھوڑو
برائے پرسشِ جانِ امیدوار آؤ


شعرِ غالب
ز خوئے تُست نہادِ شکیب نازک تر
بیا کہ دست و دِلَم می رَوَد ز کار بیا


یزدانی
تیری نزاکت طبع کے ہاتھوں ہمارے صبر کی بنیاد بہت ہی نازک ہوگئی ہے، تو آ کہ تیرے اس رویے کے باعث میرا دست و دل بیکار ہو کر رہ گئے ہیں۔


باجوہ
تمھاری خو سے سرشتِ شکیب نازک ہے
چلا میں، صبر کا دامن ہے تار تار آؤ


شعرِ غالب
رواجِ صومعہ ہستیست، زینہار مَرَو
متاعِ میکدہ مستیست، ہوشیار بیا


یزدانی
خانقاہوں میں غرور و تکبر کا رواج ہے، دیکھیو ادھر مت جائیو، جبکہ میکدہ کی دولت و سرمایہ مستی ہے، وہاں ذرا چوکنا ہو کر آجا۔


تبسم پنجابی
ایہہ رواج اے مسجداں مندراں دا ،اوتھے ہستیاں تے خود پرستیاں نے
میخانے وِچ مستیاں ای مستیاں نے ،ہوش کر، بن کے ہوشیار آ جا


تبسم اردو
رواجِ صومعہ ہستی ہے واں نہ جا ہر گز
متاعِ میکدہ مستی ہے بے شمار آ جا


باجوہ
رواجِ صومعہ ہستی ہے مت ادھر جاؤ
متاعِ میکدہ مستی ہے، ہوشیار آؤ


عدنی
رواجِ صومعہ، ہستی ہے، اس طرف مت جا
متاعِ میکدہ مستی ہے، ہوشیار آجا


Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Ralph Russell, رالف رسل
رالف رسل, Ralph Russell
رسل
The mosque is all awareness. Mind you never go that way
The tavern is all ecstasy. So be aware, and come


شعر غالب
حصار عافیَتے گر ہوس کُنی غالب
چو ما بہ حلقۂ رندانِ خاکسار بیا


یزدانی
اے غالب اگر تجھے کسی عافیت کے قلعے کی خواہش ہے تو ہماری طرح رندانِ خاکسار کے حلقہ میں آ جا۔


تبسم پنجابی
سُکھیں وسنا جے تُوں چاہونا ایں میرے غالبا ایس جہان اندر
آجا رنداں دی بزم وِچ آ بہہ جا، ایتھے بیٹھ دے نے خاکسار آ جا


تبسم اردو
حصارِ امن اگر چاہیے تجھے غالب
درونِ حلقۂ رندانِ خاکسار آ جا


باجوہ
حصار امن کی خواہش ہے گر تمھیں غالب
اِدھر ہے حلقۂ رندانِ خاکسار آؤ


عدنی
حصارِ امن کی خواہش ہے گر تجھے غالب
میانِ حلقۂ رندانِ خاکسار آجا


رسل
If you desire a refuge, Ghalib, there to dwell secure
Find it within the circle of us reckless ones, and come
——–


بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع


افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
(آخری رکن فعلن میں فعلان، فَعِلُن اور فعِلان بھی آ سکتے ہیں)


اشاری نظام - 2121 2211 2121 22
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)


تقطیع -
ز من گرت نہ بود باور انتظار بیا
بہانہ جوئے مباش و ستیزہ کار بیا


ز من گَرَت - مفاعلن - 2121
نہ بوَد با - فعلاتن - 2211
وَ رنتظا - مفاعلن - 2121 (الف وصل استعمال ہوا ہے)
ر بیا - فَعِلن - 211


بہانَ جو - مفاعلن - 2121
ء مبا شو - فعلاتن - 2211
ستیزَ کا - مفاعلن - 2121
ر بیا - فَعِلن - 211

----


اور یہ غزل غلام علی کی آواز میں






مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 12, 2008

فارسی کلامِ غالب کے تراجم

غالب کی وجۂ شہرت انکا اردو کلام ہے، لیکن غالب کو ہمیشہ اپنے فارسی کلام پر فخر رہا اور وہ اردو کو ثانوی حیثیت ہی دیتے رہے اسی لیے کہا تھا کہ “بگزار مجموعہء اردو کے بے رنگِ من است”۔ غالب اپنے آپ کو کلاسیکی فارسی شعراء کے ہم پلہ بلکہ انسے بہتر ہی سمجھتے رہے، اور یہ بالکل بجا بھی ہے۔ غالب فارسی کلام میں سبک ہندی لڑی کے آخری تاجدار ہیں، یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ ایرانی سبکِ ہندی کو بالکل در خورِ اعتنا نہیں سمجھتے، لیکن سبکِ ہندی، کہ نازک خیالی اور حسنِ تعلیل جسکی بڑی خصوصیات ہیں، میں غالب کا مقام انتہائی بلند ہے۔

نوجوانی میں غالب، فارسی اور اردو دونوں میں بیدل کا تتبع کرتے تھے لیکن تائب ہوگئے، اس کے علاوہ فارسی غزل مین وہ نظیری سے بہت متاثر تھے لیکن بالآخر اپنا رنگ جما کر رہے۔ لیکن انکا فارسی کلام کبھی بھی مقبول نہیں ہوسکا، اسکی کئی ایک وجوہات مولانا حالی نے بیان کی ہیں۔ ناقدر شناسی اور فارسی سے دُوری اسکی بڑی مثالیں ہیں۔ برصغیر میں فارسی کا انحطاط تو شاید غالب کے زمانے میں ہی شروع ہو چکا تھا، لیکن آزادی تک پہنچتے پہنچتے تو فارسی شناس معدودے چند ہی رہ گئے تھے۔ اور اب تو یہ حال ہے کہ “زبان یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم”۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Mirza Ghalib, مرزا غالب

کلیاتِ غالب نظمِ فارسی، پاکستان میں‌ پہلی دفعہ، شیخ مبارک علی تاجر و ناشر کتب، لاہور نے 1965 میں‌ شائع کیے، اس میں غالب کے فارسی قطعات، مخمس، ترکیب بند، ترجیع بند، مثنویات، قصائد، غزلیات، رباعیات اور تقریظ شامل ہیں۔ مکمل کلیاتِ نظمِ فارسی کا ترجمہ شاید ابھی تک شائع نہیں ہوا۔ 

غزلیات فارسی غالب کا اردو ترجمہ صوفی غلام مصطفیٰ تبسم نے کیا تھا جو کہ پکیجز لاہور نے شائع کروایا تھا اسکی بھی مجھے صرف جلد دوئم جس میں ردیف د تا ے کی غزلیں ہیں، ہی ملی، جلدِ اول بعد از تلاش بسیار نہیں مل سکی۔
ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی نے ایک ترجمہ “شرح کلیاتِ غالب فارسی” کے نام سے پیش کیا ہوا ہے لیکن وہ غالب کے مکمل فارسی کلام پر مشتمل نہیں ہے بلکہ غزلیاتِ غالب، رباعیات غالبِ اور چند قصیدوں کے انتخاب پر مشتمل ہے۔
ایک لا جواب کام افتخار احمد عدنی صاحب اور پروفیسر رالف رسل کا ہے۔ انتخاب فارسی غزلیاتِ غالب کے تراجم ان دونوں اصحاب کے یک جا ہیں اور لا جواب ہیں۔ عدنی صاحب نے منظوم ترجمہ کیا ہے۔ یہ کتاب پاکستان رائٹرز کوآپریٹو سوسائٹی نے، انجمنِ ترقی اردو کے تعاون سے 1999 میں‌ شائع کی۔ 


غالب کے فارسی کلام کا ایک منظوم ترجمہ چوہدری نبی احمد باجوہ نے کیا تھا جو کے 1972 میں “شش جہاتِ غالب” کے نام سے شائع ہوا، اس میں انہوں نے غالب کے فارسی منتخب کلام کا منظوم ترجمہ کیا ہے۔
غالب کی فارسی غزلیات کا ایک منظوم ترجمہ ڈاکٹر خالد حمید صاحب نے کیا ہے جسے بزمِ علم و فن پاکستان، اسلام آباد نے شائع کیا ہے۔ 


فارسی رباعیات غالب کا منظوم ترجمہ صبا اکبر آبادی مرحوم نے “ہم کلام” کے نام سے کیا تھا، اور کیا خوب کام ہے یہ۔ 1986 میں پہلی دفعہ شائع ہوا۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔