Showing posts with label سر سید احمد خان. Show all posts
Showing posts with label سر سید احمد خان. Show all posts

Sep 19, 2011

سر سید احمد خان کی ایک فارسی غزل مع ترجمہ

مشہور محقق شیخ محمد اکرام نے اپنی شاہکار “کوثر سیریز” کی آخری کتاب “موجِ کوثر” میں سر سید احمد خان کی ایک فارسی غزل کے پانچ اشعار دیے ہیں سو وہ ترجمے کے ساتھ پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
شیخ صاحب نے یہ اشعار سر سید کا مذہبی جوش و ولولہ دکھانے کیلیئے دیئے ہیں اور کیا سچ بات کہی ہے شیخ صاحب نے لیکن شاعرانہ نکتہ نظر سے بھی ان اشعار میں سر سید کا زورِ بیان اور صنعتوں کا کمال دیکھیئے، زور بیانِ میں تو یہ اشعار بڑے بڑے کلاسیکی فارسی اساتذہ کے کلام سے لگّا کھاتے ہیں۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Sir Syyed Ahmed Khan, سر سید احمد خان
Sir Syyed Ahmed Khan, سر سید احمد خان
فلاطوں طِفلَکے باشَد بہ یُونانے کہ مَن دارَم
مَسیحا رشک می آرَد ز دَرمانے کہ مَن دارَم


(افلاطون تو ایک بچہ ہے اس یونان کا جو میرا ہے، مسیحا خود رشک کرتا ہے اس درمان پر کہ جو میں رکھتا ہوں)
خُدا دارَم دِلے بِریاں ز عشقِ مُصطفٰی دارَم
نَدارَد ھیچ کافر ساز و سامانے کہ مَن دارَم


(میں خدا رکھتا ہوں کہ جلے ہوے دل میں عشقِ مصطفٰی (ص) رکھتا ہوں، کوئی کافر بھی ایسا کچھ ساز و سامان نہیں رکھتا جو کہ میرے پاس ہے)

ز جبریلِ امیں قُرآں بہ پیغامے نمی خواھَم
ہمہ گفتارِ معشوق است قرآنے کہ مَن دارَم

(جبریلِ امین سے پیغام کے ذریعے قرآن کی خواہش نہیں ہے، وہ تو سراسر محبوب (ص) کی گفتار ہے جو قرآن کہ میں رکھتا ہوں)۔

فلَک یک مطلعِ خورشید دارَد با ہمہ شوکت
ہزاراں ایں چُنیں دارَد گریبانے کہ مَن دَارم

آسمان اس تمام شان و شوکت کے ساتھ فقط سورج کا ایک مطلع رکھتا ہے جب کہ اس (مطلع خورشید) جیسے ہزاروں میرے گریبان میں ہیں۔

ز بُرہاں تا بہ ایماں سنگ ھا دارَد رہِ واعظ
نَدارَد ھیچ واعظ ہمچو بُرہانے کہ مَن دارَم

واعظ کی دلیل و عقل سے ایمان تک کی راہ پتھروں سے بھری پڑی ہے لیکن کوئی واعظ اس جیسی برہان نہیں رکھتا جو کہ میرے پاس ہے۔

(سر سید احمد خان)
——–
بحر - بحر ہزج مثمن سالم

افاعیل - مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن

اشاری نظام - 2221 2221 2221 2221

تقطیع -
فلاطوں طفلکے باشد بہ یُونانے کہ من دارَم
مسیحا رشک می آرد ز درمانے کہ من دارم
فلاطو طف - مفاعیلن - 2221
لَکے باشد - مفاعیلن - 2221
بَ یونانے - مفاعیلن - 2221
کِ من دارم - مفاعیلن - 2221
مسیحا رش - مفاعیلن - 2221
ک می آرد - مفاعیلن - 2221
ز درمانے - مفاعیلن - 2221
کِ من دارم - مفاعیلن - 2221

-----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 30, 2008

خوشامد از سر سید احمد خان

دل کی جس قدر بیماریاں ہیں ان میں سب سے زیادہ مہلک خوشامد کا اچھا لگنا ہے۔ جس وقت کہ انسان کے بدن میں یہ مادہ پیدا ہو جاتا ہے جو وبائی ہوا کے اثر کو جلد قبول کر لیتا ہے تو اسی وقت انسان مرضِ مہلک میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جبکہ خوشامد کے اچھا لگنے کی بیماری انسان کو لگ جاتی ہے تو اس کے دل میں ایک ایسا مادہ پیدا ہو جاتا ہے جو ہمیشہ زہریلی باتوں کے زہر کو چوس لینے کی خواہش رکھتا ہے، جسطرح کہ خوش گلو گانے والے کا راگ اور خوش آیند باجے والے کی آواز انسان کے دل کو نرم کر دیتی ہے اسی طرح خوشامد بھی انسان کے دل کو ایسا پگھلا دیتی ہے کہ ایک کانٹے کے چبھنے کی جگہ اس میں ہو جاتی ہے۔ اول اول یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنی خوشامد کرتے ہیں اور اپنی ہر ایک چیز کو اچھا سمجھتے ہیں اور آپ ہی آپ اپنی خوشامد کر کے اپنے دل کو خوش کرتے ہیں پھر رفتہ رفتہ اوروں کی خوشامد ہم میں اثر کرنے لگتی ہے۔ اسکا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اول تو خود ہم کو اپنی محبت پیدا ہوتی ہے پھر یہی محبت ہم سے باغی ہو جاتی ہے اور ہمارے بیرونی دشمنوں سے جا ملتی ہے اور جو محبت و مہربانی ہم خود اپنے ساتھ کرتے ہیں وہ ہم خوشامدیوں کے ساتھ کرنے لگتے ہیں اور وہی ہماری محبت ہم کو یہ بتلاتی ہے کہ ان خوشامدیوں پر مہربانی کرنا نہایت حق اور انصاف ہے جو ہماری باتوں کو ایسا سمجھتے ہیں اور انکی ایسی قدر کرتے ہیں جبکہ ہمارا دل ایسا نرم ہو جاتا ہے اور اسی قسم کے پھسلاوے اور فریب میں آ جاتا ہے تو ہماری عقل خوشامدیوں کے عقل و فریب سے اندھی ہو جاتی ہے اور وہ مکر و فریب ہماری طبیعت پر بالکل غالب آ جاتا ہے۔ لیکن اگر ہر شخص کو یہ بات معلوم ہو جاوے کہ خوشامد کا شوق کیسے نالائق اور کمینے سببوں سے پیدا ہوتا ہے تو یقینی خوشامد کی خواہش کرنے والا شخص بھی ویسا ہی نالائق اور کمینہ متصور ہونے لگے گا۔ جبکہ ہم کو کسی ایسے وصف کا شوق پیدا ہوتا ہے جو ہم میں نہیں ہے یا ہم ایسا بننا چاہتے ہیں جیسے کہ در حقیقت ہم نہیں ہیں، تب ہم اپنے تئیں خوشامدیوں کے حوالے کرتے ہیں جو اوروں کے اوصاف اور اوروں کی خوبیاں ہم میں لگانے لگتے ہیں۔ گو بسبب اس کمینہ شوق کے اس خوشامدی کی باتیں اچھی لگتی ہوں مگر در حقیقت وہ ہم کو ایسی ہی بد زیب ہیں جیسے کہ دوسرں کہ کپڑے جو ہمارے بدن پر کسی طرح ٹھیک نہیں (اس بات سے ہم اپنی حقیقت کو چھوڑ کر دوسرے کے اوصاف اپنے میں سمجھنے لگیں، یہ بات کہیں عمدہ ہے کہ ہم اپنی حقیقت کو درست کریں اور سچ مچ وہ اوصاف خود اپنے میں پیدا کریں، اور بعوض جھوٹی نقل بننے کے خود ایک اچھی اصل ہو جاویں) کیونکہ ہر قسم کی طبیعتیں جو انسان رکھتے ہیں اپنے اپنے موقع پر مفید ہو سکتی ہیں۔ ایک تیز مزاج اور چست چالاک آدمی اپنے موقع پر ایسا ہی مفید ہوتا ہے جیسے کہ ایک رونی صورت کا چپ چاپ آدمی اپنے موقع پر۔
سر سّد احمد خان، Sir Syyed Ahmed Khan, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
سر سّد احمد خان، Sir Syyed Ahmed Khan
خودی جو انسان کو برباد کرنے کی چیز ہے جب چپ چاپ سوئی ہوئی ہوتی ہے تو خوشامد اس کو جگاتی اور ابھارتی ہے اور جس چیز کی خوشامد کی جاتی ہے اس میں چھچھورے پن کی کافی لیاقت پیدا کر دیتی ہے، مگر یہ بات بخوبی یاد رکھنی چاہیئے کہ جسطرح خوشامد ایک بد تر چیز ہے اسی طرح مناسب اور سچی تعریف کرنا نہایت عمدہ اور بہت ہی خوب چیز ہے۔ جسطرح کے لائق شاعر دوسروں کی تعریف کرتے ہیں کہ ان اشعار سے ان لوگوں کا نام باقی رہتا ہے جنکی وہ تعریف کرتے ہیں اور شاعری کی خوبی سے خود ان شاعروں کا نام بھی دنیا میں باقی رہتا ہے۔ دونوں شخص ہوتے ہیں، ایک اپنی لیاقت کے سبب سے اور دوسرا اس لیاقت کو تمیز کرنے کے سبب سے۔ مگر لیاقت شاعری کی یہ ہے کہ وہ نہایت بڑے استاد مصور کی مانند ہو کہ وہ اصل صورت اور رنگ اور خال و خط کو بھی قائم رکھتا ہے اور پھر بھی تصویر ایسی بناتا ہے کہ خوش نما معلوم ہو۔ ایشیا کے شاعروں میں ایک بڑا نقص یہی ہے کہ وہ اس بات کا خیال نہیں رکھتے بلکہ جسکی تعریف کرتے ہیں اسکے اوصاف ایسے جھوٹے اور نا ممکن بیان کرتے ہیں جن کہ سبب سے وہ تعریف، تعریف نہیں رہتی بلکہ فرضی خیالات ہو جاتے ہیں۔ ناموری کی مثال نہایت عمدہ خوشبو کی ہے، جب ہوشیاری اور سچائی سے ہماری واجب تعریف ہوتی ہے تو اسکا ویسا ہی اثر ہوتا ہے جیسے عمدہ خوشبو کا مگر جب کسی کمزور دماغ میں زبردستی سے وہ خوشبو ٹھونس دی جاتی ہے تو ایک تیز بو کی مانند دماغ کو پریشان کر دیتی ہے۔ فیاض آدمی کو بد نامی اور نیک نامی کا زیادہ خیال ہوتا ہے اور عالی ہمت طبیعت کو مناسب عزت اور تعریف سے ایسی ہی تقویت ہوتی ہے جیسے کہ غفلت اور حقارت سے پست ہمتی ہوتی ہے۔ جو لوگ کہ عوام کے درجہ سے اوپر ہیں انہیں لوگوں پر اسکا زیادہ اثر ہوتا ہے جیسے کہ تھرما میٹر میں وہی حصہ موسم کا زیادہ اثر قبول کرتا ہے جو صاف اور سب سے اوپر ہوتا ہے۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 21, 2008

رسم و رواج از سر سید احمد خان

جو لوگ کہ حسنِ معاشرت اور تہذیبِ اخلاق و شائستگیِ عادات پر بحث کرتے ہیں ان کے لئے کسی ملک یا قوم کے کسی رسم و رواج کو اچھا اور کسی کو برا ٹھہرانا نہایت مشکل کام ہے۔ ہر ایک قوم اپنے ملک کے رسم و رواج کو پسند کرتی ہے اور اسی میں خوش رہتی ہے کیونکہ جن باتوں کی چُھٹپن سے عادت اور موانست ہو جاتی ہے وہی دل کو بھلی معلوم ہوتی ہیں لیکن اگر ہم اسی پر اکتفا کریں تو اسکے معنی یہ ہو جاویں گے کہ بھلائی اور برائی حقیقت میں کوئی چیز نہیں ہے بلکہ صرف عادت پر موقوف ہے، جس چیز کا رواج ہو گیا اور عادت پڑ گئی وہی اچھی ہے اور جس کا رواج نہ ہوا اور عادت نہ پڑی وہی بری ہے۔

مگر یہ بات صحیح نہیں۔ بھلائی اور برائی فی نفسہ مستقل چیز ہے، رسم و رواج سے البتہ یہ بات ضرور ہوتی ہے کہ کوئی اسکے کرنے پر نام نہیں دھرتا، عیب نہیں لگاتا کونکہ سب کے سب اس کو کرتے ہیں مگر ایسا کرنے سے وہ چیز اگر فی نفسہ بری ہے تو اچھی نہیں ہو جاتی۔ پس ہم کو صرف اپنے ملک یا اپنی قوم کی رسومات کے اچھے ہونے پر بھروسہ کر لینا نہ چاہیئے بلکہ نہایت آزادی اور نیک دلی سے اس کی اصلیت کا امتحان کرنا چاہیئے تا کہ اگر ہم میں کوئی ایسی بات ہو جو حقیقت میں بد ہو اور بسب رسم و رواج کے ہم کو اسکی بدی خیال میں نہ آتی ہو تو معلوم ہو جاوے اور وہ بدی ہمارے ملک یا قوم سے جاتی رہے۔

البتہ یہ کہنا درست ہوگا کہ ہر گاہ معیوب ہونا اور غیر معیوب ہونا کسی بات کا زیادہ تر اس کے رواج و عدم رواج پر منحصر ہو گیا ہے تو ہم کس طرح کسی امیر کے رسم و رواج کو اچھا یا برا قرار دے سکیں گے، بلاشبہ یہ بات کسی قدر مشکل ہے مگر جبکہ یہ تسلیم کر لیا جاوے کہ بھلائی یا برائی فی نفسہ بھی کوئی چیز ہے تو ضرور ہر بات کی فی الحقیقت بھلائی یا برائی قرار دینے کے لئے کوئی نہ کوئی طریقہ ہوگا۔ پس ہم کو اس طریقہ کے تلاش کرنے اور اسی کے مطابق اپنی رسوم و عادات کو بھلائی یا برائی قرار دینے کی پیروی کرنی چاہیئے۔

سر سیّد احمد خان، Sir Syyed Ahmed Khan, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
سر سیّد احمد خان، Sir Syyed Ahmed Khan
سب سے مقدم اور سب سے ضروری امر اس کام کے لئے یہ ہے کہ ہم اپنے دل کو تعصبات سے اور ان تاریک خیالوں سے جو انسان کو سچی بات کے سننے اور کرنے سے روکتے ہیں خالی کریں اور اس دلی نیکی سے جو خدا تعالیٰ نے انسان کے دل میں رکھی ہے ہر ایک بات کی بھلائی یا برائی دریافت کرنے پر متوجہ ہوں۔
یہ بات ہم کو اپنی قوم اور اپنے ملک اور دوسری قوم اور دوسرے ملک دونوں کے رسم و رواج کے ساتھ برتنی چاہیئے تا کہ جو رسم و عادت ہم میں بھلی ہے اس پر مستحکم رہیں اور جو ہم میں بری ہے اسکے چھوڑنے پر کوشش کریں اور جو رسم و عادت دوسروں میں اچھی ہے اس کو بلا تعصب اختیار کریں اور جو ان میں بری ہے اسکے اختیار کرنے سے بچتے رہیں۔

جبکہ ہم غور کرتے ہیں کہ تمام دنیا کی قوموں میں جو رسوم و عادات مروج ہیں انہوں نے کس طرح ان قوموں میں رواج پایا ہے تو باوجود مختلف ہونے ان رسوم و عادات کے ان کا مبدا اور منشا متحد معلوم ہوتا ہے۔
کچھ شبہ نہیں ہے کہ جو عادتیں اور رسمیں قوموں میں مروج ہیں انکا رواج یا تو ملک کی آب و ہوا کی خاصیت سے ہوا ہے یا ان اتفاقیہ امور سے جن کی ضرورت وقتاً فوقتاً بضرورت تمدن و معاشرت کے پیش آتی گئی ہے یا دوسری قوم کی تقلید و اختلاط سے مروج ہو گئی ہے۔ یا انسان کی حالتِ ترقی یا تنزل نے اس کو پیدا کر دیا ہے۔ پس ظاہراً یہی چار سبب ہر ایک قوم اور ہر ایک ملک میں رسوم و عادات کے مروج ہونے کا مبدا معلوم ہوتے ہیں۔

جو رسوم و عادات کہ بمقتضائے آب و ہوا کسی ملک میں رائج ہوئی ہیں انکے صحیح اور درست ہونے میں کچھ شبہ نہیں کیونکہ وہ عادتیں قدرت اور فطرت نے انکو سکھلائی ہیں جس کے سچ ہونے میں کچھ شبہ نہیں مگر انکے برتاؤ کا طریقہ غور طلب باقی رہتا ہے۔

مثلاً ہم یہ بات دیکھتے ہیں کہ کشمیر میں اور لندن میں سردی کے سبب انسان کو آگ سے گرم ہونے کی ضرورت ہے پس آگ کا استعمال ایک نہایت سچی اور صحیح عادت دونوں ملکوں کی قوموں میں ہے مگر اب ہم کو یہ دیکھنا ہے کہ آگ کے استعمال کے لئے یہ بات بہتر ہے کہ مکانات میں ہندی قواعد سے آتش خانہ بنا کر آگ کی گرمی سے فائدہ اٹھاویں یا مٹی کی کانگڑیوں میں آگ جلا کر گردن میں لٹکائے پھریں جس سے گورا گورا پیٹ اور سینہ کالا اور بھونڈا ہو جائے۔

طریقِ تمدن و معاشرت روز بروز انسانوں میں ترقی پاتا جاتا ہے اور اس لئے ضرور ہے کہ ہماری رسمیں و عادتیں جو بضرورتِ تمدن و معاشرت مروج ہوئی تھیں ان میں بھی روز بروز ترقی ہوتی جائے اور اگر ہم ان پہلی ہی رسموں اور عادتوں کے پابند رہیں اور کچھ ترقی نہ کریں تو بلا شبہ بمقابل ان قوموں کے جنہوں نے ترقی کی ہے ہم ذلیل اور خوار ہونگے اور مثل جانور کے خیال کئے جاویں گے، پھر خواہ اس نام سے ہم برا مانیں یا نہ مانیں، انصاف کا مقام ہے کہ جب ہم اپنے سے کمتر اور ناتربیت یافتہ قوموں کو ذلیل اور حقیر مثل جانور کے خیال کرتے ہیں تو جو قومیں کہ ہم سے زیادہ شایستہ و تربیت یافتہ ہیں اگر وہ بھی ہم کو اسی طرح حقیر اور ذلیل مثل جانور کے سمجھیں تو ہم کو کیا مقامِ شکایت ہے؟ ہاں اگر ہم کو غیرت ہے تو ہم کو اس حالت سے نکلنا اور اپنی قوم کو نکالنا چاہیئے۔

دوسری قوموں کی رسومات کا اختیار کرنا اگرچہ بے تعصبی اور دانائی کی دلیل ہے مگر جب وہ رسمیں اندھے پن سے صرف تقلیداً بغیر سمجھے بوجھے اختیار کی جاتی ہیں تو کافی ثبوت نادانی اور حماقت کا ہوتی ہیں۔ دوسری قوموں کی رسومات اختیار کرنے میں اگر ہم دانائی اور ہوشیاری سے کام کریں تو اس قوم سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں اس لئے کہ ہم کو اس رسم سے تو موانست نہیں ہوتی اور اس سبب سے اسکی حقیقی بھلائی یا برائی پر غور کرنے کا بشرطیکہ ہم تعصب کو کام میں نہ لاویں بہت اچھا موقع ملتا ہے۔ اس قوم کے حالات دیکھنے سے جس میں وہ رسم جاری ہے ہم کو بہت عمدہ مثالیں سینکڑوں برس کے تجربہ کی ملتی ہیں جو اس رسم کے اچھے یا برے ہونیکا قطعی تصفیہ کر دیتی ہیں۔

مگر یہ بات اکثر جگہ موجود ہے کہ ایک قوم کی رسمیں دوسری قوم میں بسبب اختلاط اور ملاپ کے اور بغیر قصد و ارادہ کے اور انکی بھلائی اور برائی پر غور و فکر کرنیکے بغیر داخل ہو گئی ہیں جیسے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کا بالتخصیص حال ہے کہ تمام معاملاتِ زندگی بلکہ بعض اموراتِ مذہبی میں بھی ہزاروں رسمیں غیر قوموں کی بلا غور و فکر اختیار کر لی ہیں، یا کوئی نئی رسم مشابہ اس قوم کی رسم کے ایجاد کر لی ہے مگر جب ہم چاہتے ہیں کہ اپنے طریقِ معاشرت اور تمدن کو اعلیٰ درجہ کی تہذیب پر پہنچا دیں تا کہ جو قومیں ہم سے زیادہ مہذب ہیں وہ ہم کو بنظرِ حقارت نہ دیکھیں تو ہمارا فرض ہے ہم اپنی تمام رسوم و عادات کو بنظر تحقیق دیکھیں اور جو بری ہوں ان کو چھوڑیں اور جو قابلِ اصلاح ہوں ان میں اصلاح کریں۔

جو رسومات کے بسبب حالتِ ترقی یا تنزل کسی قوم کے پیدا ہوتی ہیں وہ رسمیں ٹھیک ٹھیک اس قوم کی ترقی اور تنزل یا عزت اور ذلت کی نشانی ہوتی ہیں۔

اس مقام پر ہم نے لفظ ترقی یا تنزل کو نہایت وسیع معنوں میں استعمال کیا ہے اور تمام قسم کے حالاتِ ترقی و تنزل مراد لئے ہیں خواہ وہ ترقی و تنزل اخلاق سے متعلق ہو خواہ علوم و فنون اور طریقِ معاشرت و تمدن سے اور خواہ ملک و دولت و جاہ و حشمت سے۔

بلاشبہ یہ بات تسلیم کرنے کے قابل ہے کہ دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں نکلنے کی جس کی تمام رسمیں اور عادتیں عیب اور نقصان سے خالی ہوں مگر اتنا فرق بیشک کہ بعضی قوموں میں ایسی رسومات اور عادات جو در حقیقت نفس الامر میں بری ہوں، کم ہیں، اور بعضی میں زیادہ، اور اسی وجہ سے وہ پہلی قوم پچھلی قوم سے اعلیٰ اور معزز ہے۔ اور بعض ایسی قومیں ہیں جنہوں نے انسان کی حالتِ ترقی کو نہایت اعلیٰ درجہ تک پہنچایا ہے اور اس حالتِ انسانی کی ترقی نے ان کے نقصانوں کو چُھپا لیا ہے جیسے ایک نہایت عمدہ و نفیس شیریں دریا تھوڑے سے گدلے اور کھاری پانی کو چھپا لیتا ہے یا ایک نہایت لطیف شربت کا بھرا ہوا پیالہ نیبو کی کھٹی دو بوندوں سے زیادہ تر لطیف اور خوشگوار ہو جاتا ہے اور یہی قومیں جو اب دنیا میں “سویلائزڈ” یعنی مہذب گنی جاتی ہیں اور در حقیقت اس لقب کی مستحق بھی ہیں۔

میری دلسوزی اپنے ہم مذہب بھائیوں کے ساتھ اسی وجہ سے ہے کہ میری دانست میں ہم مسلمانوں میں بہت سے رسمیں جو در حقیقت نفس الامر میں بری ہیں مروج ہو گئی ہیں جن میں ہزاروں ہمارے پاک مذہب کے بھی بر خلاف ہیں اور انسانیت کے بھی مخالف ہیں اور تہذیب و تربیت و شایستگی کے بھی بر عکس ہیں اور اس لئے میں ضرور سمجھتا ہوں کہ ہم سب لوگ تعصب اور ضد اور نفسانیت کو چھوڑ کر ان بری رسموں اور بد عادتوں کے چھوڑنے پر مائل ہوں اور جیسا کہ ان کا پاک اور روشن ہزاروں حکمتوں سے بھرا ہوا مذہب ہے اسی طرح اپنی رسوماتِ معاشرت و تمدن کو بھی عمدہ اور پاک و صاف کریں اور جو کچھ نقصانات اس میں ہیں گو وہ کسی وجہ سے ہوں، ان کو دور کریں۔

اس تجربہ سے یہ نہ سمجھا جاوے کہ میں اپنے تئیں ان بد عادتوں سے پاک و مبرا سمجھتا ہوں یا اپنے تئیں نمونۂ عاداتِ حسنہ جتاتا ہوں یا خود اِن امور میں مقتدا بننا چاہتا ہوں، حاشا و کلا۔ بلکہ میں بھی ایک فرد انہیں افراد میں سے ہوں جنکی اصلاحِ دلی مقصود ہے بلکہ میرا مقصد صرف متوجہ کرنا اپنے بھائیوں کا اپنی اصلاحِ حال پر ہے اور خدا سے امید ہے کہ جو لوگ اصلاحِ حال پر متوجہ ہونگے، سب سے اول انکا چیلہ اور انکی پیروی کرنے والا میں ہونگا۔ البتہ مثل مخمور کے خراب حالت میں چلا جانا اور روز بروز بدتر درجہ کو پہنچتا جانا اور نہ اپنی عزت کا اور نہ قومی عزت کا خیال و پاس رکھنا اور جھوٹی شیخی اور بیجا غرور میں پڑے رہنا مجھ کو پسند نہیں ہے۔

ہماری قوم کے نیک اور مقدس لوگوں کو کبھی کبھی یہ غلط خیال آتا ہے کہ تہذیب اور حسنِ معاشرت و تمدن صرف دنیاوی امور ہیں جو صرف چند روزہ ہیں، اگر ان میں ناقص ہوئے تو کیا اور کامل ہوئے تو کیا اور اس میں عزت حاصل کی تو کیا اور ذلیل رہے تو کیا، مگر انکی اس رائے میں قصور ہے اور انکی نیک دلی اور سادہ مزاجی اور تقدس نے ان کو اس عام فریب غلطی میں ڈالا ہے۔ جو انکے خیالات ہیں انکی صحت اور اصلیت میں کچھ شبہ نہیں مگر انسان امور متعلق تمدن و معاشرت سے کسی طور علیحدہ نہیں ہو سکتا اور نہ شارع کا مقصود ان تمام امور کو چھوڑنے کا تھا کیونکہ قواعدِ قدرت سے یہ امر غیر ممکن ہے۔ پس اگر ہماری حالتِ تمدن و معاشرت ذلیل اور معیوب حالت پر ہوگی تو اس سے مسلمانوں کی قوم پر عیوب اور ذلت عائد ہوگی اور وہ ذلت صرف ان افراد اور اشخاص پر منحصر نہیں رہتی بلکہ انکے مذہب پر منجر ہوتی ہے، کیونکہ یہ بات کہی جاتی ہے کہ مسلمان یعنی وہ گروہ جو مذہبِ اسلام کا پیرو ہے نہایت ذلیل و خوار ہے۔ پس اس میں در حقیقت ہمارے افعال و عاداتِ قبیحہ سے اسلام کو اور مسلمانی کو ذلت ہوتی ہے۔ پس ہماری دانست میں مسلمانوں کی حسن معاشرت اور خوبیٔ تمدن اور تہذیب اخلاق اور تربیت و شایستگی میں کوشش کرنا حقیقت میں ایک ایسا کام ہے جو دنیاوی امور سے جس قدر متعلق ہے اس سے بہت زیادہ معاد سے علاقہ رکھتا ہے اور جس قدر فائدے کی اس سے ہم کو اس دنیا میں توقع ہے اس سے بڑھ کر اُس دنیا میں ہے جس کو کبھی فنا نہیں۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔