Showing posts with label سیاسیات. Show all posts
Showing posts with label سیاسیات. Show all posts

Oct 14, 2010

اندھے

پنجابی کا ایک بڑا پیارا محاورہ ہے، "لیروں لیر کرنا"، پنجابی دوست اس محاورے کی روح تک پہنچ گئے ہوں گے، اردو میں اس کا قریب ترین مترادف شاید دھجیاں اڑانا ہوگا لیکن جو "لیروں لیر" کرنے میں مولوی مدن کی سی بات ہے وہ دھجیاں اڑانے میں کہاں۔ نہ جانے کیوں جب بھی "لیروں لیر" میرے ذہن میں آتا ہے تو ساتھ ہی "لیگوں لیگ" بھی آ جاتا ہے۔ اردو کے حروفِ تہجی گنتے جایئے ختم ہو جائیں گے لیکن مسلم لیگ کے ساتھ جڑے ہوئے حروف ختم نہیں ہونگے۔ لیگ کی تقسیم تو تقسیم سے پہلے ہی شروع ہو گئی تھی، جناح لیگ اور شفیع لیگ تاریخ پر نظر رکھنے والے احباب سے پوشیدہ نہیں ہونگی لیکن وہ دونوں واقعی لیڈر تھے اور پھر ان کے درمیان "بائنڈنگ فورس" کے طور پر علامہ بھی حیات تھے سو اتحاد ہو گیا، لیکن تقسیم کے بعد الامان و الحفیظ، لیگ نے باندیوں والا روپ دھار لیا اور اسکا حشر بھی ویسا ہی ہوا۔

اس معروضے سے یہ نہ سمجھا جائے کہ خاکسار پیپلز پارٹی کا حامی ہے، حامی ہونا تو دور کی بات مجھے تو اس پارٹی کے نام کا مطلب ہی ایک زمانے کے بعد سمجھ میں آیا، یادش بخیر، بچپن کے دن تھے، بھٹو مرحوم کو پھانسی دی گئی تو والدہ نے رو رو کر بُرا حال کر لیا، ماموں مرحوم انکے غم میں برابر کے شریک تھے لیکن اللہ جنت نصیب کرنے والدِ مرحوم، کہ "جماعتیے" تھے، برابر اپنے موقف پر اڑے رہے کہ جو بھی ہوا صحیح ہوا۔ نتیجتہً گھر کی فضا مکدر رہنے لگی لیکن پھر ایک جادو گر نے ایسا جادو کیا اور "اِس لام اُس لام" کا ایسا جنتر منتر کیا کہ والدہ اور ماموں بھی پکے لام لیگیے ہو گئے، لیکن گھر میں "پپل پارٹی پپل پارٹی" کی تکرار برابر ہوتی رہتی تھی اور یہ خاکسار انہی الفاظ کی جھنکار و تکرار میں پروان چڑھا۔

پپل پارٹی سے ہمیشہ میرے ذہن میں پپل (پیپل) کا درخت آتا تھا جو گھر کے باہر سڑک کے کنارے موجود تھا اور سارا دن اسکی چھاؤں میں کھیلتے گذر جاتا تھا۔ وہ بھی کیا دن تھے، گاؤں میں گھر کے اندر درخت ہوتے تھے اور محلوں میں گھر کے باہر، کہیں پیپل، کہیں ٹاہلی، کہیں کیکر اور کہیں "دریک" (نہ جانے اس کو اردو میں کیا کہتے ہیں)، اب تو مدت ہو گئی "دریک" کا درخت دیکھے ہوئے گو ٹاہلی اور کیکر پھر کہیں نظر آ جاتے ہیں۔ دریک پر جب اسکے "درکونے" لگتے تھے تو ان سے جیبیں بھر لی جاتی تھیں اور ہر آتے جاتے لڑکے کے سر میں چھپ کر "درکونا" مارنے کا لطف لیا جاتا تھا۔ درکونے، غلیلے کے طور پر بھی کام آتے تھے اور چھوٹی موٹی چڑیا اس سے مر بھی جاتی تھی، ہزاروں بار غلیل چلائی ہوگی لیکن مجھ سے تو آج تک ایک چڑیا بھی زخمی نہ ہوئی کہ ہمیشہ نشانہ خطا ہی ہوا بلکہ الٹا غلیل کا گوپیا اور اسکی ربر میرے دوسرے ہاتھ پر زور سے لگتی تھی اور میں "سی سی" کر اٹھتا تھا۔ لیکن آفرین ہے ان بندوقوں والوں پر، دہائیوں سے بندوقیں چلا رہے ہیں، شکار پر شکار کرتے چلے جا رہے ہیں، کبھی کوئی نشانہ خطا نہیں ہوا اور کبھی "بیک فائر" بھی نہیں ہوا۔

اسی پیپل کی چھاؤں میں اکثر بنٹے کھیلا کرتا تھا، دو یا چار حریف جب آمنے سامنے بیٹھ کر بنٹے کھیلتے تھے تو اکثر ایک یا دو یا عموماً چاروں ہی ایک نعرہ لگاتے تھے" یا بے ایمانی تیرا ہی آسرا"، یہ اس بات کی علامت ہوتا تھا کہ اس جنگ میں سب جائز ہے، کھیلتے سب تھے لیکن ہاتھ ایک مار جاتا تھا۔ ہڑبونگ اس وقت مچتی تھی جب کہیں سے اچانک بوڑھا ماما محمد حسین چھاپا مارتا تھا اور لڑکوں سے سارے بنٹے چھین کر قریب بہنے والی بڑی سی بدرو میں پھینک دیتا تھا۔

اپنے "اِس لامی جمہور (یا) پاکستان" کا بھی اس وقت کچھ یہی حال ہے، چاروں طرف سے "یا بے ایمانی تیرا ہی آسرا، یا بے ایمانی تیرا ہی آسرا" کے نعرے بلند ہو رہے ہیں اور ادھر ماما محمد حسین کہیں تاک میں لگا ہوا ہے، کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونا ہے، بہتر ہے اندھے ہی ہو جائیں۔ کہتے ہیں، ایک دفعہ میانوالی کے کسی دُور افتادہ گاؤں کے دو مُلّے کسی کام سے کراچی گئے اور وہاں ہاکس بے چلے گئے، کچھ دیر تو وہ دونوں مبہوت کھڑے وہاں کے "نظارے" دیکھتے رہے، پھر ایک دوسرے سے کہنے لگا، "اُوئے مام دینا میں تے انّاں ہو گیاں تُوں اکھاں بند کر لے"۔

----------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 17, 2010

ارسطو کے سنہری مشورے آمروں کیلیے

یوں تو دنیائے سیاسیات میں چانکیہ اور میکاؤلی ہی زیادہ بدنام ہیں کہ انہوں نے بادشاہوں اور مطلق العنان حکمرانوں اور آمروں کو اپنی بادشاہت اور آمریت بچانے کیلیے ایسے ایسے نادر مشورے دیئے ہیں کہ ان دونوں کی عیاری اور مکاری ضرب المثل بن چکی ہے۔ لیکن ایک دلچسپ اقتباس مجھے ارسطو کی کتاب 'سیاسیات' میں ملا جس میں ارسطو، جس کا مقام علم و فضل و حکمت کی دنیا میں کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے، کسی طرح بھی چانکیہ اور میکاؤلی سے کم نہیں ہے۔ یوں تو ارسطو نے اپنی اس کتاب میں جبر و استبداد کی حکومت اور آمریت کو حکومتوں کی بدترین قسم قرار دیا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ کسی بھی مطلق العنان آمر سے زیادہ برا شخص کوئی نہیں ہوسکتا لیکن ساتھ ہی ان کو اپنی آمریت بچانے کے ایسے بیش بہا اور نادر مشورے دیے ہیں کہ دنیا کے "پڑھے لکھے" آمروں نے ان کو آبِ زر سے لکھا ہوگا۔

مذکورہ مشوروں کا ترجمہ و تخلیص لکھ رہا ہوں۔

ارسطو فرماتے ہیں کہ ایک آمر کو اپنی آمریت بچانے کیلیے چاہیئے کہ وہ

- کسی بھی غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل فرد کی اٹھان کو روکے، اس پر مقدمہ چلا کر اسے پھانسی دے دے یا اگر ضروری ہو تو اسے قتل کروا دے۔

- وہ بڑے اور اجتماعی کھانوں اور ملنے جلنے کی جگہوں کلبوں وغیرہ پر پابندی لگا دے تا کہ لوگ نہ آپس میں گھلے ملیں اور نہ اس کے خلاف اجتماع کر سکیں، اور ہر اسطرح کی تعلیم پر بھی جس سے اسکے خلاف جذبات ابھر سکتے ہوں۔

- اسکے ملک میں کسی بھی قسم کے علمی اور فکرانگیز اجتماع یا مباحث نہیں ہونے چاہیئں۔

- وہ لوگوں کو آپس میں گھلنے ملنے اور ایک دوسرے کو جاننے سے روکے۔

- وہ ہر جگہ اپنے جاسوس پھیلا دے

- وہ ہر وقت لوگوں میں فتنہ و فساد و لڑائی جھگڑے کے بیج بوتا رہے، دوستوں کو دوستوں کے ساتھ بھڑا دے، عوام کو اشرافیہ کے ساتھ اور امراء کو امراء کے ساتھ۔

- وہ عوام کو ہمیشہ غربت کی چکی میں پیستا رہے، اور ان پر ٹیکسوں کا بار بڑھاتا ہی رہے۔

- وہ اپنی عوام کو ہر وقت کسی نہ کسی بڑے اور عظیم منصوبے میں مصروف رکھے جیسے کہ مصر کے فرعونوں نے اپنی عوام کو اہرام بنانے میں مصروف کر دیا تھا۔

- وہ عورتوں اور غلاموں کو زیادہ سے زیادہ حقوق دے تا کہ وہ اسکے زیرِ بار احسان ہو کر اسکے جاسوس بن سکیں، عورتیں اپنے خاوندوں کے خلاف جاسوسی کریں اور غلام اپنے مالکوں کے خلاف۔

- اسے جنگیں لڑنی چاہیئں (یا اسکی تیاریوں میں مصروف رہے) تا کہ اسکی عوام مصروف رہے اور انہیں ہمہ وقت کسی لیڈر کی ضرورت محسوس ہوتی رہے۔

اور یہ سب لکھنے کے بعد ارسطو دو مزید 'سنہری مشورے' آمروں کو دیتا ہے جس سے وہ اپنی آمریت کو بچا سکتے ہیں، ایک تو یہ کہ وہ اعتدال پسند (اور روشن خیال) ہو جائیں اور اپنے آپ کو انصاف پسند حکمران کے طور پر ظاہر کریں اور دوسرا یہ کہ وہ انتہائی مذہبی نظر آئیں۔

ارسطو کے مشورے آپ نے پڑھ لیے، ہو سکتا ہے کہ ارسطو کے کسی شارح اور مداح نے یہ لکھا ہو کہ یہ سارے مشورے ارسطو نے طنز کے طور پر لکھے ہیں کیونکہ وہ ایک آمر کو بدترین انسان اور آمریت کو بدترین حکومت سمجھتا تھا لیکن ارسطو کے ناقد برٹرنڈ رسل نے ایسی کسی بات کا اظہار نہیں کیا۔

میں، ملکی اور بین الاقوامی سیاست سے جتنا بھی غیر متعلق رہوں، سیاسیات سے بہ لحاظ ایک علم کے غیر متعلق نہیں رہ سکتا اور برٹرنڈ رسل کی شہرہ آفاق کتاب 'ہسٹری آف ویسٹرن فلاسفی' سے یہ باب پڑھتے ہو جو ایک بات بار بار میرے ذہن میں آ رہی تھی اور جو اس پوسٹ کا محرک بنی وہ یہ کہ پاکستان کے مشہور و معروف (اب تک کے) تین جرنیلوں، یا انکے مداحین سے معذرت کے ساتھ آمروں نے، کیا ارسطو کے مذکورہ مشوروں کا مطالعہ کر رکھا تھا؟ آفٹر آل جرنیل "پڑھے لکھے" شخص ہوتے ہیں۔ آمر نما جمہوری سیاستدانوں کا ذکر اس لیے نہیں کر رہا کیونکہ مجھے علم ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی ارسطو کا بحیثیت ایک سیاسی مفکر کے نام بھی سنا ہو تو غنیمت ہے۔

جو قارئین ارسطو کی کتاب 'سیاسیات' سے مذکورہ اقتباس پڑھنا چاہیں وہ اس ربط سے پڑھ سکتے ہیں۔

مکمل کتاب اس ربط پر پڑھی جا سکتی ہے۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jul 13, 2009

نکمّے

"کون؟ مسلمان؟"
"نہیں۔"
"ہمارے حکمران؟"
"نہیں۔"
"سیاستدان؟"
"نہیں۔"
"مذہب کے ٹھیکیدار؟"
"نہیں۔"
"سرکاری افسران؟"
"نہیں۔"
"پُلسیے؟"
"نہیں۔"
"سرکاری اسکولوں کے ماسٹر؟"
"نہیں۔"
"کاروباری لوگ؟ دکاندار؟"
"نہیں۔"
"کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی؟"
"نہیں۔"
"ہا ہا ہا، شاعر؟"
"نہیں۔"
"تو پھر آخر کون؟"
"پاکستانی فوج کے جرنیل!"
"جرنیل؟، جنہوں نے باسٹھ سالوں میں سے آدھے سال اس ملک پر حکمرانی کی، وہ اور نکمّے؟"
"ہاں، وہی نکمّے، انہوں نے باقی کے آدھے سال اس نکمّوں کے مُلک پر حکمرانی کرنے کے موقعے ضائع کر دیئے۔"
مزید پڑھیے۔۔۔۔