Showing posts with label عبدالقادر بیدل. Show all posts
Showing posts with label عبدالقادر بیدل. Show all posts

Nov 11, 2008

مرزا عبدالقادر بیدل کے چند اشعار مع ترجمہ

ابو المعانی مرزا عبدالقادر بیدل برصغیر پاک و ہند کی فارسی شاعری کا ایک لازوال نام ہیں، صوفیِ با صفا مرزا بیدل اُس دور کی روایت کے برعکس سلاطین اور بادشاہوں کے درباروں پر نہ جھکے اور نہ انکی شان میں مبالغہ آمیز قصیدے کہے بلکہ جب ایک شہزادے نے قصیدہ کہنے کی فرمائش کی تو نوکری چھوڑ دی۔
بیدل کی شاعری خیال آفرینی کی شاعری ہے، ان کے دور میں شاعری کی پامال روش سے تنفر پیدا ہو چکا تھا اور “تازہ گوئی” کا چرچا تھا اور بیدل اسکے امام ہیں۔
برصغیر پاک و ہند کے علاوہ، افغانستان میں اب بھی بیدل کا وہی مقام ہے جو یہاں اقبال کا ہے کہ ہر پڑھے لکھے گھر میں بیدل کے کلیات ضرور ملیں گے۔ ایرانی شعراء اور نقاد کچھ عرصہ قبل تک سبکِ ہندی کے تمام شاعروں بشمول بیدل، عرفی اور غالب وغیرہ کو سرے سے شاعر ہی نہیں مانتے تھے کہ لیکن اب ہوا بدل رہی ہے اور تہران میں بیدل کے عرس کے موقع پر بین الاقوامی کانفرنسیں منقعد ہوتی ہیں۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Mirza Abdul Qadir Bedil, مرزا عبدالقادر بیدلاپنی پسند کے چند اشعار درج کرتا ہوں۔
--------
بحرفِ ناملائم زحمتِ دل ہا مَشَو بیدل
کہ ہر جا جنسِ سنگی ہست، باشد دشمنِ مینا
بیدل، تلخ الفاظ (ناروا گفتگو) سے دلوں کو تکلیف مت دے، کہ جہاں کہیں بھی کوئی پتھر ہوتا ہے وہ شیشے کا دشمن ہی ہوتا ہے۔
————
بستہ ام چشمِ امید از الفتِ اہلِ جہاں
کردہ ام پیدا چو گوھر، در دلِ دریا کراں
میں نے دنیا والوں کی محبت کی طرف سے اپنی چشمِ امید بند کر لی ہے اور گوھر کی طرح سمندر کے دل میں اپنا ایک (الگ تھلگ) گوشہ بنا لیا ہے۔
————
چنیں کُشتۂ حسرتِ کیستَم من؟
کہ چوں آتش از سوختن زیستَم من
میں کس کی حسرت کا کشتہ ہوں کہ آتش کی طرح جلنے ہی سے میری زیست ہے۔
اگر فانیَم چیست ایں شورِ ھستی؟
و گر باقیَم از چہ فانیستَم من؟
اگر میں فانی ہوں تو پھر یہ شور ہستی کیا ہے اور اگر باقی ہوں تو پھر میرا فانی ہونا کیا ہے۔
نہ شادم، نہ محزوں، نہ خاکم، نہ گردوں
نہ لفظَم، نہ مضموں، چہ معنیستم من؟
نہ شاد ہوں نہ محزوں ہوں، نہ خاک ہوں نہ گردوں ہوں، نہ لفظ ہوں، نہ مضموں ہوں، (تو پھر) میرے معانی کیا ہیں میری ہونے کا کیا مطلب ہے۔
————
رباعی
بیدل رقمِ خفی جلی می خواھی
اسرارِ نبی و رمزِ ولی می خواھی
خلق آئنہ است، نورِ احمد دَریاب
حق فہم، اگر فہمِ علی می خواھی
بیدل، تُو پنہاں اور ظاہر راز (جاننا) چاہتا ہے، نبی (ص) کے اسرار اور ولی (ع) کی رمزیں جاننا چاہتا ہے۔ (تو پھر) خلق آئینہ ہے، احمد (ص) کا نور اس میں دیکھ، اور حق کو پہچان اگر علی (ع) کو پہچاننا چاہتا ہے۔
————
حاصِلَم زیں مزرعِ بے بَر نمی دانم چہ شُد
خاک بُودَم، خُوں شُدَم، دیگر نمی دانم چہ شُد
اس بے ثمر کھیتی (دنیا) سے نہیں جانتا مجھے کیا حاصل ہوا، خاک تھا، خوں ہو گیا اور اسکے علاوہ کچھ نہیں جانتا کہ کیا ہوا۔
دی مَن و صُوفی بہ درسِ معرفت پرداختیم
از رقم گم کرد و مَن دفتر نمی دانم چہ شُد
کل (روزِ ازل؟) میں اور صوفی معرفت کا سبق لے رہے تھے، اُس نے لکھا ہوا گم کر دیا اور میں نہیں جانتا کہ وہ درس (تحاریر، دفتر) کیا تھا۔
————
دل خاکِ سرِ کوئے وفا شُد، چہ بجا شُد
سر در رہِ تیغِ تو فدا شُد، چہ بجا شُد
(ہمارا) دل، کوئے وفا کی خاک ہوگیا، کیا خوب ہوا، اور سر تیری راہ میں تیری تلوار پر فدا ہوگیا، کیا خوب ہوا۔
————
با ہر کمال اندَکے آشفتگی خوش است
ہر چند عقلِ کل شدۂ بے جنوں مباش
ہر کمال کے ساتھ ساتھ تھوڑی آشفتگی (عشق، دیوانگی) بھی اچھی (ضروری) ہے، ہر چند کہ تُو عقلِ کُل ہی ہو جائے، جنون کے بغیر مت رہ۔
————
عالم بہ وجودِ من و تو موجود است
گر موج و حباب نیست، دریا ھم نیست
یہ عالم میرے اور تیرے وجود کی وجہ سے موجود ہے، اگر موج اور بلبلے نہ ہوں تو دریا بھی نہیں ہے۔
————
بسازِ حادثہ ہم نغمہ بُودن آرام است
اگر زمانہ قیامت کُنَد تو طوفاں باش
حادثہ کے ساز کے ساتھ ہم نغمہ ہونا (سُر ملانا) ہی آرام ہے، اگر زمانہ قیامت بپا کرتا ہے تو تُو طوفان بن جا۔
————
اگر عشقِ بُتاں کفر است بیدل
کسے جُز کافر ایمانی ندارَد
بیدل اگر عشقِ بتاں کفر ہے تو کافر کے سوا کوئی ایمان نہیں رکھتا۔
————
چہ لازم با خِرَد ھم خانہ بُودَن
دو روزے می تواں دیوانہ بُودَن
کیا ضروری ہے کہ ہر وقت عقل کے ساتھ ہی رہا جائے (عقل کی بات ہی سنی جائے)، دو روز دیوانہ بن کر بھی رہنا چاہیئے۔
اور اسی شعر کا پر تو اقبال کے اس شعر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
————
بُوئے گُل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل
ہر کہ از بزمِ تو برخاست، پریشاں برخاست
غالب نے کہا تھا کہ
طرزِ بیدل میں ریختہ لکھنا
اسد اللہ خاں قیامت ہے
لیکن بیدل کے اس شعر کے ساتھ مرزا نے عجب ہی قیامت ڈھائی ہے کہ ہو بہو ترجمہ لکھ ڈالا، یعنی
بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا
مزید پڑھیے۔۔۔۔