Showing posts with label مرتضیٰ برلاس. Show all posts
Showing posts with label مرتضیٰ برلاس. Show all posts

Sep 2, 2011

ملتے ہی خود کو آپ سے وابستہ کہہ دیا - مرتضیٰ برلاس

ملتے ہی خود کو آپ سے وابستہ کہہ دیا
محسوس جو کیا وہی برجستہ کہہ دیا

میں چپ ہُوا تو زخم مرے بولنے لگے
سب کچھ زبانِ حال سے لب بستہ کہہ دیا

خورشیدِ صبحِ نو کو شکایت ہے دوستو
کیوں شب سے ہم نے صبح کو پیوستہ کہہ دیا

چلتا رہا تو دشت نوردی کا طنز تھا
ٹھہرا ذرا تو آپ نے پا بستہ کہہ دیا

دیکھا تو ایک آگ کا دریا تھا موجزن
اس دورِ نا سزا نے جسے رستہ کہہ دیا

دیکھی گئی نہ آپ کی آزردہ خاطری
کانٹے ملے تو ان کو بھی گلدستہ کہہ دیا


(مرتضٰی برلاس)

----

بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف

افاعیل - مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
(آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)

اشاری نظام - 122 1212 1221 212
ہندسے دائیں سے بائیں، اردو کی طرح پڑھیے۔
(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

ملتے ہی خود کو آپ سے وابستہ کہہ دیا
محسوس جو کیا وہی برجستہ کہہ دیا

ملتے ہِ - مفعول - 122
خُد کُ آپ - فاعلات - 1212
سِ وابستہ - مفاعیل - 1221
کہہ دیا - فاعلن - 212

محسوس - مفعول - 122
جو کیا وَ - فاعلات - 1212
ہِ برجستہ - مفاعیل - 1221
کہہ دیا - فاعلن - 212

مزید پڑھیے۔۔۔۔