Sep 30, 2008

علامہ اقبال کی ایک فارسی نظم - انقلاب

زبورِ عجم سے انقلاب کے موضوع پر علامہ کی ایک فکر انگیز نظم:
خواجہ از خونِ رگِ مزدور سازَد لعلِ ناب
از جفائے دہ خدایاں کشتِ دہقاناں خراب
انقلاب
انقلاب، اے انقلاب

ترجمہ
سرمایہ دار مزدور کی رگوں کے خون سے خالص لعل بنا رہا ہے اور دیہی خدا/جاگیردار کے ظلم سے کسانوں کے کھیت اجڑ گئے ہیں۔الٹا ڈالو،بدل ڈالو، سب کچھ بدل ڈالو۔

شیخِ شہر از رشتۂ تسبیح صد مومن بَدَام
کافرانِ سادہ دل را برہَمَن زنّار تاب
انقلاب
انقلاب، اے انقلاب

ترجمہ
شہر کے عالم نے تسبیح کے دھاگے سے سینکڑوں مومن باندھے ہوئے ہیں۔ سادہ دل کافروں کیلیے برہمن زنار بنا ہے۔الٹا ڈالو،بدل ڈالو، سب کچھ بدل ڈالو

میر و سلطاں نرد باز و کعبتینِ شان دغل
جانِ محکوماں ز تن بُردَند و محکوماں بخواب
انقلاب
انقلاب، اے انقلاب

ترجمہ
میر اور سلطان چوسر کھیلنے والے ہیں اور بھی ایسی جسکے پانسے دغل ہیں کہ ہر دفع وہ ہی جیتیں۔ وہ محکوموں کی جان تن سے کھینچ لیتے ہیں اور محکوم خواب میں ہیں۔الٹا ڈالو،بدل ڈالو، سب کچھ بدل ڈالو

واعظ اندر مسجد و فرزندِ اُو در مدرسہ
آں بہ پیری کودکے، ایں پیر در عہدِ شباب
انقلاب
انقلاب، اے انقلاب

ترجمہ
واعظ تو مسجد میں ہے اور اسکا بیٹا جدید مدرسے میں۔ وہ بزرگی میں بچہ بنا ہوا ہے اور یہ عین جوانی کے عالم میں بوڑھا ہوگیا ہے۔الٹا ڈالو،بدل ڈالو، سب کچھ بدل ڈالو

اے مسلماناں فغاں از فتنہ ہائے علم و فن
اہرَمَن اندر جہاں ارزان و یزداں دیر یاب
انقلاب
انقلاب، اے انقلاب

ترجمہ
اے مسلمانو، علم و فنون کے فتنوں سے فریاد کرو کہ شیطان تو جہان میں عام ہوگیا ہے اور خدا مشکل سے ملنے والا۔الٹا ڈالو،بدل ڈالو، سب کچھ بدل ڈالو

شوخیٔ باطل نِگَر، اندر کمینِ حق نشست
شپّرازِ کوری شب خونے زَنَد بر آفتاب
انقلاب
انقلاب، اے انقلاب

ترجمہ
باطل کی شوخی تو دیکھ کہ حق کی گھات میں لگا ہوا ہے۔ دن کی اندھی چمگادڑ سورج پر شب خون مار رہی ہے۔الٹا ڈالو،بدل ڈالو، سب کچھ بدل ڈالو
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال
علامہ محمد اقبال, Allama Muhammad Iqbal
در کلیسا ابنِ مریم را بدار آویختَند
مُصطفٰی از کعبہ ہجرت کردہ با اُمّ الکتاب
انقلاب
انقلاب، اے انقلاب

ترجمہ
عیسائیوں نے کلیسا میں ابنِ مریم کو سولی پر چڑھا دیا ہے۔ اور محمد (ص) کو کعبہ سے قرآن کے ساتھ ہجرت کرنی پڑی۔الٹا ڈالو،بدل ڈالو، سب کچھ بدل ڈالو

من درونِ شیشہ ہائے عصرِ حاضر دیدہ ام
آنچناں زہرے کہ از وے مارہا در پیچ و تاب
انقلاب
انقلاب، اے انقلاب

ترجمہ
میں نے موجودہ زمانے کے پیالوں میں دیکھا ہے وہ زہر کہ اس کی وجہ سے زہریلے سانپ بھی تڑپ رہے ہیں۔الٹا ڈالو،بدل ڈالو، سب کچھ بدل ڈالو

با ضعیفاں گاہ نیروے پلنگاں می دہند
شعلۂ شاید بروں آید ز فانوسِ حباب
انقلاب
انقلاب، اے انقلاب

ترجمہ
باز دفعہ کمزوروں کو شیروں کا جسم و طاقت مل جاتی ہے۔ شاید پانی کے بلبلوں سے شعلہ برآمد ہو جائے۔الٹا ڈالوبدل ڈالو، سب کچھ بدل ڈالو۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 17, 2008

میری ایک پرانی غزل

یہ غزل کوئی دو سال پرانی ہے اور اس زمانے کی ہے جب نیا نیا علم عروض سمجھ میں آیا تھا۔ آج کچھ پرانے کاغذات دیکھتے ہوئے سامنے آ گئی تو اسے بغیر نظرِ ثانی کے لکھ رہا ہوں۔

یہ چلَن دنیا میں کتنا عام ہے
ظلم کا تقدیر رکھّا نام ہے

پھول بکھرے ہوئے تُربت پر نئی
اِس کہانی کا یہی انجام ہے

میرے آبا نے کیا تھا جرم جو
اس کا بھی میرے ہی سر الزام ہے

دشت میں اک گھر بنا رہنے کی چاہ
گھر میں بیٹھے ہیں تبھی تو خام ہے

مسکراتے آ رہے ہیں آج وہ
کیا بھلا ہم مفلسوں سے کام ہے
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 4, 2008

احمد فراز کی ایک غزل - اے خدا آج اسے سب کا مقدّر کر دے

اے خدا آج اسے سب کا مقدّر کر دے
وہ محبّت کہ جو انساں کو پیمبر کر دے

سانحے وہ تھے کہ پتھرا گئیں آنکھیں میری
زخم یہ ہیں تو مرے دل کو بھی پتھّر کر دے

صرف آنسو ہی اگر دستِ کرم دیتا ہے
میری اُجڑی ہوئی آنکھوں کو سمندر کر دے
Ahmed Faraz, احمد فراز, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
Ahmed Faraz, احمد فراز

مجھ کو ساقی سے گلہ ہو نہ تُنک بخشی کا
زہر بھی دے تو مرے جام کو بھر بھر کر دے

شوق اندیشوں سے پاگل ہوا جاتا ہے فراز
کاش یہ خانہ خرابی مجھے بے در کر دے
(احمد فراز)
——–
بحر - بحر رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن(پہلے رکن یعنی فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فَعِلاتُن بھی آ سکتا ہے اور آخری رکن یعنی فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فَعِلان بھی آ سکتے ہیں گویا آٹھ اوزان اس بحر میں جمع ہو سکتے ہیں)
اشاری نظام - 2212 2211 2211 22
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)
تقطیع:
اے خدا آج اسے سب کا مقدّر کر دے
وہ محبّت کہ جو انساں کو پیمبر کر دے
اے خدا آ - فاعلاتن - 2212
ج ا سے سب - فعلاتن - 2211
کَ مُ قد در - فعلاتن - 2211
کر دے - فعلن - 22
وہ محّبت - فاعلاتن - 2212
کِ جُ انسا - فعلاتن - 2211
کُ پیمبر - فعلاتن - 2211
کر دے - فعلن - 22
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 2, 2008

میں روزے سے ہوں - سیّد ضمیر جعفری

سید ضمیر جعفری اردو ادب کا ایک بہت بڑا اور معتبر نام ہیں، انکی شاعری ‘طنزیہ و مزاحیہ’ شاعری میں اپنا ایک الگ مقام رکھتی ہے۔ رمضان کے حوالے سے سید ضمیر جعفری کے گہرے طنز کے حامل اشعار:
مجھ سے مت کر یار کچھ گفتار، میں روزے سے ہوں
ہو نہ جائے تجھ سے بھی تکرار، میں روزے سے ہوں

ہر اک شے سے کرب کا اظہار، میں روزے سے ہوں
دو کسی اخبار کو یہ تار، میں روزے سے ہوں

میرا روزہ اک بڑا احسان ہے لوگوں کے سر
مجھ کو ڈالو موتیے کے ہار، میں روزے سے ہوں

میں نے ہر فائل کی دمچی پر یہ مصرعہ لکھ دیا
کام ہو سکتا نہیں سرکار، میں روزے سے ہوں
Syyed Zamir Jafari, سیّد ضمیر جعفری, Urdu Peotry, Ilm-e-Arooz, Taqtee, اردو شاعری
Syyed Zamir Jafari, سیّد ضمیر جعفری
اے مری بیوی مرے رستے سے کچھ کترا کے چل
اے مرے بچو ذرا ہوشیار، میں روزے سے ہوں

شام کو بہرِ زیارت آ تو سکتا ہوں مگر
نوٹ کرلیں دوست رشتہ دار، میں روزے سے ہوں

تو یہ کہتا ہے لحن تر ہو کوئی تازہ غزل
میں یہ کہتا ہوں کہ برخوردار، میں روزے سے ہوں
(سید ضمیر جعفری)
——–
بحر - بحر رمل مثمن محذوف
افاعیل - فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلُن(آخری رکن یعنی فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آ سکتا ہے)
اشاری نظام - 2212 2212 2212 212
(آخری 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع:
مجھ سے مت کر یار کچھ گفتار، میں روزے سے ہوں
ہو نہ جائے تجھ سے بھی تکرار، میں روزے سے ہوں
مج سِ مت کر - فاعلاتن - 2212
یار کچ گف - فاعلاتن - 2212
تار مے رو - فاعلاتن - 2212
زے سِ ہو - فاعلن - 212
ہو نَ جائے - فاعلاتن - 2212
تج سِ بی تک - فاعلاتن - 2212
رار مے رو - فاعلاتن - 2212
زے سِ ہو - فاعلن - 212
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 27, 2008

غزلِ سودا - گدا، دستِ اہلِ کرَم دیکھتے ہیں

اساتذہ کی زمین میں غزلیں کہنا عام بات ہے، غالب نے جہاں فارسی شاعری میں فارسی شاعری کے اساتذہ کی زمینیں استعمال کی ہیں، ایک غزل سودا کی زمین میں بھی کہی ہے۔ غالب کی غزل “جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں” ایک شاہکار ہے تو سودا کی غزل بھی بہت خوبصورت ہے:

گدا، دستِ اہلِ کرَم دیکھتے ہیں
ہم اپنا ہی دم اور قدم دیکھتے ہیں

نہ دیکھا جو کچھ جام میں جَم نے اپنے
سو اک قطرۂ مے میں ہم دیکھتے ہیں

یہ رنجش میں ہم کو ہے بے اختیاری
تجھے تیری کھا کر قسم دیکھتے ہیں
مرزا رفیع سودا, Mirza Rafi Sauda, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
مرزا رفیع سودا, Mirza Rafi Sauda
غَرَض کفر سے کچھ، نہ دیں سے ہے مطلب
تماشائے دیر و حرم دیکھتے ہیں

حبابِ لبِ‌ جُو ہیں‌ اے باغباں ہم
چمن کو ترے کوئی دم دیکھتے ہیں

نوشتے کو میرے مٹاتے ہیں‌ رو رو
ملائک جو لوح و قلم دیکھتے ہیں

خدا دشمنوں کو نہ وہ کچھ دکھاوے
جو کچھ دوست اپنے سے ہم دیکھتے ہیں

مٹا جائے ہے حرف حرف آنسوؤں سے
جو نامہ اسے کر رقم دیکھتے ہیں

اکڑ سے نہیں‌ کام سنبل کے ہم کو
کسی زلف کا پیچ و خم دیکھتے ہیں

ستم سے کیا تو نے ہم کو یہ خوگر
کرم سے ترے ہم ستم دیکھتے ہیں

مگر تجھ سے رنجیدہ خاطر ہے سودا
اسے تیرے کوچے میں کم دیکھتے ہیں
(مرزا رفیع سودا)
————
بحر - بحر متقارب مثمن سالم
افاعیل - فَعُولُن فَعُولُن فَعُولُن فَعُولُن
اشاری نظام - 221 221 221 221
تقطیع -
گدا، دستِ اہلِ کرَم دیکھتے ہیں
ہم اپنا ہی دم اور قدم دیکھتے ہیں
گدا دس - فعولن - 221
تِ اہلے - فعولن - 221
کرم دے - فعولن - 221
ک تے ہے - فعولن - 221
ہ مَپنا - فعولن - 221 (الف وصل استعمال ہوا ہے)
ہِ دم ار - فعولن - 221
قدم دے - فعولن - 221
ک تے ہے - فعولن - 221
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 26, 2008

جنگل اداس ہے - آہ احمد فراز

احمد فراز بھی اس دارِ فانی سے کوچ فرما گئے، اناللہ و انا الیہ راجعون۔ اقلیم سخن کا نامور شاعر جس نے ایک عرصے تک اردو شاعری کے چاہنے والوں کے دلوں پر راج کیا، بالآخر سمندر میں مل گئے، بقول احمد ندیم قاسمی مرحوم

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤنگا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤنگا

احمد فراز سے میرا تعارف کہیں بچپن میں ہی ہو گیا تھا جب مجھے علم ہوا کہ میرا پسندیدہ “گیت” رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کیلیئے آ، جو میں پہروں مہدی حسن کی آواز میں سنا کرتا تھا، دراصل احمد فراز کی غزل ہے۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ اچھا غزلیں بھی اسطرح فلموں میں گائی جاتی ہیں اور یہ حیرت بڑھتی چلی گئی جب یہ بھی علم ہوا کہ ایک اور گانا “اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں” بھی انہی کی غزل ہے۔ یہ وہ دور تھا جب موسیقی میں ہر طرف مہدی حسن کا طوطی بول رہا تھا اور مہدی حسن میرے پسندیدہ گلوکار تھے۔ پھر میں نے پاکستان ٹیلی ویژن پر انکی ایک اور مشہور غزل “اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں” جو مہناز نے انتہائی دلکش انداز میں گائی ہے، سنی تو فراز کیلیئے دل میں محبت اور بھی بڑھ گئی۔

اس وقت تک میں نے فراز کی کوئی کتاب نہیں پڑھی تھی لیکن پھر مجھے ‘کلیاتِ فراز’ کا علم ہوا جو ماورا نے شائع کیے تھے، یہ پچھلی صدی کی آخری دہائی کے اوائل کا زمانہ تھا اور میں کالج میں پڑھتا تھا، میں نے لاہور منی آڈر بھیج کر فراز کے کلیات منگوائے اور پھر پہروں ان میں غرق رہتا اور آج بھی یہ کلیات میرے آس پاس کہیں دھرے رہتے ہیں۔
ایک شاعر جب اپنی وارداتِ قلبی بیان کرتا ہے تو اس یقین کے ساتھ کہ اسکا ایک ایک لفظ سچ ہے، آفاقی حقیقت ہے اور اٹل اور آخری سچائی ہے اور ہوتا بھی ایسے ہی ہے کہ کسی انسان کے اوپر جو گزرتی ہے وہی اس کیلیئے حقیقت ہے، فراز کی اپنی زندگی اپنے اس شعر کے مصداق ہی گزری اور کیا آفاقی اور اٹل سچائی ہے اس شعر میں:

میں زندگی سے نبرد آزما رہا ہوں فراز
میں جانتا تھا یہی راہ اک بچاؤ کی تھی

فراز کی شاعری انسانی جذبوں کی شاعری ہے وہ انسانی جذبے جو سچے بھی ہیں اور آفاقی بھی ہیں، فراز بلاشبہ اس عہد کے انتہائی قد آور شاعر تھے۔ فراز کی زندگی کا ایک پہلو انکی پاکستان میں آمریت کے خلاف جدوجہد ہے، اس جدوجہد میں انہوں نے کئی مشکلات بھی اٹھائیں لیکن اصول کی بات کرتے ہی رہے۔ شروع شروع میں انکی شاعری کی نوجوان نسل میں مقبولیت دیکھ کر ان کی شاعری پر بے شمار اعتراضات بھی ہوئے، انہیں ‘اسکول کالج کا شاعر’ اور ‘نابالغ’ شاعر بھی کہا گیا۔ مرحوم جوش ملیح آبادی نے بھی انکی شاعری پر اعتراضات کیئے اور اب بھی انگلینڈ میں مقیم ‘دریدہ دہن’ شاعر اور نقاد ساقی فاروقی انکی شاعری پر بہت اعتراضات کرتے ہیں لیکن کلام کی مقبولیت ایک خدا داد چیز ہے اور فراز کے کلام کو اللہ تعالٰی نے بہت مقبولیت دی۔ انکی شاعری کا مقام تو آنے والا زمانے کا نقاد ہی طے کرے گا لیکن انکی آخری کتاب “اے عشق جنوں پیشہ” جو پچھلے سال چھپی تھی، اس میں سے ایک غزل لکھ رہا ہوں جو انہوں نے اپنے کلام اور زندگی کے متعلق کہی ہے اور کیا خوب کہی ہے۔
Ahmed Faraz, احمد فراز، urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
Ahmed Faraz, احمد فراز
کوئی سخن برائے قوافی نہیں ‌کہا
اک شعر بھی غزل میں اضافی نہیں‌ کہا

ہم اہلِ صدق جرم پہ نادم نہیں رہے
مر مِٹ گئے پہ حرفِ معافی نہیں‌ کہا

آشوبِ‌ زندگی تھا کہ اندوہِ عاشقی
اک غم کو دوسرے کی تلافی نہیں‌ کہا

ہم نے خیالِ یار میں کیا کیا غزل کہی
پھر بھی یہی گُماں‌ ہے کہ کافی نہیں کہا

بس یہ کہا تھا دل کی دوا ہے مغاں کے پاس
ہم نے کبھی شراب کو شافی نہیں کہا

پہلے تو دل کی بات نہ لائے زبان پر
پھر کوئی حرف دل کے منافی نہیں کہا

اُس بے وفا سے ہم نے شکایت نہ کی فراز
عادت کو اُس کی وعدہ خلافی نہیں کہا

ہر ذی روح کو اس دارِ فانی سے کوچ کرنا ہے، یہ ایک اٹل حقیقت ہے لیکن کچھ انسان ہوتے ہیں جن کے جانے سے چار سُو اداسی پھیل جاتی ہے اور یہی کیفیت کل سے کچھ میری ہے۔ غالب کے شعر پر بات ختم کرتا ہوں

ہر اک مکان کو ہے مکیں سے شرف اسد
مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 25, 2008

غلام ہمدانی مصحفی کی ایک غزل - ترے کوچے ہر بہانے مجھے دن سے رات کرنا

ترے کوچے ہر بہانے مجھے دن سے رات کرنا
کبھی اِس سے بات کرنا، کبھی اُس سے بات کرنا

تجھے کس نے روک رکھّا، ترے جی میں کیا یہ آئی
کہ گیا تو بھول ظالم، اِدھر التفات کرنا

ہوئی تنگ اس کی بازی مری چال سے، تو رخ پھیر
وہ یہ ہمدموں سے بولا، کوئی اس سے مات کرنا
Mushafi, مصحفی، urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
Mushafi, مصحفی

یہ زمانہ وہ ہے جس میں، ہیں بزرگ و خورد جتنے
انہیں فرض ہو گیا ہے گلۂ حیات کرنا

جو سفر میں ساتھ ہوں ہم تو رہے یہ ہم پہ قدغن
کہ نہ منہ کو اپنے ہر گز طرفِ قنات کرنا

یہ دعائے مصحفی ہے، جو اجل بھی اس کو آوے
شبِ وصل کو تُو یا رب، نہ شبِ وفات کرنا
(غلام ہمدانی مصحفی)
——–
بحر - بحر رمل مثمن مشکول
افاعیل - فَعِلاتُ فاعِلاتُن فَعِلاتُ فاعِلاتُن
(یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی ہر ٹکڑا ایک مصرعے کے حکم میں آ سکتا ہے)
اشاری نظام - 1211 2212 1211 2212
تقطیع
ترے کوچے ہر بہانے مجھے دن سے رات کرنا
کبھی اِس سے بات کرنا، کبھی اُس سے بات کرنا
ت رِ کو چِ - فعلات - 1211
ہر بہانے - فاعلاتن - 2212
مُ جِ دن سِ - فعلات - 1211
رات کرنا - فاعلاتن - 2212
کَ بِ اس سِ - فعلات - 1211
بات کرنا - فاعلاتن - 2212
کَ بِ اس سِ - فعلات - 1211
بات کرنا - فاعلاتن - 2212
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 9, 2008

غزلِ داغ - مانندِ گل ہیں‌ میرے جگر میں‌ چراغِ داغ

فصیح الملک نواب مرزا خان داغ دہلوی کی ایک خوبصورت غزل۔

مانندِ گل ہیں‌ میرے جگر میں‌ چراغِ داغ
پروانے دیکھتے ہیں تماشائے باغِ داغ

مرگِ عدو سے آپ کے دل میں چُھپا نہ ہو
میرے جگر میں اب نہیں ملتا سراغِ داغ
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Dagh Dehlvi, داغ دہلوی
داغ دہلوی، Dagh Dehlvi
دل میں قمر کے جب سے ملی ہے اسے جگہ
اس دن سے ہو گیا ہے فلک پر دماغِ داغ

تاریکیٔ لحد سے نہیں دل جلے کو خوف
روشن رہے گا تا بہ قیامت چراغِ داغ

مولا نے اپنے فضل و کرم سے بچا لیا
رہتا وگرنہ ایک زمانے کو داغِ داغ
داغ دہلوی
——–
بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
افاعیل - مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
(آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)
اشاری نظام - 122 1212 1221 212
(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع -
مانندِ گل ہیں‌ میرے جگر میں‌ چراغِ داغ
پروانے دیکھتے ہیں تماشائے باغِ داغ
ما نندِ - مفعول - 122
گل ہِ میرِ - فاعلات - 1212
جگر مے چَ - مفاعیل - 1221
راغِ داغ - فاعلان - 1212
پروانِ - مفعول - 122
دے ک تے ہِ - فاعلات - 1212
تماشاء - مفاعیل - 1221
باغِ داغ - فاعلان - 1212
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 1, 2008

میری ایک تازہ غزل

ایک تازہ غزل جو پچھلے دنوں کہی گئی

عجب کرشمہ بہار کا ہے
نظر نظر جلوہ یار کا ہے

ہم آئے ہیں کشتیاں جلا کر
ڈر اب کسے نین کٹار کا ہے

شجر کٹا تو جلا وہیں پر
یہ قصّہ اس خاکسار کا ہے

رہے گی نم آنکھ عمر بھر اب
معاملہ دل کی ہار کا ہے

تپش میں اپنی ہی جل رہا ہوں
عذاب دنیا میں نار کا ہے

اسد جو ایسے غزل سرا ہے
کرم فقط کردگار کا ہے
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jul 23, 2008

صائب تبریزی کی ایک غزل کے اشعار - خار در پیراهنِ فرزانہ می ‌ریزیم ما

خار در پیراهنِ فرزانہ می ‌ریزیم ما
گل بہ دامن بر سرِ دیوانہ می‌ ریزیم ما
ہم فرزانوں کے پیراہن پر کانٹے (اور خاک) ڈالتے ہیں، اور دامن میں جو گل ہیں وہ دیوانوں کے سر پر ڈالتے ہیں

قطره، گوهر می ‌شود در دامنِ بحرِ کرم
آبروئے خویش در میخانہ می ‌ریزیم ما
قطرہ، بحرِ کرم کے دامن میں گوھر بن جاتا ہے (اسی لیئے) ہم اپنی آبرو مے خانے میں نثار کر رہے ہیں۔

در خطرگاهِ جہاں فکرِ اقامت می ‌کنیم
در گذارِ سیل، رنگِ خانہ می ‌ریزیم ما
اس خطروں والے جہان میں ہم رہنے کی فکر کرتے ہیں، سیلاب کے راستے میں رنگِ خانہ ڈالتے ہیں (گھر بناتے ہیں)

در دلِ ما شکوه‌ٔ خونیں نمی ‌گردد گره
هر چہ در شیشہ است، در پیمانہ می‌ ریزیم ما
ہمارے دل میں کوئی خونی شکوہ گرہ نہیں ڈالتا (دل میں کینہ نہیں رکھتے) جو کچھ بھی ہمارے شیشے میں ہے وہ ہم پیمانے میں ڈال دیتے ہیں۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, saib tabrizi, صائب تبریزی
صائب تبریزی - ایک خاکہ، saib tabrizi
انتظارِ قتل، نامردی است در آئینِ عشق
خونِ خود چوں کوهکن مردانہ می ‌ریزیم ما
عشق کے آئین میں قتل ہونے (موت) کا انتظار نامردی ہے، ہم اپنا خون فرہاد کی طرح خود ہی مردانہ وار بہا رہے ہیں۔
——–
بحر - بحر رمل مثمن محذوف
افاعیل - فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلُن
(آخری رکن یعنی فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آ سکتا ہے)
اشاری نظام - 2212 2212 2212 212
(آخری 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع -
خار در پیراهنِ فرزانہ می ‌ریزیم ما
گل بہ دامن بر سرِ دیوانہ می‌ ریزیم ما
خار در پے - فاعلاتن - 2212
را ہَ نے فر - فاعلاتن - 2212
زانَ می رے - فاعلاتن - 2212
زیم ما - فاعلن - 212
گل بَ دامن - فاعلاتن - 2212
بر سَرے دی - فاعلاتن - 2212
وانَ می رے - فاعلاتن - 2212
زیم ما - فاعلن - 212
مزید پڑھیے۔۔۔۔