Oct 23, 2008

غزلِ خسرو مع تراجم - کافَرِ عِشقَم، مُسلمانی مرا درکار نیست

شعرِ خسرو
کافَرِ عِشقَم، مُسلمانی مرا درکار نیست
ہر رگِ من تار گشتہ، حاجتِ زنّار نیست
ترجمہ
میں عشق کا کافر ہوں، مجھے مسلمانی درکار نہیں، میری ہر رگ تار تار ہوچکی ہے، مجھے زُنار کی حاجت نہیں۔
منظوم ترجمہ مسعود قریشی
کافرِ عشق ہوں، ایماں مجھے درکار نہیں
تار، ہر رگ ہے، مجھے حاجتِ زنار نہیں
شعرِ خسرو
از سَرِ بالینِ مَن بَرخیز اے ناداں طبیب
دردمندِ عشق را دارُو بَجُز دیدار نیست
ترجمہ
اے نادان طبیب میرے سرہانے سے اٹھ جا، عشق کے بیمار کو تو صرف دیدار ہی دوا ہے۔
قریشی
میرے بالیں سے اٹھو اے مرے نادان طبیب
لا دوا عشق کا ہے درد، جو دیدار نہیں
Amir Khusro, امیر خسرو, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
Amir Khusro, امیر خسرو
شعرِ خسرو
شاد باش اے دل کہ فَردَا برسَرِ بازارِ عشق
مُژدۂ قتل است گرچہ وعدۂ دیدار نیست
ترجمہ
اے دل تو خوش ہوجا کہ کل عشق کے بازار میں، قتل کی خوش خبری ہے اگرچہ دیدار کا وعدہ نہیں ہے۔
قریشی
اے دلِ زار ہو خوش، عشق کے بازار میں کَل
مژدۂ قتل ہے گو وعدۂ دیدار نہیں
شعرِ خسرو
ناخُدا در کشتیٔ ما گر نَباشد گو مَباش
ما خُدا داریم، ما را ناخُدا درکار نیست
ترجمہ
اگر ہماری کشتی میں ناخدا نہیں ہے تو کوئی ڈر نہیں کہ ہم خدا رکھتے ہیں اور ہمیں ناخدا درکار نہیں۔
قریشی
ناخدا گر نہیں کشتی میں نہ ہو، ڈر کیا ہے
ہم کہ رکھتے ہیں خدا، وہ ہمیں درکار نہیں
شعرِ خسرو
خلق می گویَد کہ خُسرو بُت پرستی می کُنَد
آرے آرے می کُنَم، با خلق ما را کار نیست
ترجمہ
خلق کہتی ہے کہ خسرو بت پرستی کرتا ہے، ہاں ہاں، میں کرتا ہوں مجھے خلق سے کوئی کام نہیں ہے۔
قریشی
بُت پرستی کا ہے خسرو پہ جو الزام تو ہو
ہاں صنم پوجتا ہوں، خلق سے کچھ کار نہیں
———–
بحر - بحر رمل مثمن محذوف
(مسعود قریشی کا منظوم ترجمہ بحر رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع میں ہے۔)
افاعیل - فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلُن
(آخری رکن فاعلن میں فاعِلان بھی آ سکتا ہے)
اشاری نظام - 2212 2212 2212 212
(آخری رکن 212 میں 1212 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع -
کافَرِ عِشقَم، مُسلمانی مرا درکار نیست
ہر رگِ من تار گشتہ، حاجتِ زنّار نیست
کافرے عش - فاعلاتن - 2212
قم مسلما - فاعلاتن - 2212
نی مرا در - فاعلاتن - 2212
کار نیس - فاعلان - 1212
ہر رگے من - فاعلاتن - 2212
تار گشتہ - فاعلاتن - 2212
حاجتے زُن - فاعلاتن - 2212
نار نیس - فاعلان - 1212
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Oct 20, 2008

بابا نجمی کی ایک پنجابی غزل - اکھّراں وچ سمندر رکھّاں، میں اقبال پنجابی دا

اکھّراں وچ سمندر رکھّاں، میں اقبال پنجابی دا
جھکّڑاں دے وچ رکھ دِتّا اے دِیوا بال پنجابی دا

دُھوڑاں نال کدے نہیں مرنا، شیشے دے لشکارے نے
جِنّی مرضی تِکھّی بولے اردو، بال پنجابی دا

لوکی منگ منگا کے اپنا بوہل بنا کے بہہ گئے نیں
اساں تے مٹّی کر دِتّا اے سونا گال پنجابی دا

جیہڑے آکھن وچ پنجابی، وسعت نہیں تہذیب نہیں
پڑھ کے ویکھن وارث، بُّلھا، باہُو، لال پنجابی دا
Baba Najmi, بابا نجمی, Punjabi Poetry, پنجابی شاعری
بابا نجمی - Baba Najmi
تن دا ماس کَھوا دیندا اے جیہڑا ایہنوں پیار کرے
کوئی وی جبراً کر نہیں سکدا وِنگّا وال پنجابی دا

ماں بولی دی گھر وچ عزت کمّی جنّی ویکھ رہیاں
دیس پرائے کیہ ہووے گا خورے حال پنجابی دا

غرضاں والی جوک نے ساڈے مگروں جد تک لہنا نہیں
اوناں چِر تے ہو نہیں سکدا حق بحال پنجابی دا

ہتھ ہزاراں ودھ کے بابا گُھٹ دیندے نیں میرا مُونہہ
پرہیا دے وچ جد وی چُکناں کوئی سوال پنجابی دا

(بابا نجمی - اکھراں وچ سمندر)
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Oct 18, 2008

دو شاعر دو غزلیں

فیض احمد فیض اور احمد فراز اردو شاعری کے دو بہت بڑے نام ہیں، ان دونوں شاعروں کی دو دلچسپ اور مشہور و معروف غزلیں جو ایک ہی زمین میں ہیں۔
غزلِ فیض
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچّھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے

دردِ شبِ ہجراں کی جزا کیوں نہیں دیتے
خونِ دلِ وحشی کا صلہ کیوں نہیں دیتے

مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Faiz Ahmed Faiz, فیض احمد فیض
فیض احمد فیض, Faiz Ahmed Faiz
ہاں نکتہ وَرَو لاؤ لب و دل کی گواہی
ہاں نغمہ گَرَو ساز صدا کیوں نہیں دیتے

پیمانِ جنوں ہاتھوں کو شرمائے گا کب تک
دل والو، گریباں کا پتا کیوں نہیں دیتے

بربادیٔ دل جبر نہیں فیض کسی کا
وہ دشمنِ جاں ہے تو بُھلا کیوں نہیں دیتے
———————
غزلِ فراز
خاموش ہو کیوں دادِ جفا کیوں نہیں دیتے
بسمل ہو تو قاتل کو دعا کیوں نہیں دیتے

وحشت کا سبب روزنِ زنداں تو نہیں ہے
مہر و مہ و انجم کو بجھا کیوں نہیں دیتے
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee، Ahmed Faraz, احمد فراز
احمد فراز, Ahmed Faraz
اک یہ بھی تو اندازِ علاجِ غمِ جاں ہے
اے چارہ گرو، درد بڑھا کیوں نہیں دیتے


منصف ہو اگر تم تو کب انصاف کرو گے
مجرم ہیں اگر ہم تو سزا کیوں نہیں دیتے

رہزن ہو تو حاضر ہے متاعِ دل و جاں بھی
رہبر ہو تو منزل کا پتا کیوں نہیں دیتے

کیا بیت گئی اب کے فراز اہلِ چمن پر
یارانِ قفس مجھ کو صدا کیوں نہیں دیتے
———————
بحر - بحرِ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
(دونوں غزلیں ایک ہی بحر میں ہیں)
افاعیل: مَفعُولُ مَفَاعیلُ مَفَاعیلُ فَعُولَن
(آخری رکن فعولن کی جگہ فعولان یعنی مفاعیل بھی آ سکتا ہے)
اشاری نظام - 122 1221 1221 221
(آخری رکن 221 کی جگہ 1221 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع -
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچّھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے
بے دم ہُ - مفعول - 122
ء بیمار - مفاعیل - 1221
دوا کو نَ - مفاعیل - 122
ہِ دیتے - فعولن - 221
تم اچ چ - مفعول - 122
مسیحا ہُ - مفاعیل - 1221
شفا کو نَ - مفاعیل - 1221
ہِ دیتے - فعولن - 221
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Oct 11, 2008

علامہ اقبال کی ایک فارسی نظم - تنہائی

“پیامِ مشرق” سے علامہ اقبال کی یہ نظم مجھے بہت پسند ہے، علامہ نے انسان کی (ابھی تک کی) ازلی تنہائی کو اپنے مخصوص دل نشیں انداز میں بیان کیا ہے۔

تنہائیبہ بحر رَفتَم و گُفتَم بہ موجِ بیتابے
ہمیشہ در طَلَب استی چہ مشکلے داری؟
ہزار لُولُوے لالاست در گریبانَت
درونِ سینہ چو من گوھرِ دِلے داری؟
تَپید و از لَبِ ساحِل رَمید و ہیچ نَگُفت
(میں سمندر پر گیا اور بیتاب، بل کھاتی ہوئی لہر سے پوچھا، تُو ہمیشہ کسی طلب میں رہتی ہے تجھے کیا مشکل درپیش ہے؟ تیرے گریبان میں ہزاروں چمکدار اور قیمتی موتی ہیں لیکن کیا تو اپنے سینے میں میرے دل جیسا گوھر بھی رکھتی ہے؟ وہ تڑپی اور ساحل کے کنارے سے دور چلی گئی اور کچھ نہ کہا)۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال
علامہ اقبال, Allama Muhammad Iqbal
بہ کوہ رَفتَم و پُرسیدَم ایں چہ بیدردیست؟
رَسَد بگوشِ تو آہ و فغانِ غم زدئی؟
اگر بہ سنگِ تو لعلے ز قطرۂ خون است
یکے در آ بَسُخن با مَنِ ستم زدئی
بخود خَزید و نَفَس در کَشید و ہیچ نَگُفت
(میں پہاڑ پر گیا اور اس سے پوچھا، یہ کیا بیدردی ہے، (تیری اتنی اونچائی ہے کہ) کیا کبھی تیرے کان تک کسی غم زدہ کی آہ و فخان بھی پہنچی ہے؟ اگر تیرے بے شمار قیمتی پتھروں میں میرے دل جیسا کوئی لعل ہے تو پھر ایک بار مجھ ستم زدہ سے کوئی بات کر۔ وہ اپنے آپ میں چھپا، سانس کھینچی اور کچھ نہ کہا)۔

رَہِ دَراز بَریدَم ز ماہ پُرسیدَم
سَفَر نصیب، نصیبِ تو منزلیست کہ نیست
جہاں ز پرتوِ سیماے تو سَمَن زارے
فروغِ داغِ تو از جلوۂ دلیست کہ نیست
سوئے ستارہ رقیبانہ دید و ہیچ نَگُفت
(میں نے لمبا سفر کیا اور چاند سے پوچھا، تیرے نصیب میں سفر ہی سفر ہے لیکن کوئی منزل بھی ہے کہ نہیں۔ جہان تیری چاندنی سے سمن زار بنا ہوا ہے لیکن تیرے اندر جو داغ ہے اسکی چمک دمک کسی دل کی وجہ سے ہے یا نہیں ہے؟ اس نے ستارے کی طرف رقیبانہ نظروں سے دیکھا اور کچھ نہ کہا)۔

شُدَم بَحَضرَتِ یزداں گُذَشتَم از مہ و مہر
کہ در جہانِ تو یک ذرّہ آشنایَم نیست
جہاں تہی ز دِل و مُشتِ خاکِ من ہمہ دل
چَمَن خوش است ولے درخورِ نوایَم نیست
تَبَسّمے بَلَبِ اُو رَسید و ہیچ نَگُفت
(میں چاند اور سورج سے گزر کر خدا کے حضور پہنچا اور کہا کہ تیرے جہان میں ایک بھی ذرہ میرا آشنا نہیں ہے۔ تیرا جہان دل سے خالی ہے اور میں (مشتِ خاک) تمام کا تمام دل ہوں۔ تیرا دنیا کا چمن تو اچھا ہے لیکن میری نوا کے لائق نہیں کہ میرا کوئی ہمزباں نہیں۔ اسکے لبوں پر ایک مسکراہٹ پھیلی اور اس نے کچھ نہ کہا)۔
———–

بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
(آخری رکن فعلن میں فعلان، فَعِلُن اور فعِلان بھی آ سکتے ہیں)
اشاری نظام - 2121 2211 2121 22
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)
تقطیع -
بہ بحر رَفتَم و گُفتَم بہ موجِ بیتابے
ہمیشہ در طلب استی چہ مشکلے داری؟
بَ بحر رف - مفاعلن - 2121
تَ مُ گُفتم - فعلاتن - 2211
بَ موجِ بے - مفاعلن - 2121
تابے - فعلن - 22
ہمیشَ در - مفاعلن - 2121
طَلَ بستی - فعلاتن - 2211
چ مشکلے - مفاعلن - 2121
داری - فعلن - 22
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Oct 10, 2008

پرتو روہیلہ کی ایک غزل - دکھ تو مضمر ہی میری جان میں تھے

دکھ تو مضمر ہی میری جان میں تھے
میرے دشمن مرے مکان میں تھے

ناخدا سے گِلہ نہ موسم سے
میرے طوفاں تو بادبان میں تھے

سب شکاری بھی مل کے کیا کرتے
شیر بیٹھے ہوئے مچان میں تھے

یہ قصیدے جو تیری شان میں ہیں
یہ قصیدے ہی اس کی شان میں تھے

یہ جو تیری وفا کے گاہک ہیں
یہ ابھی دوسری دکان میں تھے

تیشۂ وقت ہی بتائے گا
کتنے چہرے ابھی چٹان میں تھے

میں ہی اپنا رقیب تھا پرتو
میرے جذبے ہی درمیان میں تھے
(پرتو روہیلہ)
———
بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن مَفاعِلُن فعلُن
(اس بحر میں آٹھ وزن جمع ہو سکتے ہیں، تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)
اشاری نظام - 2212 2121 22
تقطیع
دکھ تو مضمر ہی میری جان میں تھے
میرے دشمن مرے مکان میں تھے
دک تُ مضمر - فاعلاتن - 2212
ہِ میرِ جا - مفاعلن - 2121
ن م تھے - فَعِلن - 211
میرِ دشمن - فاعلاتن - 2212
مرے مکا - مفاعلن - 2121
ن م تھے - فَعِلن - 211
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Oct 3, 2008

بیدل حیدری کی ایک غزل - بھوک چہروں پہ لیے چاند سے پیارے بچّے

بھوک چہروں پہ لیے چاند سے پیارے بچّے
بیچتے پھرتے ہیں گلیوں میں غبارے بچّے

ان ہواؤں سے تو بارود کی بُو آتی ہے
ان فضاؤں میں تو مر جائیں گے سارے بچّے

کیا بھروسہ ہے سمندر کا، خدا خیر کرے
سیپیاں چننے گئے ہیں مرے سارے بچّے

ہو گیا چرخِ ستم گر کا کلیجہ ٹھنڈا
مر گئے پیاس سے دریا کے کنارے بچّے

یہ ضروری ہے نئے کل کی ضمانت دی جائے
ورنہ سڑکوں پہ نکل آئیں گے سارے بچّے
(بیدل حیدری)
———
بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُنپہلے رکن یعنی فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فَعِلاتُن بھی آ سکتا ہے اور آخری رکن یعنی فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فَعِلان بھی آ سکتے ہیں گویا آٹھ اوزان اس بحر میں جمع ہو سکتے ہیں)
اشاری نظام - 2212 2211 2211 22
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)
تقطیع
بھوک چہروں پہ لیے چاند سے پیارے بچّے
بیچتے پھرتے ہیں گلیوں میں غبارے بچّے
بھوک چہرو - فاعلاتن - 2212
پ لِ یے چا - فعلاتن - 2211
د سِ پارے - فعلاتن - 2211
بچ چے - فعلن - 22
بیچتے پر - فاعلاتن - 2212
تِ ہِ گلیو - فعلاتن - 2211
مِ غبارے - فعلاتن - 2211
بچ چے - فعلن - 22
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 30, 2008

علامہ اقبال کی ایک فارسی نظم - انقلاب

زبورِ عجم سے انقلاب کے موضوع پر علامہ کی ایک فکر انگیز نظم:
خواجہ از خونِ رگِ مزدور سازَد لعلِ ناب
از جفائے دہ خدایاں کشتِ دہقاناں خراب
انقلاب
انقلاب، اے انقلاب

ترجمہ
سرمایہ دار مزدور کی رگوں کے خون سے خالص لعل بنا رہا ہے اور دیہی خدا/جاگیردار کے ظلم سے کسانوں کے کھیت اجڑ گئے ہیں۔الٹا ڈالو،بدل ڈالو، سب کچھ بدل ڈالو۔

شیخِ شہر از رشتۂ تسبیح صد مومن بَدَام
کافرانِ سادہ دل را برہَمَن زنّار تاب
انقلاب
انقلاب، اے انقلاب

ترجمہ
شہر کے عالم نے تسبیح کے دھاگے سے سینکڑوں مومن باندھے ہوئے ہیں۔ سادہ دل کافروں کیلیے برہمن زنار بنا ہے۔الٹا ڈالو،بدل ڈالو، سب کچھ بدل ڈالو

میر و سلطاں نرد باز و کعبتینِ شان دغل
جانِ محکوماں ز تن بُردَند و محکوماں بخواب
انقلاب
انقلاب، اے انقلاب

ترجمہ
میر اور سلطان چوسر کھیلنے والے ہیں اور بھی ایسی جسکے پانسے دغل ہیں کہ ہر دفع وہ ہی جیتیں۔ وہ محکوموں کی جان تن سے کھینچ لیتے ہیں اور محکوم خواب میں ہیں۔الٹا ڈالو،بدل ڈالو، سب کچھ بدل ڈالو

واعظ اندر مسجد و فرزندِ اُو در مدرسہ
آں بہ پیری کودکے، ایں پیر در عہدِ شباب
انقلاب
انقلاب، اے انقلاب

ترجمہ
واعظ تو مسجد میں ہے اور اسکا بیٹا جدید مدرسے میں۔ وہ بزرگی میں بچہ بنا ہوا ہے اور یہ عین جوانی کے عالم میں بوڑھا ہوگیا ہے۔الٹا ڈالو،بدل ڈالو، سب کچھ بدل ڈالو

اے مسلماناں فغاں از فتنہ ہائے علم و فن
اہرَمَن اندر جہاں ارزان و یزداں دیر یاب
انقلاب
انقلاب، اے انقلاب

ترجمہ
اے مسلمانو، علم و فنون کے فتنوں سے فریاد کرو کہ شیطان تو جہان میں عام ہوگیا ہے اور خدا مشکل سے ملنے والا۔الٹا ڈالو،بدل ڈالو، سب کچھ بدل ڈالو

شوخیٔ باطل نِگَر، اندر کمینِ حق نشست
شپّرازِ کوری شب خونے زَنَد بر آفتاب
انقلاب
انقلاب، اے انقلاب

ترجمہ
باطل کی شوخی تو دیکھ کہ حق کی گھات میں لگا ہوا ہے۔ دن کی اندھی چمگادڑ سورج پر شب خون مار رہی ہے۔الٹا ڈالو،بدل ڈالو، سب کچھ بدل ڈالو
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال
علامہ محمد اقبال, Allama Muhammad Iqbal
در کلیسا ابنِ مریم را بدار آویختَند
مُصطفٰی از کعبہ ہجرت کردہ با اُمّ الکتاب
انقلاب
انقلاب، اے انقلاب

ترجمہ
عیسائیوں نے کلیسا میں ابنِ مریم کو سولی پر چڑھا دیا ہے۔ اور محمد (ص) کو کعبہ سے قرآن کے ساتھ ہجرت کرنی پڑی۔الٹا ڈالو،بدل ڈالو، سب کچھ بدل ڈالو

من درونِ شیشہ ہائے عصرِ حاضر دیدہ ام
آنچناں زہرے کہ از وے مارہا در پیچ و تاب
انقلاب
انقلاب، اے انقلاب

ترجمہ
میں نے موجودہ زمانے کے پیالوں میں دیکھا ہے وہ زہر کہ اس کی وجہ سے زہریلے سانپ بھی تڑپ رہے ہیں۔الٹا ڈالو،بدل ڈالو، سب کچھ بدل ڈالو

با ضعیفاں گاہ نیروے پلنگاں می دہند
شعلۂ شاید بروں آید ز فانوسِ حباب
انقلاب
انقلاب، اے انقلاب

ترجمہ
باز دفعہ کمزوروں کو شیروں کا جسم و طاقت مل جاتی ہے۔ شاید پانی کے بلبلوں سے شعلہ برآمد ہو جائے۔الٹا ڈالوبدل ڈالو، سب کچھ بدل ڈالو۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 17, 2008

میری ایک پرانی غزل

یہ غزل کوئی دو سال پرانی ہے اور اس زمانے کی ہے جب نیا نیا علم عروض سمجھ میں آیا تھا۔ آج کچھ پرانے کاغذات دیکھتے ہوئے سامنے آ گئی تو اسے بغیر نظرِ ثانی کے لکھ رہا ہوں۔

یہ چلَن دنیا میں کتنا عام ہے
ظلم کا تقدیر رکھّا نام ہے

پھول بکھرے ہوئے تُربت پر نئی
اِس کہانی کا یہی انجام ہے

میرے آبا نے کیا تھا جرم جو
اس کا بھی میرے ہی سر الزام ہے

دشت میں اک گھر بنا رہنے کی چاہ
گھر میں بیٹھے ہیں تبھی تو خام ہے

مسکراتے آ رہے ہیں آج وہ
کیا بھلا ہم مفلسوں سے کام ہے
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 4, 2008

احمد فراز کی ایک غزل - اے خدا آج اسے سب کا مقدّر کر دے

اے خدا آج اسے سب کا مقدّر کر دے
وہ محبّت کہ جو انساں کو پیمبر کر دے

سانحے وہ تھے کہ پتھرا گئیں آنکھیں میری
زخم یہ ہیں تو مرے دل کو بھی پتھّر کر دے

صرف آنسو ہی اگر دستِ کرم دیتا ہے
میری اُجڑی ہوئی آنکھوں کو سمندر کر دے
Ahmed Faraz, احمد فراز, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
Ahmed Faraz, احمد فراز

مجھ کو ساقی سے گلہ ہو نہ تُنک بخشی کا
زہر بھی دے تو مرے جام کو بھر بھر کر دے

شوق اندیشوں سے پاگل ہوا جاتا ہے فراز
کاش یہ خانہ خرابی مجھے بے در کر دے
(احمد فراز)
——–
بحر - بحر رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن(پہلے رکن یعنی فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فَعِلاتُن بھی آ سکتا ہے اور آخری رکن یعنی فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فَعِلان بھی آ سکتے ہیں گویا آٹھ اوزان اس بحر میں جمع ہو سکتے ہیں)
اشاری نظام - 2212 2211 2211 22
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)
تقطیع:
اے خدا آج اسے سب کا مقدّر کر دے
وہ محبّت کہ جو انساں کو پیمبر کر دے
اے خدا آ - فاعلاتن - 2212
ج ا سے سب - فعلاتن - 2211
کَ مُ قد در - فعلاتن - 2211
کر دے - فعلن - 22
وہ محّبت - فاعلاتن - 2212
کِ جُ انسا - فعلاتن - 2211
کُ پیمبر - فعلاتن - 2211
کر دے - فعلن - 22
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 2, 2008

میں روزے سے ہوں - سیّد ضمیر جعفری

سید ضمیر جعفری اردو ادب کا ایک بہت بڑا اور معتبر نام ہیں، انکی شاعری ‘طنزیہ و مزاحیہ’ شاعری میں اپنا ایک الگ مقام رکھتی ہے۔ رمضان کے حوالے سے سید ضمیر جعفری کے گہرے طنز کے حامل اشعار:
مجھ سے مت کر یار کچھ گفتار، میں روزے سے ہوں
ہو نہ جائے تجھ سے بھی تکرار، میں روزے سے ہوں

ہر اک شے سے کرب کا اظہار، میں روزے سے ہوں
دو کسی اخبار کو یہ تار، میں روزے سے ہوں

میرا روزہ اک بڑا احسان ہے لوگوں کے سر
مجھ کو ڈالو موتیے کے ہار، میں روزے سے ہوں

میں نے ہر فائل کی دمچی پر یہ مصرعہ لکھ دیا
کام ہو سکتا نہیں سرکار، میں روزے سے ہوں
Syyed Zamir Jafari, سیّد ضمیر جعفری, Urdu Peotry, Ilm-e-Arooz, Taqtee, اردو شاعری
Syyed Zamir Jafari, سیّد ضمیر جعفری
اے مری بیوی مرے رستے سے کچھ کترا کے چل
اے مرے بچو ذرا ہوشیار، میں روزے سے ہوں

شام کو بہرِ زیارت آ تو سکتا ہوں مگر
نوٹ کرلیں دوست رشتہ دار، میں روزے سے ہوں

تو یہ کہتا ہے لحن تر ہو کوئی تازہ غزل
میں یہ کہتا ہوں کہ برخوردار، میں روزے سے ہوں
(سید ضمیر جعفری)
——–
بحر - بحر رمل مثمن محذوف
افاعیل - فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلُن(آخری رکن یعنی فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آ سکتا ہے)
اشاری نظام - 2212 2212 2212 212
(آخری 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع:
مجھ سے مت کر یار کچھ گفتار، میں روزے سے ہوں
ہو نہ جائے تجھ سے بھی تکرار، میں روزے سے ہوں
مج سِ مت کر - فاعلاتن - 2212
یار کچ گف - فاعلاتن - 2212
تار مے رو - فاعلاتن - 2212
زے سِ ہو - فاعلن - 212
ہو نَ جائے - فاعلاتن - 2212
تج سِ بی تک - فاعلاتن - 2212
رار مے رو - فاعلاتن - 2212
زے سِ ہو - فاعلن - 212
مزید پڑھیے۔۔۔۔