Nov 13, 2008

خوشی محمد ناظر کی شاہکار نظم - جوگی (مکمل)

چوھدری خوشی محمد ناظر کی نظم “جوگی” کا شمار اردو کلاسکس میں ہوتا ہے۔ اور مجھے یہ سعادت حاصل ہو رہی ہے کہ اس طویل نظم، جو دو حصوں “نغمۂ حقیقت” اور “ترانۂ وحدت” پر مشتمل ہے، کو پہلی بار مکمل طور پر پیش کر رہا ہوں۔ یہ نظم خوشی محمد ناظر کے دیوان “نغمۂ فردوس” سے لی ہے۔
Khushi Muhammad Nazir, خوشی محمد ناظر, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
Khushi Muhammad Nazir, خوشی محمد ناظر, 
جوگی

نغمۂ حقیقت
کل صبح کے مطلعِ تاباں سے جب عالم بقعۂ نور ہوا
سب چاند ستارے ماند ہوئے، خورشید کا نور ظہور ہوا
مستانہ ہوائے گلشن تھی، جانانہ ادائے گلبن تھی
ہر وادی وادیٔ ایمن تھی، ہر کوہ پہ جلوۂ طور ہوا
جب بادِ صبا مضراب بنی، ہر شاخِ نہال رباب بنی
شمشاد و چنار ستار ہوئے، ہر سرو و سمن طنبور ہوا
سب طائر مل کر گانے لگے، مستانہ وہ تانیں اُڑانے لگے
اشجار بھی وجد میں آنے لگے، گلزار بھی بزمِ سرُور ہوا
سبزے نے بساط بچھائی تھی اور بزمِ نشاط سجائی تھی
بن میں، گلشن میں، آنگن میں، فرشِ سنجاب و سمور ہوا

تھا دل کش منظرِ باغِ جہاں اور چال صبا کی مستانہ
اس حال میں ایک پہاڑی پر جا نکلا ناظر دیوانہ

چیلوں نے جھنڈے گاڑے تھے، پربت پر چھاؤنی چھائی تھی
تھے خیمے ڈیرے بادل کے، کُہرے نے قنات لگائی تھی
یاں برف کے تودے گلتے تھے، چاندی کے فوارے چلتے تھے
چشمے سیماب اگلتے تھے، نالوں نے دھوم مچائی تھی
اک مست قلندر جوگی نے پربت پر ڈیرا ڈالا تھا
تھی راکھ جٹا میں جوگی کی اور انگ بھبوت رمائی تھی
تھا راکھ کا جوگی کا بستر اور راکھ کا پیراہن تن پر
تھی ایک لنگوٹی زیبِ کمر جو گھٹنوں تک لٹکائی تھی
سب خلقِ خدا سے بیگانہ، وہ مست قلندر دیوانہ
بیٹھا تھا جوگی مستانہ، آنکھوں میں مستی چھائی تھی

جوگی سے آنکھیں چار ہوئیں اور جھک کر ہم نے سلام کیا
تیکھے چتون سے جوگی نے تب ناظر سے یہ کلام کیا

کیوں بابا ناحق جوگی کو تم کس لیے آ کے ستاتے ہو؟
ہیں پنکھ پکھیرو بن باسی، تم جال میں ان کو پھنساتے ہو؟
کوئی جگھڑا دال چپاتی کا، کوئی دعویٰ گھوڑے ہاتھی کا
کوئی شکوہ سنگی ساتھی کا، تم ہم کو سنانے آتے ہو؟
ہم حرص ہوا کو چھوڑ چکے، اِس نگری سے منہ موڑ چکے
ہم جو زنجیریں توڑ چکے، تم لا کے وہی پہناتے ہو؟
تم پُوجا کرتے ہو دھن کی، ہم سیوا کرتے ہیں ساجن کی
ہم جوت لگاتے ہیں من کی، تم اُس کو آ کے بجھاتے ہو؟
سنسار سے یاں مُکھ پھیرا ہے، من میں ساجن کا ڈیرا ہے
یاں آنکھ لڑی ہے پیتم سے، تم کس سے آنکھ ملاتے ہو؟

یوں ڈانٹ ڈپٹ کر جوگی نے جب ہم سے یہ ارشاد کیا
سر اُس کے جھکا کر چرنوں پر، جوگی کو ہم نے جواب دیا

ہیں ہم پردیسی سیلانی، یوں آنکھ نہ ہم سے چُرا جوگی
ہم آئے ہیں تیرے درشن کو، چِتون پر میل نہ لا جوگی
آبادی سے منہ پھیرا کیوں؟ جنگل میں کِیا ہے ڈیرا کیوں؟
ہر محفل میں، ہر منزل میں، ہر دل میں ہے نورِ خدا جوگی
کیا مسجد میں، کیا مندر میں، سب جلوہ ہے “وجہُ اللہ” کا
پربت میں، نگر میں، ساگر میں، ہر اُترا ہے ہر جا جوگی
جی شہر میں خوب بہلتا ہے، واں حسن پہ عشق مچلتا ہے
واں پریم کا ساگر چلتا ہے، چل دل کی پیاس بجھا جوگی
واں دل کا غنچہ کِھلتا ہے، گلیوں میں موہن ملتا ہے
چل شہر میں سنکھ بجا جوگی، بازار میں دھونی رما جوگی

پھر جوگی جی بیدار ہوئے، اس چھیڑ نے اتنا کام کیا
پھر عشق کے اِس متوالے نے یہ وحدت کا اِک جام دیا

اِن چکنی چپڑی باتوں سے مت جوگی کو پھسلا بابا
جو آگ بجھائی جتنوں سے پھر اس پہ نہ تیل گرا بابا
ہے شہروں میں غل شور بہت اور کام کرودھ کا زور بہت
بستے ہیں نگر میں چور بہت، سادھوں کی ہے بن میں جا بابا
ہے شہر میں شورشِ نفسانی، جنگل میں ہے جلوہ روحانی
ہے نگری ڈگری کثرت کی، بن وحدت کا دریا بابا
ہم جنگل کے پھل کھاتے ہیں، چشموں سے پیاس بجھاتے ہیں
راجہ کے نہ دوارے جاتے ہیں، پرجا کی نہیں پروا بابا
سر پر آکاش کا منڈل ہے، دھرتی پہ سہانی مخمل ہے
دن کو سورج کی محفل ہے، شب کو تاروں کی سبھا بابا
جب جھوم کے یاں گھن آتے ہیں، مستی کا رنگ جماتے ہیں
چشمے طنبور بجاتے ہیں، گاتی ہے ملار ہوا بابا
جب پنچھی مل کر گاتے ہیں، پیتم کی سندیس سناتے ہیں
سب بن کے برچھ جھک جاتے ہیں، تھم جاتے ہیں دریا بابا
ہے حرص و ہوا کا دھیان تمھیں اور یاد نہیں بھگوان تمھیں
سِل، پتھر، اینٹ، مکان تمھیں دیتے ہیں یہ راہ بھلا بابا
پرماتما کی وہ چاہ نہیں اور روح کو دل میں راہ نہیں
ہر بات میں اپنے مطلب کے تم گھڑ لیتے ہو خدا بابا
تن من کو دھن میں لگاتے ہو، ہرنام کو دل سے بھلاتے ہو
ماٹی میں لعل گنواتے ہو، تم بندۂ حرص و ہوا بابا
دھن دولت آنی جانی ہے، یہ دنیا رام کہانی ہے
یہ عالَم، عالَمِ فانی ہے، باقی ہے ذاتِ خدا بابا

ترانۂ وحدت
جب سے مستانے جوگی کا مشہورِ جہاں افسانہ ہوا
اُس روز سے بندۂ ناظر بھی پھر بزم میں نغمہ سرا نہ ہوا
کبھی منصب و جاہ کی چاٹ رہی، کبھی پیٹ کی پوجا پاٹ رہی
لیکن یہ دل کا کنول نہ کِھلا اور غنچۂ خاطر وا نہ ہوا
کہیں لاگ رہی، کہیں پیت رہی، کبھی ہار رہی، کبھی جیت رہی
اِس کلجگ کی یہی ریت رہی، کوئی بند سے غم کے رہا نہ ہوا
یوں تیس برس جب تیر ہوئے، ہم کارِ جہاں سے سیر ہوئے
تھا عہدِ شباب سرابِ نظر، وہ چشمۂ آبِ بقا نہ ہوا
پھر شہر سے جی اکتانے لگا، پھر شوق مہار اٹھانے لگا
پھر جوگی جی کے درشن کو ناظر اک روز روانہ ہوا

کچھ روز میں ناظر جا پہنچا پھر ہوش رُبا نظّاروں میں
پنجاب کے گرد غباروں سے کشمیر کے باغ بہاروں میں
پھر بن باسی بیراگی کا ہر سمت سراغ لگانے لگا
بنہال کے بھیانک غاروں میں، پنجال کی کالی دھاروں میں
اپنا تو زمانہ بیت گیا، سرکاروں میں درباروں میں
پر جوگی میرا شیر رہا پربت کی سونی غاروں میں
وہ دن کو ٹہلتا پھرتا تھا ان قدرت کے گلزاروں میں
اور رات کو محوِ تماشہ تھا انبر کے چمکتے تاروں میں
برفاب کا تھا اک تال یہاں یا چاندی کا تھا تھال یہاں
الماس جڑا تھا زمُرّد میں، یہ تال نہ تھا کہساروں میں
تالاب کے ایک کنارے پر یہ بن کا راجہ بیٹھا تھا
تھی فوج کھڑی دیوداروں کی، ہر سمت بلند حصاروں میں
یاں سبزہ و گل کا نظارہ تھا اور منظر پیارا پیارا تھا
پھولوں کا تخت اتارا تھا، پریوں نے ان کہساروں میں
یاں بادِ سحر جب آتی تھی، بھیروں کا ٹھاٹھ جماتی تھی
تالاب رباب بجاتا تھا، لہروں کے تڑپتے تاروں میں
کیا مستِ الست نوائیں تھیں ان قدرت کے مِزماروں میں
ملہار کا روپ تھا چشموں میں، سارنگ کا رنگ فواروں میں
جب جوگی جوشِ وحدت میں ہرنام کی ضرب لگاتا تھا
اک گونج سی چکّر کھاتی تھی، کہساروں کی دیواروں میں

اس عشق و ہوا کی مستی سے جب جوگی کچھ ہشیار ہوا
اس خاک نشیں کی خدمت میں یوں ناظر عرض گزار ہوا

کل رشکِ چمن تھی خاکِ وطن، ہے آج وہ دشتِ بلا جوگی
وہ رشتۂ اُلفت ٹوٹ گیا، کوئی تسمہ لگا نہ رہا جوگی
برباد بہت سے گھرانے ہوئے، آباد ہیں بندی خانے ہوئے
شہروں میں ہے شور بپا جوگی، گاؤں میں ہے آہ و بکا جوگی
وہ جوشِ جنوں کے زور ہوئے، انسان بھی ڈنگر ڈھور ہوئے
بچوں کا ہے قتل روا جوگی، بوڑھوں کا ہے خون ہَبا جوگی
یہ مسجد میں اور مندر میں، ہر روز تنازع کیسا ہے؟
پرمیشر ہے جو ہندو کا، مسلم کا وہی ہے خدا جوگی
کاشی کا وہ چاہنے والا ہے، یہ مکّے کا متوالا ہے
چھاتی سے تو بھارت ماتا کی دونوں نے ہے دودھ پیا جوگی
ہے دیس میں ایسی پھوٹ پڑی، اک قہر کی بجلی ٹوٹ پڑی
روٹھے متروں کو منا جوگی، بچھڑے بِیروں کو ملا جوگی
کوئی گرتا ہے، کوئی چلتا ہے، گرتوں کو کوئی کچلتا ہے
سب کو اک چال چلا جوگی، اور ایک ڈگر پر لا جوگی
وہ میکدہ ہی باقی نہ رہا، وہ خم نہ رہا، ساقی نہ رہا
پھر عشق کا جام پلا جوگی، یہ لاگ کی آگ بجھا جوگی
پربت کے نہ سوکھے روکھوں کو یہ پریم کے گیت سنا جوگی
یہ مست ترانہ وحدت کا چل دیس کی دھن میں گا جوگی
بھگتوں کے قدم جب آتے ہیں، کلجُگ کے کلیش مٹاتے ہیں
تھم جاتا ہے سیلِ بلا جوگی، رک جاتا ہے تیرِ قضا جوگی

ناظر نے جو یہ افسانۂ غم رُودادِ وطن کا یاد کیا
جوگی نے ٹھنڈی سانس بھری اور ناظر سے ارشاد کیا

بابا ہم جوگی بن باسی، جنگل کے رہنے والے ہیں
اس بن میں ڈیرے ڈالے ہیں، جب تک یہ بن ہریالے ہیں
اس کام کرودھ کے دھارے سے ہم ناؤ بچا کر چلتے ہیں
جاتے یاں منہ میں مگر مچھ کے، دریا کے نہانے والے ہیں
ہے دیس میں شور پکار بہت اور جھوٹ کا ہے پرچار بہت
واں راہ دکھانے والے بھی بے راہ چلانے والے ہیں
کچھ لالچ لوبھ کے بندے ہیں، کچھ مکر فریب کے پھندے ہیں
مورکھ کو پھنسانے والے ہیں، یہ سب مکڑی کے جالے ہیں
جو دیس میں آگ لگاتے ہیں، پھر اُس پر تیل گراتے ہیں
یہ سب دوزخ کا ایندھن ہیں اور نرگ کے سب یہ نوالے ہیں
بھارت کے پیارے پُوتوں کا جو خون بہانے والے ہیں
کل چھاؤں میں جس کی بیٹھیں گے، وہی پیڑ گرانے والے ہیں
جو خون خرابا کرتے ہیں، آپس میں کٹ کٹ مرتے ہیں
یہ بیر بہادر بھارت کو، غیروں سے چھڑانے والے ہیں؟
جو دھرم کی جڑ کو کھودیں گے، بھارت کی ناؤ ڈبو دیں گے
یہ دیس کو ڈسنے والے ہیں، جو سانپ بغل میں پالے ہیں
جو جیو کی رکھشا کرتے ہیں اور خوفِ خدا سے ڈرتے ہیں
بھگوان کو بھانے والے ہیں، ایشور کو رجھانے والے ہیں
دنیا کا ہے سُرجن ہار وہی، معبود وہی، مختار وہی
یہ کعبہ، کلیسا، بت خانہ، سب ڈول اسی نے ڈالے ہیں
وہ سب کا پالن ہارا ہے، یہ کنبہ اسی کا سارا ہے
یہ پیلے ہیں یا کالے ہیں، سب پیار سے اس نے پالے ہیں
کوئی ہندی ہو کہ حجازی ہو، کوئی ترکی ہو یا تازی ہو
جب نیر پیا اک ماتا کا، سب ایک گھرانے والے ہیں
سب ایک ہی گت پر ناچیں گے، سب ایک ہی راگ الاپں گے
کل شام کھنّیا پھر بن میں مرلی کو بجانے والے ہیں
آکاش کے نیلے گنبد سے یہ گونج سنائی دیتی ہے
اپنوں کے مٹانے والوں کو کل غیر مٹانے والے ہیں
یہ پریم سندیسہ جوگی کا پہنچا دو ان مہاپرشوں کو
سودے میں جو بھارت ماتا کے تن من کے لگانے والے ہیں
پرماتما کے وہ پیارے ہیں اور دیس کے چاند ستارے ہیں
اندھیر نگر میں وحدت کی جو جوت جگانے والے ہیں
ناظر یہیں تم بھی آ بیٹھو اور بن میں دھونی رما بیٹھو
شہروں میں گُرو پھر چیلوں کو کوئی ناچ نچانے والے ہیں

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 11, 2008

مرزا عبدالقادر بیدل کے چند اشعار مع ترجمہ

ابو المعانی مرزا عبدالقادر بیدل برصغیر پاک و ہند کی فارسی شاعری کا ایک لازوال نام ہیں، صوفیِ با صفا مرزا بیدل اُس دور کی روایت کے برعکس سلاطین اور بادشاہوں کے درباروں پر نہ جھکے اور نہ انکی شان میں مبالغہ آمیز قصیدے کہے بلکہ جب ایک شہزادے نے قصیدہ کہنے کی فرمائش کی تو نوکری چھوڑ دی۔
بیدل کی شاعری خیال آفرینی کی شاعری ہے، ان کے دور میں شاعری کی پامال روش سے تنفر پیدا ہو چکا تھا اور “تازہ گوئی” کا چرچا تھا اور بیدل اسکے امام ہیں۔
برصغیر پاک و ہند کے علاوہ، افغانستان میں اب بھی بیدل کا وہی مقام ہے جو یہاں اقبال کا ہے کہ ہر پڑھے لکھے گھر میں بیدل کے کلیات ضرور ملیں گے۔ ایرانی شعراء اور نقاد کچھ عرصہ قبل تک سبکِ ہندی کے تمام شاعروں بشمول بیدل، عرفی اور غالب وغیرہ کو سرے سے شاعر ہی نہیں مانتے تھے کہ لیکن اب ہوا بدل رہی ہے اور تہران میں بیدل کے عرس کے موقع پر بین الاقوامی کانفرنسیں منقعد ہوتی ہیں۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Mirza Abdul Qadir Bedil, مرزا عبدالقادر بیدلاپنی پسند کے چند اشعار درج کرتا ہوں۔
--------
بحرفِ ناملائم زحمتِ دل ہا مَشَو بیدل
کہ ہر جا جنسِ سنگی ہست، باشد دشمنِ مینا
بیدل، تلخ الفاظ (ناروا گفتگو) سے دلوں کو تکلیف مت دے، کہ جہاں کہیں بھی کوئی پتھر ہوتا ہے وہ شیشے کا دشمن ہی ہوتا ہے۔
————
بستہ ام چشمِ امید از الفتِ اہلِ جہاں
کردہ ام پیدا چو گوھر، در دلِ دریا کراں
میں نے دنیا والوں کی محبت کی طرف سے اپنی چشمِ امید بند کر لی ہے اور گوھر کی طرح سمندر کے دل میں اپنا ایک (الگ تھلگ) گوشہ بنا لیا ہے۔
————
چنیں کُشتۂ حسرتِ کیستَم من؟
کہ چوں آتش از سوختن زیستَم من
میں کس کی حسرت کا کشتہ ہوں کہ آتش کی طرح جلنے ہی سے میری زیست ہے۔
اگر فانیَم چیست ایں شورِ ھستی؟
و گر باقیَم از چہ فانیستَم من؟
اگر میں فانی ہوں تو پھر یہ شور ہستی کیا ہے اور اگر باقی ہوں تو پھر میرا فانی ہونا کیا ہے۔
نہ شادم، نہ محزوں، نہ خاکم، نہ گردوں
نہ لفظَم، نہ مضموں، چہ معنیستم من؟
نہ شاد ہوں نہ محزوں ہوں، نہ خاک ہوں نہ گردوں ہوں، نہ لفظ ہوں، نہ مضموں ہوں، (تو پھر) میرے معانی کیا ہیں میری ہونے کا کیا مطلب ہے۔
————
رباعی
بیدل رقمِ خفی جلی می خواھی
اسرارِ نبی و رمزِ ولی می خواھی
خلق آئنہ است، نورِ احمد دَریاب
حق فہم، اگر فہمِ علی می خواھی
بیدل، تُو پنہاں اور ظاہر راز (جاننا) چاہتا ہے، نبی (ص) کے اسرار اور ولی (ع) کی رمزیں جاننا چاہتا ہے۔ (تو پھر) خلق آئینہ ہے، احمد (ص) کا نور اس میں دیکھ، اور حق کو پہچان اگر علی (ع) کو پہچاننا چاہتا ہے۔
————
حاصِلَم زیں مزرعِ بے بَر نمی دانم چہ شُد
خاک بُودَم، خُوں شُدَم، دیگر نمی دانم چہ شُد
اس بے ثمر کھیتی (دنیا) سے نہیں جانتا مجھے کیا حاصل ہوا، خاک تھا، خوں ہو گیا اور اسکے علاوہ کچھ نہیں جانتا کہ کیا ہوا۔
دی مَن و صُوفی بہ درسِ معرفت پرداختیم
از رقم گم کرد و مَن دفتر نمی دانم چہ شُد
کل (روزِ ازل؟) میں اور صوفی معرفت کا سبق لے رہے تھے، اُس نے لکھا ہوا گم کر دیا اور میں نہیں جانتا کہ وہ درس (تحاریر، دفتر) کیا تھا۔
————
دل خاکِ سرِ کوئے وفا شُد، چہ بجا شُد
سر در رہِ تیغِ تو فدا شُد، چہ بجا شُد
(ہمارا) دل، کوئے وفا کی خاک ہوگیا، کیا خوب ہوا، اور سر تیری راہ میں تیری تلوار پر فدا ہوگیا، کیا خوب ہوا۔
————
با ہر کمال اندَکے آشفتگی خوش است
ہر چند عقلِ کل شدۂ بے جنوں مباش
ہر کمال کے ساتھ ساتھ تھوڑی آشفتگی (عشق، دیوانگی) بھی اچھی (ضروری) ہے، ہر چند کہ تُو عقلِ کُل ہی ہو جائے، جنون کے بغیر مت رہ۔
————
عالم بہ وجودِ من و تو موجود است
گر موج و حباب نیست، دریا ھم نیست
یہ عالم میرے اور تیرے وجود کی وجہ سے موجود ہے، اگر موج اور بلبلے نہ ہوں تو دریا بھی نہیں ہے۔
————
بسازِ حادثہ ہم نغمہ بُودن آرام است
اگر زمانہ قیامت کُنَد تو طوفاں باش
حادثہ کے ساز کے ساتھ ہم نغمہ ہونا (سُر ملانا) ہی آرام ہے، اگر زمانہ قیامت بپا کرتا ہے تو تُو طوفان بن جا۔
————
اگر عشقِ بُتاں کفر است بیدل
کسے جُز کافر ایمانی ندارَد
بیدل اگر عشقِ بتاں کفر ہے تو کافر کے سوا کوئی ایمان نہیں رکھتا۔
————
چہ لازم با خِرَد ھم خانہ بُودَن
دو روزے می تواں دیوانہ بُودَن
کیا ضروری ہے کہ ہر وقت عقل کے ساتھ ہی رہا جائے (عقل کی بات ہی سنی جائے)، دو روز دیوانہ بن کر بھی رہنا چاہیئے۔
اور اسی شعر کا پر تو اقبال کے اس شعر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
————
بُوئے گُل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل
ہر کہ از بزمِ تو برخاست، پریشاں برخاست
غالب نے کہا تھا کہ
طرزِ بیدل میں ریختہ لکھنا
اسد اللہ خاں قیامت ہے
لیکن بیدل کے اس شعر کے ساتھ مرزا نے عجب ہی قیامت ڈھائی ہے کہ ہو بہو ترجمہ لکھ ڈالا، یعنی
بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 9, 2008

مردِ قلندر

کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنے قبیلے، اپنی قوم، اپنی ملت، اپنے ملک اور اپنے لوگوں کی علامت بن جاتا ہے، انکی پہچان اور تشخص بن جاتا ہے۔ یہ بلند رتبہ خدا جسے دے دے۔
حافظ شیرازی نے کہا تھا۔
ہزار نُکتۂ باریک تر ز مُو اینجاست
نہ ہر کہ سر بَتَراشَد قلندری دانَد
یہ وہ مقام ہے کہ یہاں ہزار ہا نازک اور لطیف اور بال سے باریک نکات ہیں، ہر کوئی سر ترشوانے سے قلندر تھوڑی بن جاتا ہے۔
اقبالِ کے قلندر ہونے سے کس کو انکار ہو سکتا ہے کہ اپنی اردو و فارسی شاعری میں ان لطیف و عظیم اسرار و رموز کو فاش کیا ہے کہ کوئی سر ترشوانے والا قلندر بھی کیا بیان کرے گا۔
علامہ کے پیشِ نظر یقیناً حافظ کا شعر تھا جب علامہ نے اپنے متعلق کہا تھا، اور کیا خوب کہا ہے۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال
 Allama Iqbal, علامہ اقبال
بیا بہ مجلَسِ اقبال و یک دو ساغر کَش
اگرچہ سَر نَتَراشَد قلندری دانَد
اقبال کی مجلس کی طرف آ اور ایک دو ساغر کھینچ، اگرچہ اس کا سر مُنڈھا ہوا نہیں ہے (لیکن پھر بھی) وہ قلندری رکھتا (قلندری کے اسرار و رموز جانتا) ہے۔
اے کاش کہ ہمیں بھی ایک آدھ جرعہ نصیب ہو جائے!
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 8, 2008

احمد ندیم قاسمی کی ایک غزل - ٹوٹتے جاتے ہیں سب آئنہ خانے میرے

احمد ندیم قاسمی مرحوم کی درج ذیل غزل مجھے بہت پسند ہے، اسے کم و بیش دو دہائیاں قبل ریڈیو پاکستان سے سلامت علی کی آواز میں سنا تھا اور تب سے یہ میری پسندیدہ غزلوں میں سے ہے۔
ٹوٹتے جاتے ہیں سب آئنہ خانے میرے
وقت کی زد میں ہیں یادوں کے خزانے میرے

زندہ رہنے کی ہو نیّت تو شکایت کیسی
میرے لب پر جو گِلے ہیں وہ بہانے میرے

رخشِ حالات کی باگیں تو مرے ہاتھ میں تھیں
صرف میں نے کبھی احکام نہ مانے میرے

میرے ہر درد کو اس نے اَبَدیّت دے دی
یعنی کیا کچھ نہ دیا مجھ کو خدا نے میرے

میری آنکھوں میں چراغاں سا ہے مستقبل کا
اور ماضی کا ہیولٰی ہے سَرھانے میرے

تُو نے احسان کیا تھا تو جتایا کیوں تھا
اس قدر بوجھ کے لائق نہیں شانے میرے

راستہ دیکھتے رہنے کی بھی لذّت ہے عجیب
زندگی کے سبھی لمحات سہانے میرے

جو بھی چہرہ نظر آیا ترا چہرہ نکلا
تو بصارت ہے مری، یار پرانے میرے

Ahmed Nadeem Qasmi, احمد ندیم قاسمی. Ilm-Arooz, Taqtee, Urud Poetry, اردو شاعری
Ahmed Nadeem Qasmi,
 احمد ندیم قاسمی
سوچتا ہوں مری مٹّی کہاں اڑتی ہوگی
اِک صدی بعد جب آئیں گے زمانے میرے

صرف اِک حسرتِ اظہار کے پر تو ہیں ندیم
میری غزلیں ہوں کہ نظمیں کہ فسانے میرے
———–
بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن یعنی فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فَعِلاتُن بھی آ سکتا ہے اور آخری رکن یعنی فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فَعِلان بھی آ سکتے ہیں گویا آٹھ اوزان اس بحر میں جمع ہو سکتے ہیں)
اشاری نظام - 2212 2211 2211 22
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)
تقطیع
ٹوٹتے جاتے ہیں سب آئنہ خانے میرے
وقت کی زد میں ہیں یادوں کے خزانے میرے
ٹوٹتے جا - فاعلاتن - 2212
تِ ہِ سب آ - فعلاتن - 2211
ء نَ خانے - فعلاتن - 2211
میرے - فعلن - 22
وقت کی زد - فاعلاتن - 2212
مِ ہِ یادو - فعلاتن - 2211
کِ خزانے - فعلاتن - 2211
میرے - فعلن - 22
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 6, 2008

اردو محفل لوگو اپنے بلاگ کیلیے

آج کچھ بلاگز دیکھتے ہوئے جب مختلف سائٹس کے لوگو دیکھے تو سوچا کہ "اردو محفل" کا بھی ایک لوگو ہونا چاہیئے جو کہ میرے بلاگ پر لگا ہو سو اردو محفل کا لوگو لیکر ایک چھوٹا سا ڈیزائن اپنے بلاگ کیلیے بنا ڈالا۔ پھر وضاحت کرتا ہوں کہ “اردو محفل” کا لوگو میرا بنایا ہوا نہیں ہے بلکہ اسے میں نے اردو محفل ہی سے لیا ہے بس اسے اپنے بلاگ کیلیے “بلگوایا” ہے۔اردو محفلمجھے ڈیزائننگ وغیرہ کا کچھ تجربہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کی کوئی تعلیم حاصل کی ہے سو یقیناً اس میں “پروفیشنل ٹچز” کی کمی ہوگی۔ قتیلانِ اردو محفل اور دیگر ساتھی بلاگران سے استدعا ہے کہ اگر ہو سکے تو “اردو محفل” کا کوئی اپنی پسند کا ڈیزائن کردہ لوگو اپنے اپنے بلاگ پر ضرور لگائیں۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 5, 2008

جوش ملیح آبادی کی چند رباعیات

شبیر حسن خان جوش ملیح آبادی دنیائے اردو ادب میں اپنی لازوال خودنوشت “یادوں کی برات” کی وجہ سے امر ہو گئے ہیں لیکن وہ ایک اعلٰی پائے کے شاعر تھے بلکہ شاعرِ انقلاب جوش ملیح آبادی کو علامہ اقبال کے بعد سب سے بڑا شاعر بھی کہا جاتا ہے لیکن ان کی شاعری کو وہ مقبولیت نہیں ملی جو فیض احمد فیض یا انکے بعد احمد فراز کو ملی۔

(1)
انجام کے آغاز کو دیکھا میں نے
ماضی کے ہر انداز کو دیکھا میں نے
کل نام ترا لیا جو بُوئے گُل نے
تا دیر اُس آواز کو دیکھا میں نے

(2)
زَردَار کا خَنّاس نہیں جاتا ہے
ہر آن کا وَسواس نہیں جاتا ہے
ہوتا ہے جو شدّتِ ہَوَس پر مَبنی
تا مَرگ وہ افلاس نہیں جاتا ہے

(3)
کیا صرف مُسلمان کے پیارے ہیں حُسین
چرخِ نوعِ بَشَر کے تارے ہیں حُسین
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی، ہمارے ہیں حُسین
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, josh malihabad, جوش ملیح آبدی, rubai, تباعی
Josh Malihabad, جوش ملیح آبدی
(4)
اوہام کو ہر اک قَدَم پہ ٹھکراتے ہیں
اَدیان سے ہر گام پہ ٹکراتے ہیں
لیکن جس وقت کوئی کہتا ہے حُسین
ہم اہلِ خَرابات بھی جُھک جاتے ہیں

(5)
سینے پہ مرے نقشِ قَدَم کس کا ہے
رندی میں یہ اَجلال و حَشَم کس کا ہے
زاہد، مرے اس ہات کے ساغر کو نہ دیکھ
یہ دیکھ کہ اس سر پر عَلَم کس کا ہے

(6)
اِس وقت سَبُک بات نہیں ہو سکتی
توہینِ خرابات نہیں ہو سکتی
جبریلِ امیں آئے ہیں مُجرے کے لیے
کہہ دو کہ ملاقات نہیں ہو سکتی

(7)
لفظِ “اقوام” میں کوئی جان نہیں
اک نوع میں ہو دوئی، یہ امکان نہیں
جو مشرکِ یزداں ہے وہ ناداں ہے فَقَط
جو مشرکِ انساں ہے وہ انسان نہیں
_________



مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 4, 2008

ملک الشعراء ابوالفیض فیضی کے چند اشعار مع ترجمہ

دربارِ اکبری میں جن چند افراد نے بامِ عروج دیکھا ان میں علامہ مبارک ناگوری اور اسکے دو بیٹے، ابو الفضل علامی اور ملک الشعراء ابوالفیض فیضی بھی شامل ہیں۔ فیضی کا شمار، برصغیر کے عظیم ترین فارسی گو شعرا میں ہوتا ہے۔ اپنے باپ اور بھائی کی طرح وہ مذہب اور سیاست کی بجائے شعر و شاعری کا قتیل تھا اور نوعمری میں شروع کی گئی شاعری وہ آخری دم تک کرتا رہا۔
کلیاتِ فیضی میں سے اپنی پسند کے چند شعر درج کرتا پوں۔
قصّۂ عاشقی مَگو اے دل
بَگُذار ایں خَصُوص را بَعَمُوم
اے دل عاشقی کا قصہ مت کہہ، اس خاص ترین بات کو عمومی طور پر (سرسری) گزار دے۔
فیضی اسرارِ عشق را ھرگز
نَتَواں یافتَن بَکَسبِ علُوم
فیضی، عشق کے اسرار ہر گز (فقط) علوم میں مہارت سے نہیں ملتے (کھلتے)۔
————
حدیثِ عقل و دیں با ما مَگوئید
خِرَد مَنداں، سُخَن بے جا مَگوئید
عقل اور دین کی باتیں ہم سے مت کرو، اے خرد مندو یہ بے جا باتیں مت کرو۔
کُجَا عقل و کُجَا دین و کُجَا مَن
مَنِ دیوانہ را ایں ہا مَگوئید
کہاں عقل اور دین اور کہاں میں، مجھ دیوانے سے اسطرح کی باتیں مت کرو۔
مَرا دَر عشق پروائے کسے نیست
بَگوئید ایں حکایت یا مَگوئید
عشق میں مجھے کسی کی بھی پرواہ نہیں ہے، یہ حکایت (کھل کر) بیان کروں یا کہ نہ کروں۔
————–
ساقی و جامِ مے و گوشۂ دیرست اینجا
للہِ الحمد کہ احوال بخیرست اینجا
ساقی ہے، مے کا جام ہے اور بتخانے کا گوشہ ہے، اللہ کا شکر ہے کہ یہاں سب کچھ خیریت سے ہے۔
نکتۂ عشق مَپُرسید کہ ھوشم باقیست
سُخَن از یار مَگوئید کہ غیرست اینجا
نکتۂ عشق مت پوچھو کہ ابھی ہوش باقی ہیں، ہم یار سے کلام نہیں کریں گے کہ ابھی اس جگہ غیر (ہوش) موجود ہے۔
———–
شوریست عَجَب در سَرَم از جامِ محبّت
سَرمَستم و جُز نعرۂ مَستانہ نَدارَم
میرے سر میں جامِ محبت سے عجب خمار ہے کہ (ہر وقت) سر مست ہوں اور مستانہ نعرے کے علاوہ اور کچھ نہیں رکھتا (کرتا)۔
فیضی ز غَم و شادیِ عالم خَبَرے نیست
شادَم کہ بَدِل جُز غمِ جانانہ نَدارَم
فیضی، مجھے دنیا کے غم و خوشی کی کوئی خبر نہیں ہے، میں (اسی میں) خوش ہوں کہ دل میں غمِ جاناں کے سوا اور کچھ نہیں رکھتا۔
——–
تو اے پروانہ، ایں گرمی ز شمعِ محفِلے داری
چو مَن دَر آتشِ خود سوز گر سوزِ دِلے داری
اے پروانے تُو نے یہ گرمی محفل کی شمع سے حاصل کی ہے، میری طرح اپنی ہی آگ میں جل (کر دیکھ) اگر دل کا سوز رکھتا ہے۔
اس شعر کو دوام علامہ اقبال نے بانگِ درا میں اس پر تضمین کہہ کر بخشا ہے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 3, 2008

احمد راہی کی ایک پنجابی نظم - نِمّی نِمّی وا وگدی

احمد راہی مرحوم جدید پنجابی شاعری کا ایک بہت بڑا نام ہیں اور جدید پنجابی شاعری کو مقبول عام بنانے میں انکی شاعری کا بہت ہاتھ ہے۔
احمد راہی کی شہرہ آفاق پنجابی نظموں کی کتاب “ترنجن” سے ایک نظم جو مجھے بہت پسند ہے۔
نِمّی نِمّی وا وگدی
Ahmed Rahi, احمد راہی, Punjabi Poetry, پنجابی شاعری
Ahmed Rahi, احمد راہی
رُکھ ڈول دے تے اکھ نئیں لگ دی
نِمّی نِمّی وا وگدی
ساہنوں ٹھگ گئی یاد اِک ٹھگ دی
نِمّی نِمّی وا وگدی

راہواں تَک تَک، تَک تَک، تھک دیاں نہ
اکھاں اَک دیاں نہ
ہُن بِناں دیکھنے دے رہ سَک دیاں نہ
اوہدی تاہنگ تے نالے ڈری جَگ دی
نِمّی نِمّی وا وگدی
ساہنوں ٹھگ گئی یاد اِک ٹھگ دی
نِمّی نِمّی وا وگدی

لوکاں کولوں تے لُکا لواں گی ہَس ہَس کے
جھوٹ سچ دَس کے
پَر دل کولوں میں جاواں گی کتھے نَس کے
لاٹ پیار والی لَٹ لَٹ جگ دی

نِمّی نِمّی وا وگدی
ساہنوں ٹھگ گئی یاد اِک ٹھگ دی
نِمّی نِمّی وا وگدی

جاواں پانی بھَرنے نوں تَڑکے تَڑکے
میرا دل دھڑکے
جے بُلا لیا اوہنے کِتے بانہہ پھَڑ کے
ڈھیری بھَخ پئو دَبی ہوئی اَگ دی

نِمّی نِمّی وا وگدی
ساہنوں ٹھگ گئی یاد اِک ٹھگ دی
نِمّی نِمّی وا وگدی

رُکھ ڈول دے تے اکھ نئیں لگ دی
نِمّی نِمّی وا وگدی
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 2, 2008

آٹھ سال بعد

“سَر، وہ دراصل میری فیملی میں ایک شادی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔تو میں وہ مَنڈے کو چُھٹی پر ہوں۔۔۔۔۔۔”
“ہیں، اوہ ٹھیک ہے۔”
“تھینک یو، سر”
“ہاں وہ اپنے کام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
“جی سر، ضرور”
اسطرح اور اس سے ملتے جلتے نہ جانے کتنے مکالمے ہونگے جو میرے اور میرے باس یا میرے اور میرے کسی ماتحت کے درمیان پچھلے بارہ سالوں میں ہوئے ہیں۔
دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ کامل آٹھ سال بعد، پچھلے اتوار کو میں نے کسی شادی کی تقریب میں شرکت کی ہے اور وہ بھی باامر مجبوری، کیا کرتا کہ گھر میں شادی تھی۔ مجھ سے چھوٹے بھائی کی شادی نومبر 2000 میں ہوئی تھی اور اب اس سے چھوٹے کی۔
تقریبات میں شرکت کرنے سے اور گھر سے باہر نکلنے میں میری جان جاتی ہے، جنازے وغیرہ تو پھر چند ایک پڑھ لیے ہیں لیکن شادی کی تقریبات کے بارے میں میں یہی سوچتا ہوں کہ وہاں میرے نہ ہونے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ میرے والد صاحب مرحوم میری اس عادت سے بہت نالاں تھے اور اب زوجہ محترمہ لیکن کچھ عادات بڑی مشکل سے تبدیل ہوتی ہیں سو آپ کے ارد گرد رہنے والوں کو ان سے سمجھوتہ کرنا ہی پڑتا ہے۔
خیر، بات چھٹی سے ذہن میں آئی تھی کہ اس دفع جب حقیقتاً دفتر سے چھٹی لینی پڑی تو عجیب سا احساس ہوا۔ سرکاری دفاتر کے متعلق تو میرا علم بس شنیدہ ہے لیکن پرائیوٹ نوکری میں “چھٹی مافیا” کے متعلق میرا علم حق الیقین کے درجے پر ہے۔ زندگی کے اس رخ میں مشقت زیادہ ہے اور چھٹی کرنا ایک نازیبا اور غیر پیشہ وارانہ حرکت تصور ہوتی ہے اور اسی وجہ سے پرائیوٹ نوکری میں آرام سے چھٹی حاصل کر لینا ایک “آرٹ” تصور ہوتا ہے اور ہزاروں لطائف بھی لوگوں کو یاد ہونگے۔
بڑی اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو چھوڑیئے، چھوٹی اور درمیانی درجے کی پاکستانی اور پھر ہمارے شہر سیالکوٹ کی تمام کمپنیوں میں اپنے ملازمین کو انکی سالانہ چھٹیاں دینا یا چھٹی نہ کرنے پر ان کو ان چھٹیوں کے پیسے دینا خال خال نظر آتا ہے جسکا لازمی نتیجہ یہی ہے کہ بہانے بازی سے چھٹیاں حاصل کی جاتی ہیں۔
بہرحال، شادی کی گہما گہمی نے چند دن تک کافی تنگ کیے رکھا، نہ وہ تنہائی میسر تھی اور نہ وہ کنارِ کتب، دعا تو یہی کر رہا ہوں کہ مزید آٹھ سال بغیر کسی تقریب کے گزر جائیں لیکن پھر اس بیچارے غریب چوتھے بھائی کا چہرہ سامنے آ جاتا ہے جسکی شادی شاید چند ماہ کے دوران متوقع ہے۔
ع - مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 1, 2008

رباعیاتِ حافظ شیرازی مع اردو ترجمہ

حافظ شیرازی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں، ایران اور برصغیر پاک و ہند کی شاعری پر جتنے اثرات حافظ نے چھوڑے ہیں شاید ہی کسی اور شاعر نے چھوڑے ہوں اور جتنے شاعر حافظ سے متاثر ہوئے ہیں شاید ہی کسی اور سے ہوئے ہوں۔ اور صدیاں گزرنے کے باوجود وہ آج بھی ایران میں مقبول ترین شاعر ہیں۔
یوں تو حافظ شیرازی اپنی غزلیات کے لیے زیادہ مشہور ہیں لیکن انکی رباعیات بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں انہی میں سے چند رباعیاں:
(1)
ہر روز دِلَم بَزیرِ بارے دِگرست
دَر دیدۂ من ز ہجر خارے دگرست
مَن جہد ہَمی کُنَم، قضا می گویَد
بیروں ز کفایتِ تو کارے دِگرست
ہر روز میرا دل ایک نئے بوجھ کے تلے ہے، (ہر روز) میری آنکھ میں ہجر کا ایک نیا کانٹا ہے۔ میں جد و جہد کرتا ہوں اور تقدیر کہتی ہے، تیرے بس سے باہر ایک اور کام ہے۔
(2)
با مَردَمِ نیک بَد نَمی بایَد بُود
در بادیہ دیو و دَد نَمی بایَد بُود
مَفتُونِ معاشِ خود نَمی بایَد بُود
مغرور بَعقلِ خود نَمی بایَد بُود
نیک لوگوں کے ساتھ برا نہیں بننا چاہیئے، جنگل میں شیطان اور درندہ نہیں بننا چاہیئے، اپنی روزی کا دیوانہ نہیں بننا چاہیئے، (اور) اپنی عقل پر مغرور نہیں بننا چاہیئے۔
(3)
گُفتی کہ بہ مہ نَظَر کُن و انگار مَنَم
روئے تو ام آرزوست، مہ را چہ کُنَم
مہ چُوں تو کُجا بُود کہ اندر ماھے
یک شب چو رُخَت باشد و باقی چو تَنَم
تو نے کہا کہ چاند کو دیکھ لوں اور سمجھ لے کہ میں ہوں۔ (لیکن) مجھے تو تمھارے چہرے کی آرزو ہے میں چاند کو کیا کروں۔ چاند تجھ جیسا کہاں ہو سکتا ہے کہ وہ تو ایک مہینے میں، (صرف) ایک رات (چودھویں کی) تمھارے چہرے کی طرح ہوتا ہے اور باقی راتوں میرے جسم کی طرح (نحیف و نزار و لاغر)۔
(4)
اوّل بہ وفا جامِ وصالَم دَر داد
چُوں مست شُدَم دامِ جفا را سَر داد
با آبِ دو دیدہ و پُر از آتشِ دل
خاکِ رہِ اُو شُدَم بہ بادَم دَر داد
پہلے تو وفا سے مجھے وصال کا جام دیا، جب میں مست ہو گیا تو جفا کا جال ڈال دیا، Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Mazar Hafiz Sheerazi, مزار حافظ شیرازیدو روتی ہوئی آنکھوں اور آگ بھرے دل کے ساتھ، جب میں اس کی راہ کی خاک بنا تو مجھے ہوا میں اڑا دیا۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔