Dec 17, 2009

کتاب 'تعلیم اور ادب و فن کے رشتے' از احمد ندیم قاسمی


احمد ندیم قاسمی مرحوم کی ذات کسی تعارف کی محتاج نہیں، آپ ایک ہمہ جہتی شخصیت تھے، شاعر، افسانہ نویس، مدیر، صحافی اور ماہرِ تعلیم۔
مذکورہ کتاب، قاسمی صاحب کے دس فکر انگیز مضامین پر مشتمل ہے جو انہوں نے پچھلی صدی میں ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں تحریر کیے۔ یہ کتاب "تحقیقی و ترقیاتی مرکز برائے نصابِ تعلیم، محکمہ تعلیم، پنجاب" کے اہتمام سے شائع ہوئی تھی۔ کتاب میں سنِ اشاعت تو نہیں لکھا ہوا لیکن قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ 1973 میں چھپی ہوگی۔
یہ کتاب چونکہ قاسمی صاحب نے محکمۂ تعلیم کو بلا معاوضہ شائع کرنے کی اجازت دی تھی، اسلیے مجھے بہتر معلوم ہوا کہ اسکو ٹائپ کر کے یہاں پر پیش کیا جائے تاکہ قاسمی صاحب کے یہ نادر و نایاب مضامین محفوظ رہ سکیں۔
گو کہ مضامین پرانے ہیں لیکن ان میں قاسمی صاحب نے جن حقائق کی طرف اشارہ کیا ہے اور ہمارے نظامِ تعلیم کی جن خامیوں کو اجاگر کیا ہے وہ نہ صرف اسی طرح موجود ہیں بلکہ شاید پہلے سے بھی بڑھ گئی ہیں اسلئے ان مضامین کی حقانیت ویسے ہی ہے جیسے کہ تیس، چالیس سال پہلے تھی۔
Ahmed Nadeem Qasmi, احمد ندیم قاسمی
Ahmed Nadeem Qasmi, احمد ندیم قاسمی
یہ مضامین، جیسا کہ کتاب کے نام سے ظاہر ہے، تعلیم، ادب اور فن کے متعلق ہیں۔ تعلیم میں بھی قاسمی صاحب نے بچوں کی تعلیم اور انکے ادب کے متعلق خصوصی توجہ دلائی ہے، اور ہمارے نظامِ تعلیم کا یہ عجب المیہ ہے کہ بچوں کی تعلیم کے حوالے سے جو مشکلات پچاس، ساٹھ سال پہلے تھیں وہ اب بھی ہیں، گو اب بچوں کو تعلیم دلانے کے مواقع اور وسائل پہلے کی نسبت بہت زیادہ ہیں، مگر "کمرشل ازم" نے اسکولوں کا حلیہ اور تعلیم کا معیار بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔
فن اور ادب کے حوالے سے بھی کافی دلچسپ مضامین آپ کو پڑھنے کو ملیں گے، خاص طور پر "شعر و شاعری کا فائدہ" اور دیگر۔ مضامین کی مکمل فہرست کچھ یوں ہے۔
1- بچوں کا ادب
2- پاکستانی بچوں کیلیے کتابیں
3- ادب کی تعلیم اور اساتذہ
4- ادب کی تعلیم کا مسئلہ
5- نصابِ تعلیم میں سے اقبال کا اخراج
6- پاکستان کی نئی نسل اور جدید ادب
7- شعر و شاعری کا فائدہ
8- فن کا اثبات
9- مادی ترقی اور قومی ثقافت
10- سائنس کے اثبات کیلیے شاعری کی نفی کیوں؟

ان مضامین کو ٹائپ کرتے ہوئے ایک کام میں نے یہ کیا ہے کہ مضامین کے آخر میں انکی تحریر کا زمانہ لکھا ہوا تھا اسکو میں نے مضامین کے عنوان کے ساتھ شروع میں ہی دے دیا ہے تاکہ جو اعداد و شمار یا واقعات زمانی بعد سے تبدیل ہو چکے ہیں یا ماضی بعید کا حصہ بن چکے ہیں، وہ قارئین کو کسی قسم کی پریشانی میں نہ ڈال دیں اور پہلے ہی وضاحت ہو جائے۔

مکمل کتاب اس ربط پر پڑھی جا سکتی ہے۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 16, 2009

سیاہ حاشیے از سعادت حسن منٹو

تقسیمِ ہندوستان کے پس منظر میں لکھی گئی سعادت حسن منٹو کی شہرہ آفاق کتاب 'سیاہ حاشیے' اس خاکسار نے آج سے کوئی دو سال قبل ٹائپ کر کے اردو ویب لائبریری پر عام افادے کیلیے رکھی تھی، اسی کا ربط دے رہا ہوں۔ یہاں یہ بھی واضح کردوں کہ منٹو کی کتب کاپی رائٹس فری ہو چکی ہیں اور پبلک ڈومین میں ہیں۔
یہ کتاب چھوٹے چھوٹے 'شذرات' یا انتہائی مختصر افسانوں پر مشتمل ہے لیکن اپنے مطالب و معنی میں بحرِ بیکراں لیے ہوئے ہے، انتہائی فکر انگیز اور مبنی بر انصاف تحاریر ہیں۔ منٹو اسکے انتساب میں لکھتے ہیں۔
اس آدمی کے نام
جس نے اپنی خونریزیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا
"جب میں نے ایک بڑھیا کو مارا تو مجھے ایسا لگا مجھ سے قتل ہوگیا ہے۔"

کتاب اس ربط پر پڑھی جا سکتی ہے۔

Saadat Hasan Manto, سعادت حسن منٹو, Afsany, افسانے
Saadat Hasan Manto, سعادت حسن منٹو


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 6, 2009

می رقصم - شیخ عثمان مروَندی معروف بہ لال شہباز قلندر کی غزل - نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم

شیخ سید عثمان شاہ مروَندی علیہ الرحمہ معروف بہ لال شہباز قلندر ایک جلیل القدر صوفی ہیں اور انکے نامِ نامی کی شہرت عالم گیر ہے۔ انکی ایک غزل بہت مشہور ہے جس کی ردیف 'می رقصم' ہے، اس غزل کا کچھ تذکرہ مولانا رومی کی ایک غزل جس کی ردیف 'می گردم' ہے لکھتے ہوئے بھی آیا تھا۔ اس وقت سے میں اس غزل کی تلاش میں تھا لیکن افسوس کہ نیٹ پر مکمل غزل کہیں نہیں ملی بلکہ اکا دکا اشعار ادھر ادھر بکھرے ہوئے ملے۔ کتب میں بھی تلاش کیا لیکن نہیں ملی۔

اس سلسلے میں ایک عرض یہ کرونگا کہ بعض مشہور و معروف غزلیات جو صدیوں سے زبان زد عام ہیں، کتب میں نہیں ملتیں، مثلاً امیر خسرو علیہ الرحمہ کی نعت، نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم، انکی غزلیات کے پانچوں دیوانوں میں نہیں ہے (بحوالہ خسرو شیریں بیاں از مسعود قریشی، لوک روثہ اشاعت گھر، اسلام آباد) اسی طرح مولانا رومی کی مذکورہ غزل، نہ من بیہودہ گردِ کوچہ و بازار می گردم، انکی غزلیات کے دیوان 'دیوانِ شمس' میں موجود نہیں ہے، مولانا کے یہ کلیات ایران میں تصحیح کے ساتھ شائع ہو چکے ہیں اور اسی دیوانِ سمش کا آن لائن ورژن ویب پر بھی موجود ہے، جس میں یہ غزل موجود نہیں ہے اور اسی طرح شیخ عثمان کی مذکورہ غزل بھی کہیں نہیں ملتی لیکن عام طور سے یہی مشہور ہے کہ یہ غزل شیخ عثمان کی ہے۔ اس غزل کے چار اشعار مجھے ویب سے ملے تھے، باقی اشعار نصرت فتح علی خان قوال کی گائی ہوئی ایک قوالی (امیر خسرو کی نعت نمی دانم) سے ملے ہیں اور یوں سات اشعار کی ایک غزل بہرحال بن گئی ہے جو احباب کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں، مجھے پورا یقین ہے کہ اس غزل کے مزید اشعار بھی ہونگے، بہرحال تلاش جاری ہے۔

غزل پیشِ خدمت ہے۔

نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم
مگر نازم بہ ایں ذوقے کہ پیشِ یار می رقصم


نہیں جانتا کہ آخر دیدار کے وقت میں کیوں رقص کر رہا ہوں، لیکن اپنے اس ذوق پر نازاں ہوں کہ اپنے یار کے سامنے رقص کر رہا ہوں۔

مزار لال شہباز قلندر, Mazar Lal Shahbaz Qalandar, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
مزار لال شہباز قلندر
 Mazar Lal Shahbaz Qalandar
تو ہر دم می سرائی نغمہ و ہر بار می رقصم
بہ ہر طرزِ کہ می رقصانیَم اے یار می رقصم

تو جب بھی اور جس وقت بھی نغمہ چھیڑتا ہے میں اسی وقت اور ہر بار رقص کرتا ہوں، اور جس طرز پر بھی تو ہمیں رقص کرواتا ہے، اے یار میں رقص کرتا ہوں۔

تُو آں قاتل کہ از بہرِ تماشا خونِ من ریزی
من آں بسمل کہ زیرِ خنجرِ خوں خوار می رقصم

تُو وہ قاتل کہ تماشے کیلیے میرا خون بہاتا ہے اور میں وہ بسمل ہوں کہ خوں خوار خنجر کے نیچے رقص کرتا ہوں۔

بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہِ جانبازاں
بہ صد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم

آجا جاناں اور دیکھ کہ جانبازوں کے گروہ میں، میں رسوائی کے صد سامان لیے سر بازار رقص کر رہا ہوں۔

اگرچہ قطرۂ شبنم نہ پویَد بر سرِ خارے
منم آں قطرۂ شبنم بہ نوکِ خار می رقصم

اگرچہ شبنم کا قطرہ کانٹے پر نہیں ٹھہرتا لیکن میں وہ قطرۂ شبنم ہوں کہ نوکِ خار پر رقص کرتا ہوں۔

خوش آں رندی کہ پامالش کنم صد پارسائی را
زہے تقویٰ کہ من با جبّہ و دستار می رقصم

واہ وہ رندی کہ جس کیلیے میں سیکنڑوں پارسائیوں کو پامال کر دوں، مرحبا یہ تقویٰ کہ میں جبہ و دستار کے ساتھ رقص کرتا ہوں۔

منم عثمانِ مروندی کہ یارے شیخ منصورم
ملامت می کند خلقے و من بر دار می رقصم

میں عثمان مروندی کہ شیخ منصور (حلاج) میرے دوست ہیں، مجھے خلق ملامت کرتی ہے اور میں دار پر رقص کرتا ہوں۔

اس شعر کیلیے ایک وضاحت یہ کہ شیخ عثمان کا نام شیخ عثمان مروَندی ہے لیکن یہ شعر نصرت فتح علیخان نے عثمان مروندی کی بجائے عثمان ہارونی کے نام کے ساتھ گایا ہے۔ میں نے اپنی سی کوشش ضرور کی کہ کہیں سے یہ علم ہو جائے کہ صحیح شعر کیا ہے اور یہ 'ہارونی' کیوں آیا ہے مصرعے میں لیکن افسوس کہ میرے پاس ذرائع محدود ہیں۔ بہرحال تحقیق کے دروازے کھلے ہیں، اس شعر بلکہ اس غزل کے دیگر اشعار کیلیے میں بھی سرگرداں ہوں اور دیگر اہلِ علم و فن و ہنر کو بھی دعوتِ عام ہے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 1, 2009

امیر خسرو علیہ الرحمہ کی ایک غزل مع تراجم - نیست در شہر گرفتار تر از من دِگَرے

شعرِ خسرو
نیست در شہر گرفتار تر از من دِگَرے
نبُد از تیرِ غم افگار تر از من دِگَرے

ترجمہ
پورے شہر میں کوئی اور شخص (تیری محبت میں) مجھ جیسا گرفتار نہیں ہے، غموں کے تیر سے کوئی اور مجھ جیسا زخمی نہیں ہے۔

منظوم ترجمہ مسعود قریشی
شہر میں کوئی گرفتار نہیں ہے مجھ سا
تیر سے غم کے دل افگار نہیں ہے مجھ سا

شعرِ خسرو
بر سرِ کُوئے تو، دانم، کہ سگاں بسیار اند
لیک بنمائی وفادار تر از من دِگَرے

ترجمہ
میں جانتا ہوں کہ تیرے کوچے میں بہت سے سگ ہیں لیکن ان میں کوئی بھی مجھ سا وفادار نہیں ہے۔
Amir Khusro, امیر خسرو, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
Amir Khusro, امیر خسرو
قریشی
یوں تو کوچے میں ترے سگ ہیں بہت سے لیکن
ایک بھی ان میں وفادار نہیں ہے مجھ سا

شعرِ خسرو
کارواں رفت و مرا بارِ بلائے در دل
چوں رَوَم، نیست گرانبار تر از من دِگَرے

ترجمہ
کارواں چلا گیا اور میرے دل میں جدائی کا بوجھ ڈال گیا، کسطرح چلوں کہ کوئی اور مجھ سا گراں بار نہیں ہے۔

قریشی
سب گئے، رہ گیا میں بارِ بلا دل میں لئے
ان میں کوئی بھی گرانبار نہیں ہے مجھ سا

شعرِ خسرو
ساقیا بر گزر از من کہ بخوابِ اجَلَم
باز جُو اکنوں تو ہشیار تر از من دِگَرے

ترجمہ
اے ساقی تو جانتا ہے کہ میں خوابِ اجل (مرنے کے قریب) ہوں لیکن مجھ سے گزر کے اس کے باوجود میکدے میں مجھ سے ہوشیار کوئی اور نہیں ہے۔

قریشی
ساقیا خوابِ اجل میں ہوں پہ تو جانتا ہے
میکدے میں کوئی ہشیار نہیں ہے مجھ سا

شعرِ خسرو
خسروَم، بہرِ بُتاں کُوئے بکو سرگرداں
در جہاں بود نہ بیکار تر از من دِگَرے

ترجمہ
میں خسرو، کوبکو بتوں کی تلاش میں سرگرداں ہوں، اس جہاں میں مجھ سا بیکار کوئی نہیں ہے۔

قریشی
کُو بہ کُو بہرِ بُتاں خسرو ہوا سرگرداں
کوئی اس دنیا میں بیکار نہیں ہے مجھ سا

----------

بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)
اشاری نظام - 2212 2211 2211 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)
۔تقطیع -
نیست در شہر گرفتار تر از من دِگَرے
نبُد از تیرِ غم افگار تر از من دِگَرے

نیس در شہ - فاعلاتن - 2212 (نیست میں چونکہ اوپر تلے تین ساکن ہیں، ی، سین اور ت، اور تقطیع کا اصول ہے کہ جہاں اس طرح اوپر تلے تین ساکن ہوں اس میں آخری ساکن محسوب نہیں ہوتا یعنی اسکا کوئی وزن شمار نہیں کیا جاتا سو اسے چھوڑ دیتے ہیں، یعنی نیست کی ت کو چھوڑ دیا، اس طرح کے دیگر الفاظ میں دوست، گوشت، پوست، چیست، کیست وغیرہ شامل ہیں)۔
ر گرفتا - فعلاتن - 2211
ر تَ رز من - فعلاتن - 2211 (یہاں تر اور از کے درمیان میں الفِ وصال ساقط ہوا ہے، الفِ واصل اسے کہتے ہیں کہ پچھلا حرف ساکن ہو اور حرفِ علت نہ ہو یعنی الف، واؤ یا ی نہ ہو تو اسکے فوری بعد والے الف کو ختم کر کے یعنی وصل کروا کے پچھلے حرف کو اگلے حرف کے ساتھ ملا دیتے ہیں جیسے تر اور از میں، الف کے وصال کی سبھی شرطیں پوری ہوتی ہیں سو اس کو ساقط کر کے لفظ تر از سے تَ رز بنا لیا اور یوں وزن پورا ہوا)۔
دِ گِ رے - فَعِلُن - 211 (فاعلن کی جگہ فعِلن نوٹ کریں)۔
نَ بُ دز تی - فعلاتن - 2211 (الفِ واصل اور مخبون رکن دونوں نوٹ کریں)۔
رِ غَ مَفگا - فعلاتن - 2211 (الفِ واصل نوٹ کریں)۔
ر تَ رز من - فعلاتن - 2211 (الفِ واصل نوٹ کریں)۔
دِ گَ رے - فَعِلن - 211
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 29, 2009

مسیح الملک حکیم اجمل خان شیدا کی ایک غزل - کچھ بات ہی تھی ایسی کہ تھامے جگر گئے

کچھ بات ہی تھی ایسی کہ تھامے جگر گئے
ہم اور جاتے بزمِ عدو میں؟ مگر گئے

یہ تو خبر نہیں کہ کہاں اور کدھر گئے
لیکن یہاں سے دُور کچھ اہلِ سفر گئے

ارماں جو ہم نے جمع کئے تھے شباب میں
پیری میں وہ، خدا کو خبر ہے، کدھر گئے

رتبہ بلند ہے مرے داغوں کا اس قَدَر
میں ہوں زمیں، پہ داغ مرے تا قمر گئے
Hakim Ajmal Khan, حکیم اجمل خان, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
حکیم اجمل خان دہلوی
Hakim Ajmal Khan
رخسار پر ہے رنگِ حیا کا فروغ آج
بوسے کا نام میں نے لیا، وہ نکھر گئے

دنیا بس اس سے اور زیادہ نہیں ہے کچھ
کچھ روز ہیں گزارنے اور کچھ گزر گئے

جانے لگا ہے دل کی طَرَف ان کا ہاتھ اب
نالے شبِ فراق کے کچھ کام کر گئے

حسرت کا یہ مزا ہے کہ نکلے نہیں کبھی
ارماں نہیں ہیں وہ، کہ شب آئے سحر گئے

بس ایک ذات حضرتِ شیدا کی ہے یہاں
دہلی سے رفتہ رفتہ سب اہلِ ہنر گئے

(مسیح الملک حکیم اجمل خاں شیدا)
ماخذ: نقوش غزل نمبر، لاہور، 1985ء
---------
بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
افاعیل - مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
(آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)
اشاری نظام - 122 1212 1221 212
ہندسے دائیں سے بائیں، اردو کی طرح پڑھیے۔
(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع -
کچھ بات ہی تھی ایسی کہ تھامے جگر گئے
ہم اور جاتے بزمِ عدو میں؟ مگر گئے
کُچ بات - مفعول - 122
ہی تِ ایسِ - فاعلات - 1212
کِ تامے جِ - مفاعیل - 1221
گر گئے - فاعلن - 212

ہم اور - مفعول - 122
جاتِ بزمِ - فاعلات - 1212
عدو مے مَ - مفاعیل - 1221
گر گئے - فاعلن - 212
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 16, 2009

سلسلۂ ٹیگیہ بلاگیہ

جناب خرم بھٹی صاحب نے اس کھیل نما سلسلے میں اس خاکسار کو یاد کیا تھا، بوجوہ جلدی لبیک نہ کہہ سکا لیکن بہرحال حکم کی تعمیل واجب تھی سو حاضر ہوں۔

انٹرنیٹ پر آپ روزانہ کتنا وقت صرف کرتے ہیں؟
بارہ سے چودہ گھنٹے، اس میں دفتری اوقات کے آٹھ، نو گھنٹے بھی شامل ہیں کہ کام کی نوعیت ہی کچھ ایسی ہے۔

انٹرنیٹ آپ کے رہن سہن میں کیا تبدیلی لایا ہے؟
کوئی خاص نہیں، میں پہلے بھی اپنے کمرے میں بند رہتا تھا اور اب بھی رہتا ہوں، ہاں یہ فرق آیا کہ پہلے بستر پر دراز ہو کر پڑھتا رہتا تھا اور اب کرسی پر کمپیوٹر کے سامنے بیٹھا رہتا ہوں۔

کیا انٹرنیٹ نے آپ کی سوشل یا فیملی لائف کو متاثر کیا ہے اور کس طرح؟
میری سوشل لائف میرے گھر کی چاردیواری تک محدود ہے سو اس کو تو قطعاً متاثر نہیں کیا۔ فیملی لائف کی یہ کہ انٹرنیٹ میری زندگی میں پہلے داخل ہوا تھا اور بیوی بچے بعد میں، سو انہوں نے سمجھوتہ کیا ہے میرے ساتھ۔

اس علت سے جان چھڑانے کی کبھی کوشش کی اور کیسے؟
کافی کوشش کر چکا ہوں لیکن یہ علت چھوٹتی نہیں، مطالعہ میرے لیے آکسیجن کی طرح ہے، لیکن پچھلے چند سالوں سے بالخصوص جب سے میں اردو محفل، بلاگ اور فیس بُک پر فعال ہوا ہوں، میرے مطالعے میں بہت بری طرح کمی واقع ہوئی ہے، اسکا مجھے بہت دکھ ہے اور بعض دفع اسی رنج و غم میں گھر میں انٹرنیٹ کو چھوڑ دیتا ہوں اور مطالعے کو زیادہ وقت دیتا ہوں جیسے ابھی پچھلوں دنوں میں یہی کام کر رہا تھا لیکن افسوس کہ میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں لیکن کمبل مجھے نہیں چھوڑتا۔

کیا انٹرنیٹ آپ کی آؤٹ ڈور کھیلوں میں رکاوٹ بن چکا ہے؟
مدت ہوئی لڑکپن گزرے اور اتنا ہی عرصہ ہوا آؤٹ ڈور کھلیوں کو چھوڑے بلکہ آؤٹ ڈور کی کیا تخصیص، ان ڈور کھیلیں بھی میری زندگی میں نہیں بجز کمپیوٹر گیمز کے، جو مجھے بہت پسند ہیں اور کھیلتا بھی ہوں۔

اور اب کچھ دیگر احباب کو ٹیگ کرنا تھا لیکن یہ موضوع کب سے ختم ہو چکا سو اس کو یہیں ختم کرتا ہوں، ان اشعار پر جو کسی شاعر نے سعدی کی مدح میں کہے تھے۔

در شعر سه تن پیمبرانند
هر چند که لانبی بعدی
اوصاف و قصیده و غزل را
فردوسی و انوری و سعدی

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 29, 2009

مولانا رومی کی ایک غزل - نہ من بیہودہ گردِ کوچہ و بازار می گردَم

پچھلے دنوں یوٹیوب پر فارسی کلام ڈھونڈتے ڈھونڈتے مولانا رومی کی ایک غزل تک پہنچ گیا جو استاد نصرت فتح علی خان قوّال نے گائی ہے۔ سوچا فارسی، شاعری، رومی، موسیقی، قوّالی، نصرت یا فقط 'یو ٹیوب' کو پسند کرنے والے احباب کی خدمت میں پیش کر دوں۔

میں اس غزل کے سحر میں کئی دنوں سے گرفتار ہوں اور اس اسیری سے رہائی بھی نہیں چاہتا، فقط ایک کمی محسوس ہوتی ہے کہ اس غزل کے صرف وہی پانچ اشعار مل سکے جو نصرت نے گائے ہیں۔ رومی ایسے شعراء کیلیے پندرہ بیس اشعار کی غزل کہنا ایک عام بات تھی، تین تو مطلعے ہیں اس غزل کے۔

آن لائن یونی کوڈ دیوانِ شمس (مولانا رومی کا دیوان جو انہوں نے اپنے مرشد شمس تبریز کے نام کیا ہے) میں بھی یہ غزل نہیں ملی۔ کہتے ہیں کہ سلامِ دہقانی خالی از مطلب نیست سو اس غزل کو یہاں پوسٹ کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اگر کسی دوست کو یہ غزل کہیں سے مل سکے تو ضرور شیئر کریں۔

اس غزل کی ردیف، می گردم (میں گھومتا ہوں) میں مولوی رومی یا سلسلۂ مولویہ کا فلسفہ مضمر ہے، اس سلسلے کے ترک درویش سماع کے وقت ایک مخصوص اندازمیں گھومتے ہیں۔ اسطرح کے گھومنے سے انکی مراد کائنات کی گردش کے ساتھ مطابقت یا synchronization ہے۔ ہاتھوں اور سر کا انداز بھی مخصوص ہوتا ہے، عموماً دایاں ہاتھ اوپر کی طرف اور بایاں نیچے کی طرف ہوتا کہ اوپر والے ہاتھ سے کائنات یا آسمان سے مطابقت اور نیچے والے سے زمین کے ساتھ ہو رہی ہے، سر کا جھکاؤ دائیں طرف یعنی نگاہیں دل کی طرف ہوتی ہیں۔ کمال اتا ترک کے انقلاب سے پہلے یہ مخصوص رقص ترکی میں بہت عام تھا اور ہر خانقاہ اور زاویے پر اسکی محفلیں منعقد کی جاتی تھیں، اتا ترک نے اور بہت سی چیزوں کے ساتھ ساتھ اس سماع اور رقص کو بھی بند کرا دیا تھا اور اسکی اجازت فقط مولانا کے عرس کے موقعے پر قونیہ میں انکے مزار پر تھی۔

تقریباً اسی زمین میں شیخ سیّد عثمان شاہ مروندی معروف بہ لال شہاز قلندر کی بھی ایک خوبصورت غزل ہے

نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم
مگر نازم بہ آں ذوقے کہ پیشِ یار می رقصم
(یہ غزل اس ربط پر پڑھی جا سکتی ہے)

تقریباً اس لیے کہا کہ کسی شاعر کی زمین میں غزل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف اسکی بحر بلکہ قافیہ اور ردیف (ردیف اگر ہے) بھی ایک جیسی ہونی چاہیے، یہ دونوں غزلیں ایک ہی بحر میں، ایک ہی قافیے کے ساتھ ہیں لیکن ردیف مختلف ہے، مولانا رومی کی ردیف اگر انکے سلسلے کے رقص و سماع کی آئینہ دار ہے تو شیخ عثمان کی ردیف، می رقصم (میں رقص کرتا ہوں) انکے سلسلے کی، قلندری دھمال کی شہرت چہار دانگ عالم ہے۔ میں نہیں جانتا کہ پہلے کس نے غزل کہی اور کس نے دوسرے کی زمین استعمال کی کہ دونوں بزرگ ہمعصر تھے اور یہ بات بھی مشہور ہے کہ انکے روابط بھی تھے۔

اور دھمال سے ایک واقعہ یاد آ گیا، پچھلی صدی کی نوے کی دہائی کے نصف کی بات ہے، خاکسار لاہور میں زیرِ تعلیم تھا اور جائے رہائش گلبرگ مین مارکیٹ تھی، ایک دن وہاں شاہ جمال کے عرس کیلیے چندہ جمع کرنے کیلیے ایک 'چادر' نکلی جس میں پپو سائیں ڈھول بجا رہا تھا اور ساتھ میں دھمال پارٹی تھی۔ پپو سائیں اب تو پوری دنیا میں اپنے ڈھول بجانے کے فن کی وجہ سے مشہور ہو گیا ہے لیکن اس وقت اس کی مقامی شہرت کا آغاز ہو رہا تھا۔ اسی شہرت کو 'کیش' کرانے کے متعلق کچھ رازِ ہائے درونِ خانہ بھی اس خاکسار کے سینے میں ہیں کہ اسی وجہ سے اب تک ایک نوجوان کسی جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے۔ خیر ذکر دھمال کا تھا، شام کو جب سب دوست کمرے میں اکھٹے ہوئے تو اس بات کا ذکر ہوا، خوشاب کے ایک دوست نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک دوسرے سیالکوٹی دوست سے کہا کہ اگر آج یہ دھمال کہیں اور ہو رہی ہوتی تو اسکی دھمال بھی دیکھنے والی ہوتی مگر یہ اس وجہ سے رک گیا کہ یہاں اسکے کچھ شناسا موجود تھے۔

اور میں اس دوست کی بات سن کر حیران پریشان رہ گیا کہ اس کو میرے دل کی منافت کا کیسے علم ہو گیا گو یہ منافقت بہت سالوں بعد ختم ضرور ہوئی۔ 'می رقصم' کی تو یہ رہی، 'می گردم' نے بھی لاہور کی گلیوں اور کوچہ بازاروں کے بہت چکر لگوائے ہیں، خیر جانے دیجیئے، آپ بھی کیا کہیں گے کہ یہ غزل سے غزالاں تک جا پہنچا۔

غزل پیشِ خدمت ہے

نہ من بیہودہ گردِ کوچہ و بازار می گردَم
مذاقِ عاشقی دارم، پئے دیدار می گردَم

میں کُوچہ بازار میں یونہی آوارہ اور بے وجہ نہیں گھومتا بلکہ میں عاشقی کا ذوق و شوق رکھتا ہوں اور یہ سب کچھ محبوب کے دیدار کے واسطے ہے۔

خدایا رحم کُن بر من، پریشاں وار می گردم
خطا کارم گنہگارم، بہ حالِ زار می گردم

اے خدا مجھ پر رحم کر کہ میں پریشان حال پھرتا ہوں، خطار کار ہوں، گنہگار ہوں اور اپنے اس حالِ زار کی وجہ سے ہی گردش میں ہوں۔

Mazar Maulana Rumi, مزار مولانا رُومی, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
Mazar Maulana Rumi, مزار مولانا رُومی
شرابِ شوق می نوشم، بہ گردِ یار می گردم
سخن مستانہ می گویم، ولے ہشیار می گردم

میں شرابِ شوق پیتا ہوں اور دوست کے گرد گھومتا ہوں، میں اگرچہ شرابِ شوق کی وجہ سے مستانہ وار کلام کرتا ہوں لیکن دوست کے گرد طواف ہوشیاری سے کرتا ہوں یعنی یہ ہوش ہیں کہ کس کے گرد گھوم رہا ہوں۔

گہے خندم گہے گریم، گہے اُفتم گہے خیزم
مسیحا در دلم پیدا و من بیمار می گردم

اس شعر میں ایک بیمار کی کیفیات بیان کی ہیں جو بیم و رجا میں الجھا ہوا ہوتا ہے کہ کبھی ہنستا ہوں، کبھی روتا ہوں، کبھی گرتا ہوں اور کبھی اٹھ کھڑا ہوتا ہوں اور ان کیفیات کو گھومنے سے تشبیہ دی ہے کہ میرے دل میں مسیحا پیدا ہو گیا ہے اور میں بیمار اسکے گرد گھومتا ہوں۔ دل کو مرکز قرار دے کر اور اس میں ایک مسیحا بٹھا کر، بیمار اسکا طواف کرتا ہے۔

بیا جاناں عنایت کُن تو مولانائے رُومی را
غلامِ شمس تبریزم، قلندر وار می گردم

اے جاناں آ جا اور مجھ رومی پر عنایت کر، کہ میں شمس تبریز کا غلام ہوں اور دیدار کے واسطے قلندر وار گھوم رہا ہوں۔ اس زمانے میں ان سب صوفیا کو قلندر کہا جاتا تھا جو ہر وقت سفر یا گردش میں رہتے تھے۔

یو ٹیوب ویڈیوز بشکریہ ثاقب طاہر۔




مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 28, 2009

ایک تازہ غزل

ایک تازہ غزل دوستوں کے نام

تازہ ہوا کا جھونکا بنایا گیا مجھے
دنیائے بے نمو میں پھرایا گیا مجھے
میں آنکھ سے گرا تو زمیں کے صدف میں تھا
بہرِ جمالِ عرش اُٹھایا گیا مجھے
سازش میں کون کون تھا، مجھ کو نہیں ہے علم
مُصحَف میں اک ہی نام بتایا گیا مجھے
بخشی گئی بہشت مجھے کس حساب میں؟
دوزخ میں کس بنا پہ جلایا گیا مجھے؟
چیخا کبھی جو دہر کے ظلم و ستم پہ میں
قسمت کی لوری دے کے سُلایا گیا مجھے
بیدادِ دہر نے جو کیا سنگ دل ہمیں
تو کربلا دکھا کے رُلایا گیا مجھے
تسخیرِ کائنات کا تھا مرحلہ اسد
یوں ہی نہیں یہ علم سکھایا گیا مجھے

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 19, 2009

نظیری نیشاپوری کی ایک شاہکار غزل - کرشمہ دامنِ دل می کشَد کہ جا اینجاست

نظیری نیشاپوری کی ایک شاہکار غزل
محمد حسین نظیری نیشاپوری کا شمار مغلیہ دور کے عظیم ترین شعراء میں سے ہوتا ہے۔ اس دور کی روایت کے عین مطابق نظیری نے بہت قصیدے لکھے اور بہت عرصے تک خانخاناں کے دربار سے وابستہ رہے اور خوب خوب مدح سرائی کی لیکن نظیری کی اصل شہرت انکی غزلیات کی وجہ سے ہے جس میں جدت طرازی انکا طرۂ امتیاز ہے۔
مولانا شبلی نعمانی انکے متعلق 'شعر العجم' (جلد سوم) میں لکھتے ہیں۔
"ابتدائے تمدن میں میں معشوق کے صرف رنگ و روپ اور تناسبِ اعضا کا خیال آیا اور اس کیلیے حسن ایک عام لفظ ایجاد کیا گیا لیکن جب رنگینیِ طبع اور نکتہ سنجی بڑھی تو معشوق کی ایک ایک ادا الگ الگ نظر آئی اور وسعتِ زبان نے انکے مقابلہ میں نئے نئے الفاظ مثلاً کرشمہ، غمزہ، ناز، ادا وغیرہ وغیرہ تراشے۔ اس قسم کے الفاظ اور ترکیبیں جدت پسند طبیعتیں ایجاد کرتی ہیں اور یہی طبعیتیں ہیں جن کو اس شریعت کا پیغمبر کہنا چاہیے۔ ان الفاظ کی بدولت آیندہ نسلوں کو سیکڑوں، ہزاروں خیالات اور جذبات کے ادا کرنے کا سامان ہاتھ آ جاتا ہے، نظیری اس شریعت کا اولوالعزم پیغمبر ہے، اس نے سیکڑوں نئے الفاظ اور سیکڑوں نئی ترکیبیں ایجاد کیں، یہ الفاظ پہلے سے موجود تھے لیکن جس موقع پر اس نے کام لیا یا جس انداز سے ان کو برتا شاید پہلے اس طرح برتے نہیں گئے تھے۔"
نظیری کی غزل پیشِ خدمت ہے۔
حریفِ صافی و دُردی نہ ای خطا اینجاست
تمیزِ ناخوش و خوش می کُنی بلا اینجاست

تُو نہ تو صاف اور نہ ہی تلچھٹ پینے کا متحمل ہے اور یہی تیری خطا ہے، تُو ناخوش اور خوش کی تمیز کرتا ہے یہی تیری بلا ہے۔ یعنی زندگی کے صرف ایک اور اچھے رخ کی خواہش یا آرزو ہی مصیبت کی جڑ ہے۔
بغیرِ دل ھمہ نقش و نگار بے معنیست
ھمیں ورق کہ سیہ گشتہ مدّعا اینجاست

دل کے بغیر تمام نقش و نگار بے معنی ہیں، یہی ورق (یعنی دل) جو سیاہ ہو گیا ساری بات اور سارا مدعا تو یہیں ہے یعنی ظاہری نقش و نگار چاہے جتنے بھی خوب ہوں سیاہ دل کے ساتھ بے معنی ہیں۔
یہ شعر سب سے پہلے میں نے مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب 'غبارِ خاطر' میں پڑھا تھا اور بہت پسند آیا، مولانا کو بھی بہت پسند رہا ہوگا کہ یہ شعر دو مختلف جگہوں پر لکھا ہے اور میرے لیے اسی شعر نے غزل ڈھونڈنے کیلیے مہمیز کا کام کیا جو بلآخر ایک درسی کتاب میں مل ہی گئی۔
ز فرق تا قَدَمَش ہر کجا کہ می نگرَم
کرشمہ دامنِ دل می کشَد کہ جا اینجاست

اسکے سر سے لیکر اسکے قدموں تک میں جہاں بھی (جس حصے کو بھی) دیکھتا ہوں انکی رعنائی میرے دامنِ دل کو کھینچتی ہے کہ دیکھنے کی جگہ یہیں ہے، محبوب کی تعریف سر سے پاؤں تک کر دی ہے۔
خطا بہ مردمِ دیوانہ کس نمی گیرَد
جنوں نداری و آشفتہ ای خطا اینجاست

کسی دیوانے کو کوئی بھی خطا وار نہیں سمجھتا، (لیکن اے عاشق تجھ پر جو لوگ گرفت کر رہے ہیں اسکی وجہ یہ ہے کہ) تو پریشان حال تو ہو گیا ہے لیکن جنون نہیں رکھتا اور یہی تیری خطا ہے جس پر پکڑ ہے، یعنی ابھی تیرا عشق خام ہے، جب اس مفلوک الحالی میں جنون بھی شامل ہو جائے گا تو پھر تُو کامل ہوگا اور دنیا کی گرفت سے آزاد۔
ز دل بہ دل گذَری ہست، تا محبت ہست
رہِ چمن نتواں بست تا صبا اینجاست

جب تک محبت ہے دل کو دل سے راہ رہے گی، جب تک بادِ صبا یہاں ہے چمن کا راستہ بند نہیں کیا جا سکتا یعنی حسن و عشق کا تعلق تب تک رہے گا جب تک چمن اور صبا کا تعلق ہے یعنی تا قیامت۔
بدی و نیکیِ ما، شکر، بر تو پنہاں نیست
ہزار دشمنِ دیرینہ، آشنا اینجاست

شکر ہے (خدا کا) کہ ہماری بدی اور نیکی تجھ (محبوب) سے پنہاں نہیں ہے کہ ہمارے ہزار پرانے آشنا دشمن یہاں موجود ہیں، مطلب یہ کہ وہ ہماری کوئی بھی برائی اگر تمھارے سامنے کریں گے تو پروا نہیں کہ تو پہلے ہی سے جانتا ہے۔
سرشکِ دیدۂ دل بستہ بے تو نکشایَد
اگرچہ یک گرہ و صد گرہ کشا اینجاست

میرے دیدۂ دل کے آنسوؤں کی جو گرہ بند گئی ہے وہ تیرے بغیر نہیں کھلنے کی، اگرچہ اس دنیا میں بہت سے گرہ کھولنے والے (مشکل کشا) موجود ہیں لیکن عاشق کا مسئلہ تو محبوب ہی حل کرے گا۔
بہ ہر کجا رَوَم اخلاص را خریداریست
متاع کاسِد و بازارِ ناروا اینجاست

میں جہاں کہیں بھی جاؤں میرے اخلاص کے خریدار موجود ہیں لیکن صرف اسی جگہ ہماری متاع (خلوص) ناقص ٹھہرا ہے اور بازار ناروا ہے۔
ز کوئے عجز نظیری سرِ نیاز مَکَش
ز ہر رہے کہ درآیند انتہا اینجاست

اے نظیری عجز و انکساری کے کوچے سے اپنا سرِ نیاز مت اٹھا، کہ جس راستے سے بھی آئیں انتہا تو یہیں (کوئے عجز) ہے۔ میری نظر میں یہ شعر بیت الغزل ہے۔
----------
بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
(آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فعِلان بھی آ سکتے ہیں)
اشاری نظام - 2121 2211 2121 22
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)
پہلے شعر کی تقطیع -
حریفِ صافی و دُردی نہ ای خطا اینجاست
تمیزِ ناخوش و خوش می کُنی بلا اینجاست
حریفِ صا - 2121 - مفاعلن
فِ یُ دردی - 2211 - فعِلاتن
نہ ای خطا - 2121 - مفاعلن
ای جاس - 122 - فعلان (چونکہ جاست میں پے در پے تین ساکن آ گئے یعنی الف سین اور ت سو تیسرا ساکن 'ت' ساقط ہو گیا ہے کہ اصول کے مطابق فقط دو ساکن ہی محسوب ہوتے ہیں اور اسکے بعد والے ساقط ہو جاتے ہیں اور کوئی وزن نہیں رکھتے، پوری غزل کی ردیف میں یہی معاملہ ہے)۔
تمیزِ نا - 2121 - مفاعلن
خُ شُ خُش می - 2211 - فعلاتن
کُنی بلا - 2121 - مفاعلن
ای جاس - 122 - فعلان
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 16, 2009

مثنوی 'اشتہار پنج آہنگ' از مرزا غالب

غالب کی ایک مثنوی 'قادر نامہ' ویب کی دنیا میں پہلی بار پیش کرنے کے بعد 'نسخۂ مہر' سے غالب کی ایک اور مثنوی لکھ رہا ہوں کہ یہ بھی ویب پر 'غیر مطبوعہ' ہے۔
تعارف
'پنج آہنگ' غالب کی فارسی نثر کی کتاب ہے اور پانچ حصوں پر مشتمل ہے جس میں غالب نے القاب و آداب، لغاتِ فارسی، اشعارِ مکتوبی، تقاریظ اور مکاتیب وغیرہ لکھے ہیں۔ یہ کتاب سب سے پہلے اگست 1849ء میں شاہی قلعے کے مطبع میں شائع ہوئی اور اس کتاب کی اشاعت سے پہلے غالب نے اسکا ایک منظوم اشتہار مثنوی کی صورت میں لکھا جو اخبار میں شائع ہوا۔
مولانا غلام رسول مہر مثنوی کے تعارف میں رقم طراز ہیں:
"پنج آہنگ" کا منظوم اشتہار بھی ایک نادر چیز ہے، یہ مثنوی میں نے سب سے پہلے علی گڑھ کالج میگزین کے "غالب نمبر" (حصہ آثارِ غالب مرتبہ قاضی عبدالودود صاحب) میں دیکھی تھی۔
مثنوی سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اس زمانے میں لکھی گئی تھی جب پنج آہنگ شاہی مطبع میں زیرِ طبع تھی اور مطبع حکیم احسن اللہ خان کے اہتمام میں تھا۔ اشتہار حکیم غلام نجف خاں کی طرف سے تھا جیسا کہ آخر میں واضح کر دیا گیا ہے۔ عرشی صاحب کے بیان کے مطابق 'اسعد الاخبار' آگرہ میں چھپی تھی۔"
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee، Mirza Ghalib, مرزا غالب
Mirza Ghalib, مرزا غالب


مثنوی "اشتہار پنج آہنگ" از مرزا اسد اللہ خان غالب
مژدہ اے رہروانِ راہِ سخن
پایہ سنجانِ دستگانِ سخن
طے کرو راہِ شوق زود ازود
آن پہنچی ہے منزلِ مقصود
پاس ہے اب سوادِ اعظمِ نثر
دیکھیے چل کے نظمِ عالمِ نثر
سب کو اس کا سواد ارزانی
چشمِ بینش ہو جس سے نورانی
یہ تو دیکھو کہ کیا نظر آیا
جلوۂ مدّعا نظر آیا
ہاں یہی شاہراہِ دہلی ہے
مطبعِ بادشاہِ دہلی ہے
منطبع ہو رہی ہے پنج آہنگ
گل و ریحان و لالہ رنگا رنگ
ہے یہ وہ گلشنِ ہمیشہ بہار
بارور جس کا سرو، گُل بے خار
نہیں اس کا جواب عالم میں
نہیں ایسی کتاب عالم میں
اس سے اندازِ شوکتِ تحریر
اخذ کرتا ہے آسماں کا دبیر
مرحبا طرزِ نغز گفتاری
حبَّذا رسم و راہِ نَثّاری
نثرِ مدحت سراے ابراہیم (1)
ہے مقرّر جواب، پئے تعلیم
اس کے فقروں میں کون آتا ہے؟
کیا کہیں کیا وہ راگ گاتا ہے
تین نثروں سے کام کیا نکلے (2)
ان کے پڑھنے سے نام کیا نکلے
ورزشِ قصّۂ کہن کب تک؟
داستانِ شہِ دکن کب تک؟ (3)
تا کجا درسِ نثر ہائے کہن
تازہ کرتا ہے دل کو تازہ سخن
تھے ظہوری و عرفی و طالب
اپنے اپنے زمانے میں غالب
نہ ظہوری ہے اب، نہ طالب ہے
اسد اللہ خانِ غالب ہے
قول حافظ کا ہے بجا اے دوست
"ہر کرا پنج روز نوبتِ اوست"
کل وہ سرگرمِ خود نمائی تھے
شمعِ بزمِ سخن سرائی تھے
آج یہ قدر دانِ معنی ہے
بادشاہِ جہانِ معنی ہے (4)
نثر اس کی، ہے کارنامۂ راز
نظم اس کی، نگار نامۂ راز
دیکھو اس دفترِ معانی کو
سیکھو آئینِ نکتہ دانی کو
اس سے جو کوئی بہرہ ور ہوگا
سینہ گنجینۂ گہر ہوگا
ہو سخن کی جسے طلب گاری
کرے اس نسخے کی خریداری
آج جو دیدہ ور کرے درخواست
تین بھیجے روپے وہ بے کم و کاست
منطبع جب کہ ہو چکے گی کتاب
زرِ قیمت کا ہوگا اور حساب
چار سے پھر نہ ہوگی کم قیمت
اس سے لیویں گے کم نہ ہم قیمت (5)
جس کو منظور ہو کہ زر بھیجے
احسن اللہ خاں کے گھر بھیجے
وہ بہارِ ریاضِ مہر و وفا
جس کو کہتے ہیں عمدۃ الحکما
میں جو ہوں درپئے حصولِ شرف
نام عاصی کا ہے غلامِ نجف
ہے یہ القصّہ حاصلِ تحریر
کہ نہ ارسالِ زر میں ہو تاخیر
چشمۂ انطباع جاری ہے
ابتدائے ورق شماری ہے

حواشی از مولانا غلام رسول مہر
1- ابراہیم عادل شاہ فرمانروائے بیجا پور اور اسکا مدحت سرا ظہوری تھا جس نے ابراہیم کی مدح میں 'سہ نثر' لکھی۔ وہی نثر اس زمانے میں اور خود ہمارے زمانے میں پڑھائی جاتی تھی۔
2- سہ نثر
3- ابراہیم بادشاہ بیجا پور
4- یعنی ایک زمانے میں ظہوری، عرفی اور طالب سرگرمِ خود نمائی تھے، اب غالب جہانِ معنی کا بادشاہ ہے۔
5- مطلب یہ کہ دورانِ انطباع میں 'پنج آہنگ' کی قیمت تین روپے رکھی گئی تھی اور بعدِ انطباع چار روپے کا فیصلہ ہو گیا تھا۔ اس میں کمی کا کوئی امکان نہ تھا۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہو سکتا ہے کہ بادشاہی مطبع میں کتابوں کی قیمت بہت زیادہ تھی۔ دوسرے مطبعوں میں تمام کتابیں نسبتاً ارزاں ملتی تھیں، پھر منشی نول کشور نے تو ارزانی کی حد کر دی کہ بڑی بڑی اور ضخیم کتابیں بہت کم قیمت پر بازار میں پہنچا دیں۔ کتاب حکیم نجف خاں نے چھاپی تھی اور شاہی مطبع حکیم احسن اللہ خان کے زیرِ اہتمام تھا۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔