Jan 5, 2010

فارسی غزلِ غالب مع تراجم - مژدۂ صبح دریں تیرہ شبانم دادند

غالب کی درج ذیل غزل کا شمار بھی غالب کی شاہکار غزلوں میں سے ہوتا ہے۔ یہ غزلِ مسلسل ہے اور اس میں غالب کی شاعرانہ تعلی عروج پر ہے۔ غالب کو اپنی شاعرانہ عظمت اور منفرد شخصیت کا بھر پور اور شدید احساس تھا اور اردو کلام میں بھی انہوں نے اس کا اظہار کیا ہے لیکن اس غزل میں تو اس موضوع کو انہوں نے دوام بخش دیا ہے۔ صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کے الفاظ میں "اس میں صرف حسنِ بیان ہی نہیں بلکہ شعر کہنے والے کے دل و دماغ اور اسکی سوچ کی گہرائی اور وسعت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ اسلوبِ بیان کی فنکارانہ مہارت اور ندرت نے اشعار میں بڑا حسین لطف پیدا کیا ہے"۔

اس غزل کے اشعار 3 تا 8 خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ مولانا الطاف حسین حالی ان اشعار کے متعلق یادگارِ غالب میں ارشاد فرماتے ہیں۔ "قضا و قدر نے جو کچھ عرب کی فتوحات کے وقت عجم سے چھینا اسکے عوض میں مجھ کو، کہ میں بھی عجمی الاصل ہوں، کچھ نہ کچھ دیا"۔

صوفی تبسم نے مولانا حالی کی رائے سے تھوڑا اختلاف کیا ہے، فرماتے ہیں "خادم اس سلسلے میں صرف اتنا کہنے کی جسارت کرتا ہے کہ مجھے مولانا کے الفاظ عرب کی فتوحات سے اختلاف ہے۔ مرزا صاحب اپنے آپ کو ایرانی اور تورانی، تہذیبی روایت کا وارث سمجھتے تھے اور اس پر نازاں تھے، اور اس بات کو قدرت کی طرف منسوب کرتے تھے۔ قدیم ایرانی شوکت و جاہ سے انھیں جو کچھ ملا، وہ تاج و گوہر کی صورت میں نہیں بلکہ ادب پاروں کی شکل میں ملا"۔

پروفیسر رالف رسل، مطلع کے بعد باقی کے اشعار کے متعلق یوں رائے زن ہیں۔

"The remaining verses lament the passing of the glory and the beauty of ancient, pre-Islamic Iran, where fire was worshiped, wine was drunk, there were idols in the temples, and the blowing of conches accompanied worship. Ghalib claims he is the heir to all this, and that his poetry has the power to re-create it............ Ghalib prided himself on this ability."


غزل پیشِ خدمت ہے۔
Mirza Ghalib, مرزا غالب, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
Mirza Ghalib, مرزا غالب
شعرِ غالب
مژدۂ صبح دریں تیرہ شبانم دادند
شمع کشتند و ز خورشید نشانم دادند

صوفی غلام مصطفٰی تبسم
ان سیاہ راتوں میں مجھے صبح کی بشارت دی گئی۔ شمع کو بجھا دیا اور سورج کی نشان دہی کی گئی۔

افتخار احمد عدنی
شمع گل کرکے سحر نور فشاں دی مجھ کو
اور اک طلعتِ خورشید نشاں دی مجھ کو

پروفیسر رالف رسل
In my dark nights they brought me the good tidings of the morning
Put out the candles, turning me towards the rising sun


شعرِ غالب
رخ کشودند و لب ہرزہ سرایم بستند
دل ربودند و دو چشمِ نگرانم دادند

صوفی تبسم
مجھے اپنا جلوہ دکھا کر میرے بیہودہ گو لبوں کو سی دیا گیا، میرا دل چھین لیا اور اسکے عوض دیکھنے والی دو آنکھیں عطا کر دی گئیں۔

عدنی
اک جھلک ایسی دکھائی کہ کیا مہر بلب
دل مرا چھین کے چشمِ نگراں دی مجھ کو

رسل
They showed their faces, and at once my babbling tongue was silenced
They took my heart away from me, and gave me eyes to see


شعرِ غالب
سوخت آتش کدہ ز آتش نفسم بخشیدند
ریخت بتخانہ ز ناقوس فغانم دادند

صوفی تبسم
آتش کدہ جل کر راکھ ہوا تو اسکی آگ میرے سانس کو مل گئی۔ بت خانہ گرا تو اسکے ناقوس کی فریاد مجھے عطا ہوئی۔

عدنی
سرد آتشکدہ کرکے مجھے آتش بخشی
ہوا ناقوس جو خاموش، فغاں دی مجھ کو

رسل
They burnt the fire-temples, and breathed their fire into my spirit
Cast idols down, and let the conches sound in my lament


شعرِ غالب
گہر از رایتِ شاہانِ عجم برچیدند
بعوض خامۂ گنجینہ فشانم دادند

صوفی تبسم
شاہانِ عجم کے جھنڈوں کے موتی اُتار لیے گئے اور اسکے عوض وہ قلم عنایت ہوا جو خزانہ لٹانے والا ہے۔

عدنی
سب گہر رایتِ شاہانِ عجم کے چن کر
اک قلم، نادر و گنجینہ فشاں دی مجھ کو

رسل
They plucked the pearls that once had decked the banner of their kings
And gave me them to scatter from the treasury of my pen


شعرِ غالب
افسر از تارکِ ترکانِ پشنگی بردند
بسخن ناصیۂ فرکیانم دادند

صوفی تبسم
ترکوں کے سر سے تاج اتار لیا گیا اور مجھ کو شاعری میں اقبالِ کیانی مرحمت ہوا۔


شعرِ غالب
گوہر از تاج گسستند و بدانش بستند
ہر چہ بردند بہ پیدا، بہ نہانم دادند

صوفی تبسم
تاج سے موتی توڑ لیے گئے اور انھیں علم و دانش میں جڑ دیا گیا، جو کچھ علی الاعلان لوٹا تھا وہ مجھے خاموشی اور پوشیدہ طور پر دے دیا۔

عدنی
تھے جو سب تاج کے گوہر مری دانش میں جڑے
اور خاموشی سے یہ نقدِ گراں دی مجھ کو

رسل
Prised from their crown, they set the jewels in my crown of wisdom
All that men saw them take away, they secretly gave back


شعرِ غالب
ہر چہ در جزیہ ز گبراں، مئےِ ناب آوردند
بشبِ جمعۂ ماہِ رمضانم دادند

صوفی تبسم
آتش پرستوں سے جو شراب جزیے کے طور پر لی گئی، وہ ماہ رمضان کی شبِ جمعہ کو مجھے عنایت ہوئی۔

عدنی
وہ مےِ ناب جو ہاتھ آئی بطورِ جزیہ
بہ شبِ جمعۂ ماہِ رمضاں دی مجھ کو

رسل
The wine they took as tribute from the worshippers of fire
They gave to me one Friday in the month of Ramazan


شعرِ غالب
ہر چہ از دستگہِ پارس بہ یغما بردند
تا بنالم ہم ازآں جملہ زبانم دادند

صوفی تبسم
غرض کہ پارس کی جو پونجی لٹ گئی تھی، اس میں سے زبان مجھے دے دی تاکہ میں فریاد کروں۔

عدنی
فارس کی ساری متاع لوٹ کے اس کے بدلے
بہرِ فریاد فقط ایک زباں دی مجھ کو

رسل
From all they took in booty from the treasures of Iran
They gave to me a tongue in which to utter my lament


شعرِ غالب
دل ز غم مردہ و من زندہ ہمانا ایں مرگ
بود ارزندہ بماتم کہ امانم دادند

صوفی تبسم
میرا دل تو (غم) سے مر چکا ہے لیکن میں زندہ ہوں، اسکی وجہ لازماً یہی ہے کہ موت میرے ماتم کے مناسب تھی، اس سے مجھے محفوظ رکھا اور اسے سلامت رکھا تاکہ وہ میرا ماتم کرتی رہے۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 30, 2009

غالب کے لطیفے

مولانا الطاف حسین حالی نے 'یادگارِ غالب' میں مرزا غالب کو 'حیوانِ ظریف' لکھا ہے اور یقیناً کچھ سوچ سمجھ کر ہی لکھا ہوگا، دراصل مرزا کی بذلہ سنجی، ستم ظریفی اور ذوقِ مزاح ہمیں جا بجا مرزا کی تحاریر و تقاریر اور انکی روزمرہ کی زندگی میں ملتا ہے جنہیں بڑی آسانی سے 'لطائف' کا نام دیا جا سکتا ہے سو انہی لطائف کو جو اِدھر اُدھر بکھرے ہوئے تھے ان کو اس خاکسار نے غالب کے شائقین کیلیے مرتب کیا تھا، جس میں ظاہر ہے میرا اپنا نام بھی شامل ہے۔ یہ لطائف یقیناً بہت سے احباب کیلیے نئے نہیں ہونگے کہ ان میں سے کچھ تو ہمیں درسی کتب میں بھی پڑھائے جاتے تھے اور کچھ وقتاً فوقتاً نظر سے گزرتے ہی رہتے ہیں، ہاں یہ ضرور ہے کہ ان کو میں نے یکجا کردیا ہے جو اس ربط پر پڑھے جا سکتے ہیں۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 22, 2009

شاہ است حُسین - گُلہائے عقیدت

سید الشہدا، سبطِ نبی (ص) ، فرزندِ علی (ع)، امامِ عالی مقام، حضرت امام حسین علیہ السلام کی بارگاہ میں عقیدت بھرا سلام کہنا اردو شاعری میں موضوع کے لحاظ سے ایک اہم صنفِ سخن ہے۔ قدیم و جدید اردو شعراء نے بلا تفریقِ مذہب و ملت و عقیدہ، امام عالی مقام کے حضور میں نذرانۂ عقیدت پیش کیے ہیں۔

واقعۂ کربلا، امام حسین کی اولوالعزمی، شجاعت، استقامت، آپ کے رفقا کی وفاداری و جان نثاری، آپ کے اہلِ بیت کے مصائب، حُر کی حق شناسی، نہ صرف مرثیہ اور سلام کے اہم موضوع ہیں بلکہ اردو شاعری میں استعارہ اور علامت کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں اور قریب قریب سبھی مشہور شعراء نے اپنی اپنی فکر کے مطابق ان کو استعمال کیا ہے۔

میں یہاں پر اردو شعراء کرام کے کلام میں جو سلام موجود ہیں ان میں سے کچھ کا انتخاب پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔ میرے مآخذ، شعراء کے دواوین و کلیات اور مختلف انتخاب ہیں۔ ویب پر بھی مختلف کلام ملتا ہے لیکن بہر حال ان میں املاء کی اغلاط ہیں۔ ایک التزام میں نے یہ کیا ہے کہ نسبتاً معروف اور جدید شعرا کا کلام پیش کیا ہے۔ اس انتخاب میں مندرجہ ذیل شعراء کا کلام پڑھا جا سکتا ہے۔

میر تقی میر، مرزا غالب، حسرت موہانی، محمد علی جوہر، نظم طباطبائی، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، عبدالحمید عدم، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر، گردھاری پرشاد باقی، احمد فراز، منیر نیازی، امجد اسلام امجد، قتیل شفائی، پروین شاکر، واصف علی واصف، انور مسعود، کوثر نیازی، حفیظ تائب، اقبال ساجد، فارغ بخاری، عطاءالحق قاسمی، خالد احمد، محمد اعظم چشتی، ثروت حسین، افتخار عارف، شورش کاشمیری، شہزاد احمد، اختر حسین جعفری، صبا اکبر آبادی، سبط علی صبا، غلام محمد قاصر، خورشید رضوی، جلیل عالی، جوش ملیح آبادی، عرفان صدیقی، حفیظ جالندھری، وحید الحسن ہاشمی، عباس حیدر زیدی، انور شعور، تابش دہلوی، سراج الدین سراج، فہیم ردولوی، ظفر اکبر آبادی، وغیرہم۔

انتخاب اس ربط پر پڑھیے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 19, 2009

آتش پارے از سعادت حسن منٹو

سعادت حسن منٹو سا بدنام مصنف بھی شاید ہی کوئی ہوگا، ان کا نام سامنے آتے ہی بہت سے 'ثقہ' حضرات ناک بُھوں چڑھا کر ناگواری کا اظہار کرتے ہیں اور بہت سے "مسخرے" ذومعنی ہنسی ہنسنا شروع کر دیتے ہیں لیکن اردو ادب کا شاید ہی کوئی سنجیدہ قاری ہوگا جو منٹو کے فن کا معترف نہ ہو۔
منٹو کی جو کتاب میں آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں، اسکا تعارف اسکے نام میں ہی پوشیدہ ہے۔" آتش پارے" میں منٹو کی جوانی کی تحریریں ہیں، وہ تحریریں جو منٹو کی نمائندہ تحریریں کبھی بھی نہ بن سکیں بلکہ بہت سوں کو تو یہ علم بھی نہ ہوگا کہ منٹو اس طرح کی حریتِ فکر کا مجاہد بھی تھا۔
منٹو مرحوم اس کتاب کے یک سطری دیباچے میں لکھتے ہیں۔
"یہ افسانے دبی ہوئی چنگاریاں ہیں، ان کو شعلوں میں تبدیل کرنا پڑھنے والوں کا کام ہے۔"
Saadat Hasan Manto, سعادت حسن منٹو, Afsany, افسانے
Saadat Hasan Manto, سعادت حسن منٹو
افسوس کہ یہ چنگاریاں کبھی بھی شعلے نہ بن سکیں بلکہ منٹو کے ساتھ ہی راکھ میں مل گئیں، اس راکھ کو 'تبرک' کے طور پر آج سے دو سوا دو سال پہلے ویب کے 'برقی سرد خانے' میں محفوظ کیا تھا وہی آج اپنے بلاگ پر بھی لکھ رہا ہوں۔
اس جگر سوختہ کتاب میں ذیل کے آٹھ افسانے ہیں۔
1- خونی تُھوک
2- انقلاب پسند
3- جی آیا صاحب
4- ماہی گیر
5- تماشا
6- طاقت کا امتحان
7- دیوانہ شاعر
8- چوری

مکمل کتاب اس ربط پر پڑھیے۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 17, 2009

کتاب 'تعلیم اور ادب و فن کے رشتے' از احمد ندیم قاسمی


احمد ندیم قاسمی مرحوم کی ذات کسی تعارف کی محتاج نہیں، آپ ایک ہمہ جہتی شخصیت تھے، شاعر، افسانہ نویس، مدیر، صحافی اور ماہرِ تعلیم۔
مذکورہ کتاب، قاسمی صاحب کے دس فکر انگیز مضامین پر مشتمل ہے جو انہوں نے پچھلی صدی میں ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں تحریر کیے۔ یہ کتاب "تحقیقی و ترقیاتی مرکز برائے نصابِ تعلیم، محکمہ تعلیم، پنجاب" کے اہتمام سے شائع ہوئی تھی۔ کتاب میں سنِ اشاعت تو نہیں لکھا ہوا لیکن قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ 1973 میں چھپی ہوگی۔
یہ کتاب چونکہ قاسمی صاحب نے محکمۂ تعلیم کو بلا معاوضہ شائع کرنے کی اجازت دی تھی، اسلیے مجھے بہتر معلوم ہوا کہ اسکو ٹائپ کر کے یہاں پر پیش کیا جائے تاکہ قاسمی صاحب کے یہ نادر و نایاب مضامین محفوظ رہ سکیں۔
گو کہ مضامین پرانے ہیں لیکن ان میں قاسمی صاحب نے جن حقائق کی طرف اشارہ کیا ہے اور ہمارے نظامِ تعلیم کی جن خامیوں کو اجاگر کیا ہے وہ نہ صرف اسی طرح موجود ہیں بلکہ شاید پہلے سے بھی بڑھ گئی ہیں اسلئے ان مضامین کی حقانیت ویسے ہی ہے جیسے کہ تیس، چالیس سال پہلے تھی۔
Ahmed Nadeem Qasmi, احمد ندیم قاسمی
Ahmed Nadeem Qasmi, احمد ندیم قاسمی
یہ مضامین، جیسا کہ کتاب کے نام سے ظاہر ہے، تعلیم، ادب اور فن کے متعلق ہیں۔ تعلیم میں بھی قاسمی صاحب نے بچوں کی تعلیم اور انکے ادب کے متعلق خصوصی توجہ دلائی ہے، اور ہمارے نظامِ تعلیم کا یہ عجب المیہ ہے کہ بچوں کی تعلیم کے حوالے سے جو مشکلات پچاس، ساٹھ سال پہلے تھیں وہ اب بھی ہیں، گو اب بچوں کو تعلیم دلانے کے مواقع اور وسائل پہلے کی نسبت بہت زیادہ ہیں، مگر "کمرشل ازم" نے اسکولوں کا حلیہ اور تعلیم کا معیار بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔
فن اور ادب کے حوالے سے بھی کافی دلچسپ مضامین آپ کو پڑھنے کو ملیں گے، خاص طور پر "شعر و شاعری کا فائدہ" اور دیگر۔ مضامین کی مکمل فہرست کچھ یوں ہے۔
1- بچوں کا ادب
2- پاکستانی بچوں کیلیے کتابیں
3- ادب کی تعلیم اور اساتذہ
4- ادب کی تعلیم کا مسئلہ
5- نصابِ تعلیم میں سے اقبال کا اخراج
6- پاکستان کی نئی نسل اور جدید ادب
7- شعر و شاعری کا فائدہ
8- فن کا اثبات
9- مادی ترقی اور قومی ثقافت
10- سائنس کے اثبات کیلیے شاعری کی نفی کیوں؟

ان مضامین کو ٹائپ کرتے ہوئے ایک کام میں نے یہ کیا ہے کہ مضامین کے آخر میں انکی تحریر کا زمانہ لکھا ہوا تھا اسکو میں نے مضامین کے عنوان کے ساتھ شروع میں ہی دے دیا ہے تاکہ جو اعداد و شمار یا واقعات زمانی بعد سے تبدیل ہو چکے ہیں یا ماضی بعید کا حصہ بن چکے ہیں، وہ قارئین کو کسی قسم کی پریشانی میں نہ ڈال دیں اور پہلے ہی وضاحت ہو جائے۔

مکمل کتاب اس ربط پر پڑھی جا سکتی ہے۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 16, 2009

سیاہ حاشیے از سعادت حسن منٹو

تقسیمِ ہندوستان کے پس منظر میں لکھی گئی سعادت حسن منٹو کی شہرہ آفاق کتاب 'سیاہ حاشیے' اس خاکسار نے آج سے کوئی دو سال قبل ٹائپ کر کے اردو ویب لائبریری پر عام افادے کیلیے رکھی تھی، اسی کا ربط دے رہا ہوں۔ یہاں یہ بھی واضح کردوں کہ منٹو کی کتب کاپی رائٹس فری ہو چکی ہیں اور پبلک ڈومین میں ہیں۔
یہ کتاب چھوٹے چھوٹے 'شذرات' یا انتہائی مختصر افسانوں پر مشتمل ہے لیکن اپنے مطالب و معنی میں بحرِ بیکراں لیے ہوئے ہے، انتہائی فکر انگیز اور مبنی بر انصاف تحاریر ہیں۔ منٹو اسکے انتساب میں لکھتے ہیں۔
اس آدمی کے نام
جس نے اپنی خونریزیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا
"جب میں نے ایک بڑھیا کو مارا تو مجھے ایسا لگا مجھ سے قتل ہوگیا ہے۔"

کتاب اس ربط پر پڑھی جا سکتی ہے۔

Saadat Hasan Manto, سعادت حسن منٹو, Afsany, افسانے
Saadat Hasan Manto, سعادت حسن منٹو


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 6, 2009

می رقصم - شیخ عثمان مروَندی معروف بہ لال شہباز قلندر کی غزل - نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم

شیخ سید عثمان شاہ مروَندی علیہ الرحمہ معروف بہ لال شہباز قلندر ایک جلیل القدر صوفی ہیں اور انکے نامِ نامی کی شہرت عالم گیر ہے۔ انکی ایک غزل بہت مشہور ہے جس کی ردیف 'می رقصم' ہے، اس غزل کا کچھ تذکرہ مولانا رومی کی ایک غزل جس کی ردیف 'می گردم' ہے لکھتے ہوئے بھی آیا تھا۔ اس وقت سے میں اس غزل کی تلاش میں تھا لیکن افسوس کہ نیٹ پر مکمل غزل کہیں نہیں ملی بلکہ اکا دکا اشعار ادھر ادھر بکھرے ہوئے ملے۔ کتب میں بھی تلاش کیا لیکن نہیں ملی۔

اس سلسلے میں ایک عرض یہ کرونگا کہ بعض مشہور و معروف غزلیات جو صدیوں سے زبان زد عام ہیں، کتب میں نہیں ملتیں، مثلاً امیر خسرو علیہ الرحمہ کی نعت، نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم، انکی غزلیات کے پانچوں دیوانوں میں نہیں ہے (بحوالہ خسرو شیریں بیاں از مسعود قریشی، لوک روثہ اشاعت گھر، اسلام آباد) اسی طرح مولانا رومی کی مذکورہ غزل، نہ من بیہودہ گردِ کوچہ و بازار می گردم، انکی غزلیات کے دیوان 'دیوانِ شمس' میں موجود نہیں ہے، مولانا کے یہ کلیات ایران میں تصحیح کے ساتھ شائع ہو چکے ہیں اور اسی دیوانِ سمش کا آن لائن ورژن ویب پر بھی موجود ہے، جس میں یہ غزل موجود نہیں ہے اور اسی طرح شیخ عثمان کی مذکورہ غزل بھی کہیں نہیں ملتی لیکن عام طور سے یہی مشہور ہے کہ یہ غزل شیخ عثمان کی ہے۔ اس غزل کے چار اشعار مجھے ویب سے ملے تھے، باقی اشعار نصرت فتح علی خان قوال کی گائی ہوئی ایک قوالی (امیر خسرو کی نعت نمی دانم) سے ملے ہیں اور یوں سات اشعار کی ایک غزل بہرحال بن گئی ہے جو احباب کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں، مجھے پورا یقین ہے کہ اس غزل کے مزید اشعار بھی ہونگے، بہرحال تلاش جاری ہے۔

غزل پیشِ خدمت ہے۔

نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم
مگر نازم بہ ایں ذوقے کہ پیشِ یار می رقصم


نہیں جانتا کہ آخر دیدار کے وقت میں کیوں رقص کر رہا ہوں، لیکن اپنے اس ذوق پر نازاں ہوں کہ اپنے یار کے سامنے رقص کر رہا ہوں۔

مزار لال شہباز قلندر, Mazar Lal Shahbaz Qalandar, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
مزار لال شہباز قلندر
 Mazar Lal Shahbaz Qalandar
تو ہر دم می سرائی نغمہ و ہر بار می رقصم
بہ ہر طرزِ کہ می رقصانیَم اے یار می رقصم

تو جب بھی اور جس وقت بھی نغمہ چھیڑتا ہے میں اسی وقت اور ہر بار رقص کرتا ہوں، اور جس طرز پر بھی تو ہمیں رقص کرواتا ہے، اے یار میں رقص کرتا ہوں۔

تُو آں قاتل کہ از بہرِ تماشا خونِ من ریزی
من آں بسمل کہ زیرِ خنجرِ خوں خوار می رقصم

تُو وہ قاتل کہ تماشے کیلیے میرا خون بہاتا ہے اور میں وہ بسمل ہوں کہ خوں خوار خنجر کے نیچے رقص کرتا ہوں۔

بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہِ جانبازاں
بہ صد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم

آجا جاناں اور دیکھ کہ جانبازوں کے گروہ میں، میں رسوائی کے صد سامان لیے سر بازار رقص کر رہا ہوں۔

اگرچہ قطرۂ شبنم نہ پویَد بر سرِ خارے
منم آں قطرۂ شبنم بہ نوکِ خار می رقصم

اگرچہ شبنم کا قطرہ کانٹے پر نہیں ٹھہرتا لیکن میں وہ قطرۂ شبنم ہوں کہ نوکِ خار پر رقص کرتا ہوں۔

خوش آں رندی کہ پامالش کنم صد پارسائی را
زہے تقویٰ کہ من با جبّہ و دستار می رقصم

واہ وہ رندی کہ جس کیلیے میں سیکنڑوں پارسائیوں کو پامال کر دوں، مرحبا یہ تقویٰ کہ میں جبہ و دستار کے ساتھ رقص کرتا ہوں۔

منم عثمانِ مروندی کہ یارے شیخ منصورم
ملامت می کند خلقے و من بر دار می رقصم

میں عثمان مروندی کہ شیخ منصور (حلاج) میرے دوست ہیں، مجھے خلق ملامت کرتی ہے اور میں دار پر رقص کرتا ہوں۔

اس شعر کیلیے ایک وضاحت یہ کہ شیخ عثمان کا نام شیخ عثمان مروَندی ہے لیکن یہ شعر نصرت فتح علیخان نے عثمان مروندی کی بجائے عثمان ہارونی کے نام کے ساتھ گایا ہے۔ میں نے اپنی سی کوشش ضرور کی کہ کہیں سے یہ علم ہو جائے کہ صحیح شعر کیا ہے اور یہ 'ہارونی' کیوں آیا ہے مصرعے میں لیکن افسوس کہ میرے پاس ذرائع محدود ہیں۔ بہرحال تحقیق کے دروازے کھلے ہیں، اس شعر بلکہ اس غزل کے دیگر اشعار کیلیے میں بھی سرگرداں ہوں اور دیگر اہلِ علم و فن و ہنر کو بھی دعوتِ عام ہے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 1, 2009

امیر خسرو علیہ الرحمہ کی ایک غزل مع تراجم - نیست در شہر گرفتار تر از من دِگَرے

شعرِ خسرو
نیست در شہر گرفتار تر از من دِگَرے
نبُد از تیرِ غم افگار تر از من دِگَرے

ترجمہ
پورے شہر میں کوئی اور شخص (تیری محبت میں) مجھ جیسا گرفتار نہیں ہے، غموں کے تیر سے کوئی اور مجھ جیسا زخمی نہیں ہے۔

منظوم ترجمہ مسعود قریشی
شہر میں کوئی گرفتار نہیں ہے مجھ سا
تیر سے غم کے دل افگار نہیں ہے مجھ سا

شعرِ خسرو
بر سرِ کُوئے تو، دانم، کہ سگاں بسیار اند
لیک بنمائی وفادار تر از من دِگَرے

ترجمہ
میں جانتا ہوں کہ تیرے کوچے میں بہت سے سگ ہیں لیکن ان میں کوئی بھی مجھ سا وفادار نہیں ہے۔
Amir Khusro, امیر خسرو, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
Amir Khusro, امیر خسرو
قریشی
یوں تو کوچے میں ترے سگ ہیں بہت سے لیکن
ایک بھی ان میں وفادار نہیں ہے مجھ سا

شعرِ خسرو
کارواں رفت و مرا بارِ بلائے در دل
چوں رَوَم، نیست گرانبار تر از من دِگَرے

ترجمہ
کارواں چلا گیا اور میرے دل میں جدائی کا بوجھ ڈال گیا، کسطرح چلوں کہ کوئی اور مجھ سا گراں بار نہیں ہے۔

قریشی
سب گئے، رہ گیا میں بارِ بلا دل میں لئے
ان میں کوئی بھی گرانبار نہیں ہے مجھ سا

شعرِ خسرو
ساقیا بر گزر از من کہ بخوابِ اجَلَم
باز جُو اکنوں تو ہشیار تر از من دِگَرے

ترجمہ
اے ساقی تو جانتا ہے کہ میں خوابِ اجل (مرنے کے قریب) ہوں لیکن مجھ سے گزر کے اس کے باوجود میکدے میں مجھ سے ہوشیار کوئی اور نہیں ہے۔

قریشی
ساقیا خوابِ اجل میں ہوں پہ تو جانتا ہے
میکدے میں کوئی ہشیار نہیں ہے مجھ سا

شعرِ خسرو
خسروَم، بہرِ بُتاں کُوئے بکو سرگرداں
در جہاں بود نہ بیکار تر از من دِگَرے

ترجمہ
میں خسرو، کوبکو بتوں کی تلاش میں سرگرداں ہوں، اس جہاں میں مجھ سا بیکار کوئی نہیں ہے۔

قریشی
کُو بہ کُو بہرِ بُتاں خسرو ہوا سرگرداں
کوئی اس دنیا میں بیکار نہیں ہے مجھ سا

----------

بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)
اشاری نظام - 2212 2211 2211 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)
۔تقطیع -
نیست در شہر گرفتار تر از من دِگَرے
نبُد از تیرِ غم افگار تر از من دِگَرے

نیس در شہ - فاعلاتن - 2212 (نیست میں چونکہ اوپر تلے تین ساکن ہیں، ی، سین اور ت، اور تقطیع کا اصول ہے کہ جہاں اس طرح اوپر تلے تین ساکن ہوں اس میں آخری ساکن محسوب نہیں ہوتا یعنی اسکا کوئی وزن شمار نہیں کیا جاتا سو اسے چھوڑ دیتے ہیں، یعنی نیست کی ت کو چھوڑ دیا، اس طرح کے دیگر الفاظ میں دوست، گوشت، پوست، چیست، کیست وغیرہ شامل ہیں)۔
ر گرفتا - فعلاتن - 2211
ر تَ رز من - فعلاتن - 2211 (یہاں تر اور از کے درمیان میں الفِ وصال ساقط ہوا ہے، الفِ واصل اسے کہتے ہیں کہ پچھلا حرف ساکن ہو اور حرفِ علت نہ ہو یعنی الف، واؤ یا ی نہ ہو تو اسکے فوری بعد والے الف کو ختم کر کے یعنی وصل کروا کے پچھلے حرف کو اگلے حرف کے ساتھ ملا دیتے ہیں جیسے تر اور از میں، الف کے وصال کی سبھی شرطیں پوری ہوتی ہیں سو اس کو ساقط کر کے لفظ تر از سے تَ رز بنا لیا اور یوں وزن پورا ہوا)۔
دِ گِ رے - فَعِلُن - 211 (فاعلن کی جگہ فعِلن نوٹ کریں)۔
نَ بُ دز تی - فعلاتن - 2211 (الفِ واصل اور مخبون رکن دونوں نوٹ کریں)۔
رِ غَ مَفگا - فعلاتن - 2211 (الفِ واصل نوٹ کریں)۔
ر تَ رز من - فعلاتن - 2211 (الفِ واصل نوٹ کریں)۔
دِ گَ رے - فَعِلن - 211
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 29, 2009

مسیح الملک حکیم اجمل خان شیدا کی ایک غزل - کچھ بات ہی تھی ایسی کہ تھامے جگر گئے

کچھ بات ہی تھی ایسی کہ تھامے جگر گئے
ہم اور جاتے بزمِ عدو میں؟ مگر گئے

یہ تو خبر نہیں کہ کہاں اور کدھر گئے
لیکن یہاں سے دُور کچھ اہلِ سفر گئے

ارماں جو ہم نے جمع کئے تھے شباب میں
پیری میں وہ، خدا کو خبر ہے، کدھر گئے

رتبہ بلند ہے مرے داغوں کا اس قَدَر
میں ہوں زمیں، پہ داغ مرے تا قمر گئے
Hakim Ajmal Khan, حکیم اجمل خان, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
حکیم اجمل خان دہلوی
Hakim Ajmal Khan
رخسار پر ہے رنگِ حیا کا فروغ آج
بوسے کا نام میں نے لیا، وہ نکھر گئے

دنیا بس اس سے اور زیادہ نہیں ہے کچھ
کچھ روز ہیں گزارنے اور کچھ گزر گئے

جانے لگا ہے دل کی طَرَف ان کا ہاتھ اب
نالے شبِ فراق کے کچھ کام کر گئے

حسرت کا یہ مزا ہے کہ نکلے نہیں کبھی
ارماں نہیں ہیں وہ، کہ شب آئے سحر گئے

بس ایک ذات حضرتِ شیدا کی ہے یہاں
دہلی سے رفتہ رفتہ سب اہلِ ہنر گئے

(مسیح الملک حکیم اجمل خاں شیدا)
ماخذ: نقوش غزل نمبر، لاہور، 1985ء
---------
بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
افاعیل - مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
(آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)
اشاری نظام - 122 1212 1221 212
ہندسے دائیں سے بائیں، اردو کی طرح پڑھیے۔
(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع -
کچھ بات ہی تھی ایسی کہ تھامے جگر گئے
ہم اور جاتے بزمِ عدو میں؟ مگر گئے
کُچ بات - مفعول - 122
ہی تِ ایسِ - فاعلات - 1212
کِ تامے جِ - مفاعیل - 1221
گر گئے - فاعلن - 212

ہم اور - مفعول - 122
جاتِ بزمِ - فاعلات - 1212
عدو مے مَ - مفاعیل - 1221
گر گئے - فاعلن - 212
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 16, 2009

سلسلۂ ٹیگیہ بلاگیہ

جناب خرم بھٹی صاحب نے اس کھیل نما سلسلے میں اس خاکسار کو یاد کیا تھا، بوجوہ جلدی لبیک نہ کہہ سکا لیکن بہرحال حکم کی تعمیل واجب تھی سو حاضر ہوں۔

انٹرنیٹ پر آپ روزانہ کتنا وقت صرف کرتے ہیں؟
بارہ سے چودہ گھنٹے، اس میں دفتری اوقات کے آٹھ، نو گھنٹے بھی شامل ہیں کہ کام کی نوعیت ہی کچھ ایسی ہے۔

انٹرنیٹ آپ کے رہن سہن میں کیا تبدیلی لایا ہے؟
کوئی خاص نہیں، میں پہلے بھی اپنے کمرے میں بند رہتا تھا اور اب بھی رہتا ہوں، ہاں یہ فرق آیا کہ پہلے بستر پر دراز ہو کر پڑھتا رہتا تھا اور اب کرسی پر کمپیوٹر کے سامنے بیٹھا رہتا ہوں۔

کیا انٹرنیٹ نے آپ کی سوشل یا فیملی لائف کو متاثر کیا ہے اور کس طرح؟
میری سوشل لائف میرے گھر کی چاردیواری تک محدود ہے سو اس کو تو قطعاً متاثر نہیں کیا۔ فیملی لائف کی یہ کہ انٹرنیٹ میری زندگی میں پہلے داخل ہوا تھا اور بیوی بچے بعد میں، سو انہوں نے سمجھوتہ کیا ہے میرے ساتھ۔

اس علت سے جان چھڑانے کی کبھی کوشش کی اور کیسے؟
کافی کوشش کر چکا ہوں لیکن یہ علت چھوٹتی نہیں، مطالعہ میرے لیے آکسیجن کی طرح ہے، لیکن پچھلے چند سالوں سے بالخصوص جب سے میں اردو محفل، بلاگ اور فیس بُک پر فعال ہوا ہوں، میرے مطالعے میں بہت بری طرح کمی واقع ہوئی ہے، اسکا مجھے بہت دکھ ہے اور بعض دفع اسی رنج و غم میں گھر میں انٹرنیٹ کو چھوڑ دیتا ہوں اور مطالعے کو زیادہ وقت دیتا ہوں جیسے ابھی پچھلوں دنوں میں یہی کام کر رہا تھا لیکن افسوس کہ میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں لیکن کمبل مجھے نہیں چھوڑتا۔

کیا انٹرنیٹ آپ کی آؤٹ ڈور کھیلوں میں رکاوٹ بن چکا ہے؟
مدت ہوئی لڑکپن گزرے اور اتنا ہی عرصہ ہوا آؤٹ ڈور کھلیوں کو چھوڑے بلکہ آؤٹ ڈور کی کیا تخصیص، ان ڈور کھیلیں بھی میری زندگی میں نہیں بجز کمپیوٹر گیمز کے، جو مجھے بہت پسند ہیں اور کھیلتا بھی ہوں۔

اور اب کچھ دیگر احباب کو ٹیگ کرنا تھا لیکن یہ موضوع کب سے ختم ہو چکا سو اس کو یہیں ختم کرتا ہوں، ان اشعار پر جو کسی شاعر نے سعدی کی مدح میں کہے تھے۔

در شعر سه تن پیمبرانند
هر چند که لانبی بعدی
اوصاف و قصیده و غزل را
فردوسی و انوری و سعدی

مزید پڑھیے۔۔۔۔