May 23, 2010

میرا جی کی کچھ غزلیات

میرا جی کا شمار، ن م راشد کے ساتھ ساتھ، جدید نظم کے آئمہ کبار میں ہوتا ہے، لیکن ہم جیسے قتیلانِ غزل، ان نظم کے شاعروں کے کلام سے بھی اپنے مطلب کی چیز یعنی غزل ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔ ن م راشد نے اپنے ابتدائی زمانے کی غزلیات سے اعلانِ لاتعلقی کر دیا تھا، لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے وہ غزلیں رہیں گی تو ان کی ہی جیسے ایک باپ اگر اپنے بیٹے کو عاق بھی کر دے تو وہ بیٹا تو اسی کا ہی رہے گا۔ لیکن خوش قسمتی سے میرا جی نے ایسا کوئی اعلان نہیں کیا تھا ان کی غزلیات ان کے کلام میں ملتی ہیں۔

سعد اللہ شاہ صاحب نے، "انتخابِ میرا جی" کے نام سے ان کا کچھ کلام مرتب کیا تھا جس میں نظمیں، گیت اور کچھ غزلیں شامل ہیں انہیں میں سے میرا جی کی غزلیات لکھ رہا ہوں، کچھ غزلیں نقوش کے "غزل نمبر" سے لی ہیں۔ ویب پر بھی میرا جی کی کچھ غزلیں ملتی ہیں لیکن وہ یا تو نامکمل ہیں یا اغلاط سے بھری ہوئی، جو جو غزل مکمل کر سکتا تھا وہ میں نے کر دی ہے۔

(1)
ہنسو تو ساتھ ہنسے گی دنیا، بیٹھ اکیلے رونا ہوگا
چپکے چپکے بہا کر آنسو، دل کے دکھ کو دھونا ہوگا

بیرن ریت بڑی دنیا کی، آنکھ سے ٹپکا جو بھی موتی
پلکوں ہی سے اٹھانا ہوگا، پلکوں ہی سے پرونا ہوگا

پیاروں سے مل جائیں پیارے، انہونی کب ہونی ہوگی
کانٹے پھول بنیں گے کیسے، کب سکھ سیج بچھونا ہوگا

بہتے بہتے کام نہ آئے لاکھوں بھنور طوفانی ساگر
اب منجدھار میں اپنے ہاتھوں جیون ناؤ ڈبونا ہوگا

میرا جی کیوں سوچ ستائے، پلک پلک ڈوری لہرائے
قسمت جو بھی رنگ دکھائے، اپنے دل میں سمونا ہوگا
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Meera Ji, میرا جی
Meera Ji, میرا جی
----
(2)
نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستا بُھول گیا
کیا ہے تیرا کیا ہے میرا اپنا پرایا بھول گیا

کیا بُھولا، کیسے بُھولا، کیوں پوچھتے ہو؟ بس یوں سمجھو
کارن دوش نہیں ہے کوئی، بھولا بھالا بھول گیا

کیسے دن تھے، کیسی راتیں، کیسی باتیں گھاتیں تھیں
من بالک ہے، پہلے پیار کا سُندر سپنا بھول گیا

اندھیارے سے ایک کرن نے جھانک کے دیکھا، شرمائی
دھندلی چھب تو یاد رہی کیسا تھا چہرہ، بھول گیا

یاد کے پھیر میں آ کر دل پر ایسی کاری چوٹ لگی
دکھ میں سکھ ہے، سکھ میں دکھ ہے، بھید یہ نیارا بھول گیا

ایک نظر کی، ایک ہی پل کی بات ہے ڈوری سانسوں کی
ایک نظر کا نور مِٹا جب اک پل بیتا بھول گیا

سوجھ بوجھ کی بات نہیں ہے، من موجی ہے مستانہ
لہر لہر سے جا سر ٹپکا، ساگر گہرا بھول گیا

ہنسی ہنسی میں، کھیل کھیل میں، بات کی بات میں رنگ مٹا
دل بھی ہوتے ہوتے آخر گھاؤ کا رِسنا بھول گیا

اپنی بیتی جگ بیتی ہے جب سے دل نے جان لیا
ہنستے ہنستے جیون بیتا رونا دھونا بھول گیا

جس کو دیکھو اُس کے دل میں شکوہ ہے تو اتنا ہے
ہمیں تو سب کچھ یاد رہا، پر ہم کو زمانہ بھول گیا

کوئی کہے یہ کس نے کہا تھا، کہہ دو جو کچھ جی میں ہے
میرا جی کہہ کر پچھتایا اور پھر کہنا بھول گیا

----

(3)
لذّتِ شام، شبِ ہجر خدا داد نہیں
اِس سے بڑھ کر ہمیں رازِ غمِ دل یاد نہیں

کیفیت خانہ بدوشانِ چمن کی مت پُوچھ
یہ وہ گُلہائے شگفتہ ہیں جو برباد نہیں

یک ہمہ حُسنِ طلب، یک ہمہ جانِ نغمہ
تم جو بیداد نہیں ہم بھی تو فریاد نہیں

زندگی سیلِ تن آساں کی فراوانی ہے
زندگی نقش گرِ خاطرِ ناشاد نہیں

اُن کی ہر اِک نگہ آموختۂ عکسِ نشاط
ہر قدم گرچہ مجھے سیلیِ استاد نہیں

دیکھتے دیکھتے ہر چیز مٹی جاتی ہے
جنّتِ حُسنِ نفَس و جنّتِ شدّاد نہیں

ہر جگہ حُسنِ فزوں اپنی مہک دیتا ہے
باعثِ زینتِ گُل تو قدِ شمشاد نہیں

خانہ سازانِ عناصر سے یہ کوئی کہہ دے
پُرسکوں آبِ رواں، نوحہ کناں باد نہیں

--------

(4)
خاکِ جامِ مے ہے گردِ کارواں
اب نہیں اندیشۂ سود و زیاں

اب نَفَس کا زیر و بم کیا ہے؟ فقط
حاصلِ امّید مرگِ ناگہاں

عشرتِ حُسنِ نظر ہے بازگشت
اور تفکّر اک فریبِ رائیگاں

اب نجاتِ دائمی ہےایک لفظ
اور وہ اک لفظ بھی رازِ عیاں

ایک پردہ روز و شب شام و سحر
راز جُو اور جستجو کے درمیاں

اک تخیّل کے سوا کچھ بھی نہیں
رشتۂ دورِ زماں، دورِ مکاں

حاصلِ عمر دو روزہ ہے بہت
گر کبھی منزل کرے عمرِ رواں

کیوں نہ یہ تارِ رگِ جاں توڑیے
دیکھیے پھر کیوں نہ عیشِ جاوداں

سوچتے ہی سوچتے آیا خیال
کچھ نہیں ہستی سوائے جسم و جاں

وقت کی پرواز کے ہمدوش ہی
بہتا جائے گا یہ دریائے رواں

تم بھی یہ کہتے ہو بڑھتے چلو
الاماں، منزل کہاں، منزل کہاں؟

-----

urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Meera Ji, میرا جی
Meera Ji, میرا جی
(5)
غم کے بھروسے کیا کچھ چھوڑا، کیا اب تم سے بیان کریں
غم بھی راس نہ آیا دل کو، اور ہی کچھ سامان کریں

کرنے اور کہنے کی باتیں، کس نے کہیں اور کس نے کیں
کرتے کہتے دیکھیں کسی کو، ہم بھی کوئی پیمان کریں

بھلی بُری جیسی بھی گزری، اُن کے سہارے گزری ہے
حضرتِ دل جب ہاتھ بڑھائیں، ہر مشکل آسان کریں

ایک ٹھکانا آگے آگے، پیچھے پیچھے مسافر ہے
چلتے چلتے سانس جو ٹوٹے، منزل کا اعلان کریں

مجبوروں کی مختاروں سے دُوری اچھی ہوتی ہے
مل بیٹھیں تو مبادا دونوں باہم کچھ احسان کریں

دستِ مزد میں خشتِ رنگیں اس کا اشارہ کرتی ہے
ایک ہی نعرہ کافی ہے، بربادیِ ہر ایوان کریں

میر ملے تھے میرا جی سے، باتوں سے ہم جان گئے
فیض کا چشمہ جاری ہے، حفظ ان کا بھی دیوان کریں

---

(6)
نہیں سنتا دلِ ناشاد میری
ہوئی ہے زندگی برباد میری

رہائی کی اُمیدیں مجھ کو معلوم
تسّلی کر نہ اے صیّاد میری

نہیں ہے بزم میں ان کی رسائی
یہ کیا فریاد ہے فریاد میری

میں تم سے عرض کرتا ہوں بہ صد شوق
سنو گر سن سکو روداد میری

مجھے ہر لمحہ آئے یاد تیری
کبھی آئی تجھے بھی یاد میری

------

(7)
دل محوِ جمال ہو گیا ہے
یا صرفِ خیال ہو گیا ہے

اب اپنا یہ حال ہو گیا ہے
جینا بھی محال ہو گیا ہے

ہر لمحہ ہے آہ آہ لب پر
ہر سانس وبال ہو گیا ہے

وہ درد جو لمحہ بھر رکا تھا
مُژدہ کہ بحال ہو گیا ہے

چاہت میں ہمارا جینا مرنا
آپ اپنی مثال ہو گیا ہے

پہلے بھی مصیبتیں کچھ آئیں
پر اب کے کمال ہو گیا ہے

--------

(8)
زندگی ایک اذیّت ہے مجھے
تجھ سے ملنے کی ضرورت ہے مجھے

دل میں ہر لحظہ ہے صرف ایک خیال
تجھ سے کس درجہ محبت ہے مجھے

تری صورت، تری زلفیں، ملبوس
بس انہی چیزوں سے رغبت ہے مجھے

مجھ پہ اب فاش ہوا رازِ حیات
زیست اب سے تری چاہت ہے مجھے

تیز ہے وقت کی رفتار بہت
اور بہت تھوڑی سی فرصت ہے مجھے

سانس جو بیت گیا، بیت گیا
بس اسی بات کی کلفت ہے مجھے

آہ میری ہے، تبسّم تیرا
اِس لیے درد بھی راحت ہے مجھے

اب نہیں دل میں مرے شوقِ وصال
اب ہر اک شے سے فراغت ہے مجھے

اب نہ وہ جوشِ تمنّا باقی
اب نہ وہ عشق کی وحشت ہے مجھے

اب یونہی عمر گذر جائے گی
اب یہی بات غنیمت ہے مجھے

---

(9)
چاند ستارے قید ہیں سارے وقت کے بندی خانے میں
لیکن میں آزاد ہوں ساقی چھوٹے سے پیمانے میں

عمر ہے فانی، عمر ہے باقی، اس کی کچھ پروا ہی نہیں
تو یہ کہہ دے وقت لگے گا کتنا آنے جانے میں

تجھ سے دُوری، دُوری کب تھی، پاس اور دُور تو دھوکا ھیں
فرق نہیں انمول رتن کو کھو کر پھر سے پانے میں

دو پل کی تھی اندھی جوانی، نادانی کی، بھر پایا
عمر بھلا کیوں بیتے ساری رو رو کر پچھتانے میں

پہلے تیرا دیوانہ تھا اب ہے اپنا دیوانہ
پاگل پن ہے ویسا ہی، کچھ فرق نہیں دیوانے میں

خوشیاں آئیں؟ اچھا، آئیں مجھ کو کیا احساس نہیں
سُدھ بُدھ ساری بھول گیا ہوں دکھ کے گیت سنانے میں

اپنی بیتی کیسے سنائیں، بدمستی کی باتیں ہیں
میرا جی کا جیون بیتا، پاس کے اک مے خانے میں

----

(10)
ڈھب دیکھے تو ہم نے جانا دل میں دھن بھی سمائی ہے
میرا جی دانا تو نہیں ہے، عاشق ہے، سودائی ہے

صبح سویرے کون سی صورت پھلواری میں آئی ہے
ڈالی ڈالی جھوم اٹھی ہے، کلی کلی لہرائی ہے

جانی پہچانی صورت کو اب تو آنکھیں ترسیں گی
نئے شہر میں جیون دیوی نیا روپ بھر لائی ہے

ایک کھلونا ٹوٹ گیا تو اور کئی مل جائیں گے
بالک، یہ انہونی تجھ کو کس بیری نے سُجھائی ہے

دھیان کی دھن ھے امر گیت، پہچان لیا تو بولے گا
جس نے راہ سے بھٹکایا تھا، وہی راہ پر لائی ہے

بیٹھے ہیں پھلواری میں، دیکھیں کب کلیاں کِھلتی ہیں
بھنور بھاؤ تو نہیں ہے، کس نے اتنی راہ دکھائی ہے؟

جب دل گھبرا جاتا ھے تو آپ ہی آپ بہلتا ہے
پریم کی ریت اسے جانو پر ہونی کی چترائی ہے

اُمّیدیں، ارمان سبھی جل دے جائیں گے، جانتے تھے
جان جان کے دھوکے کھائے، جان کے بات بڑھائی ہے

اپنا رنگ بھلا لگتا ہے، کلیاں چٹکیں، پھول بنیں
پھول پھول یہ جھوم کے بولا، کلیو، تم کو بدھائی ہے

آبشار کے رنگ تو دیکھے، لگن منڈل کیوں یاد نہیں
کِس کا بیاہ رچا ہے؟ دیکھو، ڈھولک ہے شہنائی ہے

ایسے ڈولے من کا بجرا جیسے نین بیچ ہو کجرا
دل کے اندر دھوم مچی ہے، جگ میں اداسی چھائی ہے

لہروں سے لہریں ملتی ہیں، ساگر اُمڈ آتا ہے
منجدھار میں بسنے والے نے ساحل پر جوت جگائی ہے

آخری بات سنائے کوئی، آخری بات سنیں کیوں ہم نے
اس دنیا میں سب سے پہلے آخری بات سنائی ہے

---

urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Meera Ji, میرا جی
Meera Ji, میرا جی
(11)
جیسے ہوتی آئی ہے، ویسے بسر ہو جائے گی
زندگی اب مختصر سے مختصر ہو جائے گی

گیسوئے عکسِ شبِ فرقت پریشاں اب بھی ہے
ہم بھی تو دیکھیں کہ یوں کیوں کر سحر ہو جائے گی

انتظارِ منزلِ موہوم کا حاصل یہ ہے
ایک دن ہم پر عنایت کی نظر ہو جائے گی

سوچتا رہتا ہے دل یہ ساحلِ اُمّید پر
جستجو، آئینۂ مدّ و جزر ہو جائے گی

درد کے مشتاق گستاخی تو ہے لیکن معاف
اب دعا، اندیشہ یہ ہے، کارگر ہو جائے گی

سانس کے آغوش میں ہر سانس کا نغمہ یہ ہے
ایک دن، اُمّید ہے اُن کو خبر ہو جائے گی

----

(12)
دیدۂ اشکبار ہے اپنا
اور دل بے قرار یے اپنا

رشکِ صحرا ھے گھر کی ویرانی
یہی رنگِ بہار ہے اپنا

چشمِ گریاں سے چاکِ داماں تک
حال سب آشکار ہے اپنا

ہاؤ ہو میں ہر ایک کھویا ہے
کون یاں غمگسار ہے اپنا

بزم سے ان کی جب سے نکلا ہوں
دل غریب الدّیار ہے اپنا

ہم کو ہستی رقیب کی منظور
پھول کے ساتھ خار ہے اپنا

ہے یہی رسمِ میکدہ شاید
نشّہ ان کا خمار ہے اپنا

کیا غلط سوچتے ہیں میرا جی
شعر کہنا شعار ہے اپنا

----

(13)
گناہوں سے نشو و نما پا گیا دل
درِ پختہ کاری پہ پہنچا گیا دل

اگر زندگی مختصر تھی تو پھر کیا
اسی میں بہت عیش کرتا گیا دل

یہ ننھی سی وسعت یہ نادان ہستی
نئے سے نیا بھید کہتا گیا دل

نہ تھا کوئی معبود، پر رفتہ رفتہ
خود اپنا ہی معبود بنتا گیا دل

نہیں گریہ و خندہ میں فرق کوئی
جو روتا گیا دل تو ہنستا گیا دل

پریشاں رہا آپ تو فکر کیا ھے
ملا جس سے بھی اس کو بہلا گیا دل

کئی راز پنہاں ہیں لیکن کھلیں گے
اگر حشر کے روز پکڑا گیا دل

بہت ہم بھی چالاک بنتے تھے لیکن
ہمیں باتوں باتوں میں بہکا گیا دل

مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 18, 2010

مینوں پاگل پن درکار - استاد دامن

پنجابی شاعری کے حوالے سے استاد دامن کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے، انکی ایک نظم جو مجھے پسند ہے۔

Ustad Damin, استاد دامن, Punjabi Poetry, پنجابی شاعری
Ustad Damin, استاد دامن
مَینوں پاگل پن درکار
مَینوں پاگل پن درکار

لکھاں بھیس وَٹا کے ویکھے
آسن کِتے جما کے ویکھے
متھے تِلک لگا کے ویکھے
کدھرے مون مَنا کے ویکھے
اوہو ای رستے، اوہو ای پَینڈے
اوہو ای آں میں چلّن ہار
مَینوں پاگل پن درکار

ہتھ کسے دے آؤ نا کیہ اے؟
ملاں نیں جتلاؤ نا کیہ اے؟
پنڈت پلّے پاؤ نا کیہ اے؟
رات دنے بس گلاں کر کر
کجھ نہیں بن دا آخر کار
مَینوں پاگل پن درکار

میں نہیں سکھیا علم ریاضی
ناں میں پنڈت، ملاں، قاضی
ناں میں دانی، ناں فیاضی
ناں میں جھگڑے کر کر راضی
ناں میں منشی، عالم فاضل
ناں میں رند تے ناں ہشیار
مَینوں پاگل پن درکار



میں نہیں کھاندا ڈَکّو ڈولے
رتھ جیون نُوں لا ہچکولے
اینویں لبھدا پھراں وچولے
کوئی بولے تے کوئی نہ بولے
ملے گلے دا آدر کر کے
کرناں اپنا آپ سدھار
مَینوں پاگل پن درکار

سب دسدے نیں ون سوَنے
کول جاؤ تے خالی چھنّے
دل نہ منے، تے کیہ منے
اینویں من منوتی کاہدی
گل نہ ہندی ہنے بنے
اندر کھوٹ تے باہر سچیار
مَینوں پاگل پن درکار

ایہہ دنیا کیہ رولا گولا
کوئی کہندا اے مولا مولا
کوئی کردا اے ٹال مٹولا
کوئی پاؤندا اے چال مچولا
مینوں کجھ پتہ نہیں چلدا
کیہ ہندا اے وچ سنسار
مَینوں پاگل پن درکار

ولی، پیر میں پگڑ پگڑ کے
گٹے گوڈے رگڑ رگڑ کے
دل نوں ہن تے جکڑ جکڑ کے
اینویں جھگڑے جھگڑ جھگڑ کے
چھڈ دتے نیں جھگڑے جھانجے
لمے چوڑے کھل کھلار

مَینوں پاگل پن درکار
ربّا، مَینوں پاگل پن درکار


استاد دامن کی مزید پنجابی شاعری اس ربط پر پڑھیے
مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 17, 2010

ال نامہ از مولانا الطاف حسین حالی

مولانا الطاف حسین حالی نے 1906ء میں ایک 'ال نامہ' لکھ کر اپنے ایک دوست کو بھیجا تھا، وہ لکھ رہا ہوں مشکل فارسی جملوں کا یہ خاکسار اردو ترجمہ بھی لکھ رہا ہے، مولانا کے قلم کی کاٹ دیکھنے کے لائق ہے۔

المذہب - اعلانِ جنگ

الدّین - تقلیدِ آباء و اجداد

العلم - قسمے از جہلِ مرکب (جہل مرکب کی ایک قسم)۔

الامتحان - آزمائشِ لیاقتِ ممتحنان (امتحان لینے والوں کی لیاقت کی آزمائش)۔

الیونیورسٹی - کارخانۂ کلرک سازی

الکمیشن - وجہ موجہ برائے فیصلۂ یک طرفہ (یک طرفہ فیصلہ کرنے کا سب سے بہتر طریقہ)۔

الانجمن ہائے اسلامیہ - سبزۂ برشگال (برسات کا سبزہ یعنی فصلی بٹیرے)۔

الرئیس - آنکہ از ریاست بے خبر باشد (وہ جو کہ اپنی ریاست سے بے خبر ہو)۔

الامیر - آنکہ تہی دست و قرضدار باشد (وہ جو کہ کنگال اور قرضدار ہو)۔

المولوی - آنکہ جمیع مسلماناں را از دائرۂ اسلام خارج می کند (وہ جو کہ تمام مسلمانوں کو دائرۂ اسلام سے خارج کر دیتا ہے)۔

الواعظ - آنکہ در تفریق بین المسلمین خطا نہ کند (وہ کہ جو مسلمانوں کے درمیان تفریق و نفاق پھیلانے سے نہ چُوکے)۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 27, 2010

پطرس بخاری کی ایک غزل - ہم آں داغے کہ بَر دل از تو دارَم حرزِ جانم شد

سید احمد شاہ (پطرس) بخاری یوں تو اپنے مضامین کی وجہ سے اردو ادب میں زندہ و جاوید ہو گئے ہیں لیکن مرحوم ایک نابغۂ روزگار اور ہمہ جہتی و سیمابی شخصیت کے مالک تھے۔ نچلا بیٹھنا انکی سرشت میں ہی نہیں تھا اور بڑے بڑے پہاڑوں سے ٹکرا جانا انکی عادتِ ثانیہ تھی۔ تقسیمِ برصغیر سے پہلے"نیازمندانِ لاہور" کے نام سے ایک گروپ بنا کر اور یو پی کے قلمکاروں سے خوب خوب ٹکر لے کر، اردو کے سب سے بہترین مرکز کے طور پر لاہور کی برتری، یو پی اور حیدر آباد (دکن) پر ثابت کرتے رہے۔ "ضربِ کلیم" میں علامہ کی ایک خوبصورت نظم ہے "ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام"، اقبال کے شارحین اس نظم کے سیاق و سباق میں عموماً یہ تو لکھتے ہیں کہ یہ نظم علامہ نے ایک فلسفے کے شائق سید کے ساتھ گفتگو کے بعد لکھی تھی لیکن اس "سید زادے" کا نام نہیں لکھتے۔ اس راز سے پردہ، مرحوم محمد طفیل، مدیرِ نقوش نے اپنی کتاب "جناب" میں پطرس پر خاکہ لکھتے ہوئے ان الفاظ میں اٹھایا ہے۔

"ایک دفعہ اقبال اور پطرس کی برگساں کے فلسفے پر بات چل نکلی، باتیں ہوئیں۔ دلیلیں لیں اور دیں، کوئی بھی قائل نہ ہوا، بالآخر اقبال چپ ہو گئے، جب پطرس چلے گئے تو اقبال نے ایک نظم پطرس کے بارے میں کہی جسکا عنوان" ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام" تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غور کیجیئے اقبال پطرس کے بارے میں نظم کہتے ہیں، اقبال اس وقت اپنے عروج کی آخری بلندیوں پہ تھے اور پطرس بلندیوں کی طرف ہمک رہے تھے مگر حوصلہ دیکھیئے، پہاڑ سے ٹکر لے لی۔"

یہ تو خیر انکی "جراتِ رندانہ" کا ایک واقعہ تھا، لیکن ان کا "شوقِ فضول" انکے مضامین کی شکل میں، اس "منزلِ مُراد" پر پہنچنے کا واضح اشارہ ہے جس کا ذکر غالب نے اپنے شعر کے مصرعِ اولیٰ میں کیا ہے۔ پطرس کو سب سے خوبصورت خراجِ تحسین بھی شاید محمد طفیل ہی نے پیش کیا ہے، لکھتے ہیں "مرحوم انگریزی اتنی جانتے تھے جتنی سارے پاکستانی مل کر جانتے ہیں اور اردو جتنی جانتے تھے اتنی اردو کے سارے پروفیسر مل کر بھی نہیں جانتے، اگر کسی پروفیسر کو میرا تبصرہ برا لگے تو وہ مرحوم جیسا ایک جملہ لکھ کر تو دیکھے"۔

یادگارِ پطرس کے طور پر تبرکاً اپنے اس ہیچ مایہ بلاگ کو انکی ایک خوبصورت فارسی غزل سے سجا رہا ہوں۔

ہم آں داغے کہ بَر دل از تو دارَم حرزِ جانم شد
ہم آں چشمے کہ نامِندَش سخن گو، راز دارم شد

اُن تمام داغوں کو جو میرے دل پر تیرے عطا کردہ تھے میں نے بہت احتیاط سے (چھپا چھپا کر) رکھا، وہ آنکھ بھی جسے سخن گو (راز فاش کرنے والی) کہا جاتا ہے میری راز داں تھی (محبت کا راز فاش نہیں کرتی تھی)۔

دِلے بُود و در آغوشَم نگنجید و جہانم شد
خیالے داشتم از سرگزشت و آسمانم شد

ایک دل تھا اور جب وہ ہمارے پہلو میں نہ سمایا تو جہان بن گیا، اور اپنی (مظلوم و محروم) سرگزشت کا خیال آیا تو وہ (بے رحم) آسمان بن گیا۔

مپرس اے داورِ محشر، چہ می پرسی، چہ می پرسی
نگاہِ حسرت آلایم کہ می بینی، بیانم شد

اے داورِ محشر نہ پوچھ، تو مجھ سے کیا پوچھنا چاہتا ہے؟ (میں کیا بتاؤں) کہ میری حسرت آلایم نگاہ جو تو دیکھ رہا ہے وہی میرا بیان بن گئی ہے یعنی میری حسرت و یاس بھری آنکھوں میں دیکھ لے تجھے اپنے سارے سوالوں کے جواب مل جائیں گے۔

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Patras Bokhari, پطرس بخاری
سیّد احمد شاہ پطرس بخاری
Patras Bokhari
نگہ دزدیدہ افگندی بدِل چوں رازِ جاں دارم
نظر کردی بہ بے باکی و فصلِ داستانم شد

تیری دزدیدہ نگاہ جو دل پر پڑی تو میں نے اسے رازِ جاں بنا لیا، تو نے بیباکی سے دیکھا تو وہ ہماری داستان کا ایک باب بن گیا۔

دگر قدحِ جنوں در دہ کہ ہم در منزلِ اوّل
خیالِ وحشَتَم واماند و گردِ کاروانَم شد

اے قضا و قدر کے کارکنوں، جنون کا ایک اور جام مجھے دو کہ پہلی منزل میں ہی، میری وحشت کا خیال واماندہ (خستہ، کم) ہوا اور میں کارواں کی گرد بن گیا۔

پطرس بخاری کی تخلیقات اس ویب سائٹ پر پڑھی جا سکتی ہیں، اس پوسٹ میں شامل تصویر بھی اسی سائٹ سے لی ہے۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 22, 2010

وای آں دل کہ در آں مہرِ بلوچاں نَبوَد - ضیا بلوچ صاحب کی ایک غزل

ضیا بلوچ صاحب، فیس بُک پر ہمارے دوست ہیں، انکی ایک خوبصورت فارسی غزل شیئر کر رہا ہوں۔ مطلع انہوں نے اپنے مخصوص پس منظر میں کہا ہے لیکن دیگر اشعار انتہائی خوبصورت ہیں، شعریت اور تغزل سے بھرپور۔ میں نے یہ غزل فیس بُک پر پڑھی تو بہت پسند آئی اور اس کو شیئر کرنے کی اجازت بھی ان سے حاصل کر لی۔ ترجمہ بھی انہوں نے خود ہی کیا ہوا تھا، سو میرا کام بھی آسان ہوا۔

وای آں دل کہ در آں مہرِ بلوچاں نَبوَد
مردہ آں تن کہ فدای رہِ بولاں نبود

افسوس اُس دل پر جس میں بلوچوں کیلیے مہر نہیں ہے، اُس شخص کا شمار مردوں میں ہے جو بولان کی راہ میں فدا نہ ہوا۔


کور چشمی کہ نگاہی بہ رُخِ غم نکند
تیرہ قلبی کہ در آں درد فروزاں نبود

وہ آنکھ اندھی ہے جسے غم دکھائی نہ دے، وہ دل تاریک ہے جس میں درد فروزاں نہیں ہوتا۔


دوش در میکدۂ عشق شنیدم سخنی
نیست سوزی کہ تہِ شیشۂ رنداں نبود
کل رات عشق کے میخانے میں، میں نے یہ بات سنی کہ کوئی ایسا سوز نہیں ہے جو رندوں کے شیشے (دل) میں نہیں ہے۔


ز تب و تابِ نگاہت نہ درخشد رُخِ دوست
تا دلِ تو، چو ستارہ، سرِ مژگاں نبود
تیری نگاہ کی تب و تاب سے دوست کا چہرہ نہیں دمکتا جب تک کہ تیرا دل ستارے کی مانند پلکوں پر روشن نہ ہو۔


نبود مہرِ جہاں تاب کُلاہِ مجنوں
چاکِ دامان اگر تا بہ گریباں نبود
سورج کسی دیوانے کی سر کی زینت نہیں بنتا اگر اس کے دامن کا چاک گریباں تک نہ پہنچے۔


حیف صد حیف بر آں غنچۂ لب بستہ ضیا
کز نفَسہای بہاری گُلِ خنداں نبود

صد افسوس اس لب بستہ کلی پر ضیا جو بادِ بہاری کے چلنے پر بھی نہ کِھل سکے۔


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 5, 2010

ایک زمین، تین شاعر - رومی، عراقی، اقبال

پیرِ رومی کی یہ غزل اتنی خوبصورت ہے کہ ان کے دو مریدوں، مریدِ عراقی اور مریدِ ہندی، نے بھی اس میں طبع آزمائی کی ہے اور کیا خوب کی ہے۔ پیرِ رومی اور مریدِ ہندی کے بارے میں کچھ نہ کہنا ہی بہتر ہے کہ ہر کوئی ان دو کے متعلق جانتا ہے اور انکے "تعلق" کے متعلق بھی لیکن "مریدِ عراقی" کا تھوڑا سا تعارف ضروری ہے۔

شیخ فخرالدین ابراہیم عراقی، ساتویں صدی ہجری (تیرہویں صدی عیسوی) کے ایک نامور صوفی بزرگ اور شاعر تھے۔ آپ ہمَدان، ایران میں پیدا ہوئے اور اوائلِ عمر میں ہی قلندروں کی ایک ٹولی میں شامل ہو کر دنیا کی سیر و سیاحت کو نکل کھڑے ہوئے۔ شیخ محمد اکرام، "آبِ کوثر" میں شیخ بہاءالدین زکریا سہروردی (رح) کا ذکر کرتے ہوئے، ضمنی طور پر عراقی کا حال اسطرح لکھتے ہیں۔

"وہ [عراقی] شیخ شہاب الدین سہروردی کے بھانجے تھے [شیخ اکرام کی اس بات کے برعکس ایک روایت میں ہے کہ آپ ہمدان سے بغداد تشریف لے گئے تھے اور وہاں شیخ شہاب الدین سہروردی کے مرید ہوئے اور انہوں نے ہی آپ کو عراقی کا خطاب دیا] اور ان دنوں اثنائے سیر و سیاحت میں ملتان تشریف لائے تھے۔ شیخ بہاءالدین زکریا سے وہ اتنے متاثر ہوئے کہ وہ کہتے تھے، بر مثالِ مقناطیس کہ آہن را کشد، شیخ مرا جذب می کند و مقیّد خواہد کرد، ازیں جا زود تر باید رفت [مقناطیس کی طرح کہ جسطرح وہ لوہے کو کھینچتا ہے، شیخ نے مجھے جذب کر لیا ہے اور اپنا مقیّد بنا لیا ہے، اس جگہ سے جلد از جلد چلے جانا چاہیئے]۔ شیخ نے بھی اپنے مرشد کے خواہر زادے کی بڑی خاطر داری کی، اپنی بیٹی اس سے بیاہ دی اور عراقی ایک عرصہ ملتان میں مقیم رہے۔ وہ نہایت دل گداز شعر لکھتے تھے، چنانچہ "نفحات الانس" میں مولانا جامی لکھتے ہیں کہ شیخ بہاءالدین زکریا کی خانقاہ میں عراقی نے چلّہ کشی شروع کی تو ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ ان پر ایک وجد کی کیفیت طاری ہو گئی، انہوں نے ۔۔۔ [ایک] ۔۔۔ غزل کہی اور اسے بلند آواز سے پڑھنا شروع کیا۔ اہلِ خانقاہ نے اس پر اعتراض کیا کیونکہ خانقاہ میں سوائے ذکر اور مراقبہ کے کوئی اور چیز رائج نہ تھی [سہروردیہ سلسلے میں سماع سے اجتناب کیا جاتا ہے]، انہوں نے شیخ سے بھی اس کی شکائت کی، لیکن انہوں نے فرمایا کہ یہ چیزیں تمھیں منع ہیں، اسے منع نہیں۔"

ایک روایت کے مطابق آپ پچیس سال تک شیخ بہاءالدین زکریا کی خدمت میں رہے اور انہوں نے بوقتِ وصال آپ کو ہی اپنا خلیفہ اور جانشین نامزد کیا، لیکن اس روایت کا ذکر شیخ محمد اکرام نے نہیں کیا بلکہ ان کے مطابق شیخ بہاءالدین زکریا کے جانشین انکے صاحبزادے شیخ صدرالدین تھے۔ بہرحال ملتان سے نکل کر عراقی نے حج کا قصد کیا اور مکہ و مدینہ کی زیارت کے بعد آپ قونیہ، ترکی میں مولانا رومی کی خدمت میں تشریف لے گئے اور ایک عرصہ تک انکی خدمت میں حاضر رہے اور سماع کی محفلوں میں حصہ لیتے رہے، مولانا رومی سے آپ کی ملاقات ہوئی یا ان کے صاحبزادے سے آپ ملے، اس سلسلے میں بھی مختلف روایات ہیں۔ اس کے بعد (شاید مولانا کے وصال کے بعد) آپ شام چلے گئے اور وہیں وفات پائی، آپ کا مزار دمشق میں ہے۔

عراقی کے متعلق یہ کچھ تفصیلات لکھنا مجھے ضروری محسوس ہوئیں کیونکہ انکے متعلق ویب پر بہت کم معلومات ملتی ہیں لیکن خوش قسمتی سے ان کی شاعری، جو کہ تصوف کی چاشنی سے لبریز ہے، محفوظ بھی ہے اور ویب پر عام ملتی بھی ہے، ان کا دیوان اس ربط پر پڑھا جا سکتا ہے

اب ان تینوں بزرگوں کی غزلیں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں جو کہ ایک ہی زمین (یعنی مولانا رومی کی زمین) میں ہیں، فقط اس معمولی فرق کے ساتھ کہ اقبال نے اپنی غزل میں قافیہ تھوڑا سا بدل دیا ہے لیکن بہرحال زمین وہی مولانا رومی کی ہے۔ مزید برآں یہ کہ مریدِ ہندی کو، پیرِ رومی کی یہ غزل شاید زیادہ ہی پسند تھی کہ اپنی کتب میں دو بار اس غزل کے اشعار لکھے ہیں، اسرارِ خودی اور جاوید نامہ میں۔

غزلِ مولانا جلال الدین رومی

بکشائے لب کہ قندِ فراوانَم آرزوست
بنمائے رخ کہ باغ و گلستانم آرزوست

اپنے لب کھول یعنی باتیں کر کہ مجھے بہت زیادہ شیرینی کی آرزو ہے اور اپنا چہرہ دکھا کہ مجھے باغ اور گلستان کی آرزو ہے۔

یک دست جامِ بادہ و یک دست زلفِ یار
رقصے چنیں میانۂ میدانم آرزوست

ایک ہاتھ میں شراب کا جام ہو اور دوسرے ہاتھ میں یار کی زلف، اور اسطرح بیچ میدان کے رقص کرنے کی آرزو ہے۔

دی شیخ با چراغ ہمی گشت گردِ شہر
کز دیو و دد ملولم و انسانم آرزوست

کل رات ایک بوڑھا شخص چراغ ہاتھ میں لیے شہر میں گھومتا رہا اور کہتا رہا کہ میں شیطانوں اور درندوں سے ملول ہوں اور کسی انسان کو دیکھنے کی آرزو ہے۔

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Maulana Rumi, مولانا رُومی
مولانا جلال الدین رُومی - ایک خاکہ
Maulana Rumi
زیں خلقِ پرشکایتِ گریاں، شدم ملول 
آں ‌هائے هوئے و نعرهٔ مستانم آرزوست
میں اس خلق سے، جو ہر وقت گریاں( اور مصائب) کی شکایت ہی کرتی ہے، ملول ہو گیا ہوں اور ھائے ھو یعنی مستی اور نعرۂ مستانہ کی آرزو ہے۔

واللہ کہ شہر بے ‌تو، مرا حبس می ‌شود
آوارگی و کوه و بیابانم آرزوست
واللہ کہ تیرے بغیر شہر میرے لیے حبس بن گیا ہے، مجھے آوارگی اور پہاڑوں اور بیابانوں کی آرزو ہے۔

گفتی ز ناز بیش مرنجاں مرا، برو
آں گفتَنَت کہ بیش مرنجانم آرزوست
تو نے ناز سے مجھے کہا کہ 'مجھے زیادہ تنگ نہ کرو اور چلے جاؤ"، یہ جو تو نے کہا کہ مجھے زیادہ تنگ نہ کرو، مجھے تم سے یہی بات سننے کی آرزو ہے۔ (چلے جانے والی بات کوئی عاشق کیسے سن سکتا ہے)۔

اے عقل تو ز شوق پراکندہ گوئے شو
اے عشق نکتہ ہائے پریشانم آرزوست
اے عقل تو شوق (عشق) کی وجہ سے بہکی بہکی باتیں کرنے والی بن جا، اے عشق مجھے تیری پریشان کر دینے والی لطیف باتوں کی ہی آرزو ہے۔

ایں آب و نانِ چرخ چو سیل است بیوفا
من ماہیَم، نہنگم و عمّانم آرزوست
یہ آسمان کا دیا ہوا آب و دانہ، سیلاب کی طرح بیوفا ہے کہ آیا اور چلا گیا، میں تو ایک مچھلی کی طرح ہوں اور سمندر و مگر مچھوں کی آرزو رکھتا ہوں یعنی ا نکے درمیان رہ کر رزق حاصل کرنے کی آرزو رکھتا ہوں، یعنی اصل رزق تو وہ ہے جو جدوجہد سے ملے نہ کہ دوسروں کا بخشا ہوا۔

جانم ملول گشت ز فرعون و ظلمِ او
آں نورِ جیبِ موسیِٰ عمرانم آرزوست

میری جان فرعون اور اسکے مظالم کی وجہ سے ملول و دل گرفتہ ہے، مجھے عمران کے بیٹے موسیٰ کے گریبان کے نور(یدِ بیضا) کی آرزو ہے یعنی موجودہ زمانے کے فرعونوں کیلیے بھی معجزوں کے ساتھ کسی موسیٰ کی آرزو ہے۔

زیں ہمرہانِ سست عناصر دلم گرفت
شیرِ خدا و رستمِ دستانم آرزوست
ان سست عناصر والے (دنیا پرست) ہمراہیوں نے مجھے دل گرفتہ کر رکھا ہے، مجھے شیرِ خدا (ع) اور دستان کے بیٹے رستم کی آرزو ہے یعنی بلند ہمت، حوصلہ مند اور بے لوث لوگوں کی سنگت چاہیئے۔

گفتم کہ یافت می نشَوَد جستہ ایم ما
گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست
میں نے کہا، ہم جسے ڈھونڈتے ہیں وہ نہیں ملتا، اُس نے کہا کہ جو نہیں ملتا مجھے تو اسی کی آرزو ہے۔
----------

غزلِ فخر الدین عراقی

یک لحظہ دیدنِ رخِ جانانم آرزوست
یکدم وصالِ آں مہِ خوبانم آرزوست

ایک لحظہ کیلیے رُخِ جاناں دیکھنے کی آرزو ہے، ایک دم کیلیے اُس مہِ خوباں کے وصال کی آرزو ہے۔

جاناں، ز آرزوئے تو جانم بہ لب رسید
بنمائے رخ، کہ قوّتِ دل و جانم آرزوست

اے جاناں تیری آرزو میں میری جان لبوں تک آ گئی، میری طرف رُخ کر کہ میری آرزو ہے کہ میرے دل و جان کو تقویت پہنچے یعنی تیرے دیدار سے زندہ ہو جاؤں۔

ور لحظہ ‌ای بہ کوئے تو ناگاه بگذرم
عیبم مکن، کہ روضۂ رضوانم آرزوست

ایک لحظ کیلیے ناگاہ تیرے کوچے کی طرف سے گذر گیا، عیب مت کر مجھے روضۂ رضوان (جنت) کی آرزو ہے کہ تیرا کوچہ میرے لیے مانندِ جنت ہے۔

وز روئے آں کہ رونقِ خوباں ز روئے توست
دایم نظارهٔ رخِ خوبانم آرزوست

تیرا چہرہ کہ دنیا کے سب خوباں کی رونق تیرے چہرے ہی سے ہے، اور مجھے اس رخِ خوباں یعنی تیرے چہرے کے دائمی نظارے کی آرزو ہے۔

سودائے تو خوش است و وصالِ تو خوشتر است
خوشتر ازیں و آں چہ بوَد؟ آنم آرزوست

تیرا جنون (و ہجر) خوب ہے اور تیرا وصال خوب تر ہے، ان دونوں سے خوب تر اگر کوئی چیز ہے تو پھر مجھے اُسی کی آرزو ہے یعنی تیرے ہجر و وصال سے بڑھ کر کوئی چیز تو عاشق کیلیے ہو نہیں سکتی سو وہ اور کس چیز کی خواہش کرے۔

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Fakhruddin Iraqi, شیخ فخرالدین عراقی ایک خاکہ
شیخ فخرالدین عراقی - ایک خاکہ
Fakhruddin Iraqi
ایمان و کفرِ من همہ رخسار و زلفِ توست
در بندِ کفر مانده و ایمانم آرزوست

میرا ایمان اور کفر بس تیرے رخسار اور زلفیں ہیں (تیرے چہرے کا نور میرے لیے مانندِ نورِ ایمان ہے اور تیری زلفوں کی سیاہی مانندِ تاریکیِ کفر)، مجھے کفر کی قید (تیری زلفوں کی قید) اور ایمان (تیرے چہرے) کی آرزو ہے۔

دردِ دلِ عراقی و درمانِ من تو ای
از درد بس ملولم و درمانم آرزوست

عراقی کے دل کا درد اور اسکا درمان بھی فقط تو ہی ہے، اس دردِ دل (یعنی تیرے ہجر) سے بہت ملول ہوگیا ہوں اور اب اسکے درمان (تیرے وصال و دیدار) کی آرزو ہے۔
----------

غزلِ علامہ محمد اقبال

تیر و سنان و خنجر و شمشیرم آرزوست
با من میا کہ مسلکِ شبّیرم آرزوست
مجھے تیر و نیزہ و خنجر و شمشیر کی آرزو ہے، (اے دنیا پرست و آسائش پسند) میرے ساتھ مت آ کہ مجھے مسلکِ شبیر (ع) کی آرزو ہے۔

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال
علامہ محمد اقبال
Allama Iqbal
از بہرِ آشیانہ خس اندوزیَم نگر
باز ایں نگر کہ شعلۂ در گیرم آرزوست
ایک آشیانہ بنانے کیلیے میرا تنکا تنکا جمع کرنا دیکھ، اور پھر یہ بھی دیکھ کہ مجھے اس آشیانے کو جلا ڈالنے کی آرزو ہے۔

گفتند لب ببند و ز اسرارِ ما مگو
گفتم کہ خیر، نعرۂ تکبیرم آرزوست
اُس نے کہا کہ اپنے لب بند رکھ اور ہمارے اسرار کسی سے مت کہہ، میں نے کہا کہ خیر (میں آپ کی بات مان لیتا ہوں) لیکن مجھے نعرۂ تکبیر (اللہ اکبر) بلند کرنے کی آرزو ہے یعنی اسی ایک نعرے (اللہ کی کبریائی ببان کرنے) سے سب چھوٹے بڑے راز خود بخود ہی ظاہر ہو جاتے ہیں۔

گفتند ہر چہ در دِلَت آید ز ما بخواہ
گفتم کہ بے حجابیِ تقدیرم آرزوست
اُس نے کہا کہ جو کچھ بھی تیرے دل میں ہے ہم سے مانگ، میں نے کہا کہ میری آرزو یہ ہے کہ میری تقدیر مجھ پر بے حجاب یعنی آشکار ہو جائے۔

از روزگارِ خویش ندانم جز ایں قدَر
خوابم ز یاد رفتہ و تعبیرم آرزوست
اپنی زندگی کے بارے میں، میں کچھ نہیں جانتا لیکن صرف اتنا کہ ایک خواب تھا جو بُھول گیا اور اب اس بُھولے ہوئے خواب کی تعبیر کی آرزو ہے۔

کو آں نگاہِ ناز کہ اوّل دِلَم رَبُود
عُمرَت دراز باد، ہماں تیرم آرزوست
وہ نگاہِ ناز کدھر گئی کہ جس نے اوّل اوّل ہمارے دل کو لوٹا تھا، تیری عمر دراز ہو مجھے اُسی تیر (نگاہِ ناز) کی آرزو ہے (اسلام کے گم گشتہ عروج و قرنِ اول کی خواہش کر رہے ہیں اور بلند اقبالی کی دعا بھی دے رہے ہیں)۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 30, 2010

نمی دانم کجا رفتم - شیخ شرف الدین پانی پتی معروف بہ بوعلی شاہ قلندر کی ایک غزل

جن دوستوں نے استاد فتح علی خان قوال کی آواز میں امیر خسرو کی مشہور نعت، 'نمی دانم چہ منزل بُود' سن رکھی ہے وہ جانتے ہونگے کہ اس میں انہوں نے نمی دانم کی مناسبت سے بوعلی قلندر (شیخ شرف الدین پانی پتی) کے دو تین اور اشعار بھی گائے ہیں جن میں نمی دانم آتا ہے۔ ایک عرصے سے خواہش تھی کہ یہ اشعار علیحدہ سے گائے ہوئے بھی مل جائیں بلآخر یہ خواہش ہمارے نئے اور پیارے دوست توصیف امین نے پوری کر دی۔ نئے دوست تو میرے کئی بنتے ہیں لیکن ان میں پیارے وہی ہوتے ہیں، میرے لیے نہ کہ اللہ کو، جو صاحبِ ذوق بھی ہوں اور غالب کے طرفدار بھی یعنی سخن فہم اور ماشاءاللہ آپ میں دونوں خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ انہوں نے جب مجھے اس قوالی کی فائل بھیجی تو انتہائی خوشی ہوئی اور اسی خوشی میں آپ دوستوں کو بھی شامل کر رہا ہوں کہ میری خوشیاں کچھ اسی قسم کی ہوتی ہیں۔

شیخ شرف الدین پانی پتی معروف بہ بوعلی قلندر کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں، آپ کا شمار برصغیر کے نامور اولیاء میں ہوتا ہے اور کئی کرامات آپ سے منسوب ہیں، پانی پت میں آپ کا مزار، بلا تفریقِ مذہب و ملت، مرجعِ خلائق ہے جس کی دو تصاویر نیچے عقیدت مندوں کیلیے بطور تبرک شامل کر رہا ہوں۔ آپ ایک بلند پایہ اور قادر الکلام شاعر بھی تھے۔ انسائیکلوپیڈیا اسلامیکا (دانشنامۂ جہانِ اسلام) کا مضمون نگار آپ کی شاعری کے متعلق لکھتا ہے۔ "بوعلی قلندر در نظم و نثر پارسی استاد بود۔" اسی مضمون سے علم ہوتا ہے کہ آپ کا ایک دیوان بھی شائع ہوا تھا جو آپ کی غزلیات، قصائد اور رباعیات کا مجموعہ تھا، حیدرآباد دکن سے آپ کے اشعار کا ایک مجموعہ "کلامِ قلندری" نامی بھی شائع ہوا تھا، اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اب یہ کتب کہیں سے ملتی ہیں یا نہیں۔ اسکے علاوہ آپ نے تین مثنویاں بھی تخلیق کی تھیں جس میں ایک کا نام "گل و بلبل" ہے۔ آپ کے کلام کے اردو اور پنجابی ترجمے بھی شائع ہو چکے ہیں۔

آپ کا ایک قطعہ تو انتہائی معروف ہے، اور کیا خوبصورت اور عقیدت سے بھرا قطعہ ہے

حیدریّم، قلندرم، مستم
بندۂ مرتضیٰ علی ہستم
پیشوائے تمام رندانم
کہ سگِ کوئے شیرِ یزدانم
میں حیدری ہوں، قلندر ہوں، مست ہوں، علی مرتضیٰ (ع) کا بندہ ہوں، میں تمام رندوں کا امام ہوں کہ شیرِ خدا (ع) کے کوچے کا کتا ہوں۔

غزل لکھنے سے پیشتر اسکی ہیت کے بارے میں ایک بات ضرور کہنا چاہونگا، مطلع سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزل کے قوافی "جمال، وصال" وغیرہ ہیں لیکن دوسرے اشعار میں ان قوافی کا تتبع نہیں کیا گیا بلکہ ہر شعر کو بظاہر چار ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا ہے، اور ہر ٹکڑے میں قافیہ لایا گیا ہے جو کہ مطلع کے قوافی سے مختلف ہیں اور پھر ردیف وہی مطلع والی۔ غزل کی ہیت میں ایسا لکھنا میرے لیے واقعی ایک نئی بات ہے، شاید صاحبانِ علم و فضل اس پر کچھ روشنی ڈال سکیں۔ مزید یہ کہ یقیناً یہ غزل مکمل نہیں ہے، اسلیے اگر کسی دوست کے علم میں مزید اشعار ہوں تو ضرور شیئر کریں۔

مَنَم محوِ جمالِ اُو، نمی دانم کُجا رفتم
شُدَم غرقِ وصالِ اُو، نمی دانم کجا رفتم
میں اسکے جمال میں محو ہوں اور نہیں معلوم کہاں جا رہا ہوں، بس اُسی کے وصال میں غرق ہوں اور نہیں جانتا کہاں جا رہا ہوں۔

غلامِ روئے اُو بُودَم، اسیرِ بُوئے اُو بودم
غبارِ کوئے اُو بودم، نمی دانم کجا رفتم
میں اس کے چہرے کا غلام ہوں، اسکی خوشبو کا اسیر ہوں، اسکے کُوچے کا غبار ہوں، اور نہیں جانتا کہاں جا رہا ہوں۔

بہ آں مہ آشنا گشتم، ز جان و دل فدا گشتم
فنا گشتم فنا گشتم، نمی دانم کجا رفتم
اُس ماہ رُو کا آشنا ہو کر گھومتا ہوں، جان و دل فدا کیے ہوئے گھومتا ہوں، خود کو فنا کیے ہوئے گھومتا ہوں اور نہیں جانتا کہاں جا رہا ہوں۔

شدم چوں مبتلائے اُو، نہادم سر بہ پائے اُو
شدم محوِ لقائے او، نمی دانم کجا رفتم
میں اس کے عشق میں ایسے مبتلا ہوں کہ اس کے پاؤں پر سر رکھے ہوں اور ہمہ وقت اسکے دیدار میں محو اور نہیں جانتا کہاں جا رہا ہوں۔

قلندر بُوعلی ہستم، بنامِ دوست سرمستم
دل اندر عشقِ اُو بستم، نمی دانم کجا رفتم
میں بُو علی قلندر ہوں اور دوست کے نام پر سرمست ہوں اور میرے دل میں بس اُسی کا عشق ہے، اور نہیں جانتا کہاں جا رہا ہوں۔


تصاویر بشکریہ وکی پیڈیا
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Mazar Bu Ali Shah Qalandar, مزار بوعلی شاہ قلندر
مزار شریف شیخ شرف الدین پانی پتی بوعلی قلندر
Mazar Bu Ali Shah Qalandar

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Mazar Bu Ali Shah Qalandar, مزار بوعلی شاہ قلندر
 مزار شریف شیخ شرف الدین پانی پتی بو علی قلندر
Mazar Bu Ali Shah Qalandar

یہ کلام بہت سے قوالوں نے گایا ہے جس میں استاد نصرت فتح علی خان مرحوم بھی شامل ہیں لیکن میں یہاں استاد بہاالدین قوال کی آواز میں شامل کر رہا ہوں۔




مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 13, 2010

جگر مرادآبادی کی ایک فارسی غزل مع ترجمہ - کعبہ در پائے یار دیدم دوش

جگر مُرادآبادی کا شمار غزل کے آئمہ میں سے ہوتا ہے، فقر و فاقہ و مستی میں زندگی بسر کی اور یہی کچھ شاعری میں بھی ہے۔ کسی زمانے میں ان کا ہندوستان میں طوطی بولتا تھا اور ہر طرف جگر کی غزل کی دھوم تھی۔ انکے کلیات میں انکا کچھ فارسی کلام بھی موجود ہے۔ انکے مجموعے "شعلۂ طور" سے ایک فارسی غزل کے کچھ اشعار ترجمے کے ساتھ "تبرک" کے طور پر لکھ رہا ہوں۔

کعبہ در پائے یار دیدم دوش
ایں چہ گفتی جگر، خموش خموش
میں نے کل رات کعبہ یار کے پاؤں میں دیکھا، اے جگر یہ تو نے کیا کہہ دیا (راز کی بات برسرِ عام کہہ دی)، خاموش ہوجا، خاموش۔


حسن پنہاں و جلوہ ہاست بجوش
اصل خاموش و فرع ہا بخروش
حُسنِ ازلی تو نظر سے پنہاں ہے مگر (کائنات میں) اسکے جلوے جوش مار رہے ہیں، اصل تو خاموش ہے لیکن اسکی شاخوں (فروع) نے شور مچایا ہوا ہے۔

اے اسیرِ تعیّناتِ جہاں
تو چہ دانی کہ چیست مستی و ہوش
اے کائنات کی تعیّنات (مقرر اور مسلط کی ہوئی چیزوں) کے اسیر، تُو کیا جانے کہ مستی کیا ہے اور ہوش کیا ہے۔
Jigar Muradabadi, جگر مُرادآبادی, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
Jigar Muradabadi, جگر مُرادآبادی
بادہ پیش آر تا کنم آغاز
داستاں ہائے عشقِ آفت کوش
جام سامنے لا کہ میں آغاز کروں اس عشق کی داستانوں کا جو کہ ہمیشہ آفتوں کی تلاش میں رہتا ہے۔

بے خبر رو کہ ہوش در مستیست
ہوشیار آ کہ بے خودیست بہ ہوش
بے خبر چلا چل کہ ہوش تو مستی ہی میں ہے، ہوشیار بن کر آ جا کہ ہوشیاری میں بھی بے خودی سی ہے۔
گفتہ بودم فسانہ از مستی
تو شنیدی چرا ز عالمِ ہوش
میں تو اپنا افسانۂ ذوق و شوق مستی میں کہہ رہا ہوں، تو کیوں اسے عالمِ ہوش میں سن رہا ہے، اس کو سمجھنے کیلیے ضروری ہے کہ سننے والا بھی عالمِ مستی میں ہو۔

قاضیا یک نظر بسوئے جگر
آں کہ یک خادم است و حلقہ بگوش
جنابِ قاضی، ایک نظر جگر کی طرف بھی کہ وہ آپ کا ایک خادم اور حلقہ بگوش ہے۔ قاضی سے مراد جگر کے مرشد  قاضی سید عبدالغنی شاہ صاحب ہیں جیسا کہ جگر نے اپنی کتاب میں خود لکھا ہے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 3, 2010

فَرقے نہ نہد عاشق در کعبہ و بتخانہ - علامہ اقبال کی ایک خوبصورت غزل

فَرقے نہ نہد عاشق در کعبہ و بتخانہ
ایں جلوتِ جانانہ، آں خلوتِ جانانہ
عاشق کعبہ اور بت خانہ میں کوئی فرق روا نہیں رکھتا، اس کیلیئے یہ (بت خانہ) اگر محبوب کی جلوت ہے تو وہ (کعبہ) محبوب کی خلوت ہے۔

شادم کہ مزارِ من در کوئے حرم بستند
راہے ز مژہ کاوم از کعبہ بہ بتخانہ
میں خوش ہوں کہ میرا مزار کعبہ کے کوچے میں ہے، میں اپنی پلکوں سے کعبہ سے بت خانہ تک کا راستہ بنا رہا ہوں۔

از بزمِ جہاں خوشتر، از حور و جناں خوشتر
یک ہمدمِ فرزانہ، وزبادہ دو پیمانہ
دنیا کی محفل سے بہتر ہے، حوروں اور جنت سے بہتر ہے ایک عقل مند دوست اور دو پیمانوں میں بادہ۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال
علامہ محمد اقبال
Allama Iqbal
ہر کس نگہے دارَد، ہر کس سُخَنے دارَد
در بزمِ تو می خیزَد، افسانہ ز افسانہ
ہر شخص اپنی نگاہ رکھتا ہے، ہر کوئی اپنی (ہی) بات رکھتا ہے، تیری بزم میں (جب تیرا ذکر چلتا ہے) تو بات سے بات نکلتی ہی چلی جاتی ہے اور ہر کسی کی پاس کہنے کیلیے اپنی ہی کہانی ہوتی ہے۔

ایں کیست کہ بر دلہا آوردہ شبیخونے؟
صد شہرِ تمنّا را یغما زدہ تُرکانہ
یہ کون ہے کہ جس نے دلوں پر شب خون مارا ہے اور تمناؤں کے سینکڑوں شہروں کو ترکوں کی طرح حملہ کر کے لوٹ لیا ہے۔

در دشتِ جنونِ من جبریل زبوں صیدے
یزداں بہ کمند آور اے ہمّتِ مردانہ
میرے جنون کے بیابان میں جبریل تو ایک ادنٰی شکار ہے، اے ہمتِ مردانہ خدا پر کمند ڈال۔

اقبال بہ منبر زد رازے کہ نہ باید گفت
نا پختہ بروں آمد از خلوتِ میخانہ
اقبال نے منبر پر (سرِ عام) وہ راز کہہ دیا ہے جو کہ نہیں کہنا چاہیئے تھا، وہ (شاید) میخانہ کی خلوت سے خام نکلا ہے۔

(پیامِ مشرق)

------
بحر - بحر ہزج مثمن اخرب
یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی ہر مصرع دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا ہے اور ہر ٹکڑا، ایک مصرع کے احکام میں آ سکتا ہے۔
افاعیل - مَفعُولُ مَفَاعِیلُن / مَفعُولُ مَفَاعِیلُناشاری نظام - 122 2221 / 122 2221
تقطیع -
فَرقے نہ نہد عاشق در کعبہ و بتخانہ
ایں جلوتِ جانانہ، آں خلوتِ جانانہ
فرقے نَ - مفعول - 122
نہَد عاشق - مفاعیلن - 2221
در کعبَ - مفعول - 122
و بتخانہ - مفاعیلن - 2221
ای جلوَ - مفعول - 122
تِ جانانہ - مفاعیلن - 2221
آ خلوَ - مفعول - 122
تِ جانانہ - مفاعیلن - 2221
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 17, 2010

ارسطو کے سنہری مشورے آمروں کیلیے

یوں تو دنیائے سیاسیات میں چانکیہ اور میکاؤلی ہی زیادہ بدنام ہیں کہ انہوں نے بادشاہوں اور مطلق العنان حکمرانوں اور آمروں کو اپنی بادشاہت اور آمریت بچانے کیلیے ایسے ایسے نادر مشورے دیئے ہیں کہ ان دونوں کی عیاری اور مکاری ضرب المثل بن چکی ہے۔ لیکن ایک دلچسپ اقتباس مجھے ارسطو کی کتاب 'سیاسیات' میں ملا جس میں ارسطو، جس کا مقام علم و فضل و حکمت کی دنیا میں کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے، کسی طرح بھی چانکیہ اور میکاؤلی سے کم نہیں ہے۔ یوں تو ارسطو نے اپنی اس کتاب میں جبر و استبداد کی حکومت اور آمریت کو حکومتوں کی بدترین قسم قرار دیا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ کسی بھی مطلق العنان آمر سے زیادہ برا شخص کوئی نہیں ہوسکتا لیکن ساتھ ہی ان کو اپنی آمریت بچانے کے ایسے بیش بہا اور نادر مشورے دیے ہیں کہ دنیا کے "پڑھے لکھے" آمروں نے ان کو آبِ زر سے لکھا ہوگا۔

مذکورہ مشوروں کا ترجمہ و تخلیص لکھ رہا ہوں۔

ارسطو فرماتے ہیں کہ ایک آمر کو اپنی آمریت بچانے کیلیے چاہیئے کہ وہ

- کسی بھی غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل فرد کی اٹھان کو روکے، اس پر مقدمہ چلا کر اسے پھانسی دے دے یا اگر ضروری ہو تو اسے قتل کروا دے۔

- وہ بڑے اور اجتماعی کھانوں اور ملنے جلنے کی جگہوں کلبوں وغیرہ پر پابندی لگا دے تا کہ لوگ نہ آپس میں گھلے ملیں اور نہ اس کے خلاف اجتماع کر سکیں، اور ہر اسطرح کی تعلیم پر بھی جس سے اسکے خلاف جذبات ابھر سکتے ہوں۔

- اسکے ملک میں کسی بھی قسم کے علمی اور فکرانگیز اجتماع یا مباحث نہیں ہونے چاہیئں۔

- وہ لوگوں کو آپس میں گھلنے ملنے اور ایک دوسرے کو جاننے سے روکے۔

- وہ ہر جگہ اپنے جاسوس پھیلا دے

- وہ ہر وقت لوگوں میں فتنہ و فساد و لڑائی جھگڑے کے بیج بوتا رہے، دوستوں کو دوستوں کے ساتھ بھڑا دے، عوام کو اشرافیہ کے ساتھ اور امراء کو امراء کے ساتھ۔

- وہ عوام کو ہمیشہ غربت کی چکی میں پیستا رہے، اور ان پر ٹیکسوں کا بار بڑھاتا ہی رہے۔

- وہ اپنی عوام کو ہر وقت کسی نہ کسی بڑے اور عظیم منصوبے میں مصروف رکھے جیسے کہ مصر کے فرعونوں نے اپنی عوام کو اہرام بنانے میں مصروف کر دیا تھا۔

- وہ عورتوں اور غلاموں کو زیادہ سے زیادہ حقوق دے تا کہ وہ اسکے زیرِ بار احسان ہو کر اسکے جاسوس بن سکیں، عورتیں اپنے خاوندوں کے خلاف جاسوسی کریں اور غلام اپنے مالکوں کے خلاف۔

- اسے جنگیں لڑنی چاہیئں (یا اسکی تیاریوں میں مصروف رہے) تا کہ اسکی عوام مصروف رہے اور انہیں ہمہ وقت کسی لیڈر کی ضرورت محسوس ہوتی رہے۔

اور یہ سب لکھنے کے بعد ارسطو دو مزید 'سنہری مشورے' آمروں کو دیتا ہے جس سے وہ اپنی آمریت کو بچا سکتے ہیں، ایک تو یہ کہ وہ اعتدال پسند (اور روشن خیال) ہو جائیں اور اپنے آپ کو انصاف پسند حکمران کے طور پر ظاہر کریں اور دوسرا یہ کہ وہ انتہائی مذہبی نظر آئیں۔

ارسطو کے مشورے آپ نے پڑھ لیے، ہو سکتا ہے کہ ارسطو کے کسی شارح اور مداح نے یہ لکھا ہو کہ یہ سارے مشورے ارسطو نے طنز کے طور پر لکھے ہیں کیونکہ وہ ایک آمر کو بدترین انسان اور آمریت کو بدترین حکومت سمجھتا تھا لیکن ارسطو کے ناقد برٹرنڈ رسل نے ایسی کسی بات کا اظہار نہیں کیا۔

میں، ملکی اور بین الاقوامی سیاست سے جتنا بھی غیر متعلق رہوں، سیاسیات سے بہ لحاظ ایک علم کے غیر متعلق نہیں رہ سکتا اور برٹرنڈ رسل کی شہرہ آفاق کتاب 'ہسٹری آف ویسٹرن فلاسفی' سے یہ باب پڑھتے ہو جو ایک بات بار بار میرے ذہن میں آ رہی تھی اور جو اس پوسٹ کا محرک بنی وہ یہ کہ پاکستان کے مشہور و معروف (اب تک کے) تین جرنیلوں، یا انکے مداحین سے معذرت کے ساتھ آمروں نے، کیا ارسطو کے مذکورہ مشوروں کا مطالعہ کر رکھا تھا؟ آفٹر آل جرنیل "پڑھے لکھے" شخص ہوتے ہیں۔ آمر نما جمہوری سیاستدانوں کا ذکر اس لیے نہیں کر رہا کیونکہ مجھے علم ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی ارسطو کا بحیثیت ایک سیاسی مفکر کے نام بھی سنا ہو تو غنیمت ہے۔

جو قارئین ارسطو کی کتاب 'سیاسیات' سے مذکورہ اقتباس پڑھنا چاہیں وہ اس ربط سے پڑھ سکتے ہیں۔

مکمل کتاب اس ربط پر پڑھی جا سکتی ہے۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔