Jul 21, 2011

کسی انسان کو اپنا نہیں رہنے دیتے - صغیر ملال

صغیر ملال مرحوم کی ایک خوبصورت غزل

کسی انسان کو اپنا نہیں رہنے دیتے
شہر ایسے ہیں کہ تنہا نہیں رہنے دیتے

ان سے بچنا کہ بچھاتے ہیں پناہیں پہلے
پھر یہی لوگ کہیں کا نہیں رہنے دیتے

پہلے دیتے ہیں دلاسہ کہ بہت کچھ ہے یہاں
اور پھر ہاتھ میں کاسہ نہیں رہنے دیتے

کبھی ناکام بھی ہو جاتے ہیں وہ لوگ کہ جو
واپسی کا کوئی رستہ نہیں رہنے دیتے

دائرے چند ہیں گردش میں ازل سے جو یہاں
کوئی بھی چیز ہمیشہ نہیں رہنے دیتے

جس کو احساس ہو افلاک کی تنہائی کا
دیر تک اس کو اکیلا نہیں رہنے دیتے

زندگی پیاری ہے لوگوں کو اگر اتنی ملال
کیوں مسیحاؤں کو زندہ نہیں رہنے دیتے

-----

بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)

اشاری نظام - 2212 2211 2211 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

کسی انسان کو اپنا نہیں رہنے دیتے
شہر ایسے ہیں کہ تنہا نہیں رہنے دیتے

کِ سِ انسا - فعلاتن - 2211
ن کُ اپنا - فعلاتن - 2211
ن ہِ رہنے - فعلاتن - 2211
دیتے - فعلن - 22

شہر ایسے - فاعلاتن - 2212
ہِ کہ تنہا - فعلاتن - 2211
ن ہِ رہنے - فعلاتن - 2211
دیتے - فعلن - 22
مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 16, 2011

ایک زمین تین شاعر - غالب، داغ، امیر مینائی

اپنے بلاگ کے قارئین کی خدمت میں اس سے پہلے فارسی کے تین شعراء، مولانا رومی، مولانا عراقی اور علامہ اقبال کی تین غزلیات پیش کی تھیں جو ایک ہی زمین میں تھیں، آج اردو کے تین مشہور شعراء، مرزا غالب، نواب داغ دہلوی اور مُنشی امیر مینائی کی غزلیات پیش کر رہا ہوں جو ایک ہی زمین میں ہیں۔ غالب کی غزل تو انتہائی مشہور ہے، دیگر دونوں غزلیں بھی خوب ہیں۔ غزلیات بشکریہ کاشفی صاحب، اردو محفل فورم۔

غزلِ غالب

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا

ترے وعدے پہ جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تُو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا

کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غمگسار ہوتا
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Mirza Ghalib, مرزا غالب
Mirza Ghalib, مرزا غالب
رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا

غم اگرچہ جاں گسِل ہے، پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غمِ عشق گر نہ ہوتا، غمِ روزگار ہوتا

کہوں کس سے میں کہ کیا ہے، شب غم بری بلا ہے
مجھے کیا بُرا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا

ہوئے مر کے ہم جو رُسوا، ہوئے کیوں‌ نہ غرقِ دریا
نہ کبھی جنازہ اُٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا

اُسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دوچار ہوتا

یہ مسائلِ تصوّف، یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

------------------

غزلِ داغ

عجب اپنا حال ہوتا جو وصال یار ہوتا
کبھی جان صدقے ہوتی، کبھی دل نثار ہوتا

کوئی فتنہ تاقیامت نہ پھر آشکار ہوتا
ترے دل پہ کاش ظالم مجھے اختیار ہوتا

جو تمہاری طرح تم سے کوئی جھوٹے وعدے کرتا
تمہیں منصفی سے کہہ دو، تمہیں اعتبار ہوتا؟

غمِ عشق میں مزہ تھا جو اسے سمجھ کے کھاتے
یہ وہ زہر ہے کہ آخر، مئے خوشگوار ہوتا

نہ مزہ ہے دشمنی میں، نہ ہے لطف دوستی میں
کوئی غیر غیر ہوتا، کوئی یار یار ہوتا
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Dagh Dehlvi, داغ دہلوی
Dagh Dehlvi, داغ دہلوی
یہ مزہ تھا دل لگی کا کہ برابر آگ لگتی
نہ تجھے قرار ہوتا، نہ مجھے قرار ہوتا

ترے وعدے پر ستمگر، ابھی اور صبر کرتے
اگر اپنی زندگی کا ہمیں اعتبار ہوتا

یہ وہ دردِ دل نہیں ہے کہ ہو چارہ ساز کوئی
اگر ایک بار ملتا، تو ہزار بار ہوتا

گئے ہوش تیرے زاہد جو وہ چشمِ مست دیکھی
مجھے کیا الٹ نہ دیتی، جو نہ بادہ خوار ہوتا

مجھے مانتے سب ایسا کہ عدو بھی سجدے کرتے
درِ یار کعبہ بنتا جو مرا مزار ہوتا

تمہیں ناز ہو نہ کیونکر، کہ لیا ہے داغ کا دل
یہ رقم نہ ہاتھ لگتی، نہ یہ افتخار ہوتا

---------------------

غزلِ امیر مینائی

مرے بس میں یا تو یا رب، وہ ستم شعار ہوتا
یہ نہ تھا تو کاش دل پر مجھے اختیار ہوتا

پسِ مرگ کاش یوں ہی، مجھے وصلِ یار ہوتا
وہ سرِ مزار ہوتا، میں تہِ مزار ہوتا

ترا میکدہ سلامت، ترے خم کی خیر ساقی
مرا نشہ کیوں اُترتا، مجھے کیوں‌ خمار ہوتا
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Ameer Meenia, امیر مینائی
Ameer Meenia, امیر مینائی
مرے اتّقا کا باعث، تو ہے میری ناتوانی
جو میں توبہ توڑ سکتا، تو شراب خوار ہوتا

میں ہوں‌ نامراد ایسا کہ بلک کے یاس روتی
کہیں پا کے آسرا کچھ جو امیدوار ہوتا

نہیں پوچھتا ہے مجھ کو، کوئی پھول اس چمن میں
دلِ داغدار ہوتا تو گلے کا ہار ہوتا

وہ مزا دیا تڑپ نے کہ یہ آرزو ہے یا رب
مرے دونوں پہلوؤں میں، دلِ بے قرار ہوتا

دمِ نزع بھی جو وہ بُت، مجھے آ کے مُنہ دکھاتا
تو خدا کے منہ سے اتنا نہ میں شرم سار ہوتا

نہ مَلَک سوال کرتے، نہ لَحَد فشار دیتی
سرِ راہِ کوئے قاتل، جو مرا مزار ہوتا

جو نگاہ کی تھی ظالم، تو پھر آنکھ کیوں چُرائی
وہی تیر کیوں نہ مارا، جو جگر کے پار ہوتا

میں زباں سے تم کو سچّا، کہو لاکھ بار کہہ دُوں
اسے کیا کروں کہ دل کو نہیں اعتبار ہوتا

مری خاک بھی لَحَد میں، نہ رہی امیر باقی
انہیں مرنے ہی کا اب تک، نہیں اعتبار ہوتا

------------
بحر - بحر رمل مثمن مشکول
افاعیل - فَعِلاتُ فاعِلاتُن / فَعِلاتُ فاعِلاتُن
یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی ہر مصرع دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا ہے اور ہر ٹکڑا بھی ایک مصرعے کے حکم میں آ سکتا ہے یعنی اس میں عملِ تسبیغ کیا جا سکتا ہے۔
اشاری نظام - 1211 2212 / 1211 2212
ہندسوں کو اردو طرز پر پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 1211 کا ٹکڑا پہلا ہے اور اس میں بھی 11 پہلے ہے۔
تقطیع
غالب کے مطلعے کی تقطیع درج کر رہا ہوں، تینوں غزلوں کے تمام اشعار اس بحر میں تقطیع ہونگے۔

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا

یِ نہ تھی ہَ - فعلات - 1211
ما رِ قسمت - فاعلاتن - 2212
کہ و صا ل - فعلات - 1211
یار ہوتا - فاعلاتن - 2212

اَ گَ رو ر - فعلات - 1211 (الفِ وصل کا ساقط ہونا نوٹ کریں)۔
جی تِ رہتے - فاعلاتن - 2212
یَ ہِ ان تِ - فعلات - 1211
ظار ہوتا - فاعلاتن - 2212

----------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 11, 2011

ساز، یہ کینہ ساز کیا جانیں - داغ دہلوی

ساز، یہ کینہ ساز کیا جانیں
ناز والے نیاز کیا جانیں

کب کسی در کی جُبّہ سائی کی
شیخ صاحب نماز کیا جانیں
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Dagh Dehlvi, داغ دہلوی
Dagh Dehlvi, داغ دہلوی
جو رہِ عشق میں قدم رکھیں
وہ نشیب و فراز کیا جانیں

پوچھئے مے کشوں سے لطفِ شراب
یہ مزا پاک باز کیا جانیں

حضرتِ خضر جب شہید نہ ہوں
لطفِ عمرِ دراز کیا جانیں

شمع رُو آپ گو ہوئے لیکن
لطفِ سوز و گداز کیا جانیں

جن کو اپنی خبر نہیں اب تک
وہ مرے دل کا راز کیا جانیں

جو گزرتے ہیں داغ پر صدمے
آپ بندہ نواز کیا جانیں

-----

بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن مُفاعِلُن فَعلُن
(اس بحر میں آٹھ وزن جمع ہو سکتے ہیں، تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)
اشاری نظام - 2212 2121 22
ہندسوں کو اردو رسم الخط کے مطابق پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 2212 پہلے پڑھیے۔

تقطیع -

ساز، یہ کینہ ساز کیا جانیں
ناز والے نیاز کیا جانیں

ساز یہ کی - فاعلاتن - 2212
نَ ساز کا - مفاعلن - 2121
جا نے - فعلن - 22

ناز والے - فاعلاتن - 2212
نیاز کا - مفاعلن - 2121
جانے - فعلن - 22

----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 4, 2011

اختر شیرانی کی ایک شاہکار نظم - اے عشق کہیں لے چل

عین عالمِ شباب میں وفات پا جانے والے محمد داؤد خان اختر شیرانی، 1905ء تا 1948ء، دنیائے اردو میں “شاعرِ رومان” کے لقب سے جانے جاتے ہیں۔ آپ کا تعلق ایک ادبی اور علمی خانوادے سے تھا کہ آپ کے والد حافظ محمود شیرانی نہ صرف فارسی کے استاد تھے بلکہ ایک بلند پایہ محقق اور تاریخ دان بھی تھے، انکا شاہکار، اردو کی ابتدا کے متعلق انکی لازوال کتاب “پنجاب میں اردو” ہے۔

اختر شیرانی نے اُس دور میں اپنی رومانوی شاعری بالخصوص رومانوی نظموں
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Akhtar Sheerani, اختر شیرانی
Akhtar Sheerani, اختر شیرانی
کا لوہا منوایا جب ایک طرف غزل کے اساتذہ کا طوطی بولتا تھا تو دوسری طرف ترقی پسند بزرجمہر ادبی افق پر چھائے ہوئے تھے، لیکن اختر شیرانی مرحوم نے ایک نئی صدا بلند کی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ آواز چار دانگ عالم پھیل گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ آواز گم بھی ہو گئی۔

اختر شیرانی کی نظم “اے عشق کہیں لے چل” کا شمار اردو کلاسکس میں ہوتا ہے اور مجھے بھی یہ نظم بہت پسند ہے۔ یہ نظم معنوی خوبیوں سے تو مالا مال ہے ہی لیکن اس میں نغمگی، بے ساختگی اور روانی بھی دیدنی ہے۔ اختر شیرانی کا مکمل کلام اس ربط پر پڑھا جا سکتا ہے۔

اے عشق کہیں لے چل

اے عشق کہیں لے چل، اس پاپ کی بستی سے
نفرت گہِ عالم سے، لعنت گہِ ہستی سے
ان نفس پرستوں سے، اِس نفس پرستی سے
دُور اور کہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

ہم پریم پُجاری ہیں، تُو پریم کنہیّا ہے
تُو پریم کنہیّا ہے، یہ پریم کی نیّا ہے
یہ پریم کی نیّا ہے، تُو اِس کا کھویّا ہے
کچھ فکر نہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

بے رحم زمانے کو، اب چھوڑ رہے ہیں ہم
بے درد عزیزوں سے، منہ موڑ رہے ہیں ہم
جو آس کہ تھی وہ بھی، اب توڑ رہے ہیں ہم
بس تاب نہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

یہ جبر کدہ آزاد افکار کا دشمن ہے
ارمانوں کا قاتل ہے، امّیدوں کا رہزن ہے
جذبات کا مقتل ہے، جذبات کا مدفن ہے
چل یاں سے کہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

آپس میں چھل اور دھوکے، سنسار کی ریتیں ہیں
اس پاپ کی نگری میں، اجڑی ہوئی پریتیں ہیں
یاں نیائے کی ہاریں ہیں، انیائے کی جیتیں ہیں
سکھ چین نہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

اک مذبحِ جذبات و افکار ہے یہ دنیا
اک مسکنِ اشرار و آزار ہے یہ دنیا
اک مقتلِ احرار و ابرار ہے یہ دنیا
دور اس سے کہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

یہ درد بھری دنیا، بستی ہے گناہوں کی
دل چاک اُمیدوں کی، سفّاک نگاہوں کی
ظلموں کی جفاؤں کی، آہوں کی کراہوں کی
ہیں غم سے حزیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

آنکھوں میں سمائی ہے، اک خواب نما دنیا
تاروں کی طرح روشن، مہتاب نما دنیا
جنّت کی طرح رنگیں، شاداب نما دنیا
للہ وہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

وہ تیر ہو ساگر کی، رُت چھائی ہو پھاگن کی
پھولوں سے مہکتی ہوِ پُروائی گھنے بَن کی
یا آٹھ پہر جس میں، جھڑ بدلی ہو ساون کی
جی بس میں نہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

قدرت ہو حمایت پر، ہمدرد ہو قسمت بھی
سلمٰی بھی ہو پہلو میں، سلمٰی کی محبّت بھی
ہر شے سے فراغت ہو، اور تیری عنایت بھی
اے طفلِ حسیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

اے عشق ہمیں لے چل، اک نور کی وادی میں
اک خواب کی دنیا میں، اک طُور کی وادی میں
حوروں کے خیالاتِ مسرور کی وادی میں
تا خلدِ بریں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

سنسار کے اس پار اک اس طرح کی بستی ہو
جو صدیوں سے انساں کی صورت کو ترستی ہو
اور جس کے نظاروں پر تنہائی برستی ہو
یوں ہو تو وہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

مغرب کی ہواؤں سے، آواز سی آتی ہے
اور ہم کو سمندر کے، اُس پار بلاتی ہے
شاید کوئی تنہائی کا دیس بتاتی ہے
چل اس کے قریں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

اک ایسی فضا جس تک، غم کی نہ رسائی ہو
دنیا کی ہوا جس میں، صدیوں سے نہ آئی ہو
اے عشق جہاں تُو ہو، اور تیری خدائی ہو
اے عشق وہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

اک ایسی جگہ جس میں، انسان نہ بستے ہوں
یہ مکر و جفا پیشہ، حیوان نہ بستے ہوں
انساں کی قبا میں یہ شیطان نہ بستے ہوں
تو خوف نہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

برسات کی متوالی، گھنگھور گھٹاؤں میں
کہسار کے دامن کی، مستانہ ہواؤں میں
یا چاندنی راتوں کی شفّاف فضاؤں میں
اے زہرہ جبیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

ان چاند ستاروں کے، بکھرے ہوئے شہروں میں
ان نور کی کرنوں کی ٹھہری ہوئی نہروں میں
ٹھہری ہوئی نہروں میں، سوئی ہوئی لہروں میں
اے خضرِ حسیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

اک ایسی بہشت آگیں وادی میں پہنچ جائیں
جس میں کبھی دنیا کے، غم دل کو نہ تڑپائیں
اور جس کی بہاروں میں جینے کے مزے آئیں
لے چل تُو وہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

————
بحر - بحر ہزج مثمن اخرب
یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی ہر مصرع دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا ہے اور ہر ٹکڑا، ایک مصرع کے احکام میں آ سکتا ہے۔
افاعیل - مَفعُولُ مَفَاعِیلُن مَفعُولُ مَفَاعِیلُن
اشاری نظام - 122 2221 122 2221
تقطیع -
اے عشق کہیں لے چل، اس پاپ کی بستی سے
نفرت گہِ عالم سے، لعنت گہِ ہستی سے
اے عشق - مفعول - 122
کہیں لے چل - مفاعیلن - 2221
اس پاپ - مفعول - 122
کِ بستی سے - مفاعیلن - 2221

نفرت گَ - مفعول - 122
ہِ عالم سے - مفاعیلن - 2221
لعنت گَ - مفعول - 122
ہِ ہستی سے - مفاعیلن - 2221

----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 2, 2011

غیروں کو بھلا سمجھے اور مجھ کو برا جانا - میر مہدی مجروح

غیروں کو بھلا سمجھے، اور مجھ کو برا جانا
سمجھے بھی تو کیا سمجھے، جانا بھی تو کیا جانا

اک عمر کے دُکھ پائے، سوتے ہیں فراغت سے
اے غلغلۂ محشر، ہم کو نہ جگا جانا

مانگوں تو سہی بوسہ پر کیا ہے علاج اس کا
یاں ہونٹ کا ہل جانا واں بات کا پا جانا

گو عمر بسر اس کی تحقیق میں کی تو بھی
ماہیّتِ اصلی کو اپنی نہ ذرا جانا

کیا یار کی بد خوئی، کیا غیر کی بد خواہی
سرمایۂ صد آفت ہے دل ہی کا آ جانا

کچھ عرضِ تمنّا میں شکوہ نہ ستم کا تھا
میں نے تو کہا کیا تھا اور آپ نے کیا جانا

اک شب نہ اُسے لائے، کچھ رنگ نہ دکھلائے
اک شور قیامت ہی نالوں نے اُٹھا جانا

چلمن کا الٹ جانا، ظاہر کا بہانہ ہے
ان کو تو بہر صورت اک جلوہ دکھا جانا

ہے حق بطرف اسکے، چاہے سَو ستم کر لو
اس نے دلِ عاشق کو مجبورِ وفا جانا

انجام ہوا اپنا آغازِ محبّت میں
اس شغل کو جاں فرسا ایسا تو نہ تھا جانا

مجروح ہوئے مائل کس آفتِ دوراں پر
اے حضرتِ من تم نے، دل بھی نہ لگا جانا

----

بحر - بحر ہزج مثمن اخرب
یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی ہر مصرع دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا ہے اور ہر ٹکڑا، ایک مصرع کے احکام میں آ سکتا ہے۔ اور ہر ٹکڑے میں عملِ تسبیغ ہو سکتا ہے۔

افاعیل - مَفعُولُ مَفَاعِیلُن / مَفعُولُ مَفَاعِیلُن

اشاری نظام - 122 2221 / 122 2221
(ہندسوں کو اردو طرزِ تحریر پر پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 122 سے شروع کریں اور اس میں بھی 2 پہلے ہے)۔

تقطیع -

غیروں کو بھلا سمجھے اور مجھ کو برا جانا
سمجھے بھی تو کیا سمجھے، جانا بھی تو کیا جانا

غے رو کُ - مفعول - 122
بلا سمجے - مفاعیلن - 2221
اُر مج کُ - مفعول - 122
بُرا جانا - مفاعیلن - 2221

سمجے بِ - مفعول - 122
تُ کا سمجے - مفاعیلن - 2221
جانا بِ - مفعول - 122
تُ کا جانا - مفاعیلن - 2221

-----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 28, 2011

غزلِ خسرو - عاشق شدم و محرمِ ایں کار ندارم

شعرِ خسرو
عاشق شدم و محرمِ ایں کار ندارم
فریاد کہ غم دارم و غم خوار ندارم


ترجمہ
میں عاشق تو ہو گیا ہوں مگر اس کام کا میرے پاس کوئی محرم راز نہیں ہے، فریاد ہے کہ مجھے غم تو ہے لیکن کوئی غم خوار نہیں ہے۔

منظوم ترجمہ مسعود قریشی
عاشق ہوں، کوئی محرمِ اسرار نہیں ہے
فریاد کہ غم ہے، کوئی غم خوار نہیں ہے


شعرِ خسرو
آں عیش، کہ یاری دہدم صبر، ندیدم
واں بخت، کہ پرسش کندم یار ندارم


ترجمہ
میں پاس نہیں ہے وہ عیش کہ یار مجھے صبر دے، میرے پاس نہیں ہے وہ قسمت کہ یار خود میرا حال پوچھے۔

قریشی
وہ عیش کے دے صبر مجھے یار، نہ پایا
وہ بخت کہ پوچھے مجھے خود یار، نہیں ہے
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Amir Khusro, امیر خسرو
امیر خسرو - ایک خاکہ
Amir Khusro
شعرِ خسرو
بسیار شدم عاشقِ دیوانہ ازیں پیش
آں صبر کہ ہر بار بُد ایں بار ندارم


ترجمہ
اس سے پہلے بھی میں بہت دفعہ عاشق و دیوانہ ہوا، لیکن وہ صبر جو ہر بار حاصل تھا، اب کے نہیں ہے۔

قریشی
سو بار ہوا عاشق و دیوانہ، پہ اب کے
وہ صبر جو حاصل تھا ہر اک بار، نہیں ہے


شعرِ خسرو
دل پُر ز غم و غصۂ ہجرست ولیکن
از تنگ دلی طاقتِ گفتار ندارم


ترجمہ
دل ہجر کے غم و غصے سے پر تو ہے لیکن تنگدلی کی وجہ سے مجھے طاقتِ گفتار نہیں ہے۔

قریشی
دل، ہجر پہ معمور تو ہے غصہ و غم سے
دل تنگ ہوں، اب طاقتِ گفتار نہیں ہے


شعرِ خسرو
خوں شد دلِ خسرو ز نگہداشتنِ راز
چوں ہیچ کسے محرمِ اسرار ندارم


ترجمہ
راز کی حفاظت کر کر کے خسرو کا دل خون ہوگیا ہے لیکن افسوس کہ کوئی بھی محرمِ اسرار نہیں ہے۔

قریشی
یہ راز چھپانے میں ہوا خوں دلِ خسرو
افسوس کوئی محرمِ اسرار نہیں ہے

---
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 25, 2011

وشوامتر - ناصر علی

یہ مضمون کچھ دن قبل فیس بُک پر ایک ادبی گروپ میں منعقدہ جناب ناصر علی کی کتاب "اور" کی تقریبِ رونمائی کیلیے لکھا گیا تھا، یہاں بھی اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں۔

------
بات کو ایک وضاحت سے شروع کرنے کے سوا میرے پاس کوئی چارہ نہیں ہے اور وہ یہ کہ خاکسار نہ تو کوئی نقاد ہے اور نہ ہی اس کا کتابوں پر مضمون لکھنے کا کوئی تجربہ ہے بلکہ کسی بھی کتاب پر مضمون لکھنے کا یہ پہلا تجربہ ہے۔، بلکہ پہلا تجربہ کیا مجھے تو کوئی کتاب بھی اس طرح زندگی میں پہلی بار ملی ہے، اس سے پہلے ایک دو ادبی جریدے ملے تھے لیکن کتاب کا ملنا ایک بالکل ہی نیا تجربہ تھا اور اس پر مستزاد مضمون لکھنا سو اس مضمون میں روایتی اور سکہ بند ادبی مضمونوں والی یقیناً کوئی بات نہیں ہوگی بلکہ کتاب پڑھ کر جو بھی میں نے محسوس کیا صاف صاف اور سیدھے سیدھے لفظوں میں لکھ دیا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں نے ناصر علی صاحب کی کتاب کو تختۂ مشق بنایا ہے، اور اس کا آپ کو پورا حق ہے، لیکن یہ بات کہنے کا مجھے بھی حق ہے کہ ناصر علی صاحب نے خود اپنی کتاب کو میرے ہاتھوں سے تختۂ مشق بنوایا ہے سو اس مضمون کے پردے سے جو کچھ بھی نکلے گا اس کی ساری ذمہ داری ناصر علی صاحب پر ہے۔

کوئی دو ہفتے ادھر کی بات ہے، شام کو تھکا ہارا اپنے کمرے میں بیٹھا تھا، حسبِ معمول سوچ رہا تھا کہ کیا پڑھوں، آزاد کی دربارِ اکبری شروع کر رکھی تھی لیکن اس کو پڑھنے کو دل نہیں کر رہا تھا، آزاد کی انشا پردازی اپنی جگہ لیکن کچھ معرکوں کو اتنی طوالت دی ہے کہ جی اوب جاتا ہے اور میں کتاب کے کسی ایسے ہی مقام پر تھا، ابھی انہی سوچوں میں تھا کہ آج کی رات کس کے ساتھ بسر کی جائے کہ فون کی گھنٹی بجی فون کسی اجنبی نمبر سے تھا، خیر سنا، آواز آئی۔ "ایک لاوارث، محمد وارث کو ڈھونڈ رہا ہے۔" یقین مانیے یہ شگفتہ جملہ سن کر ساری تھکاوٹ اور کلفت ہوا ہو گئی اور کچھ دیر تک خوب مزے کی گپ شپ ہوئی اور اگلی گفتگو کیلیے یہ بات تمہید ہو گئی۔ یہ تھا میرا ناصر علی صاحب سے تعارف، گو فیس بُک پر ان سے "آشنائی" تھی لیکن فیس بُک کی آشنائی کسی کالج یا یونیورسٹی کے مختلف جماعتوں کے طالب علموں کی آپس میں آشنائی جیسی ہی ہوتی ہے۔ اس پہلی گفگتو میں ناصر علی صاحب نے مجھے دو کتابیں بھیجنے کا مژدہ سنایا، ایک رفیع رضا صاحب کی اور ایک انکی اپنی "اور" جس کی تقریب کے سلسلے میں ہم سب موجود ہیں۔

خیر، ایک دو دن بعد دونوں کتابیں ملیں، اور جیسا کہ بہت سے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ ایک دم ہی سے کتاب ابتدا سے شروع نہیں کرتے، میں نے بھی کتاب کی ورق گردانی شروع کی جیسے جیسے اشعار نظر سے گزرتے گئے، میں سرشار ہوتا گیا اور غالب کا مصرع "میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے" بار بار دماغ میں تازہ ہوتا رہا۔ ناصر صاحب سے پھر بات ہوئی نے ان کا حکم تھا کہ اس پر کچھ لکھوں بھی۔

لکھنے کا ذہن میں آیا تو سب سے پہلے جو لفظ میرے ذہن میں آیا وہ "وشوامتر" تھا، یہ ہزاروں سال قبل کے ایک رشی کا نام، ہے جس کا لفظی فارسی ترجمہ علامہ اقبال نے "جاوید نامہ" میں "جہان دوست" کے نام سے کیا ہے۔ اور ناصر علی کی ذات اور کتاب پر مضمون کیلیے مجھے یہ نام انتہائی موزوں لگا کیونکہ ناصر علی جہان دوست ہیں۔ کچھ عرض کر دوں۔

علم دوست ایک اصطلاح ہے جو بہت مشہور ہے اور بہت فخر کے ساتھ استعمال کی جاتی ہے لیکن یہ علم دوست اصطلاح بہت گمراہ کن ہے، خالی خولی علم دوستی کسی کام کی نہیں ہے، کیونکہ صرف علم سے محبت ضروری نہیں کہ آدمی کو انسان بنا دے، علم آدمی کو وحشی درندہ بھی بنا سکتا ہے اور اس نے بنایا ہے، تاریخِ عالم اس بات پر گواہ ہے اور اسی لیے مولانا رُومی نے کہا تھا

علم را بر تن زنی مارے بُوَد
علم را بر دل زنی یارے بُوَد

علم دوستی کے ساتھ اگر انسان دوستی نہیں ہوگی تو وہ علم سانپ ہی بنے گا، اور اگر علم دوستی کے ساتھ انسان دوستی بھی شامل ہو جائے تو وہ جہان دوستی ہو جائے گی اور مجھے کہنے دیجیئے کہ ناصر علی کہ شاعری میں علم دوستی کے ساتھ انسان دوستی ہے اور وہ خود جہان دوست ہیں یعنی کہ وشوامتر۔ اور جو جہان دوست ہے وہ سب سے پیار کرے گا، اس جہان سے بھی جو "فتنہ و فساد" کی آماجگاہ ہے، دیکھیے گا کیا کہتے ہیں ناصر علی

جہانِ خوبصورت میں ہوا خوش
میں اس مٹی کی مورت میں ہوا خوش

میں لامکاں کے لیے کیوں مکاں کو رد کر دوں
زمیں اماں ہے میں کیسے اماں کو رد کر دوں

ایسا انسان دل کا صاف ہوگا

ناصر علی میں نے دلِ زندہ میں بہت کچھ
رکھا ہے مگر میل ملا کر نہیں رکھا

 اور از ناصر علی - سرورق

ایسا انسان دینِ محبت کا ماننے والا اور کیشِ انسانیت پر چلنے والا ہے

ہمارا دین تو ناصر علی محبت ہے
اسی طرح کے مسلمان میں خدا ملے گا

سامنے اس کے کھڑے ہو کے کھڑے کیا ہونگے
یار ہم لوگ محبت سے بڑے کیا ہونگے

زباں پہ لفظ، بدن میں لہو محبت ہے
تجھے خبر ہی نہیں ہے کہ تو محبت ہے

آدم زادو، سب کا اس میں فائدہ ہوگا
انسانیت تو سب کے مطلب کا حق ہے

ایسا انسان وسیع المشرب صوفی ہوگا، جو پکار پکار کر کہے گا کہ اے خدا کے بندو اگر کسی منزل کی تلاش ہی میں ہو تو اپنی نظر منزل پر رکھو، راہ اور راستے کے جھگڑوں میں کیوں پڑتے ہو، پیار محبت کے ساتھ بھی تو یہ راستے کاٹے جا سکتے ہیں

اس دنیا کے خالق کے گھر جانے والے
جتنے ہم ہیں اتنے رستے ہو سکتے ہیں

بجھاؤ پیاس مگر پیار کی سبیل کے ساتھ
بٹھاؤ لکشمی دیوی کو میکَئیل کے ساتھ

کچھ ایسا نقشۂ انسانیت بناؤ تم
کہ دیوتاؤں کا جھگڑا نہ ہو خلیل کے ساتھ

ایسا انسان دلوں کی خلیج کو پاٹے گا نہ کے رشتۂ الفت کو کاٹے گا، کہتے ہیں کسی نے بابا فرید کی خدمت میں ایک قینچی پیش کی، آپ نے کہا مجھے قینچی مت دو جو کاٹتی ہے بلکہ سوئی دو جو سیتی ہے، میں نے ناصر علی کو صوفی کہا تو غلط نہیں کہا

لگے جو ہاتھ قلندر ترا سوئی تاگا
دلوں کے بیچ پروتا رہوں دھمالوں کو

جہان دوست اور انسان دوست، حضرتِ انسان کی عظمت کے گن گائے گا، اس کا دل انسان کے لیے دھڑکے گا اور اس کا دماغ انسان کی فلاح اور امن کیلیے ہی سوچے گا، فقط انسان کیلیے

نہ خوف کھاؤ کہ اسلام کا ہے یہ قلعہ
بناؤ اپنا کلیسا اسی فصیل کے ساتھ

خدا کرے کہ مرے گیت ہوں فلسطینی
خدا کرے کہ انہیں گاؤں اسرَئیل کے ساتھ

ہمارے چشمۂ زم زم کو بھی خوشی ہوگی
اگر تجھے ترے اشنان میں خدا ملے گا

اور یہ بھی بتائے گا کہ اپنی اور انسان کی معرفت ہی خدا کی معرفت ہے

اسی تڑپ، اسی میلان میں خدا ملے گا
قریب آ، تجھے انسان میں خدا ملے گا

پکار حضرتِ انسان کے لیے لبیک
تجھے اسی رہِ آسان میں خد املے گا

اٹھائے پھرتا ہوں تسبیح بھی صلیب کے ساتھ
مجھے اسی سر و سامان میں خدا ملے گا

اور ایسا انسان اپنی ذاتی زندگی اور روزمرہ کی زندگی میں بھی انہی رویوں کا مالک ہوگا۔ اردو شاعری میں ماں کی عظمت اور ماں کی محبت پر بہت کچھ لکھا گیا ہے، باپ کی عظمت پر شاید ہی کوئی شعر میری نظر سے گزرا ہو، ناصر علی کا شعر دیکھیے

میں اپنے باپ سے ناصر علی بڑا خوش ہوں
یہ میرا باپ نہیں چار سو محبت ہے

اور یہ چار سو محبت خود ناصر علی کا روپ دھار لیتی ہے جب وہ خود بحیثیت شوہر اور باپ کے کہتا ہے

مرا نو سال کا بیٹا ہے ناصر
میں بیٹے کی حضورت میں ہوا خوش

میری بیوی مرے بستر پہ سنورتی ہوئی رات
میرا بیٹا، مرے ہاتھوں میں ہمکتا ہوا دن

اپنے گرتے ہوئے بالوں میں کہاں دیکھتا ہوں
زندگی میں تجھے بچوں میں رواں دیکھتا ہوں

اور ایسان انسان دوست اور جہان دوست انسان جب اپنے اردگرد ہمہ گیر مذہبی منافرت اور منافقت پھیلی ہوئی دیکھتا ہے تو بے اختیار چلا اٹھتا ہے

ڈرا رہے ہو بہت آتشِ جہنم سے
تمھارے دین کی لگتا ہے لاج آگ سے ہے

ارے یہ کوئی طریقہ ہے بات کرنے کا
وہاں کا ذکر کروں اور یہاں کو رد کر دوں

اور ایسا انسان اپنے معاشرے سے اور اس میں آکٹوپس کی طرح پھیلے ہوئے غلط اور بیمار ذہنیت کے مظہر رویوں سے، اور معاشرے کے معاشی، معاشرتی اور سیاسی معاملات سے کیسے لاتعلق رہ سکتا ہے سو ببانگِ دہل اظہار کرتا ہے

کبھی خیرات کے بل اور کبھی صدقات کے بل
پیر مشہور ہوا ایسی کرامات کے بل

عجب فسانۂ ھل من مزید سنتا ہوں
ذرا خدا نے جو دوزخ میں لات کی اور بس

کل شب سر میں درد تھا میرے، اور ہمسایے میں
اللہ ھُو، اللہ ھُو، اللہ ھُو نے تنگ کیا

آسماں نامِ خدا لگ گئے ہیں سات کے سات
اور زمیں نامِ زمیندار لگا دی گئی ہے

جدھر بھی جاؤں میں ناصر علی، تباہی ہے
وطن فسانۂ عاد و ثمود لگتا ہے

بتا رہی ہے لگی آگ شہر شہر مجھے
کہ بادشاہ سلامت کا تاج آگ سے ہے

ناصر علی اس شاہ کی ہم لوگ رعایا
جس شاہ کی تعظیم گرانی سے بھری ہے


خرد افروزی - جزا یا سزا

ایک الہامی کتاب میں ہے کہ آدم و حوا کو جنت سے اس لیے نکالا گیا کہ انہوں نے "نیک و بد" کی پہچان والے درخت کا پھل کھا لیا تھا سو وہ خدا کی مانند نیک و بد کی پہچان کرنے والے بن گئے سو بطورِ سزا جنت سے نکال دیے گئے۔

جی، نیک و بد کی پہچان یعنی عقل مندی اور خرد افروزی گناہ ہے اور سزا بھی رکھتی ہے۔ اور یہ صرف ایک مذہب کا حال نہیں ہے، تمام مذاہبِ عالم "عقل" کے خلاف ہی رہے ہیں۔ جب ابنِ رُشد نے کہا تھا کہ سچائیاں دو ہیں، ایک مذہب کی اور دوسری فلسفے کی تو ساری اسلامی علمی دنیا امام غزالی کی قیادت میں اسکے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی اور اسلامی دنیا میں ابنِ رشد کے اس خیال کی مکمل بیخ کنی کر دی گئی لیکن اسپین اور فرانس کے کچھ علما اور طلبا کے اذہان میں یہ خیال جڑ پکڑ گیا اور پھر باقاعدہ ایک تحریک بنی، اور فلسفے کی تاریخ میں یہ تحریک "ابنِ رشدیت" کے نام سے جانی گئی جس نے فلسفے اور سائنس کو کلیسا کی قید سے آزاد کروانے کی بنیاد رکھی۔

یہ معروضہ یوں ذہن میں آ گیا کہ کتاب کے مطالعے کے دوران مجھ پر یہ بھی انکشاف ہوا کہ ناصر علی کے شعروں میں کچھ سائنسی اور فلسفیانہ نظریات بھی آ گئے ہیں، نہ جانے کیسے۔ مجھے نہیں علم کہ ناصر علی نے خالص سائنس کا مطالعہ کس حد تک کیا ہے لیکن یہ ضرور جانتا ہوں کہ شاعروں کے الہام پر سائنسدان عش عش کر اٹھتے ہونگے۔ مثلاً یہ اشعار دیکھیے جن میں ناصر علی انہی باتوں کا اظہار کیا ہے۔

خوش ہو رہا ہوں، دانشِ انساں نے لے لیا
رستہ میانِ شمس و قمر اپنے ہاتھ میں

سائنس حواسِ خمسہ سے باہر کسی چیز کو نہیں مانتی۔

شعاعِ شوق کہے، آنچ کا بنا ہوا ہوں
مگر حواس کہیں، پانچ کا بنا ہوا ہوں

اس کائنات کا وجود ہی توازن پر ہے، توازن نہ ہو تو یہ کائنات پلک جھپکنے میں تباہ و برباد و فنا ہو جائے

مرے بدن کا توازن بتا رہا ہے مجھے
کہ میں ضرور کڑی جانچ کا بنا ہوا ہوں

--------
زمیں سے تا بہ خلا مستقل تحرّک ہے
سو طے ہوا ہے کہ ہیجان میں خدا ملے گا

مادہ کی سب سے چھوٹی اکائی کسی زمانے میں ایٹم تھی، پھر ایٹم بھی ٹوٹا اور اسکے اندر مزید چھوٹے ذرات دریافت ہو گئے، الیکڑون،پروٹان، نیوٹران، یہ بھی ٹوٹے مزید چھوٹے ذرے دریافت ہوئے۔ بات یہیں رکی نہیں، کوانٹم تھیوری نے ثابت کیا کہ مادہ ٹھوس حالت میں ہے ہی نہیں، بلکہ مادہ بھی متحرک لہروں یا ویوز سے بنا ہے، اب یہ ناصر علی کا الہام ہی ہے جو اوپر والا شعر ہوا۔

------
اے رہِ عمرِ رواں، کیا ابتدا، کیا انتہا
اک تسلسل ہے یہاں، کیا ابتدا، کیا انتہا

یہ شعر سٹیڈی اسٹیٹ تھیوری ہے کہ کائنات ازل سے یونہی ہے اور ابد تک یونہی رہے گی۔

-------
میں اک ایسا خط ہوں ناصر جس کو کھینچنے والا
جتنا سیدھا کھینچ لے اس میں خم رہ جاتا ہے

اس شعر میں مجھے لگتا ہے کہ ناصر علی نے انسانی خمیر میں جو روایتی ٹیڑھ ہے اسکا ذکر کیا ہے، اگر ایہام گوئی کا دور ہوتا تو میں کہتا کہ یہ قریب کے معنی ہیں، دُور کے معنی کچھ اور ہیں اور وہی شاعر کے پیشِ نظر ہیں کہ کسی زمانے میں دو متوازی اور سیدھی لائنوں کی تعریف یہ کی جاتی تھی کہ وہ کبھی بھی آپس میں نہیں ملتیں اور انفینٹی یا لامحدودیت تک ایسے ہی سیدھی اور متوازی رہیں گی۔ آئن سٹائن کے تھیوری آف ریلیٹی وٹی نے ثابت کیا ہے اس کائنات میں نامحسوس سا خم ہے، سو دو متوازی اور سیدھی لائنیں بھی کسی نہ کسی مقام پر آپس میں جا ملیں گی۔

اور از ناصر علی

روایتی شاعری سے متنفر ناصر علی

ذاتی طور پر مجھے عشق و محبت اور گل و بلبل کی حکایات سے پرخاش نہیں ہے، میں اسے بھی شاعری کا عظیم جزو مانتا ہوں بشرطیکہ وارداتِ قلبی شاعر کی اپنی ہو، احساسات اسکے اپنے ہوں، اندازِ بیاں اسکا اپنا ہو، خیال آفرینی کی طرف اسکی توجہ ہو اور اس سے ہم انکار بھی نہیں کر سکتے کیونکہ جتنے انسان ہیں اتنے ہی سب کے اپنے اپنے منفرد احساسات ہیں سو ان کو سننے میں کچھ حرج نہیں۔

لیکن صرف شعر برائے شعر کہنا اور وہ بھی کسے سچے جذبے کے بغیر واقعتاً جگالی ہی ہے، ناصر علی اس حقیقت کا مکمل ادراک رکھتے ہیں اور اسکا اظہار بھی کرتے ہیں۔

چھوڑو ابہام کی باتیں فقط اتنا سوچو
شاعروں نے بھی یہاں شعر گھڑے کیا ہونگے

اے کسی حسنِ تغزّل کو ترستی ہوئی آنکھ
شعر بنتا ہے مری جان کسی بات کے بل

تمھارے شعر کے پچّیس تیس مضموں ہیں
جگالتے ہو مسلسل انھی خیالوں کو

سمجھ پڑے جو یہاں نوجواں دماغوں کو
تمھارے شعر میں ایسی زبان ہے کہ نہیں

غزل میں عشق و محبت کی بات کی اور بس
خراب ایک حسینہ کی ذات کی اور بس

مت یوں ہی لفظ ڈھال شعروں میں
بات دل سے نکال شعروں میں

غزل غزل وہی مضمون باندھتے ہیں ہم
غزل غزل وہی طرزِ کہن چلی ہوئی ہے

بات کو زلفِ گرہ گیر سے باندھا ہوا ہے
شعر کو حسن کی تفسیر سے باندھا ہوا ہے

اور آخر میں ناصر علی کی کتاب میں موجود غزلوں کی زمینوں اور ردیفوں کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہونگا کہ کتاب پڑھتے ہوئے یہ خوشگوار احساس بھی قاری کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہے کہ جو شاعر دوسروں کو جگالی کرنے سے منع کر رہا ہے وہ خود بھی اس "گناہ" سے پاک ہے۔ ناصر علی کی زمینیں منفرد اور انکی اپنی ہیں، ردیفیں جو بقول مولانا شبلی نعمانی اردو فارسی شاعری میں سم و تال کا سا کام دیتی ہیں وہ انتہائی خوبصورت ہیں، میں چاہ رہا تھا کہ ان ردیفوں کی نشاندہی کر دوں لیکن مضمون کی طوالت کے خوف سے قلم زد کرتا ہوں کہ جو احباب کتاب دیکھ چکے ہیں وہ جانتے ہی ہیں اور جو دیکھیں گے وہ جان جائیں گے۔

محمد وارث
سیالکوٹ
20.02.2011

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 21, 2011

رباعی کے حوالے سے کچھ استفسارات اور میرے جوابات

رباعی کے اوزان کے حوالے سے اس خاکسار نے ایک مضمون لکھا تھا "رباعی کے اوزان پر ایک بحث"، اسی مضمون کے حوالے سے فیس بُک پر ایک دوست نے کچھ استفسارات کیے تھے، وہ اور ان کا جواب لکھ رہا ہوں۔

استفسار: یہ جو ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ "لا حول ولا قوۃ الا باللہ " رباعی کا وزن ہے ۔۔ تو کیا یہ چوبیس اوزان میں سے ایک ہے ؟ اور وہ وزن کیا ہے ؟

جواب: دراصل قرآن مجید کی چند ایک آیات  اور کچھ احادیث ایسی ہیں جو اتفاقاً کسی نہ کسی وزن پر موزوں ہو جاتی ہیں۔  انہی میں سے حدیث کا یہ کلمہ بھی ہے کہ رباعی کے ایک وزن پر آ جاتا ہے۔

اسکی تقطیع کچھ یوں ہے

لا حول و لا قوّۃ الا باللہ

لا حولَ - مفعول
و لا قو وَ - مفاعیل
تَ اِل لا بل - مفاعیلن
لا ہ - فاع

یعنی اسکا وزن 'مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع' ہے۔

بعض لوگ ضرورت شعری کے تحت اللہ کی ہ گرا دیتے ہیں اس صورت میں آخری رکن فاع کی جگہ فع آ جائے گا اور یوں بھی رباعی کا وزن ہی رہے گا لیکن یہاں ایسی کوئی ضرورت نہیں ہے سو بہتر ہے کہ اللہ کا مکمل وزن لیا جائے۔

یہ رباعی کا ایک انتہائی مستعمل وزن ہے، اور اساتذہ عموماً رباعی کے سلسلے میں سب سے پہلے یہی وزن یاد کروایا کرتے تھے۔

مولانا الطاف حسین حالی کی ایک رباعی جس میں انہوں نے یہ وزن باندھا ہے

کیا پاس تھا قولِ حق کا، اللہ اللہ
تنہا تھے، پہ اعدا سے یہ فرماتے تھے شاہ
میں اور اطاعتِ یزیدِ گمراہ
لا حَولَ و لا قُوّۃَ الّا باللہ

استفسار: غالب کی مشہور رباعی جس پر ماہرین عروض نے اعتراض کیا ہے

دل رک رک کر بند ہوگیا ہے غالب

اور کہا جاتا ہے کہ اس میں ایک " رک " کا لفظ زیادہ ہے ۔۔ اس بارے میں وارث صاحب کی رائے کیا ہے

جواب: غالب کی مذکورہ رباعی کی بھی دلچسپ صورتحال ہے۔

دُکھ جی کے پسند ہو گیا ہے غالب
دل رک رک کر بند ہو گیا ہے غالب
واللہ کہ شب کو نیند آتی ہی نہیں
سونا سوگند ہو گیا ہے غالب

کہا جاتا ہے کہ رباعی کے اوزان پر گرفت بہت مشکل ہے اور بڑے بڑے شاعر بھی اسکے اوزان کے بارے میں خطا کر جاتے ہیں جیسے کہ غالب سا شاعر بھی کہ اوپر والی رباعی میں دوسرا مصرع رباعی کے وزن سے خارج ہے۔

غالب کے مذکورہ مصرعے پر سب سے پہلے یہ اعتراض علامہ نظم طباطبائی نے اپنی شرح دیوانِ غالب میں کیا تھا اور اسکے بعد سے 'سخن فہموں' اور 'غالب کے طرف داروں' میں اس پر خوب خوب بحث ہوئی ہے۔

میرے لیے حیرت اور مزے کی بات یہ ہے کہ مولانا غلام رسول مہر نے اپنے مرتب کردہ دیوانِ غالب اور اپنی شہرہ آفاق شرح 'نوائے سروش' دونوں میں یہ رباعی لکھتے ہوئے ایک 'رُک' دوسرے مصرعے سے نکال دیا ہے گویا اپنی طرف سے تصحیح کر دی ہے اور اسکی متنازعہ حیثیت پر بالکل بھی بحث نہیں کی ہے حالانکہ مستند یہی ہے کہ غالب نے ' رک رک کر' ہی کہا ہے۔

یہ بات بھی بالکل ٹھیک ہے کہ اگر مذکورہ مصرعے میں سے ایک 'رک' نکال دیا جائے تو مصرعہ وزن میں آ جاتا ہے۔ لیکن اس پر دو اعتراض ہیں ایک تو یہ کہ اگر مصرعہ اس طرح کر دیا جائے

دل رُک کر بند ہو گیا ہے غالب

تو وزن میں ضرور آئے گا لیکن اس مصرعے کی ساری دلکشی ختم ہو جائے گی بلکہ 'فضول سا' مصرعہ ہو جائے گا۔ دوسرا یہ کہ غالب سے قادر الکلام شاعر کو کیا علم نہیں تھا کہ مصرع بے وزن ہو رہا ہے اور رباعی کے اوزان میں نہیں آ رہا؟

مولانا نجم الدین غنی رامپوری نے علمِ عروض پر اپنی شہرہ آفاق کتاب 'بحر الفصاحت' میں بھی یہ اعتراض غالب کے مصرعے پر کیا ہے اور اسکا جواب اس کتاب کے مرتب سید قدرت نقوی نے دیا ہے۔ انہوں نے اس پر ایک علیحدہ سے مضمون بھی لکھا ہے جو کہ افسوس میری نظر سے نہیں گزرا۔

قدرت نقوی صاحب کے بقول لفظ 'بند' گو فارسی کا لفظ ہے اور وتد ہے یعنی اسکا وزن 'فاع' ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ غالب نے اس لفظ کا ہندی استعمال کیا ہے اور 'بند' کی نون کو نون فارسی کی بجائے مخلوط نون سمجھا ہے، اور جیسا کہ اہلِ علم جانتے ہیں کہ نون مخلوط کا کوئی وزن نہیں ہوتا جیسا کہ لفظ 'آنکھ' میں اس نون کا کوئی وزن نہیں ہے سو نقوی صاحب کے بقول غالب نے اس کو سبب باندھا ہے یعنی 'بند' کا وزن 'بد' یا 'فع' لیا ہے۔

اگر نقوی صاحب کے مفروضے کو مان لیا جائے تو پھر غالب کا مصرع وزن میں آ جاتا ہے یعنی

دل رک رک کر بند ہو گیا ہے غالب

دل رک رک - مفعولن
کر بد ہُ - مفعول
گیا ہے غا - مفاعیلن
لب - فع

یعنی اسطرح یہ مصرع 'مفعولن مفعول مفاعیلن فع' کے وزن پر آ کر موزوں ہو جاتا ہے۔

اس خاکسار کی بھی رائے میں یہ غالب کی عروضی غلطی نہیں ہے، یہ ماننا بہت مشکل ہے کہ غالب کو رباعی کے اوزان کا علم نہ ہو، بلکہ یہ غالب کی اجتہادی غلطی ہے کہ انہوں نے مصرعے کی دلکشی برقرار رکھنے کیلیے 'بند' کا غلط وزن لے لیا ہے، کیونکہ بہرحال بند میں نون مخلوط نہیں ہے بلکہ یہ لفظ فارسی کا ہے اور اس میں نون فارسی ہے جیسے 'رنگ' جنگ وغیرہ میں۔

استفسار: اقبال کی دو بیتیاں جنہیں عرف عام میں رباعی بھی کہا جاتا ہے اور غالبا" اقبال نے انہیں خود بھی رباعی کہا ہے ۔ اور وہ رباعی کے اوزان میں نہیں آتے ۔کیا ان سے قطعات کو رباعی کہنے کا جواز نکلتا ہے؟ مثلاً "تراشیدم، پرستیدم، شکستم" والا قطعہ۔

جواب: یہ بات تو طے ہے کہ رباعی اور قطعے میں بنیادی فرق وزن کا ہی ہے، باقی فرق ضمنی سے ہیں۔ جو دو شعر رباعی کے مذکورہ چوبیس اوزان میں ہیں وہ رباعی ہے وگرنہ قطعہ۔

اگر اس فرق کو روا نہ رکھیں تو پھر رباعی بہ حیثیت صنف کے ختم ہی جائے گی لہذا اس خاکسار کی ذاتی رائے میں اقبال نے اپنی دو بیتوں یا قطعات کو جو اپنی کتابوں میں رباعی لکھا ہے تو اس سے قطعے کو رباعی کہنے کا جواز نہیں نکلتا۔

لیکن اس بات سے ایک بڑا اہم سوال یہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ پھر اقبال نے ان دو بیتوں یا قطعات کو رباعی کیوں کہا اور ان کی زندگی میں ہی جو اردو اور فارسی کتب طبع ہوئیں ان کو رباعی ہی لکھا ہے گویا یہ انکی اجازت سے لکھا گیا ہے حالانکہ وہ رباعی کے اوزان میں نہیں ہے۔ تو پھر کیا وجہ تھی؟ یہ تو ممکن نہیں ہے کہ وہ رباعی کے اوزان کو نہ جانتے ہوں۔

خاکسار کے محدود علم میں ایسی کوئی کتاب یا مضمون نہیں گزرا جس میں اقبال سے اس بابت میں استفسار کیا گیا ہو کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ اگر علامہ کا جواب مل جاتا تو بات صاف ہو جاتی ہے لیکن اس کی غیر موجودگی ظاہر ہے ہم صرف قیاس ہی کر سکتے ہیں کہ علامہ نے ایسا کیوں کیا۔

میرے نزدیک، رباعی کا چونکہ لغوی مطلب چار مصرعے والی ہے تو ہو سکتا ہے کہ اقبال نے اس وجہ سے ان قطعات کو رباعی لکھ دیا ہو۔

ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ فارسی کے ایک قدیم اور مشہور شاعر ہیں بابا طاہر عریاں، انہوں نے صرف رباعیات ہی کہی ہیں اور انکے کلام کو 'دو بیتی' بھی کہا جاتا ہے اور رباعی بھی حالانکہ وہ رباعی کے مروجہ اوزان میں نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اقبال نے انکے تتبع میں ایسا کیا ہو۔ واللہ اعلم بالصواب

لیکن ایک بات تو طے ہے کہ فارسی کے قدیم شعرا سے لیکر ہمارے عہد کے شعرا تک، جتنے بھی مشہور رباعی گو شعرا ہیں انہوں نے جب بھی رباعی کہی رباعی کے اوزان میں ہی کہی سو رباعی اور قطعہ میں فرق ضروری ہے۔

--------

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 3, 2011

رباعی کے اوزان پر ایک بحث

رباعی بھی خاصے کی چیز ہے، قدما اس کے چوبیس وزن بنا گئے سو عام شعرا کو اس سے متنفر کرنے کیلیے یہی کافی ہے کہ رباعی کے چوبیس وزن ہیں، حالانکہ اگر تھوڑا سا تدبر و تفکر کیا جائے اور ان اوزان کو ایک خاص منطقی ترتیب اور انداز سے سمجھا جائے تو ان اوزان کو یاد رکھنا اور ان پر عبور حاصل کرنا کچھ مشکل نہیں ہے، اور یہ مضمون بنیادی طور پر اسی موضوع پر ہے جس میں رباعی کے اوزان کو ایک خاص ترتیب سے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ایک عرض یہ کرتا چلوں کہ ضروری نہیں کہ ایک رباعی میں مخلتف اوزان ہی اکھٹے کیے جائیں، اگر ایک ہی وزن میں چاروں مصرعے ہوں تو پھر بھی رباعی ہے اور اگر ایک ہی وزن میں بیسیوں رباعیاں ہوں تو پھر بھی رباعیاں ہی ہیں لیکن اس میں مختلف اوزان کو اکھٹا کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ شاعر اپنے مافی الضمیر کو بہتر سے بہتر انداز میں اور مختلف الفاظ کے چناؤ کے ساتھ بیان کر سکتا ہے اور پھر بنیادی طور ان اوزان میں فرق بھی بہت تھوڑا ہے، جس سے آہنگ پر فرق نہیں پڑتا، مثال کے طور پر، چوبیس میں سے بارہ اوزان تو صرف فع کو فاع اور فعِل کو فعول سے بدلنے سے حاصل ہو جاتے ہیں، تفصیل انشاءاللہ نیچے آئے گی۔

رباعی کی بحر، افاعیل اور انکی ترتیب

رباعی کی بحر، بحرِ ہزج ہے جسکا بنیادی رکن 'مفاعیلن' ہے اور اسی مفاعیلن کے مختلف وزن ہی، جو مختلف زحافات کے استعمال سے حاصل ہوتے ہیں، اس میں استعمال ہوتے ہیں۔

رباعی میں دس افاعیل آتے ہیں، جو کہ مفاعیلن ہی سے حاصل ہوتے ہیں، زحافات کے نام اور ان کے استعمال کا طریقہ لکھ کر اس مضمون کو بالکل ہی ناقابلِ برداشت نہیں بنانا چاہتا، صرف افاعیل لکھ رہا ہوں۔

1- مفاعیلن
2- مفاعیل
3- مفعولن
4- مفاعلن
5- مفعول
6- فاعلن
7- فعول
8- فَعِل
9- فاع
10- فع

اس میں نوٹ کرنے کی خاص بات یہ ہے کہ 'فعولن' اس فہرست میں نہیں ہے، یعنی فعولن جو کہ مفاعیلن سے حاصل ہونے والا ایک انتہائی مستعمل رکن ہے وہ رباعی میں نہیں آتا، اگر آئے گا تو رباعی کا وزن خراب ہو جائے گا۔

کسی بھی مثمن بحر کی طرح، رباعی کی بحر کے بھی چار رکن ہیں یعنی

صدر (یا ابتدا)، حشو، حشو، عرض (یا ضرب)

اور نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ اوپر والے دس افاعیل میں سے جو بھی چار بحر میں استعمال ہونگے انکی اس بحر کی ترتیب میں اپنی اپنی جگہ مخصوص ہے، جیسے

- صدر یعنی پہلے رکن میں ہمیشہ مفعول آئے گا یا مفعولن، کوئی اور رکن نہیں آ سکتا۔

- ضرب یعنی چوتھے رکن میں ہمیشہ فع، فاع، فعِل اور فعول میں سے کوئی ایک آئے گا، اور کوئی رکن نہیں آ سکتا۔

- مفاعلن اور فاعلن ہمیشہ پہلے حشو یعنی دوسرے رکن میں ہی آئیں گے، اور کسی بھی جگہ نہیں آ سکتے۔

- مفاعیلن اور مفاعیل دونوں حشو میں یعنی دوسرے اور تیسرے رکن میں آسکتے ہیں، کسی اور جگہ نہیں آتے۔

- مفاعیلن اور مفاعیل کے علاوہ، مفعولن، مفعول بھی دونوں حشو میں آ سکتے ہیں۔

اسکے علاوہ، رباعی کے مختلف افاعیل کی ترتیب یاد رکھنے میں قدما کا جو کلیہ سب سے اہم ہے وہ کچھ یوں ہے جو کہ مرزا یاس یگانہ نے اپنی کتاب "چراغِ سخن" میں لکھا ہے۔

سبب پئے سبب و وتد پئے وتد

یوں سمجھیے کہ یہی رباعی کے اوزان کی کلید ہے یعنی ایک سبب کے بعد ہمیشہ سبب آئے گا اور ایک وتد کے بعد ہمیشہ وتد آئے گا، مثال کے طور پر، ایک شاعر ایک رباعی شروع کرتا ہے اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ رباعی یا تو مفعول سے شروع ہوگی یا مفععولن سے۔

فرض کریں، رباعی مفعول سے شروع ہوتی ہے، یعنی پہلا رکن مفعول ہو گیا، اب دوسرے رکن میں جو تمام افاعیل آ سکتے ہیں وہ یہ ہیں

مفاعیلن
مفاعیل
مفاعلن
مفعولن
مفعول
فاعلن

اب اس بنیادی کلیے کو ذہن میں رکھیے کہ سبب کے بعد سبب اور وتد کے بعد وتد، پہلا رکن مفعول ہے جو کہ وتد پر ختم ہو رہا ہے سو اگلا رکن لازمی وتد سے شروع ہوگا، اوپر والی فہرست میں جو افاعیل وتد سے شروع ہو رہے ہیں وہ یہ ہیں

مفاعیلن
مفاعیل
مفاعلن

یعنی مفعول کے بعد اب صرف ان تین میں سے کوئی رکن آئے گا، فرض کریں مفاعیل آیا اور ہمارے پاس دو رکن ہو گئے یعنی

مفعول مفاعیل

اب مفاعیل بھی وتد پر ختم ہو رہا ہے سو اگلا رکن بھی لازمی وتد سے شروع ہوگا، یہ پھر تین ہیں، مفاعیلن، مفاعیل، مفاعلن لیکن ہم جانتے ہیں کہ مفاعلن تیسرے رکن میں نہیں آ سکتا سو مفاعیلن اور مفاعیل میں سے کوئی آئے گا، فرض کریں مفاعیلن لیا تو اب تین رکن ہو گئے

مفعول مفاعیل مفاعیلن

اب رہ گیا چوتھا رکن، جس میں فع، فاع، فعِل اور فعول ہی آ سکتے ہیں، کلیہ ذہن میں رکھیے، مفاعیلن سبب پر ختم ہو رہا ہے سو اگلا رکن سبب سے شروع ہوگا، وہ فع ہے سو رباعی کا وزن مل گیا

مفعول مفاعیل مفاعیلن فع

اب کسی بھی بحر کی طرح، آخری رکن میں عملِ تسبیغ کی یہاں بھی اجازت ہے سو فع کو فاع کریں اور دوسرا وزن بھی مل گیا

مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع

اوپر والے کلیات کو استعمال کرتے ہوئے ہم نے رباعی کے دو وزن حاصل کر لیے، اب انہی کی مدد سے ہم رباعی کے سارے وزن یعنی چوبیس حاصل کریں گے۔

اساتذہ نے رباعی کو دو شجروں میں تقسیم کیا ہے، جو رباعی مفعول سے شروع ہوتی ہے، اسکے بارہ اوزان کو شجرۂ اخرب کہتے ہیں اور جو رباعی مفعولن سے شروع ہوتی ہے اسکے بارہ اوزان کو شجرۂ اخرم کہتے ہیں، اور یہ دونوں نام بھی زحافات کے نام پر ہیں۔ یہاں ایک وضاحت یہ کہ بعض قدیم اساتذہ نے اخرب اور اخرم اوزان کو ایک ہی رباعی میں باندھنے سے منع کیا ہے، لیکن اس بات کو کوئی بھی رباعی گو شاعر نہیں مانتا اور بلاتکلف اخرب اور اخرم کے اوزان ایک ہی رباعی میں جمع کرتے ہیں۔

شجرۂ اخرب اور اسکے بارہ اوزان

ان اوزان کو شجرہ کہا جاتا ہے لیکن اس خاکسار کے محدود مطالعے میں عروض کی کوئی ایسی کتاب نہیں ہے جس میں اس کو ایک شجرہ کی طرح واضح کیا گیا ہو، خاکسار یہ کوشش کر رہا ہے، ممکن ہے کسی کتاب میں اسے اس صورت میں لکھا گیا ہو، شجرے کی تصویر دیکھیے، تصویر کو بڑا دیکھنے کیلیے اس پر کلک کیجیے۔

urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, رباعی اوزان شجرہ اخرب, Rubai

اب اس شجرہ کو اوپر والے اصولوں کی روشنی میں کھول کر بیان کرتا ہوں۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس شجرہ میں پہلے رکن میں ہمیشہ مفعول آتا ہے جو وتد پہ ختم ہوتا ہے سو اگلا رکن مفاعیلن، مفاعیل اور مفاعلن ہونگے جو کہ وتد سے شروع ہوتے ہیں، سب سے پہلے مفاعیلن کو لیتے ہیں سو

مفعول مفاعیلن

یہ سبب پر ختم ہوا سو اگلا رکن لازمی سبب سے شروع ہوگا جو کہ تین ہیں یعنی مفعولن، مفعول اور فاعلن لیکن ہم جانتے ہیں کہ تیسرے رکن میں فاعلن نہیں آ سکتا سو صرف دو رہ گئے، مفعولن اور مفعول اور ان دو افاعیل سے یہ اوزان حاصل ہوئے

مفعول مفاعیلن مفعولن
مفعول مفاعیلن مفعول

اب مفعولن سبب پر ختم ہوا سو اگلا رکن فع ہوگا جو کہ سبب ہے سو پہلا مکمل وزن مل گیا

مفعول مفاعیلن مفعولن فع (وزن نمبر 1)

فع کو فاع سے بدلیں دوسرا وزن حاصل ہو گیا

مفعول مفاعیلن مفعولن فاع (وزن نمبر 2)

اب تیسرے رکن میں مفعول کو لیں تو یہ وتد پر ختم ہوا سو چوتھا رکن وتد سے شروع ہوگا جو فعِل ہے سو

مفعول مفاعیلن مفعول فعِل (وزن نمبر 3)

فعِل کو فعول سے بدل لیں، ایک اور وزن مل گیا

مفعول مفاعیلن مفعول فعول (وزن نمبر 4)

اب پھر دوسرے رکن پر چلتے ہیں اور اگلے چار وزن حاصل کرتے ہیں، مفعول کے بعد مفاعیل لائے یعنی

مفعول مفاعیل

مفاعیل وتد پر ختم ہوا سو اگلا رکن وتد سے شروع ہوگا، مفاعلن یہاں نہیں آ سکتا سو مفاعیلن یا مفاعیل ہونگے یعنی

مفعول مفاعیل مفاعیلن
مفعول مفاعیل مفاعیل

مفاعیلن سبب پر ختم ہوا سو فع آئے گا یعنی

مفعول مفاعیل مفاعیلن فع (وزن نمبر 5)

مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع (وزن نمبر 6)


تیسرے رکن میں مفاعیل لائیے جو وتد پر ختم ہوا سو اگلا رکن فعِل ہوا

مفعول مفاعیل مفاعیل فعِل (وزن نمبر 7)

مفعول مفاعیل مفاعیل فعول (وزن نمبر 8)


آٹھ وزن مل گئے، اگلے چار دوسرے رکن میں مفاعلن لانے سے ملیں گے یعنی

مفعول مفاعلن

یہ بھی وتد پر ختم ہوا سو اگلا رکن وتد سے شروع ہوگا جو کہ دو ہیں، مفاعیلن اور مفاعیل کیونکہ مفاعلن تیسرے رکن میں نہیں آ سکتا

مفعول مفاعلن مفاعیلن
مفعول مفاعلن مفاعیل

مفاعیلن کے ساتھ فع آئے گا سو

مفعول مفاعلن مفاعیلن فع (وزن نمبر 9)

مفعول مفاعلن مفاعیلن فاع (وزن نمبر 10)

مفاعیل کے ساتھ فعِل آئے گا سو

مفعول مفاعلن مفاعیل فعِل (وزن نمبر 11)

مفعول مفاعلن مفاعیل فعول (وزن نمبر 12)

گویا ایک خاص ترتیب سے چلتے ہوئے ہمیں رباعی کے بارہ وزن مل گئے، اگلے بارہ وزن شجرہ اخرم کے ہیں اور اسی طرح حاصل ہونگے۔


شجرۂ اخرم اور اسکے بارہ اوزان

پہلے اس شجرہ کی تصویر دیکھ لیں، بڑا دیکھنے کیلیے اس پر کلک کیجیے۔

urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, رباعی اوزان شجرہ اخرم, Rubai

جیسا کہ ہمیں علم ہے کہ یہ شجرہ ہمیشہ مفعولن سے شروع ہوتا ہے جو کہ سبب پر ختم ہوتا ہے سو دوسرا رکن سبب ہی سے شروع ہوگا، جو کہ تین ہیں، مفعولن، مفعول اور فاعلن۔ مفعولن سے شروع کرتے ہیں

مفعولن مفعولن

یہ بھی سبب پر ختم ہوا سو تیسرا رکن بھی سبب سے شروع ہوگا، وہ دو ہیں، مفعولن اور مفعول کیونکہ فاعلن یہاں نہیں آ سکتا سو

مفعولن مفعولن مفعولن
مفعولن مفعولن مفعول

مفعولن سبب پر ختم ہوا سو لازمی طور پر اگلا رکن سبب سے شروع ہوگا جو فع ہے سو

مفعولن مفعولن مفعولن فع (وزن نمبر 1)

اور فع کو فاع سے بدلیں تو

مفعولن مفعولن مفعولن فاع (وزن نمبر 2)

تیسرے رکن میں مفعول لائیں جو وتد پر ختم ہوا سو چوتھا رکن لازمی فعِل ہوگا سو

مفعولن مفعولن مفعول فعِل (وزن نمبر 3)

اور فعِل کو فعول سے بدلیں تو

مفعولن مفعولن مفعول فعول (وزن نمبر 4)

اب واپس دوسرے رکن پر چلتے ہیں اور مفعولن کے بعد مفعول لاتے ہیں یعنی

مفعولن مفعول

اب مفعول وتد پر ختم ہوا، تیسرا رکن لازمی وتد سے شروع ہوگا، یہ تین ہیں، مفاعیلن مفاعیل اور مفاعلن لیکن ہم جانتے ہیں کہ مفاعلن کبھی بھی تیسرے رکن میں نہیں آئے گا سو دو رہ گئے، مفاعیلن اور مفاعیل یعنی

مفعولن مفعول مفاعیلن
مفعولن مفعول مفاعیل

مفاعیلن کے بعد فع آیا تو

مفعولن مفعول مفاعیلن فع (وزن نمبر 5)

اور

مفعولن مفعول مفاعیلن فاع (وزن نمبر 6)

اب تیسرے رکن میں مفاعیل لائیں تو یہ وتد پر ختم ہوا سو اسکے بعد فعِل آیا یعنی

مفعولن مفعول مفاعیل فعِل (وزن نمبر 7)

اور مفعولن مفعول مفاعیل فعول (وزن نمبر 8)

اب واپس دوسرے رکن کی طرف چلتے ہیں وہاں ہم فاعلن کو چھوڑ آئے تھے، اس کو لائیں گے تو مزید چار وزن مل جائیں گے۔

مفعولن فاعلن

فاعلن وتد پر ختم ہوا سو اگلا رکن مفاعیلن، مفاعیل یا مفاعلن ہوگا، مفاعلن باہر ہوگیا تو مفاعیلن اور مفاعیل رہ گئے

مفعولن فاعلن مفاعیلن
مفعولن فاعلن مفاعیل

مفاعیلن کے بعد فع آیا تو

مفعولن فاعلن مفاعیلن فع (وزن نمبر 9)

اور

مفعولن فاعلن مفاعیلن فاع (وزن نمبر 10)

تیسرے رکن میں مفاعیل لائے تو اسکے بعد فعِل آیا سو

مفعولن فاعلن مفاعیل فعِل (وزن نمبر 11)

اور مفعولن فاعلن مفاعیل فعول (وزن نمبر 12)

اور یوں ہمیں 'سبب پئے سبب و وتد پئے وتد" کے اصول اور افاعیل و ارکان کی خاص ترتیب پر چلتے ہوئے دونوں شجروں کے بارہ بارہ اوزان یعنی کل چوبیس وزن مل گئے۔

یہ وہ طریقہ جس کو سمجھتے ہوئے اس خاکسار نے رباعی کے اوزان کو سمجھا، اسکے علاوہ بھی کئی ایک طریقے ہیں لیکن میں نے اس میں کوشش کی ہے کہ اوزان کو ایک خاص منطقی ترتیب سے لاؤں، امید ہے قارئین کیلیے یہ طریقہ رباعی کے اوزان سمجھنے کیلیے کارآمد اور فائدہ مند ہوگا۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 11, 2011

صائب تبریزی کی ایک غزل کے کچھ خوبصورت اشعار

موجِ شراب و موجۂ آبِ بقا یکیست
ھر چند پردہ ھاست مُخالف، نوا یکیست

موجِ شراب اور موجِ آب حیات اصل میں ایک ہی ہیں۔ ہر چند کہ (ساز کے) پردے مخلتف ہو سکتے ہیں لیکن (ان سے نکلنے والی) نوا ایک ہی ہے۔

خواھی بہ کعبہ رو کن و خواھی بہ سومنات
از اختلافِ راہ چہ غم، رھنما یکیست

چاہے کعبہ کی طرف جائیں یا سومنات کی طرف، اختلافِ راہ کا غم (نفرت؟) کیوں ہو کہ راہنما تو ایک ہی ہے۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, saib tabrizi, صائب تبریزی
یادگار صائب تبریزی
ایں ما و من نتیجۂ بیگانگی بُوَد
صد دِل بہ یکدگر چو شَوَد آشنا، یکیست

یہ میرا و تیرا (من و تُو کا فرق) بیگانگی کا نتیجہ ہے۔ سو دل بھی جب ایک دوسرے کے آشنا ہو جاتے ہیں تو وہ ایک ہی ہوتے ہیں (ایک ہی بن جاتے ہیں)۔

در چشمِ پاک بیں نَبُوَد رسمِ امتیاز
در آفتاب، سایۂ شاہ و گدا یکیست

نیک بیں (منصف؟) نگاہوں میں کوئی رسمِ امتیاز نہیں ہوتی (ایک کو دوسرے سے فرق نہیں کرتیں) کہ دھوپ میں بادشاہ اور فقیر کا سایہ ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔

بے ساقی و شراب، غم از دل نمی رَوَد
ایں درد را طبیب یکے و دوا یکیست

ساقی اور شراب کے بغیر غم دل سے نہیں جاتا کہ اس درد (دردِ دل) کا طبیب بھی ایک ہی ہے اور دوا بھی ایک۔

صائب شکایت از سِتَمِ یار چوں کُنَد؟
ھر جا کہ عشق ھست، جفا و وفا یکیست

صائب یار کے ستم کی شکایت کیوں کریں کہ جہاں جہاں بھی عشق ہوتا ہے وہاں جفا اور وفا ایک ہی (چیز) ہوتے ہیں۔

——–
بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف

افاعیل - مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن

(آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)

اشاری نظام - 122 1212 1221 212

(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -
موجِ شراب و موجۂ آبِ بقا یکیست
ھر چند پردہ ھاست مخالف، نوا یکیست

موجے شَ - مفعول - 122
راب موجَ - فاعلات - 1212
ء آبے بَ - مفاعیل - 1221
قا یکیس - فاعلان - 1212
ہر چند - مفعول - 122
پردَ ھاس - فاعلات - 1212
مخالف نَ - مفاعیل - 1221
وا یکیس - فاعلان - 1212

----

مزید پڑھیے۔۔۔۔