Dec 28, 2011

کچھ اس انداز سے چھیڑا تھا میں نے نغمۂ رنگیں - اصغر گونڈوی

اصغر گونڈوی اردو شاعری کا ایک اہم نام ہیں لیکن جس قدر ان کا کلام اچھا ہے اس قدر وہ مقبول نہ ہو سکے۔ آپ ایک صوفیِ باصفا تھے اور کلام میں بھی تصوف کی چاشنی بدرجہ اتم موجود ہے۔ علامہ اقبال انکی شاعری کی بہت تعریف فرماتے تھے اور مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا کہ اگر اردو شاعری کو ایک اکائی فرض کیا جائے تو آدھی شاعری صرف اصغر گونڈوی کی ہے۔

اصغر گونڈوی کی ایک خوبصورت غزل

نہ ہوگا کاوشِ بے مدّعا کا رازداں برسوں
وہ زاہد، جو رہا سرگشتۂ سود و زیاں برسوں

ابھی مجھ سے سبق لے محفلِ رُوحانیاں برسوں
رہا ہوں میں شریکِ حلقہٴ پیرِ مُغاں برسوں
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, asghar gondvi
اصغر گونڈوی Asghar Gondvi
کچھ اس انداز سے چھیڑا تھا میں نے نغمۂ رنگیں
کہ فرطِ ذوق سے جھومی ہے شاخِ آشیاں برسوں

جبینِ شوق لائی ہے وہاں سے داغِ ناکامی
یہ کیا کرتی رہی کم بخت، ننگِ آستاں برسوں

وہی تھا حال میرا، جو بیاں میں آ نہ سکتا تھا
جسے کرتا رہا افشا، سکوتِ رازداں برسوں

نہ پوچھو، مجھ پہ کیا گزری ہے میری مشقِ حسرت سے
قفس کے سامنے رکھّا رہا ہے آشیاں برسوں

خروشِ آرزو ہو، نغمۂ خاموش الفت بن
یہ کیا اک شیوۂ فرسودۂ آہ و فغاں برسوں

نہ کی کچھ لذّتِ افتادگی میں اعتنا میں نے
مجھے دیکھا کِیا اُٹھ کر غبارِ کارواں برسوں

وہاں کیا ہے؟ نگاہِ ناز کی ہلکی سی جنبش ہے
مزے لے لے کے اب تڑپا کریں اربابِ جاں برسوں

محبّت ابتدا سے تھی مجھے گُلہائے رنگیں سے
رہا ہوں آشیاں میں لے کے برقِ آشیاں برسوں

میں وہ ہر گز نہیں جس کو قفس سے موت آتی ہو
میں وہ ہوں جس نے خود دیکھا نہ سوئے آشیاں برسوں

غزل میں دردِ رنگیں تُو نے اصغر بھر دیا ایسا
کہ اس میدان میں روتے رہیں گے نوحہ خواں برسوں

اصغر گونڈوی

--------

بحر - بحر ہزج مثمن سالم

افاعیل - مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن

اشاری نظام - 2221 2221 2221 2221
(ہندسوں کو دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 1 پہلے اور 222 بعد میں)

تقطیع -

نہ ہوگا کاوشِ بے مدّعا کا رازداں برسوں
وہ زاہد، جو رہا سرگشتۂ سود و زیاں برسوں

نہ ہوگا کا - مفاعیلن - 2221
وَ شے بے مُد - مفاعیلن - 2221
دَ عا کا را - مفاعیلن - 2221
ز دا بر سو - مفاعیلن - 2221

وُ زاہد جو - مفاعیلن - 2221
رہا سر گش - مفاعیلن - 2221
تَ اے سُو دو - مفاعیلن - 2221
ز یا بر سو - مفاعیلن - 2221

-------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 23, 2011

نوائے سروش - 4

ایک دن خواجہ الطاف حسین حالی کے پاس مولوی وحید الدین سلیم (لٹریری اسسٹنٹ سر سید احمد خان) بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص آیا اور مولانا حالی سے پوچھنے لگا۔

"حضرت، میں نے غصہ میں آ کر اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ تجھ پر تین طلاق، لیکن بعد میں مجھے اپنے کیے پر افسوس ہوا، بیوی بھی راضی ہے مگر مولوی کہتے ہیں کہ طلاق پڑ گئی، اب صلح کی کوئی شکل نہیں، خدا کے لیے میری مشکل آسان فرمائیں اور کوئی ایسی ترکیب بتائیں کہ میری بیوی گھر میں دوبارہ آباد ہو سکے۔"

ابھی مولانا حالی کوئی جواب نہیں دینے پائے تھے کہ مولوی سلیم اس شخص سے کہنے لگے۔

"بھئی یہ بتاؤ کہ تُو نے طلاق 'ت' سے دی تھی یا 'ط' سے؟"

اس شخص نے کہا۔ "جی میں تو ان پڑھ اور جاہل آدمی ہوں، مجھے کیا پتہ کہ ت سے کیسی طلاق ہوتی ہے اور ط سے کیسی ہوتی ہے۔"

مولوی صاحب نے اس سے کہا کہ "میاں یہ بتاؤ کہ تم نے قرأت کے ساتھ کھینچ کر کہا تھا کہ "تجھ پر تین طلاق" جس میں ط کی آواز پوری نکلتی ہے یا معمولی طریقہ پر کہا تھا جس میں ط کی آواز نہیں نکلتی بلکہ ت کی آواز نکلتی ہے۔"

بیچارے غریب سوال کنندہ نے کہا۔ "جی مولوی صاحب، میں نے معمولی طریقہ پر کہا تھا، قرأت سے کھینچ کر نہیں کہا تھا۔"

یہ سننے کے بعد مولوی سلیم صاحب نے پورے اطمینان کے ساتھ اس سے کہا۔

"ہاں بس معلوم ہو گیا کہ تُو نے ت سے تلاق دی تھی اور ت سے کبھی طلاق پڑ ہی نہیں سکتی، ت سے تلاق کے معنی ہیں 'آ محبت کے ساتھ مل بیٹھ'، تُو بے فکر ہو کر اپنی بیوی کو گھر لے آ، اور اگر کوئی مولوی اعتراض کرے تو صاف کہہ دیجو کہ میں نے تو ت سے تلاق دی تھی ط سے ہر گز نہیں دی۔"
-------

حفیظ جالندھری سر عبد القادر کی صدارت میں انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں چندہ جمع کرنے کی غرض سے اپنی نظم سنا رہے تھے۔ جلسے کے اختتام پر منتظم جلسہ نے بتایا کہ 300روپیہ جمع ہوئے۔

حفیظ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ میری نظم کا اعجاز ہے۔

"لیکن حضور!" منتظم نے متانت سے کہا ، "200 روپیہ ایک ایسے شخص نے دئے ہیں جو بہرا تھا۔"
---------

ایک دفعہ کسی نے مولانا شوکت علی سے پوچھا کہ "آپ کے بڑے بھائی ذوالفقار علی کا تخلص 'گوہر' ہے، آپ کے دوسرے بھائی محمد علی کا تخلص 'جوہر' ہے، آپ کا کیا تخلص ہے؟"

"شوہر" مولانا نے فرمایا۔
------
کچھ نقاد حضرات اردو کے ایک شاعر کی مدح سرائی کر رہے تھے، ان میں سے ایک نے کہا۔

"صاحب کیا بات ہے، بہت بڑے شاعر ہیں، اب تو حکومت کے خرچ سے یورپ بھی ہو آئے ہیں۔"

ہری چند اختر نے یہ بات سنی تو نہایت متانت سے کہا۔

"جناب اگر کسی دوسرے ملک میں جانے سے کوئی آدمی بڑا شاعر ہو جاتا ہے تو میرے والد صاحب ملکِ عدم جا چکے ہیں لیکن خدا گواہ ہے کہ کبھی ایک شعر بھی موزوں نہیں کر سکے۔"
------

میر تقی میر سے لکھنو میں کسی نے پوچھا۔ "کیوں حضرت آج کل شاعر کون کون ہے۔"

میر صاحب نے کہا۔ "ایک تو سودا ہے اور دوسرا یہ خاکسار، اور پھر کچھ تامل سے بولے، آدھے خواجہ میر درد۔"

اس شخص نے کہا، "حضرت، اور میر سوز؟"

میر صاحب نے چیں بہ چیں ہو کر کہا۔ "میر سوز بھی شاعر ہیں؟"

اس نے کہا۔ "آخر بادشاہ آصف الدولہ کے استاد ہیں۔"

کہا۔ "خیر اگر یہ بات ہے تو پونے تین سہی۔"
------

مرزا رفیع سودا اردو کے بڑے نامور شاعر تھے۔ بادشاہ شاہ عالم نے جب انکی شاگردی اختیار کی تو ایک روز سودا سے کہا کہ آپ ایک روز میں کتنی غزلیں کہہ لیتے ہیں۔

سودا نے جواب دیا کہ وہ ایک دن میں دو چار شعر کہہ لیتے ہیں۔

یہ سن کر بادشاہ نے کہا، واہ استادِ محترم، ہم تو پاخانے میں بیٹھے بیٹھے چار غزلیں کہہ لیتے ہیں۔

سودا نے جواب میں کہا۔

"حضور ان غزلوں میں بُو بھی ویسی ہی ہوتی ہے۔"

یہ کہا اور بادشاہ کے پاس سے چلے آئے اور بعد میں بادشاہ کے بار بار بلاوے پر بھی اسکی خدمت میں نہ گئے۔
------

غدر کے بعد مرزا غالب بھی قید ہو گئے۔ ان کو جب وہاں کے کمانڈنگ آفیسر کرنل براؤن کے سامنے پیش کیا گیا تو کرنل نے مرزا کی وضع قطع دیکھ کر پوچھا۔

ویل، ٹم مسلمان ہے۔

مرزا نے کہا، جناب، آدھا مسلمان ہوں۔

کرنل بولا۔ کیا مطلب؟

مرزا نے کہا، جناب شراب پیتا ہوں، سؤر نہیں کھاتا۔

کرنل یہ جواب سن کر ہنس پڑا اور مرزا کو بے ضرر سمجھ کر چھوڑ دیا۔
--------

جگر مراد آبادی کے ایک شعر کی تعریف کرتے ہوئے ایک زندہ دل نے ان سے کہا۔

"حضرت، آپ کی غزل کے ایک شعر کو لڑکیوں کی ایک محفل میں پڑھنے کے بعد میں بڑی مشکل سے پٹنے سے بچا ہوں۔"

جگر صاحب ہنس کر بولے۔

"عزیزم، میرا خیال ہے کہ شعر میں کوئی خامی رہ گئی ہوگی، وگرنہ یہ کسی طرح ممکن نہ تھا کہ آپ کو مارا پیٹا نہ جاتا۔"
-------

ایک محفل میں شبیر حسن خان المعروف جوش ملیح آبادی اپنی نظم سنا رہے تھے تو کنور مہندر سنگھ بیدی سحر نے (جو کہ جوش کے قریبی دوست تھے) حاضرین سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔

"دیکھیے کم بخت پٹھان ہو کر کیسے عمدہ شعر پڑھ رہا ہے۔"

جوش صاحب نے فورا جواب دیا۔

"اور دیکھو، ظالم سکھ ہو کر کیسی اچھی داد دے رہا ہے۔"
--------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 19, 2011

غزل - سوکھے ہونٹ، سلگتی آنکھیں، سرسوں جیسا رنگ - شبنم شکیل

سوکھے ہونٹ، سلگتی آنکھیں، سرسوں جیسا رنگ
برسوں بعد وہ دیکھ کے مجھ کو رہ جائے گا دنگ

ماضی کا وہ لمحہ مجھ کو آج بھی خون رلائے
اکھڑی اکھڑی باتیں اس کی، غیروں جیسے ڈھنگ

تارہ بن کے دور افق پر کانپے، لرزے، ڈولے
کچی ڈور سے اڑنے والی دیکھو ایک پتنگ
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Shabnam Shakeel
شبنم شکیل Shabnam Shakee
دل کو تو پہلے ہی درد کی دیمک چاٹ گئی تھی
روح کو بھی اب کھاتا جائے تنہائی کا زنگ

انہی کے صدقے یا رب میری مشکل کر آسان
میرے جیسے اور بھی ہیں جو دل کے ہاتھوں تنگ

سب کچھ دے کر ہنس دی اور پھر کہنے لگی تقدیر
کبھی نہ ہوگی پوری تیرے دل کی ایک امنگ

شبنم کوئی جو تجھ سے ہارے، جیت پہ مان نہ کرنا
جیت وہ ہوگی جب جیتو گی اپنے آپ سے جنگ

(شبنم شکیل)

--------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 13, 2011

متفرق فارسی اشعار - ۳

شبِ تاریک و بیمِ موج و گردابے چنیں ہائل
کُجا دانند حالِ ما سبکسارانِ ساحل ہا

(حافظ شیرازی)

اندھیری رات ہے، اور موج کا خوف ہے اور ایسا خوفناک بھنور ہے۔ ساحلوں کے بے فکرے اور انکی سیر کرنے والے، ہمارا حال کیسے جان سکتے ہیں؟
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
--------
بستہ ام چشمِ امید از الفتِ اہلِ جہاں
کردہ ام پیدا چو گوھر در دلِ دریا کراں

(عبدالقادر بیدل)

میں نے دنیا والوں کی محبت کی طرف سے اپنی چشمِ امید بند کر لی ہے اور گوھر کی طرح سمندر کے دل میں اپنا ایک (الگ تھلگ) گوشہ بنا لیا ہے۔
--------

بہیچ گونہ دریں گلستاں قرارے نیست
تو گر بہار شدی، ما خزاں شدیم، چہ شُد؟

(اقبال)

اس گلستان (کائنات) میں کسی بھی چیز کو قرار نہیں ہے، (آج) تو اگر بہار ہے اور ہم خزاں ہیں تو پھر کیا ہوا؟
--------

سلطنت سہل است، خُود را آشنائے فقر کُن
قطرہ تا دریا تَوانَد شُد، چرا گوھر شَوَد

(شہزادہ دارا شکوہ قادری)

حکومت کرنا تو آسان ہے، اپنے آپ کو فقر کا شناسا کر، (کہ) قطرہ جب تک دریا میں نہ جائے گا، گوھر کیسے بنے گا؟
--------

خلق می گوید کہ خسرو بُت پرستی می کُند
آرے آرے می کنم، با خلق ما را کار نیست

(امیر خسرو)

لوگ کہتے ہیں کہ خسرو بت پرستی کرتا ہے، ہاں ہاں کرتا ہوں مجھے لوگوں سے کوئی کام نہیں ہے۔
--------

تو اے پروانہ، ایں گرمی ز شمعِ محفلے داری
چو من در آتشِ خود سوز اگر سوزِ دلے داری

(فیضی)

اے پروانے تُو نے یہ گرمی محفل کی شمع سے حاصل کی ہے، میری طرح اپنی ہی آگ میں جل (کر دیکھ) اگر دل کا سوز رکھتا ہے۔
--------

وہم خاکے ریخت در چشمم بیاباں دیدمش
قطرہ بگداخت، بحرِ بیکراں نامیدمش

(غالب دہلوی)

وہم نے میری آنکھوں میں خاک ڈال دی اور وہ خاک مجھے بیاباں بن کر نظر آئی۔ ایک قطرہ تھا جو پگھل کر رہ گیا میں نے اسے بحرِ بیکراں کا نام دیا۔
--------

من نگویم کہ مرا از قفَس آزاد کُنید
قفسم بردہ بہ باغی و دلم شاد کنید

(ملک الشعراء بہار)

میں نہیں کہتا کہ مجھے قفس سے آزاد کر دو، (بلکہ) میرا پنجرہ کسی باغ میں لے جاؤ اور میرا دل شاد کر دو۔
--------

قبولِ خاطرِ معشوق شرطِ دیدار است
بحکمِ شوق تماشا مکن کہ بے ادبی است

(عرفی شیرازی)

دوست جس حد تک پسند کرے اسی حد تک نظارہ کرنا چاہیئے، اپنے شوق کے موافق نہ دیکھ کہ یہ بے ادبی ہے۔
--------

گر از بسیطِ زمیں عقل منعدم گردد
بخود گماں نبرد ہیچ کس کہ نادانم

(سعدی شیرازی)

اگر روئے زمین سے عقل معدوم بھی ہو جائے تو پھر بھی کوئی شخص اپنے بارے میں یہ خیال نہیں کرے گا کہ میں نادان ہوں۔
--------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 10, 2011

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں - غزلِ حالی

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھیرتی ہے دیکھئے جا کر نظر کہاں

ہیں دورِ جامِ اوّلِ شب میں خودی سے دُور
ہوتی ہے آج دیکھئے ہم کو سحر کہاں

یارب، اس اختلاط کا انجام ہو بخیر
تھا اس کو ہم سے ربط مگر اس قدر کہاں

کون و مکاں سے ہے دلِ وحشی کنارہ گیر
اس خانماں خراب نے ڈھونڈا ہے گھر کہاں
Altaf، Hussain، Hali, Altaf Hussain Hali, urdu poetry, poetry, classical urdu poetry, ghazal, خواجہ، الطاف، حسین، حالی، خواجہ الطاف حسین حالی، اردو شاعری، کلاسیکی اردو شاعری، شاعری، غزل, Ilm-e-Arooz, Taqtee
خواجہ الطاف حسین حالی
Altaf Hussain Hali
اِک عمر چاہیے کہ گوارا ہو نیشِ عشق
رکھّی ہے آج لذّتِ زخمِ جگر کہاں

بس ہو چکا بیاں کَسَل و رنج و راہ کا
خط کا مرے جواب ہے اے نامہ بر کہاں

ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور
عالم میں تجھ سے لاکھ سہی، تُو مگر کہاں

ہوتی نہیں قبول دعا ترکِ عشق کی
دل چاہتا نہ ہو تو زباں میں اثر کہاں

حالی نشاطِ نغمہ و مے ڈھونڈتے ہو اب
آئے ہو وقتِ صبح، رہے رات بھر کہاں

(خواجہ الطاف حسین حالی)
------

بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف

افاعیل - مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
(آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)

اشاری نظام - 122 1212 1221 212
ہندسے دائیں سے بائیں، اردو کی طرح پڑھیے۔
(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع--

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھیرتی ہے دیکھئے جا کر نظر کہاں

ہے جُستَ - مفعول - 122
جُو کِ خوب - فاعلات - 1212
سِ ہے خوب - مفاعیل - 1221
تر کہا - فاعلن - 212

اب ٹھیر - مفعول - 122
تی ہِ دے کِ - فاعلات - 1212
یِ جا کر نَ - مفاعیل - 1221
ظر کہا - فاعلن - 212

----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 4, 2011

علی کے گل رُخوں سے بُوئے زھرائی نہیں جاتی - سلام از سیّد نصیر الدین نصیر

سیّد نصیر الدین نصیر مرحوم کا ایک خوبصورت سلام

تڑپ اٹھتا ہے دل، لفظوں میں دہرائی نہیں جاتی
زباں پر کربلا کی داستاں لائی نہیں جاتی

حسین ابنِ علی کے غم میں ہوں دنیا سے بیگانہ
ہجومِ خلق میں بھی میری تنہائی نہیں جاتی

اداسی چھا رہی ہے روح پر شامِ غریباں کی
طبیعت ہے کہ بہلانے سے بہلائی نہیں جاتی
urdu poetry, ilm-e-arooz, taqtee, salam, karbala, syyed naseer-ud-din naseer
سیّد نصیر الدین نصیر مرحوم
Syyed Naseer-ud-Din Naseer
کہا عبّاس نے افسوس، بازو کٹ گئے میرے
سکینہ تک یہ مشکِ آب لے جائی نہیں جاتی

جتن ہر دور میں کیا کیا نہ اہلِ شر نے کر دیکھے
مگر زھرا کے پیاروں کی پذیرائی نہیں جاتی

دلیل اس سے ہو بڑھ کر کیا شہیدوں کی طہارت پر
کہ میّت دفن کی جاتی ہے، نہلائی نہیں جاتی

طمانچے مار لو، خیمے جلا لو، قید میں رکھ لو
علی کے گل رُخوں سے بُوئے زھرائی نہیں جاتی

کہا شبّیر نے، عبّاس تم مجھ کو سہارا دو
کہ تنہا لاشِ اکبر مجھ سے دفنائی نہیں جاتی

حُسینیّت کو پانا ہے تو ٹکّر لے یزیدوں سے
یہ وہ منزل ہے جو لفظوں میں سمجھائی نہیں جاتی

وہ جن چہروں کو زینت غازۂ خاکِ نجف بخشے
دمِ آخر بھی ان چہروں کی زیبائی نہیں جاتی

نصیر آخر عداوت کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں
کسی بیمار کو زنجیر پہنائی نہیں جاتی

(سید نصیر الدین نصیر)
-------

بحر - بحر ہزج مثمن سالم

افاعیل - مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن

اشاری نظام - 2221 2221 2221 2221
(ہندسوں کو دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 1 پہلے اور 222 بعد میں)

تقطیع -

تڑپ اٹھتا ہے دل، لفظوں میں دہرائی نہیں جاتی
زباں پر کربلا کی داستاں لائی نہیں جاتی

تڑپ اٹھتا - مفاعیلن - 2221
ہِ دل لفظو - مفاعیلن - 2221
مِ دہرائی - مفاعیلن - 2221
نہی جاتی - مفاعیلن - 2221

زبا پر کر - مفاعیلن - 2221
بلا کی دا - مفاعیلن - 2221
س تا لائی - مفاعیلن - 2221
نہی جاتی - مفاعیلن - 2221

--------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 1, 2011

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد - غزل مولانا محمد علی جوہر

سرنامے میں مولانا محمد علی جوہر کے جس شعر کا مصرع ہے وہ شعر کسی بھی تعارف کا محتاج نہیں، یہ شعر ان خوش قسمت شعروں میں سے ہے جو نہ صرف خود زندہ و جاوید ہو جاتے ہیں بلکہ اپنے خالق کو بھی کر دیتے ہیں۔ وگرنہ مولانا محمد علی جوہر کی سیاسی حیثیت جو بھی ہے بطور شاعر کم ہی لوگ ان کو جانتے ہیں حالانکہ مولانا باقاعدہ شاعر تھے، جوہر تخلص کرتے تھے اور کلام بھی چھپ چکا ہے شاید "فیروز سنز" نے شائع کیا ہے۔ ان کا کلام تو میری نظر سے نہیں گزرا لیکن جس غزل کا یہ شعر ہے وہ غزل اور ایک مزید غزل "نقوش غزل نمبر"، لاہور 1985ء میں موجود ہے وہیں سے یہ غزل لکھ رہا ہوں۔

دورِ حیات آئے گا قاتل، قضا کے بعد
ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بعد

جینا وہ کیا کہ دل میں نہ ہو تیری آرزو
باقی ہے موت ہی دلِ بے مدّعا کے بعد

تجھ سے مقابلے کی کسے تاب ہے ولے
میرا لہو بھی خوب ہے تیری حنا کے بعد

لذّت ہنوز مائدہٴ عشق میں نہیں
آتا ہے لطفِ جرمِ تمنّا، سزا کے بعد
Maulana, Muhammad, Ali, Johar, Maulana Muhammad Ali Johar, urdu poetry, poetry, مولانا، محمد، علی، جوہر، مولانا محمد علی جوہر، اردو شاعری، شاعری، غزل، ghazal, karbala, salam, کربلا، سلام
مولانا محمد علی جوہر
Maulana Muhammad Ali Johar
قتلِ حُسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

مولانا محمد علی جوہر بحوالہ "نقوش غزل نمبر"، لاہور، 1985ء
-----

بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف

افاعیل - مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
(آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)

اشاری نظام - 122 1212 1221 212
ہندسے دائیں سے بائیں، اردو کی طرح پڑھیے۔
(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع--

دورِ حیات آئے گا قاتل قضا کے بعد
ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بعد

دورے ح - مفعول - 122
یات آء - فاعلات - 1212
گَ قاتل قَ - مفاعیل - 1221
ضا کِ بعد - فاعلان - 1212

ہے ابتِ - مفعول - 122
دا ہمارِ - فاعلات - 1212
تری انتِ - مفاعیل - 1221
ہا کِ بعد - فاعلان - 1212

-----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 29, 2011

نوائے سروش - مولانا شبلی نعمانی اور طبلچی

عبدالرزاق ملیح آبادی نے اپنی کتاب "ذکرِ آزاد"، جو مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ گزرے ہوئے انکے اڑتیس برسوں کی یادداشتوں پر مشتمل ہے، میں مولانا شبلی نعمانی کا ایک دلچسپ واقعہ مولانا آزاد کی زبانی بیان کیا ہے، ملاحظہ کیجیے۔

"علامہ شبلی نعمانی

جیل میں ایک دن مولانا [ابوالکلام آزاد] نے مرحوم شبلی نعمانی کے متعلق ایک دلچسپ لطیفہ سنایا۔ کہنے لگے، مولانا شبلی نہایت زندہ دل صاحبِ ذوق آدمی تھے، حسن پرست بھی تھے اور موسیقی وغیرہ فنونِ لطیفہ سے گہری دلچسپی رکھتے تھے مگر مولوی تھے، عام رائے سے ڈرتے تھے اور بڑی احتیاط سے اپنا ذوق پورا کرتے تھے۔

ایک دفعہ موصوف دہلی میں حکیم اجمل خاں مرحوم کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے کہ خواجہ حسن نظامی ملنے آئے اور کہنے لگے، آج میرے ہاں قوالی ہے، دہلی کی ایک مشہور طوائف۔۔۔۔(میں نام بھول گیا ہوں) گائے گی۔ محفل بالکل خاص ہے،میرے اور آپ کے سوا وہاں کوئی نہ ہوگا۔

مولانا شبلی نے دعوت قبول کر لی، کشمیری شال اوڑھی، وضع بدلی، بند گاڑی میں بیٹھے اور خواجہ صاحب کے ہاں پہنچ گئے۔ واقعی کوئی تیسرا آدمی مدعو نہ تھا، قوالی شروع ہوئی اور مولانا نے اپنے آپ کو محتسبوں سے محفوظ پا کر ضرورت سے زیادہ آزادی سے کام لیا۔ دل کھول کر گانے کی اور گانے والی کی تعریف کی۔ طوائف سے ہنستے بھی رہے اور اسے چھیڑتے بھی رہے۔
Maulana Shibli Nomani, مولانا شبلی نعمانی
مولانا شبلی نعمانی
Maulana Shibli Nomani
طوائف کا طبلچی ایک لحیم شحیم سن رسیدہ آدمی تھا۔ سر پر پٹے تھے اور منہ پر چوکور بڑی سی داڑھی، پٹے اور داڑھی خضاب سے بھونرا ہو رہے تھے۔ محفل جب برخاست ہونے لگی تو طبلچی دونوں ہاتھ بڑھائے مولانا کی طرف لپکا اور بڑے جوش سے مولانا کے ہاتھ پکڑ لیے، چومے، آنکھوں سے لگائے اور جوش سے کہنے لگا، "کس منہ سے خدا کا شکر ادا کروں کہ عمر بھر کی آرزو آج پوری ہوئی، مولانا سبحان اللہ، ماشاءاللہ، آپ نے "الفاروق" لکھ کر وہ کام کیا ہے جو نہ کسی سے ہوا نہ ہو سکے گا۔ بخدا آپ نے قلم توڑ دیا ہے، بندے کی کتنی تمنا تھی کہ حضرت کی زیارت سے مشرف ہو، سو آج بائی جی اور خواجہ صاحب کی بدولت یہ سعادت اس گنہگار کو نصیب ہوگئی۔"

مولانا آزاد نے فرمایا، علامہ شبلی بڑے ذکی الحس تھے، اس غیر متوقع واقعہ نے انکی ساری خوشی کرکری کر دی۔ شرم سے عرق عرق ہو گئے، سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کریں؟ طبلچی کو کیا جواب دیں؟ کس طرح محفل سے غائب ہو جائیں؟ بے جان بت کی طرح بیٹھے رہ گئے۔ خواجہ صاحب نے موقع کی نزاکت محسوس کی اور طائفے کو رخصت کر دیا مگر علامہ کو سخت ذہنی صدمہ پہنچ چکا تھا، ہفتوں شگفتہ نہ ہو سکے۔

مولانا نے فرمایا، یہ واقعہ خود علامہ شبلی نے ان سے بیان کیا تھا۔ بیان کرتے وقت بھی متاثر تھے اور بار بار کہتے تھے، کاش "الفاروق" میرے قلم سے نہ نکلی ہوتی اور نکلی تھی تو اسے پڑھنے والا طبلچی اس قوالی سے پہلے ہی ناپید ہو چکا ہوتا، یہ نہیں تو مجھے موت آ گئی ہوتی کہ اس ذلت سے بچ جاتا۔"

(اقتباس از ذکرِ آزاد از عبدالرزاق ملیح آبادی)
----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 25, 2011

تذکرۂ معاصرین از مالک رام

تذکرہ نویسی کی روایت اردو میں بہت پرانی ہے اور تذکرہ نگاروں کے ساتھ ساتھ کئی مشہور کلاسیکی شعراء نے بھی اپنے ہم عصر شعرا اور متقدمین کے تذکرے لکھے ہیں جیسے میر، مصحفی، شیفتہ وغیرہ۔ ان تذکروں میں شعراء کا کلام اور اس پر رائے کے ساتھ ساتھ شاعروں کے کسی قدر سوانح بھی آ گئے ہیں۔ اسی تذکرہ نویسی کی روایت میں ایک گراں قدر اور بیش بہا اضافہ مالک رام دہلوی کی "تذکرۂ معاصرین" ہے جسے اردو کے "زریں عہد" کا بہترین تذکرہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

دراصل یہ کتاب ایک طرح سے کتاب وفیات ہے جس میں مالک رام نے 1967ء سے 1977ء تک وفات پا جانے والی دو سو سے زائد شخصیات کا ذکر کیا ہے جن میں شاعر بھی ہیں اور ادیب بھی، محققین بھی ہیں اور ناقدین بھی۔ یعنی یہ وہ شخصیات ہیں جن کا کسی نے کسی حیثیت سے اردو سے گہرا تعلق رہا ہے اور یہ مالک رام کے ہم عصر تھے جن کے ساتھ مالک رام کے ذاتی تعلقات بھی تھے۔

مالک رام جب بھی کسی موضوع پر قلم اٹھاتے تھے تو اس موضوع کا حق ادا کر دیتے تھے، وہ انکی تصنیفات ہوں جیسے "ذکرِ غالب" اور "تلامذۂ غالب" یا انکی مرتب کردہ کتب جیسے غالب ہی کی "سبدِ چین" اور "گُلِ رعنا" یا انکے مقدمات اور حواشی جیسے مولانا ابوالکلام آزاد کی "غبارِ خاطر" اور "تذکرہ" پر، ان سب سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ وہ تحقیق کے میدان کے مرد تھے اور جرمن حکماء کی طرح جب تک کسی موضوع کا کلی احاطہ نہیں کر لیتے تھے تب تک اس موضوع پر قلم نہیں اٹھاتے تھے۔

Malik Ram, مالک رام
مالک رام دہلوی Malik Ram
اردو شعراء و ادبا کے کلام و کام کی تو بہت اشاعت ہوئی ہے لیکن ان کے سوانح و حالات اگر کبھی کسی کو ڈھونڈنے پڑ جائیں تو دانتوں پسینہ آ جاتا ہے لیکن آفرین ہے مالک رام مرحوم پر کہ سینکڑوں کتب و رسائل و جرائد و اخبارات کا عرق ریزی سے مطالعہ کرنے کے بعد اور مرحومین کے عزیز و اقارب و احباب سے خط و کتابت کرنے کے بعد انکے مستند اور مفصل حالات کو جمع کر دیا ہے۔ جن شعراء کے دواوین شائع ہو چکے تھے ان کے کلام کا انتخاب ان سے اور جن کے مجموعے نہیں تھے ان کے کلام کا انتخاب رسائل و جرائد و اخبارات کھنگال کر انکے سوانح کے ساتھ شامل کر دیا ہے اور انکی تصنیفات کا ذکر بھی کر دیا ہے۔ اندازِ تحریر انتہائی دلچسپ ہے اور سوانح اور انتخاب کے دریا کو چند صفحات کے کوزے میں یوں بند کیا ہے کہ تمام تفصیلات بکمال و تمام آ گئی ہیں۔

یہ کتاب دلّی سے 1972ء سے 1982ء کے درمیان چار جلدوں میں شائع ہوئی تھی اور جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ اس میں 1967ء سے 1977ء کے دوران وفات پانے والی شخصیات کا ذکر ہے جن کی ترتیب تاریخِ وفات کے لحاظ سے تھی لیکن اس کا پاکستانی ایڈیشن ترتیبِ نو کے ساتھ 2010ء میں شائع ہوا ہے اور چاروں جلدوں کو ایک ہی جلد میں یکجا کر دیا گیا ہے اور ترتیب الفبائی ہے جب کہ کتاب کے آخر میں تاریخِ وفات کے لحاظ سے ایک اشاریہ ضمیمے کے طور پر درج کر دیا گیا ہے۔ مالک رام ہر جلد کے شروع میں جو تعارف لکھتے تھے ان کو بھی اس کتاب کے شروع میں یکجا کر دیا گیا ہے جب کہ کتاب کے آخر میں دو مزید اشاریے شامل ہیں ایک اشخاص کا اور دوسرا کتب و رسائل کا۔ کتب میں اشاریے شامل کرنے کا مالک رام ضرور التزام کرتے تھے تا کہ بآسانی مطلوبہ معلومات حاصل ہوجائیں جبکہ دوسری طرف اردو کتب میں اس طرح کے اشاریے شامل کرنا ابھی بھی شاذ ہی ہے، کتاب کے شروع میں ڈاکٹر عارف نوشاہی کا ایک گراں قدر مقالہ "وفیات نویسی کی روایت-- عربی، فارسی، ترکی اور اردو میں" بھی شامل ہے۔
Malik Ram
تذکرہٴ معاصرین از مالک رام
اس کتاب کی ابتدا کا واقعہ بھی دلچسپ ہے، پہلی جلد کے تعارف میں مالک رام کے اپنے الفاظ یوں ہیں۔۔۔۔

"بعض احباب کے تعاون سے 1966ء کے اواخر میں دلّی میں "علمی مجلس" کا قیام عمل میں آیا۔ اس سے اصلی مقصد یہ تھا کہ ہم لوگ کبھی کبھی مل بیٹھیں، جہاں کسی علمی یا تحقیقی موضوع پر تبادلۂ خیالات کیا جا سکے۔ بعد کو فیصلہ ہوا کہ مجلس اپنا رسالہ بھی شائع کرے چنانچہ اس فیصلے کے مطابق تماہی [سہ ماہی] "تحریر" 1967ء میں جاری کیا گیا، اسکی ترتیب میرے سپرد ہوئی۔ ابھی ایک ہی شمارہ شائع ہوا تھا کہ لکھنؤ میں میرزا جعفر علی خاں اثر کا انتقال ہو گیا، میرے ان کے برسوں کے تعلق تھے۔ جی میں آئی کہ ان کے مختصر حالات "تحریر" میں شائع کر دوں، ابھی ارادہ ہی کر رہا تھا کہ رفیق مارہروی کے بھی انتقال کی خبر موصول ہوئی، یہ بھی میرے ملنے والے تھے، میں نے خیال کیا کہ اچھا ان کے بھی سہی۔ بدقسمتی سے وہ تماہی ختم ہوتے ہوتے چار پانچ صاحب داغِ مفارقت دے گئے اور میں نے 1967ء کی دوسری تماہی کے شمارے میں ان سب کے مختصر حالات شائع کر دیے، یوں گویا "تحریر" میں وفیات کے مستقل باب کا اضافہ ہو گیا۔ یہ فیصلہ کسی بڑی ہی بُری گھڑی میں ہوا تھا، وہ دن اور آج کا دن، اس کے بعد شاید ہی کوئی تماہی ایسی گزری ہو جس میں کسی نہ کسی مرحوم کے حالات مجھے نہ لکھنا پڑے ہوں۔ جب خیال کرتا ہوں کہ ان پانچ برس میں ستّر سے زیادہ اہلِ علم و قلم ہم سے جدا ہو گئے ہیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔"
کتاب میں مذکور کچھ شخصیات۔۔۔۔

ابراہیم جلیس، اثرلکھنوی، امتیاز علی تاج، باقی صدیقی، بہزاد لکھنوی، جان نثار اختر، جعفر طاہر، جوش ملسیانی، حبیب اشعر دہلوی، حفیظ ہوشیارپوری، دیوان سنگھ مفتون، ڈاکٹر ذاکر حسین، ذوالفقار بخاری، رشید احمد صدیقی، رئیس احمد جعفری، ساغر صدیقی، سید سجاد ظہیر، سید علی عباس حسینی، سید محمد جعفری، سید مسعود حسین رضوی ادیب، سید وقار عظیم، شاہ معین الدین احمد ندوی، شاہد احمد دہلوی، شکیل بدایونی، شورش کاشمیری، شوکت سبزواری، شیخ محمد اکرام، عابد علی عابد، عندلیب شادانی، فرقت کاکوری، کرشن چندر، مجید امجد، مختار صدیقی، مخدوم محی الدین، مصطفیٰ زیدی، ملا واحدی، ممتاز شیریں، مولانا عبدالماجد دریابادی، مولانا غلام رسول مہر، ن م راشد، ناصر کاظمی، یوسف ظفر وغیرہ۔

ناشر۔ الفتح پبلی کیشنز، راولپنڈی
صفحات - 1060
قیمت - 1500 روپے (میری نظر میں قیمت انتہائی زیادہ ہے لیکن 40 فیصد رعایت نے کچھ تلافی ضرور کی)۔
کتاب کی بارے میں مزید تفصیلات ناشر کی اس ویب سائٹ پر ملاحظہ کیجیے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 21, 2011

متفرق فارسی اشعار - ۲

دل اسبابِ طرَب گم کردہ، در بندِ غمِ ناں شُد
زراعت گاہِ دہقاں می شَوَد چوں باغ ویراں شُد
(غالب دہلوی)

(میرے) دل نے خوشی و مسرت کے سامان گم کر دیئے (کھو دیئے) اور روٹی کے غم میں مبتلا ہو گیا، (جسطرح کہ) جب کوئی باغ ویران ہو جاتا ہے تو وہ کسان کی زراعت گاہ (کھیت) بن جاتا ہے۔
--------

در کوئے نیک نامی ما را گذر ندادَند
گر تو نمی پسندی تغییر کن قضا را
(حافظ شیرازی)
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
نیک نامی کے کوچے سے ہمیں گزرنے نہ دیا گیا، اگر تمھیں یہ بات پسند نہیں ہے، یعنی ہمارا نیک نام نہ ہونا تو پھر تقدیر کو تبدیل کر دو۔ یہ شعر کچھ تغیر کے ساتھ بھی ملتا ہے جیسا کہ منسلک تصویر میں ہے۔
--------

بحرفِ ناملائم زحمتِ دل ہا مشو بیدل
کہ ہر جا جنسِ سنگی ہست، باشد دشمنِ مینا
(عبدالقادر بیدل)

بیدل، تلخ الفاظ (ناروا گفتگو) سے دلوں کو تکلیف مت دے، کہ جہاں کہیں بھی کوئی پتھر ہوتا ہے وہ شیشے کا دشمن ہی ہوتا ہے۔
--------

ہر دو عالم قیمتِ خود گفتہ ای
نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز
(امیر خسرو)

تُو نے اپنی قیمت دونوں جہان بتائی ہے، نرخ زیادہ کرو کہ ابھی بھی یہ کم ہے۔
--------

غلامی
آدم از بے بصری بندگیٔ آدم کرد
گوہرے داشت ولے نذرِ قباد و جَم کرد

یعنی از خوئے غلامی ز سگاں خوار تر است
من ندیدم کہ سگے پیشِ سگے سر خم کرد
(اقبال، پیامِ مشرق)

آدمی اپنی بے بصری (اپنی حقیقت سے بے خبری) کی بنا پر آدمی کی غلامی کرتا ہے، وہ (آزادی و حریت) کا گوہر تو رکھتا ہے لیکن اسے قباد و جمشید (بادشاہوں) کی نذر کر دیتا ہے۔

یعنی اس غلامی کی عادت میں وہ کتوں سے بھی زیادہ خوار ہو جاتا ہے، (کیونکہ) میں نے نہیں دیکھا کہ (کبھی) کسی کتے نے دوسرے کتے کے سامنے سر خم کیا ہو۔
--------

غنی روزِ سیاہِ پیرِ کنعاں را تماشا کن
کہ نورِ دیدہ اش روشن کُنَد چشمِ زلیخا را
(غنی کاشمیری)

غنی، پیرِ کنعاں ( یعقوب ع) کے نصیبوں کی سیاہی تو ذرا دیکھ کہ انکی آنکھوں کے نور (یوسف ع) نے روشن کیا تو زلیخا کی آنکھوں کو۔
--------

مرا دو چشمِ تو انداخت در بلائے سیاه
وگرنہ من کہ و مستی و عاشقی ز کجا
(عبید زاکانی)

مجھے تو تیری دو آنکھوں نے سیاہ بلا میں مبتلا کر دیا ہے، وگرنہ میں کیا (کہاں) اور مستی اور عاشقی کہاں۔
--------

من عاشقم، گواہِ من ایں قلبِ چاک چاک
در دستِ من جز ایں سندِ پارہ پارہ نیست
(محمد رضا عشقی)

میں عاشق ہوں اور میرا گواہ یہ دلِ چاک چاک ہے، میرے ہاتھ میں (میرے پاس) اس پارہ پارہ سند کے سوا اور کچھ نہیں۔
--------

گرفتم آں کہ بہشتم دہند بے طاعت
قبول کردن و رفتن نہ شرط انصاف است
(عرفی شیرازی)

میں نے مان لیا کہ مجھے بہشت بغیر عمل کے ہی مل جائے گی لیکن اسے قبول کرنا اور اس میں داخل ہونا انصاف کے خلاف ہے۔
--------
مزید پڑھیے۔۔۔۔