Jan 28, 2012

دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی - سیّد سبطِ علی صبا

ملبوس جب ہوا نے بدن سے چرا لیے
دوشیزگانِ صبح نے چہرے چھپا لیے

ہم نے تو اپنے جسم پہ زخموں کے آئنے
ہر حادثے کی یاد سمجھ کر سجا لیے

میزانِ عدل تیرا جھکاؤ ہے جس طرف
اس سمت سے دلوں نے بڑے زخم کھا لیے

دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے
Syyed Sibt-e-Ali Saba, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
سیّد سبطِ علی صبا
Syyed Sibt-e-Ali Saba
لوگوں کی چادروں پہ بناتی رہی وہ پھول
پیوند اس نے اپنی قبا میں سجا لیے

ہر حُرملہ کے دوش پہ ترکش کو دیکھ کر
ماؤں نے اپنی گود میں بچّے چھپا لیے

(سیّد سبطِ علی صبا)
-------

افاعیل - مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
(آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)

اشاری نظام - 122 1212 1221 212
ہندسے دائیں سے بائیں، اردو کی طرح پڑھیے۔
(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع--

ملبوس جب ہوا نے بدن سے چرا لیے
دوشیزگانِ صبح نے چہرے چھپا لیے

ملبوس - مفعول - 122
جب ہوا نِ - فاعلات - 1212
بدن سے چُ - مفاعیل - 1221
را لیے - فاعلن - 212

دوشیز - مفعول - 122
گان صبح - فاعلات - 1212
نِ چہرے چُ- مفاعیل - 1221
پا لیے - فاعلن - 212
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 26, 2012

زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں - کرشن بہاری نُور لکھنوی

زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں
اور کیا جرم ہے پتا ہی نہیں

سچ گھٹے یا بڑے تو سچ نہ رہے
جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں

اتنے حصّوں میں بٹ گیا ہوں میں
میرے حصّے میں کچھ بچا ہی نہیں

زندگی، موت تیری منزل ہے
دوسرا کوئی راستا ہی نہیں

جس کے کارن فساد ہوتے ہیں
اُس کا کوئی اتا پتا ہی نہیں

اپنی رچناؤں میں وہ زندہ ہے
نُور سنسار سے گیا ہی نہیں

(کرشن بہاری نُور لکھنوی)

---

بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن مُفاعِلُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)۔ تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)

اشاری نظام - 2212 2121 22
ہندسوں کو اردو رسم الخط کے مطابق پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 2212 پہلے پڑھیے۔ اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں
اور کیا جرم ہے پتا ہی نہیں

زندگی سے - فاعلاتن - 2212
بڑی سزا - مفاعلن - 2121
ہِ نہی - فَعِلن - 211

اور کیا جر - فاعلاتن - 2212
م ہے پتا - مفاعلن - 2121
ہِ نہی - فَعِلن - 211
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 24, 2012

وہ تقاضائے جنوں اب کے بہاروں میں نہ تھا - ہوش ترمذی

وہ تقاضائے جنوں اب کے بہاروں میں نہ تھا
ایک دامن بھی تو الجھا ہوا خاروں میں نہ تھا

مرنے جینے کو نہ سمجھے تو خطا کس کی ہے
کون سا حکم ہے جو ان کے اشاروں میں نہ تھا

ہر قدم خاک سے دامن کو بچایا تم نے
پھر یہ شکوہ ہے کہ میں راہگزاروں میں نہ تھا

تم سا لاکھوں میں نہ تھا، جانِ تمنا لیکن
ہم سا محروم ِ تمنا بھی ہزاروں میں نہ تھا

ہوش کرتے نہ اگر ضبطِ فغاں، کیا کرتے
پرسشِ غم کا سلیقہ بھی تو یاروں میں نہ تھا

(ہوش ترمذی)
-----


بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)

اشاری نظام - 2212 2211 2211 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

وہ تقاضائے جنوں اب کے بہاروں میں نہ تھا
ایک دامن بھی تو الجھا ہوا خاروں میں نہ تھا

وہ تقاضا - فاعلاتن - 2212
ء جنو اب - فعلاتن - 2211
کِ بہارو - فعلاتن - 2211
مِ نہ تھا - فعِلن - 211

ایک دامن - فاعلاتن - 2212
بِ تُ الجھا - فعلاتن - 2211
ہُ وَ خارو - فعلاتن - 2211
مِ نہ تھا - فعِلن - 211

-----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 14, 2012

متفرق فارسی اشعار - 4

بسازِ حادثہ ہم نغمہ بُودن آرام است
اگر زمانہ قیامت کُنَد تو طوفاں باش

(مرزا عبدالقادر بیدل)

حادثہ کے ساز کے ساتھ ہم نغمہ ہونا (سُر ملانا) ہی آرام ہے، اگر زمانہ قیامت بپا کرتا ہے تو تُو طوفان بن جا۔
------

گاہے گاہے باز خواں ایں دفترِ پارینہ را
تازہ خواہی داشتن گر داغ ہائے سینہ را

(شاعر: نا معلوم)

کبھی کبھی یہ پرانے قصے پھر سے پڑھ لیا کر، اگر تُو چاہتا ہے کہ تیرے سینے کے داغ تازہ رہیں۔
------
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,

بعد از وفات تربتِ ما در زمیں مَجو
در سینہ ہائے مردمِ عارف مزارِ ما

(سعدی شیرازی)

وفات کے بعد میری قبر زمین میں تلاش مت کرنا، کہ عارف لوگوں کہ سینوں میں میرا مزار ہے۔

------
رباعی

خواہی کہ ترا دولتِ ابرار رسَد
مپسند کہ از تو بہ کس آزار رسَد
از مرگ مَیَندیش و غمِ رزق مَخور
کایں ھر دو بہ وقتِ خویش ناچار رسَد

(شیخ ابو سعید ابو الخیر)

اگر تُو چاہتا ہے کہ تجھے نیک لوگوں کی دولت مل جائے (تو پھر) نہ پسند کر کہ تجھ سے کسی کو آزار پہنچے، موت کی فکر نہ کر اور رزق کا غم مت کھا، کیوں کہ یہ دونوں اپنے اپنے وقت پر چار و ناچار (لازماً) پہنچ کر رہیں گے۔
------

حافظ اگر سجدہ تو کرد مکن عیب
کافرِ عشق اے صنم گناہ ندارد

(حافظ شیرازی)

حافظ نے اگر تجھے سجدہ کیا تو کوئی عیب نہیں کہ اے صنم عشق کے کافر پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔
------

گر اے زاہد دعائے خیر می گوئی مرا ایں گو
کہ آں آوارۂ کوئے بتاں، آوارہ تر بادا

(امیر خسرو دہلوی)

اگر اے زاہد تو میرے لیے دعائے خیر کرتا ہے تو میرے لیے یہ کہہ کہ کوئے بتاں کا آوارہ، اور زیادہ آوارہ ہو جائے۔
------

حاصلِ خاقانی است دفترِ غم ہائے تو
زاں چوں قلم بر درت راہ بہ سر می رود

(خاقانی شروانی)

خاقانی کا حاصل تیرے غموں کے قصے ہیں کہ قلم کی طرح تیرے در کے راستے پر سر کے بل چلتا ہے۔
------

چہ خوش است از دو یکدل سرِ حرف باز کردن
سخنِ گذشتہ گفتن، گلہ را دراز کردن

(نظیری نیشاپوری)

کیا ہی اچھا (ہوتا) ہے دو گہرے دوستوں کا (آپس میں) گفتگو کا پھر سے آغاز کرنا، بیتی باتوں کو یاد کرنا اور گلوں کو دراز کرنا۔
------

من خکم و من گردم من اشکم و من دردم
تو مہری و تو نوری تو عشقی و تو جانی

(شاہد افلکی)

میں خاک ہوں (تُو آفتاب ہے)، میں گرد و غبار ہوں (تُو نور ہے)، میں آنسو ہوں (تُو عشق ہے)، میں درد ہوں (تُو جان ہے)۔
------

یک نگہ، یک خندۂ دزدیدہ، یک تابندہ اشک
بہرِ پیمانِ محبت نیست سوگندے دگر

(اقبال لاہوری)

ایک نگاہ، (پھر) ایک زیرِ لب تبسم، (اور اسکے بعد آنکھوں سے بہتا ہوا) ایک چمکتا آنسو، محبت کے پیمان کیلیے اس کے علاوہ اور کوئی قسم نہیں ہے۔
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 11, 2012

حقیقت کا اگر افسانہ بن جائے تو کیا کیجے - قتیل شفائی

حقیقت کا اگر افسانہ بن جائے تو کیا کیجے
گلے مل کر بھی وہ بیگانہ بن جائے تو کیا کیجے

ہمیں سو بار ترکِ مے کشی منظور ہے لیکن
نظر اس کی اگر میخانہ بن جائے تو کیا کیجے

نظر آتا ہے سجدے میں جو اکثر شیخ صاحب کو
وہ جلوہ، جلوۂ جانانہ بن جائے تو کیا کیجے
Qateel Shifai, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
قتیل شفائی Qateel Shifai
ترے ملنے سے جو مجھ کو ہمیشہ منع کرتا ہے
اگر وہ بھی ترا دیوانہ بن جائے تو کیا کیجے

خدا کا گھر سمجھ رکّھا ہے اب تک ہم نے جس دل کو
قتیل اس میں بھی اک بُتخانہ بن جائے تو کیا کیجے

(قتیل شفائی)
--------

بحر - بحر ہزج مثمن سالم

افاعیل - مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن

اشاری نظام - 2221 2221 2221 2221
(ہندسوں کو دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 1 پہلے اور 222 بعد میں)

تقطیع -

حقیقت کا اگر افسانہ بن جائے تو کیا کیجے
گلے مل کر بھی وہ بیگانہ بن جائے تو کیا کیجے

حقیقت کا - مفاعیلن - 2221
اگر افسا - مفاعیلن - 2221
نہ بن جائے - مفاعیلن - 2221
تُ کا کیجے - مفاعیلن - 2221

گلے مل کر - مفاعیلن - 2221
بِ وہ بیگا - مفاعیلن - 2221
نہ بن جائے - مفاعیلن - 2221
تُ کا کیجے - مفاعیلن - 2221

-----

اور یہ غزل استاد نصرت فتح علی خان کی آواز میں




مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 9, 2012

دل میں اب آواز کہاں ہے - مولانا ماہر القادری

دل میں اب آواز کہاں ہے
ٹوٹ گیا تو ساز کہاں ہے

آنکھ میں آنسو لب پہ خموشی
دل کی بات اب راز کہاں ہے

سرو و صنوبر سب کو دیکھا
ان کا سا اندا ز کہاں ہے
Maulana Mahir-ul-Qadri, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
مولانا ماہر القادری
Maulana Mahir-ul-Qadri
دل خوابیدہ، روح فسردہ
وہ جوشِ آغاز کہاں ہے

پردہ بھی جلوہ بن جاتا ہے
آنکھ تجلی ساز کہاں ہے

بت خانے کا عزم ہے ماہر
کعبے کا در باز کہاں ہے

(مولانا ماہر القادری)
--------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 3, 2012

یہ زندگی کا طلسمِ عجیب، کیا کہنا - غزل مجید امجد

مجید امجد کی ایک انتہائی خوبصورت غزل

جنونِ عشق کی رسمِ عجیب، کیا کہنا
میں اُن سے دور، وہ میرے قریب، کیا کہنا

یہ تیرگئ مسلسل میں ایک وقفۂ نور
یہ زندگی کا طلسمِ عجیب، کیا کہنا
Majeed Amjad, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
مجید امجد
جو تم ہو برقِ نشیمن، تو میں نشیمنِ برق
الجھ پڑے ہیں ہمارے نصیب، کیا کہنا

ہجومِ رنگ فراواں سہی، مگر پھر بھی
بہار، نوحۂ صد عندلیب، کیا کہنا

ہزار قافلۂ زندگی کی تیرہ شبی
یہ روشنی سی افق کے قریب، کیا کہنا

لرز گئی تری لو میرے ڈگمگانے سے
چراغِ گوشۂ کوئے حبیب، کیا کہنا

(مجید امجد)

مآخذ - نقوش غزل نمبر، لاہور 1985ء

------

بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
(آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فعِلان بھی آ سکتے ہیں)

اشاری نظام - 2121 2211 2121 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 2121 پہلے ہے اور اس میں بھی 1 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)

پہلے شعر کی تقطیع -

جنونِ عشق کی رسمِ عجیب، کیا کہنا
میں اُن سے دور، وہ میرے قریب، کیا کہنا

جنون عش - مفاعلن - 2121
ق کِ رس مے - فعلاتن - 2211
عجیب کا - مفاعلن - 2121
کہنا - فعلن - 22

مِ اُن سِ دُو - مفاعلن - 2121
ر وُ میرے - فعلاتن - 2211
قریب کا - مفاعلن - 2121
کہنا - فعلن - 22
-------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 28, 2011

کچھ اس انداز سے چھیڑا تھا میں نے نغمۂ رنگیں - اصغر گونڈوی

اصغر گونڈوی اردو شاعری کا ایک اہم نام ہیں لیکن جس قدر ان کا کلام اچھا ہے اس قدر وہ مقبول نہ ہو سکے۔ آپ ایک صوفیِ باصفا تھے اور کلام میں بھی تصوف کی چاشنی بدرجہ اتم موجود ہے۔ علامہ اقبال انکی شاعری کی بہت تعریف فرماتے تھے اور مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا کہ اگر اردو شاعری کو ایک اکائی فرض کیا جائے تو آدھی شاعری صرف اصغر گونڈوی کی ہے۔

اصغر گونڈوی کی ایک خوبصورت غزل

نہ ہوگا کاوشِ بے مدّعا کا رازداں برسوں
وہ زاہد، جو رہا سرگشتۂ سود و زیاں برسوں

ابھی مجھ سے سبق لے محفلِ رُوحانیاں برسوں
رہا ہوں میں شریکِ حلقہٴ پیرِ مُغاں برسوں
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, asghar gondvi
اصغر گونڈوی Asghar Gondvi
کچھ اس انداز سے چھیڑا تھا میں نے نغمۂ رنگیں
کہ فرطِ ذوق سے جھومی ہے شاخِ آشیاں برسوں

جبینِ شوق لائی ہے وہاں سے داغِ ناکامی
یہ کیا کرتی رہی کم بخت، ننگِ آستاں برسوں

وہی تھا حال میرا، جو بیاں میں آ نہ سکتا تھا
جسے کرتا رہا افشا، سکوتِ رازداں برسوں

نہ پوچھو، مجھ پہ کیا گزری ہے میری مشقِ حسرت سے
قفس کے سامنے رکھّا رہا ہے آشیاں برسوں

خروشِ آرزو ہو، نغمۂ خاموش الفت بن
یہ کیا اک شیوۂ فرسودۂ آہ و فغاں برسوں

نہ کی کچھ لذّتِ افتادگی میں اعتنا میں نے
مجھے دیکھا کِیا اُٹھ کر غبارِ کارواں برسوں

وہاں کیا ہے؟ نگاہِ ناز کی ہلکی سی جنبش ہے
مزے لے لے کے اب تڑپا کریں اربابِ جاں برسوں

محبّت ابتدا سے تھی مجھے گُلہائے رنگیں سے
رہا ہوں آشیاں میں لے کے برقِ آشیاں برسوں

میں وہ ہر گز نہیں جس کو قفس سے موت آتی ہو
میں وہ ہوں جس نے خود دیکھا نہ سوئے آشیاں برسوں

غزل میں دردِ رنگیں تُو نے اصغر بھر دیا ایسا
کہ اس میدان میں روتے رہیں گے نوحہ خواں برسوں

اصغر گونڈوی

--------

بحر - بحر ہزج مثمن سالم

افاعیل - مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن

اشاری نظام - 2221 2221 2221 2221
(ہندسوں کو دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 1 پہلے اور 222 بعد میں)

تقطیع -

نہ ہوگا کاوشِ بے مدّعا کا رازداں برسوں
وہ زاہد، جو رہا سرگشتۂ سود و زیاں برسوں

نہ ہوگا کا - مفاعیلن - 2221
وَ شے بے مُد - مفاعیلن - 2221
دَ عا کا را - مفاعیلن - 2221
ز دا بر سو - مفاعیلن - 2221

وُ زاہد جو - مفاعیلن - 2221
رہا سر گش - مفاعیلن - 2221
تَ اے سُو دو - مفاعیلن - 2221
ز یا بر سو - مفاعیلن - 2221

-------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 23, 2011

نوائے سروش - 4

ایک دن خواجہ الطاف حسین حالی کے پاس مولوی وحید الدین سلیم (لٹریری اسسٹنٹ سر سید احمد خان) بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص آیا اور مولانا حالی سے پوچھنے لگا۔

"حضرت، میں نے غصہ میں آ کر اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ تجھ پر تین طلاق، لیکن بعد میں مجھے اپنے کیے پر افسوس ہوا، بیوی بھی راضی ہے مگر مولوی کہتے ہیں کہ طلاق پڑ گئی، اب صلح کی کوئی شکل نہیں، خدا کے لیے میری مشکل آسان فرمائیں اور کوئی ایسی ترکیب بتائیں کہ میری بیوی گھر میں دوبارہ آباد ہو سکے۔"

ابھی مولانا حالی کوئی جواب نہیں دینے پائے تھے کہ مولوی سلیم اس شخص سے کہنے لگے۔

"بھئی یہ بتاؤ کہ تُو نے طلاق 'ت' سے دی تھی یا 'ط' سے؟"

اس شخص نے کہا۔ "جی میں تو ان پڑھ اور جاہل آدمی ہوں، مجھے کیا پتہ کہ ت سے کیسی طلاق ہوتی ہے اور ط سے کیسی ہوتی ہے۔"

مولوی صاحب نے اس سے کہا کہ "میاں یہ بتاؤ کہ تم نے قرأت کے ساتھ کھینچ کر کہا تھا کہ "تجھ پر تین طلاق" جس میں ط کی آواز پوری نکلتی ہے یا معمولی طریقہ پر کہا تھا جس میں ط کی آواز نہیں نکلتی بلکہ ت کی آواز نکلتی ہے۔"

بیچارے غریب سوال کنندہ نے کہا۔ "جی مولوی صاحب، میں نے معمولی طریقہ پر کہا تھا، قرأت سے کھینچ کر نہیں کہا تھا۔"

یہ سننے کے بعد مولوی سلیم صاحب نے پورے اطمینان کے ساتھ اس سے کہا۔

"ہاں بس معلوم ہو گیا کہ تُو نے ت سے تلاق دی تھی اور ت سے کبھی طلاق پڑ ہی نہیں سکتی، ت سے تلاق کے معنی ہیں 'آ محبت کے ساتھ مل بیٹھ'، تُو بے فکر ہو کر اپنی بیوی کو گھر لے آ، اور اگر کوئی مولوی اعتراض کرے تو صاف کہہ دیجو کہ میں نے تو ت سے تلاق دی تھی ط سے ہر گز نہیں دی۔"
-------

حفیظ جالندھری سر عبد القادر کی صدارت میں انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں چندہ جمع کرنے کی غرض سے اپنی نظم سنا رہے تھے۔ جلسے کے اختتام پر منتظم جلسہ نے بتایا کہ 300روپیہ جمع ہوئے۔

حفیظ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ میری نظم کا اعجاز ہے۔

"لیکن حضور!" منتظم نے متانت سے کہا ، "200 روپیہ ایک ایسے شخص نے دئے ہیں جو بہرا تھا۔"
---------

ایک دفعہ کسی نے مولانا شوکت علی سے پوچھا کہ "آپ کے بڑے بھائی ذوالفقار علی کا تخلص 'گوہر' ہے، آپ کے دوسرے بھائی محمد علی کا تخلص 'جوہر' ہے، آپ کا کیا تخلص ہے؟"

"شوہر" مولانا نے فرمایا۔
------
کچھ نقاد حضرات اردو کے ایک شاعر کی مدح سرائی کر رہے تھے، ان میں سے ایک نے کہا۔

"صاحب کیا بات ہے، بہت بڑے شاعر ہیں، اب تو حکومت کے خرچ سے یورپ بھی ہو آئے ہیں۔"

ہری چند اختر نے یہ بات سنی تو نہایت متانت سے کہا۔

"جناب اگر کسی دوسرے ملک میں جانے سے کوئی آدمی بڑا شاعر ہو جاتا ہے تو میرے والد صاحب ملکِ عدم جا چکے ہیں لیکن خدا گواہ ہے کہ کبھی ایک شعر بھی موزوں نہیں کر سکے۔"
------

میر تقی میر سے لکھنو میں کسی نے پوچھا۔ "کیوں حضرت آج کل شاعر کون کون ہے۔"

میر صاحب نے کہا۔ "ایک تو سودا ہے اور دوسرا یہ خاکسار، اور پھر کچھ تامل سے بولے، آدھے خواجہ میر درد۔"

اس شخص نے کہا، "حضرت، اور میر سوز؟"

میر صاحب نے چیں بہ چیں ہو کر کہا۔ "میر سوز بھی شاعر ہیں؟"

اس نے کہا۔ "آخر بادشاہ آصف الدولہ کے استاد ہیں۔"

کہا۔ "خیر اگر یہ بات ہے تو پونے تین سہی۔"
------

مرزا رفیع سودا اردو کے بڑے نامور شاعر تھے۔ بادشاہ شاہ عالم نے جب انکی شاگردی اختیار کی تو ایک روز سودا سے کہا کہ آپ ایک روز میں کتنی غزلیں کہہ لیتے ہیں۔

سودا نے جواب دیا کہ وہ ایک دن میں دو چار شعر کہہ لیتے ہیں۔

یہ سن کر بادشاہ نے کہا، واہ استادِ محترم، ہم تو پاخانے میں بیٹھے بیٹھے چار غزلیں کہہ لیتے ہیں۔

سودا نے جواب میں کہا۔

"حضور ان غزلوں میں بُو بھی ویسی ہی ہوتی ہے۔"

یہ کہا اور بادشاہ کے پاس سے چلے آئے اور بعد میں بادشاہ کے بار بار بلاوے پر بھی اسکی خدمت میں نہ گئے۔
------

غدر کے بعد مرزا غالب بھی قید ہو گئے۔ ان کو جب وہاں کے کمانڈنگ آفیسر کرنل براؤن کے سامنے پیش کیا گیا تو کرنل نے مرزا کی وضع قطع دیکھ کر پوچھا۔

ویل، ٹم مسلمان ہے۔

مرزا نے کہا، جناب، آدھا مسلمان ہوں۔

کرنل بولا۔ کیا مطلب؟

مرزا نے کہا، جناب شراب پیتا ہوں، سؤر نہیں کھاتا۔

کرنل یہ جواب سن کر ہنس پڑا اور مرزا کو بے ضرر سمجھ کر چھوڑ دیا۔
--------

جگر مراد آبادی کے ایک شعر کی تعریف کرتے ہوئے ایک زندہ دل نے ان سے کہا۔

"حضرت، آپ کی غزل کے ایک شعر کو لڑکیوں کی ایک محفل میں پڑھنے کے بعد میں بڑی مشکل سے پٹنے سے بچا ہوں۔"

جگر صاحب ہنس کر بولے۔

"عزیزم، میرا خیال ہے کہ شعر میں کوئی خامی رہ گئی ہوگی، وگرنہ یہ کسی طرح ممکن نہ تھا کہ آپ کو مارا پیٹا نہ جاتا۔"
-------

ایک محفل میں شبیر حسن خان المعروف جوش ملیح آبادی اپنی نظم سنا رہے تھے تو کنور مہندر سنگھ بیدی سحر نے (جو کہ جوش کے قریبی دوست تھے) حاضرین سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔

"دیکھیے کم بخت پٹھان ہو کر کیسے عمدہ شعر پڑھ رہا ہے۔"

جوش صاحب نے فورا جواب دیا۔

"اور دیکھو، ظالم سکھ ہو کر کیسی اچھی داد دے رہا ہے۔"
--------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 19, 2011

غزل - سوکھے ہونٹ، سلگتی آنکھیں، سرسوں جیسا رنگ - شبنم شکیل

سوکھے ہونٹ، سلگتی آنکھیں، سرسوں جیسا رنگ
برسوں بعد وہ دیکھ کے مجھ کو رہ جائے گا دنگ

ماضی کا وہ لمحہ مجھ کو آج بھی خون رلائے
اکھڑی اکھڑی باتیں اس کی، غیروں جیسے ڈھنگ

تارہ بن کے دور افق پر کانپے، لرزے، ڈولے
کچی ڈور سے اڑنے والی دیکھو ایک پتنگ
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Shabnam Shakeel
شبنم شکیل Shabnam Shakee
دل کو تو پہلے ہی درد کی دیمک چاٹ گئی تھی
روح کو بھی اب کھاتا جائے تنہائی کا زنگ

انہی کے صدقے یا رب میری مشکل کر آسان
میرے جیسے اور بھی ہیں جو دل کے ہاتھوں تنگ

سب کچھ دے کر ہنس دی اور پھر کہنے لگی تقدیر
کبھی نہ ہوگی پوری تیرے دل کی ایک امنگ

شبنم کوئی جو تجھ سے ہارے، جیت پہ مان نہ کرنا
جیت وہ ہوگی جب جیتو گی اپنے آپ سے جنگ

(شبنم شکیل)

--------
مزید پڑھیے۔۔۔۔