Nov 28, 2012

شامِ غم کی سحر نہیں ہوتی - ابنِ انشا

شامِ غم کی سحر نہیں ہوتی
یا ہمیں کوخبر نہیں ہوتی

ہم نے سب دُکھ جہاں کے دیکھے ہیں
بے کلی اِس قدر نہیں ہوتی

نالہ یوں نا رسا نہیں رہتا
آہ یوں بے اثر نہیں ہوتی

چاند ہے، کہکشاں ہے، تارے ہیں
کوئی شے نامہ بر نہیں ہوتی

ایک جاں سوز و نامراد خلش
اِس طرف ہے اُدھر نہیں ہوتی

دوستو، عشق ہے خطا لیکن
کیا خطا درگزر نہیں ہوتی؟

رات آ کر گزر بھی جاتی ہے
اک ہماری سحر نہیں ہوتی
Urdu Poetry, Urdu Ghazal, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, اردو شاعری، اردو غزل، علم عروض، تقطیع, Ibn-e-Insha, behr, بحر خفیف، ابن انشا
Ibn-e-Insha, ابنِ انشا

بے قراری سہی نہیں جاتی
زندگی مختصر نہیں ہوتی

ایک دن دیکھنے کو آجاتے
یہ ہوس عمر بھر نہیں ہوتی

حُسن سب کو، خدا نہیں دیتا
ہر کسی کی نظر نہیں ہوتی

دل پیالہ نہیں گدائی کا
عاشقی در بہ در نہیں ہوتی

ابنِ انشا
----

قافیہ - اَر یعنی رے ساکن اور اس سے پہلے زبر کی آواز جیسے سحر میں حر، خبر میں بر، قدر میں در، اثر میں ثر، بر وغیرہ۔

ردیف - نہیں ہوتی

 بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن مُفاعِلُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)۔ تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)

علامتی  نظام - 2212 2121 22
ہندسوں کو اردو رسم الخط کے مطابق پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 2212 پہلے پڑھیے۔ اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

شامِ غم کی سحر نہیں ہوتی
یا ہمیں کوخبر نہیں ہوتی

شام غم کی - فاعلاتن - 2212
سحر نہی - مفاعلن - 2121
ہوتی - فعلن - 22

یا ہمی کو - فاعلاتن - 2212
خبر نہی - مفاعلن - 2121
ہوتی - فعلن - 22
-----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 23, 2012

یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے - حفیظ جالندھری

لباس ہے پھٹا ہوا، غُبار میں اٹا ہوا
تمام جسمِ نازنیں، چھدا ہوا کٹا ہوا
یہ کون ذی وقار ہے، بلا کا شہ سوار ہے
کہ ہے ہزاروں قاتلوں کے سامنے ڈٹا ہوا
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

یہ کون حق پرست ہے، مئے رضائے مست ہے
کہ جس کے سامنے کوئی بلند ہے نہ پست ہے
اُدھر ہزار گھات ہے، مگر عجیب بات ہے
کہ ایک سے ہزار کا بھی حوصلہ شکست ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

یہ جسکی ایک ضرب سے، کمالِ فنّ ِ حرب سے
کئی شقی گرئے ہوئے تڑپ رہے ہیں کرب سے
غضب ہے تیغِ دوسرا کہ ایک ایک وار پر
اُٹھی صدائے الاماں زبانِ شرق وغرب سے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

عبا بھی تار تار ہے، تو جسم بھی فگار ہے
زمین بھی تپی ہوئی  فلک بھی شعلہ بار ہے
مگر یہ مردِ تیغ زن، یہ صف شکن فلک فگن
کمالِ صبر و تن دہی سے محوِ کارزار ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے
Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, Urdu Poetry, Urdu Shairi, اردو شاعری، علم عروض، تقطیع، بحر، بحر ہزج, سلام, Salam; hafeez jalandhari، حفیظ جالندھری
Hafeez Jalandhari، حفیظ جالندھری

دلاوری میں فرد ہے، بڑا ہی شیر مرد ہے
کہ جس کے دبدبے سے رنگ دشمنوں کا زرد ہے
حبیبِ مُصطفیٰ ہے یہ، مجاہدِ خدا ہے یہ
جبھی تو اس کے سامنے، یہ فوج گرد گرد ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

اُدھر سپاہِ شام ہے، ہزار انتظام ہے
اُدھر ہیں دشمنانِ دیں، اِدھر فقط اِمام ہے
مگر عجیب شان ہے غضب کی آن بان ہے
کہ جس طرف اُٹھی ہے تیغ بس خدا کا نام ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

حفیظ جالندھری
-----

بحر - بحرِ ہزج مثمن مقبوض

افاعیل - مفاعلن مفاعلن مفاعلن مفاعلن

علامتی نظام - 2121 / 2121 / 2121 /2121
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2121 میں 1 پہلے ہے

تقطیع -

لباس ہے پھٹا ہوا، غبار میں اٹا ہوا
تمام جسمِ نازنیں، چھدا ہوا کٹا ہوا

لباس ہے - مفاعلن - 2121
پٹا ہوا - مفاعلن - 2121
غبار مے - مفاعلن - 2121
اٹا ہوا - مفاعلن - 2121

تمام جس - مفاعلن - 2121
مِ نازنی - مفاعلن - 2121
چھدا ہوا - مفاعلن - 2121
کٹا ہوا - مفاعلن - 2121

یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نورِ عین ہے

یِ بل یقی - مفاعلن - 2121
حُسین ہے - مفاعلن - 2121
نبی کَ نُو - مفاعلن - 2121
رِ عین ہے - مفاعلن - 2121
-----


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 20, 2012

قرنِ اوّل کی روایت کا نگہدار حُسین - سلام از آغا شورش کاشمیری

قرنِ اوّل کی روایت کا نگہدار حُسین
بس کہ تھا لختِ دلِ حیدرِ کرّار حُسین

عرصۂ شام میں سی پارۂ قرآنِ حکیم
وادیٔ نجد میں اسلام کی للکار حُسین

سر کٹانے چلا منشائے خداوند کے تحت
اپنے نانا کی شفاعت کا خریدار حُسین

کوئی انساں کسی انساں کا پرستار نہ ہو
اس جہاں تاب حقیقت کا علمدار حُسین

ابوسفیان کے پوتے کی جہانبانی میں
عزّتِ خواجۂ گیہاں کا نگہدار حُسین

کرۂ ارض پہ اسلام کی رحمت کا ظہور
عشق کی راہ میں تاریخ کا معمار حُسین
Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, Urdu Poetry, Urdu Shairi, اردو شاعری، علم عروض، تقطیع، بحر، بحر رمل, Agha Shorish Kashmiri, آغا شورش کاشمیری، سلام, Salam
Agha Shorish Kashmiri, آغا شورش کاشمیری

جان اسلام پہ دینے کی بنا ڈال گیا
حق کی آواز، صداقت کا طرفدار حُسین

دینِ قیّم کے شہیدوں کا امامِ برحق
حشر تک امّتِ مرحوم کا سردار حُسین

ہر زمانے کے مصائب کو ضرورت اس کی
ہر زمانے کے لیے دعوتِ ایثار حُسین

کربلا اب بھی لہو رنگ چلی آتی ہے
دورِ حاضر کے یزیدوں سے ہے دوچار حُسین

آغا شورش کاشمیری
----

قافیہ - آر یعنی ساکن الف اور رے اور الف سے پہلے زبر کی آواز جیسے نگہداد میں دار، کرّار میں رار، للکار میں کار، علمدار میں دار وغیرہ۔

ردیف - حُسین

بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)

علامتی نظام - 2212 / 2211 / 2211 / 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

قرنِ اوّل کی روایت کا نگہدار حُسین
بس کہ تھا لختِ دلِ حیدرِ کرّار حُسین

قرنِ او ول - فاعلاتن - 2212
کِ روایت - فعلاتن - 2211
کَ نگہدا - فعلاتن - 2211
ر حُسین - فَعِلان - 1211

بس کہ تھا لخ - فاعلاتن - 2212
تِ دلے حے - فعلاتن - 2211
دَرِ کر را - فعلاتن - 2211
ر حُسین - فَعِلان - 1211
-----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 17, 2012

حسین ابنِ علی کو امام جانتا ہوں - سلام از حفیظ تائب

رموزِ عشق و محبّت تمام جانتا ہوں
حسین ابنِ علی کو امام جانتا ہوں

انہی کے در کو سمجھتا ہوں محورِ مقصود
انہی کے گھر کو میں دارالسّلام جانتا ہوں

میں ان کی راہ کا ہوں ایک ذرۂ ناچیز
کہوں یہ کیسے کہ ان کا مقام جانتا ہوں

مجھے امام نے سمجھائے ہیں نکاتِ حیات
سوادِ کفر میں جینا حرام جانتا ہوں

نگاہ کیوں ہے مری ظاہری وسائل پر
جو خود کو آلِ نبی کا غلام جانتا ہوں
Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, Urdu Poetry, Urdu Shairi, اردو شاعری، علم عروض، تقطیع، بحر، بحر مجتث, Salam, Hafeez Taib, سلام، حفیظ تائب
Hafeez Taib, حفیظ تائب

میں جان و مال کو پھر کیوں عزیز رکھتا ہوں
جو خود کو پیروِ خیر الانام جانتا ہوں

شکارِ مصلحت و یاس کیوں ہو پھر تائب
جو اس کٹے ہوئے سر کا پیام جانتا ہوں
---

قافیہ - آم یعنی ساکن الف میم اور الف سے پہلے زبر کی آواز جیسے تمام میں مام، سلام میں لام، مقام میں قام، حرام میں رام وغیرہ۔

ردیف - جانتا ہوں

بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فَعِلان بھی آ سکتے ہیں۔

علامتی نظام - 2121 / 2211 / 2121 / 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 2121 پہلے ہے اور اس میں بھی 1 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)

تقطیع -

رموزِ عشق و محبت تمام جانتا ہوں
حسین ابنِ علی کو امام جانتا ہوں

رموز عش - مفاعلن - 2121
ق محبت - فعلاتن - 2211
تمام جا - مفاعلن - 2121
ن تَ ہو - فَعِلن - 211

حسین اِب - مفاعلن - 2121
نِ علی کو - فعلاتن - 2211
امام جا - مفاعلن - 2121
ن تَ ہو - فَعِلن - 211
-----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 15, 2012

متفرق فارسی اشعار - 8

مئےِ دیرینہ و معشوقِ جواں چیزے نیست
پیشِ صاحب نَظَراں حور و جَناں چیزے نیست

پرانی شراب اور جوان معشوق کوئی چیز نہیں ہے، صاحبِ نظر کے سامنے حور اور جنت کچھ بھی نہیں ہے۔

دانَشِ مغربیاں، فلسفۂ مشرقیاں
ہمہ بتخانہ و در طوفِ بتاں چیزے نیست

مغرب والوں کی (عقل و) دانش اور مشرق والوں کا فلسفہ، یہ سب بُتخانے ہیں اور بتوں کے طواف میں کچھ بھی نہیں ہے۔

(علامہ اقبال)
---

بہ سوئے کعبہ راہ بسیار است
من ز دریا روَم، تو از خشکی

(قاآنی شیرازی)

کعبہ کی طرف بہت سے راستے جاتے ہیں، میں اگر دریا کے راستے جاتا ہوں  تو تُو خشکی کے (یعنی حقیقت تک پہنچنے کے کئی ایک ذرائع ہوتے ہیں)
----

ناخدا در کشتیٔ ما گر نباشد، گو مباش
ما خدا داریم، ما را ناخدا درکار نیست

(امیر خسرو دہلوی)

اگر ہماری کشتی میں ناخدا نہیں ہے تو کہہ دو کہ کوئی ڈر، فکر نہیں کہ ہم خدا رکھتے ہیں اور ہمیں ناخدا درکار نہیں۔
------

خموش حافظ و از جورِ یار نالہ مکُن
ترا کہ گفت کہ بر روئے خوب حیراں باش

(حافظ شیرازی)

حافظ خاموش رہ اور یار کے ظلم سے نالاں نہ ہو، تجھ سے کس نے کہا تھا کہ خوبصورت چہرے پر عاشق ہو جا۔
-----

ملک الشعراء میرزا محمد تقی بہار (1884ء - 1951ء) کے والد میرزا محمد کاظم صبوری بھی ایک بلند پایہ شاعر تھے۔ بہار جب اٹھارہ سال کی عمر میں یتیم ہو گئے تو شاعری کے میدان میں انہیں جیسے آزادی مل گئی کہ انکے والد ہمیشہ شاعری کے معاملے میں انکی حوصلہ شکنی کیا کرتے تھے۔ بہار نے اتنی مہارت سے شعر کہنے شروع کیے کہ خراسان کے علماء و فضلاء نے یقین نہ کیا کہ یہ انکے شعر ہیں بلکہ سمجھا کہ بہار اپنے والد کے اشعار اپنے نام سے پیش کرتے ہیں۔ اس تاثر کو غلط ثابت کرنے کیلیے بہار نے فی البدیہہ مشاعروں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔
Mohammad Taqi Bahar, Mohammad Taghi Bahar, Persian poetry with urdu translation, farsi poetry with urdu translation, فارسی شاعری مع اردو ترجمہ، فارسی شاعری بمع اردو ترجمہ، فارسی شاعری اردو ترجمے کے ساتھ
Mohammad Taqi Bahar, ملک الشعرا محمد تقی بہار

اسی طرح کے ایک مشاعرے میں بہار کی قابلیت جانچنے کیلیے اساتذہ نے انہیں چار لفظ 'تسبیح، چراغ، نمک اور چنار' دیکر کہا کہ رباعی کے وزن پر چار مصرعے کہو اور ان میں یہ الفاظ استعمال کرو، بہار نے چند لمحوں میں یہ رباعی پیش کر دی:

با خرقہ و تسبیح مرا دید چو یار
گفتا ز چراغِ زہد نایَد انوار
کس شہد نہ دیدہ است در کانِ نمک
کس میوہ نچیدہ است از شاخِ چنار

جب میرے یار نے مجھے خرقہ و تسبیح کے ساتھ دیکھا تو کہا کہ (یہ کیا کر رہا ہے) زہد کے چراغ سے انوار نہیں نکلتے، کیونکہ کبھی کسی نے نمک کی کان میں شہد نہیں دیکھا  اور کسی نے چنار کی شاخ سے پھل نہیں حاصل کیا۔
------

تا چشمِ تو ریخت خونِ عشّاق
زلفِ تو گرفت رنگِ ماتم

(خاقانی شروانی)

چونکہ تیری آنکھوں نے عشاق کا خون بہایا ہے (اسلیے) تیری زلفوں نے رنگِ ماتم پکڑا ہوا ہے (وہ سیاہ رنگ کی ہیں)۔

حسنِ تعلیل کی ایک خوبصورت مثال، بالوں کا سیاہ ہونا بالوں کی ایک صفت ہے لیکن شاعر نے اس کو معطل کر کے اسکی وجہ کچھ اور ہی بتائی ہے اور کیا خوبصورت وجہ بتائی ہے
-----

عمریست دل بَغَفلتِ خود گریہ می کُنَد
ایں نامۂ سیہ چہ قدَر ابرِ رحمت است

(ابوالمعانی مرزا عبدالقادر بیدل عظیم آبادی)

تمام عمر، میرا دل اپنی غفلت پر آنسو بہاتا رہا، یہ میرا سیاہ اعمال نامہ کس قدر ابرِ رحمت (کی مانند) ہے۔
--------


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 1, 2012

نہ یہ شیشہ، نہ یہ ساغر، نہ یہ پیمانہ بنے - اصغر گونڈوی

نہ یہ شیشہ، نہ یہ ساغر، نہ یہ پیمانہ بنے
جانِ میخانہ، تری نرگسِ مستانہ بنے

مرتے مرتے نہ کبھی عاقل و فرزانہ بنے
ہوش رکھتا ہو جو انسان تو دیوانہ بنے

پرتوِ رخ کے کرشمے تھے سرِ راہ گذار
ذرّے جو خاک سے اٹھّے، وہ صنم خانہ بنے

موجِ صہبا سے بھی بڑھ کر ہوں ہوا کے جھونکے
ابر یوں جھوم کے چھا جائے کہ میخانہ بنے

کارفرما ہے فقط حُسن کا نیرنگِ کمال
چاہے وہ شمع بنے چاہے وہ پروانہ بنے
urdu poetry, urdu shairy, urdu ghazal, ilm-e-arooz, ilm-e-Urooz, taqtee, behr, اردو شاعری، اردو غزل، تقطیع، بحرعلم عروض, Asghar Gondvi, اصغر گونڈوی
Asghar Gondvi, اصغر گونڈوی

چھوڑ کر یوں درِ محبوب چلا صحرا کو؟
ہوش میں آئے ذرا قیس نہ دیوانہ بنے

خاک پروانے کی برباد نہ کر بادِ صبا
عین ممکن ہے کہ کل تک مرا افسانہ بنے

جرعہٴ مے تری مستی کی ادا ہو جائے
موجِ صہبا تری ہر لغزشِ مستانہ بنے

اُس کو مطلوب ہیں کچھ قلب و جگر کے ٹکڑے
جیب و دامن نہ کوئی پھاڑ کے دیوانہ بنے

رند جو ظرف اٹھا لیں وہی ساغر بن جائے
جس جگہ بیٹھ کے پی لیں وہی میخانہ بنے

اصغر گونڈوی
-----

قافیہ - آنہ یعنی نہ اور اسے پہلے الف ساکن اور زبر کی آواز جیسے پیمانہ میں مانہ، مستانہ میں تانہ، فرزانہ میں زانہ، دیوانہ میں وانہ وغیرہ۔

ردیف - بنے

بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)

علامتی نظام - 2212 / 2211 / 2211 / 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

نہ یہ شیشہ، نہ یہ ساغر، نہ یہ پیمانہ بنے
جانِ میخانہ، تری نرگسِ مستانہ بنے

نہ یہ شیشہ - فَعِلاتن - 2211
نہ یہ ساغر - فَعِلاتن - 2211
نہ یہ پیما - فَعِلاتن - 2211
نہ بنے - فَعِلن - 211

جانِ میخا - فاعلاتن - 2212
نہ تری نر - فَعِلاتن - 2211
گَسِ مستا - فعلاتن - 2211
نہ بنے - فَعِلن - 211
-----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Oct 8, 2012

اے تیرِ غمت را دلِ عُشّاق نشانہ - غزل مولانا ہلالی استر آبادی مع اردو ترجمہ

اے تیرِ غمَت را دلِ عُشّاق نشانہ
خلقے بتو مشغول و تو غائب ز میانہ

اے کہ تیرے غم کے تیر کا نشانہ عشاق کا دل ہے، ساری خلقت تجھ میں مشغول ہے اور تو درمیان سے غائب ہے۔

مجنوں صِفَتَم در بدر و خانہ بخانہ
شاید کہ ببینم رُخِ لیلیٰ بہ بہانہ

میں، مجنوں کی طرح در بدر اور خانہ بخانہ (پھرتا ہوں) شاید کہ کسی بہانے ہی سے رخ لیلیٰ کا دیدار ہو جائے۔

گہ معتکفِ مسجد و گہ ساکنِ دیرَم
یعنی کہ ترا می طلبم خانہ بخانہ

کبھی میں مسجد میں حالتِ اعتکاف میں ہوں اور کبھی مندر کا ساکن ہوں، یعنی میں خانہ بخانہ تیرا ہی طالب ہوں (کہ مسجد و مندر میں تو ہی ہے)-

حاجی بہ رہِ کعبہ و من طالبِ دیدار
اُو خانہ ہمی جوید و من صاحبِ خانہ

حاجی کعبے کا مسافر ہے اور میں تیرے دیدار کا طالب ہوں، یعنی وہ تو گھر ڈھونڈتا ہے اور میں گھر والے کو۔

تقصیرِ ہلالی بہ اُمیدِ کرمِ تُست
یعنی کہ گنہ را بہ ازیں نیست بہانہ

ہلالی کی تقصیروں کو تیرے کرم کی ہی امید ہے یعنی کہ گناہوں کیلیے اس سے بہتر کوئی بہانہ نہیں ہے۔

مولانا ہلالی اَستر آبادی
----

قافیہ - آنہ یعنی الف نون اور ہائے ہوز ساکن اور الف سے پہلے زبر کی آواز۔ جیسے نشانہ میں شانہ، میانہ میں یانہ، بہانہ میں ہانہ اور خانہ۔ واضح رہے کہ الف سے پہلے ہمیشہ زبر کی آواز ہی ہوتی ہے۔

ردیف - اس غزل کی ردیف نہیں ہے یعنی یہ غزل غیر مُردّف ہے۔

بحر - بحرِ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف

 افاعیل: مَفعُولُ مَفَاعیلُ مَفَاعیلُ فَعُولُن
آخری رکن فعولن کی جگہ مسبغ رکن فعولان بھی آ سکتا ہے۔ جیسے چوتھے شعر کے پہلے مصرعے میں "طالبِ دیدار" میں جز "بِ دیدار" فعولان کے وزن پرں تقطیع ہوگا۔ اسی طرح مقطع کے پہلے مصرعے میں بھی۔

علامتی نظام - 122 / 1221 / 1221 / 221
(آخری رکن 221 کی جگہ 1221 بھی آ سکتا ہے)
ہندسوں کو اردو رسم الخظ کے مطابق یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی  122 پہلے ہے اور اس میں بھی 2 پہلے ہے۔

 تقطیع -

اے تیر غمَت را دلِ عُشّاق نشانہ
خلقے بتو مشغول و تو غائب ز میانہ

اے تیر - مفعول - 122
غمت را دِ - مفاعیل - 1221
لِ عشّاق - مفاعیل - 1221
نشانہ - فعولن - 221

خلقے بَ - مفعول - 122
تُ مشغول - مفاعیل - 1221
تُ غائب ز - مفاعیل - 1221
میانہ - فعولن - 221
----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Oct 2, 2012

ہر غنچہ لب سے عشق کا اظہار ہے غَلَط - مومن خان مومن

ہر غنچہ لب سے عشق کا اظہار ہے غَلَط
اس مبحثِ صحيح کی تکرار ہے غَلَط

کہنا پڑا درست کہ اتنا رہے لحاظ
ہر چند وصلِ غير کا انکار ہے غلط

کرتے ہيں مجھ سے دعویِ الفت، وہ کيا کريں
کيونکر کہيں مقولہٴ اغيار ہے غلط

يہ گرم جوشياں تری گو دل سے ہوں ولے
تاثیرِ نالہ ہائے شرر بار ہے غلط

کرتے ہو مجھ سے راز کی باتیں تم اس طرح
گويا کہ قولِ محرمِ اسرار ہے غلط
Momin Khan Momin, مومن خان مومن، Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Urdu Poetry, Urdu Shairy, Urdu Ghazl, Taqtee, Behr, علم عروض، تقطیع، اردو شاعری، اردو غزل
Momin Khan Momin, مومن خان مومن

اٹھ جا کہاں تلک کوئی باتيں اٹھائے گا
ناصح تو خود غلط تری گفتار ہے غلط

سچ تو يہ ہے کہ اس بُتِ کافر کے دور ميں
لاف و گزافِ مومنِ ديندار ہے غلط

----

قافیہ - آر یعنی الف اور رے ساکن اور ان سے پہلے زبر کی آواز جیسے اظہار میں ہار، تکرار میں رار، انکار میں کار، شرر بار میں بار وغیرہ۔

ردیف - ہے غلط

بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف

 افاعیل: مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے، جیسے اس غزل کے دوسرے شعر کے پہلے مصرعے میں لفظ لحاظ آیا ہے اور الفاظ "رہے لحاظ" میں ٹکڑا "ہے لحاظ" فاعلان پر تقطیع ہوگا۔

علامتی نظام - 122 / 1212 / 1221 / 212
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 122 پہلے ہے اور اس میں بھی 22 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)

 تقطیع -

ہر غنچہ لب سے عشق کا اظہار ہے غلط
اس مبحثِ صحيح کی تکرار ہے غلط

ہر غنچَ - مفعول - 122
لب سِ عشق - فاعلات - 1212
کَ اظہار - مفاعیل - 1221
ہے غلط - فاعلن - 212

اس مبحَ - مفعول - 122
ثے صحیح - فاعلات - 1212
کِ تکرار - مفاعیل - 1221
ہے غلط - فاعلن - 212
----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 14, 2012

حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا - قتیل شفائی

حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا
ٹوٹے بھی جو تارا تو زمیں پر نہیں گرتا

گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا

سمجھو وہاں پھل دار شجر کوئی نہیں ہے
وہ صحن کہ جِس میں کوئی پتھّر نہیں گرتا

اِتنا تو ہوا فائدہ بارش کی کمی سے
اِس شہر میں اب کوئی پھسل کر نہیں گرتا

انعام کے لالچ میں لکھے مدح کسی کی
اتنا تو کبھی کوئی سخنور نہیں گرتا

حیراں ہے کوئی روز سے ٹھہرا ہوا پانی
تالاب میں اب کیوں کوئی کنکر نہیں گرتا
Qateel Shifai, قتیل شفائی, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Urdu Poetry, Urdu Shairy, Urdu Ghazl, Taqtee, Behr, علم عروض، تقطیع، اردو شاعری، اردو غزل
Qateel Shifai, قتیل شفائی

اُس بندہٴ خوددار پہ نبیوں کا ہے سایا
جو بھوک میں بھی لقمہٴ تر پر نہیں گرتا

کرنا ہے جو سر معرکہِ زیست تو سُن لے
بے بازوئے حیدر، درِ خیبر نہیں گرتا

قائم ہے قتیل اب یہ مرے سر کے ستوں پر
بھونچال بھی آئے تو مرا گھر نہیں گرتا
-----

قافیہ - اَر یعنی رے ساکن اور اس سے پہلے زبر کی آواز جیسے قلندر میں دَر، پَر، سمندر میں دَر، پتھر میں تھَر، کر وغیرہ۔

ردیف - نہیں گرتا

بحر - بحرِ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف

 افاعیل: مَفعُولُ مَفَاعیلُ مَفَاعیلُ فَعُولُن
آخری رکن فعولن کی جگہ مسبغ رکن فعولان بھی آ سکتا ہے۔

علامتی نظام - 122 / 1221 / 1221 / 221
(آخری رکن 221 کی جگہ 1221 بھی آ سکتا ہے)
ہندسوں کو اردو رسم الخظ کے مطابق یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی  122 پہلے ہے اور اس میں بھی 2 پہلے ہے۔

 تقطیع -

حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا
ٹوٹے بھی جو تارا تو زمیں پر نہیں گرتا

حالات - مفعول - 122
کِ قدمو پِ - مفاعیل - 1221
قلندر نَ - مفاعیل - 1221
ہِ گرتا - فعولن - 221

ٹوٹے بِ - مفعول - 122
جُ تارا تُ - مفاعیل - 1221
زمی پر نَ - مفاعیل - 1221
ہِ گرتا - فعولن - 221
----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 12, 2012

نوائے سروش - 5

ایک صاحب نے اکبر الہٰ آبادی کو لکھتا۔ " میں صاحبِ ذوق ہوں۔ آپ کی الہامی شاعری کا پرستار اور والہ و شیدا، اتنی استطاعت نہیں کہ آپ کے دیوان یا کلیات کو خرید کر پڑھ سکوں۔ اس لیے ازراہِ علم دوستی اپنے دیوان کی ایک جلد بلا قیمت مرحمت فرما کر ممنون فرمائیے۔"

خط دیکھ کر کہنے لگے۔ " اور سنئے ۔۔۔۔ آج مفت دیوان طلب فرما رہے ہیں، کل فرمائش کریں گے کہ صاحبِ ذوق ہوں، مفت میں " جانکی بائی " کا گانا سنوا دیجیے۔"
-----

ایک مرتبہ اکبر الٰہ آبادی کے دوست نے انہیں ایک ٹوپی دکھائی جس پر قل ہو اللہ کڑھا ہوا تھا۔ آپ نے دیکھتے ہی فرمایا “بھئی عمدہ چیز ہے۔ کسی دعوت میں کھانا ملنے میں دیر ہو تو یہ ٹوپی پہن لیا کرو، سب سمجھ جائیں گے کہ انتڑیاں قل ہو اللہ پڑھ رہی ہیں۔“
----------

بمبئی (ممبئی) میں جوش ملیح آبادی ایک ایسے مکان میں ٹھہرے جس میں اوپر کی منزل پر ایک اداکارہ رہتی تھی، لیکن مکان کی ساخت کچھ ایسی تھی کہ انہیں دیدار نہ ہو سکتا تھا، لہذا انہوں نے یہ رباعی لکھی:

میرے کمرے کی چھت پہ اُس بُت کا مکان
جلوے کا نہیں ہے پھر بھی کوئی امکان
گویا اے جوش میں ہوں ایسا مزدور
جو بھوک میں ہو سر پہ اُٹھائے ہوئے خوان
------

دلی میں ایک بہت مشہور گانے والی تھی جس کا نام 'شیریں' تھا مگر اسکی ماں بہت بیڈول اور بُری شکل کی تھی، ایک مجلس میں شیریں اپنی ماں کے ساتھ گانے اور مجرے کیلیے آئی، سر سید بھی وہاں موجود تھے اور انکے برابر انکے ایک ایرانی دوست بیٹھے ہوئے تھے، وہ شیریں کی ماں کو دیکھ کر کہنے لگے "مادرش بسیار تلخ است" (اسکی ماں بہت تلخ ہے)۔ اس پر سر سید نے فوراً جواب دیا۔

"گرچہ تلخ است ولیکن بر شیریں دارد" (اگرچہ وہ تلخ ہے لیکن پھل 'شیریں' رکھتی ہے)
-----

سعادت حسن منٹو نے کافی لوگوں کے سکیچ لکھے ہیں اور اس سلسلے میں انکی کتاب گنجے فرشتے کافی مشہور ہے۔

جب ان سے احمد ندیم قاسمی کا کیریکٹر سکیچ لکھنے کی فرمائش کی گئی تو وہ اداس ہو کر نہایت بجھے بجھے لہجہ میں کہنے لگے۔

"قاسمی کا سکیچ؟ وہ بھی کوئی آدمی ہے، جتنے صفحے چاہو سیاہ کرلو، لیکن بار بار مجھے یہی جملہ لکھنا پڑے گا۔

قاسمی بہت شریف آدمی ہے، قاسمی بہت شریف آدمی ہے۔"
-------
Ilmi-o-adabi latefay, tanza-o-mazah, علمی و ادبی لطیفے، طنز و مزاح، نوايے سروش


مشہور شاعر محسن احسان علیل تھے۔ احمد فراز عیادت کے لئے گئے۔ دیکھا کہ محسن احسان کے بستر پر کتابوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ چادر بھی میلی تھی۔ احمد فراز نے صورت حال دیکھ کر مسکراتے ہوے محسن سے کہا

یار اگر بیوی بدل نہیں سکتے تو کم از کم بستر ہی بدل دیجئے
------

فیروز خان نون کی پہلی بیوی بیگم نون کے نام سے موسوم تھیں۔ جب فیروز خان نون نے دوسری شادی کر لی تو ان کی ایک شناسا نے مولانا عبدالمجید سالک سے بطور مشورہ پوچھا، “ اب دوسری بیوی کو کیا کہا جائے گا؟“

مولانا نے بے ساختہ جواب دیا، “آفٹر نون۔“
-------

ایک دفعہ ایک مشہور شاعر کسی ہوٹل میں کھانا کھانے کے لیے جا رہے تھے۔ راستے میں ایک دوست مل گئے۔ انہیں بھی ساتھ لیا۔ ہوٹل پہنچ کر شاعر صاحب نے پوچھا : “کیا کھاؤ گے؟“

ان صاحب نے جواب دیا، “میں تو کھانا کھا کر آیا ہوں۔ اگر آپ اتنا ہی اصرار کر رہے ہیں تو دودھ پی لیتا ہوں۔“

چناں چہ انہوں نے اپنے لیے مرغی اور دوست کے لیے دودھ منگوایا۔ جب شاعر صاحب مرغی کھا چکے تو اس کی ہڈیوں پر زور آزمائی کرنے لگے۔ جب ہڈیوں میں سے کڑاک کڑاک کی آوازیں آنے لگیں تو ان کے دوست نے ان سے طنزیہ پوچھا، “ آپ کے شہر کے کُتے کیا کرتے ہیں؟“

شاعر نے اپنے کام کو بڑے اطمینان و سکون سے جاری رکھتے ہوے کہا، “بھئی وہ دراصل دودھ پیتے ہیں۔“
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔