Dec 29, 2012

جو دلوں کو فتح کر لے، وہی فاتحِ زمانہ - جگر مرادآبادی

یہ فلک یہ ماہ و انجم، یہ زمین یہ زمانہ
ترے حُسن کی حکایت، مرے عشق کا فسانہ

یہ ہے عشق کی کرامت، یہ کمالِ شاعرانہ
ابھی مُنہ سے بات نکلی، ابھی ہو گئی فسانہ

یہ علیل سی فضائیں، یہ مریض سا زمانہ
تری پاک تر جوانی، ترا حُسنِ معجزانہ

یہ مرا پیام کہنا تُو صبا مؤدّبانہ
کہ گزر گیا ہے پیارے، تجھے دیکھے اِک زمانہ

مجھے چاکِ جیب و دامن سے نہیں مناسبت کچھ
یہ جُنوں ہی کو مبارک، رہ و رسمِ عامیانہ

تجھے حادثاتِ پیہم سے بھی کیا ملے گا ناداں؟
ترا دل اگر ہو زندہ، تو نفَس بھی تازیانہ

تری اِک نمود سے ہے، ترے اِک حجاب تک ہے
مری فکرِ عرش پیما، مرا نازِ شاعرانہ

وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کر لے، وہی فاتحِ زمانہ
Jigar Muradabadi, جگر مُرادآبادی، Urdu Poetry, Urdu Shairi, Urdu Ghazal, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, اردو شاعری، اردو غزل، علم عروض، تقطیع، بحر
Jigar Muradabadi, جگر مُرادآبادی

یہ ترا جمالِ کامل، یہ شباب کا زمانہ
دلِ دشمناں سلامت، دلِ دوستاں نشانہ

کبھی حُسن کی طبیعت نہ بدل سکا زمانہ
وہی نازِ بے نیازی، وہی شانِ خسروانہ

مجھے عشق کی صداقت پہ بھی شک سا ہو چلا ہے
مرے دل سے کہہ گئی کیا، وہ نگاہِ ناقدانہ

تجھے اے جگر ہوا کیا کہ بہت دنوں سے پیارے
نہ بیانِ عشق و مستی، نہ حدیثِ دلبرانہ
-----

قافیہ - آنہ یعنی ا ن ہ اور اس سے پہلے زبر کی آواز جیسے زمانہ میں مانہ، فسانہ میں سانہ، معجزانہ میں زانہ، عامیانہ میں یانہ وغیرہ۔

ردیف - اس غزل کی کوئی ردیف نہیں یعنی یہ غزل غیر مردف ہے۔

بحر - بحر رمل مثمن مشکول

 افاعیل: فَعِلاتُ فاعلاتُن / فَعِلاتُ فاعلاتُن
یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی ہر مصرع دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا ہے اور ہر ٹکڑا بھی ایک مصرعے کے حکم میں آ سکتا ہے یعنی اس میں عملِ تسبیغ کیا جا سکتا ہے یعنی ہر فاعلاتن کو فاعلاتان بنایا جا سکتا ہے۔

علامتی نظام -  1211 2212 / 1211 2212
ہندسوں کو اردو طرز پر پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 1211 کا ٹکڑا پہلا ہے اور اس میں بھی 11 پہلے ہے۔ ہر 2212 کو 12212 بنایا جا سکتا ہے۔

تقطیع -

یہ فلک یہ ماہ و انجم، یہ زمین یہ زمانہ
ترے حُسن کی حکایت، مرے عشق کا فسانہ

ی فلک ی - فعلات - 1211
ماہ انجم - فاعلاتن - 2212
ی زمین - فعلات - 1211
یہ زمانہ - فاعلاتن - 2212

ترِ حُسن - فعلات - 1211
کی حکایت - فاعلاتن - 2212
مرِ عشق - فعلات - 1211
کا فسانہ - فاعلاتن - 2212
----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 27, 2012

اے دل، مدام بندۂ آں شہر یار باش - غزلِ سیّد نصیر الدین نصیر مع ترجمہ

اے دل، مدام بندۂ آں شہر یار باش
بے غم ز گردشِ فلکِ کج مدار باش

اے دل ہمیشہ کیلیے اس شہریار (سردار) کا غلام بن جا، اور کج مدار فلک کی گردش کے غم (غمِ دنیا) سے چھٹکارا حاصل کر لے۔

ہرگز مبیچ گردنِ تسلیم ز امرِ دوست
چوں کوہ در طریقِ رضا استوار باش

دوست کے حکم کے سامنے گردنِ تسلیم کبھی مت اُٹھا، اور پہاڑوں کی طرح رضا و تسلیم کے طریق میں ثابت قدم ہو جا۔

بے سوزِ عشق ، زیست بُوَد شمعِ بے فروغ
پروانہ وار مردِ محبّت شعار باش

سوز عشق کے بغیر زندگی ایک بے فروغ شمع ہے، پروانہ وار محبت شعار مردوں کی طرح بن جا۔

لوحِ جبینِ خویش بہ خاکِ درش بِسائے
با روزگار ہمدم و با بخت یار باش

اپنی پیشانی کے خط کو اسکے در کی خاک سے سجائے رکھ اور روزگار کا ہمدم بن جا اور قسمت کا دھنی ہو جا۔

دل را بہ دامِ گیسوئے جاناں اسیر کن
وز بندِ راہ و رسمِ جہاں رستگار باش

دل کو گیسوئے جاناں کا قیدی بنا لے اور دنیا کے رسم و رواج کی قید سے آزاد ہو جا۔

از عشقِ دوست قطع مکن رشتۂ اُمید
آسودہ از ہجومِ غمِ روزگار باش

دوست کے عشق سے امید کا رشتہ منقطع مت کر، اور غمِ روزگار کے ہجوام سے آسودہ ہو جا۔

اے دل، کنوں کہ بارِ امانت گرفتہ ای
محنت بہ جانِ خویش کَش و بُردبار باش

اے دل اب جب کہ تُو نے امانت کا بوجھ اٹھا ہی لیا ہے تو اپنی جان پر محنت اٹھا اور بردبار بن جا۔
Persian poetry with Urdu Translation, Farsi poetry with Urdu Translation, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Pir Syyed Naseer-ud-Din Naseer, علم عروض، تقطیع، پیر سید نصیر الدین نصیر شاہ، فارسی شاعری مع اردو ترجمہ
Naseer-Ud-Din Naseer, سید نصیر الدین نصیر

سر در رَہَش فدا کن و دل بر رُخَش نثار
خون از جگر چکان و بچشم اشکبار باش

اسکی راہ میں سر فدا کر دے، اور اسکے رخ پر دل نثار،جگر سے خون ٹپکانے اور آنکھوں سے آنسو بہانے والا بن جا۔

تا دُرد نوش ساقیِ کوثر شدی نصیر
سرشارِ بادۂ کرمِ کردگار باش

نصیر چونکہ ساقیِ کوثر (ص) کا دُرد نوش (تہہِ جام و تلچھٹ پینے والا) ہے لہذا کردگار کے بادۂ کرم سے سرشار ہے۔
----

قافیہ - آر یعنی الف اور رے ساکن اور ان سے پہلے زبر کی آواز جیسے شہریار میں یار، کج مدار میں دار، استوار میں وار، شعار میں عار وغیرہ۔

ردیف - باش

بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف

 افاعیل: مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے، جیسا کہ اس غزل کے مطلع اور ہر شعر کے دوسرے مصرعے میں ہے۔

علامتی نظام - 122 / 1212 / 1221 / 212
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 122 پہلے ہے اور اس میں بھی 22 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)

 تقطیع -

اے دل، مدام بندۂ آں شہر یار باش
بے غم ز گردشِ فلکِ کج مدار باش

اے دل مُ - مفعول - 122
دام بندَ - فاعلات - 1212
ء آ شہر - مفاعیل - 1221
یار باش - فاعلان - 1212

بے غم ز - مفعول - 122
گردشے فَ - فاعلات - 1212
لَکے کج مَ - مفاعیل - 1221
دار باش - فاعلان - 1212
----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 24, 2012

رباعیاتِ سرمد شہید مع اردو ترجمہ - 6

(36)

چوں پیر شدم گناہ گردید جواں
بشگفت گُلِ داغ بہنگامِ خزاں
ایں لالہ رخاں، طفل مزاجم کردند
گہ متّقیَم، گاہ سراپا عصیاں

جب میں بوڑھا ہوا تو میرے گناہ جوان ہو گئے۔ گویا عین خزاں میں گلِ داغ کھل اٹھا۔ ان لالہ رخوں نے میرا مزاج بچوں جیسا کر دیا ہے کہ کبھی تو میں متقی ہوں اور کبھی سراپا گنہگار۔
------

(37)

گہ شہر و دیار، گہ بصحرا رفتی
در راہِ ہوس بصد تمنّا رفتی
ایں قافلہ نزدیک سرِ منزل شد
اتمامِ سفر گشت، کجا ہا رفتی

کبھی تو شہروں شہروں گھومتا رہا اور کبھی صحرا میں۔ ہوس کی راہ میں تُو سینکڑوں تمناؤں کے ساتھ چلتا رہا۔ یہ (زندگی کا)ا قافلہ منزل کے نزدیک آ پہنچا اور سفر تمام ہونے کو آیا، (خود ہی سوچ کہ) تُو کہاں کہاں (بے فائدہ ہی) گھومتا رہا۔
-----

(38)

بنگر کہ عزیزاں ہمہ در خاک شدند
در صید گہِ فنا بفتراک شدند
آخر ہمہ را خاک نشیں باید شد
گیرم کہ برفعت ہمہ افلاک شدند

دیکھو کہ سب عزیز و اقارب خاک میں چلے گئے۔ فنا کی شکار گاہ میں فتراک میں چلے گئے۔ آخر سبھی کو خاک نشیں ہی ہونا ہے، چاہے وہ رفعتوں میں افلاک ہی کیوں نہ ہو جائیں، میں نے جان لیا۔
------
Rubaiyat-e-Sarmad Shaheed, mazar Sufi sarmad shaheed, persian poetry with urdu translation, farsi poetry with urdu translation, rubai, ، رباعیات سرمد شہید مع اردو ترجمہ،  مزار صوفی سرمد شہید، فارسی شاعری مع اردو ترجمہ، رباعی
Mazar Sufi Sarmad Shaheed, مزار صوفی سرمد شہید

(39)

ہر کس بہوس باغِ جہاں دید و گذشت
خار و گُلِ پژمردہ بہم چید و گذشت
ایں صورتِ ہستی کہ تمامش معنیست
افسوس بر آں کس کہ نہ فہمید و گذشت

ہر کسی نے اس باغِ جہاں کو ہوس اور چاہ سے دیکھا اور چلا گیا، کانٹوں اور مرجھائے ہوئے ہھولوں کے سوا کچھ بھی نہ چنا اور چلا گیا۔ یہ زندگی کہ تمام کی تمام (سمجھ میں آ جانے والی اور کھلی کھلی نشانیوں کے ساتھ) معنی ہے، افسوس اُس پر کہ جس نے اسے نہ سمجھا اور چلا گیا۔
-----

(40)

از کارِ جہاں عقدہ کشودم ہمہ را
در محنت و اندوہ ربودم ہمہ را
حق دانی و انصاف نہ دیدم ز کسے
دیدم ہمہ را و آزمودم ہمہ را

اس کارِ جہاں میں میں نے سب کے عقدے وا کیے، اور سب کسی کے محن و رنج و غم دُور کیے لیکن میں نے کسی میں بھی حق شناسی اور انصاف نہ دیکھا گو میں نے سب کو دیکھا اور سب کو آزمایا۔
-----


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 22, 2012

میرے سنگِ مزار پر فرہاد - غزلِ میر تقی میر

میرے سنگِ مزار پر فرہاد
رکھ کے تیشہ کہے ہے یا اُستاد

ہم سے بن مرگ کیا جدا ہو ملال
جان کے ساتھ ہے دلِ ناشاد

آنکھیں موند اور سفر عدم کا کر
بس بہت دیکھا عالمِ ایجاد

فکرِ تعمیر میں نہ رہ منعم
زندگانی کی کچھ بھی ہے بنیاد؟

خاک بھی سر پہ ڈالنے کو نہیں
کس خرابہ میں ہم ہوئے آباد

سنتے ہو، ٹک سنو کہ پھر مجھ بعد
نہ سنو گے یہ نالہ و فریاد

لگتی ہے کچھ سموم سی تو نسیم
خاک کس دل جلے کی کی برباد

بھُولا جا ہے غمِ بُتاں میں جی
غرض آتا ہے پھر خدا ہی یاد
Mir Taqi Mir, میر تقی میر, Urdu Poetry, Urdu Shairi, Urdu Ghazal, Classical Urdu Poetry, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, Meer Taqi Meer, اردو شاعری، اردو غزل، کلاسیکی ارو شاعری، علم عروض، تقطیع، بحر
Mir Taqi Mir, میر تقی میر

تیرے قیدِ قفس کا کیا شکوہ
نالہ اپنے سے، اپنے سے فریاد

ہرطرف ہیں اسیر ہم آواز
باغ ہے گھر ترا تو اے صیّاد

ہم کو مرنا یہ ہے کہ کب ہوں گے
اپنی قیدِ حیات سے آزاد

ایسا ہرزہ ہے وہ کہ اٹھتے صبح
سو جگہ جانا اس کی ہے معتاد

نقش صورت پذیر نہیں اس کا
یوں ہی تصدیع کھینچے ہے بہزاد

خوب ہے خاک سے بزرگاں کی
چاہنا تو مرے تئیں امداد

پر مروّت کہاں اسے اے میر
تو ہی مجھ دل جلے کو کر ناشاد

نامرادی ہو جس پہ پروانہ
وہ جلاتا پھرے چراغِ مراد

میر تقی میر
-----

قافیہ - آد یعن ساکن الف دال اور ان سے پہلے زبر کی آواز جیسے استاد میں تاد، فرہاد میں ہاد، ناشاد میں شاد، ایجاد میں جاد وغیرہ۔

ردیف - اس غزل کی کوئی ردیف نہیں یعنی یہ غیر مردف ہے۔

 بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن مُفاعِلُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)۔ تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)

علامتی  نظام - 2212 2121 22
ہندسوں کو اردو رسم الخط کے مطابق پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 2212 پہلے پڑھیے۔ اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

میرے سنگِ مزار پر فرہاد
رکھ کے تیشہ کہے ہے یا استاد

میرِ سنگے - فاعلاتن - 2212
مزار پر - مفاعلن - 2121
فرہاد - فعلان - 122

رک کِ تیشہ - فاعلاتن - 2212
کہے ہِ یا - مفاعلن - 2121
استاد - فعلان - 122
----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 18, 2012

ایں قدَر مَستم کہ از چشمَم شراب آید بروں - غزل مولانا جامی مع اردو ترجمہ

ایں قدَر مَستم کہ از چشمَم شراب آید بروں
وَز دلِ پُر حسرتم دُودِ کباب آید بروں

میں اس قدر مست ہوں کہ میری آنکھوں سے (آنسوؤں کی جگہ) شراب باہر آ رہی ہے اور میرے دلِ پُر حسرت سے اس طرح دھواں اٹھ رہا ہے کہ جیسے کباب سے دھواں اٹھتا ہے۔

ماہِ من در نیم شب چوں بے نقاب آید بروں
زاہدِ صد سالہ از مسجد خراب آید بروں

میرا چاند آدھی رات کو اگر بے نقاب باہر نکلے تو سو سالہ زاہد بھی مسجد سے خراب اور اسکا دیوانہ ہو کر باہر نکل آئے۔

صُبح دم چوں رُخ نمودی شُد نمازِ من قضا
سجدہ کے باشد روا چوں آفتاب آید بروں

صبح کے وقت جب تیرا چہرا دیکھا تو میری نماز قضا ہو گئی کیونکہ سجدہ کیسے روا ہو سکتا ہے جب کہ سوج نکل آئے۔

ایں قدَر رندَم کہ وقتِ قتل زیرِ تیغِ اُو
جائے خوں از چشمِ من موجِ شراب آید بروں

میں اس قدر رند ہوں کہ وقتِ قتل اسکی تلوار کے نیچے، خون کی بجائے میری آنکھوں سے موجِ شراب ابل ابل کر باہر آ رہی ہے۔

یارِ من در مکتب و من در سرِ رہ منتظر
منتظر بودم کہ یارم با کتاب آید بروں

میرا یار مکتب میں ہے اور میں راہ میں کھڑا منتظر ہوں کہ وہ کتاب کے ساتھ کب باہر آتا ہے۔
Persian poetry with urdu translation, farsi poetry with urdu translation, فارسی شاعری مع اردو ترجمہ، فارسی شاعری بمع اردو ترجمہ، فارسی شاعری اردو ترجمے کے ساتھمولانا نور الدین عبدالرحمٰن جامی، ھرات، افغانستان، ن، Maulana Abdur Rahman Jami
مزار مولانا نور الدین عبدالرحمٰن جامی، ھرات، افغانستان

قطرہٴ دردِ دلِ جامی بہ دریا اُوفتد
سینہ سوزاں، دل کتاں، ماہی ز آب آید بروں

جامی کے دردِ دل کا ایک قطرہ دریا میں گر پڑے تو جلتے ہوئے سینے اور پارہ پارہ دل کے ساتھ مچھلی بھی پانی سے باہر آ جائے۔

(مولانا نُور الدین عبدالرحمٰن جامی)

----

قافیہ - آب یعنی ساکن اب اور اس سے پہلے زبر کی آواز جیسے شراب میں راب، کباب میں باب، نقاب میں قاب، خراب میں راب وغیرہ۔

ردیف - آید بروں

 بحر - بحر رمل مثمن محذوف

افاعیل - فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلُن
آخری رکن فاعلن کی جگہ مسبغ رکن فاعلان بھی آسکتا ہے۔

علامتی  نظام - 2212 / 2212 / 2212 / 212
ہندسوں کو اردو رسم الخط کے مطابق پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 2212 پہلے پڑھیے۔ اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(آخری 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

ایں قدَر مَستم کہ از چشمَم شراب آید بروں
وَز دلِ پُر حسرتم دُودِ کباب آید بروں

ای قدر مس - فاعلاتن - 2212
تم ک از چش - فاعلاتن - 2212
مم شرابا - فاعلاتن - 2212 - یہاں الف کا وصال ہوا ہے اور تمام قافیہ ردیف میں یہی صورتحال ہے۔
ید برو - فاعلن - 212

وز دلے پُر - فاعلاتن - 2212
حسرتم دُو - فاعلاتن - 2212
دے کبابا - فاعلاتن - 2212
ید برو - فاعلن - 212
------

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 28, 2012

شامِ غم کی سحر نہیں ہوتی - ابنِ انشا

شامِ غم کی سحر نہیں ہوتی
یا ہمیں کوخبر نہیں ہوتی

ہم نے سب دُکھ جہاں کے دیکھے ہیں
بے کلی اِس قدر نہیں ہوتی

نالہ یوں نا رسا نہیں رہتا
آہ یوں بے اثر نہیں ہوتی

چاند ہے، کہکشاں ہے، تارے ہیں
کوئی شے نامہ بر نہیں ہوتی

ایک جاں سوز و نامراد خلش
اِس طرف ہے اُدھر نہیں ہوتی

دوستو، عشق ہے خطا لیکن
کیا خطا درگزر نہیں ہوتی؟

رات آ کر گزر بھی جاتی ہے
اک ہماری سحر نہیں ہوتی
Urdu Poetry, Urdu Ghazal, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, اردو شاعری، اردو غزل، علم عروض، تقطیع, Ibn-e-Insha, behr, بحر خفیف، ابن انشا
Ibn-e-Insha, ابنِ انشا

بے قراری سہی نہیں جاتی
زندگی مختصر نہیں ہوتی

ایک دن دیکھنے کو آجاتے
یہ ہوس عمر بھر نہیں ہوتی

حُسن سب کو، خدا نہیں دیتا
ہر کسی کی نظر نہیں ہوتی

دل پیالہ نہیں گدائی کا
عاشقی در بہ در نہیں ہوتی

ابنِ انشا
----

قافیہ - اَر یعنی رے ساکن اور اس سے پہلے زبر کی آواز جیسے سحر میں حر، خبر میں بر، قدر میں در، اثر میں ثر، بر وغیرہ۔

ردیف - نہیں ہوتی

 بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن مُفاعِلُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)۔ تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)

علامتی  نظام - 2212 2121 22
ہندسوں کو اردو رسم الخط کے مطابق پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 2212 پہلے پڑھیے۔ اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

شامِ غم کی سحر نہیں ہوتی
یا ہمیں کوخبر نہیں ہوتی

شام غم کی - فاعلاتن - 2212
سحر نہی - مفاعلن - 2121
ہوتی - فعلن - 22

یا ہمی کو - فاعلاتن - 2212
خبر نہی - مفاعلن - 2121
ہوتی - فعلن - 22
-----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 23, 2012

یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے - حفیظ جالندھری

لباس ہے پھٹا ہوا، غُبار میں اٹا ہوا
تمام جسمِ نازنیں، چھدا ہوا کٹا ہوا
یہ کون ذی وقار ہے، بلا کا شہ سوار ہے
کہ ہے ہزاروں قاتلوں کے سامنے ڈٹا ہوا
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

یہ کون حق پرست ہے، مئے رضائے مست ہے
کہ جس کے سامنے کوئی بلند ہے نہ پست ہے
اُدھر ہزار گھات ہے، مگر عجیب بات ہے
کہ ایک سے ہزار کا بھی حوصلہ شکست ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

یہ جسکی ایک ضرب سے، کمالِ فنّ ِ حرب سے
کئی شقی گرئے ہوئے تڑپ رہے ہیں کرب سے
غضب ہے تیغِ دوسرا کہ ایک ایک وار پر
اُٹھی صدائے الاماں زبانِ شرق وغرب سے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

عبا بھی تار تار ہے، تو جسم بھی فگار ہے
زمین بھی تپی ہوئی  فلک بھی شعلہ بار ہے
مگر یہ مردِ تیغ زن، یہ صف شکن فلک فگن
کمالِ صبر و تن دہی سے محوِ کارزار ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے
Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, Urdu Poetry, Urdu Shairi, اردو شاعری، علم عروض، تقطیع، بحر، بحر ہزج, سلام, Salam; hafeez jalandhari، حفیظ جالندھری
Hafeez Jalandhari، حفیظ جالندھری

دلاوری میں فرد ہے، بڑا ہی شیر مرد ہے
کہ جس کے دبدبے سے رنگ دشمنوں کا زرد ہے
حبیبِ مُصطفیٰ ہے یہ، مجاہدِ خدا ہے یہ
جبھی تو اس کے سامنے، یہ فوج گرد گرد ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

اُدھر سپاہِ شام ہے، ہزار انتظام ہے
اُدھر ہیں دشمنانِ دیں، اِدھر فقط اِمام ہے
مگر عجیب شان ہے غضب کی آن بان ہے
کہ جس طرف اُٹھی ہے تیغ بس خدا کا نام ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

حفیظ جالندھری
-----

بحر - بحرِ ہزج مثمن مقبوض

افاعیل - مفاعلن مفاعلن مفاعلن مفاعلن

علامتی نظام - 2121 / 2121 / 2121 /2121
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2121 میں 1 پہلے ہے

تقطیع -

لباس ہے پھٹا ہوا، غبار میں اٹا ہوا
تمام جسمِ نازنیں، چھدا ہوا کٹا ہوا

لباس ہے - مفاعلن - 2121
پٹا ہوا - مفاعلن - 2121
غبار مے - مفاعلن - 2121
اٹا ہوا - مفاعلن - 2121

تمام جس - مفاعلن - 2121
مِ نازنی - مفاعلن - 2121
چھدا ہوا - مفاعلن - 2121
کٹا ہوا - مفاعلن - 2121

یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نورِ عین ہے

یِ بل یقی - مفاعلن - 2121
حُسین ہے - مفاعلن - 2121
نبی کَ نُو - مفاعلن - 2121
رِ عین ہے - مفاعلن - 2121
-----


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 20, 2012

قرنِ اوّل کی روایت کا نگہدار حُسین - سلام از آغا شورش کاشمیری

قرنِ اوّل کی روایت کا نگہدار حُسین
بس کہ تھا لختِ دلِ حیدرِ کرّار حُسین

عرصۂ شام میں سی پارۂ قرآنِ حکیم
وادیٔ نجد میں اسلام کی للکار حُسین

سر کٹانے چلا منشائے خداوند کے تحت
اپنے نانا کی شفاعت کا خریدار حُسین

کوئی انساں کسی انساں کا پرستار نہ ہو
اس جہاں تاب حقیقت کا علمدار حُسین

ابوسفیان کے پوتے کی جہانبانی میں
عزّتِ خواجۂ گیہاں کا نگہدار حُسین

کرۂ ارض پہ اسلام کی رحمت کا ظہور
عشق کی راہ میں تاریخ کا معمار حُسین
Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, Urdu Poetry, Urdu Shairi, اردو شاعری، علم عروض، تقطیع، بحر، بحر رمل, Agha Shorish Kashmiri, آغا شورش کاشمیری، سلام, Salam
Agha Shorish Kashmiri, آغا شورش کاشمیری

جان اسلام پہ دینے کی بنا ڈال گیا
حق کی آواز، صداقت کا طرفدار حُسین

دینِ قیّم کے شہیدوں کا امامِ برحق
حشر تک امّتِ مرحوم کا سردار حُسین

ہر زمانے کے مصائب کو ضرورت اس کی
ہر زمانے کے لیے دعوتِ ایثار حُسین

کربلا اب بھی لہو رنگ چلی آتی ہے
دورِ حاضر کے یزیدوں سے ہے دوچار حُسین

آغا شورش کاشمیری
----

قافیہ - آر یعنی ساکن الف اور رے اور الف سے پہلے زبر کی آواز جیسے نگہداد میں دار، کرّار میں رار، للکار میں کار، علمدار میں دار وغیرہ۔

ردیف - حُسین

بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)

علامتی نظام - 2212 / 2211 / 2211 / 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

قرنِ اوّل کی روایت کا نگہدار حُسین
بس کہ تھا لختِ دلِ حیدرِ کرّار حُسین

قرنِ او ول - فاعلاتن - 2212
کِ روایت - فعلاتن - 2211
کَ نگہدا - فعلاتن - 2211
ر حُسین - فَعِلان - 1211

بس کہ تھا لخ - فاعلاتن - 2212
تِ دلے حے - فعلاتن - 2211
دَرِ کر را - فعلاتن - 2211
ر حُسین - فَعِلان - 1211
-----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 17, 2012

حسین ابنِ علی کو امام جانتا ہوں - سلام از حفیظ تائب

رموزِ عشق و محبّت تمام جانتا ہوں
حسین ابنِ علی کو امام جانتا ہوں

انہی کے در کو سمجھتا ہوں محورِ مقصود
انہی کے گھر کو میں دارالسّلام جانتا ہوں

میں ان کی راہ کا ہوں ایک ذرۂ ناچیز
کہوں یہ کیسے کہ ان کا مقام جانتا ہوں

مجھے امام نے سمجھائے ہیں نکاتِ حیات
سوادِ کفر میں جینا حرام جانتا ہوں

نگاہ کیوں ہے مری ظاہری وسائل پر
جو خود کو آلِ نبی کا غلام جانتا ہوں
Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, Urdu Poetry, Urdu Shairi, اردو شاعری، علم عروض، تقطیع، بحر، بحر مجتث, Salam, Hafeez Taib, سلام، حفیظ تائب
Hafeez Taib, حفیظ تائب

میں جان و مال کو پھر کیوں عزیز رکھتا ہوں
جو خود کو پیروِ خیر الانام جانتا ہوں

شکارِ مصلحت و یاس کیوں ہو پھر تائب
جو اس کٹے ہوئے سر کا پیام جانتا ہوں
---

قافیہ - آم یعنی ساکن الف میم اور الف سے پہلے زبر کی آواز جیسے تمام میں مام، سلام میں لام، مقام میں قام، حرام میں رام وغیرہ۔

ردیف - جانتا ہوں

بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فَعِلان بھی آ سکتے ہیں۔

علامتی نظام - 2121 / 2211 / 2121 / 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 2121 پہلے ہے اور اس میں بھی 1 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)

تقطیع -

رموزِ عشق و محبت تمام جانتا ہوں
حسین ابنِ علی کو امام جانتا ہوں

رموز عش - مفاعلن - 2121
ق محبت - فعلاتن - 2211
تمام جا - مفاعلن - 2121
ن تَ ہو - فَعِلن - 211

حسین اِب - مفاعلن - 2121
نِ علی کو - فعلاتن - 2211
امام جا - مفاعلن - 2121
ن تَ ہو - فَعِلن - 211
-----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 15, 2012

متفرق فارسی اشعار - 8

مئےِ دیرینہ و معشوقِ جواں چیزے نیست
پیشِ صاحب نَظَراں حور و جَناں چیزے نیست

پرانی شراب اور جوان معشوق کوئی چیز نہیں ہے، صاحبِ نظر کے سامنے حور اور جنت کچھ بھی نہیں ہے۔

دانَشِ مغربیاں، فلسفۂ مشرقیاں
ہمہ بتخانہ و در طوفِ بتاں چیزے نیست

مغرب والوں کی (عقل و) دانش اور مشرق والوں کا فلسفہ، یہ سب بُتخانے ہیں اور بتوں کے طواف میں کچھ بھی نہیں ہے۔

(علامہ اقبال)
---

بہ سوئے کعبہ راہ بسیار است
من ز دریا روَم، تو از خشکی

(قاآنی شیرازی)

کعبہ کی طرف بہت سے راستے جاتے ہیں، میں اگر دریا کے راستے جاتا ہوں  تو تُو خشکی کے (یعنی حقیقت تک پہنچنے کے کئی ایک ذرائع ہوتے ہیں)
----

ناخدا در کشتیٔ ما گر نباشد، گو مباش
ما خدا داریم، ما را ناخدا درکار نیست

(امیر خسرو دہلوی)

اگر ہماری کشتی میں ناخدا نہیں ہے تو کہہ دو کہ کوئی ڈر، فکر نہیں کہ ہم خدا رکھتے ہیں اور ہمیں ناخدا درکار نہیں۔
------

خموش حافظ و از جورِ یار نالہ مکُن
ترا کہ گفت کہ بر روئے خوب حیراں باش

(حافظ شیرازی)

حافظ خاموش رہ اور یار کے ظلم سے نالاں نہ ہو، تجھ سے کس نے کہا تھا کہ خوبصورت چہرے پر عاشق ہو جا۔
-----

ملک الشعراء میرزا محمد تقی بہار (1884ء - 1951ء) کے والد میرزا محمد کاظم صبوری بھی ایک بلند پایہ شاعر تھے۔ بہار جب اٹھارہ سال کی عمر میں یتیم ہو گئے تو شاعری کے میدان میں انہیں جیسے آزادی مل گئی کہ انکے والد ہمیشہ شاعری کے معاملے میں انکی حوصلہ شکنی کیا کرتے تھے۔ بہار نے اتنی مہارت سے شعر کہنے شروع کیے کہ خراسان کے علماء و فضلاء نے یقین نہ کیا کہ یہ انکے شعر ہیں بلکہ سمجھا کہ بہار اپنے والد کے اشعار اپنے نام سے پیش کرتے ہیں۔ اس تاثر کو غلط ثابت کرنے کیلیے بہار نے فی البدیہہ مشاعروں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔
Mohammad Taqi Bahar, Mohammad Taghi Bahar, Persian poetry with urdu translation, farsi poetry with urdu translation, فارسی شاعری مع اردو ترجمہ، فارسی شاعری بمع اردو ترجمہ، فارسی شاعری اردو ترجمے کے ساتھ
Mohammad Taqi Bahar, ملک الشعرا محمد تقی بہار

اسی طرح کے ایک مشاعرے میں بہار کی قابلیت جانچنے کیلیے اساتذہ نے انہیں چار لفظ 'تسبیح، چراغ، نمک اور چنار' دیکر کہا کہ رباعی کے وزن پر چار مصرعے کہو اور ان میں یہ الفاظ استعمال کرو، بہار نے چند لمحوں میں یہ رباعی پیش کر دی:

با خرقہ و تسبیح مرا دید چو یار
گفتا ز چراغِ زہد نایَد انوار
کس شہد نہ دیدہ است در کانِ نمک
کس میوہ نچیدہ است از شاخِ چنار

جب میرے یار نے مجھے خرقہ و تسبیح کے ساتھ دیکھا تو کہا کہ (یہ کیا کر رہا ہے) زہد کے چراغ سے انوار نہیں نکلتے، کیونکہ کبھی کسی نے نمک کی کان میں شہد نہیں دیکھا  اور کسی نے چنار کی شاخ سے پھل نہیں حاصل کیا۔
------

تا چشمِ تو ریخت خونِ عشّاق
زلفِ تو گرفت رنگِ ماتم

(خاقانی شروانی)

چونکہ تیری آنکھوں نے عشاق کا خون بہایا ہے (اسلیے) تیری زلفوں نے رنگِ ماتم پکڑا ہوا ہے (وہ سیاہ رنگ کی ہیں)۔

حسنِ تعلیل کی ایک خوبصورت مثال، بالوں کا سیاہ ہونا بالوں کی ایک صفت ہے لیکن شاعر نے اس کو معطل کر کے اسکی وجہ کچھ اور ہی بتائی ہے اور کیا خوبصورت وجہ بتائی ہے
-----

عمریست دل بَغَفلتِ خود گریہ می کُنَد
ایں نامۂ سیہ چہ قدَر ابرِ رحمت است

(ابوالمعانی مرزا عبدالقادر بیدل عظیم آبادی)

تمام عمر، میرا دل اپنی غفلت پر آنسو بہاتا رہا، یہ میرا سیاہ اعمال نامہ کس قدر ابرِ رحمت (کی مانند) ہے۔
--------


مزید پڑھیے۔۔۔۔