May 30, 2008

خوشامد از سر سید احمد خان

دل کی جس قدر بیماریاں ہیں ان میں سب سے زیادہ مہلک خوشامد کا اچھا لگنا ہے۔ جس وقت کہ انسان کے بدن میں یہ مادہ پیدا ہو جاتا ہے جو وبائی ہوا کے اثر کو جلد قبول کر لیتا ہے تو اسی وقت انسان مرضِ مہلک میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جبکہ خوشامد کے اچھا لگنے کی بیماری انسان کو لگ جاتی ہے تو اس کے دل میں ایک ایسا مادہ پیدا ہو جاتا ہے جو ہمیشہ زہریلی باتوں کے زہر کو چوس لینے کی خواہش رکھتا ہے، جسطرح کہ خوش گلو گانے والے کا راگ اور خوش آیند باجے والے کی آواز انسان کے دل کو نرم کر دیتی ہے اسی طرح خوشامد بھی انسان کے دل کو ایسا پگھلا دیتی ہے کہ ایک کانٹے کے چبھنے کی جگہ اس میں ہو جاتی ہے۔ اول اول یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنی خوشامد کرتے ہیں اور اپنی ہر ایک چیز کو اچھا سمجھتے ہیں اور آپ ہی آپ اپنی خوشامد کر کے اپنے دل کو خوش کرتے ہیں پھر رفتہ رفتہ اوروں کی خوشامد ہم میں اثر کرنے لگتی ہے۔ اسکا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اول تو خود ہم کو اپنی محبت پیدا ہوتی ہے پھر یہی محبت ہم سے باغی ہو جاتی ہے اور ہمارے بیرونی دشمنوں سے جا ملتی ہے اور جو محبت و مہربانی ہم خود اپنے ساتھ کرتے ہیں وہ ہم خوشامدیوں کے ساتھ کرنے لگتے ہیں اور وہی ہماری محبت ہم کو یہ بتلاتی ہے کہ ان خوشامدیوں پر مہربانی کرنا نہایت حق اور انصاف ہے جو ہماری باتوں کو ایسا سمجھتے ہیں اور انکی ایسی قدر کرتے ہیں جبکہ ہمارا دل ایسا نرم ہو جاتا ہے اور اسی قسم کے پھسلاوے اور فریب میں آ جاتا ہے تو ہماری عقل خوشامدیوں کے عقل و فریب سے اندھی ہو جاتی ہے اور وہ مکر و فریب ہماری طبیعت پر بالکل غالب آ جاتا ہے۔ لیکن اگر ہر شخص کو یہ بات معلوم ہو جاوے کہ خوشامد کا شوق کیسے نالائق اور کمینے سببوں سے پیدا ہوتا ہے تو یقینی خوشامد کی خواہش کرنے والا شخص بھی ویسا ہی نالائق اور کمینہ متصور ہونے لگے گا۔ جبکہ ہم کو کسی ایسے وصف کا شوق پیدا ہوتا ہے جو ہم میں نہیں ہے یا ہم ایسا بننا چاہتے ہیں جیسے کہ در حقیقت ہم نہیں ہیں، تب ہم اپنے تئیں خوشامدیوں کے حوالے کرتے ہیں جو اوروں کے اوصاف اور اوروں کی خوبیاں ہم میں لگانے لگتے ہیں۔ گو بسبب اس کمینہ شوق کے اس خوشامدی کی باتیں اچھی لگتی ہوں مگر در حقیقت وہ ہم کو ایسی ہی بد زیب ہیں جیسے کہ دوسرں کہ کپڑے جو ہمارے بدن پر کسی طرح ٹھیک نہیں (اس بات سے ہم اپنی حقیقت کو چھوڑ کر دوسرے کے اوصاف اپنے میں سمجھنے لگیں، یہ بات کہیں عمدہ ہے کہ ہم اپنی حقیقت کو درست کریں اور سچ مچ وہ اوصاف خود اپنے میں پیدا کریں، اور بعوض جھوٹی نقل بننے کے خود ایک اچھی اصل ہو جاویں) کیونکہ ہر قسم کی طبیعتیں جو انسان رکھتے ہیں اپنے اپنے موقع پر مفید ہو سکتی ہیں۔ ایک تیز مزاج اور چست چالاک آدمی اپنے موقع پر ایسا ہی مفید ہوتا ہے جیسے کہ ایک رونی صورت کا چپ چاپ آدمی اپنے موقع پر۔
سر سّد احمد خان، Sir Syyed Ahmed Khan, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
سر سّد احمد خان، Sir Syyed Ahmed Khan
خودی جو انسان کو برباد کرنے کی چیز ہے جب چپ چاپ سوئی ہوئی ہوتی ہے تو خوشامد اس کو جگاتی اور ابھارتی ہے اور جس چیز کی خوشامد کی جاتی ہے اس میں چھچھورے پن کی کافی لیاقت پیدا کر دیتی ہے، مگر یہ بات بخوبی یاد رکھنی چاہیئے کہ جسطرح خوشامد ایک بد تر چیز ہے اسی طرح مناسب اور سچی تعریف کرنا نہایت عمدہ اور بہت ہی خوب چیز ہے۔ جسطرح کے لائق شاعر دوسروں کی تعریف کرتے ہیں کہ ان اشعار سے ان لوگوں کا نام باقی رہتا ہے جنکی وہ تعریف کرتے ہیں اور شاعری کی خوبی سے خود ان شاعروں کا نام بھی دنیا میں باقی رہتا ہے۔ دونوں شخص ہوتے ہیں، ایک اپنی لیاقت کے سبب سے اور دوسرا اس لیاقت کو تمیز کرنے کے سبب سے۔ مگر لیاقت شاعری کی یہ ہے کہ وہ نہایت بڑے استاد مصور کی مانند ہو کہ وہ اصل صورت اور رنگ اور خال و خط کو بھی قائم رکھتا ہے اور پھر بھی تصویر ایسی بناتا ہے کہ خوش نما معلوم ہو۔ ایشیا کے شاعروں میں ایک بڑا نقص یہی ہے کہ وہ اس بات کا خیال نہیں رکھتے بلکہ جسکی تعریف کرتے ہیں اسکے اوصاف ایسے جھوٹے اور نا ممکن بیان کرتے ہیں جن کہ سبب سے وہ تعریف، تعریف نہیں رہتی بلکہ فرضی خیالات ہو جاتے ہیں۔ ناموری کی مثال نہایت عمدہ خوشبو کی ہے، جب ہوشیاری اور سچائی سے ہماری واجب تعریف ہوتی ہے تو اسکا ویسا ہی اثر ہوتا ہے جیسے عمدہ خوشبو کا مگر جب کسی کمزور دماغ میں زبردستی سے وہ خوشبو ٹھونس دی جاتی ہے تو ایک تیز بو کی مانند دماغ کو پریشان کر دیتی ہے۔ فیاض آدمی کو بد نامی اور نیک نامی کا زیادہ خیال ہوتا ہے اور عالی ہمت طبیعت کو مناسب عزت اور تعریف سے ایسی ہی تقویت ہوتی ہے جیسے کہ غفلت اور حقارت سے پست ہمتی ہوتی ہے۔ جو لوگ کہ عوام کے درجہ سے اوپر ہیں انہیں لوگوں پر اسکا زیادہ اثر ہوتا ہے جیسے کہ تھرما میٹر میں وہی حصہ موسم کا زیادہ اثر قبول کرتا ہے جو صاف اور سب سے اوپر ہوتا ہے۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 28, 2008

غالب کی ایک خوبصورت فارسی غزل مع منظوم تراجم - ز من گَرَت نہ بُوَد باور انتظار بیا

غالب کی مندرجہ ذیل غزل صوفی تبسم کے پنجابی ترجمے اور غلام علی کی گائیکی کی وجہ سے شہرہ آفاق مقبولیت حاصل کر چکی ہے اور میری بھی پسندیدہ ترین غزلوں میں سے ہے۔

شعرِ غالب
ز من گَرَت نہ بُوَد باور انتظار بیا
بہانہ جوئے مباش و ستیزہ کار بیا

اردو ترجمہ خواجہ حمید یزدانی
میں تیرے انتظار میں ہوں، اگر تجھے اس کا یقین نہیں ہے تو آ اور دیکھ لے۔ اس ضمن میں بہانے مت تلاش کر، بے شک لڑنے جھگڑنے کا طور اپنا کر آ۔

منظوم ترجمہ پنجابی صوفی تبسم
میرے شوق دا نیں اعتبار تینوں، آ جا ویکھ میرا انتظار آ جا
اینویں لڑن بہانڑے لبھنا ایں، کی تو سوچنا ایں سِتمگار آ جا

منظوم اردو ترجمہ صوفی تبسم
دکھا نہ اتنا خدا را تو انتظار آ جا
نہ ہو ملاپ تو لڑنے کو ایک بار آ جا

منظوم ترجمہ چوہدری نبی احمد باجوہ
نہیں جو مانتے تم میرا انتظار آؤ
بہانہ جو نہ بنو، ہاں ستیزہ کار آؤ


منظوم ترجمہ اردو افتخار احمد عدنی
تجھے ہے وہم، نہیں مجھ کو انتظار آجا
بہانہ چھوڑ، مری جاں ستیزہ کار آجا


انگلش ترجمہ پروفیسر رالف رسل
You cannot think my life is spent in waiting? Well then, come
Seek no excuses; arm yourself for battle and then come
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, مرزا غالب, Mirza Ghalib
مرزا غالب, Mirza Ghalib
شعرِ غالب
بہ یک دو شیوہ ستم دل نمی شوَد خرسند
بہ مرگِ من، کہ بہ سامانِ روزگار بیا


یزدانی
میرا دل تیرے دو ایک اندازِ ستم سے خوش نہیں ہوتا، تجھے میری موت کی قسم تو اس سلسلے میں زمانے بھر کا سامان لے کر آ۔


باجوہ
ستم کی اک دو ادا سے نہیں یہ دل خورسند
بلا ہو، موت ہو، آشوبِ روزگار آؤ


عدنی
جفا میں بخل نہ کر، میرے دل کی وسعت دیکھ
ستم کی فوج لیے مثلِ روز گار آجا


رسل
These meager modes of cruelty bring me no joy. By God
Bring all the age’s armoury to use on me, and come


شعرِ غالب
بہانہ جوست در الزامِ مدّعی شوقَت
یکے بَرَغمِ دلِ نا امیدوار بیا


یزدانی
ہمارا دل تیرے عشق میں رقیب پر الزام دھرنے کے بہانے سوچتا رہتا ہے یعنی یہ کہ رقیب تجھے ہماری طرف نہیں آنے دیتا، تو کبھی یا ذرا ہمارے اس نا امید دل کی اس سوچ کے برعکس آ۔


باجوہ
تمھارے شوق کو الزامِ مدعی کا ہےعذر
کبھی بَرَغمِ دلِ نا امیدوار آؤ


شعرِ غالب
ہلاکِ شیوۂ تمکیں مخواہ مستاں را
عناں گسستہ تر از بادِ نو بہار بیا


یزدانی
تو اپنے مستوں یعنی عاشقوں کیلیے یہ مت چاہ یا پسند کر کے وہ تیرے شیوہء تمکیں (دبدبہء غرورِ حسن) کے نتیجے میں‌ ہلاک ہو جائیں، تو نو بہار کی ہوا سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ آ۔


باجوہ
ہلاکِ شیوۂ تمکیں نہ کیجیے مستوں کو
عناں گسستہ مرے ابرِ نو بہار آؤ


عدنی
ہلاک شیوۂ تمکیں سے کر نہ مستوں کو
حجاب چھوڑ کر اے بادِ نو بہار آجا


Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Sufi Ghulam Mustafa Tabassum, صوفی غلام مصطفی تبسم
صوفی غلام مصطفیٰ تبسم, Sufi Tabassum
رسل
Why seek to slay your lovers by your awesome majesty
Be even more unbridled than the breeze of spring, and come


شعرِ غالب
ز ما گسستی و با دیگراں گرو بستی
بیا کہ عہدِ وفا نیست استوار بیا


یزدانی
تو نے ہم سے تو پیمانِ وفا توڑ لیا اور دوسروں یعنی رقیبوں کے ساتھ یہ عہد باندھ لیا۔ آ، تو ہماری طرف آ کیونکہ عہدِ وفا کوئی محکم عہد نہیں‌ ہے۔


باجوہ
جو ہم سے کٹ کے بندھا غیر سے ہے عہد نیا
جہاں میں عہدِ وفا کب ہے استوار آؤ


عدنی
جو تو نے غیر سے باندھا اسے بھی توڑ صنم
ہوا ہے عہدِ وفا کب سے استوار آ جا


رسل
You broke with me, and now you pledge yourself to other men
But come, the pledge of loyalty is never kept. So come


شعرِ غالب
وداع و وصل جداگانہ لذّتے دارَد
ہزار بار بَرَو، صد ہزار بار بیا


یزدانی
فراق اور وصل دونوں میں اپنی اپنی ایک لذت ہے، تو ہزار بار جا اور لاکھ بار آ۔


تبسم پنجابی
بھانویں ہجر تے بھانویں وصال ہووئے ،وکھو وکھ دوہاں دیاں لذتاں نے
میرے سوہنیا جا ہزار واری ،آ جا پیاریا تے لکھ وار آجا


تبسم اردو
وداع و وصل میں ہیں لذّتیں جداگانہ
ہزار بار تو جا، صد ہزار بار آ جا


باجوہ
جدا جدا ہے وداع اور وصل کی لذّت
ہزار بار اگر جاؤ، لاکھ بار آؤ


عدنی
وداع و وصل ہیں دونوں کی لذّتیں اپنی
ہزار بار جدا ہو کے لاکھ بار آجا


Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, افتخار احمد عدنی, Iftikhar Ahmed Adani
افتخار احمد عدنی, Iftikhar Ahmed Adani
رسل
Parting and meeting - each of them has its distinctive joy
Leave me a hundred times; turn back a thousand times, and come


شعرِ غالب
تو طفل سادہ دل و ہمنشیں بد آموزست
جنازہ گر نہ تواں دید بر مزار بیا


یزدانی
تو ایک بھولے بھالے بچے کی طرح ہے اور رقیب تجھے الٹی سیدھی پٹیاں پڑھا رہا ہے، سو اگر تو ہمارا جنازہ نہیں دیکھ سکا تو کم از کم ہمارے مزار پر ہی آ جا۔


تبسم پنجابی
تُو سادہ تے تیرا دل سادہ ،تینوں ایویں رقیب کُراہ پایا
جے تو میرے جنازے تے نیں آیا، راہ تکدا اے تیری مزار آ جا


تبسم اردو
تو سادہ دل ہے بہت اور رقیب بد آموز
نہ وقتِ مرگ گر آیا، سرِ مزار آ جا


باجوہ
ہو تم تو سادہ مگر ہمنشیں ہے بد آموز
جنازہ مل نہ سکے گا، سرِ مزار آؤ


شعرِ غالب
فریب خوردۂ نازَم، چہا نمی خواہَم
یکے بہ پُرسَشِ جانِ امیدوار بیا


یزدانی
میں ناز و ادا کا فریب خوردہ یعنی مارا ہوا ہوں، میں‌ کیا کیا نہیں چاہتا، یعنی میری بہت سی آرزوئیں ہیں، تو ہماری امیدوار جان کا حال احوال تو پوچھنے آ۔


باجوہ
فریب خوردہ ہوں میں ناز کا اسے چھوڑو
برائے پرسشِ جانِ امیدوار آؤ


شعرِ غالب
ز خوئے تُست نہادِ شکیب نازک تر
بیا کہ دست و دِلَم می رَوَد ز کار بیا


یزدانی
تیری نزاکت طبع کے ہاتھوں ہمارے صبر کی بنیاد بہت ہی نازک ہوگئی ہے، تو آ کہ تیرے اس رویے کے باعث میرا دست و دل بیکار ہو کر رہ گئے ہیں۔


باجوہ
تمھاری خو سے سرشتِ شکیب نازک ہے
چلا میں، صبر کا دامن ہے تار تار آؤ


شعرِ غالب
رواجِ صومعہ ہستیست، زینہار مَرَو
متاعِ میکدہ مستیست، ہوشیار بیا


یزدانی
خانقاہوں میں غرور و تکبر کا رواج ہے، دیکھیو ادھر مت جائیو، جبکہ میکدہ کی دولت و سرمایہ مستی ہے، وہاں ذرا چوکنا ہو کر آجا۔


تبسم پنجابی
ایہہ رواج اے مسجداں مندراں دا ،اوتھے ہستیاں تے خود پرستیاں نے
میخانے وِچ مستیاں ای مستیاں نے ،ہوش کر، بن کے ہوشیار آ جا


تبسم اردو
رواجِ صومعہ ہستی ہے واں نہ جا ہر گز
متاعِ میکدہ مستی ہے بے شمار آ جا


باجوہ
رواجِ صومعہ ہستی ہے مت ادھر جاؤ
متاعِ میکدہ مستی ہے، ہوشیار آؤ


عدنی
رواجِ صومعہ، ہستی ہے، اس طرف مت جا
متاعِ میکدہ مستی ہے، ہوشیار آجا


Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Ralph Russell, رالف رسل
رالف رسل, Ralph Russell
رسل
The mosque is all awareness. Mind you never go that way
The tavern is all ecstasy. So be aware, and come


شعر غالب
حصار عافیَتے گر ہوس کُنی غالب
چو ما بہ حلقۂ رندانِ خاکسار بیا


یزدانی
اے غالب اگر تجھے کسی عافیت کے قلعے کی خواہش ہے تو ہماری طرح رندانِ خاکسار کے حلقہ میں آ جا۔


تبسم پنجابی
سُکھیں وسنا جے تُوں چاہونا ایں میرے غالبا ایس جہان اندر
آجا رنداں دی بزم وِچ آ بہہ جا، ایتھے بیٹھ دے نے خاکسار آ جا


تبسم اردو
حصارِ امن اگر چاہیے تجھے غالب
درونِ حلقۂ رندانِ خاکسار آ جا


باجوہ
حصار امن کی خواہش ہے گر تمھیں غالب
اِدھر ہے حلقۂ رندانِ خاکسار آؤ


عدنی
حصارِ امن کی خواہش ہے گر تجھے غالب
میانِ حلقۂ رندانِ خاکسار آجا


رسل
If you desire a refuge, Ghalib, there to dwell secure
Find it within the circle of us reckless ones, and come
——–


بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع


افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
(آخری رکن فعلن میں فعلان، فَعِلُن اور فعِلان بھی آ سکتے ہیں)


اشاری نظام - 2121 2211 2121 22
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)


تقطیع -
ز من گرت نہ بود باور انتظار بیا
بہانہ جوئے مباش و ستیزہ کار بیا


ز من گَرَت - مفاعلن - 2121
نہ بوَد با - فعلاتن - 2211
وَ رنتظا - مفاعلن - 2121 (الف وصل استعمال ہوا ہے)
ر بیا - فَعِلن - 211


بہانَ جو - مفاعلن - 2121
ء مبا شو - فعلاتن - 2211
ستیزَ کا - مفاعلن - 2121
ر بیا - فَعِلن - 211

----


اور یہ غزل غلام علی کی آواز میں






مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 26, 2008

امیر خسرو کی ایک غزل - ابر می بارَد و من می شَوَم از یار جدا

شعرِ خسرو
ابر می بارَد و من می شَوَم از یار جدا
چوں کنَم دل بہ چنیں روز ز دلدار جدا
ترجمہ
برسات کا موسم ہے اور میں اپنے دوست سے جدا ہو رہا ہوں، ایسے (شاندار) دن میں، میں کسطرح اپنے دل کو دلدار سے جدا کروں۔
منظوم ترجمہ مسعود قریشی
ابر روتا ہے، ہُوا مجھ سے مرا یار جدا
دل سے ایسے میں کروں کیسے مَیں دلدار جدا
شعرِ خسرو
ابر باران و من و یار ستادہ بوداع
من جدا گریہ کناں، ابر جدا، یار جدا
ترجمہ
برسات جاری ہے، میں اور میرا یار جدا ہونے کو کھڑے ہیں، میں علیحدہ گریہ و فریاد کر رہا ہوں، باراں علیحدہ برس رہی ہے، اور یار علیحدہ رو رہا ہے۔
قریشی
ابر برسے ہے، جدائی کی گھڑی ہے سر پر
میں جدا روتا ہوں اور ابر جدا، یار جدا
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Mazar Amir Khusro, مزار امیر خسرو
مزار خسرو رح، دہلی انڈیا, Mazar Amir Khusro
شعرِ خسرو
سبزہ نوخیز و ہوا خرم و بستان سرسبز
بلبلِ روئے سیہ ماندہ ز گلزار جدا
ترجمہ
تازہ تازہ اگا ہوا سبزہ اور دل خوش کرنے والی ہوا اور سرسبز باغ ہے، اور ایسے میں سیاہ چہرے والی بد قسمت بلبل گلزار سے جدا ہونے کو ہے
قریشی
سبزہ نوخیز، ہوا شاد، گلستاں سرسبز
کیا قیامت ہے کہ بلبل سے ہے گلزار جدا
شعرِ خسرو
اے مرا در تہ ہر موی بہ زلفت بندے
چہ کنی بند ز بندم ہمہ یکبار جدا
ترجمہ
اے میرے محبوب تو نے مجھکو اپنی زلف کے ہر بال کی تہ کے نیچے باندھ لیا ہے، تو کیا باندھے گا جب تو مجھے یکبار ہی اس بند سے جدا کردے گا۔
شعرِ خسرو
دیدہ از بہر تو خونبار شد، اے مردم چشم
مردمی کن، مشو از دیدہء خونبار جدا
ترجمہ
اے آنکھ، میری آنکھ کی پتلی تیرے لیے پہلے ہی خونبار ہو گئی ہے، مہربانی کر اب تو ان خون بہانے والی آنکھوں سے جدا نہ ہونا۔
شعرِ خسرو
نعمتِ دیدہ نخواہم کہ بماند پس ازیں
ماندہ چون دیدہ ازان نعمتِ دیدار جدا
ترجمہ
میں نہیں چاہتا کہ اس کے بعد میری آنکھوں کی نعمت دیدار کی نعمت سے جدا رہے۔
قریشی
نعمتِ چشم ہے میرے لئے سامانِ عذاب
گر مری آنکھ سے ہو نعمتِ دیدار جدا
شعرِ خسرو
حسنِ تو دیر نپاید چو ز خسرو رفتی
گل بسے دیر نماند چو شد از خار جدا
ترجمہ
اے محبوب تیرا حسن زیادہ دیر تک قائم نہیں رہے گا، جب تو خسرو کے پاس سے چلا گیا کہ جب کوئی پھول کانٹے سے دور ہو جاتا ہے تو وہ زیادہ دیر تک نہیں رہتا۔
قریشی
ہو کے خسرو سے جدا، حسن رہے گا نہ ترا
کب بقا پھول کو ہے، اس سے ہو جب خار جدا
——–
بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)
اشاری نظام - 2212 2211 2211 22
(پہلے 2212 کی 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)۔
تقطیع -
ابر می بارَد و من می شَوَم از یار جدا
چوں کنَم دل بہ چنیں روز ز دلدار جدا
ابر می با - فاعلاتن - 2212
رَ دَ من می - فعلاتن - 2211
شَ وَ مز یا - فعلاتن - 2211 (الف وصل استعمال ہوا ہے)
ر جدا - فَعِلن - 211
چو کنم دل - فاعلاتن - 2212
بَ چنی رو - فعلاتن - 2211
ز ز دلدا - فعلاتن - 2211
ر جدا - فَعِلن - 211
مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 23, 2008

پاکستان سپیکٹیٹر پر میرا انٹرویو

دی پاکستان سپیکٹیٹر کی محترمہ غزالہ خان نے کچھ دن پہلے یہاں میرے انٹرویو کی بات کی تھی، میں نے انہیں لکھا کہ میں تو بلاگنگ کی دنیا میں بالکل نووارد ہوں اور ابھی چند دن ہی ہوئے ہیں بلاگ لکھتے ہوئے، اسلیئے ایک دفعہ پھر دیکھ لیجیئے کہ میں انٹرویو کے قابل ہوں بھی یا نہیں۔
بہرحال انہوں نے سوالات مجھے بھیج دیئے جن کے جواب میں نے بھی لکھ بھیجے، اور کل یہ انٹرویو چھپ گیا، جسے اس ربط پر پڑھا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 21, 2008

پنجابی غزل طارق عزیز - گناہ کیہ اے، ثواب کیہ اے

گناہ کیہ اے، ثواب کیہ اے
ایہہ فیصلے دا عذاب کیہ اے

میں سوچناں واں چونہوں دِناں لئی
ایہہ خواہشاں دا حباب کیہ اے

جے حرف اوکھے میں پڑھ نئیں سکدا
تے فیر جگ دی کتاب کیہ اے
Tariq Aziz, طارق عزیز، Punjabi Poetry, پنجابی شاعری
Tariq Aziz, طارق عزیز
ایہہ سارے دھوکے یقین دے نے
نئیں تے شاخ گلاب کیہ اے

ایہہ ساری بستی عذاب وچ اے
تے حکم عالی جناب کیہ اے

(طارق عزیز ۔ ہمزاد دا دُکھ)
مزید پڑھیے۔۔۔۔

مختصر نظماں - منیر نیازی

اِک موقعے تےایڈیاں دَردی اکھاں دے وچ
ہنجو بھرن نہ دیواں
وَس چلے تے ایس جہان وچ
کسے نوں مرن نہ دیواں

ہوا نال ٹکراںاُپر قہر خدا میرے دا
ہیٹھاں لکھ بلاواں
سب راہواں تے موت کھلوتی
کیہڑے پاسے جاواں
Munir Niazi, منیر نیازی, Punjab Poetry, پنجابی شاعری
Munir Niazi, منیر نیازی

اک کُڑی
پیار کرن توں کافی پہلے
کنی سوہنی لگدی سی
اپنے مرن توں کافی پہلے
کنی سوہنی لگدی سی

شہر دے مکاناپنے ای ڈر توں
جُڑے ہوئے نیں
اک دوجے دے نال
مزید پڑھیے۔۔۔۔

چار چپ چیزاں - منیر نیازی

بربر، جنگل، دشت، سمندر، سوچاں دے پہاڑ
جیہڑے شہر دے کول ایہہ ہوون اوس نوں دین وگاڑ
اندروں پاگل کر دیندی اے، ایہناں دی گرم ہواڑ
ایہناں دے نیڑے رہن لئی، بڑی ہمت اے درکار
ایناں دی چُپ دی ہیبت دا کوئی جھل نہ سکدا بھار
Munir Niazi, منیر نیازی, Punjabi Poetry, پنجابی شاعری
Munir Niazi, منیر نیازی


مزید پڑھیے۔۔۔۔

شعر منیر نیازی

بدل اُڈے تے گم اسمان دسیا
پانی اتریا تے اَپنا مکان دسیا
Munir Niazi, منیر نیازی
Munir Niazi, منیر نیازی
اوتھوں اگے فراق دیاں منزلاں سَن
جتھے پہنچ کے تیرا نشان دسیا

کم اوہو منیر سی مشکلاں دا
جہیڑا شروع وچ بہت اسان دسیا
مزید پڑھیے۔۔۔۔

پنجابی غزل واصف علی واصف - ایہہ بن سَن موتی انمول

ایہہ بن سَن موتی انمول
ہنجو سانبھ کے رکھنا کول

شہر دے بُوے کُھل جاون گے
پہلے دِل دا بُوا کھول

جس دے ناں دی ڈھولک وجدی
اوسے یار نوں کہندے ڈھول

جو کِیتا تُوں چنگا کِیتا
دَبّی رہن دے، اَگ نہ پھول
Wasif Ali Wasif, واصف علی واصف
Wasif Ali Wasif, واصف علی واصف

میرے ورگا مل جاوے گا
پہلے اپنے ورگا ٹول

سونے ورگی اے جوانی
اینویں نہ مٹی وِچ رول

اج تے پتھّر وی پُچھدا اے
کیہہ چاہناں ایں واصف بول

(واصف علی واصف - بھرے بھڑولے)
مزید پڑھیے۔۔۔۔

میں اور عمران سیریز کے ناول

“اوئے الو کے پٹھے” ۔۔۔ والد صاحب نے دھاڑتے ہوئے مجھے پکارا۔
“جی، جی۔۔۔۔۔ ابو جی۔۔۔۔۔۔” میں نے کہنے کی کوشش کی، مگر جیسے میری آواز میرے اندر ہی کہیں مر چکی تھی۔
“اوئے تو پھر یہ گھٹیا ناول پڑھ رہا ہے، خبیث۔۔۔۔”
ہوا کچھ یوں تھا، کہ اللہ جنت نصیب کرے، والد صاحب مرحوم نے محلے کی ساتھ والی گلی میں ایک گھر کے باہر بیٹھے ہوئے مجھے عمران سیریز کا ناول پڑھتے ہوئے پکڑ لیا تھا۔
اس سے پہلے والد صاحب، گھر میں مجھے کئی بار منع کرچکے تھے بلکہ پٹائی ہوتے ہوتے بچی تھی، اسکا حل میں نے یہ ڈھونڈا ہوا تھا کہ محلے کی ایک ایسی گلی میں کسی کے گھر کے باہر بیٹھ کر میں ناول پڑھا کرتا تھا جسکے بارے میں مجھے پورا یقین تھا کہ والد صاحب ادھر نہیں آئیں گے، لیکن اس دن میری قسمت خراب تھی کہ چھاپہ پڑگیا۔
والد صاحب کے صبر کی یہ شاید آخری حد تھی، انہوں نے آؤ، دیکھا نہ تاؤ، زناٹے کا ایک تھپڑ میرے گال پر جڑ دیا، مجھے بازو سے پکڑا اور سیدھے اس دکاندار کے پاس لے گئے جس سے میں عمران سیریز کے ناول کرائے پر لیکر پڑھا کرتا تھا۔ وہ دکاندار والد صاحب کا شناسا تھا اس نے فوری حامی بھر لی کے آئندہ سے مجھے ناول نہیں دے گا۔
یوں تو جنوں، پریوں، عمرو عیار اور کسی حد تک اشفاق کی انسپکڑ سیریز میں بڑے شوق سے پڑھا کرتا تھا لیکن جب سے عمران سیریز میرے ہاتھ لگی تھی، میرا اوڑھنا، بچھونا یہی ناول تھے، اور تو اور میں کرکٹ کھیلنا بھی بھول چکا تھا۔
ہمارے محلے میں ایک دودھ، دہی اور چائے والے کی دکان تھی، وہ کئی بھائی تھے اور سبھی ناولوں اور جاسوسی ڈائجسٹوں کے رسیا تھے، اول اول تو ڈائجسٹوں کی طرف میں نے دھیان نہیں کیا لیکن ایک دن میں نے ایک سائیڈ پر پڑا ناول اٹھالیا۔ ایسے ہی ورق گردانی کرتے ہوئے مجھے وہ بہت اچھا لگا، پہلے تھوڑا سا پڑا، اور اگلے دن اس سے مانگ کر پورا پڑھ ڈالا۔ وہ مظہر کلیم کا کوئی ناول تھا۔ اب میری روٹین بن گئی تھی کہ میں اس دکان پر جاتا اور انکے نئے ناول لانے کا انتظار کرتا، وہ سارے بھائی باری باری اسے پڑھتے اسلئے مجھے کافی انتظار کرنا پڑتا تھا، لیکن جس کہانی کے دو حصے ہوتے تھے اس میں میری “موجیں” ہوجاتی تھیں جتنی دیر میں وہ پہلا حصہ پڑھتے میں دوسرا حصہ ختم کرچکا ہوتا اور پہلا حصہ بعد میں پڑھتا۔
شوق بڑھا اور میں نے کتابیں کرایے پر دینے والی دکان تک رسائی حاصل کرلی، والد صاحب نے گھر میں جب میرے ہاتھ میں ناول دیکھا تو آگ بگولہ ہوگئے، دراصل سرورق پر بنی ہوئی خوبصورت اور سٹائلش لڑکیوں کی تصویریں انہیں کھل گئی تھیں، انہوں نے مری والدہ سے کہا کہ یہ بیہودہ اور فخش ناول پڑھنے لگ گیا ہے اس پر نظر رکھو۔ کھلے بندھوں ناول پڑھنے بند ہوئے تو میں نے، چھپ چھپ کر ناول پڑھنے شروع کردیے، کبھی چھت پھر، کبھی اس وقت جب دوپہر کو سب سوئے ہوتے تھے، رات کی تنہائی میں اسکول کے کام کا بہانہ کرکے اور دیر تک جاگ کر۔
لیکن بھلا عشق و مشک بھی چھپتی ہے، والدہ ہر بار کبھی بستر کی چادر کے نیچے سے، کبھی اسکول کی کتابوں کے ڈھیر سے ناول برآمد کرہی لیتی تھیں۔ کچھ عرصہ، تو میری منت سماجت پر انہوں نے والد صاحب کو کچھ نہ بتایا۔ لیکن کب تلک بھلا، وہ خود متفکر تھیں جب انہوں نے دیکھا کہ یہ باز نہیں آرہا تو بتادیا۔
اب گھر میں میرے لیے ناول پڑھنے ناممکن ہوچکے تھے، اس کا حل یہ ڈھونڈا کہ محلے کی گلیوں میں بیٹھ کر پڑھنا شروع کردیا، وہاں سے تھپڑ کھا کر اٹھا تو ذہن نے ایک اور حل سوچا۔
میں گھر میں امی سے کہہ کر جاتا کہ کرکٹ کھیلنے جا رہا ہوں، اور سیدھا پہنچ جاتا ساتھ والے محلے کی ایک دکان پر۔ اسے میں نے کہا کہ مجھے یہاں بیٹھ کر پڑھنے دو تمھارا کیا جائے گا، الٹا چوبیس گھنٹے کی بجائے ناول فورا مل جایا کرے گا، وہ مان گیا اور مجھے یوں لگا کہ مجھے جنت مل گئی ہو، میں وہاں گھنٹوں بیٹھ کر ناول پر ناول پڑھتا ہی چلا جاتا، اسکی دکان میں مظہر کلیم کے جتنے ناول تھے شاید میں نے سارے پڑھ ڈالے تھے۔ مسلسل پڑھنے سے میری آنکھیں سرخ ہوجاتی تھیں اور ان میں سے پانی بہنا شروع ہوجاتا تھا لیکن میں تھا کہ بس مخمور تھا۔ اسکا ایک ضمنی فائدہ یہ ہوا، کہ میری پڑھنے کی رفتار کافی بڑھ گئی تھی، کیونکہ ایک فکر یہ بھی ہوتی تھی کہ گھر واپس جانا ہے اور ناول بھی ختم کرنا ہے۔
ایک وقت آیا کہ میں کالج پہنچ گیا، اب والد صاحب کی سختی بھی کچھ کم ہوچکی تھی اور میری آزادی بھی بڑھ چکی تھی سو کھلے بندھوں بھی پڑھتا اور کالج میں بھی عین ریاضی کی کلاس میں پچھلے بنچوں پر بیٹھ کر۔ وہ ہماری بور ترین کلاس ہوتی تھی، ٹیچر کو سب “پیار” سے “چُوچا” کہتے تھے کہ اسکی ہیتِ کذائی ہی کچھ ایسی تھی۔ اوپر سے ریاضی اور وہ بھی “چُوچے” کے ہاتھوں، نیند اور انگڑائیوں کے سوا اور کوئی کام ہی نہیں ہوتا تھا، بس عمران سیریز نے پورے دو سال ساتھ نبھایا۔
شاید والدِ مرحوم اپنے نقطہ نظر سے صحیح کہتے تھے، لیکن عمران سیریز کا ایک بھوت تھا جو سر پر سوار تھا، وہ عمران کی مزے مزے کی باتیں، وہ جولیانا کو چھیڑنا، وہ جوزف اور جوانا کی طاقتیں، وہ ایکس ٹو کا کردار، وہ جذباتی مناظر، وہ عمران کا اسرائیل کے منصوبوں کو تباہ کرنا، وہ نئی نئی ایجادیں، وہ مخالف تنظیموں کے باسز کی بوکھلاہٹیں، کتنے مصالحے تھے ان ناولوں میں جنہوں نے ایک عمر تک مجھے مسحور کئے رکھا۔
خیر وہ زمانہ بہت پیچھے رہ گیا اب، لیکن یہ حقیقت کہ اب بھی دیر رات گئے جب میرا ذہن کوئی ادق کتاب پڑھتے پڑھتے ماؤف ہوجاتا ہے تو میں مٹی سے اٹے ہوئے عمران سیریز کے وہ چند ناول نکال لیتا ہوں جو ایک مدت سے میرے پاس پڑے ہوئے ہیں۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔