Jul 16, 2008

غالب کی ایک شاہکار فارسی غزل مع منظوم تراجم - دود سودائے تُتق بست آسماں نامیدمش

غالب کی مندرجہ ذیل غزل نہ صرف غالب کی ایک شاہکار غزل ہے بلکہ غالب کے فلسفے و فکر کو سمجھنے میں مشعلِ راہ بھی ہے۔ صوفی تبسم اس غزل کے تعارف میں فرماتے ہیں کہ “غالب نے اس غزل کے بیشتر شعروں میں اس کائنات کے بارے میں ایک خاص زاویہ نظر پیش کیا ہے کہ یہ سب کچھ جو ہمیں نظر آرہا ہے اس کا وجود خارجی کوئی نہیں، یہ انسانی ذہن ہی کی تخلیق ہے۔ یہ ایک سیمیا ہے۔ ایک طلسم ہے جو انسانی وہم نے باندھ رکھا ہے”۔
جس زاویہ نظر کی طرف صوفی تبسم نے اشارہ کیا ہے، فلسفے میں یہ ایک باقاعدہ سکول آف تھاٹ ہے اور نام اسکا “مثالیت پسندی” یا آئیڈیل ازم ہے اور یہ مادیت پسندی یا میٹریل ازم کی عین ضد ہے۔ لبِ لباب اس سلسلہ فکر کا وہی ہے جو صوفی صاحب نے بیان کر دیا ہے، اسکے برعکس مادیت پسند، مادے کو ہی سچائی قرار دیتے ہیں اور مادے کو ذہن پر ترجیح دیتے ہیں۔ مثالیت پسندی کی ابتدا تو شاید قبل از سقراط قدیم یونانی فلسفیوں فیثا غورث اور پارمی نائدیس نے کی تھی لیکن اسکا پہلا جاندار مبلغ افلاطون تھا اور جرمن فلاسفر ہیگل نے اسے بامِ عروج پر پہنچا دیا۔ اس سلسلہ فکر کے چند مشہور فلاسفہ میں فلاطینوس، ڈیکارٹ، لائبنیز، ہولباخ، جارج برکلے، عمانویل کانٹ، فشٹے وغیرہم شامل ہیں۔
یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ غالب کو تصوف سے خاص شغف تھا، اور وہ وحدت الوجودی تھے، جیسا کہ مولانا حالی اور دیگر شارحین و ناقدینِ غالب نے بیان فرمایا ہے، جیسے ڈاکٹر شوکت شبزواری صاحب “فلسفہ کلامِ غالب” میں اور کئی مشہور و معروف ناقدین “نقدِ غالب” میں بیان فرماتے ہیں۔ طوالت کے خوف سے اقتباسات خذف کرتا ہوں۔
دراصل وحدت الوجود اور مثالیت پسندی کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مثالیت پسندی، وحدت الوجود کا حصہ ہے۔ وحدت الوجود کا فلسفہ مسلمانوں میں شام کے نسطوری عیسائیوں کے ذریعے آیا تھا جنہوں نے اسے اسکندریہ کے صوفی مثالیت پسند فلسفی فلاطینوس سے حاصل کیا تھا۔ یہی وہ فلاطینوس ہے جسکی تحریروں کو ایک زمانے تک مسلم مفکر ارسطو کی تحریریں سمجھتے رہے۔ قصہ مختصر، غالب چونکہ “وجودی” تھے لامحالہ مثالیت پسندی انکے کلام میں آگئی۔
غزل پیشِ خدمت ہے۔

شعرِ غالب
دود سودائے تُتق بست آسماں نامیدمش
دیدہ بر خوابِ پریشان زد، جہاں نامیدمش
صوفی تبسم۔ ترجمہ
خیالِ خام کا ایک دھواں سا ہمارے سر پر چھا گیا، میں نے اسکا نام آسمان رکھ دیا۔ آنکھوں نے ایک پریشان خواب دیکھا اور میں نے اسے جہان کہہ دیا۔
صوفی تبسم۔ منظوم ترجمہ
دود افسون نظر تھا، آسماں کہنا پڑا
ایک پریشاں خواب دیکھا اور جہاں کہنا پڑا
افتخار احمد عدنی
دود کا پردہ تھا جس کو آسماں کہتا تھا میں
اور اک خوابِ پریشاں کو جہاں کہتا تھا میں
پروفیسر رالف رسل
My hot sighs raised a canopy: I said, this is the sky
My eyes beheld a troubled dream: I said, this is the world

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Mirza Ghalib, مرزا غالب
مرزا غالب, Mirza Ghalib
شعرِ غالب
وہم خاکے ریخت در چشمم بیاباں دیدمش
قطرہ بگداخت، بحرِ بیکراں نامیدمش
تبسم
وہم نے میری آنکھوں میں خاک ڈال دی اور وہ مجھے بیاباں بن کر نظر آئی۔ ایک قطرہ تھا جو پگھل کر رہ گیا میں نے اسے بحرِ بیکراں کا نام دیا۔
تبسم، منظوم
تھا غبارِ وہم وہ، میں نے بیاباں کہہ دیا
تھا گداز قطرہ، بحرِ بیکراں کہنا پڑا
عدنی
ایک مٹھی خاک تھی صحرا جسے سمجھا کیا
اور اک قطرے کو بحرِ بیکراں کہتا تھا میں
رسل
My fancies threw dust in my eyes: I said, this is the desert
The drop of water spread: I said, this is the boundless sea


شعرِ غالب
باد دامن زد بر آتش نو بہاراں خواندمش
داغ گشت آں شعلہ، از مستی خزاں نامیدمش
تبسم
ہوا نے آگ کو بھڑکایا میں نے اسے بہار کہہ دیا۔ اسی آگ کے شعلے جل کر جب داغ بن کر رہ گئے تو میں نے اسے خزاں کا نام دیا۔
تبسم، منظوم
آگ بھڑکائی ہوا نے، میں اسے سمجھا بہار
شعلہ بن کر داغ جب ابھرا خزاں کہنا پڑا

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Sufi Tabassum, صوفی غلام مصطفیٰ تبسم
صوفی تبسم, Sufi Tabassum
عدنی
آگ بھڑکی جب ہوا سے میں یہ سمجھا ہے بہار
داغ جب شعلے ہوئے، ان کو خزاں کہتا تھا میں
رسل
I saw flames leaping in the wind: I cried out, spring is coming
They danced themselves to ashes, and I said, autumn has come


شعرِ غالب
قطرہٴ خونے گرہ گردید، دل دانستمش
موجِ زہرابے بہ طوفاں زد زباں نامیدمش
تبسم
ایک قطرہء خوں تھا بل کھا کر گرہ بن گیا اور میں نے اسے دل سمجھ لیا۔ ایک زہراب کی لہر تھی اس میں تلاطم برپا ہوا میں نے اسے زباں کہہ دیا۔
تبسم، منظوم
قطرۂ خوں کا تھا پیچ و تاب، دل جانا اسے
لہر تھی زہراب غم کی اور زباں کہنا پڑا
عدنی
قطرہء خوں کی گرہ تھی جس کو دل جانا کیا
موج تھی زہراب کی جس کو زباں کہتا تھا میں
رسل
The drop of blood became a clot: I knew it as my heart
A wave of bitter water rolled: I said, this is my speech


شعرِ غالب
غربتم نا سازگار آمد، وطن فہمیدمش
کرد تنگی حلقہء دام آشیاں نامیدمش

تبسم
پردیس مجھے راس نہ آیا ناچار میں نے اسے وطن سمجھ لیا۔ حلقہء دام تنگ نکلا میں نے اسے آشیاں کہہ دیا۔
تبسم، منظوم
ناموافق تھی بہت غربت، وطن کہتے بنی
تنگ نکلا حلقہء دام آشیاں کہنا پڑا
عدنی
جب نہ غربت راس آئی میں اسے سمجھا وطن
تنگ ہوا جب حلقہء دام آشیاں کہتا تھا میں

رسل
In exile I felt lost: I said, this country is my country
I felt the snare’s noose tightening: I said, this is my nest


شعرِ غالب
بود در پہلو بہ تمکینے کہ دل می گفتمش
رفت از شوخی بہ آئینے کہ جاں نامیدمش
تبسم
وہ ہمارے پہلو میں اس شان سے بیٹھا تھا کہ میں نے اسے دل کہا، وہ اس انداز سے اٹھ کر گیا کہ اسے جاں کہنا پڑا۔
تبسم، منظوم
اس طرح پہلو میں آ بیٹھا کہ جیسے دل تھا وہ
اس روش سے وہ گیا اٹھ کر کہ جاں کہنا پڑا
عدنی
تھا وہ جب تمکین سے پہلو میں، دل سمجھا اسے
اور شوخی سے ہوا رخصت تو جاں کہتا تھا میں

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Iftikhar Ahmed Adani, افتخار احمد عدنی
افتخار احمد عدنی, Iftikhar Ahmed Adani
رسل
She sat in pride close to my side: I said, she is my heart
Capriciously she rose and left: There goes my soul


شعرِ غالب
ہر چہ از جاں کاست در مستی بہ سود افزودمش
ہرچہ با من ماند از ہستی زیاں نامیدمش
تبسم
مستی کے عالم میں جو کچھ زندگی میں کمی واقع ہوئی میں نے اسے نفع میں شمار کیا اور میری ہستی میں سے جو کچھ بچ رہا اسے نقصان سمجھ لیا۔ یعنی زندگی کے وہی لمحات تھے جو عالمِ مستی اور ذوق و شوق میں گزر گئے، بقیہ زندگی تو گویا زندگی ہی نہ تھی۔
تبسم، منظوم
کٹ گئی جو عمر مستی میں وہی تھا سودِ زیست
بچ رہا جو کچھ بھی مستی میں زیاں کہنا پڑا
عدنی
عمر جو مستی میں گزری اس کو جانا میں نے سود
ہوش میں جتنی کٹی اس کو زیاں کہتا تھا میں
رسل
All that I lost in ecstasy accrued to me as gain
All that remained of consciousness I designated loss


شعرِ غالب
تا ز من بگسست عمرے، خوشدلش پنداشتم
چو بہ من پیوست لختے، بد گماں نامیدمش
تبسم
جب تک وہ مجھ سے ایک طویل عرصے کیلیے الگ ہو کر رہا میں اسے ایک خوش ذوق انسان سمجھتا رہا۔ جب وہ تھوڑی مدت کیلیے مجھ سے آ ملا تو میں نے اسے بد گماں کا لقب دیا۔
عدنی
مہرباں سمجھا کیا جب تک رہا وہ مجھ سے دور
اور قریب آیا تو اس کو بد گماں کہتا تھا میں
رسل
For years she held aloof from me: I said, she favours me
She came close for a while: I said, she has her doubts of me


شعرِ غالب
اُو بہ فکر کشتنِ من بود، آہ از من کہ من
لاابالی خواندمش، نامہرباں نامیدمش
تبسم
وہ میرے مارنے کی فکر میں تھا۔ کتنی افسوس کی بات ہے کہ میں اسے لا ابالی کہتا رہا اور نامہرباں کے نام سے پکارتا رہا۔
عدنی
گھات میں تھا قتل کی وہ اور اسے سمجھے بغیر
لا ابالی بے خبر، نا مہرباں کہتا تھا میں
رسل
She was intent on slaying me. Alas for me, that I
Declared she was indifferent, said that she was unkind


شعرِ غالب
تانہم بروے سپاس خدمتے از خویشتن
بود صاحب خانہ امّا میہماں نامیدمش
تبسم
وہ صاحبِ خانہ تھا اور میں اسے میہماں کہتا رہا تاکہ میں اسکی کوئی خدمت کرکے اس پر کوئی احسان دھر سکوں۔
تبسم، منظوم
تھا مجھے منظور اسے مرہونِ منت دیکھنا
تھا وہ صاحب خانہ لیکن میہماں کہنا پڑا
عدنی
اپنی خدمت کا فقط احساں جتانے کیلیے
تھا وہ صاحب خانہ لیکن میہماں کہتا تھا میں
رسل
To make her feel obliged to me for all I did for her
She was my host, and yet I told myself, she is my guest


شعرِ غالب
دل زباں را راز دان آشنائی ہا نخواست
گاہ بہماں گفتمش، گاہے فلاں نامیدمش
تبسم
میرا دل نہیں چاہتا تھا کہ میری زباں محبت اور دوستی کی رازداں ہو اس لیے جب بھی محبوب کا تذکرہ آیا میں نے اسے کبھی فلاں، کبھی فلاں کہا۔
شعرِ غالب
ہم نگہ جاں می ستاند، ہم تغافل می کشد
آں دمِ شمشیر و ایں پشتِ کماں نامیدمش
تبسم
اسکا التفات بھی جاں ستاں ہے اور اسکا تغافل بھی مار ڈالتا ہے۔ اسکی توجہ تلوار کی دھار ہے اور اسکی بظاہر بے التفاتی پشتِ کمان کی طرح ہے کہ جس سے تیر نکل کر زخم لگاتا ہے۔


شعرِ غالب
در سلوک از ہر چہ پیش آمد گزشتن داشتم
کعبہ دیدم نقش پائے رہرواں نامیدمش
تبسم
راہِ سلوک میں جو کچھ راستے میں آیا اسے نظر انداز کرکے آگے نکل گیا۔ کعبے کو دیکھا تو اسے رہروانِ راہِ سلوک کا نقشِ پا کہہ دیا۔
تبسم، منظوم
یوں طریقت میں ہر اک شے سے نظر آگے پڑی
کعبے کو بھی نقش پائے رہرواں کہنا پڑا
عدنی
چھوڑ پیچھے راہِ حق میں جو نظر آیا بڑھا
کعبے کو اک نقشِ پائے رہرواں کہتا تھا میں
رسل
I journeyed on beyond each stage I set myself to cover
I saw the Kaba as the tracks of those who had gone on

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Ralph Russell, رالف رسل
رالف رسل, Ralph Russell
شعرِ غالب
بر امیدِ شیوہء صبر آزمائی زیستم
تو بریدی از من و من امتحاں نامیدمش

تبسم
میں اس امید پر جیتا تھا کہ تیرا جور و ستم کا شیوہ میری طاقتِ صبر کو آزمانے کیلیے ہے، تو مجھ پر ستم ڈھاتا رہے گا اور میں زندہ رہوں گا۔ لیکن تو مجھے چھوڑ کر چلا گیا اور میں نے اس ترے چلے جانے کو امتحان قرار دیا۔
تبسم، منظوم
شیوہء صبر آزمائی پر ترے جیتا تھا میں
یوں تری فرقت کو اپنا امتحاں کہنا پڑا
عدنی
شیوہء صبر آزمائی کے سہارے میں جیا
تو ہوا مجھ سے الگ تو امتحاں کہتا تھا میں
رسل
My hopes told me, she likes to try my powers of endurance
You served all our ties: I said, she is just testing me


شعرِ غالب
بود غالب عندلیبے از گلستانِ عجم
من ز غفلت طوطیِ ہندوستاں نامیدمش
تبسم
غالب تو گلستانِ ایران کی ایک بلبل تھا، میں نے غفلت میں اسے طوطیِ ہندوستاں کہہ دیا۔
--------


بحر - بحر رمل مثمن محذوف


افاعیل - فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلُن
(آخری رکن فاعلن میں فاعِلان بھی آ سکتا ہے)


اشاری نظام - 2212 2212 2212 212
(آخری 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)


تقطیع -
دود سودائے تُتق بست آسماں نامیدمش
دیدہ بر خواب پریشان زد، جہاں نامیدمش


دود سودا - فاعلاتن - 2212
ئے تتق بس - فاعلاتن - 2212
تاسما نا - فاعلاتن - 2212 (الف وصل استعمال ہوا ہے)
میدمش - فاعلن - 212


دیدَ بر خا - فاعلاتن - 2212
بے پریشا - فاعلاتن - 2212
زد جہاں نا - فاعلاتن - 2212
میدمش - فاعلن - 212

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jul 8, 2008

ابنِ انشا کی ایک غزل - جوگ بجوگ کی باتیں جُھوٹی، سب جی کا بہلانا ہو

ابنِ انشا کی ایک خوبصورت غزل پیشِ خدمت ہے.

جوگ بجوگ کی باتیں جُھوٹی، سب جی کا بہلانا ہو
پھر بھی ہم سے جاتے جاتے ایک غزل سن جانا ہو

ساری دنیا عقل کی بیَری، کون یہاں پر سیانا ہو
ناحق نام دھریں سب ہم کو، دیوانا دیوانا ہو

نگری نگری لاکھوں دوارے، ہر دوارے پر لاکھ سخی
لیکن جب ہم بھول چکے ہیں، دامن کا پھیلانا ہو

سات سمندر پار کی گوری، کھیل ذرا کرتار کے دیکھ
ہم کو تو اس شہر میں ملنا، اُس کو تھا ملوانا ہو
Ibn-e-Insha, ابنِ انشا، urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
Ibn-e-Insha, ابنِ انشا
تیرے یہ کیا جی میں آئی، کھینچ لیے شرما کے ہونٹ
ہم کو زہر پلانے والی، امرت بھی پلوانا ہو

ساون بیتا، بھادوں بیتا، اجڑے اجڑے من کے کھیت
کوئل اب تو کوک اٹھانا، میگھا مینہہ برسانا ہو

ایک ہی صورت، ایک ہی چہرہ، بستی، پربت، جنگل، پینٹھ
اور کسی کے اب کیا ہونگے، چھوڑ ہمیں بھٹکانا ہو

ہم بھی جُھوٹے، تم بھی جُھوٹے، ایک اسی کا سچّا نام
جس سے دیپک جلنا سیکھا، پروانا جل جانا ہو

سیدھے من کو آن دبوچیں، میٹھی باتیں، سُندَر بول
میر، نظیر، کیبر اور انشا، سارا ایک گھرانا ہو
(ابنِ انشا)
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jul 3, 2008

امیر خسرو کی غزل - خَبَرَم رسید اِمشب کہ نگار خواہی آمد

امیر خسرو کی خوبصورت ترین غزلوں میں سے ایک غزل پیش کر رہا ہوں، یوں تو خسرو کا سارا کلام ہی تصوف کی چاشنی سے مملو ہے کہ آپ خود ایک صاحبِ حال صوفی تھے، لیکن کچھ غزلیں تو کمال کی ہیں اور یہ غزل بھی انہی میں سے ایک ہے۔
اس غزل کے اشعار مختلف نسخوں میں مختلف ملتے ہیں، میں نے لوک ورثہ اشاعت گھر کے شائع کردہ انتخاب کو ترجیح دی ہے۔ اس غزل کو استاد نصرت فتح علی خان نے بہت دلکش انداز میں گایا ہے۔
شعرِ خسرو
خَبَرَم رسید اِمشب کہ نگار خواہی آمد
سَرِ من فدائے راہے کہ سوار خواہی آمد
ترجمہ
مجھے خبر ملی ہے کہ اے میرے محبوب تو آج رات آئے گا، میرا سر اس راہ پر قربان جس راہ پر تو سوار ہو کر آئے گا۔
منظوم ترجمہ مسعود قریشی
ملا ہے رات یہ مژدہ کہ یار آئے گا
فدا ہُوں راہ پہ جس سے سوار آئے گا
شعرِ خسرو
ہمہ آہوانِ صحرا سرِ خود نہادہ بر کف
بہ امید آنکہ روزے بشکار خواہی آمد
ترجمہ
جنگل کے تمام ہرنوں نے اپنے سر اتار کر اپنے ہاتھوں میں رکھ لیے ہیں اس امید پر کہ کسی روز تو شکار کیلیے آئے گا۔
قریشی
غزالِ دشت، ہتھیلی پہ سر لئے ہوں گے
اس آس پر کہ تو بہرِ شکار آئے گا
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Mazar Amir Khusro, مزار امیر خسرو
مزار امیر خسو, Mazar Amir Khusro
شعرِ خسرو
کَشَشے کہ عشق دارَد نہ گُزاردَت بدینساں
بجنازہ گر نیائی بہ مزار خواہی آمد
ترجمہ
عشق میں جو کشش ہے وہ تجھے اسطرح زندگی بسر کرنے نہیں دے گی، تو اگر میرے جنازے پر نہیں آیا تو مزار پر ضرور آئے گا۔
قریشی
کشش جو عشق میں ہے، بے اثر نہیں ہوگی
جنازہ پر نہ سہی، بر مزار آئے گا
شعرِ خسرو
بہ لبَم رسیدہ جانَم تو بیا کہ زندہ مانَم
پس ازاں کہ من نَمانَم بہ چہ کار خواہی آمد
ترجمہ
میری جان ہونٹوں پر آ گئی ہے، تُو آجا کہ میں زندہ رہوں۔ اسکے بعد جبکہ میں زندہ نہ رہوں گا تو پھر تو کس کام کیلیے آئے گا۔
قریشی
لبوں پہ جان ہے، تُو آئے تو رہوں زندہ
رہا نہ میں، تو مجھے کیا کہ یار آئے گا
شعرِ خسرو
بیک آمدن ربودی دل و دین و جانِ خسرو
چہ شَوَد اگر بدینساں دو سہ بار خواہی آمد
ترجمہ
تیرے ایک بار آنے نے خسرو کے دل و دین و جان سب چھین لیے ہیں، کیا ہوگا اگر تو اسی طرح دو تین بار آئے گا۔
قریشی
فدا کئے دل و دیں اک جھلک پر خسرو نے
کرے گا کیا جو تُو دو تین بار آئے گا
——–
بحر - بحر رمل مثمن مشکول
(مسعود قریشی کا منظوم ترجمہ بحر مجتث میں‌ ہے)
افاعیل - فَعِلاتُ فاعِلاتُن فَعِلاتُ فاعِلاتُن
اشاری نظام - 1211 2212 1211 2212
تقطیع -
خبرم رسید امشب کہ نگار خواہی آمد
سرِ من فدائے راہے کہ سوار خواہی آمد
خَ بَ رم رَ - فعلات - 1211
سید امشب - فاعلاتن - 2212
کِ نِ گا ر - فعلات - 1211
خا ہِ آمد - فاعلاتن - 2212
سَ رِ من فِ - فعلات - 1211
دا ء راہے - فاعلاتن - 2212
کِ سَوار - فعلات - 1211
خا ہِ آمد - فاعلاتن - 2212
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 27, 2008

محاورہ مابین خدا و انسان - اقبال

علامہ اقبال کی پیامِ مشرق سے ایک خوبصورت نظم پیشِ خدمت ہے جو مجھے بہت زیادہ پسند ہے۔ اقبال کی فکر اس میں عروج پر ہے اور جہاں خدا کی زبانی انسان کی ‘ہوس’ کو ظاہر کیا ہے وہیں تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھایا ہے اور انسان کی محنت اور عظمت بھی بیان کی ہے۔ اقبال کا ‘انسان’ اور ‘انسانیت’ پر ایمان اور اور انسان کا کائنات سے رشتہ بھی اس نظم سے واضح ہوتا ہے۔

محاورہ مابین خدا و انسان
(خدا اور انسان کے درمیان مکالمہ)

خدا
جہاں را ز یک آب و گِل آفریدم
تو ایران و تاتار و زنگ آفریدی
(میں نے یہ جہان ایک ہی پانی اور مٹی سے پیدا کیا تھا، تو نے اس میں ایران و توران و حبش بنا لیے۔)

من از خاک پولادِ ناب آفریدم
تو شمشیر و تیر و تفنگ آفریدی
(میں نے خاک سے خالص فولاد پیدا کیا تھا، تو نے اس سے شمشیر و تیر و توپ بنا لیے۔)

تبر آفریدی نہالِ چمن را
قفس ساختی طائرِ نغمہ زن را
(تو نے اس سے چمن کے درخت کاٹنے کیلیے کلہاڑا بنا لیا، نغمہ گاتے ہوئے پرندوں کیلیے قفس بنا لیا۔)
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال
علامہ محمد اقبال, Allama Iqbal
انسان
تو شب آفریدی، چراغ آفریدم

سفال آفریدی، ایاغ آفریدم
(تو نے رات بنائی میں نے چراغ بنا لیا۔ تو نے مٹی بنائی میں نے اس سے پیالہ بنا لیا۔)

بیابان و کہسار و راغ آفریدی
خیابان و گلزار و باغ آفریدم
(تو نے بیابان، پہاڑ اور میدان بنائے۔ میں نے اس میں خیابان، گلزار اور باغ بنا لیے۔)

من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم
من آنم کہ از زہر نوشینہ سازم
(میں وہ ہوں کہ پتھر سے آئینہ/شیشہ بناتا ہوں، میں وہ ہوں کہ زہر سے شربت/تریاق بناتا ہوں۔)
——–
بحر - بحر متقارب مثمن سالم
افاعیل - فَعُولُن فَعُولُن فَعُولُن فَعُولُن
اشاری نظام - 221 221 221 221
تقطیع -
جہاں را ز یک آب و گِل آفریدم
تو ایران و تاتار و زنگ آفریدی
جہا را - فعولن - 221
ز یک آ - فعولن - 221
ب گل آ - فعولن - 221
ف ریدم - فعولن - 221
تُ ایرا - فعولن - 221
ن تاتا - فعولن - 221
ر زنگا - فعولن - 221 (الف وصل کا استعمال ہوا ہے)
فریدی - فعولن - 221
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 20, 2008

فریدون مشیری کی نظم - معراج

فریدون مشیری جدید فارسی شاعری کا ایک معتبر نام ہیں اور نوجوان ایرانی نسل میں انتہائی مقبول، انکی ایک نظم پیش کر رہا ہوں جو مجھے بہت پسند آئی۔ اس نظم میں کوئی "انوکھی" بات نہیں ہے بلکہ وہی خیال ہے جو شعراء کرام کے ہاں ہمیشہ سے موجود رہا ہے اور اسے علامہ اقبال نے بھی بہت خوبصورتی سے اپنی شاعری میں استعمال کیا ہے۔
انکا کلام اس ویب سائٹ پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے، وہیں سے یہ نظم حاصل کی ہے۔ اردو ترجمہ کرنے کی ‘جرأت’ خود ہی کی ہے اسلیے اگر کہیں خامی نظر آئے تو درگزر کا طلبگار ہوں۔ فریدون مشیری کی آفیشل ویب سائٹ ملاحظہ کیجیئے۔

Fereydoon Moshiri, فریدون مشیری, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
Fereydoon Moshiri, فریدون مشیری
معراج


گفت: آنجا چشمۂ خورشید هاست
(اُس نے کہا، اس جگہ سورجوں کا چشمہ ہے)
آسماں ها روشن از نور و صفاست
(آسمان نور سے روشن اور منور ہیں)
موجِ اقیانوس جوشانِ فضاست
(فضا سمندروں کی طرح جوش مار رہی ہے)
باز من گفتم که: بالاتر کجاست
(میں نے پھر پوچھا کہ اس سے اوپر کیا ہے)
گفت : بالاتر جهانی دیگر است
(اس نے کہا اس سے بالا ایک دوسرا جہان ہے)
عالمی کز عالمِ خاکی جداست
(وہ ایک ایسا عالم ہے کہ عالمِ خاکی سے جدا ہے)
پهن دشتِ آسماں بے انتهاست
(اور آسمانوں کے طول و عرض، پہنائیاں بے انتہا ہیں)
باز من گفتم که بالاتر کجاست
(میں پھر پوچھا کہ اس سے پرے کیا ہے)
گفت : بالاتر از آنجا راه نیست
(اس نے کہا، اس سے آگے راستہ نہیں ہے)
زانکه آنجا بارگاهِ کبریاست
(کیونکہ اس جگہ خدا کی بارگاہ ہے)
آخریں معراجِ ما عرشِ خداست
(ہماری آخری معراج، رسائی خدا کا عرش ہی ہے)
باز من گفتم که : بالاتر کجاست
(میں نے پھر پوچھا کہ اس سے بالاتر کیا ہے)
لحظه ای در دیگانم خیره شد
(ایک لحظہ کیلیئے میری اس بات سے وہ حیران و پریشان ہو گیا)
گفت : ایں اندیشه ها بس نارساست
(اور پھر بولا، تمھاری یہ سوچ اور بات بے تکی اور ناقابلِ برداشت ہے)
گفتمش : از چشمِ شاعر کن نگاه
(میں نے اس سے کہا، ایک شاعر کی نظر سے دیکھ)
تا نپنداری که گفتاری خطاست
(تا کہ تجھے یہ خیال نہ رہے کہ یہ بات خطا ہے)
دور تر از چشمۂ خورشید ها
(سورجوں کے چشمے سے دور)
برتر از ایں عالمِ بے انتها
(اس بے انتہا عالم سے بر تر)
باز هم بالاتر از عرشِ خدا
(اور پھر خدا کے عرش سے بھی بالا)
عرصۂ پرواز مرغِ فکرِ ماست
(ہماری فکر کے طائر کی پرواز کی فضا ہے)
——–
بحر - بحر رمل مسدس محذوف
افاعیل - فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلُن
(آخری رکن فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)
اشاری نظام - 2212 2212 212
(آخری 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)۔
تقطیع -
گفت: آنجا چشمۂ خورشید هاست
آسماں ها روشن از نور و صفاست
گفت آ جا - فاعلاتن - 2212
چشمَ اے خُر - فاعلاتن - 2212
شید ھاس - فاعلان - 1212
آسما ھا - فاعلاتن - 2212
روشَ نز نو - فاعلاتن - 2212 (الف وصل استعمال ہوا ہے)۔
رُو صفاس - فاعلان - 1212
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 16, 2008

اردو محفل کو سلام

اردو محفل نہ صرف ایک خوبصورت فورم ہے بلکہ اردو کی ترقی و ترویج کیلیئے کوشاں اور مجھے فخر ہے کہ میں اردو محفل کا حصہ ہوں۔ انہی احساسات میں محو تھا کہ کل کچھ اشعار قلم بند ہو گئے جو کہ یہاں لکھتا ہوں

قطعہ
محفِلِ اردو تجھے میرا سلام
اے دِلِ اردو تجھے میرا سلام
اس جہانِ برق، دل و جاں سوز میں
تُو گِلِ اردو، تجھے میرا سلام

قطعہ
زینتِ اردو ہے تُو اور شان بھی
رونقِ اردو ہے تُو اور جان بھی
فرض کیجے نیٹ کو گر دنیا تو پھر
کعبۂ اردو ہے تُو، ایمان بھی

رباعی
کیا محفلِ اردو کی کروں میں توصیف
ثانی ہے کوئی جس کا نہ کوئی ہے حریف
دیکھے ہیں کثافت سے بھرے فورم، پر
اک نور کی محفل ہے، ہے اتنی یہ لطیف
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 12, 2008

میری ایک تازہ غزل

غم نہیں، دُکھ نہیں، ملال نہیں
لب پہ جو ایک بھی سوال نہیں

کیوں ملے مُجھ کو تیسرا درجہ
کیا مرے خوں کا رنگ لال نہیں؟

فکرِ سُود و زیاں سے ہے آزاد
کار و بارِ جنوں وبال نہیں

نظر آتا ہے ہر جمال میں وُہ
اس میں میرا تو کچھ کمال نہیں

مستِ جامِ نگاہِ یار ہوں میں
ہوش جانے کا احتمال نہیں

موت، ڈر، ہار، سب روا لیکن
عشق میں بھاگنا حلال نہیں

خونِ دل بھی جلے گا اس میں اسد
شاعری صرف قیل و قال نہیں
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 11, 2008

اقبال کی ایک فارسی غزل - صد نالۂ شب گیرے، صد صبحِ بلا خیزے

پیامِ مشرق سے علامہ اقبال کی ایک خوبصورت غزل پیشِ ہے، جو مجھے بہت زیادہ پسند ہے۔

صد نالۂ شب گیرے، صد صبحِ بلا خیزے
صد آہِ شرر ریزے، یک شعرِ دل آویزے
رات بھر کے سینکڑوں نالے، سینکڑوں آفت لانے والی صبحیں، سینکڑوں شعلے پھینکنے والی آہیں ایک طرف اور ایک دل کو لبھانے والا شعر ایک طرف۔

در عشق و ہوسناکی دانی کہ تفاوَت چیست؟
آں تیشۂ فرہادے، ایں حیلۂ پرویزے
عشق اور ہوس کے درمیان جانتا ہے کہ کیا فرق ہے؟ عشق فرہاد کا تیشہ ہے اور ہوس پرویز کا مکر و فریب۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال
علامہ محمد اقبال, Allama Iqbal
با پردگیاں بر گو کایں مشتِ غبارِ من
گردیست نظر بازے، خاکیست بلا خیزے
فرشتوں سے کہہ دو کہ میری یہ مشتِ غبار، ایک گرد ہے لیکن نظر رکھنے والی، ایک خاک ہے لیکن طوفان اٹھانے والی۔

ہوشم برد اے مطرب، مستم کنَد اے ساقی
گلبانگِ دل آویزے از مرغِ سحر خیزے
اے مطرب میرے ہوش اڑا دیتی ہے، اے ساقی مجھے مست کردیتی ہے، سحر کے وقت پرندے کی دل کو لبھانے والی آواز۔

از خاکِ سمرقندے ترسَم کہ دگر خیزَد
آشوبِ ہلاکوے، ہنگامۂ چنگیزے
میں ڈرتا ہوں کہ پھر اٹھے گا سمرقند کی خاک سے، ہلاکو خان کا فتنہ اور چنگیز خان کا ہنگامہ۔

مطرب غزلے بیتے از مرشدِ روم آور
تا غوطہ زنَد جانَم در آتشِ تبریزے
اے مطرب مرشدِ روم کی کوئی غزل، کوئی شعر لا، تاکہ میری جان شمس تبریز کی آگ میں غوطہ زن ہو۔
——–
بحر - بحر ہزج مثمن اخرب
یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی ہر مصرع دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا ہے اور ہر ٹکڑا، ایک مصرع کے احکام میں آ سکتا ہے۔
افاعیل - مَفعُولُ مَفَاعِیلُن مَفعُولُ مَفَاعِیلُن


اشاری نظام - 122 2221 122 2221

تقطیع -
صد نالۂ شب گیرے، صد صبحِ بلا خیزے
صد آہِ شرر ریزے، یک شعرِ دل آویزے

صد نالَ - مفعول - 122
ء شب گیرے - مفاعیلن - 2221
صد صبحِ - مفعول - 122
بلا خیزے - مفاعیلن - 2221
صد آہِ - مفعول - 122
شرر ریزے - مفاعیلن - 2221
یک شعرِ - مفعول - 122
د لا ویزے - مفاعیلن - 2221 (الفِ وصل استعمال ہوا ہے)
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 3, 2008

غزلِ مرزا غالب - درد ہو دل میں تو دوا کیجے

درد ہو دل میں تو دوا کیجے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے

ہم کو فریاد کرنی آتی ہے
آپ سنتے نہیں تو کیا کیجے

ان بتوں کو خدا سے کیا مطلب
توبہ توبہ، خدا خدا کیجے

رنج اٹھانے سے بھی خوشی ہوگی
پہلے دل درد آشنا کیجے
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Mirza Ghalib, مرزا غالب
مرزا غالب, Mirza Ghalib
عرضِ شوخی، نشاطِ عالم ہے
حسن کو اور خود نما کیجے

دشمنی ہو چکی بہ قدرِ وفا
اب حقِ دوستی ادا کیجے

موت آتی نہیں کہیں غالب
کب تک افسوس زیست کا کیجے
——–
بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن مُفاعِلُن فَعلُن
(اس بحر میں آٹھ وزن جمع ہو سکتے ہیں، تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)
اشاری نظام - 2212 2121 22
تقطیع -
درد ہو دل میں تو دوا کیجے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے
درد ہو دل - فاعلاتن - 2212
مِ تو دوا - مفاعلن - 2121
کیجے - فعلن - 22
دل ہِ جب در - فاعلاتن - 2212
د ہو تُ کا - مفاعلن - 2121
کیجے - فعلن - 22
-----

یہ خوبصورت غزل ملکہٴ ترنم نورجہاں کی خوبصورت آواز میں






مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 2, 2008

میں نے اپنی پہلی کتاب خریدی

وہ بھی ایک عجیب دن تھا۔ اسلامیہ کالج سیالکوٹ سے گھر واپس آتے ہوئے نہ جانے جی میں کیا آئی کہ میں نے اپنی سائیکل کا رُخ اردو بازار کی طرف موڑ لیا۔
ان دنوں میں گیارھویں جماعت میں پڑھتا تھا اور اپنے کالج کی لائبریری جب پہلی بار دیکھی تو دیکھتا ہی رہ گیا کہ دنیا میں ایک ہی جگہ اتنی کتابیں بھی ہوتی ہیں، ناول اور کہانیاں تو خیر میں بچپن سے ہی پڑھا کرتا تھا لیکن اردو ادب سے صحیح شناسائی کالج میں پہنچ کر ہوئی اور وہ بھی اتفاقاً۔ ہوا کچھ یوں کہ میرے ایک اسکول کے دوست، جو کالج میں بھی ساتھ ہی تھا، کی بڑی بہن کو کرنل محمد خان کی کتاب “بجنگ آمد” درکار تھی جو کہ انکے کالج کی لائبریری میں نہیں تھی، انہوں نے اپنے بھائی سے کہا کہ اپنے کالج میں پتا کرو، اور بھائی صاحب نے مجھے پکڑا کہ چلو لائبریری، خیر وہ کتاب مل گئی لیکن واپس کرنے سے پہلے میں نے بھی پڑھ ڈالی۔
اس کتاب کا پڑھنا تھا کہ بس گویا دبستان کھل گیا، اسکے بعد میں نے پہلے کرنل محمد خان کی اور بعد میں شفیق الرحمن کی تمام کتب لائبریری سے نکلوا کر پڑھ ڈالیں۔
خیر اردو بازار میں داخل ہوا تو ایک بُک اسٹور پر رک گیا اور کتابیں دیکھنے لگا، ایک کتاب نظر آئی “شناخت پریڈ”، یہ ڈاکٹر یونس بٹ کی کتاب ہے اور شاید ان کی پہلی کتاب ہے، اسکی ورق گردانی کی تو اچھی لگی۔ میرے دل میں آیا کہ کتاب خریدنی چاہیئے لیکن ایک بڑا مسئلہ اسی وقت کھڑا ہو گیا، کتاب کی قیمت پچاس روپے تھی، سوچا پچاس لکھی ہوئی ہے شاید کم کر دیں، مالک سے بات کی، اس نے ایک دفع میرے چہرے کی طرف دیکھا اور دوسرے ہی لمحے کہا کہ اسکی قیمت کم نہیں ہو سکتی۔ مالک کی اس بے رحمانہ بات پر کیا کہہ سکتا تھا سوائے چپ رہنے کے۔ (خیر اب وہ مالک صاحب میرے اچھے خاصے شناسا ہیں اور تقریباً پچیس سے پنتیس فیصد رعایت بھی کر دیتے ہیں)۔
وہاں سے میں چلا تو آیا لیکن دل کتاب میں ہی اٹکا ہوا تھا، کافی دن اسی سوچ بچار میں گزارے کہ پچاس روپے کہاں سے لاؤں۔ ان دنوں میرا جیب خرچ پانچ روپے روزانہ تھا اور اگر دس دن پیسے جمع کرتا تو پچاس روپے جمع ہو جاتے اور کوشش بھی کی لیکن پیسے تھے کہ جمع ہو کر نہیں دیتے تھے (ویسے وہ اب بھی نہیں ہوتے)۔ بہت تیر مارا تو کچھ دنوں کے بعد میرے پاس پچیس روپے جمع ہو گئے لیکن اب بھی آدھی رقم کم تھی اور تمنا بیتاب۔
سوچ سوچ کر پاگل ہوتا رہا لیکن کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ کتاب کیسے خریدوں کہ اللہ کی غیبی مدد پہنچ ہی گئی۔ ایک دن والد صاحب کی میز پر بیٹھا ہوا تھا کسی کام کیلیئے دراز کھولا تو اس میں ڈاک کے ٹکٹ نظر آئے اور ساتھ ہی ذہن میں ایک شیطانی منصوبہ، میں نے سوچا اگر میں کچھ ڈاک ٹکٹ چرا لوں اور انہیں بیچ ڈالوں تو رقم مل جائے گی۔
پہلے تو ضمیر نے ملامت کیا کہ چوری بری چیز ہے لیکن پھر حضرتِ شیطان فوراً مدد کو آئے کہ کونسے برے کام کیلیئے چوری کرنی ہے، آخر کتاب ہی تو خریدنی ہے۔ میں نے پچیس روپے کے ڈاک ٹکٹ نکال لیے لیکن پھر خیال آیا کہ اپنے جمع کیئے ہوئے پیسے ضرور خرچ کرنے ہیں، اگر چوری کرنی ہی ہے تو پورے پیسوں کی کروں۔
سو نہایت ایمانداری سے گن کر پورے پچاس روپوں کے ڈاک ٹکٹ اٹھا لیئے، اب انہیں بیچنے کا مسئلہ درپیش تھا، اس وقت تو درکنار مجھے ابھی تک بھی کسی بھی چیز کو بیچنے کا تجربہ نہیں ہے لیکن شوق کے ہاتھوں مجبور تھا سو اسی وقت تیز تیز سائیکل چلاتا ہوا ڈاکخانے پہنچا، مجھے امید تھی کہ مجھے فوراً ہی رقم مل جائے گی لیکن ڈاکخانے میں بیٹھے کلرک نے مجھے سختی سے ڈانٹ دیا کہ یہاں یہ کام نہیں ہوتا۔ وہاں سے نامراد لوٹا تو اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ اب کہاں جاؤں، کیا کروں۔
اسی سوچ بچار میں سائیکل چلا رہا تھا اور سڑک کے دونوں طرف دیکھتا بھی جا رہا تھا کہ کوئی ڈاکخانہ نظر آئے، بالآخر کچہری روڈ پر ایک چھوٹا سے ڈاکخانہ نظر آیا، وہاں گیا تو ایک جہاں دیدہ بلکہ گرم و سرد چشیدہ، گرگِ باراں دیدہ قسم کے بزرگ وہاں بیٹھے تھے، مدعا بیان کیا تو اپنی موٹے موٹے شیشوں والی عینک کے پیچھے سے مجھے گھورا اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ ٹھیک ہے لے لوں گا لیکن بیس روپے دونگا، میں نے التجا کی کہ جناب پچاس روپے کے ٹکٹ ہیں کچھ تو زیادہ عنایت فرمائیں، خیر وہ انکے پچیس روپے دینے پر راضی ہو گئے۔
ٹکٹیں چوری کرتے وقت میں تو یہی سمجھ رہا تھا کہ پچاس روپے پورے مل جائیں گے لیکن اس دن صحیح اندازہ ہوا کہ ہمارے معاشرے میں مجبوریاں کیسے خریدی اور بیچی جاتی ہیں۔ اب کل ملا کر میرے پاس پچاس روپے پورے تھے سو فوراً اردو بازار گیا اور چین اس وقت ملا جب “شناخت پریڈ” پڑھ ڈالی۔
یہ ایک معمولی واقعہ ہی سہی، لیکن آج بیس برس بعد بھی جب اس واقعے کے متعلق سوچتا ہوں تو افسوس بھی ہوتا ہے اور خوشی بھی، افسوس تو ظاہر ہے کہ چوری کا ہوتا ہے اور خوشی اس بات کی اس دن جب سائیکل کا رخ اردو بازار کی طرف موڑا تھا تو بس میری زندگی کا اپنا رخ بھی ایک ایسی جانب مڑ گیا کہ اس کے آگے ایک بحرِ بیکراں تھا، اسکے بعد کتابیں خریدنے اور پڑھنے کی ایسی عادت پڑی کہ یہ مشغلہ شاید اب موت ہی مجھ سے چھڑا سکے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔