Dec 3, 2008

پنجابی غزل از بابا نجمی - اکھّراں‌ وچ سمندر رکھّاں، سوچاں وچ جہان

بابا نجمی کی ایک خوبصورت پنجابی غزل۔

اکھّراں‌ وچ سمندر رکھّاں، سوچاں وچ جہان
سجدے کرن فرشتے مینوں، میرا ناں انسان

مینوں کِنج ہلا سکدے نیں، جھکّھڑ تے طوفان
کھڑا واں، سَت زمیناں ڈھا کے، چُک کے سَت اَسمان

جھوٹھا کیہڑا، سچّا کہیڑا، کِسراں کراں پچھان
کھاندے پئے نیں قسماں سارے سر تے رکھ قرآن
Baba Najmi, بابا نجمی, Punjabi Poetry, پنجابی شاعری
Baba Najmi, بابا نجمی
گڈ جیہا ایہہ جُثّا میرا بن جاندا اے پُھل
کچے پلے جدوں کھڈونے شامیں جپھیاں پان

میرے آل دوال نہ وَسّے، اک وی مذہب غیر
دسّے شہر دا قاضی، میرا سڑیا کِنج مکان

جم دی دھی نوں دبن والا فیر قانون بنا
ڈولے دے نال پُتّر والا، منگّے پیا مکان

اس دھرتی تے جِتھّے جِتھّے لڑ دے پئے نیں لوک
اپنا جُثّا ویکھاں بابا، ہر تھاں لہو لہان

(بابا نجمی - اکھراں وچ سمندر)
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 2, 2008

شیخ سعدی شیرازی کے چند اشعار مع ترجمہ

شیخ سعدی شیرازی, Sadi Sheerazi, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
شیخ سعدی شیرازی ایک خاکہ، Sadi Sheerazi
بلبلِ شیراز، شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی کا نامِ نامی کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ گلستانِ شیراز کو اپنے جن دو طوطیِ ہزار نوا پر تا ابد فخر رہے گا ان میں سعدی کا نام پہلے اور حافظ کا بعد میں ہے۔ شیخ سعدی ہمارے ہاں خاص طور پر اپنی حکایات اور گلستان و بوستان کی وجہ سے معروف ہیں لیکن ایرانی ناقدینِ فن کے ہاں سعدی کا نام بحیثیت غزل گو شاعر کے بہت بلند ہے۔ فارسی غزل کو رنگ و روپ سعدی نے ہی عطا کیا ہے، سعدی نہ صرف فارسی غزل کے امام ہیں بلکہ فارسی غزل کی جو بنیاد انہوں نے رکھی اسی پر بعد میں آنے غزل گو شعراء بالخصوص حافظ نے بلند و بالا و پر شکوہ عمارت کھڑی کر دی۔
کلیاتِ سعدی (با تصحیح محمد علی فروغی) مطبوعہ تہران سے اپنی پسند کے چند اشعار درج کرتا ہوں۔
خُدایا بحقِ بنی فاطمہ
کہ برِ قولِ ایماں کُنی خاتمہ
اے خدا حضرت فاطمہ (ع) کی اولاد کے صدقے میرا خاتمہ ایمان پر کرنا۔
اگر دعوتَم رد کُنی، ور قبول
من و دست و دامانِ آلِ رسول
چاہے تو میری دعا کو رد کر دے یا قبول کر، کہ میں آلِ رسول (ص) کے دامن سے لپٹا ہوا ہوں۔
چہ وَصفَت کُنَد سعدیِ ناتمام
علیکَ الصلوٰۃ اے نبیّ السلام
سعدی ناتمام و حقیر آپ (ص) کا کیا وصف بیان کرے، اے نبی (ص) آپ پر صلوۃ و سلام ہو۔
--------
گر دِلے داری بہ دلبَندی بَدہ
ضایع آں کشور کہ سلطانیش نیست
اگر دل رکھتا ہے تو اسے کسی دلدار کو دے دے، ضایع ہو جاتی ہے وہ سلطنت کہ جسکا کوئی سلطان نہ ہو۔
کامراں آں دل کہ محبوبیش ہست
نیک بخت آں سر کہ سامانیش نیست
کامیاب ہے وہ دل کہ جو اس (کسی) کا محبوب ہے، نیک بخت ہے وہ سر (دماغ) کہ جس میں ساز و سامان (کا سودا / ہوس) نہیں ہے۔
دردِ عشق از تندرستی خوشترست
گرچہ بیش از صبر درمانیش نیست
عشق کا درد تندرستی سے بہتر ہے اگرچہ صبر سے آگے (صبر کے سوا) اسکا کوئی درمان نہیں ہے۔
--------
وہ کہ گر من بازبینَم روئے یارِ خویش را
تا قیامت شکر گویَم کردگارِ خویش را
اے کاش کہ اگر میں اپنے دوست کا چہرہ دوبارہ دیکھ پاؤں، تو قیامت تک اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتا رہوں۔
گبر و ترسا و مسلماں ھر کسی در دینِ خویش
قبلۂ دارَند و ما زیبا نگارِ خویش را
یہودی و نصرانی و مسلمان، سب کا اپنے اپنے دین میں اپنا قبلہ اور ہمارا (قبلہ) خوبصورت چہرے والا ہے۔
--------
از ہر چہ می رَوَد سخنِ دوست خوشترست
پیغامِ آشنا، نفَسِ روح پرورست
میں کہیں بھی جاؤں دوست کی باتیں ہی سب سے بہتر ہیں، آشنا کا پیغام روح پرور نفس ہے۔
ھر گز وجودِ حاضرِ غایب شنیدہ ای
من درمیانِ جمع و دلم جائے دیگرست
کیا کبھی سنا کہ کوئی حاضر وجود غائب ہو گیا، (ہاں مگر میں) کہ ہجوم میں ہوتا ہوں اور میرا دل کہیں اور ہوتا ہے۔
ابنائے روزگار بہ صحرا روَند و باغ
صحرا و باغ زندہ دلاں کوئے دلبرست
دنیا داروں کیلیئے صحرا اور باغ روزی کے ذریعے ہیں جب کہ زندہ دلوں کیلیئے یہی دلبر کے کوچے ہیں۔
شب ھائے بے تو ام شبِ گورست در خیال
ور بے تو بامداد کُنَم روزِ محشرست
تیرے بغیر راتیں مجھے قبر کی راتیں لگتی ہیں اور تیرے بغیر دن مجھے محشر کا دن لگتا ہے۔
--------
بر من کہ صبوحی زدہ ام، خرقہ حرامست
اے مجلسیاں راہِ خرابات کدامست
مجھ پر کہ میں صبوحی زدہ (شراب پینے والا) ہوں، خرقہ پوشی حرام ہے، اے (خرقہ پوش) ہم نشینو یہ بتاؤ کہ مے کدے کی راہ کدھر ہے۔
غیرت نَگذارَد کہ بگویَم کہ مرا کشت
تا خلق نَدانَند کہ معشوقہ چہ نامست
میری غیرت گوارہ نہیں کرتی کہ میں یہ بتاؤں کہ مجھے کس نے مارا، تا کہ خلق کو یہ علم نہ ہو سکے کہ ہمارے محبوب کا کیا نام ہے۔
--------
بَدو گفتم کہ مشکی یا عبیری
کہ از بوئے دل آویزِ تو مَستَم
میں نے اس سے کہا کہ تو مشکی ہے یا عبیری (دونوں خوشبو کی قسمیں ہیں) کہ تیری دل آویز خوشبو سے مَیں مست ہوا جاتا ہوں۔
بَگفتا من گِلے ناچیز بُودم
و لیکن مُدّتے با گُل نَشِستَم
اس نے کہا میں تو ناچیز مٹی تھی لیکن ایک مدت تک گُل کے ساتھ نشست رہی ہے۔
جمالِ ہمنشیں در من اثَر کرد
وگرنہ من ہمہ خاکم کہ ہَستَم
یہ تو ہمنشیں کے جمال کا اثر ہے، وگرنہ میری ہستی تو محض خاک ہے۔
--------
برگِ درختانِ سبز پیش خداوند ہوش
ہر ورقے دفتریست معرفتِ کردگار
صاحبِ عقل و دانش کے سامنے سبز درختوں کا ایک ایک پتا کردگار کی معرفت کے لیے ایک بڑی کتاب ہے۔
--------
گر از بسیطِ زمیں عقل مُنعَدَم گردد
بخود گماں نَبرد ہیچ کس کہ نادانَم
اگر روئے زمین سے عقل معدوم بھی ہو جائے تو پھر بھی کوئی شخص اپنے بارے میں یہ خیال نہیں کرے گا کہ میں نادان ہوں۔
--------
دیدۂ سعدی و دل ہمراہِ تست
تا نہ پنداری کہ تنہا می روی
سعدی کے دیدہ و دل تیرے ہمراہ ہیں، تا کہ تجھے یہ خیال نہ آئے (تو یہ نہ سوچے) کہ تُو تنہا جا رہا ہے (تنہا ہے)۔
--------
کسے را کہ شیطاں بَوَد پیشوا
کجا باز گردد براہِ خدا
جس کا راہ نُما شیطان ہو، وہ کب خدا کی راہ پر واپس آتا ہے۔
--------
مزار سعدیبعد از وفات تربتِ ما در زمیں مَجو
در سینہ ہائے مَردمِ عارف مزارِ ما
وفات کے بعد میری قبر زمین میں تلاش مت کرنا، کہ عارف لوگوں کہ سینوں میں میرا مزار ہے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 1, 2008

سرخ گائے، ہمنوا اور گمنام

میں کچھ زیادہ لائق طالب علم تو نہیں تھا لیکن بہرحال اتنا نالائق بھی نہیں تھا کہ بالکل بدھو ہی کہلواتا لیکن بچپن کی کچھ نالائقیاں ایسی ہیں کہ مجھے اکثر یاد آتی ہیں، کبھی ان پر غصہ آتا تھا اور اب ہنسی آتی ہے۔
میں شاید چھٹی جماعت میں تھا اور تازہ تازہ انگریزی کا منہ دیکھا تھا اور میرے والد صاحب مرحوم میری انگریزی پر بہت توجہ دیتے تھے، ان دنوں ٹی وی پر کسی دودھ کا اشتہار چلتا تھا جس میں وہ کہتے تھے “ریڈ کاؤ مِلک”۔ ایک دن ٹی وی پر وہ اشتہار چلا تو والد صاحب نے پوچھا۔
“وارث، ریڈ کاؤ مِلک کا کیا مطلب ہے۔”
“جی”
“ہاں کیا مطلب ہے۔”
“وہ، جی، وہ گائے، گائے۔۔۔۔۔۔۔۔”
“کیا گائے گائے، بھئی مطلب بتاؤ، اچھا چلو ایک ایک لفظ کا مطلب بتاؤ، ریڈ کا کیا مطلب ہے”
“سرخ”
“اور کاؤ کا”
“گائے”
“اور ملک کا”
“دودھ”
“تو ریڈ کاؤ ملک کا کیا مطلب ہوا؟”
“جی، وہ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
“ہاں ہاں”
“جی، گائے کا سرخ دودھ”
والد صاحب نے یہ سنا تو بے اختیار ہنسنا شروع کر دیا اور کہا بیوقوف کبھی دودھ بھی سرخ ہوتا ہے، اسکا مطلب ہے سرخ گائے کا دودھ۔
ٹی وی کے حوالے سے ہی ایک دوسرا واقعہ جس پر میں گھر میں سب لوگوں کی بے رحمانہ ہنسی کا نشانہ بنا تھا، وہ بھی کم و بیش اسی زمانے کا ہے۔ اردو پڑھنے کا شوق مجھے بہت تھا اور اپنی جماعت سے بڑی جماعتوں کی اردو کی کتابیں پڑھا کرتا تھا اور گھر میں اپنی اردو دانی کی دھاک بٹھا رکھی تھی۔
ان دنوں قوالی میں صابری برادران کا طوطی بولتا تھا لیکن نصرت فتح علی خان نے بھی اپنی لا جواب قوالیوں سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانا شروع کر دیا تھا۔ ہمارا سارا گھر بشمول والد صاحب اور والدہ صاحبہ کے قوالیاں بڑے شوق سے سنا کرتا تھا۔ پی ٹی وی پر شاید ہر جمعرات کی رات کو ایک محفل سماع دکھائی جاتی تھی اور اسکے اشتہار وہ کافی دن پہلے ہی چلانے شروع کر دیتے تھے۔ ایک دن جب ہم سب گھر والے بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے تو نصرت فتح علی خان کی قوالی کا ایک اشتہار چلا، نصرت فتح علی خان قوال اور ہمنوا۔
والدہ بولیں، اب یہ لوگ نصرت کی قوالیاں زیادہ لگاتے ہیں۔ والد صاحب نے تائید کی اور کہا، ہاں پہلے تو صرف صابری برادران یا عزیز میاں قوال کی قوالیاں ہوتی تھیں لیکن اب اسکی بھی کافی قوالیاں ہوتی ہیں۔ میں جو پاس بیٹھا سن رہا تھا، شو مئی قسمت سے بولا، لیکن ابو یہ جو ہر قوالی میں ہمنوا ہوتا ہے سب سے زیادہ قوالیاں تو اسی کی ہوتی ہیں۔
میری بات سننی تھی کہ سب بے اختیار قہقہے مار کر ہنسنے لگے اور لگے میری اردو دانی کا مذاق اڑانے، والد صاحب نے کہا، الو ہمنوا کوئی قوال نہیں ہے بلکہ اسکے ساتھ جو قوالی کرنے والے ہوتے ہیں ان کو ہمنوا کہتے ہیں۔
مجھے “اقوالِ زریں” پڑھنے کا بھی بہت شوق رہا ہے اور لطف اس وقت آتا تھا جب صاحبِ قول کا نام بھی ساتھ لکھا ہوتا تھا لیکن اکثر اقوال ایسے ہوتے تھے جن کے نیچے گمنام لکھا ہوتا تھا، خیر اردو کے گمنام کا تو کوئی مضائقہ نہیں تھا لیکن مصیبت اس وقت پڑی جب انگریزی اقوال کے ساتھ “اینانیمس” لکھا ہوتا تھا۔ میری عادت یہ بھی ہوتی تھی کہ جب کسی مشاہیر کا قول پسند آتا تھا تو پھر اس کے متعلق معلومات بھی ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑتا تھا، اب جب کافی جگہ اقوال کے نیچے مجھے “اینانیمس” لکھا نظر آیا تو میں نے سوچا یہ کوئی بہت بڑا بندہ ہوگا تبھی تو اتنے پتے کی باتیں کرتا ہے اور جب کالج کی لائبریری اور ادھر ادھر کافی جگہ ڈھونڈ کر تھک گیا تو بلآخر ایک لغت نے میری مدد کی اور علم ہوا کہ یہ کوئی حضرت نہیں بلکہ “گمنام” کی انگلش ہے۔ اس دفعہ کسی نے ہنسی تو نہیں اڑائی لیکن اپنے آپ سے بہت شرمندہ ہوا کہ اتنا بڑا ہو کر بھی ایک لفظ کا مطلب نہ جان سکا۔
خیر اپنی جہالت کا ماتم میں کر چکا لیکن “گمنام” میرے ذہن سے نہیں نکلتا اور اب جب کبھی کوئی شعر بغیر شاعر کے نام کے لکھا دیکھتا ہوں تو بہت افسوس ہوتا ہے بلکہ شعر پڑھنے کو ہی دل نہیں کرتا، شاید کوئی خفت کہیں چُھپی ہوئی ہے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 28, 2008

اُو اے غالب

پچھلے کچھ دنوں سے میرے گھر کا ماحول کافی خراب ہے کہ ہماری بیگم صاحبہ ہم سے بہت نالاں ہیں، وجہ اسکی کوئی خاص تو نہیں لیکن اگر کسی کو شعر و ادب سے للہی بغض ہو تو کیا کیا جا سکتا ہے۔ جی ہاں ہماری بیگم صاحبہ کو نفرت ہے شعر و ادب و کتب سے۔
اس سے یہی برداشت نہیں ہو رہا تھا کہ میں گھر میں اپنا زیادہ تر وقت کتابوں میں یا کمپیوٹر کے سامنے گزارتا ہوں تو یہ کیسے ہضم ہو کہ میں بچوں کو بھی شعر یاد کروانے شروع کر دوں۔
کچھ دن پہلے میں گھر میں بیٹھا ہوا تھا کہ غالب کا شعر یاد آ گیا۔
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
نہ جانے جی میں کیا آیا کہ میں نے اپنے دونوں بیٹوں، سات سالہ حسن اور پانچ سالہ احسن سے کہا کہ جو کوئی بھی یہ شعر یاد کرے گا اسے انعام ملے گا۔ اب انعام کے لالچ میں دونوں نے شعر یاد کرنا شروع کر دیا بلکہ کر بھی لیا گو کچھ گڑ بڑ ضرور کر جاتے ہیں، حسن ‘ناداں’ کو مسلسل ‘نادان’ پڑھ رہا ہے اور احسن ‘آخر’ کو پہلے مصرعے میں ادا کرتا ہے۔ لیکن میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے کہ میں نے غالب کے بیج اپنے گھر میں بونے شروع کر دیے ہیں، اور بیگم صاحبہ کا جل جل کے برا حال ہو رہا ہے۔
اس پر مستزاد یہ کہ میری دو سالہ بیٹی فاطمہ کو غالب کی تصویر کی پہچان ہو گئی ہے، وہ جب بھی دیوانِ غالب پر غالب کی تصویر یا کمپیوٹر پر میرے بلاگ پر لگی ہوئی تصویر دیکھتی ہے تو زور زور سے چلانا شروع کر دیتی ہے “اُو اے غالب، اُو اے غالب۔” میں بتا نہیں سکتا کہ اس وقت مجھے کتنی خوشی ہوتی ہے۔ مرزا غالبیاد تو میں نے اسے ‘اقبال’ کا نام بھی کروا دیا ہے لیکن ابھی تک اقبال کی اسے پہچان نہیں ہو سکی اور ہار بار بتانا پڑتا ہے کہ یہ اقبال ہے۔
اور فاطمہ کیلیئے غالب کی یہ تصویر اس پوسٹ میں لگا رہا ہوں کہ ‘اُو اے غالب، اُو اے
غالب” کی صدائیں میرے کانوں مین رس گھولتی رہیں اور بیگم صاحبہ کے سینے پر مونگ دلتی رہیں۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 26, 2008

علامہ اقبال کی ایک فارسی غزل مع اردو ترجمہ - می تَراشَد فکرِ ما ہر دم خداوندے دِگر

پیامِ مشرق علامہ اقبال کی خوبصورت ترین کتب میں سے ہے، اسی لا جواب کتاب سے ایک لا جواب غزل جو مجھے بہت پسند ہے۔ یہ غزل نہ صرف علامہ کی خیال آفرینی کی بہترین مثال ہے بلکہ تغزل سے بھی بھر پور ہے جو کہ علامہ کا ‘ٹریڈ مارک’ تو نہیں ہے لیکن پیامِ مشرق کی کافی غزلیں اس رنگ میں ہیں۔

می تَراشَد فکرِ ما ہر دم خداوندے دِگر
رَست از یک بند تا افتاد دَر بندے دگر
ہماری فکر ہر دم ایک نیا خدا تراشتی ہے، جب وہ ایک قید سے نکلتی ہے تو کسی اور قید میں گرفتار ہوجاتی ہے۔

برسَرِ بام آ، نقاب از چہرہ بیباکانہ کش
نیست در کوئے تو چُوں من آرزو مندے دِگر
بام پر آ اور بے باک ہو کر اپنے چہرے سے نقاب اتار دے کہ تیرے کوچے میں مجھ جیسا تیرا کوئی اور آرزو مند نہیں ہے۔

بسکہ غیرت می بَرَم از دیدۂ بیناے خویش
از نگہ بافَم بہ رخسارِ تو رُوبندے دِگر
تیرا نظارہ کرنے والی اپنی ہی آنکھ سے مجھے غیرت آرہی ہے۔ اسلیے میں نظروں سے تیرے رخسار پر ایک اور نقاب بن رہا ہوں۔

یک نگہ، یک خندۂ دُزدیدہ، یک تابندہ اشک
بہرِ پیمانِ محبت نیست سوگندے دِگر
ایک نگاہ، ایک زیرِ لب تبسم، ایک چمکتا ہوا آنسو، محبت کے پیمان کیلیے اس کے علاوہ اور کوئی قسم نہیں ہے۔

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال
Allama Iqbal, علامہ اقبال
عشق را نازم کہ از بیتابیِ روزِ فراق
جانِ ما را بست با دردِ تو پیوندے دِگر
اپنے عشق پر نازاں ہوں کہ اس نے فراق کے دن کی بیتابی سے میری جان کا تیرے غم کے ساتھ ایک اور پیوند لگا دیا ہے۔

تا شَوی بیباک تر در نالہ اے مرغِ بہار
آتشے گیر از حَریمِ سینہ ام چندے دِگر
اے بہار کے پرندے تا کہ تو اپنے نالے میں زیادہ بیباک ہوجائے، میرے سینے سے کچھ اور آگ لے لے۔

چنگِ تیموری شکست، آہنگِ تیموری بجاست
سُر بروں می آرد از سازِ سمرقندے دِگر
تیمور کا رباب تو ٹوٹ گیا مگر اس سے نکلنے والی آواز اب تک باقی ہے۔ وہی نغمہ اب ایک اور سمرقند کے ساز سے باہر آرہا ہے۔ (علامہ کا یہ شعر انقلابِ رُوس اور کمیونزم کے پس منظر میں ہے)۔

رہ مَدہ در کعبہ اے پیرِ حرم اقبال را
ہر زماں در آستیں دارَد خداوندے دِگر
اے حرم کے پیر، اقبال کو کعبہ میں جانے کیلیے راہ نہ دے، کہ وہ ہر زمانے میں اپنی آستیں میں ایک نیا خدا رکھتا ہے۔
————

بحر - بحر رمل مثمن محذوف
افاعیل - فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلُن(آخری رکن فاعلن میں فاعِلان بھی آ سکتا ہے)

اشاری نظام - 2212 2212 2212 212
(آخری 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -
می تَراشَد فکرِ ما ہر دم خداوندے دِگر
رَست از یک بند تا افتاد دَر بندے دگر

می تراشد - فاعلاتن - 2212
فکرِ ما ہر - فاعلاتن -2212
دم خداون - فاعلاتن - 2212
دے دگر - فاعلن - 212

رست از یک - فاعلاتن - 2212
بند تا اف - فاعلاتن - 2212
تاد در بن - فاعلاتن - 2212
دے دگر - فاعلن - 212
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 24, 2008

امیر خسرو کی ایک غزل مع تراجم - جاں ز تَن بُردی و دَر جانی ہنوز

امیر خسرو کی ایک خوبصورت فارسی غزل مع تراجم۔
شعرِ خسرو
جاں ز تَن بُردی و دَر جانی ہنوز
درد ہا دادی و درمانی ہنوز
تُو میرے جسم سے دل کو نکال کر لے گیا لیکن اسکے اندر جان ابھی باقی ہے، تو نے بہت درد دیئے لیکن انکا علاج ابھی باقی ہے۔
منظوم ترجمہ مسعود قریشی
تن سے جاں لے کر بھی تُو جاں ہے ابھی
درد دے کر بھی تو درماں ہے ابھی
شعرِ خسرو
آشکارا سینہ ام بشگافتی
ہم چُناں در سینہ پنہانی ہنوز
تو نے میرے سینے کو پھاڑ دیا ہے لیکن ابھی تک تُو اسی طرح میرے سینے میں پوشیدہ ہے۔
مسعود قریشی
سینہ میرا آشکارا کر کے چاک
میرے سینے میں تو پنہاں ہے ابھی
شعرِ خسرو
مُلکِ دل کردی خراب از تیغِ ناز
داندریں ویرانہ سلطانی ہنوز
اپنی تیغِ ناز سے تُو نے میرے دل کے ملک کو ویران کر دیا لیکن اس ویرانے میں ابھی تک تیری ہی حکمرانی ہے۔
مسعود قریشی
ملکِ دل ویراں ہے تیغِ ناز سے
تو ہی ویرانے میں سلطاں ہے ابھی
شعرِ خسرو
ہر دو عالم قیمتِ خود گفتہ ای
نرخ بالا کُن کہ ارزانی ہنوز
تو نے اپنی قیمت دونوں جہان بتائی ہے، اپنا نرخ بڑھا کہ یہ ابھی تک ارزاں ہے۔
مسعود قریشی
اپنی قیمت دو جہاں تُو نے کہی
نرخ اونچا کر، تُو ارزاں ہے ابھی
شعرِ خسرو
جور کردی سالہا چوں کافراں
بہرِ رحمت نامسلمانی ہنوز
کافروں کی طرح تو نے سال ہا سال ظلم و ستم کئے لیکن رحمت کیلیئے ابھی تک نا مسلمانی موجود ہے۔
شعرِ خسرو
جاں ز بندِ کالبد آزاد گشت
دل بہ گیسوئے تو زندانی ہنوز
جان جسم کی قید سے آزاد ہو گئی ہے لیکن دل ابھی تک تیری زلفوں کی قید میں ہے۔
مسعود قریشی
جاں ہوئی آزاد تن کی قید سے
دل کو تیری زلف زنداں ہے ابھی
شعرِ خسرو
Amir Khusro, امیر خسرو, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
Amir Khusro, امیر خسرو
پیری و شاہد پرستی نا خوش است
خسروا تا کے پریشانی ہنوز
وقتِ پیری شاہد پرستی اچھی بات نہیں، خسرو تو کب تک اس پریشانی سے دوچار رہے گا کہ جو ابھی تک ہے۔
مسعود قریشی
پیر ہو کر بھی وہ ہے شاہد پرست
اس لئے خسرو پریشاں ہے ابھی
————
بحر - بحر رمل مسدس محذوف
افاعیل - فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلُن
(آخری رکن میں فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آ سکتا ہے)
اشاری نظام - 2212 2212 212
(آخری رکن میں 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع -
جاں ز تن بُردی و در جانی ہنوز
درد ہا دادی و درمانی ہنوز
جا ز تن بر - فاعلاتن - 2212
دی و در جا - فاعلاتن - 2212
نی ہنوز - فاعلان - 1212
درد ہا دا - فاعلاتن - 2212
دی و در ما - فاعلاتن - 2212
نی ہنوز - فاعلان - 1212
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 20, 2008

فیض مرحوم کی برسی اور انکی خوبصورت فارسی نعت مع ترجمہ

آج فیض احمد فیض مرحوم کی چوبیسویں برسی ہے، آج کے دن اقلیمِ سخن کا ایک اور فرمانروا ہم سے بچھڑ گیا۔
ع - خاک میں، کیا صُورتیں ہوںگی کہ پنہاں ہو گئیں
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,Faiz Ahmed Faiz, فیض احمد فیض
Faiz Ahmed Faiz, فیض احمد فیض
ہمارا شہر سیالکوٹ اگر شہرِ اقبال کہلاتا ہے تو یہ شہر فیض کے فیض سے بھی فیضیاب ہے کہ شہرِ فیض بھی ہے گویا کہ ایک اور “سودائی” کا شہر۔ اقبال اور فیض میں سیالکوٹ کے علاوہ شمس العلماء مولوی سید میر حسن کا ذکر بھی قدرِ مشترک کے طور پر کیا جاتا ہے کہ آپ دونوں کے استاد تھے لیکن ایک اور بہت اہم قدرِ مشترک جس کا ذکر عموماً نہیں کیا جاتا وہ پروفیسر یوسف سلیم چشتی ہیں۔ پروفیسر صاحب اقبال کے سب سے بڑے شارح و مفسر اور ایک طرح سے دوست شاگرد تھے کہ اقبال کے کلام کے مطالب خود اقبال سے مدتوں تک سمجھے اور فیض کے وہ استاد تھے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ پروفیسر چشتی نے اردو دنیا کو فیض کا فیض عطا کیا تو غلط نہ ہوگا۔ فیض احمد فیض خود فرماتے ہیں۔
“جب دسویں جماعت میں پہنچے تو ہم نے بھی تک بندی شروع کر دی اور ایک دو مشاعروں میں شعر پڑھ دیے۔ منشی سراج دین نے ہم سے کہا میاں ٹھیک ہے تم بہت تلاش سے شعر کہتے ہو مگر یہ کام چھوڑ دو، ابھی تو تم پڑھو لکھو اور جب تمھارے دل و دماغ میں پختگی آ جائے تب یہ کام کرنا۔ اس وقت یہ تضیعِ اوقات ہے۔ ہم نے شعر کہنا ترک کر دیا۔ جب ہم مَرے کالج سیالکوٹ میں داخل ہوئے اور وہاں پروفیسر یوسف سلیم چشتی اردو پڑھانے آئے جو اقبال کے مفسر بھی ہیں، تو انہوں نے مشاعرے کی طرح ڈالی اور کہا طرح پر شعر کہو۔ ہم نے کچھ شعر کہے اور ہمیں داد ملی۔ چشتی صاحب نے منشی سراج الدین کے بالکل خلاف مشورہ دیا اور کہا فوراً اس طرف توجہ کرو، شاید تم کسی دن شاعر ہو جاؤ۔”
فیض کے کلیات “نسخہ ھائے وفا” میں شامل آخری کتاب “غبار ایام ” کا اختتام فیض کی ایک خوبصورت فارسی نعت پر ہوتا ہے اور شاید کلیات میں یہ واحد نعت ہے۔ بہت دنوں سے ذہن میں تھا کہ اس نعت کو لکھوں اور آج فیض کی برسی کے موقعے پر اس خوبصورت نعت کر مع ترجمہ پوسٹ کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔
اے تو کہ ہست ہر دلِ محزوں سرائے تو
آوردہ ام سرائے دِگر از برائے تو
اے کہ آپ (ص) کا ہر دکھی دل میں ٹھکانہ ہے، میں نے بھی آپ کے لیے ایک اور سرائے بنائی ہے یعنی کہ میرے دکھی دل میں بھی آپ کا گھر ہو جائے۔
خواجہ بہ تخت بندۂ تشویشِ مُلک و مال
بر خاک رشکِ خسروِ دوراں گدائے تو
تخت پر بیٹھا ہوا شاہ ملک و مال کی تشویش میں مبتلا ہے، جبکہ خاک پر بیٹھا ہوا آپ کا گدا وقت کے شاہنشاہ کے لیے بھی باعثِ رشک ہوتا ہے۔
آنجا قصیدہ خوانیِ لذّاتِ سیم و زر
اینجا فقط حدیثِ نشاطِ لِقائے تو
وہاں (دنیا داروں کے ہاں) سونے اور چاندی کی لذات کے قصیدے ہیں جب کہ یہاں (ہم خاکساروں کے ہاں) فقط آپ کے دیدار کے نشاط کی باتیں ہیں۔
آتش فشاں ز قہر و ملامت زبانِ شیخ
از اشک تر ز دردِ غریباں ردائے تو
شیخ ( اور واعظ) کی زبان قہر اور ملامت سے آتش فشاں بنی ہوئی ہے جبکہ غریبوں کے درد کی وجہ سے آپ کی چادر مبارک آپ کے آنسو سے تر ہے۔
باید کہ ظالمانِ جہاں را صدا کُنَد
روزے بسُوئے عدل و عنایت صدائے تو
ضروری ہے کہ دنیا کے ظالم (جوابی) صدا کریں، ایک (کسی) دن عدل و عنایت کی طرف (لے جانے والی) آپ کی آواز پر یعنی آپ کی عدل و عنایت کی طرف بلانے والی آواز پر ظالموں کو لبیک کہنا ہی پڑے گا۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 19, 2008

میر انیس کی چند رباعیاں

کسی زمانے میں کہا جاتا تھا کہ بگڑا گویّا، قوّال بن جاتا ہے اور بگڑا شاعر مرثیہ گو۔ قوّالوں کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن میر ببر علی انیس نے اردو میں شاہکار مرثیے کہہ کر اس ضرب المثل کو ضرور غلط ثابت کر دیا ہے بلکہ بعض اردو نقادوں کے نزدیک تو وہ اردو کے سب سے بڑے شاعر ہیں، اور تو اور مولانا شبلی نعمانی کی بھی میر انیس کی شاعری کے متعلق رائے بہت بلند ہے۔
شاعری میر انیس کے خون میں رچی بسی تھی کہ انکے والد میر خلیق اور بالخصوص دادا میر حسن بہت بلند پایہ شاعر تھے۔ اسی لیے تو آپ نے کہا تھا۔
عمر گزری ہے اسی دشت کی سیّاحی میں
پانچویں پشت ہے شبّیر کی مدّاحی میں
میر انیس کا نام گو مرثیے کی وجہ سے ہے لیکن آپ نے بہت بلند پایہ رباعیات بھی کہی ہیں اور انہی میں سے چند لکھ رہا ہوں۔
(1)
رتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہے
وہ دل میں فروتنی کو جا دیتا ہے
کرتے ہیں تہی مغز ثنا آپ اپنی
جو ظرف کہ خالی ہو صدا دیتا ہے
(2)
گوہر کو صَدَف میں آبرو دیتا ہے
بندے کو بغیر جستجو دیتا ہے
انسان کو رزق، گُل کو بُو، سنگ کو لعل
جو کچھ دیتا ہے جس کو، تُو دیتا ہے
(3)
کس منہ سے کہوں لائقِ تحسیں میں ہُوں
کیا لُطف جو گُل کہے رنگیں میں ہُوں
ہوتی ہے حلاوتِ سُخَن خود ظاہر
کہتی ہے کہیں شکر کہ شیریں میں ہُوں
(4)
کیا کیا دنیا سے صاحبِ مال گئے
دولت نہ گئی ساتھ، نہ اطفال گئے
پہنچا کے لحد تلک پھر آئے سب لوگ
ہمراہ اگر گئے تو اعمال گئے
Meer Anees, میر انیس, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Rubai, رباعی
Meer Anees, میر انیس
(5)
سینے میں یہ دم شمعِ سحر گاہی ہے
جو ہے اس کارواں میں وہ راہی ہے
پیچھے کبھی قافلہ سے رہتا نہ انیس
اے عمرِ دراز تیری کوتاہی ہے
(6)
پہنچا جو کمال کو وطن سے نکلا
قطرہ جو گہر بنا عدن سے نکلا
تکمیلِ کمال کی غریبی ہے دلیل
پختہ جو ثمر ہوا چمن سے نکلا
(7)
خاموشی میں یاں لذّتِ گویائی ہے
آنکھیں جو ہیں بند، عین بینائی ہے
نے دوست کا جھگڑا ہے نہ دشمن کا فساد
مرقد بھی عجب گوشۂ تنہائی ہے
(8)
وہ موجِ حوادث کا تھپیڑا نہ رہا
کشتی وہ ہوئی غرق، وہ بیڑا نہ رہا
سارے جھگڑے تھے زندگی کے انیس
جب ہم نہ رہے تو کچھ بکھیڑا نہ رہا
(9)
عزّت رہے یارو آشنا کے آگے
محجوب نہ ہوں شاہ و گدا کے آگے
یہ پاؤں چلیں تو راہِ مولا میں چلیں
یہ ہاتھ جب اٹھیں تو خدا کے آگے
(10)
گُلشن میں پھروں کہ سیرِ صحرا دیکھوں
یا معدن و کوہ و دشت و دریا دیکھوں
ہر جا تری قدرت کے ہیں لاکھوں جلوے
حیراں ہُوں کہ دو آنکھوں سے کیا کیا دیکھوں
(11)
آدم کو عجَب خدا نے رتبا بخشا
ادنٰی کے لیے مقامِ اعلٰی بخشا
عقل و ہنر و تمیز و جان و ایمان
اِس ایک کفِ خاک کو کیا کیا بخشا
(12)
کیوں زر کی ہوَس میں دربدر پھرتا ہے
جانا ہے تجھے کہاں؟ کدھر پھرتا ہے؟
اللہ رے پیری میں ہوَس دنیا کی
تھک جاتے ہیں جب پاؤں تو سر پھرتا ہے
(13)
دنیا بھی عجب سرائے فانی دیکھی
ہر چیز یہاں کی آنی جانی دیکھی
جو آ کے نہ جائے وہ بڑھاپا دیکھا
جو جا کے نہ آئے وہ جوانی دیکھی
(14)
افسوس زمانے کا عجَب طَور ہوا
کیوں چرخِ کہن آج نیا دَور ہوا
بس یاں سے کہیں اور چلو جلد انیس
اب یاں کی زمیں اور، فلَک اَور ہوا

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 17, 2008

خواجہ حیدر علی آتش کی ایک غزل

خواجہ حیدر علی آتش کا اردو کلاسیکی شاعری میں ایک اپنا مقام ہے۔ اور انکا شمار مستند اساتذہ میں ہوتا ہے۔ ساری زندگی بانکے پن سے گزاری کہ مشاعروں میں بھی تلوار لگا کر جاتے تھے۔ کیا خوبصورت شاعری ہے آتش کی، انکی ایک غزل جس کے کئی اشعار ضرب المثل بن چکے ہیں۔
دہَن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے
کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے

زمینِ چَمَن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Khwaja Haider Ali Aatish, خواجہ حیدر علی آتش, classical urdu poetry, کلاسیکی اردو شاعری
Khwaja Haider Ali Aatish
 خواجہ حیدر علی آتش
نہ گورِ سکندر، نہ ہے قبرِ دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے

تمھارے شہیدوں میں داخل ہوئے ہیں
گل و لالہ و ارغواں کیسے کیسے

بہار آئی ہے، نشّہ میں جھومتے ہیں
مُریدانِ پیرِ مُغاں کیسے کیسے

تپِ ہجر کی کاہشوں نے کیے ہیں
جُدا پوست سے استخواں کیسے کیسے

نہ مڑ کر بھی بے درد قاتل نے دیکھا
تڑپتے رہے نیم جاں کیسے کیسے

دل و دیدہِ اہلِ عالم میں گھر ہے
تمہارے لئے ہیں مکاں کیسے کیسے

توجہ نے تیری ہمارے مسیحا
توانا کیے ناتواں کیسے کیسے

غم و غصہ و رنج و اندوہ و حرماں
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے

تری کلکِ قدرت کے قربان آنکھیں
دکھائے ہیں خوش رو جواں کیسے کیسے

کرے جس قدر شکرِ نعمت، وہ کم ہے
مزے لوٹتی ہے، زباں کیسے کیسے
————
بحر - بحر متقارب مثمن سالم
افاعیل - فَعُولُن فَعُولُن فَعُولُن فَعُولُن
اشاری نظام - 221 221 221 221
تقطیع -
دہَن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے
کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے
دہن پر - فعولن - 221
ہِ ان کے - فعولن - 221
گما کے - فعولن - 221
سِ کیسے - فعولن - 221
کلا ما - فعولن - 221 (الفِ وصل استعمال ہوا ہے)
تِ ہے در - فعولن - 221
میا کے - فعولن - 221
سِ کیسے - فعولن - 221
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 15, 2008

جمیل الدین عالی کے چند دوہے

مرزا جمیل الدین احمد خان عالی کو ان کے ملی نغمے “جیوے جیوے پاکستان” اور روزنامہ جنگ کے کالموں نے ابدیت دے دی ہے لیکن اردو شاعری میں بھی انکی ایک مستقل حیثیت ہے اور کیوں نہ ہو کہ شاعری انکے خون میں رچی بسی ہے، دادا غالب کے دوست اور شاگرد، والد شاعر اور والدہ کا تعلق میر درد کے خاندان سے ہے۔ آپ صحیح معنوں میں ادبی نجیب الطرفین یا “ادیب الطرفین” ہیں!
دوہے اور عالی جی تو جیسے لازم و ملزوم ہو گئے ہیں۔ انکی کتاب “غزلیں، دوہے، گیت” سے چند دوہے۔
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Jamil-ud-Din Aali, جمیل الدین عالی, Doha, دوہہ
Jamil-ud-Din Aali, جمیل الدین عالی
دوہے کبت کہہ کہہ کر عالی من کی آگ بجھائے
من کی آگ بجھی نہ کسی سے، اسے یہ کون بتائے
--------
لئے پھریں دُکھ اپنے اپنے، راجہ میر فقیر
کڑیاں لاکھ ہیں رنگ برنگی، ایک مگر زنجیر
--------
عمر گنوا کر پیت میں ہم کو اتنی ہوئی پہچان
چڑھی ندی اور اُتر گئی، پر گھر ہو گئے ویران
--------
نا مرے سر کوئی طُرہ کلغی، نا کیسے میں چھدام
ساتھ میں ہے اک ناری سانوری اور اللہ کا نام
--------
بیتے دنوں کی یاد ہے کیسی ناگن کی پھنکار
پہلا وار ہے زہر بھرا اور دُوجا امرت دھار
--------
تہ میں بھی ہے حال وہی جو تہ کے اوپر حال
مچھلی بچ کر جائے کہاں جب جَل ہی سارا جال
--------
عالی اب کے کٹھن پڑا دیوالی کا تیوہار
ہم تو گئے تھے چھیلا بن کر، بھیّا کہہ گئی نار
--------
حیدر آباد کا شہر تھا بھیّا، اِندَر کا دربار
ایک ایک گھر میں سو سو کمرے، ہر کمرے میں نار
--------
اُودا اُودا بادل، گہری کالی گھٹا بن جائے
اس کے دھرم میں فرق ہے، جو اس موسم کو ٹھکرائے
--------
کوئی کہے مجھے نانک پنتھی کوئی کبیر کا داس
یہ بھی ہے میرا مان بڑھانا، ہے کیا میرے پاس
--------
اردو والے، ہندی والے، دونوں ہنسی اڑائیں
ہم دل والے اپنی بھاشا کس کس کو سکھلائیں
--------
دھیرے دھیرے کمر کی سختی، کُرسی نے لی چاٹ
چپکے چپکے من کی شکتی، افسر نے دی کاٹ
--------
کیا جانے یہ پیٹ کی آگ بھی کیا کیا اور جلائے
عالی جیسے مہا کَوی بھی “بابو جی” کہلائے
مزید پڑھیے۔۔۔۔