Jan 29, 2009

ابھی تو میں جوان ہوں - حفیظ جالندھری

ابو الاثر حفیظ جالندھری نے اپنی شاعری کے بارے میں کہا تھا اور کیا خوب کہا تھا۔

تشکیل و تکمیلِ فن میں جو بھی حفیظ کا حصّہ ہے
Hafeez Jalandhari, حفیظ جالندھری, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
Hafeez Jalandhari, حفیظ جالندھری
نصف صدی کا قصّہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں
پاکستان میں عام طور پر حفیظ جالندھری، ترانۂ پاکستان کے خالق ہونے کے حوالے سے جانے جاتے ہیں اور اردو شاعری کی دنیا میں اپنی مثنوی “شاہنامہ اسلام” کے حوالے سے، لیکن ان کی کچھ غزلیں اور نظمیں بھی ایسی ہیں جو اردو ادب میں زندہ جاوید ہو چکی ہیں اور انہی میں سے ایک “ابھی تو میں جوان ہوں” ہے۔
ابھی تو میں جوان ہوں

ہوا بھی خوش گوار ہے
گلوں پہ بھی نکھار ہے
ترنّمِ ہزار ہے
بہارِ پُر بہار ہے
کہاں چلا ہے ساقیا
اِدھر تو لوٹ، اِدھر تو آ
یہ مجھ کو دیکھتا ہے کیا
اٹھا سبُو، سبُو اٹھا
سبُو اٹھا، پیالہ بھر
پیالہ بھر کے دے اِدھر
چمن کی سمت کر نظر
سماں تو دیکھ بے خبر
وہ کالی کالی بدلیاں
افق پہ ہو گئیں عیاں
وہ اک ہجومِ مے کشاں
ہے سوئے مے کدہ رواں
یہ کیا گماں ہے بد گماں
سمجھ نہ مجھ کو ناتواں

خیالِ زہد ابھی کہاں
ابھی تو میں جوان ہوں

عبادتوں کا ذکر ہے
نجات کی بھی فکر ہے
جنون ہے ثواب کا
خیال ہے عذاب کا
مگر سنو تو شیخ جی
عجیب شے ہیں آپ بھی
بھلا شباب و عاشقی
الگ ہوئے بھی ہیں کبھی
حسین جلوہ ریز ہوں
ادائیں فتنہ خیز ہوں
ہوائیں عطر بیز ہوں
تو شوق کیوں نہ تیز ہوں
نگار ہائے فتنہ گر
کوئی اِدھر کوئی اُدھر
ابھارتے ہوں عیش پر
تو کیا کرے کوئی بشر
چلو جی قصّہ مختصر
تمھارا نقطۂ نظر

درست ہے تو ہو مگر
ابھی تو میں جوان ہوں

نہ غم کشود و بست کا
بلند کا نہ پست کا
نہ بود کا نہ ہست کا
نہ وعدۂ الست کا
امید اور یاس گم
حواس گم، قیاس گم
نظر کے آس پاس گم
ہمہ بجز گلاس گم
نہ مے میں کچھ کمی رہے
قدح سے ہمدمی رہے
نشست یہ جمی رہے
یہی ہما ہمی رہے
وہ راگ چھیڑ مطربا
طرَب فزا، الَم رُبا
اثر صدائے ساز کا
جگر میں آگ دے لگا
ہر ایک لب پہ ہو صدا
نہ ہاتھ روک ساقیا

پلائے جا پلائے جا
ابھی تو میں جوان ہوں

یہ گشت کوہسار کی
یہ سیر جوئبار کی
یہ بلبلوں کے چہچہے
یہ گل رخوں کے قہقہے
کسی سے میل ہو گیا
تو رنج و فکر کھو گیا
کبھی جو بخت سو گیا
یہ ہنس گیا وہ رو گیا
یہ عشق کی کہانیاں
یہ رس بھری جوانیاں
اِدھر سے مہربانیاں
اُدھر سے لن ترانیاں
یہ آسمان یہ زمیں
نظارہ ہائے دل نشیں
انھیں حیات آفریں
بھلا میں چھوڑ دوں یہیں
ہے موت اس قدر قریں
مجھے نہ آئے گا یقیں

نہیں نہیں ابھی نہیں
ابھی تو میں جوان ہوں
——–
بحر - بحر ہزج مربع مقبوض
(مربع یعنی ایک شعر میں چار رکن یا ایک مصرع میں دو رکن)

افاعیل - مَفاعِلُن مَفاعِلُن
(آخری رکن میں مسبغ شکل یعنی مفاعلن کی جگہ مفاعلان بھی آ سکتا ہے)

اشاری نظام - 2121 2121
(آخری 2121 کی جگہ 12121 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -
ہوا بھی خوش گوار ہے
گلوں پہ بھی نکھار ہے
ترنّمِ ہزار ہے
بہارِ پر بہار ہے

ہوا بھی خُش - مفاعلن - 2121
گوار ہے - مفاعلن - 2121
گلو پِ بی - مفاعلن - 2121
نکار ہے - مفاعلن - 2121
تَرَن نُ مے - مفاعلن - 2121
ہزار ہے - مفاعلن - 2121
بہار پر - مفاعلن - 2121
بہار ہے - مفاعلن - 2121



اور یہ نظم ملکہ پکھراج اور طاہرہ سیّد کی آواز میں





مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 27, 2009

بابائے اردو شاعری، ولی دکنی کی ایک غزل - تجھ لب کی صِفَت لعلِ بدخشاں سوں کہوں گا

بابائے اردو شاعری، شمس ولی اللہ المعروف بہ ولی دکنی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ آپ نے اردو شاعری کو حسن عطا کیا اور جو شاعری پہلے صرف منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے کی جاتی تھی آپ نے اسے باقاعدہ ایک صنف کا درجہ دیا اور یوں ایک ایسی بنیاد رکھی جس پر اردو شاعری کی پرشکوہ عمارت تعمیر ہوئی۔
مولانا محمد حسین آزاد، "آبِ حیات" میں فرماتے ہیں۔
ولی دکنی, Wali Dakani, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
ولی دکنی ایک خاکہ، Wali Dakani
"اس زمانے تک اردو میں متفرق شعر ہوتے تھے۔ ولی اللہ کی برکت نے اسے وہ زور بخشا کہ آج کی شاعری، نظمِ فارسی سے ایک قدم پیچھے نہیں، تمام بحریں فارسی کی اردو میں لائے۔ شعر کو غزل اور غزل کو قافیہ ردیف سے سجایا، ردیف وار دیوان بنایا۔ ساتھ اسکے رباعی، قطعہ، مخمس اور مثنوی کا راستہ بھی نکالا۔ انہیں ہندوستان کی نظم میں وہی رتبہ ہے جو انگریزی کی نظم میں چوسر شاعر کو اور فارسی میں رودکی کو اور عربی میں مہلہل کو۔"

مولانا آزاد کے زمانے تک ولی دکنی کو اردو کا پہلا شاعر مانا جاتا تھا، جدید تحقیق سے گو یہ اعزاز تو انکے پاس نہیں رہا لیکن اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے جو اوپر مولانا نے کہی ہے۔

ولی کی ایک خوبصورت غزل لکھ رہا ہوں، اس غزل میں جو متروک الفاظ ہیں انکے مترادف پہلے لکھ دوں تاکہ قارئین کو دشواری نہ ہو۔

سوں - سے
کوں - کو، کر
یو - یہ
سری جن - محبوب

تجھ لب کی صِفَت لعلِ بدخشاں سوں کہوں گا
جادو ہیں ترے نین، غزالاں سوں کہوں گا

دی حق نے تجھے بادشَہی حسن نگر کی
یو کشورِ ایراں میں سلیماں سوں کہوں گا

تعریف ترے قد کی الف دار، سری جن
جا سرو گلستاں کوں خوش الحاں سوں کہوں گا

مجھ پر نہ کرو ظلم، تم اے لیلٰیِ خوباں
مجنوں ہوں، ترے غم کوں بیاباں سوں کہوں گا

دیکھا ہوں تجھے خواب میں اے مایۂ خوبی
اس خواب کو جا یوسفِ کنعاں سوں کہوں گا

جلتا ہوں شب و روز ترے غم میں اے ساجن
یہ سوز ترا مشعلِ سوزاں سوں کہوں گا

یک نقطہ ترے صفحۂ رخ پر نہیں بے جا
اس مُکھ کو ترے صفحۂ قرآں سوں کہوں گا

زخمی کیا ہے مجھ تری پلکوں کی انی نے
یہ زخم ترا خنجر و بھالاں سوں کہوں گا

بے صبر نہ ہو اے ولی اس درد سے ہرگاہ
جلدی سوں ترے درد کی درماں سوں کہوں گا

———————

بحر - بحرِ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف

افاعیل: مَفعُولُ مَفَاعیلُ مَفَاعیلُ فَعُولُن(آخری رکن فعولن کی جگہ فعولان یا مفاعیل بھی آ سکتا ہے)

اشاری نظام - 122 1221 1221 221
(آخری رکن 221 کی جگہ 1221 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

تجھ لب کی صِفَت لعلِ بدخشاں سوں کہوں گا
جادو ہیں ترے نین، غزالاں سوں کہوں گا

تج لب کِ - مفعول - 122
صِفَت لعل - مفاعیل - 1221
بدخشا سُ - مفاعیل - 1221
کہو گا - فعولن - 221

جادو ہِ - مفعول - 122
ترے نین - مفاعیل - 1221
غزالا سُ - مفاعیل - 1221
کہو گا - فعولن - 221
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 23, 2009

ڈائری سے بلاگ تک

یادش بخیر، شاید میٹرک میں تھا کہ والد صاحب مرحوم نے تحفے میں‌ ملی ہوئی ایک ڈائری مجھے عنایت کردی۔ چند دن تک تو ڈائری یونہی پڑی رہی، پھر‌ سوچا کے اس میں کچھ لکھا جائے، سو سب سے پہلے 'خود ساختہ' محبت کی روداد لکھنے کی سوجھی!

لکھنے کا سوچا تو خیال آیا کہ اگر کسی نے پڑھ لی تو قیامت آ جائے گی، عمران سیریز پڑھنے کا اثر تو تھا ہی ذہن پر، سو فیصلہ کیا کہ اسے کسی کوڈ میں لکھا جائے اور وہ یہ کے ہر لفظ کو الٹا لکھ دو، ابھی شاید ایک جملہ ہی لکھا ہوگا کہ غبارے میں سے ہوا نکل گئی کہ یہ تو بہت آسان ہے، اسے مشکل بناؤ۔ جمع، نفی، ضرب اور تقسیم کو نمبر لگائے اور پھر ان کو حروفِ تہجی پر تقسیم کر کے علامتیں بنا لیں اور ان علامتوں‌ میں لکھنا شروع کیا۔ روداد اسطرح خاک لکھتا ایک ایک جملہ لکھنے کیلیے گھنٹوں‌ لگ جاتے تھے سو تائب ہو گیا۔

خیر، کالج پہنچا اور کچھ شعور آیا تو ایک دوسری ڈائری خریدی، اور اس میں اپنی بے وزن اور بے تکی شاعری لکھنی شروع کی، لیکن اس میں کافی مکالمے بھی لکھے تھے۔

یہ مکالمے چار اشخاص کے درمیان تھے، ایک وہ جو اپنا نصاب دل لگا کر پڑھتا تھا، دوسرا وہ جو اردو شعر و ادب و مطالعہ سے جنون کی حد تک محبت کرتا تھا اور چاہتا تھا کہ ہر وقت غیر نصابی کتب ہی پڑھی جائیں، تیسرا وہ جو یار باش تھا اور رات دیر گئے تک سیالکوٹ کینٹ کے ہوٹلوں میں دوستوں ‌کے ساتھ بیٹھ کر چائے اور سگریٹ پیتا تھا۔ تینوں کے شوق الگ تھے سو ایک دوسرے سے نالاں تھے، اور چوتھا انکا اجتماعی ضمیر تھا جو تھا تو مردہ لیکن ہمیشہ کفن پھاڑ کر بولتا تھا۔

یہ ڈائری کئی سال میرے پاس رہی لیکن لاہور میں ہاسٹل میں‌ کہیں‌ گم ہو گئی اور میرا ڈائری لکھنا بھی ہمیشہ کیلیے موقوف ہو گیا اور پھر کوئی بارہ برس کے بعد، جو کہ بہت سے بزرگوں کے نزدیک ایک منزل ہوتی ہے، میرے ہاتھ یہ بلاگ لگا اور اب مجھے ایسے ہی لگتا ہے کہ اپنی ڈائری ہی لکھ رہا ہوں اور شاید ہے بھی ایسا ہی، ہاں‌ فرق ہے تو اتنا کہ ڈائری کبھی چھپ چھپ کر تنہائیوں میں لکھا کرتا تھا اور بلاگ بقولِ شاعر:

ہم نے تو دل جلا کے سرِ عام رکھ دیا


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 16, 2009

میری ایک نئی غزل

اس غزل کا پہلا مصرعہ کم و بیش سات آٹھ ماہ تک میرے ذہن میں اٹکا رہا، لیکن ایک ماہ پہلے، جن دنوں کہ بلاگ سے فرصت تھی ایک رات یہ غزل مکمل ہو گئی سو یہاں لکھ رہا ہوں۔

چھیڑ دل کے تار پر، کوئی نغمہ کوئی دُھن
امن کی تُو بات کر، آشتی کے گا تُو گُن

ریشہ ریشہ تار تار، چاہے ہوں ہزار بار
سُن مرے دلِ فگار، وصل کے ہی خواب بُن

لوبھیوں کی بستی میں، مایا کے ترازو سے
فیصلہ کرے گا کون، کیا ہے پاپ کیا ہے پُن؟

سانس ہیں یہ چند پَل، آج ہیں نہیں ہیں کل
ہاں امَر وہ ہو گیا، زہر جام لے جو چُن

قریہ قریہ شہر شہر، موج موج لہر لہر
نام تیرا لے اسد، مہرباں کبھی تو سُن
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 3, 2008

پنجابی غزل از بابا نجمی - اکھّراں‌ وچ سمندر رکھّاں، سوچاں وچ جہان

بابا نجمی کی ایک خوبصورت پنجابی غزل۔

اکھّراں‌ وچ سمندر رکھّاں، سوچاں وچ جہان
سجدے کرن فرشتے مینوں، میرا ناں انسان

مینوں کِنج ہلا سکدے نیں، جھکّھڑ تے طوفان
کھڑا واں، سَت زمیناں ڈھا کے، چُک کے سَت اَسمان

جھوٹھا کیہڑا، سچّا کہیڑا، کِسراں کراں پچھان
کھاندے پئے نیں قسماں سارے سر تے رکھ قرآن
Baba Najmi, بابا نجمی, Punjabi Poetry, پنجابی شاعری
Baba Najmi, بابا نجمی
گڈ جیہا ایہہ جُثّا میرا بن جاندا اے پُھل
کچے پلے جدوں کھڈونے شامیں جپھیاں پان

میرے آل دوال نہ وَسّے، اک وی مذہب غیر
دسّے شہر دا قاضی، میرا سڑیا کِنج مکان

جم دی دھی نوں دبن والا فیر قانون بنا
ڈولے دے نال پُتّر والا، منگّے پیا مکان

اس دھرتی تے جِتھّے جِتھّے لڑ دے پئے نیں لوک
اپنا جُثّا ویکھاں بابا، ہر تھاں لہو لہان

(بابا نجمی - اکھراں وچ سمندر)
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 2, 2008

شیخ سعدی شیرازی کے چند اشعار مع ترجمہ

شیخ سعدی شیرازی, Sadi Sheerazi, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
شیخ سعدی شیرازی ایک خاکہ، Sadi Sheerazi
بلبلِ شیراز، شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی کا نامِ نامی کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ گلستانِ شیراز کو اپنے جن دو طوطیِ ہزار نوا پر تا ابد فخر رہے گا ان میں سعدی کا نام پہلے اور حافظ کا بعد میں ہے۔ شیخ سعدی ہمارے ہاں خاص طور پر اپنی حکایات اور گلستان و بوستان کی وجہ سے معروف ہیں لیکن ایرانی ناقدینِ فن کے ہاں سعدی کا نام بحیثیت غزل گو شاعر کے بہت بلند ہے۔ فارسی غزل کو رنگ و روپ سعدی نے ہی عطا کیا ہے، سعدی نہ صرف فارسی غزل کے امام ہیں بلکہ فارسی غزل کی جو بنیاد انہوں نے رکھی اسی پر بعد میں آنے غزل گو شعراء بالخصوص حافظ نے بلند و بالا و پر شکوہ عمارت کھڑی کر دی۔
کلیاتِ سعدی (با تصحیح محمد علی فروغی) مطبوعہ تہران سے اپنی پسند کے چند اشعار درج کرتا ہوں۔
خُدایا بحقِ بنی فاطمہ
کہ برِ قولِ ایماں کُنی خاتمہ
اے خدا حضرت فاطمہ (ع) کی اولاد کے صدقے میرا خاتمہ ایمان پر کرنا۔
اگر دعوتَم رد کُنی، ور قبول
من و دست و دامانِ آلِ رسول
چاہے تو میری دعا کو رد کر دے یا قبول کر، کہ میں آلِ رسول (ص) کے دامن سے لپٹا ہوا ہوں۔
چہ وَصفَت کُنَد سعدیِ ناتمام
علیکَ الصلوٰۃ اے نبیّ السلام
سعدی ناتمام و حقیر آپ (ص) کا کیا وصف بیان کرے، اے نبی (ص) آپ پر صلوۃ و سلام ہو۔
--------
گر دِلے داری بہ دلبَندی بَدہ
ضایع آں کشور کہ سلطانیش نیست
اگر دل رکھتا ہے تو اسے کسی دلدار کو دے دے، ضایع ہو جاتی ہے وہ سلطنت کہ جسکا کوئی سلطان نہ ہو۔
کامراں آں دل کہ محبوبیش ہست
نیک بخت آں سر کہ سامانیش نیست
کامیاب ہے وہ دل کہ جو اس (کسی) کا محبوب ہے، نیک بخت ہے وہ سر (دماغ) کہ جس میں ساز و سامان (کا سودا / ہوس) نہیں ہے۔
دردِ عشق از تندرستی خوشترست
گرچہ بیش از صبر درمانیش نیست
عشق کا درد تندرستی سے بہتر ہے اگرچہ صبر سے آگے (صبر کے سوا) اسکا کوئی درمان نہیں ہے۔
--------
وہ کہ گر من بازبینَم روئے یارِ خویش را
تا قیامت شکر گویَم کردگارِ خویش را
اے کاش کہ اگر میں اپنے دوست کا چہرہ دوبارہ دیکھ پاؤں، تو قیامت تک اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتا رہوں۔
گبر و ترسا و مسلماں ھر کسی در دینِ خویش
قبلۂ دارَند و ما زیبا نگارِ خویش را
یہودی و نصرانی و مسلمان، سب کا اپنے اپنے دین میں اپنا قبلہ اور ہمارا (قبلہ) خوبصورت چہرے والا ہے۔
--------
از ہر چہ می رَوَد سخنِ دوست خوشترست
پیغامِ آشنا، نفَسِ روح پرورست
میں کہیں بھی جاؤں دوست کی باتیں ہی سب سے بہتر ہیں، آشنا کا پیغام روح پرور نفس ہے۔
ھر گز وجودِ حاضرِ غایب شنیدہ ای
من درمیانِ جمع و دلم جائے دیگرست
کیا کبھی سنا کہ کوئی حاضر وجود غائب ہو گیا، (ہاں مگر میں) کہ ہجوم میں ہوتا ہوں اور میرا دل کہیں اور ہوتا ہے۔
ابنائے روزگار بہ صحرا روَند و باغ
صحرا و باغ زندہ دلاں کوئے دلبرست
دنیا داروں کیلیئے صحرا اور باغ روزی کے ذریعے ہیں جب کہ زندہ دلوں کیلیئے یہی دلبر کے کوچے ہیں۔
شب ھائے بے تو ام شبِ گورست در خیال
ور بے تو بامداد کُنَم روزِ محشرست
تیرے بغیر راتیں مجھے قبر کی راتیں لگتی ہیں اور تیرے بغیر دن مجھے محشر کا دن لگتا ہے۔
--------
بر من کہ صبوحی زدہ ام، خرقہ حرامست
اے مجلسیاں راہِ خرابات کدامست
مجھ پر کہ میں صبوحی زدہ (شراب پینے والا) ہوں، خرقہ پوشی حرام ہے، اے (خرقہ پوش) ہم نشینو یہ بتاؤ کہ مے کدے کی راہ کدھر ہے۔
غیرت نَگذارَد کہ بگویَم کہ مرا کشت
تا خلق نَدانَند کہ معشوقہ چہ نامست
میری غیرت گوارہ نہیں کرتی کہ میں یہ بتاؤں کہ مجھے کس نے مارا، تا کہ خلق کو یہ علم نہ ہو سکے کہ ہمارے محبوب کا کیا نام ہے۔
--------
بَدو گفتم کہ مشکی یا عبیری
کہ از بوئے دل آویزِ تو مَستَم
میں نے اس سے کہا کہ تو مشکی ہے یا عبیری (دونوں خوشبو کی قسمیں ہیں) کہ تیری دل آویز خوشبو سے مَیں مست ہوا جاتا ہوں۔
بَگفتا من گِلے ناچیز بُودم
و لیکن مُدّتے با گُل نَشِستَم
اس نے کہا میں تو ناچیز مٹی تھی لیکن ایک مدت تک گُل کے ساتھ نشست رہی ہے۔
جمالِ ہمنشیں در من اثَر کرد
وگرنہ من ہمہ خاکم کہ ہَستَم
یہ تو ہمنشیں کے جمال کا اثر ہے، وگرنہ میری ہستی تو محض خاک ہے۔
--------
برگِ درختانِ سبز پیش خداوند ہوش
ہر ورقے دفتریست معرفتِ کردگار
صاحبِ عقل و دانش کے سامنے سبز درختوں کا ایک ایک پتا کردگار کی معرفت کے لیے ایک بڑی کتاب ہے۔
--------
گر از بسیطِ زمیں عقل مُنعَدَم گردد
بخود گماں نَبرد ہیچ کس کہ نادانَم
اگر روئے زمین سے عقل معدوم بھی ہو جائے تو پھر بھی کوئی شخص اپنے بارے میں یہ خیال نہیں کرے گا کہ میں نادان ہوں۔
--------
دیدۂ سعدی و دل ہمراہِ تست
تا نہ پنداری کہ تنہا می روی
سعدی کے دیدہ و دل تیرے ہمراہ ہیں، تا کہ تجھے یہ خیال نہ آئے (تو یہ نہ سوچے) کہ تُو تنہا جا رہا ہے (تنہا ہے)۔
--------
کسے را کہ شیطاں بَوَد پیشوا
کجا باز گردد براہِ خدا
جس کا راہ نُما شیطان ہو، وہ کب خدا کی راہ پر واپس آتا ہے۔
--------
مزار سعدیبعد از وفات تربتِ ما در زمیں مَجو
در سینہ ہائے مَردمِ عارف مزارِ ما
وفات کے بعد میری قبر زمین میں تلاش مت کرنا، کہ عارف لوگوں کہ سینوں میں میرا مزار ہے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 1, 2008

سرخ گائے، ہمنوا اور گمنام

میں کچھ زیادہ لائق طالب علم تو نہیں تھا لیکن بہرحال اتنا نالائق بھی نہیں تھا کہ بالکل بدھو ہی کہلواتا لیکن بچپن کی کچھ نالائقیاں ایسی ہیں کہ مجھے اکثر یاد آتی ہیں، کبھی ان پر غصہ آتا تھا اور اب ہنسی آتی ہے۔
میں شاید چھٹی جماعت میں تھا اور تازہ تازہ انگریزی کا منہ دیکھا تھا اور میرے والد صاحب مرحوم میری انگریزی پر بہت توجہ دیتے تھے، ان دنوں ٹی وی پر کسی دودھ کا اشتہار چلتا تھا جس میں وہ کہتے تھے “ریڈ کاؤ مِلک”۔ ایک دن ٹی وی پر وہ اشتہار چلا تو والد صاحب نے پوچھا۔
“وارث، ریڈ کاؤ مِلک کا کیا مطلب ہے۔”
“جی”
“ہاں کیا مطلب ہے۔”
“وہ، جی، وہ گائے، گائے۔۔۔۔۔۔۔۔”
“کیا گائے گائے، بھئی مطلب بتاؤ، اچھا چلو ایک ایک لفظ کا مطلب بتاؤ، ریڈ کا کیا مطلب ہے”
“سرخ”
“اور کاؤ کا”
“گائے”
“اور ملک کا”
“دودھ”
“تو ریڈ کاؤ ملک کا کیا مطلب ہوا؟”
“جی، وہ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
“ہاں ہاں”
“جی، گائے کا سرخ دودھ”
والد صاحب نے یہ سنا تو بے اختیار ہنسنا شروع کر دیا اور کہا بیوقوف کبھی دودھ بھی سرخ ہوتا ہے، اسکا مطلب ہے سرخ گائے کا دودھ۔
ٹی وی کے حوالے سے ہی ایک دوسرا واقعہ جس پر میں گھر میں سب لوگوں کی بے رحمانہ ہنسی کا نشانہ بنا تھا، وہ بھی کم و بیش اسی زمانے کا ہے۔ اردو پڑھنے کا شوق مجھے بہت تھا اور اپنی جماعت سے بڑی جماعتوں کی اردو کی کتابیں پڑھا کرتا تھا اور گھر میں اپنی اردو دانی کی دھاک بٹھا رکھی تھی۔
ان دنوں قوالی میں صابری برادران کا طوطی بولتا تھا لیکن نصرت فتح علی خان نے بھی اپنی لا جواب قوالیوں سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانا شروع کر دیا تھا۔ ہمارا سارا گھر بشمول والد صاحب اور والدہ صاحبہ کے قوالیاں بڑے شوق سے سنا کرتا تھا۔ پی ٹی وی پر شاید ہر جمعرات کی رات کو ایک محفل سماع دکھائی جاتی تھی اور اسکے اشتہار وہ کافی دن پہلے ہی چلانے شروع کر دیتے تھے۔ ایک دن جب ہم سب گھر والے بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے تو نصرت فتح علی خان کی قوالی کا ایک اشتہار چلا، نصرت فتح علی خان قوال اور ہمنوا۔
والدہ بولیں، اب یہ لوگ نصرت کی قوالیاں زیادہ لگاتے ہیں۔ والد صاحب نے تائید کی اور کہا، ہاں پہلے تو صرف صابری برادران یا عزیز میاں قوال کی قوالیاں ہوتی تھیں لیکن اب اسکی بھی کافی قوالیاں ہوتی ہیں۔ میں جو پاس بیٹھا سن رہا تھا، شو مئی قسمت سے بولا، لیکن ابو یہ جو ہر قوالی میں ہمنوا ہوتا ہے سب سے زیادہ قوالیاں تو اسی کی ہوتی ہیں۔
میری بات سننی تھی کہ سب بے اختیار قہقہے مار کر ہنسنے لگے اور لگے میری اردو دانی کا مذاق اڑانے، والد صاحب نے کہا، الو ہمنوا کوئی قوال نہیں ہے بلکہ اسکے ساتھ جو قوالی کرنے والے ہوتے ہیں ان کو ہمنوا کہتے ہیں۔
مجھے “اقوالِ زریں” پڑھنے کا بھی بہت شوق رہا ہے اور لطف اس وقت آتا تھا جب صاحبِ قول کا نام بھی ساتھ لکھا ہوتا تھا لیکن اکثر اقوال ایسے ہوتے تھے جن کے نیچے گمنام لکھا ہوتا تھا، خیر اردو کے گمنام کا تو کوئی مضائقہ نہیں تھا لیکن مصیبت اس وقت پڑی جب انگریزی اقوال کے ساتھ “اینانیمس” لکھا ہوتا تھا۔ میری عادت یہ بھی ہوتی تھی کہ جب کسی مشاہیر کا قول پسند آتا تھا تو پھر اس کے متعلق معلومات بھی ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑتا تھا، اب جب کافی جگہ اقوال کے نیچے مجھے “اینانیمس” لکھا نظر آیا تو میں نے سوچا یہ کوئی بہت بڑا بندہ ہوگا تبھی تو اتنے پتے کی باتیں کرتا ہے اور جب کالج کی لائبریری اور ادھر ادھر کافی جگہ ڈھونڈ کر تھک گیا تو بلآخر ایک لغت نے میری مدد کی اور علم ہوا کہ یہ کوئی حضرت نہیں بلکہ “گمنام” کی انگلش ہے۔ اس دفعہ کسی نے ہنسی تو نہیں اڑائی لیکن اپنے آپ سے بہت شرمندہ ہوا کہ اتنا بڑا ہو کر بھی ایک لفظ کا مطلب نہ جان سکا۔
خیر اپنی جہالت کا ماتم میں کر چکا لیکن “گمنام” میرے ذہن سے نہیں نکلتا اور اب جب کبھی کوئی شعر بغیر شاعر کے نام کے لکھا دیکھتا ہوں تو بہت افسوس ہوتا ہے بلکہ شعر پڑھنے کو ہی دل نہیں کرتا، شاید کوئی خفت کہیں چُھپی ہوئی ہے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 28, 2008

اُو اے غالب

پچھلے کچھ دنوں سے میرے گھر کا ماحول کافی خراب ہے کہ ہماری بیگم صاحبہ ہم سے بہت نالاں ہیں، وجہ اسکی کوئی خاص تو نہیں لیکن اگر کسی کو شعر و ادب سے للہی بغض ہو تو کیا کیا جا سکتا ہے۔ جی ہاں ہماری بیگم صاحبہ کو نفرت ہے شعر و ادب و کتب سے۔
اس سے یہی برداشت نہیں ہو رہا تھا کہ میں گھر میں اپنا زیادہ تر وقت کتابوں میں یا کمپیوٹر کے سامنے گزارتا ہوں تو یہ کیسے ہضم ہو کہ میں بچوں کو بھی شعر یاد کروانے شروع کر دوں۔
کچھ دن پہلے میں گھر میں بیٹھا ہوا تھا کہ غالب کا شعر یاد آ گیا۔
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
نہ جانے جی میں کیا آیا کہ میں نے اپنے دونوں بیٹوں، سات سالہ حسن اور پانچ سالہ احسن سے کہا کہ جو کوئی بھی یہ شعر یاد کرے گا اسے انعام ملے گا۔ اب انعام کے لالچ میں دونوں نے شعر یاد کرنا شروع کر دیا بلکہ کر بھی لیا گو کچھ گڑ بڑ ضرور کر جاتے ہیں، حسن ‘ناداں’ کو مسلسل ‘نادان’ پڑھ رہا ہے اور احسن ‘آخر’ کو پہلے مصرعے میں ادا کرتا ہے۔ لیکن میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے کہ میں نے غالب کے بیج اپنے گھر میں بونے شروع کر دیے ہیں، اور بیگم صاحبہ کا جل جل کے برا حال ہو رہا ہے۔
اس پر مستزاد یہ کہ میری دو سالہ بیٹی فاطمہ کو غالب کی تصویر کی پہچان ہو گئی ہے، وہ جب بھی دیوانِ غالب پر غالب کی تصویر یا کمپیوٹر پر میرے بلاگ پر لگی ہوئی تصویر دیکھتی ہے تو زور زور سے چلانا شروع کر دیتی ہے “اُو اے غالب، اُو اے غالب۔” میں بتا نہیں سکتا کہ اس وقت مجھے کتنی خوشی ہوتی ہے۔ مرزا غالبیاد تو میں نے اسے ‘اقبال’ کا نام بھی کروا دیا ہے لیکن ابھی تک اقبال کی اسے پہچان نہیں ہو سکی اور ہار بار بتانا پڑتا ہے کہ یہ اقبال ہے۔
اور فاطمہ کیلیئے غالب کی یہ تصویر اس پوسٹ میں لگا رہا ہوں کہ ‘اُو اے غالب، اُو اے
غالب” کی صدائیں میرے کانوں مین رس گھولتی رہیں اور بیگم صاحبہ کے سینے پر مونگ دلتی رہیں۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 26, 2008

علامہ اقبال کی ایک فارسی غزل مع اردو ترجمہ - می تَراشَد فکرِ ما ہر دم خداوندے دِگر

پیامِ مشرق علامہ اقبال کی خوبصورت ترین کتب میں سے ہے، اسی لا جواب کتاب سے ایک لا جواب غزل جو مجھے بہت پسند ہے۔ یہ غزل نہ صرف علامہ کی خیال آفرینی کی بہترین مثال ہے بلکہ تغزل سے بھی بھر پور ہے جو کہ علامہ کا ‘ٹریڈ مارک’ تو نہیں ہے لیکن پیامِ مشرق کی کافی غزلیں اس رنگ میں ہیں۔

می تَراشَد فکرِ ما ہر دم خداوندے دِگر
رَست از یک بند تا افتاد دَر بندے دگر
ہماری فکر ہر دم ایک نیا خدا تراشتی ہے، جب وہ ایک قید سے نکلتی ہے تو کسی اور قید میں گرفتار ہوجاتی ہے۔

برسَرِ بام آ، نقاب از چہرہ بیباکانہ کش
نیست در کوئے تو چُوں من آرزو مندے دِگر
بام پر آ اور بے باک ہو کر اپنے چہرے سے نقاب اتار دے کہ تیرے کوچے میں مجھ جیسا تیرا کوئی اور آرزو مند نہیں ہے۔

بسکہ غیرت می بَرَم از دیدۂ بیناے خویش
از نگہ بافَم بہ رخسارِ تو رُوبندے دِگر
تیرا نظارہ کرنے والی اپنی ہی آنکھ سے مجھے غیرت آرہی ہے۔ اسلیے میں نظروں سے تیرے رخسار پر ایک اور نقاب بن رہا ہوں۔

یک نگہ، یک خندۂ دُزدیدہ، یک تابندہ اشک
بہرِ پیمانِ محبت نیست سوگندے دِگر
ایک نگاہ، ایک زیرِ لب تبسم، ایک چمکتا ہوا آنسو، محبت کے پیمان کیلیے اس کے علاوہ اور کوئی قسم نہیں ہے۔

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال
Allama Iqbal, علامہ اقبال
عشق را نازم کہ از بیتابیِ روزِ فراق
جانِ ما را بست با دردِ تو پیوندے دِگر
اپنے عشق پر نازاں ہوں کہ اس نے فراق کے دن کی بیتابی سے میری جان کا تیرے غم کے ساتھ ایک اور پیوند لگا دیا ہے۔

تا شَوی بیباک تر در نالہ اے مرغِ بہار
آتشے گیر از حَریمِ سینہ ام چندے دِگر
اے بہار کے پرندے تا کہ تو اپنے نالے میں زیادہ بیباک ہوجائے، میرے سینے سے کچھ اور آگ لے لے۔

چنگِ تیموری شکست، آہنگِ تیموری بجاست
سُر بروں می آرد از سازِ سمرقندے دِگر
تیمور کا رباب تو ٹوٹ گیا مگر اس سے نکلنے والی آواز اب تک باقی ہے۔ وہی نغمہ اب ایک اور سمرقند کے ساز سے باہر آرہا ہے۔ (علامہ کا یہ شعر انقلابِ رُوس اور کمیونزم کے پس منظر میں ہے)۔

رہ مَدہ در کعبہ اے پیرِ حرم اقبال را
ہر زماں در آستیں دارَد خداوندے دِگر
اے حرم کے پیر، اقبال کو کعبہ میں جانے کیلیے راہ نہ دے، کہ وہ ہر زمانے میں اپنی آستیں میں ایک نیا خدا رکھتا ہے۔
————

بحر - بحر رمل مثمن محذوف
افاعیل - فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلُن(آخری رکن فاعلن میں فاعِلان بھی آ سکتا ہے)

اشاری نظام - 2212 2212 2212 212
(آخری 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -
می تَراشَد فکرِ ما ہر دم خداوندے دِگر
رَست از یک بند تا افتاد دَر بندے دگر

می تراشد - فاعلاتن - 2212
فکرِ ما ہر - فاعلاتن -2212
دم خداون - فاعلاتن - 2212
دے دگر - فاعلن - 212

رست از یک - فاعلاتن - 2212
بند تا اف - فاعلاتن - 2212
تاد در بن - فاعلاتن - 2212
دے دگر - فاعلن - 212
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 24, 2008

امیر خسرو کی ایک غزل مع تراجم - جاں ز تَن بُردی و دَر جانی ہنوز

امیر خسرو کی ایک خوبصورت فارسی غزل مع تراجم۔
شعرِ خسرو
جاں ز تَن بُردی و دَر جانی ہنوز
درد ہا دادی و درمانی ہنوز
تُو میرے جسم سے دل کو نکال کر لے گیا لیکن اسکے اندر جان ابھی باقی ہے، تو نے بہت درد دیئے لیکن انکا علاج ابھی باقی ہے۔
منظوم ترجمہ مسعود قریشی
تن سے جاں لے کر بھی تُو جاں ہے ابھی
درد دے کر بھی تو درماں ہے ابھی
شعرِ خسرو
آشکارا سینہ ام بشگافتی
ہم چُناں در سینہ پنہانی ہنوز
تو نے میرے سینے کو پھاڑ دیا ہے لیکن ابھی تک تُو اسی طرح میرے سینے میں پوشیدہ ہے۔
مسعود قریشی
سینہ میرا آشکارا کر کے چاک
میرے سینے میں تو پنہاں ہے ابھی
شعرِ خسرو
مُلکِ دل کردی خراب از تیغِ ناز
داندریں ویرانہ سلطانی ہنوز
اپنی تیغِ ناز سے تُو نے میرے دل کے ملک کو ویران کر دیا لیکن اس ویرانے میں ابھی تک تیری ہی حکمرانی ہے۔
مسعود قریشی
ملکِ دل ویراں ہے تیغِ ناز سے
تو ہی ویرانے میں سلطاں ہے ابھی
شعرِ خسرو
ہر دو عالم قیمتِ خود گفتہ ای
نرخ بالا کُن کہ ارزانی ہنوز
تو نے اپنی قیمت دونوں جہان بتائی ہے، اپنا نرخ بڑھا کہ یہ ابھی تک ارزاں ہے۔
مسعود قریشی
اپنی قیمت دو جہاں تُو نے کہی
نرخ اونچا کر، تُو ارزاں ہے ابھی
شعرِ خسرو
جور کردی سالہا چوں کافراں
بہرِ رحمت نامسلمانی ہنوز
کافروں کی طرح تو نے سال ہا سال ظلم و ستم کئے لیکن رحمت کیلیئے ابھی تک نا مسلمانی موجود ہے۔
شعرِ خسرو
جاں ز بندِ کالبد آزاد گشت
دل بہ گیسوئے تو زندانی ہنوز
جان جسم کی قید سے آزاد ہو گئی ہے لیکن دل ابھی تک تیری زلفوں کی قید میں ہے۔
مسعود قریشی
جاں ہوئی آزاد تن کی قید سے
دل کو تیری زلف زنداں ہے ابھی
شعرِ خسرو
Amir Khusro, امیر خسرو, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
Amir Khusro, امیر خسرو
پیری و شاہد پرستی نا خوش است
خسروا تا کے پریشانی ہنوز
وقتِ پیری شاہد پرستی اچھی بات نہیں، خسرو تو کب تک اس پریشانی سے دوچار رہے گا کہ جو ابھی تک ہے۔
مسعود قریشی
پیر ہو کر بھی وہ ہے شاہد پرست
اس لئے خسرو پریشاں ہے ابھی
————
بحر - بحر رمل مسدس محذوف
افاعیل - فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلُن
(آخری رکن میں فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آ سکتا ہے)
اشاری نظام - 2212 2212 212
(آخری رکن میں 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع -
جاں ز تن بُردی و در جانی ہنوز
درد ہا دادی و درمانی ہنوز
جا ز تن بر - فاعلاتن - 2212
دی و در جا - فاعلاتن - 2212
نی ہنوز - فاعلان - 1212
درد ہا دا - فاعلاتن - 2212
دی و در ما - فاعلاتن - 2212
نی ہنوز - فاعلان - 1212
مزید پڑھیے۔۔۔۔