Feb 15, 2009

عشق دی نویوں نوِیں بہار - بُلّھے شاہ

جاں میں سبق عشق دا پڑھیا
مسجد کولوں جیوڑا ڈریا
پُچھ پُچھ ٹھاکر دوارے وڑیا
جتھّے وجدے ناد ہزار
عشق دی نویوں نوِیں بہار

وید، قرآناں پڑھ پڑھ تھکّے
سجدے کردیاں گھس گئے متھّے
نہ رب تیرتھ نہ رب مکّے
جس پایا تس نور انوار
عشق دی نویوں نوِیں بہار

پُھوک مصلّا بھن سٹ لوٹا
نہ پھڑ تسبی، عاصا، سوٹا
عاشق کہندے دے دے ہوکا
ترک حلالوں، کھا مُردار
عشق دی نویوں نوِیں بہار
مزار بابا بلھے شاہ, Mazar Bulleh Shah, Punjabi Poetry, پنجابی شاعری
مزار بابا بلھے شاہ، قصور، پاکستان
 Mazar Bulleh Shah
ہیر رانجھے دے ہو گئے میلے
بُھلی ہیر ڈھونڈیندی بیلے
رانجھا یار بُکّل وچ کھیلے
ہوش رہیا نہ سرت سنبھار
عشق دی نویوں نوِیں بہار

جد میں رمز عشق دی پائی
طوطا مینا مار مکائی
اندر باہر ہوئی صفائی
جتول ویکھاں یارویار
عشق دی نویوں نوِیں بہار

عمر گنوائی وچ مسیتی
اندر بھریا نال پلیتی
کدی نماز توحید نہ نیتی
ہن کیوں کرنا ایں شور پکار
عشق دی نویوں نوِیں بہار

عشق بھلایا سجدہ تیرا
ہن کیوں پانویں اینویں جھیڑا
بُلّھا ہوندا چپ بہتیرا
عشق کریندا مارومار
عشق دی نویوں نوِیں بہار
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 14, 2009

شیخ ابو سعید ابو الخیر کی چند رباعیات

شیخ ابوسعید فضل اللہ بن ابوالخیر احمد بن محمد بن ابراہیم، چوتھی اور پانچویں صدی ہجری (دسویں و گیارہویں صدی عیسوی) کے ایک نامور عارف اور معروف شاعر ہیں۔ فارسی شاعری میں آپ کا مقام انتہائی بلند سمجھا جاتا ہے کہ آپ نے ہی فارسی شاعری میں تصوف کا پرچار کیا اور تصوف کی تعلیمات کو شاعری کے رنگ میں پیش کیا اور شاعری میں تصوف کی ایسی مضبوط بنیاد رکھی جس پر آج تک، ہزار سال گزرنے کے بعد بھی، بلند و بالا و پُر شکوہ عمارات تعمیر کی جا رہی ہیں۔ شیخ ابوسعید ابوالخیر کو مشہور صوفی حضرت بایزید بسطامی اور منصور حلاج کی تعلیمات بہت پسند تھیں اور اپنی شاعری میں منصور کی تعریف جا بجا کی ہے۔ آپ کی شاعری کے اثرات بعد کے صوفی شعراء پر کافی گہرے ہیں جیسے شیخ فرید الدین عطار آپ کو اپنا روحانی استاد کہا کرتے تھے۔

شیخ ابوسعید، مشہور عالم ابنِ سینا کے ہم عصر تھے، ان دونوں کی ایک ملاقات بہت مشہور ہے جس میں دونوں حضرات تین دن تک تخلیے میں گفت و شنید کرتے رہے، ملاقات کے بعد ابنِ سینا کے شاگردوں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے شیخ سے کیا حاصل کیا، انہوں نے کہا کہ میں جو کچھ بھی جانتا ہوں وہ اس کو دیکھ سکتے ہیں، دوسری طرف شیخ کے مریدین نے آپ سے سوال کیا کہ آپ نے ابنِ سینا سے کیا حاصل کیا آپ نے کہا کہ میں جو کچھ بھی دیکھ سکتا ہوں وہ اسے جانتا ہے۔ ایک صوفی اور ایک عالم کی ایک دوسرے کیلیے یہ کلمات آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔


شاعری میں شیخ ابوسعید کی خاص پہچان انکی رباعیات ہیں، جو تصوف و عرفان و معرفت و حقیقت کے اسرار سے پر ہیں اور چہار دانگ شہرت حاصل کر چکی ہیں، انہی میں سے چند رباعیاں ترجمہ کے ساتھ پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔

(1)
ابوسعید ابوالخیر, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Abu Saeed Abul Kheir, Rubai, رباعی
ابوسعید ابوالخیر ایک خاکہ
Abu Saeed Abul Kheir
اے واقفِ اسرارِ ضمیرِ ھمہ کَس
در حالتِ عجز دستگیرِ ھمہ کس
یا رب تو مرا توبہ دہ و عذر پذیر
اے توبہ دہ و عذر پذیرِ ھمہ کس


اے سب کے دلوں کے حال جاننے والے، ناتوانی اور عاجزی میں سب کی مدد کرنے والے، یا رب تو مجھے توبہ (کی توفیق) دے اور میرے عذر کو قبول کر، اے سب کو توبہ کو توفیق دینے والے اور سب کے عذر قبول کرنے والے۔
(2)
خواہی کہ ترا دولتِ ابرار رسَد
مپسند کہ از تو بہ کس آزار رسَد
از مرگ مَیَندیش و غمِ رزق مَخور
کایں ھر دو بہ وقتِ خویش ناچار رسَد
اگر تُو چاہتا ہے کہ تجھے نیک لوگوں کی دولت مل جائے (تو پھر) نہ پسند کر کہ تجھ سے کسی کو آزار پہنچے، موت کی فکر نہ کر اور رزق کا غم مت کھا، کیوں کہ یہ دونوں اپنے اپنے وقت پر چار و ناچار (لازماً) پہنچ کر رہیں گے۔
(3)
در کعبہ اگر دل سوئے غیرست ترا
طاعت ہمہ فسق و کعبہ دیرست ترا
ور دل بہ خدا و ساکنِ میکده ‌ای
مے نوش کہ عاقبت بخیرست ترا

کعبہ میں اگر تیرا دل غیر کی طرف ہے، (تو پھر) تیری ساری طاعت بھی سب فسق ہے اور کعبہ بھی تیرے لیے بتخانہ ہے۔ اور (اگر) تیرا دل خدا کی طرف ہے اور تو (چاہے) میکدے میں رہتا ہے تو (بے فکر) مے نوش کر کہ (پھر) تیری عاقبت بخیر ہے۔
(4)
تسبیح مَلَک را و صفا رضواں را
دوزخ بد را، بہشت مر نیکاں را
دیبا جم را و قیصر و خاقاں را
جاناں ما را و جانِ ما جاناں را

تسبیح (و تمحید وتحلیل) فرشتوں کیلیے اور معصومیت و پاکیزگی رضواں (فرشتے) کیلیے ہے، دوزخ بد اور جنت نیک مردوں کیلیے ہے، دیبا (و حریر یعنی قیمتی ساز و سامان) جمشید و قیصر و خاقان (بادشاہوں) کیلیے ہے اور جاناں ہمارے لیے ہے اور ہماری جان جاناں کیلیے۔
(5)
وصلِ تو کجا و مَنِ مَہجُور کجا
دُردانہ کجا، حوصلۂ مُور کجا
ہرچند ز سوختَن ندارَم باکی
پروانہ کجا و آتشِ طُور کجا

تیرا وصال کہاں اور ہجر کا مارا کہاں، گوہرِ نایاب کہاں اور چیونٹی کہاں، ہر چند کہ میں جل جانے سے نہیں ڈرتا لیکن پروانہ کہاں اور آتشِ طور کہاں۔
(6)
مجنونِ تو کوہ را، ز صحرا نَشَناخت
دیوانۂ عشقِ تو سر از پا نَشَناخت
ہر کس بہ تو رہ یافت ز خود گم گردید
آں کس کہ ترا شناخت خود را نَشَناخت
تیرے مجنوں کو پہاڑ و صحرا کی پہچان نہیں ہے (اس کیلیے دونوں ایک برابر ہیں)، تیرے عشق کا دیوانہ سر اور پاؤں میں فرق نہیں جانتا، ہر کوئی جسے تیری راہ ملی اسے نے خود کو گم کر دیا، ہر کوئی جس نے تجھے پہچان لیا وہ اپنی شناخت بھول گیا۔
(7)
باز آ، باز آ، ہر آنچہ ہستی باز آ
گر کافر و گبر و بت پرستی باز آ
ایں درگۂ ما درگۂ نومیدی نیست
صد بار اگر توبہ شکستی، باز آ
(اے میرے بندے) واپس آ، واپس آ، توجو کوئی بھی ہے، لوٹ آ، چاہے تو کافر ہے، یہودی ہے یا بت پرست ہے، لوٹ آ، یہ ہماری بارگاہ ناامید و مایوس ہونے کی جگہ نہیں ہے، تُو نے اگر سو بار بھی توبہ توڑی ہے پھر بھی لوٹ آ۔
(8)
من بے تو دمے قرار نتوانَم کرد
احسان ترا شمار نتوانم کرد
گر بر سرِ من زباں شَوَد ہر موئے
یک شکر تو از ہزار نتوانم کرد
مجھے تیرے بغیر ایک پل بھی قرار نہیں ہے، میں تیرے احسانات کا شمار ہی نہیں کر سکتا، اگر میرے سر کا ہر بال زبان بن جائے تو میں پھر بھی تیرے ہزاروں احسانوں میں سے ایک احسان کا بھی شکر ادا نہیں کر سکتا۔
(9)
گفتَم، چشمَم، گفت، بہ راہَش می دار
گفتم، جگرم، گفت، پُر آہَش می دار
گفتم، کہ دِلَم، گفت، چہ داری در دل
گفتم، غمِ تو، گفت، نگاہَش می دار

میں نے کہا کہ میری آنکھیں، اس نے کہا انہیں راہ پر لگائے رکھ، میں نے کہا کہ میرا جگر، اس نے کہا اسے آہوں سے بھرا ہوا رکھ، میں نے کہا کہ میرا دل، اس نے کہا دل میں کیا ہے، میں نے کہا کہ تیرا غم، اس نے کہا کہ اس کی (غم کی) دیکھ بھال کر۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 12, 2009

انداز بدلے گئے

السلام علیکم اور خوش آمدید محترم قارئین، اس خاکسار کے بلاگ پر تشریف لانے کیلیے بہت شکریہ آپ کا، نوازش۔
یہ بلاگ پہلے ایک اور ایڈریس پر تھا لیکن نستعلیق کی محبت مجھے یہاں کھینچ لائی ہے، اور اب احباب میرا بلاگ نستعلیق فونٹ میں دیکھ سکتے ہیں۔
مجھے امید ہے کہ آپ اپنی قیمتی آراء سے اس خاکسار کو نوازیں گے کہ یہ بلاگ اور اسکی تزئین و آرائش آپ کو کیسی لگی، بہت شکریہ۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 29, 2009

ابھی تو میں جوان ہوں - حفیظ جالندھری

ابو الاثر حفیظ جالندھری نے اپنی شاعری کے بارے میں کہا تھا اور کیا خوب کہا تھا۔

تشکیل و تکمیلِ فن میں جو بھی حفیظ کا حصّہ ہے
Hafeez Jalandhari, حفیظ جالندھری, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
Hafeez Jalandhari, حفیظ جالندھری
نصف صدی کا قصّہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں
پاکستان میں عام طور پر حفیظ جالندھری، ترانۂ پاکستان کے خالق ہونے کے حوالے سے جانے جاتے ہیں اور اردو شاعری کی دنیا میں اپنی مثنوی “شاہنامہ اسلام” کے حوالے سے، لیکن ان کی کچھ غزلیں اور نظمیں بھی ایسی ہیں جو اردو ادب میں زندہ جاوید ہو چکی ہیں اور انہی میں سے ایک “ابھی تو میں جوان ہوں” ہے۔
ابھی تو میں جوان ہوں

ہوا بھی خوش گوار ہے
گلوں پہ بھی نکھار ہے
ترنّمِ ہزار ہے
بہارِ پُر بہار ہے
کہاں چلا ہے ساقیا
اِدھر تو لوٹ، اِدھر تو آ
یہ مجھ کو دیکھتا ہے کیا
اٹھا سبُو، سبُو اٹھا
سبُو اٹھا، پیالہ بھر
پیالہ بھر کے دے اِدھر
چمن کی سمت کر نظر
سماں تو دیکھ بے خبر
وہ کالی کالی بدلیاں
افق پہ ہو گئیں عیاں
وہ اک ہجومِ مے کشاں
ہے سوئے مے کدہ رواں
یہ کیا گماں ہے بد گماں
سمجھ نہ مجھ کو ناتواں

خیالِ زہد ابھی کہاں
ابھی تو میں جوان ہوں

عبادتوں کا ذکر ہے
نجات کی بھی فکر ہے
جنون ہے ثواب کا
خیال ہے عذاب کا
مگر سنو تو شیخ جی
عجیب شے ہیں آپ بھی
بھلا شباب و عاشقی
الگ ہوئے بھی ہیں کبھی
حسین جلوہ ریز ہوں
ادائیں فتنہ خیز ہوں
ہوائیں عطر بیز ہوں
تو شوق کیوں نہ تیز ہوں
نگار ہائے فتنہ گر
کوئی اِدھر کوئی اُدھر
ابھارتے ہوں عیش پر
تو کیا کرے کوئی بشر
چلو جی قصّہ مختصر
تمھارا نقطۂ نظر

درست ہے تو ہو مگر
ابھی تو میں جوان ہوں

نہ غم کشود و بست کا
بلند کا نہ پست کا
نہ بود کا نہ ہست کا
نہ وعدۂ الست کا
امید اور یاس گم
حواس گم، قیاس گم
نظر کے آس پاس گم
ہمہ بجز گلاس گم
نہ مے میں کچھ کمی رہے
قدح سے ہمدمی رہے
نشست یہ جمی رہے
یہی ہما ہمی رہے
وہ راگ چھیڑ مطربا
طرَب فزا، الَم رُبا
اثر صدائے ساز کا
جگر میں آگ دے لگا
ہر ایک لب پہ ہو صدا
نہ ہاتھ روک ساقیا

پلائے جا پلائے جا
ابھی تو میں جوان ہوں

یہ گشت کوہسار کی
یہ سیر جوئبار کی
یہ بلبلوں کے چہچہے
یہ گل رخوں کے قہقہے
کسی سے میل ہو گیا
تو رنج و فکر کھو گیا
کبھی جو بخت سو گیا
یہ ہنس گیا وہ رو گیا
یہ عشق کی کہانیاں
یہ رس بھری جوانیاں
اِدھر سے مہربانیاں
اُدھر سے لن ترانیاں
یہ آسمان یہ زمیں
نظارہ ہائے دل نشیں
انھیں حیات آفریں
بھلا میں چھوڑ دوں یہیں
ہے موت اس قدر قریں
مجھے نہ آئے گا یقیں

نہیں نہیں ابھی نہیں
ابھی تو میں جوان ہوں
——–
بحر - بحر ہزج مربع مقبوض
(مربع یعنی ایک شعر میں چار رکن یا ایک مصرع میں دو رکن)

افاعیل - مَفاعِلُن مَفاعِلُن
(آخری رکن میں مسبغ شکل یعنی مفاعلن کی جگہ مفاعلان بھی آ سکتا ہے)

اشاری نظام - 2121 2121
(آخری 2121 کی جگہ 12121 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -
ہوا بھی خوش گوار ہے
گلوں پہ بھی نکھار ہے
ترنّمِ ہزار ہے
بہارِ پر بہار ہے

ہوا بھی خُش - مفاعلن - 2121
گوار ہے - مفاعلن - 2121
گلو پِ بی - مفاعلن - 2121
نکار ہے - مفاعلن - 2121
تَرَن نُ مے - مفاعلن - 2121
ہزار ہے - مفاعلن - 2121
بہار پر - مفاعلن - 2121
بہار ہے - مفاعلن - 2121



اور یہ نظم ملکہ پکھراج اور طاہرہ سیّد کی آواز میں





مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 27, 2009

بابائے اردو شاعری، ولی دکنی کی ایک غزل - تجھ لب کی صِفَت لعلِ بدخشاں سوں کہوں گا

بابائے اردو شاعری، شمس ولی اللہ المعروف بہ ولی دکنی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ آپ نے اردو شاعری کو حسن عطا کیا اور جو شاعری پہلے صرف منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے کی جاتی تھی آپ نے اسے باقاعدہ ایک صنف کا درجہ دیا اور یوں ایک ایسی بنیاد رکھی جس پر اردو شاعری کی پرشکوہ عمارت تعمیر ہوئی۔
مولانا محمد حسین آزاد، "آبِ حیات" میں فرماتے ہیں۔
ولی دکنی, Wali Dakani, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
ولی دکنی ایک خاکہ، Wali Dakani
"اس زمانے تک اردو میں متفرق شعر ہوتے تھے۔ ولی اللہ کی برکت نے اسے وہ زور بخشا کہ آج کی شاعری، نظمِ فارسی سے ایک قدم پیچھے نہیں، تمام بحریں فارسی کی اردو میں لائے۔ شعر کو غزل اور غزل کو قافیہ ردیف سے سجایا، ردیف وار دیوان بنایا۔ ساتھ اسکے رباعی، قطعہ، مخمس اور مثنوی کا راستہ بھی نکالا۔ انہیں ہندوستان کی نظم میں وہی رتبہ ہے جو انگریزی کی نظم میں چوسر شاعر کو اور فارسی میں رودکی کو اور عربی میں مہلہل کو۔"

مولانا آزاد کے زمانے تک ولی دکنی کو اردو کا پہلا شاعر مانا جاتا تھا، جدید تحقیق سے گو یہ اعزاز تو انکے پاس نہیں رہا لیکن اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے جو اوپر مولانا نے کہی ہے۔

ولی کی ایک خوبصورت غزل لکھ رہا ہوں، اس غزل میں جو متروک الفاظ ہیں انکے مترادف پہلے لکھ دوں تاکہ قارئین کو دشواری نہ ہو۔

سوں - سے
کوں - کو، کر
یو - یہ
سری جن - محبوب

تجھ لب کی صِفَت لعلِ بدخشاں سوں کہوں گا
جادو ہیں ترے نین، غزالاں سوں کہوں گا

دی حق نے تجھے بادشَہی حسن نگر کی
یو کشورِ ایراں میں سلیماں سوں کہوں گا

تعریف ترے قد کی الف دار، سری جن
جا سرو گلستاں کوں خوش الحاں سوں کہوں گا

مجھ پر نہ کرو ظلم، تم اے لیلٰیِ خوباں
مجنوں ہوں، ترے غم کوں بیاباں سوں کہوں گا

دیکھا ہوں تجھے خواب میں اے مایۂ خوبی
اس خواب کو جا یوسفِ کنعاں سوں کہوں گا

جلتا ہوں شب و روز ترے غم میں اے ساجن
یہ سوز ترا مشعلِ سوزاں سوں کہوں گا

یک نقطہ ترے صفحۂ رخ پر نہیں بے جا
اس مُکھ کو ترے صفحۂ قرآں سوں کہوں گا

زخمی کیا ہے مجھ تری پلکوں کی انی نے
یہ زخم ترا خنجر و بھالاں سوں کہوں گا

بے صبر نہ ہو اے ولی اس درد سے ہرگاہ
جلدی سوں ترے درد کی درماں سوں کہوں گا

———————

بحر - بحرِ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف

افاعیل: مَفعُولُ مَفَاعیلُ مَفَاعیلُ فَعُولُن(آخری رکن فعولن کی جگہ فعولان یا مفاعیل بھی آ سکتا ہے)

اشاری نظام - 122 1221 1221 221
(آخری رکن 221 کی جگہ 1221 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

تجھ لب کی صِفَت لعلِ بدخشاں سوں کہوں گا
جادو ہیں ترے نین، غزالاں سوں کہوں گا

تج لب کِ - مفعول - 122
صِفَت لعل - مفاعیل - 1221
بدخشا سُ - مفاعیل - 1221
کہو گا - فعولن - 221

جادو ہِ - مفعول - 122
ترے نین - مفاعیل - 1221
غزالا سُ - مفاعیل - 1221
کہو گا - فعولن - 221
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 23, 2009

ڈائری سے بلاگ تک

یادش بخیر، شاید میٹرک میں تھا کہ والد صاحب مرحوم نے تحفے میں‌ ملی ہوئی ایک ڈائری مجھے عنایت کردی۔ چند دن تک تو ڈائری یونہی پڑی رہی، پھر‌ سوچا کے اس میں کچھ لکھا جائے، سو سب سے پہلے 'خود ساختہ' محبت کی روداد لکھنے کی سوجھی!

لکھنے کا سوچا تو خیال آیا کہ اگر کسی نے پڑھ لی تو قیامت آ جائے گی، عمران سیریز پڑھنے کا اثر تو تھا ہی ذہن پر، سو فیصلہ کیا کہ اسے کسی کوڈ میں لکھا جائے اور وہ یہ کے ہر لفظ کو الٹا لکھ دو، ابھی شاید ایک جملہ ہی لکھا ہوگا کہ غبارے میں سے ہوا نکل گئی کہ یہ تو بہت آسان ہے، اسے مشکل بناؤ۔ جمع، نفی، ضرب اور تقسیم کو نمبر لگائے اور پھر ان کو حروفِ تہجی پر تقسیم کر کے علامتیں بنا لیں اور ان علامتوں‌ میں لکھنا شروع کیا۔ روداد اسطرح خاک لکھتا ایک ایک جملہ لکھنے کیلیے گھنٹوں‌ لگ جاتے تھے سو تائب ہو گیا۔

خیر، کالج پہنچا اور کچھ شعور آیا تو ایک دوسری ڈائری خریدی، اور اس میں اپنی بے وزن اور بے تکی شاعری لکھنی شروع کی، لیکن اس میں کافی مکالمے بھی لکھے تھے۔

یہ مکالمے چار اشخاص کے درمیان تھے، ایک وہ جو اپنا نصاب دل لگا کر پڑھتا تھا، دوسرا وہ جو اردو شعر و ادب و مطالعہ سے جنون کی حد تک محبت کرتا تھا اور چاہتا تھا کہ ہر وقت غیر نصابی کتب ہی پڑھی جائیں، تیسرا وہ جو یار باش تھا اور رات دیر گئے تک سیالکوٹ کینٹ کے ہوٹلوں میں دوستوں ‌کے ساتھ بیٹھ کر چائے اور سگریٹ پیتا تھا۔ تینوں کے شوق الگ تھے سو ایک دوسرے سے نالاں تھے، اور چوتھا انکا اجتماعی ضمیر تھا جو تھا تو مردہ لیکن ہمیشہ کفن پھاڑ کر بولتا تھا۔

یہ ڈائری کئی سال میرے پاس رہی لیکن لاہور میں ہاسٹل میں‌ کہیں‌ گم ہو گئی اور میرا ڈائری لکھنا بھی ہمیشہ کیلیے موقوف ہو گیا اور پھر کوئی بارہ برس کے بعد، جو کہ بہت سے بزرگوں کے نزدیک ایک منزل ہوتی ہے، میرے ہاتھ یہ بلاگ لگا اور اب مجھے ایسے ہی لگتا ہے کہ اپنی ڈائری ہی لکھ رہا ہوں اور شاید ہے بھی ایسا ہی، ہاں‌ فرق ہے تو اتنا کہ ڈائری کبھی چھپ چھپ کر تنہائیوں میں لکھا کرتا تھا اور بلاگ بقولِ شاعر:

ہم نے تو دل جلا کے سرِ عام رکھ دیا


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 16, 2009

میری ایک نئی غزل

اس غزل کا پہلا مصرعہ کم و بیش سات آٹھ ماہ تک میرے ذہن میں اٹکا رہا، لیکن ایک ماہ پہلے، جن دنوں کہ بلاگ سے فرصت تھی ایک رات یہ غزل مکمل ہو گئی سو یہاں لکھ رہا ہوں۔

چھیڑ دل کے تار پر، کوئی نغمہ کوئی دُھن
امن کی تُو بات کر، آشتی کے گا تُو گُن

ریشہ ریشہ تار تار، چاہے ہوں ہزار بار
سُن مرے دلِ فگار، وصل کے ہی خواب بُن

لوبھیوں کی بستی میں، مایا کے ترازو سے
فیصلہ کرے گا کون، کیا ہے پاپ کیا ہے پُن؟

سانس ہیں یہ چند پَل، آج ہیں نہیں ہیں کل
ہاں امَر وہ ہو گیا، زہر جام لے جو چُن

قریہ قریہ شہر شہر، موج موج لہر لہر
نام تیرا لے اسد، مہرباں کبھی تو سُن
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 3, 2008

پنجابی غزل از بابا نجمی - اکھّراں‌ وچ سمندر رکھّاں، سوچاں وچ جہان

بابا نجمی کی ایک خوبصورت پنجابی غزل۔

اکھّراں‌ وچ سمندر رکھّاں، سوچاں وچ جہان
سجدے کرن فرشتے مینوں، میرا ناں انسان

مینوں کِنج ہلا سکدے نیں، جھکّھڑ تے طوفان
کھڑا واں، سَت زمیناں ڈھا کے، چُک کے سَت اَسمان

جھوٹھا کیہڑا، سچّا کہیڑا، کِسراں کراں پچھان
کھاندے پئے نیں قسماں سارے سر تے رکھ قرآن
Baba Najmi, بابا نجمی, Punjabi Poetry, پنجابی شاعری
Baba Najmi, بابا نجمی
گڈ جیہا ایہہ جُثّا میرا بن جاندا اے پُھل
کچے پلے جدوں کھڈونے شامیں جپھیاں پان

میرے آل دوال نہ وَسّے، اک وی مذہب غیر
دسّے شہر دا قاضی، میرا سڑیا کِنج مکان

جم دی دھی نوں دبن والا فیر قانون بنا
ڈولے دے نال پُتّر والا، منگّے پیا مکان

اس دھرتی تے جِتھّے جِتھّے لڑ دے پئے نیں لوک
اپنا جُثّا ویکھاں بابا، ہر تھاں لہو لہان

(بابا نجمی - اکھراں وچ سمندر)
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 2, 2008

شیخ سعدی شیرازی کے چند اشعار مع ترجمہ

شیخ سعدی شیرازی, Sadi Sheerazi, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
شیخ سعدی شیرازی ایک خاکہ، Sadi Sheerazi
بلبلِ شیراز، شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی کا نامِ نامی کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ گلستانِ شیراز کو اپنے جن دو طوطیِ ہزار نوا پر تا ابد فخر رہے گا ان میں سعدی کا نام پہلے اور حافظ کا بعد میں ہے۔ شیخ سعدی ہمارے ہاں خاص طور پر اپنی حکایات اور گلستان و بوستان کی وجہ سے معروف ہیں لیکن ایرانی ناقدینِ فن کے ہاں سعدی کا نام بحیثیت غزل گو شاعر کے بہت بلند ہے۔ فارسی غزل کو رنگ و روپ سعدی نے ہی عطا کیا ہے، سعدی نہ صرف فارسی غزل کے امام ہیں بلکہ فارسی غزل کی جو بنیاد انہوں نے رکھی اسی پر بعد میں آنے غزل گو شعراء بالخصوص حافظ نے بلند و بالا و پر شکوہ عمارت کھڑی کر دی۔
کلیاتِ سعدی (با تصحیح محمد علی فروغی) مطبوعہ تہران سے اپنی پسند کے چند اشعار درج کرتا ہوں۔
خُدایا بحقِ بنی فاطمہ
کہ برِ قولِ ایماں کُنی خاتمہ
اے خدا حضرت فاطمہ (ع) کی اولاد کے صدقے میرا خاتمہ ایمان پر کرنا۔
اگر دعوتَم رد کُنی، ور قبول
من و دست و دامانِ آلِ رسول
چاہے تو میری دعا کو رد کر دے یا قبول کر، کہ میں آلِ رسول (ص) کے دامن سے لپٹا ہوا ہوں۔
چہ وَصفَت کُنَد سعدیِ ناتمام
علیکَ الصلوٰۃ اے نبیّ السلام
سعدی ناتمام و حقیر آپ (ص) کا کیا وصف بیان کرے، اے نبی (ص) آپ پر صلوۃ و سلام ہو۔
--------
گر دِلے داری بہ دلبَندی بَدہ
ضایع آں کشور کہ سلطانیش نیست
اگر دل رکھتا ہے تو اسے کسی دلدار کو دے دے، ضایع ہو جاتی ہے وہ سلطنت کہ جسکا کوئی سلطان نہ ہو۔
کامراں آں دل کہ محبوبیش ہست
نیک بخت آں سر کہ سامانیش نیست
کامیاب ہے وہ دل کہ جو اس (کسی) کا محبوب ہے، نیک بخت ہے وہ سر (دماغ) کہ جس میں ساز و سامان (کا سودا / ہوس) نہیں ہے۔
دردِ عشق از تندرستی خوشترست
گرچہ بیش از صبر درمانیش نیست
عشق کا درد تندرستی سے بہتر ہے اگرچہ صبر سے آگے (صبر کے سوا) اسکا کوئی درمان نہیں ہے۔
--------
وہ کہ گر من بازبینَم روئے یارِ خویش را
تا قیامت شکر گویَم کردگارِ خویش را
اے کاش کہ اگر میں اپنے دوست کا چہرہ دوبارہ دیکھ پاؤں، تو قیامت تک اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتا رہوں۔
گبر و ترسا و مسلماں ھر کسی در دینِ خویش
قبلۂ دارَند و ما زیبا نگارِ خویش را
یہودی و نصرانی و مسلمان، سب کا اپنے اپنے دین میں اپنا قبلہ اور ہمارا (قبلہ) خوبصورت چہرے والا ہے۔
--------
از ہر چہ می رَوَد سخنِ دوست خوشترست
پیغامِ آشنا، نفَسِ روح پرورست
میں کہیں بھی جاؤں دوست کی باتیں ہی سب سے بہتر ہیں، آشنا کا پیغام روح پرور نفس ہے۔
ھر گز وجودِ حاضرِ غایب شنیدہ ای
من درمیانِ جمع و دلم جائے دیگرست
کیا کبھی سنا کہ کوئی حاضر وجود غائب ہو گیا، (ہاں مگر میں) کہ ہجوم میں ہوتا ہوں اور میرا دل کہیں اور ہوتا ہے۔
ابنائے روزگار بہ صحرا روَند و باغ
صحرا و باغ زندہ دلاں کوئے دلبرست
دنیا داروں کیلیئے صحرا اور باغ روزی کے ذریعے ہیں جب کہ زندہ دلوں کیلیئے یہی دلبر کے کوچے ہیں۔
شب ھائے بے تو ام شبِ گورست در خیال
ور بے تو بامداد کُنَم روزِ محشرست
تیرے بغیر راتیں مجھے قبر کی راتیں لگتی ہیں اور تیرے بغیر دن مجھے محشر کا دن لگتا ہے۔
--------
بر من کہ صبوحی زدہ ام، خرقہ حرامست
اے مجلسیاں راہِ خرابات کدامست
مجھ پر کہ میں صبوحی زدہ (شراب پینے والا) ہوں، خرقہ پوشی حرام ہے، اے (خرقہ پوش) ہم نشینو یہ بتاؤ کہ مے کدے کی راہ کدھر ہے۔
غیرت نَگذارَد کہ بگویَم کہ مرا کشت
تا خلق نَدانَند کہ معشوقہ چہ نامست
میری غیرت گوارہ نہیں کرتی کہ میں یہ بتاؤں کہ مجھے کس نے مارا، تا کہ خلق کو یہ علم نہ ہو سکے کہ ہمارے محبوب کا کیا نام ہے۔
--------
بَدو گفتم کہ مشکی یا عبیری
کہ از بوئے دل آویزِ تو مَستَم
میں نے اس سے کہا کہ تو مشکی ہے یا عبیری (دونوں خوشبو کی قسمیں ہیں) کہ تیری دل آویز خوشبو سے مَیں مست ہوا جاتا ہوں۔
بَگفتا من گِلے ناچیز بُودم
و لیکن مُدّتے با گُل نَشِستَم
اس نے کہا میں تو ناچیز مٹی تھی لیکن ایک مدت تک گُل کے ساتھ نشست رہی ہے۔
جمالِ ہمنشیں در من اثَر کرد
وگرنہ من ہمہ خاکم کہ ہَستَم
یہ تو ہمنشیں کے جمال کا اثر ہے، وگرنہ میری ہستی تو محض خاک ہے۔
--------
برگِ درختانِ سبز پیش خداوند ہوش
ہر ورقے دفتریست معرفتِ کردگار
صاحبِ عقل و دانش کے سامنے سبز درختوں کا ایک ایک پتا کردگار کی معرفت کے لیے ایک بڑی کتاب ہے۔
--------
گر از بسیطِ زمیں عقل مُنعَدَم گردد
بخود گماں نَبرد ہیچ کس کہ نادانَم
اگر روئے زمین سے عقل معدوم بھی ہو جائے تو پھر بھی کوئی شخص اپنے بارے میں یہ خیال نہیں کرے گا کہ میں نادان ہوں۔
--------
دیدۂ سعدی و دل ہمراہِ تست
تا نہ پنداری کہ تنہا می روی
سعدی کے دیدہ و دل تیرے ہمراہ ہیں، تا کہ تجھے یہ خیال نہ آئے (تو یہ نہ سوچے) کہ تُو تنہا جا رہا ہے (تنہا ہے)۔
--------
کسے را کہ شیطاں بَوَد پیشوا
کجا باز گردد براہِ خدا
جس کا راہ نُما شیطان ہو، وہ کب خدا کی راہ پر واپس آتا ہے۔
--------
مزار سعدیبعد از وفات تربتِ ما در زمیں مَجو
در سینہ ہائے مَردمِ عارف مزارِ ما
وفات کے بعد میری قبر زمین میں تلاش مت کرنا، کہ عارف لوگوں کہ سینوں میں میرا مزار ہے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 1, 2008

سرخ گائے، ہمنوا اور گمنام

میں کچھ زیادہ لائق طالب علم تو نہیں تھا لیکن بہرحال اتنا نالائق بھی نہیں تھا کہ بالکل بدھو ہی کہلواتا لیکن بچپن کی کچھ نالائقیاں ایسی ہیں کہ مجھے اکثر یاد آتی ہیں، کبھی ان پر غصہ آتا تھا اور اب ہنسی آتی ہے۔
میں شاید چھٹی جماعت میں تھا اور تازہ تازہ انگریزی کا منہ دیکھا تھا اور میرے والد صاحب مرحوم میری انگریزی پر بہت توجہ دیتے تھے، ان دنوں ٹی وی پر کسی دودھ کا اشتہار چلتا تھا جس میں وہ کہتے تھے “ریڈ کاؤ مِلک”۔ ایک دن ٹی وی پر وہ اشتہار چلا تو والد صاحب نے پوچھا۔
“وارث، ریڈ کاؤ مِلک کا کیا مطلب ہے۔”
“جی”
“ہاں کیا مطلب ہے۔”
“وہ، جی، وہ گائے، گائے۔۔۔۔۔۔۔۔”
“کیا گائے گائے، بھئی مطلب بتاؤ، اچھا چلو ایک ایک لفظ کا مطلب بتاؤ، ریڈ کا کیا مطلب ہے”
“سرخ”
“اور کاؤ کا”
“گائے”
“اور ملک کا”
“دودھ”
“تو ریڈ کاؤ ملک کا کیا مطلب ہوا؟”
“جی، وہ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
“ہاں ہاں”
“جی، گائے کا سرخ دودھ”
والد صاحب نے یہ سنا تو بے اختیار ہنسنا شروع کر دیا اور کہا بیوقوف کبھی دودھ بھی سرخ ہوتا ہے، اسکا مطلب ہے سرخ گائے کا دودھ۔
ٹی وی کے حوالے سے ہی ایک دوسرا واقعہ جس پر میں گھر میں سب لوگوں کی بے رحمانہ ہنسی کا نشانہ بنا تھا، وہ بھی کم و بیش اسی زمانے کا ہے۔ اردو پڑھنے کا شوق مجھے بہت تھا اور اپنی جماعت سے بڑی جماعتوں کی اردو کی کتابیں پڑھا کرتا تھا اور گھر میں اپنی اردو دانی کی دھاک بٹھا رکھی تھی۔
ان دنوں قوالی میں صابری برادران کا طوطی بولتا تھا لیکن نصرت فتح علی خان نے بھی اپنی لا جواب قوالیوں سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانا شروع کر دیا تھا۔ ہمارا سارا گھر بشمول والد صاحب اور والدہ صاحبہ کے قوالیاں بڑے شوق سے سنا کرتا تھا۔ پی ٹی وی پر شاید ہر جمعرات کی رات کو ایک محفل سماع دکھائی جاتی تھی اور اسکے اشتہار وہ کافی دن پہلے ہی چلانے شروع کر دیتے تھے۔ ایک دن جب ہم سب گھر والے بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے تو نصرت فتح علی خان کی قوالی کا ایک اشتہار چلا، نصرت فتح علی خان قوال اور ہمنوا۔
والدہ بولیں، اب یہ لوگ نصرت کی قوالیاں زیادہ لگاتے ہیں۔ والد صاحب نے تائید کی اور کہا، ہاں پہلے تو صرف صابری برادران یا عزیز میاں قوال کی قوالیاں ہوتی تھیں لیکن اب اسکی بھی کافی قوالیاں ہوتی ہیں۔ میں جو پاس بیٹھا سن رہا تھا، شو مئی قسمت سے بولا، لیکن ابو یہ جو ہر قوالی میں ہمنوا ہوتا ہے سب سے زیادہ قوالیاں تو اسی کی ہوتی ہیں۔
میری بات سننی تھی کہ سب بے اختیار قہقہے مار کر ہنسنے لگے اور لگے میری اردو دانی کا مذاق اڑانے، والد صاحب نے کہا، الو ہمنوا کوئی قوال نہیں ہے بلکہ اسکے ساتھ جو قوالی کرنے والے ہوتے ہیں ان کو ہمنوا کہتے ہیں۔
مجھے “اقوالِ زریں” پڑھنے کا بھی بہت شوق رہا ہے اور لطف اس وقت آتا تھا جب صاحبِ قول کا نام بھی ساتھ لکھا ہوتا تھا لیکن اکثر اقوال ایسے ہوتے تھے جن کے نیچے گمنام لکھا ہوتا تھا، خیر اردو کے گمنام کا تو کوئی مضائقہ نہیں تھا لیکن مصیبت اس وقت پڑی جب انگریزی اقوال کے ساتھ “اینانیمس” لکھا ہوتا تھا۔ میری عادت یہ بھی ہوتی تھی کہ جب کسی مشاہیر کا قول پسند آتا تھا تو پھر اس کے متعلق معلومات بھی ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑتا تھا، اب جب کافی جگہ اقوال کے نیچے مجھے “اینانیمس” لکھا نظر آیا تو میں نے سوچا یہ کوئی بہت بڑا بندہ ہوگا تبھی تو اتنے پتے کی باتیں کرتا ہے اور جب کالج کی لائبریری اور ادھر ادھر کافی جگہ ڈھونڈ کر تھک گیا تو بلآخر ایک لغت نے میری مدد کی اور علم ہوا کہ یہ کوئی حضرت نہیں بلکہ “گمنام” کی انگلش ہے۔ اس دفعہ کسی نے ہنسی تو نہیں اڑائی لیکن اپنے آپ سے بہت شرمندہ ہوا کہ اتنا بڑا ہو کر بھی ایک لفظ کا مطلب نہ جان سکا۔
خیر اپنی جہالت کا ماتم میں کر چکا لیکن “گمنام” میرے ذہن سے نہیں نکلتا اور اب جب کبھی کوئی شعر بغیر شاعر کے نام کے لکھا دیکھتا ہوں تو بہت افسوس ہوتا ہے بلکہ شعر پڑھنے کو ہی دل نہیں کرتا، شاید کوئی خفت کہیں چُھپی ہوئی ہے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔