May 31, 2009

ایک نعت کے کچھ اشعار اور انکی تقطیع

محمد افضل صاحب (میرا پاکستان) نے خاکسار کی ایک پوسٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمہ کی مشہور و معروف نعت کے کچھ اشعار کی تقطیع لکھوں، سو لکھ رہا ہوں۔ پہلے اس وجہ سے نہیں لکھی تھی کہ اس وقت میں چاہ رہا تھا کہ پہلے علمِ عروض پر کچھ ضروری باتیں لکھ دوں تا کہ تقطیع کو پڑھتے ہوئے اس بلاگ کے قارئین اسے سمجھ بھی سکیں۔ اور اب جب کہ علمِ عروض اور تقطیع پر کچھ بنیادی باتیں لکھ چکا ہوں سو امید کرتا ہوں کہ وہ قارئین جو ان تحاریر کو 'فالو' کر رہے ہیں ان کو اس تقطیع کے سمجھنے میں کچھ آسانی ضرور ہوگی۔
تقطیع لکھنے سے پہلے کچھ بات اس بحر کی جس میں یہ خوبصورت سلام ہے۔ اس بحر کا نام 'بحرِ مُتَدارِک' ہے اور یہ ایک مفرد بحر ہے۔ مفرد بحریں وہ ہوتی ہیں جن کے وزن میں ایک ہی رکن کی تکرار ہوتی ہیں جب کہ مرکب بحروں کے وزن میں مختلف ارکان ہوتے ہیں۔ بحروں کے ارکان پر تفصیلی بحث ایک علیحدہ پوسٹ کی مقتضی ہے سو بعد میں، فی الحال اتنا کہ جیسے اس سے پہلے ہم دیکھ چکے ہیں کہ بحرِ ہزج میں 'مفاعیلن' چار بار آتا ہے یعنی مفاعیلن رکن ہے بحرِ ہزج کا اور بحرِ ہزج بھی ایک مفرد بحر ہے۔
اسی طرح ہماری آج کی مذکورہ بحر، بحرِ متدارک کا رکن 'فاعِلُن' ہے اور ایک مصرعے میں چار بار آتا ہے۔ فاعلن کو ذرا غور سے دیکھتے ہیں یعنی فا عِ لُن یعنی ایک ہجائے بلند، ایک ہجائے کوتاہ اور ایک ہجائے بلند یعنی 2 1 2 فاعلن کی علامتیں ہیں اور اس بحر کے ایک مصرعے کا وزن ہوگا۔

فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن
212 212 212 212

اس بحر بلکہ عموماً ہر بحر کے آخری رکن میں تھوڑی سی تبدیلی کی اجازت ماہرین نے دے رکھی ہے اور وہ یہ کہ بحر کے آخری رکن یعنی یہاں پر آخری فاعلن یا آخری 212 کے آخر میں ایک ہجائے کوتاہ کی اضافے کی اجازت ہے یعنی آخری رکن 212 ہے تو اس پر ایک ہجائے کوتاہ بڑھایا تو یہ 1212 ہو گیا اور رکن فاعِلان ہو گیا یعنی فا2، ع1، لا2، ن1 یوں ایک شعر کے دونوں مصرعوں میں یہ وزن اگر اکھٹے جمع کر دیئے جائیں تو جائز ہے۔
فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن
212 212 212 212
اور
فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن فاعِلان
212 212 212 1212
اس عمل یعنی آخری رکن پر ایک ہجائے کوتاہ کے بڑھانے کے عمل کو 'تسبیغ' کہا جاتا ہے اور ابھی اس نعت بلکہ عربی، فارسی، اردو شاعری میں ہر جگہ آپ دیکھیں گے کہ عملِ تسبیغ ایک ایسا عمل یا رعایت ہے جس کے بغیر کسی شاعر کی شاعری مکمل نہیں ہوتی۔ منطق اس رعایت کی یہ ہے کہ ماہرین کے مطابق اس عمل سے وزن پر کوئی فرق نہیں پڑھتا لیکن شاعروں کو بہت فائدہ ہو جاتا ہے کہ اپنی مرضی کا لفظ آسانی سے لا سکتے ہیں، پھر واضح کر دوں کہ تسبیغ کا عمل کسی بھی بحر کے صرف اور صرف آخری رکن میں جائز ہے اور شروع یا درمیانی اراکین پر یہ جائز نہیں ہے فقط ایک استثنا کے ساتھ کہ 'مقطع' بحروں کے درمیان بھی اسکی اجازت ہوتی ہے لیکن ان بحروں پر تفصیلی بحث پھر کسی وقت انشاءاللہ۔
اب ہم تقطیع دیکھتے ہیں۔
مُصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام
مُص طَ فا - 212 - فاعلن
جا نِ رح - 212- فاعلن
مَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان (عملِ تسبیغ نوٹ کریں، اور یہ بھی کہ لاکھوں کے کھوں کو عروضی متن میں صرف 'کو' لکھا ہے وجہ یہ کہ نون غنہ اور دو چشمی ھ، دونوں کا عروض میں کوئی وزن نہیں ہوتا اور یہ ایک اصول ہے۔)
شَم عِ بز - 212 - فاعلن
مے ہِ دا - 212 - فاعلن (اشباع کا عمل نوٹ کریں یعنی شاعر نے بزمِ کی میم کے نیچے جو اضافت زیر ہے اس کو کھینچ کر 'مے' یعنی ہجائے بلند بنایا ہے کیونکہ بحر کے مطابق یہاں ہجائے بلند یا 2 کی ضرورت تھی)۔
یَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان (وہی وضاحت ہے جو اوپر گزری)۔
شہر یارِ ارَم، تاجدارِ حرَم
نو بہارِ شفاعت پہ لاکھوں سلام
شہ ر یا - 212 - فاعلن (شہر کا صحیح تلفظ ہ ساکن کے ساتھ ہے، اکثر لوگ اس کا غلط تلفظ شہَر کرتے ہیں)۔
رے اِ رَم - 212 - فاعلن (اشباع نوٹ کریں)۔
تا ج دا - 212 - فاعلن
رے حَ رَم - 212 - فاعلن (رے میں پھر اشباع نوٹ کریں)۔
نو بَ ہا - 212 - فاعلن
رے شِ فا - 212 - فاعلن (رے میں عملِ اشباع)۔
عت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان (وہی وضاحت ہے جو اوپر گزری)۔
جس کے سجدے کو محرابِ کعبہ جھکی
ان بھؤں کی لطافت پہ لاکھوں سلام
جس کِ سج - 212 - فاعلن (اخفا کا عمل نوٹ کریں یعنی کے کی ی شاعر نے گرا دی ہے کہ یہاں پر بحر کے مطابق اسے ہجائے کوتاہ کی ضرورت تھی)۔
دے کُ مح - 212 - فاعلن (اخفا کا عمل نوٹ کریں)۔
را بِ کع - 212 - فاعلن
بہ جُ کی - 212 - فاعلن
ان بَ ؤ - 212 - فاعلن (دو چشمی ھ کا کوئی وزن نہیں اور ؤ کو ہجائے بلند یا ہجائے کوتاہ سمجھنا شاعر کی صوابدید ہے یہاں شاعر نے اسے ہجائے بلند باندھا ہے کہ بحر کا یہی تقاضہ تھا)۔
کی لِ طا - 212 - فاعلن
فَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان
وہ دہن جس کی ہر بات وحیِ خدا
چشمۂ علم و حکمت پہ لاکھوں سلام
وہ دَ ہن - 212 - فاعلن
جس کِ ہر - 212 - فاعلن (کی میں اخفا کا عمل)۔
با ت وح - 212 - فاعلن
یے خُ دا - 212 - فاعلن (عمل اشباع)۔
چش مَ اے - 212 - فاعلن (ہمزۂ اضافت کو اے تلفظ کر کے ایک ہجائے بلند بنایا ہے کہ بحر میں اسی کی ضرورت تھی)۔
عل م حک - 212 - فاعلن (علم و حکمت کی جو اضافت واؤ ہے شاعر نے اسکا کوئی وزن نہیں لیا اور یہ شاعر کی صوابدید ہے)۔
مَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان
وہ زباں جس کو سب کُن کی کنجی کہیں
اس کی نافذ حکومت پہ لاکھوں سلام
وہ ز با - 212 - فاعلن (نوٹ کریں کہ زبان کی جگہ شاعر نے زباں یعنی نون غنہ استعمال کیا ہے وجہ یہ کہ نون غنہ کا کوئی وزن نہیں ہوتا اگر یہاں زبان نون معلنہ کے ساتھ ہوتا تو وزن بگڑ جاتا)۔
جس کُ سب - 212 - فاعلن (کو میں عملِ اخفا)۔
کُن کِ کُن - 212 - فاعلن (کی میں عملِ اخفا)۔
جی کَ ہے - 212 - فاعلن
اُس کِ نا - 212 - فاعلن (کی میں عملِ اخفا)۔
فذ حَ کو - 212 - فاعلن
مَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان
کُل جہاں ملک اور جو کی روٹی غذا
اس شکم کی قناعت پہ لاکھوں سلام
کُل جَ ہا - 212 - فاعلن (کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ شاعر نے جہان کی جگہ جہاں کیوں استعمال کیا ہے)۔
مل ک ار - 212 - فاعلن (اور کو ایک ہجائے بلند کے برابر یعنی ار یا 2 بنا لینا شاعر کی صوابدید ہے)۔
جو کِ رو - 212 - فاعلن (کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ کس لفظ پر اخفا استعمال ہوا ہے اور کیوں)۔
ٹی غَ ذا - 212 - فاعلن
اس شِ کم - 212 - فاعلن
کی قَ نا - 212 - فاعلن
عَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان
سیّدہ ، زاہرہ ، طیّبہ ، طاہرہ
جانِ احمد کی راحت پہ لاکھوں سلام
سی یَ دہ - 212 - فاعلن (تشدید والا حرف دو بار بولا جاتا ہے سو تقطیع میں جس حرف پر تشدید ہوتی ہے اس کو دو بار لکھا جاتا ہے یعنی اسکا وزن ہوتا ہے جیسے یہاں ی پر تشدید ہے اور اسی سے وزن پورا ہوا ہے)۔
زا ہ را - 212 - فاعلن
طی یَ بہ - 212 - فاعلن (تشدید پھر نوٹ کریں)۔
طا ہ رہ - 212 - فاعلن
جا نِ اح - 212 - فاعلن
مد کِ را - 212 - فاعلن (اخفا)۔
حَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان

اس خوبصورت نعت کے کچھ اشعار کی تقطیع کے دوران ہم نے کئی چیزیں دیکھیں، سب سے پہلے تو یہی کہ بحر مُتَدارِک ایک مفرد بحر ہے جس میں رکن فاعِلُن کی تکرار ہے، پھر یہ کہ عملِ تسبیغ شاعری کا ایک لازمی جز ہے اور اخفا اور اشباع کا بھی اعادہ ہوا کہ ان کے بغیر بھی شاعری مکمل نہیں ہوتی۔
کسی وضاحت کی صورت میں ضرور لکھیئے گا۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 26, 2009

علم عروض اور تلفُّظ

تلفظ کی غلطی کوئی بھی کرے، اچھی نہیں لگتی لیکن عموماً اُدَبا و شعراء سے لوگ توقع رکھتے ہیں کہ یہ غلطیاں نہیں کریں گے اور کسی حد تک یہ بات ٹھیک ہے، کیونکہ کوئی بھی زبان ادیبوں اور شاعروں کے ہاتھوں ہی پروان چڑھتی ہے اور وہ ہی اسکے نگبہان بھی ہوتے ہیں۔ ادیبوں یا نثر نگاروں کو شاعروں کے مقابلے میں ایک چھُوٹ یہ ہوتی ہے کہ انکی تحریر کی جانچ ہمیشہ موضوعی یعنی subjective ہوتی ہے لیکن شعراء کے کلام یا منظومے کی ایک جانچ معروضی objective طور پر یعنی دو جمع دو چار کے کُلیے پر ہوتی ہے جسے تقطیع کہا جاتا ہے اور عام ماہرینِ فن کو فوری علم ہوجاتا ہے کہ شاعر نے کسی لفظ کو ادا کرنے میں کہاں غلطی کی ہے جب کہ دوسری طرف کوئی نثر نگار صرف اسی وقت پکڑا جا تا ہے جب وہ اپنی زبان کھولتا ہے۔
تَلَفُّظ کی غلطیاں عموماً دو طرح کی ہوتی ہیں، ایک وہ جن میں کسی حرکت کو غلط ادا کیا جائے جیسے بادَل کہ دال پر زبر ہے، اس کو بادِل دال کی زیر کے ساتھ بول دیا جائے اور دوسری وہ جن میں کسی ساکن حرف کی جگہ متحرک حرف بولا جائے جیسے صبر کہ اس میں بے ساکن ہے کو صبَر بولا جائے یا متحرک کی جگہ ساکن حرف ادا کیا جائے، جیسے غلَط کہ اس میں لام پر زبر ہے کو غلط لام ساکن کے ساتھ بولا جائے۔

اب ہم دیکھتے ہیں کہ ان دونوں طرح کی غلطیوں سے کسی منظومے یا شاعر کے کلام پر کیا فرق پڑ سکتا ہے۔

اول حرکت کا بدل دینا، شاعر کو کسی لفظ کے صحیح تلفظ کا علم ہو یا نہ، یہ غلطی اس وقت تک اسکے سر نہیں جاتی جب تک وہ خود کسی مشاعرے یا ویسے پڑھنے میں غلط تلفظ نہ ادا کرے۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ وزن دراصل ہجوں کی ترتیب کا نام ہے یعنی ہجائے بلند کی جگہ ہجائے بلند اور ہجائے کوتاہ کے مقابل ہجائے کوتاہ، یعنی کسی لفظ کی غلط حرکت ادا کرنے سے اسکے وزن پر فرق نہیں پڑتا۔ مثال کے طور پر لفظ بادل کو ہی دیکھتے ہیں، اسکا صحیح تلفظ بادَل اور وزن 2 2 ہے لیکن اگر کسی شاعر کو اسکے صحیح تلفظ کا علم نہیں ہے اور اس نے اپنی طرف سے اسے 'بادِل' باندھ دیا ہے تو وزن پر پھر بھی کوئی فرق نہیں پڑا کہ یہ بھی 22 ہے۔

لیکن فرض کریں کہ ایک شاعر ایک غزل کہتا ہے جسکے قوافی، محفِل، قاتِل، دِل وغیرہ ہیں، اس میں اگر وہ 'بادِل' غلط تلفظ کے ساتھ قافیہ باندھ دیتا ہے تو پھر اس کیلیے کوئی رعایت نہیں ہے یا بادل، آنچل، جنگل کے ساتھ محفِل کو محفَل سمجھ کر قافیہ باندھ دیتا ہے تو پھر یہ بھی ایک فاش غلطی ہے اور کوئی بھی قاری کسی شاعر سے اس چیز کی توقع نہیں رکھتا۔

دوسری طرف اگر ساکن اور متحرک کی جگہ بدل دی جائے تو زمین و آسمان زیر و زبر ہو جاتے ہیں، مثلاً صبر، ب ساکن کے ساتھ کا وزن صب،ر یعنی 2 1 ہے لیکن اسے صَ بَر باندھنے سے اسکا وزن 1 2 ہو جائے گا یعنی ہجوں کی ترتیب بدل جائے گی سو وزن نہیں رہے گا اور شاعر چاہے زبان کھولے یا نہ کھولے بہرطور 'پکڑا' جائے گا۔ اسی طرح اگر 'غَلَط' یعنی غَ لَط کو غل،ط باندھا جائے گا تو وزن پھر بدل جائے گا اور شعر پھر بے وزن ہو جائے گا۔

ان غلطیوں سے کیسے بچا جا سکتا ہے، بہت آسان ہے، اوّل تو آپ کے پاس ایک اچھی اردو لغت ہونی چاہیئے جس میں تلفظ واضح کیا گیا ہو، دوسرا یہ کہ جس لفظ کے تلفظ کے بارے میں ذرا بھی شک ہو اس کو اس وقت تک شاعری میں استعمال نہ کریں جب تک اس کی کوئی سند نہ حاصل کر لیں یعنی جب تک اسے معیاری لغت میں نہ دیکھ لیں یا کسی استاد شاعر کے کلام میں تقطیع کر کے اس کا صحیح وزن نہ معلوم ہو جائے۔ ویسے عرض کرتا چلوں کہ تقطیع کا ایک ضمنی فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے الفاظ کے صحیح تلفظ کا علم ہو جاتا ہے کم از کم ساکن اور متحرک حروف کی حد تک۔ رومن حروف میں اردو لکھنے سے مجھے چڑ ہے بلکہ نفرت ہے لیکن اسکا ایک فائدہ ایسا ہے کہ عرصے سے میں اسکا قتیل ہوں اور مستند رومن اردو لکھی ہوئی اگر کہیں مل جائے تو کوشش ضرور کرتا ہوں پڑھنے کی کہ اس سے تلفظ بالکل واضح اور صاف ہو جاتا ہے اس پر طرہ یہ ہے کہ اگر کسی کو دو چار پیرے اگر رومن اردو میں لکھنے پڑ جائیں تو 'لگ پتا جاتا ہے' کیونکہ اس میں غلطی فوری پکڑی جاتی ہے، مثلا ایک فورم کی ڈومین میں نے alqalm لکھی دیکھی ہے جو کہ سراسر غلط ہے یہ ان کی کوئی 'مجبوری' بھی ہو سکتی ہے لیکن بہرحال اس پائے کے فورم پر ایسی غلطی نہیں ہونی چاہیئے۔

ایک عام بات جو میرے مشاہدے میں آئی ہے کہ پاکستانی احباب بالعموم اور پنجابی احباب بالخصوص ان مختصر الفاظ کے تلفظ میں غلطی کرتے ہیں جن میں دوسرا حرف ساکن ہے۔

جیسے یہ الفاظ، برف، گرم، نرم، شرم، جُرم، سرد، فرد، مرد، صبر، قبر، جبر، حشر، لطف، حمل، وزن، علم (جاننا)، عقل، عرش، فرش، سبز، سرخ، زرد وغیرہ وغیرہ

کہ ان سب میں دوسرا حرف ساکن ہے لیکن عموماً ہمیں اپنے ارد گرد (اور میڈیا پر بھی) انکا غلط تلفظ دوسرے حرف پر زبر کے ساتھ سننے کو ملتا ہے جو کہ طبعِ لطیف پر بہت گراں گزرتا ہے اور شعر میں اس قسم کی غلطی ہونا تو ناقابلِ معافی ہے، اساتذہ ایسے موقعے اصلاح دیتے ہیں کہ برخوردار پہلے کچھ اور مطالعہ کر لو اور بزرگوں کی صحبتوں سے فیضیاب ہو لو تو پھر شاعری کرنا، لیکن یہ بات فقط کہنے کی حد تک ہے، تھوڑے سے تردد اور تھوڑی سی 'کامن سینس' سے ہر مشکل کا حل مل جاتا ہے۔
----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 23, 2009

علمِ عروض، ہجے بنانا یا وزن پورا کرنا

کافی غیر شاعرانہ سا عنوان اور کام ہے 'ہجے بنانا یا وزن پورا کرنا'، لیکن یقین مانیے دنیا میں کسی شاعر کا کام اسکے بغیر نہیں چلتا، ہر شاعر اپنی مرضی کے ہجے بناتا ہے اور ان سے وزن پورا کرتا ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھ چکے کہ ہجے دو طرح کے ہوتے ہیں دو حرفی یا ہجائے بلند اور یک حرفی یا ہجائے کوتاہ (ان کو بار بار میں اس لیے لکھتا ہوں کہ یہی کلید ہے علمِ عروض کی اور انہی کی ترتیب ہی وزن ہے اور انہی کے پیٹرن بحریں)، سو ان دو طرح کے ہجوں کے علاوہ بھی کوئی ہجا ہو سکتا ہے، ہوتا نہیں ہے لیکن سمجھا جا سکتا ہے۔ اور یہ شاعروں کی سب بڑی صوابدید ہے کہ وہ متعین اور مخصوص الفاظ کو چند اصولوں کے تحت چاہے تو ہجائے کوتاہ سمجھے یا ہجائے بلند، کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہوگا۔

یہ عمل دو طرح کا ہوتا ہے، ایک یہ کہ آپ کسی ہجائے بلند میں سے کوئی لفظ گرا کر اسے ہجائے کوتاہ بنا لیں اور دوسرا یہ کہ آپ کسی ہجائے کوتاہ پر کوئی حرف بڑھا کر اسے ہجائے بلند بنا لیں۔

دراصل، علمِ عروض میں صوتیات کا بھی بہت عمل دخل ہے، ایک مثال دیکھتے ہیں، لفظ میرَا یعنی مے را یعنی 22، اب اگر اس لفظ کا آخری حرف یعنی الف گرا دیا جائے تو باقی کیا رہے گا، میرَ، اس کو آپ تلفظ ویسے ہی کریں گے جیسے میرا ہے لیکن نوٹ کریں کہ اسکے ہجے کم ہو گئے ہیں پہلے اگر یہ 22 یا دو ہجائے بلند تھا تو اب یہ 2 1 یا ایک ہجائے بلند اور ایک ہجائے کوتاہ ہو گیا ہے، اور اسی کا نام اخفا ہے اور عرفِ عام میں اسے 'گرانا' کہا جاتا ہے۔

اب ایک اور مثال دیکھتے ہیں، مثلاً لفظ 'گُلِ سرخ' اس میں گُلِ کے ہجے یا وزن گُ لِ یا 11 ہے لیکن اس کا تلفظ کیا ہوتا ہے گُ لے یعنی 1 2 اور اب وزن بدل گیا ہے گو تلفظ ہر دو صورتوں میں ایک ہی ہے۔ اس میں شاعر نے یہ کیا کہ لام کی اضافت کو جو کہ اصل میں ایک ے کی آواز نکال رہی ہے کو کھینچ لیا یا بڑھا لیا اور اسے اشباع کہا جاتا ہے۔

اخفا اور اشباع، یہ دونوں ایسے عمل ہیں جن سے دراصل تلفظ پر تو فرق نہیں پڑتا لیکن وزن پر فرق ضرور پڑتا ہے اور اس بات کو شاعر کی صوابدید پر چھوڑا جاتا ہے کہ وہ مخصوص قوانین کے تحت مخصوص الفاظ پر اخفا اور اشباع کا عمل کر سکتا ہے اور بحر کے مطابق جہاں اسے ہجائے بلند یا ہجائے کوتاہ کی ضرورت ہو ان کو مطلوبہ ہجا بنا لے۔ یہ ایک ایسی رعایت ہے کہ شاعر حضرات اس کا خوب فائدہ اٹھاتے ہیں، ناقدین چپ رہتے ہیں کہ تلفظ تو بدلا نہیں اور 'عروضیوں' پر فرض ہوجاتا ہے کہ شاعر کی عظمت کو سلام کریں۔

ان مخصوص قوانین کا قصہ طول طلب ہے مختصراً یہ کہ حروفِ علت یعنی الف، واؤ اور یا کو لفظ کے آخر سے گرایا جا سکتا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ ہائے غیر ملفوظی یعنی وہ ہ جو بولنے میں نہیں آتی جیسے بچہ یا رفتہ یا کشتہ وغیرہ اس کو بھی بلا تکلف گرایا جا سکتا ہے۔ اشباع عموماً تمام اضافتوں میں جائز ہے، تفصیل نیچے آتی ہے۔

ایک بات یہ کہ ہر وہ ہجا جسے کوتاہ یا بلند سمجھا جا سکتا ہے اس کو x سے ظاہر کیا جا رہا ہے، اسے میں نے Prof. Frances W Pritchett کی علمِ عروض پر خوبصورت کتاب A Practical Handbook of Urdu Meter میں دیکھا تھا اور یہ طریقہ انتہائی کارگر اور مفید ہے یعنی x کو آپ 1 یا 2 سے بدل سکتے ہیں۔ اب کچھ وہ الفاظ جن کو گرایا جا سکتا ہے۔

میرا - 2 x

اور بالکل اسی طرح میری، میرے، تیرا، تیری، تیرے۔

مرا - x 1

بالکل اسی طرح مری، مرے، ترا، تری، ترے کا وزن ہے۔

کا، کی، کے سب کا وزن x ہے۔

سے، ہے، ہیں، جو، کو، دو سب کا وزن x ہے۔

کوئی اور ہوئی - xx یعنی چاہے تو دنوں ہجوں کو بلند 22 سمجھیں یا دونوں کو کوتاہ 11 یہ پہلے کو بلند اور دوسرے کو کوتاہ یعنی 2 1 یا پہلے کو کوتاہ اور دوسرے کو بلند یعنی 1 2 سمجھیں۔

ہوا - 1 x

کیسے اور جیسے - 2 x

اور - چاہے تو اسے او،ر یا 2 1 سمجھیں یا فقط 2۔

دروازہ یعنی x22

زندہ - x2

وغیرہ وغیرہ

دراصل ان الفاظ کو سمجھنے میں صرف شروع میں مشکل پیش آتی ہے، جب مشق ہو جاتی ہے تو خود بخود علم ہو جاتا ہے کہ کون سے لفظ کو گرانا ہے اور کس کو نہیں۔

اور کچھ ذکر اشباع یا کسی ہجے کو کھینچ کر اسکا وزن تبدیل کرنے کا۔

سب سے پہلے تو اضافت زیر، ایک مثال اوپر گزری، ایک اور دیکھیئے، شبِ تنہائی اسکا اگر وزن کریں تو

شَ ا، بِ 1، تن2، ہا2، ئی2 یعنی 22211 لیکن اضافت زیر پر اشباع کے عمل سے بِ کو بے سمجھ کر ہجائے کوتاہ کو ہجائے بلند بنا لیا یعنی

شبِ تنہائی x1۔ 222

گویا x کی جگہ شاعر اپنے مطلب کا ہجا لا سکتا ہے۔

اضافت واؤ، جیسے گل و بلبل میں۔ یہ بھی ایک خصوصی اضافت ہے شاعر کی مرضی ہے کہ اس واؤ کا کوئی وزن سرے سے سمجھے ہی نہ یا پچھلے ہجے سے ملا کر ایک بلند ہجا حاصل کر لے یا واؤ کو پیش سے بدل کر پچھلے ہجے کو ہجائے کوتاہ بنا لے یعنی

گل و بلبل

یا

گل بل بل

222

گُ لُ بل بل

2211
یا

گُ لو بلبل

2221

ہمزۂ اضافت کا اصول یہ ہے کہ اسکا وزن تو ضرور ہے لیکن شاعر کی مرضی ہے کہ کوتاہ سمجھے یا بلند۔

فی الحال اس موضوع کو یہاں چھوڑ رہا ہوں کہ گرمی کچھ کام نہیں کرنے دے رہی، ہاں ایک عملی مثال اسی اپنی پہلے سبق کی بحر بلکہ غالب کی اسی غزل سے۔

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے

کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ غالب نے کہاں کہاں الفاظ گرائے ہیں، چلیں اس شعر کو میں 'حل' کر دیتا ہوں لیکن براہِ مہربانی اس غزل کے دیگر اشعار پر خود مشق ضرور کریں۔

نِ کَل نا خل - 2221 - مفاعیلن
د سے آ دم - 2221 - مفاعیلن
کَ سن تے آ - 2221 - مفاعیلن - کا کا الف غائب
ء ہے لے کِن - 2221 - مفاعیلن - ئے کی ی گم، ہیں کے نون غنہ کا کوئی وزن نہیں۔

ب ہت بے آ - 2221 - مفاعیلن
ب رُو ہو کر - 2221 - مفاعیلن
تِ رے کو چے - 2221 - مفاعیلن، تیرے کو ترے لکھنا غالب کی مجبوری تھی نا کہ کوئی شاعرانہ اپچ۔
سِ ہم نکلے - 2221 - مفاعیلن، سے کی یے کہاں ہے ڈھونڈیے۔


مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 13, 2009

ایک تازہ غزل

جُملہ کچھ 'بالغانہ' سا ہے لیکن لکھنے میں عار کچھ یوں نہیں کہ فرمودۂ قبلہ و کعبہ جنابِ حضرتِ علامہ اقبال علیہ الرحمہ ہے اور بلاگ کے قارئین میں کوئی "نابالغ" بھی نہیں۔ اپنی وفات سے کچھ ماہ قبل جب کہ آپ شدید بیمار تھے اور اپنی طویل بیماری سے انتہائی بیزار، سید نذیر نیازی، جن کے ذمّے علامہ کے اشعار کی ترتیب و تسوید تھی، کو فرماتے ہیں "آمدِ شعر کی مثال ایسی ہے جیسے تحریکِ جنسی کی، ہم اسے چاہیں بھی تو روک نہیں سکتے۔" آخر الذکر" تحریک کے متعلق ہمیں علامہ سے کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو، اول الذکر سے مکمل اتفاق ہے۔
شاعر بیچاروں کی مجبوری یہ ہوتی ہے کہ اگر ان پر کچھ اشعار کا نزول ہو جائے تو اپنی اس خود کلامی کو "خود ساختہ" کلام کا نام دے کر سرِ بازار ضرور رکھ دیتے ہیں، سو اپنی ایک نئی غزل لکھ رہا ہوں۔ پانچ ہی شعر لکھ پایا، مزید لکھنے کا ارادہ تھا لیکن پھر اس غزل کیلیے تحریک ہی پیدا نہیں ہوئی، عرض کیا ہے۔

آرزوئے بہار لاحاصِل
عشقِ ناپائدار لاحاصِل

قیدِ فطرت میں تُو ہے پروانے
تیرا ہونا نثار لاحاصِل

ہے شفاعت اگر بُروں کے لیے
نیکیوں کا شمار لاحاصِل

دلِ دنیا ہے سنگِ مرمر کا
لاکھ کر لو پکار، لاحاصِل

شعر و گُل میں ڈھلے اسد لمحے
کب رہا انتظار لاحاصِل
مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 12, 2009

جاوید نامہ مصوّر سے ایک منظر کی تصاویر

"بانگِ درا کی بیشتر نظمیں میری طالب علمی کے زمانے کی ہیں، زیادہ پختہ کلام افسوس کہ فارسی میں ہوا۔۔۔۔۔۔۔ اس (بانگِ درا) سے زیادہ اہم کام یہ ہے کہ جاوید نامہ کا تمام و کمال ترجمہ کیا جائے، یہ نظم ایک قسم کی "ڈیوائن کامیڈی" ہے۔ مترجم کا اس سے یورپ میں شہرت حاصل کر لینا یقینی امر ہے اگر وہ ترجمے میں کامیاب ہو جائے، اور اگر اس ترجمہ کا کوئی عمدہ مصوّر (السٹریٹ) بھی کر دے تو یورپ اور ایشیا میں مقبول تر ہوگا۔ اس کتاب میں بعض بالکل نئے تخیلات ہیں اور مصوّر کے لیے بہت عمدہ مسالہ ہے۔"

یہ اُس خط سے ایک اقتباس ہے جو علامہ اقبال نے ڈاکٹر غلام محی الدین صوفی کو 30 مارچ 1933ء کو لکھا، صوفی صاحب نے انہیں بتایا تھا کہ ان (صوفی صاحب) کا ایک دوست "شکوہ" اور "جوابِ شکوہ" کا انگریزی منظوم ترجمہ کر رہا ہے۔

اسی طرح 25 جون 1935ء کو علامہ اقبال ایک مصوّر ضرار احمد کاظمی کو جو "شکوہ" اور "جوابِ شکوہ" کو مصوّر کر رہے تھے، لکھتے ہیں۔

"میری رائے میں میری کتابوں میں سے صرف "جاوید نامہ" ایک ایسی کتاب ہے جس پر مصوّر طبع آزمائی کرے تو دنیا میں نام پیدا کر سکتا ہے مگر اس کے لیے پوری مہارتِ فن کے علاوہ الہامِ الٰہی اور صرفِ کثیر کی ضرورت ہے۔"

اسی مصور کو اپنی وفات سے صرف تین دن پہلے 18 اپریل 1938ء کو لکھتے ہیں: "پوری مہارتِ فن کے بعد اگر آپ نے "جاوید نامہ" پر خامہ فرسائی کی تو ہمیشہ زندہ رہو گے۔"

ان تمام خطوط کے اقتباسات، جن سے علامہ اقبال کی نظر میں اپنی کتاب "جاوید نامہ" کی اہمیت اور اس کو مصوّر کرنے کی شدید خواہش ظاہر ہوتی ہے، میں نے "جاوید نامہ" کی ایک طبعِ خاص (ڈیلکس ایڈیشن) سے لیئے ہیں، جسے اقبال اکادمی پاکستان، لاہور نے 1982ء میں شائع کیا تھا۔ اس ڈیلکس ایڈیشن کی سب سے خصوصی بات یہ ہے کہ اس میں "جاوید نامہ" کے مختلف حصوں کی جمی انجنیئر کی مصوّر کی ہوئی تصاویر ہیں۔ دراصل جمی انجنیئر نے علامہ اقبال کے فرزند، ڈاکٹر جاوید اقبال کی اقامت گاہ کی دیواروں پر جاوید نامہ کے جملہ مناظر نقش کیے تھے اور انہی مناظر میں سے اقبال اکادمی نے 35 تصاویر جاوید نامہ کے مذکورہ ڈیلکس ایڈیشن میں شائع کی ہیں۔ کتاب میں شائع کرنے کیلیے تصاویر کو منتخب کرنے کا فریضہ ڈاکٹر جاوید اقبال نے سرانجام دیا تھا۔ اور اسی ایڈیشن میں سے چار تصاویر میں یہاں پیش کر رہا ہوں، یہ چار تصاویر "جاوید نامہ" کے ایک منظر کو واضح کرتی ہیں۔ ان تصاویر پر میں نے نہ صرف "جاوید نامہ" میں سے متعلقہ حصے کا نام لکھا دیا ہے بلکہ اس طبعِ خاص میں تصاویر کے نیچے جو اشعار دیئے گئے ہیں وہ بھی (مع ترجمہ) لکھ دیئے ہیں اور یوں علیحدہ علیحدہ تصویر بھی اپنی جگہ پر مکمل سی ہے۔ تصاویر کو بڑا دیکھنے کیلیے ان پر 'کلک' کیجیے۔

اس منظر کا سیاق و سباق کچھ یوں ہے کہ مولانا رومی، علامہ اقبال کو افلاک کی سیر پر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں جسے علامہ نے "سیاحتِ عالمِ علوی" کا نام دیا ہے۔ اپنے اس سفر پر سب سے پہلے وہ "فلکِ قمر" پر پہنچتے ہیں اور وہاں پر چاند کی ایک وادی "یرغمید" کو دیکھتے ہیں۔ اس وادی میں رومی، علامہ کو نبوت کے چار مناظر دکھاتے ہیں۔ اس تصویر میں اسی منظر کی بیان کیا گیا ہے اور اگلی تصاویر میں انہی مناظر کو بڑا کر کے دکھایا گیا ہے۔ اس تصویر میں مولانا رومی علامہ کو سنگِ قمر کی دیورا پر نقش چار "طاسینِ نبوت" یا نبوت کی تعلیمات دکھاتے ہیں جن کی تفصیل نیچے آ رہی ہے، یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ان حصوں کے عناوین سے بھی علامہ کے تخیل کا اوج دکھائی دیتا ہے۔

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال, Javiad Nama, جاوید نامہ, Maulana Rumi, مولانا رومی
طاسینِ گوتم - توبہ آوردن زنِ رقاصۂ عشوہ فروش یعنی گوتم کی تعلیمات، ایک عشوہ فروش رقاصہ کا توبہ کرنا۔ یہ دراصل گوتم بدھ اور ایک رقاصہ کا مکالمہ ہے، جس میں گوتم بدھ رقاصہ سے بات کرتا ہے اور جواباً رقاصہ توبہ کرتی ہے۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال, Javiad Nama, جاوید نامہ, Maulana Rumi, مولانا رومی
اس سے اگلے حصے کا نام "طاسینِ زرتشت - آزمایش کردن اہرمن زرتشت را" یعنی زرتشت کی تعلیمات، اہرمن (شیطان) کا زرتشت کی آزمائش کرنا۔ یہ بھی ایک مکالمہ ہے جس میں اہرمن، زرتشت کو بہکانے کی کوشش کرتا ہے اور جواباً زرتشت اپنے نظریات بیان کرتا ہے۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال, Javiad Nama, جاوید نامہ, Maulana Rumi, مولانا رومی

اس سے اگلا حصہ بھی دلچسپ ہے، "طاسینِ مسیح، رویائے حکیم طالسطائی" یعنی مسیح (ع) کی تعلیمات، حکیم ٹالسٹائی کا خواب۔ افسوس کہ اس منظر کی بڑی تصویر ڈاکٹر جاوید اقبال نے کتاب کے لیے منتخب نہیں کی (نہ جانے کیوں) لیکن پہلی تصویر میں اسے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس میں مشہور روسی ناول نگار اور مذہبی مصلح، ٹالسٹائی کا ایک خواب علامہ نے دکھایا ہے کہ ایک شخص چاندی کی ندی کے پارے میں کمر تک غرق ہے اور ندی کے کنارے ایک ساحر اور حسین عورت کھڑی ہے اور ان کے درمیان ایک مکالمہ ہوتا ہے، وہ عورت، جسے علامہ نے افرنگیں کا نام دیا ہے اور وہ استعارہ ہے مغربی تہذیب کا، اس مرد (یہودیوں) کو طعنہ مارتی ہے کہ تم لوگوں نے مسیح کے ساتھ کیا کیا کہ ان کو سولی پر لٹکا دیا اور اب چاندی کے (یعنی میرے پجاری) بنے ہوئے ہو اور جواب میں وہ شخص اس پر اعتراضات کرتا ہے کہ تم نے ہم لوگوں کو گمراہ کر دیا، یہ دراصل وہ اعتراضات ہیں جو ٹالسٹائی نے اپنی تصنیفات میں عیسائی مذہب پر کیے تھے۔ اس حصے کا یہ شعر بہت خوبصورت ہے۔

آنچہ ما کردیم با ناسوتِ اُو
ملّتِ اُو کرد با لاہوتِ اُو

(وہ شخص، اس عورت کو جواب دیتے ہوئے کہتا ہے کہ) کہ ہم نے جو کچھ بھی اُس (عیسیٰ ع) کے جسم (ناسوت) کے ساتھ کیا، ان کی ملّت نے وہی کچھ ان کی روح (لاہوت) کے ساتھ کیا، یعنی ہم نے تو فقط عیسیٰ کے جسم کو سولی پر چڑھایا تھا، ان کی قوم نے انکی روح کو سولی پر چڑھا دیا۔

اور اس منظر کا آخری حصہ بھی انتہائی دلچسپ پے، "طاسینِ محمد، نوحہ روحِ ابوجہل در حرمِ کعبہ" یعنی حضرت محمد (ص) کی تعلیمات، ابوجہل کی روح کا حرمِ کعبہ میں نوحہ، یہ مکمل حصہ میں اپنے بلاگ پر پوسٹ کر چکا ہوں، خواہش مند قارئین اس ربط پر اسے پڑھ سکتے ہیں، اس میں ابوجہل کی روح حرم کعبہ میں نوحہ کرتی ہے اور بیان کرتی ہے کہ انکے اور انکے بتوں کے ساتھ حضرت محمد (ص) نے کیا کیا۔ یہ تصویر میں نے اُس پوسٹ میں بھی شامل کر دی ہے۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال, Javiad Nama, جاوید نامہ, Maulana Rumi, مولانا رومی
جمی انجنیئر اپنی اس کاوش میں کس حد تک کامیاب رہے، یہ تو علامہ ہی بہتر بتا سکتے تھے اگر وہ زندہ ہوتے لیکن بہرحال انکی کاوش قابلِ تحسین ہے۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 8, 2009

علمِ عروض - کچھ اصول اور شاعرانہ صوابدید

اس موضوع پر یہ دوسری تحریر ہے، آپ نے اگر پہلی تحریر نہیں پڑھی تو آپ سے استدعا ہے کہ اس تحریر کو بہتر سمجھنے کیلیے پہلی تحریر پر بھی ایک نظر ڈال لیں

ہجّے دو طرح کے ہوتے ہیں، ہجائے بلند یا دوحرفی ہجا اور ہجائے کوتاہ یا یک حرفی ہجا اور ان کو بالترتیب 2 اور 1 سے ظاہر کیا جا سکتا ہے لیکن کچھ 'خصوصی ہجے' بھی ہوتے ہیں جن کو شاعر کی صوابدید پر چھوڑا جاتا ہے کہ وہ اسے ہجائے بلند سمجھے یا ہجائے کوتاہ۔ کیوں؟ اس کیلیے ہمیں کچھ وزن اور بحروں وغیرہ پر تھوڑا سا مزید کام کرنا پڑے گا۔ اور کچھ تقطیع یا علمِ عروض کے اصول ہیں جن کو بدلا نہیں جا سکتا، اسکی مثالیں بھی آگے آ رہی ہیں۔

پچھلی تحریر میں ہم نے دیکھا تھا کہ 'سبق پہلا' جسے ہجوں میں 2221 میں ظاہر کیا جا سکتا ہے دراصل علمِ عروض میں ایک وزن ہے جسے 'مفاعیلن' کہا جاتا ہے۔ اسی مفاعیلن کو اگر ایک مصرعے میں ہم چار بار دہرائیں تو اس سے ایک بڑی خوبصورت بحر بنتی ہے جسے 'بحر ہزج' کہا جاتا ہے۔ اب یہاں ایک بار بار پھر میں اصطلاحات اور انکے مطلب وغیرہ کو کسی 'اچھے' وقت کیلیے چھوڑتا ہوں، فی الحال اہم بات یہ ہے کہ مفاعیلن کو ایک مصرعے میں چار بار دہرانے سے ایک بحر کا وزن حاصل ہوتا ہے، تھوڑا سا غور کرنے کی ضرورت ہے۔

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
یا علامتوں میں
2221 2221 2221 2221

یا اگر یہ بھی مشکل ہے تو وہی ہمارا پرانا سبق یعنی
سبق پہلا، سبق پہلا، سبق پہلا، سبق پہلا
واہ واہ واہ، میاں وارث کیا خوب مصرعہ لکھا ہے اس پر گرہ تو لگاؤ ذرا۔
گرہ، حضرت وہ کیا ہوتی ہے۔
اسی وزن میں ایک اور مصرعہ تو کہو بھئی۔
لو جی یہ کیا مشکل ہے، ابھی لو
ملا ہم کو، ملا ہم کو، ملا ہم کو، ملا ہم کو
واہ واہ، کیا خوبصورت شعر ہے

سبق پہلا، سبق پہلا، سبق پہلا، سبق پہلا
ملا ہم کو، ملا ہم کو، ملا ہم کو، ملا ہم کو

محترم قارئین، آپ نے دیکھا کہ کیسے کچھ الفاظ مل کر ایک شعر بن گئے اور بالکل وزن میں، اوپر دیئے گئے خود ساختہ شعر کو اگر آپ ہجوں میں توڑیں تو نوٹ کریں گے کہ ہجائے کوتاہ اور بلند دونوں ایک ہی ترتیب سے ایک دوسرے کے مقابل آ رہے ہیں اور ہم نے دیکھا تھا کہ یہی وزن ہے۔ اب اس فضول شعر پر لعنت ڈالتے ہیں اور قبلہ و کعبہ مرشدی، خلد آشیانی، میرزا اسد اللہ خان نوشہ کا ایک شعر دیکھتے ہیں۔

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

میرا خیال ہے کہ آپ بہت کچھ سمجھ رہے ہونگے، جی ذرا اس کو ہجوں میں توڑنے کی کوشش تو کریں۔ مشکل ہے، چلیں جی میرے ساتھ ہی سہی۔

ہزاروں یعنی ہَ زا روں
اب اس کو اگر علامتوں مین لکھیں تو ہَ 1، زا 2، رو 2

لیکن بھائی نون غنہ کدھر گیا تو یاد رکھنے کا ایک اصول، نون غنہ کا تقطیع یا شعر میں کوئی وزن نہیں ہوتا۔ کیوں اس کو گولی ماریئے کہ میں کہیں اور نکل جاؤنگا پھر کبھی سہی۔ اسکے مقابل نون معلنہ یعنی جسکا اعلان کیا جاتا ہے جیسے 'جہان' میں، تو اسکا وزن ہوتا ہے لیکن غنہ جیسے 'جہاں' میں اسکا وزن نہیں ہوتا۔

خواہشیں - یعنی خوا ہِ شیں
لیکن کیا خواہش میں واؤ بولی جاتی ہے، نہیں تو پھر صرف یہ نمائشی ہے اور تقطیع یا شعر میں وہ واؤ جو بولنے میں نہیں آتی اور جسے واؤ معدولہ کہا جاتا ہے، کوئی وزن نہیں رکھتی۔ اور یہ بھی ایک اصول ہے یعنی
خواہشیں یعنی خا ہِ شے یعنی 2 1 2
شعر میں اگلا لفظ 'ایسی' یعنی اے سی یعنی 22۔
اگلا لفظ 'کہ'، کہ کا مسئلہ تھوڑا ٹیرھا ہے، روایتی ماہرین کہتے ہیں کہ 'کہ' کو ہجائے کوتاہ یعنی 1 سمجھنا ایک اصول ہے جسے بدلا نہیں جا سکتا لیکن کچھ 'نرم دل، مہربان اور جدید' ماہرینِ فن کہتے ہیں کہ اس کو اصول نہیں شاعر کی صوابدید پر چھوڑنا چاہیئے کہ چاہے اسے ہجائے کوتاہ سمجھے یا ہجائے بلند کہ 'کہ' بھی دو حرفوں سے مل کر بن رہا ہے یعنی ک اور ہ۔ خاکسار کا شمار موخر الذکر میں ہوتا ہے، ماہرین میں نہیں بلکہ 'کہ' کو شاعر کی صوابدید پر چھوڑنے کیلیے۔ لیکن یہ فقط کسی 'نئے شاعر' کیلیے ہے، اپنی شاعری میں میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ کسی اصول کو چاہے وہ کتنا فرسودہ ہی کیوں نہ ہو، توڑا نہ جائے۔ سو کہ برابر ہے 1 کے۔
شعر میں اگلا لفظ 'ہر، - واہ جی واہ آپ تو بہت جلد سمجھ گئے کہ یہ 2 ہے جبکہ کسی بھی 'ہر' کو سمجھنا اتنا آسان نہیں ہے جتنا آپ سمجھ رہے ہیں۔
اگلا لفظ - خواہش یعنی خا ہش یعنی 2 2
اگلا لفظ 'پہ' ۔ ایک اور اصول، پہ ہجائے کوتاہ یا 1 ہے بظاہر یہ دوحرفوں ہی سے مل کر بنا ہے۔
اگلا لفظ 'دم' جی 2 ہے۔
اور نکلے جی یہ نک اور لے یعنی 2 2 ہے۔
پھر دیکھیئے

ہزارو - 221
خاہشے - 212
ایسی - 22
کہ - 1
ہر - 2
خاہش - 22
پہ -1
دم - 2
نکلے - 22

اب مصرعے کو پھرلکھتے ہیں اور اسکے نیچے ہر لفظ کی علامت یعنی

ہزاروں/ خواہشیں/ ایسی/ کہ/ ہر/ خواہش/ پہ/ دم/ نکلے
22/2/1/22/2/1/22/212/221
کیا آپ اس ترتیب میں کسی پیٹرن کو دیکھ سکتے ہیں، چلیں دیکھتے ہیں
2221/2221/2221/2221
یہ پیٹرن کچھ جانا پہچانا سا نہیں لگ رہا؟
2221/2221/2221/2221
سبق پہلا/ سبق پہلا/سبق پہلا/ سبق پہلا
ملا ہم کو/ملا ہم کو/ملا ہم کو/ملا ہم کو
مفاعیلن/مفاعیلن/مفاعیلن/مفاعیلن
ہزاروں خوا/ہشیں ایسی/کہ ہر خواہش/پہ دم نکلے
2221/2221/2221/2221
تھوڑا سا مشکل مرحلہ ہے لیکن انتہائی اہم، وزن یہ نہیں ہے کہ ہر لفظ کے مقابل اس جیسا دوسرا لفظ آئے بلکہ وزن یہ ہے کہ ہر ہجائے بلند کے مقابل ہجائے بلند اور ہر ہجائے کوتاہ کے مقابل ہجائے کوتاہ آئے۔ پھر دیکھیں
ہزاروں خوا، مفاعیلن کے مقابل آ رہا ہے، یعنی شعر میں ایک لفظ مکمل یعنی ہزاروں اور ایک ٹوٹا ہوا لفظ 'خوا'، بحر کے وزن مفاعیلن کے برابر آ رہا ہے، یعنی ضروری نہیں کے بحر کے وزن کے مقابل شعر کا مکمل لفظ آئے بلکہ ضروری یہ ہے کہ وزن میں ہجائے کوتاہ کے مقابل ہجائے کوتاہ اور ہجائے بلند کے مقابل ہجائے بلند آئے اور وہ بالکل آ رہا ہے یعنی
مفاعیلن
یا
م فا عی لن
یا
2 2 2 1
یا
ہَ زا رو خا
اسی طرح اگلا رکن
مفاعیلن
یا
2 2 2 1
ہِ شے اے سی
اور اگلا رکن
مفاعیلن
2221
کہ ہر خا ہش
اور
مفاعیلن
2221
پ دم نک لے
پھر دیکھیئے

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
ہزارو خا/ہ شے اے سی/کہ ہر خا ہش/پہ دم نک لے
مفاعیلن/مفاعیلن/مفاعیلن/مفاعیلن
2221/2221/2221/2221

تو گویا 'ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے' میں آپ نے ایک پیٹرن ڈھونڈ لیا، اور دراصل پیٹرن کا نام ہی بحر ہوتا ہے۔
اب اگلا مصرع، مختصراً
بُ ہَت نکلے - مفاعیلن - 2221
مرے ارما - مفاعیلن - 2221
یاد رکھنے کہ ایک بات اگر 'میرے' لکھا جاتا یعنی 'یا' کے ساتھ تو یہ مے رے یعنی 22 ہوتا لیکن پیٹرن کے مطابق یہاں پر شاعر کو 21 چاہیئے تھا یعنی پہلے ہجائے کوتاہ اور پھر ہجائے بلند سو اس نے 'مرے' یعنی 'یا' کے بغیر لکھ کر اس کو 21 بنا لیا اور یہ بھی ایک شاعرانہ صوابدید ہے کہ میرے، مرے، تیرے، ترے، میرا، مرا، تیرا، ترا وغیرہ الفاظ کو شاعر اپنی ضرورت کے مطابق لا سکتا ہے اور میری کم عقلی یہ کہ میں ہمیشہ یہی سمجھتا رہا کہ شاعر 'میرے' کو ' مرے' شاعرانہ 'ٹچ' کیلیے لکھتے ہیں وہ تو بعد میں سمجھ آیا، جیسے آج آپ کو، کہ یہ تو ان بیچاروں کی ایک بہت بڑی مجبوری ہوتی ہے۔

ن لے کن پر - مفاعیلن - 2221
ایک اصول یہ کہ دو چشمی ھ کا کوئی وزن نہیں ہوتا سو 'پھر' ایسے ہی ہے جیسے 'پر' یعنی فقط ایک ہجائے بلند یا 2۔
بِ کم نکلے - مفاعیلن - 2221
بھئی یہ 'بھی' کی دو چشمی ھ تو مانا کہ گنی نہیں جائے گی لیکن اسکی 'ی' کون کھا گیا۔ سو عرض ہے کہ یہ بھی ایک شاعرانہ صوابدید ہے کہ وہ کچھ الفاظ کے آخر میں جو حرفِ علت یعنی الف، واؤ اور ی ہوتا ہے اس کو گرا سکتا ہے اپنی ضرورت پوری کرنے کیلیے، یہ چونکہ ایک طول طلب قصہ ہے سو کسی اگلی پوسٹ میں انشاءاللہ۔ فقط یہ یاد رکھیں کہ شاعر نے یہاں ہجائے کوتاہ پورا کرنے کیلیے ایک ہجائے بلند کے آخری حرف کو گرا کر اسے ہجائے کوتاہ بنا لیا ہے۔
پھر دیکھیں
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
بہت نک لے/مرے ارما/ن لے کن پر/بِ کم نک لے
مفاعیلن/مفاعیلن/مفاعیلن/مفاعیلن
2221/2221/2221/2221


اب اگر آپ دونوں مصرعوں کو بیک وقت دیکھیں

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

لیکن بس بھئی اب اسی شعر کی خود تقطیع کرنے کی کوشش کریں اور مزید مشق کیلیے اسی غزل کے باقی اشعار کی بھی۔ جن احباب کو غالب پسند نہیں ہے وہ اس کیلیے اقبال کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔ بانگِ درا کی مشہور و معروف نظم 'طلوعِ اسلام' اسی بحر میں ہے، اور اسکا یہ شعر تو ہر کسی کو یاد ہی ہوگا۔

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

اور جن احباب کو غالب اور اقبال دونوں سے کوئی شغف نہیں ہے وہ محمد رفیع کے اس سدا بہار اداس گانے کی ذرا تقطیع کرنے کی کوشش کریں۔

بھری دنیا میں آخر دل کو سمجھانے کہاں جائیں

محبّت ہو گئی جن کو وہ دیوانے کہاں جائیں

اور جو احباب بحر ہزج کی کچھ مزید غزلیات اور انکی تقطیع دیکھنا چاہیں وہ موضوعات اور ٹیگز کے تحت 'بحر ہزج مثمن سالم' کا ٹیگ دیکھیں کہ ہماری مذکورہ بحر کا مکمل نام یہی ہے۔

اور ایک بات جو انتہائی اہم ہے کہ اس علم میں 'مشق' کی بہت ضرورت ہے بالکل اسی طرح جس طرح ریاضی کے سوال حل کیئے جاتے ہیں، قلم و قرطاس سے ہمارا رشتہ تو ٹوٹ چکا اور ماؤس اور کی بورڈ سے نیا رشتہ استوار ہوا لیکن یقین مانیئے جو لطف کاغذ اور قلم میں ہے وہ اس برقی بلخ اور بخارے میں نہیں۔


مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 7, 2009

علمِ عروض اور ہجّے

پچھلے دنوں اپنے بیٹے کو اردو الفاظ کے ہجّے یاد کرنے کی مشقت کرتے ہوئے دیکھ کر اپنے بھولے بسرے تیس سالہ پرانے دن یاد آ گئے جب میں اسی کی عمر کا تھا اور اسی طرح اردو ہجّوں کے ساتھ پنجابی میں 'کُشتی' کیا کرتا تھا، الف زیر سین اِس، لام زبر الف لا، میم ما 'قُف' اسلام، مجھے آج تک علم نہیں ہو سکا کہ یہ جو ہر لفظ کے آخر میں ہمارے اساتذہ 'قُف' لگا دیتے تھے وہ کیا بلا ہے شاید 'موقوف' ہو۔


جملۂ معترضہ کا تحریر میں آ جانا کوئی بری بات نہیں ہے لیکن نہ جانے میری تحاریر میں یہ آغاز میں کیوں در آتا ہے کہ اصل بات کی طرف قاری کا دھیان ہی نہیں جاتا، جیسا کہ پچھلے دنوں ایک رباعی بلاگ پر لکھنی تھی لیکن خواہ مخواہ اسکے آغاز میں ایک پیوند لگا دیا، بلاگ تو بلاگ اردو محفل پر بھی چند ایک احباب کے سوا سبھی نے رباعی کی بجائے پیوند پر بات کی۔ ڈر رہا ہوں اس بات سے کہ لکھنا کچھ عروض پر چاہ رہا ہوں اور بات پھر اپنی ایک یاداشت سے شروع کر دی ہے کہیں رباعی والا حشر ہی نہ ہو۔ اس ڈر کی کئی ایک وجوہات ہیں، علمِ عروض دراصل ایک 'ہوا' ہے جس سے عام قاری تو بدکتا ہی ہے اچھے خاصے شاعر بھی بدکتے ہیں، نہ جانے کیوں۔


دراصل شعر کہنے کا عمل تین حصوں پر مشتمل ہے، شعر کہنا، شعر بنانا اور شعر توڑنا اور انکی ترتیب اس ترتیب سے بالکل الٹ ہے جس ترتیب سے میں نے انہیں لکھا ہے، اور وجہ یہ کہ ہر شاعر فوری طور پر شعر کہنے پر پہنچتا ہے اور بے وزن شعر کہہ کر خواہ مخواہ تنقید کا سامنا کرتا ہے، حالانکہ یہ سارا عمل، ایک شاعر کیلیے، شعر توڑنے سے شروع ہوتا ہے، جب کسی کو شعر توڑنا آ جاتا ہے تو ایک درمیانی عرصہ آتا ہے جس میں وہ شعر 'بناتا' ہے اور اسی کو مشقِ سخن کہا جاتا ہے اور جب کسی شاعر کو شعر کہنے میں درک حاصل ہو جاتا ہے تو پھر وہ جو شاعری کرتا ہے اسی کو صحیح معنوں میں 'شاعری' کہا جاتا ہے پھر اسکے ذہن میں شعر کا وزن نہیں ہوتا بلکہ خیال آفرینی ہوتی ہے۔


اب شعر توڑنا جسے علمِ عروض کی اصطلاح میں تقطیع کرنا کہا جاتا ہے، اور تقطیع کا مطلب بذاتِ خود قطع کرنا، پارہ پارہ کرنا، ٹکڑے کرنا ہے، وہی عروض کی کلید ہے، کنجی ہے، اگر کسی کو شعر توڑنا یا تقطیع کرنا آ گیا تو یوں سمجھیں کہ اسے شعر بنانا بھی آ گیا اور بنانے کے بعد یقیناً اگلا مرحلہ شعر کہنا بہت دور نہیں ہے۔


لیکن تقطیع پر لکھنے سے پہلے مجھے بہتر معلوم ہو رہا ہے کہ علمِ عروض پر بھی کچھ عرض کر دوں کہ عروض ہے کیا اور یہ کیوں ضروری ہے۔ شاعری کی ابتدا بہت پرانی ہے شاید اتنی ہی پرانی جتنی بولنے کی یا تحریر کی لیکن علم عروض کی تاریخ پہلی صدی ہجری یعنی کوئی تیرہ چودہ سو سال سے ہے، یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ علمِ عروض سے میری مراد، اس تمام تحریر اور آئندہ تحاریر میں، انشاء اللہ بشرطِ زندگی و فرصت و صحت، عربی و فارسی و اردو علمِ عروض ہے۔ دنیا کی ہر زبان میں شاعری کو 'جانچنے' کا اپنا ایک طریقہ ہے لیکن عربی، فارسی، اردو، سنسکرت، ہندی، پنجابی، سندھی اور برصغیر کی دیگر زبانوں میں عروض کا 'ہجّائی نظام' ہے یعنی یہ ہجّوں پر مشتمل ہے۔ عروض کی تاریخ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ شاعری علمِ عروض کو سامنے رکھ کر نہیں کی جاتی بلکہ علمِ عروض سے صرف شاعری کو جانچا جاتا ہے، ناپا جاتا ہے اور اس علم کی ایجاد سے پہلے جو شاعری تھی اس کو سامنے رکھ کر ہی اس علم کے اصول و ضوابط مقرر کیے گئے تھے، اور اب ان اصولوں پر عمل کرنا گویا شاعروں پر فرض سا ہو گیا ہے۔

دنیا کی کسی بھی زبان کا کوئی بھی لفظ، ہجّوں یا جسے انگریزی میں 'سیلیبلز' کہا جاتا ہے، سے مل کر بنتا ہے اور یہی علمِ عروض کی کلید ہے، لفظ حرفوں سے بنتا ہے اور الفاظ کی ایک خاص ترتیب سے بحر بن جاتی ہے اور غزل یا نظم کے ہر شعر میں اس ترتیب کو برقرار رکھنا، بس اتنا سا کام ہے جس سے کوئی بھی کلام موزوں یعنی با وزن یا شاعری کہلواتا ہے۔ اب اس ساری بات میں 'ہجّے' کو مرکزی اہمیت حاصل ہے، ہجّے کو آپ یوں سمجھیں جیسے یہ ایٹم ہے اور اسی بنیاد پر ساری شاعری کی عمارت کھڑی ہے۔

ایک وضاحت یہاں ضروری ہے، انیسویں صدی تک عربی، فارسی اور اردو نظامِ عروض متحرک اور ساکن کے گورکھ دھندے پر مشتمل تھا جس میں بے شمار خامیاں تھیں، ان خامیوں کا علمِ عروض کے سب ماہرین کو علم تھا لیکن بجائے انکے دور کرنے کے انہوں نے اس علم کو مزید مشکل اور چیستان بنا دیا۔ تفصیلات کا میں یہاں متحمل نہیں ہو سکتا اور اسٹیفن ہاگنگ کو اس کے پبلشر کی طرف سے کی جانی والی نصیحت یاد ہے کہ 'اے بریف ہسٹری آف ٹائم" میں جتنی بھی مساوات لکھو گے ان میں سے ہر مساوات کتاب کی فروخت کو آدھی کر دے گی سو یہاں روایتی علمِ عروض کے نقائص کی بحث کو چھوڑتا ہوں، لیکن ہمیشہ کی طرح یورپی مستشرقین نے ان نقائص کو نہیں چھوڑا بلکہ علمِ عروض پر تحقیق کر کے ہجّائی یا اشاری نظام متعارف کیا جس سے اس علم کے سارے نقائص دور ہو گئے، ایرانی علماء و فضلاء نے بھی اس پر لبیک کہا بالخصوص ڈاکٹر پرویز ناتل خانلزی نے اپنی کتاب "فارسی عروض کی تنقیدی تحقیق اور اوزانِ غزل کے ارتقاء کا جائزہ" (اردو مترجم بذلِ حق محمود) میں اس پر سیر حاصل بحث کی ہے اور خوشی کی بات ہے کہ اب اردو ماہرینِ عروض بھی اس طرف توجہ کر رہے ہیں اور اپنی کتب میں روایتی نظام کے ساتھ ساتھ ہجائی یا اشاری نظام کو بھی جگہ دیتے ہیں۔ مستشرقین نے علمِ عروض کو، جو سراسر ریاضی کے اصولوں پر مشتمل ہے لیکن اس کو ریاضی کی علامات میں ظاہر نہیں کیا جاتا تھا، ریاضی کی عام علامتوں میں بھی ظاہر کیا اور یہ انکا ایک ایسا احسانِ عظیم ہے کہ جو تا قیامت ہم پر رہے گا کہ اس خاکسار کو اس علم کی کنہ یا کلید انہی علامتوں کی مدد سے سمجھ میں آئی تھی۔


اس طویل تمہید کے بعد، ہجّوں پر کچھ عرض کرتا ہوں، جیسا کہ اوپر لکھا، ہر لفظ ہجّوں میں توڑا جا سکتا ہے جیسے لفظ 'اسلام'، اس لفظ میں تین ہجّے ہیں، الف زیر سین اس، لام زبر الف لا اور میم ساکن یعنی اس، لا اور م، اسی طرح لفظ 'مسلمان'، اس میں چار ہجّے ہیں، یعنی میم پیش مو سین زبر لام سل، میم الف ما اور نون ساکن یعنی مُ سل ما ن، ان دو مثالوں سے ہمارے سامنے دو طرح کے ہجّے سامنے آ رہے ہیں، اور ہر لفظ انہی دو طرح کے ہجّوں پر مشتمل ہوتا ہے، ایک ہجا وہ ہے جو دو حرفوں پر مشتمل ہوتا ہے اور دوسرا ہجا وہ ہے جو صرف اور صرف ایک حرف پر مشتمل ہے، جیسے اسلام کے اس اور لا میں دو دو حرف ہیں اور اسی طرح مسلمان کے سل اور ما میں یعنی یہ دو حرفی ہجّا ہے جب کہ اسلام کا آخری میم یک حرفی ہجا ہے اسی طرح مسلمان کا مُ اور نون یک حرفی ہجے ہیں۔


یعنی ہر لفظ میں دو طرح کے ہجے ہوتے ہیں، دو حرفی اور یک حرفی، یقین مانیں کہ اگر کسی قاری کو کسی لفظ میں ہجوں کی پہچان ہو گئی اور یہ علم ہو گیا کہ کون سا ہجا یک حرفی ہے اور کون سا دو حرفی تو یوں سمجھیں کہ علم عروض کا جن آپ کے قبضے میں آ گیا۔ کچھ اور مثالیں دیکھتے ہیں۔


لفظ 'شاعر' - یعنی شا اور عر یعنی یہ لفظ دو ہجوں پر مشتمل ہے اور دونوں دو حرفی ہیں۔

لفظ 'شاعری' یعنی شا عِ ری یعنی یہ لفظ تین ہجوں پر مشتمل ہے جس میں شا اور ری دو حرفی ہجے ہیں اور عِ یک حرفی ہجا ہے۔

اب ہم ان مثالوں سے اصول اور انکی تعریف مرتب کرتے ہیں۔


دو حرفی ہجّا یا ہجّائے بلند - کسی بھی لفظ میں یہ ایک ایسا ہجّا ہوتا ہے جو دو حرفوں پر مشتمل ہوتا ہے اور یہ دونوں حرف آپس میں کسی حرکت (زیر زبر یا پیش) کے ذریعے ایک دوسرے سے ملے ہوتے ہیں، جیسے دل، کل، غم، دن، شب، جُو، چُن وغیرہ وغیرہ یا لفظ اسلام میں اس اور لا، لفظ مسلمان میں سل اور ما، لفظ وارث میں وا اور رث وغیرہ وغیرہ۔ دوحرفی ہجے کو اصطلاح میں 'ہجّائے بلند' کہا جاتا ہے اور اشاری نظام میں اسے کسی بھی علامت سے ظاہر کیا جا سکتا ہے لیکن ہم اسے علامت '2' سے ظاہر کرتے ہیں۔


یک حرفی ہجّا یا ہجّائے کوتاہ - کسی بھی لفظ میں اکیلا حرف چاہے وہ ساکن ہو یا متحرک جیسے لفظ اسلام میں ساکن میم یا لفظ مسلمان میں پہلی متحرک میم اور آخری ساکن نون، یا لفظ 'صریر' میں صاد متحرک اور آخری رے ساکن۔ یک حرفی ہجّے کو اصطلاح میں ہجّائے کوتاہ کہا جاتا ہے اور علامت میں اسے '1' سے ظاہر کیا جاتا ہے۔


اب اس تعریف کے بعد چند لفظوں کو پھر دیکھتے ہیں اور یہ واضح کروں کہ ہندسوں کو اردو طرزِ تحریر یعنی دائیں سے بائیں پڑھنا ہے۔

اسلام یعنی اس لا م اب اگر اس لفظ کو علامتوں میں ظاہر کریں تو یہ 2 2 1 ہوگا۔
اسی طرح 'مسلمان' یعنی م سل ما ن اور علامتوں میں یہ 1 2 2 1 ہے۔
اسی طرح وارث یعنی وا اور رث یعنی 2 2۔

یعنی اگر میں یہ کہوں "پہلا سبق" تو کیا اسے جملے کو علامتوں میں ظاہر کیا جا سکتا ہے، کیوں نہیں یعنی پہلا یعنی پہلا میں دو ہجائے بلند ہیں تو اس کو 22 سے ظاہر کریں اور سبق میں ایک ہجائے کوتاہ اور ایک ہجائے بلند ہے تو اسے 1 2 سے ظاہر کریں گویا
پہلا سبق یعنی 22 21۔
اور اگر یہ کہوں 'سبق پہلا' تو اب اس کی ترتیب ہوگی 21 22۔
اور اگر اب یہ کہوں 'ملا ہم کو' تو اسکی ترتیب کیا ہوگی، مشق کریں، چلیں میں لکھ دیتا ہوں
مِ لا ہم کو یعنی 1 2 2 2۔
اب غور کریں
سبق پہلا
ملا ہم کو
کیا یہ شعر ہے؟ کیوں نہیں، یا شعر ہو نہ ہو وزن میں ضرور ہے کیسے؟ پھر دیکھیں
سبق پہلا
ملا ہم کو
اشاری نظام میں لکھیں
2221
2221

جی ہاں، آپ نے صحیح پہچانا دونوں مصرعوں یا جملوں میں ہجائے کوتاہ اور ہجائے بلند ایک ہی ترتیب سے آ رہے ہیں اور یہی شعر کا وزن ہے کہ اس کے دونوں مصرعوں میں ہجائے بلند کے اور ہجائے کوتاہ کی ترتیب ایک جیسی ہے۔ یعنی اب ہم وزن کی تعریف کچھ اسطرح سے کر سکتے ہیں کہ ایک شعر کے دونوں مصرعوں میں اگر ہجائے بلند اور ہجائے کوتاہ کی ترتیب ایک جیسی ہو یعنی ہجائے بلند کے مقابل ہجائے بلند اور ہجائے کوتاہ کے مقابل ہجائے کوتاہ تو اس کو شعر کا وزن کہیں گے۔

پھر دیکھیں

سبق پہلا
ملا ہم کو
کہا ہم نے
نوازش ہے
مشق کے طور پر ان کو علامتوں میں لکھنے کی کوشش کریں، آخری بات یہ کہ یہ وزن یعنی 'سبق پہلا' یا 2221 دراصل مفاعیلن ہے جو کہ عروض کی خاص اصطلاح ہے اور اسی کے الٹ پھیر سے کئی اوزان بنتے ہیں۔ ہم نے اسے 'سبق پہلا' کہا، انشاء اللہ خان انشاء لکھنؤ کی روایت کے عین مطابق اسے 'پری خانم' سے ظاہر کرتے تھے۔ دیکھیئے، مَفَاعیلُن یعنی مَ فا عی لُن یعنی 1 2 2 2 یعنی اگر صرف مفاعیلن کے وزن پر کچھ کلام کہا جائے اور ہر مصرعے میں یہی وزن ہو تو آپ کے 'شاہکار' کو کوئی 'عروضیا' یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ بے وزن ہے۔


یہاں پر اس تحریر کو چھوڑتا ہوں اس امید پر کہ انشاءاللہ گاہے گاہے اس پر لکھتا رہونگا۔ مجھے افضل صاحب کی فرمائش یاد ہے جس میں نے انہوں نے کہا تھا کہ 'مصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام' کی کچھ تقطیع لکھوں لیکن اس تحریر سے پہلے یہ تقطیع ان کیلیے بے معنی ہوتی، انشاءاللہ آئندہ اس نعت کی تقطیع لکھنے کی کوشش کرونگا۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 4, 2009

سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا - جوش ملیح آبادی

کچھ شعراء کا خیال ہوتا ہے کہ اگر غزل میں ایک یا دو شعر بھی اچھے نکل گئے تو غزل سمجھو پار لگی، بہتر شاعر کم از کم تین جاندار اشعار کا التزام کرتے ہیں، مطلع، حسنِ مطلع اور مقطع، اور کسی غزل کے سارے اشعار کا خوب ہونا اور اس میں کسی بھرتی کے شعر کا نہ ہونا واقعی ایک مشکل کام ہے لیکن ایک غزل کے تمام اشعار کا ادب میں اپنا مستقل مقام حاصل کرنا چند خوش نصیب شاعروں اور غزلوں کے حصے میں ہی آیا ہے۔ انہی میں سے جوش ملیح آبادی کی یہ غزل ہے، ایک ایک شعر لاجواب ہے، جوش گو غزل کے شاعر نہیں تھے بلکہ نظم اور رباعی ان کو زیادہ پسند تھی لیکن ایسی طرح دار غزلیں بھی کہی ہیں کہ بڑے بڑے غزل گو شعراء کے حصے میں ایسی غزلیں نہیں ہیں۔

سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا
جا تجھے کشمکشِ دہر سے آزاد کیا

وہ کریں بھی تو کن الفاظ میں تیرا شکوہ
جن کو تیری نگہِ لطف نے برباد کیا

دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا
جب چلی سرد ہوا، میں نے تجھے یاد کیا
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, josh malihabadi, جوش ملیح آبادی
Josh Malihabadi, جوش ملیح آبادی
اے میں سو جان سے اس طرزِ تکلّم کے نثار
پھر تو فرمائیے، کیا آپ نے ارشاد کیا

اس کا رونا نہیں کیوں تم نے کیا دل برباد
اس کا غم ہے کہ بہت دیر میں برباد کیا

اتنا مانوس ہوں فطرت سے، کلی جب چٹکی
جھک کے میں نے یہ کہا، مجھ سے کچھ ارشاد کیا

مجھ کو تو ہوش نہیں تم کو خبر ہو شاید
لوگ کہتے ہیں کہ تم نے مجھے برباد کیا
--------
بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن یعنی فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فَعِلاتُن بھی آ سکتا ہے اور آخری رکن یعنی فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فَعِلان بھی آ سکتے ہیں گویا آٹھ اوزان اس بحر میں جمع ہو سکتے ہیں)
اشاری نظام - 2212 2211 2211 22
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)
تقطیع
سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا
جا تجھے کشمکشِ دہر سے آزاد کیا
سوزِ غم دے - فاعلاتن
کِ مجے اس - فعلاتن
نِ یہ ارشا - فعلاتن
د کیا - فَعِلن
جا تجے کش - فاعلاتن
مَ کَ شے دہ - فعلاتن
ر سِ آزا - فعلاتن
د کیا - فَعِلن
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 30, 2009

چاندنی راتیں

ملکۂ ترنم نورجہاں جب اپنی دلکش اور پُر سوز آواز میں گاتی ہیں۔ 'تیرے لیے میری طرح جاگے رے، چاندنی رات' تو دل پر تو قیامت سی گزر جاتی ہے لیکن دماغ بھی نہ جانے کیوں ماننے لگ جاتا ہے کہ چاندنی رات کے ساتھ ساتھ ملکۂ ترنم بھی ہمارے لیے جاگ رہی ہیں، سحر شاید اس قسم کی صورتحال کو کہا جاتا ہے۔
چاند اور چاندنی رات، کون دیوانہ ہے جو انکے سحر میں کبھی گم نہ ہوا ہو، یادش بخیر بچپن کے دنوں کی وہ سہانی یادیں ذہن میں تازہ ہیں جب رات کو چھت پر سونے سے پہلے، چارپائی پر لیٹ کر چاند اور بادلوں کی آنکھ مچولی دیکھا کرتا تھا اور پندرہ سال پہلے لاہور میں بتائے ہوئے وہ دن بھی یاد ہیں جب سارا دن سورج آتش برساتا تھا اور چوتھی منزل پر ہمارے پرائیوٹ ہوسٹل کا کمرہ ایک 'مِنی' جہنم کا نقشہ پیش کیا کرتا تھا۔ ہم اور ہمارے دوست، کمرے سے اٹھ کر مین مارکیٹ گلبرگ کے 'راؤنڈ اباؤٹ' کی گھاس پر آ کر لیٹ رہتے تھے اور کبھی بادلوں سے بنی تصاویر میں عکسِ یار ڈھونڈتے تھے اور کبھی چاند کی طرف ٹکٹکی لگائے، دنیا و مافیہا سے بے خبر، اُس سے راز و نیاز میں غلطاں و پیچاں۔ تعلیم مکمل کر کے واپس سیالکوٹ پہنچا اور سنگ و خشت میں ایسا قید ہوا کہ کبھی چاند، اچانک، چلتے چلتے سرِ راہ نظر آ گیا ہو تو علیحدہ بات وگرنہ اُس وقت سے میں اسکے دائمی ہجر میں ہوں۔
زندگی کی ہر کروٹ، حشر ساماں ہوتی ہے اور ہر انگڑائی قیامت خیز اور اب زندگی کی ایک اور کروٹ مجھ سے بہت کچھ اگر لے گئی ہے تو بہت کچھ دے بھی گئی ہے۔ ہفتہ ہونے کو آیا کہ مجھ سے وہ میرا وہ کمرہ چُھوٹ گیا ہے جس میں "بلا شرکتِ غیرے" میں نے اپنی زندگی کے سینتیس سال بتا دیئے، اس کمرے کے ساتھ اتنی یادیں وابستہ ہیں کہ سوچنے لگوں تو بیکار ہو جاؤں اور وہ گھر چھوٹ گیا جس میں پیدا ہوا، پلا بڑھا اور جوان ہوا۔ ہمارا وہ چھوٹا سا آبائی گھر جس کی تین منزلہ عمارت میں، میں ایک طرح سے تہہ خانے میں رہ رہا تھا اب اس سے ہجرت کر کے ساتھ والے گھر میں اٹھ آیا ہوں جس میں کبھی میرے نانا جان مرحوم رہا کرتے تھے اور انکے وہاں سے چلے جانے کے بعد میرے والد صاحب مرحوم نے وہ مکان ان سے خرید لیا تھا۔ ہجرت تو یہ چند ہی قدم کی ہے لیکن فاصلہ شاید اس میں اتنا طے ہو گیا جتنا کبھی انسان نے زمین سے چاند کی جانب طے کیا تھا۔ ایک تین منزلہ عمارت کے سب سے نچلے حصے سے نکل کر ایک دوسری تین منزلہ عمارت کے سب سے اوپر والے حصے میں منتقل ہو گیا ہوں اور سالہا سال بلکہ مدت مدید کے بعد اپنے بچپن کے آشنا 'دُبِ اکبر' کو دیکھا تو ایک عجب ہی جہان میں تھا، لیکن چاند کو نہ دیکھ کر افسوس سا ہوا لیکن کب تلک، اماوس کی راتیں گزر گئیں اور آج کل جمادی الاوّل کا نیا چاند اپنی بہار دکھا رہا ہے، چند دن بعد یہ جب مستعار کی روشنی سے بھر پور چمک اٹھے گا تو منظر دیدنی ہوگا۔
چاندنی راتوں کے کیف و سرور سے بات چلی تو چاند کی مستعار کی روشنی تک پہنچ گئی، سوچ رہا تھا کہ اپنی اس ہجرت پر کچھ شعر وعر کہونگا لیکن چھت پر لیٹ کر آسمان کو تکتے رہنے سے کچھ فرصت نہیں۔ چاند پر بہت سی شاعری ہو چکی لیکن نہ جانے کیوں مجھے 'پروانے' پر کہا ہوا ابوالفیض فیضی کا یہ شعر برابر یاد آ رہا ہے۔
تو اے پروانہ ایں گرمی ز شمعِ محفِلے داری
چو من در آتشِ خود سوز گر سوزِ دلِے داری

اے پروانے تو نے یہ تب و تاب محفل کی شمع سے (مستعار) لی ہے (اور اسی کی آگ میں جل رہا ہے)، میری طرح اپنی ہی آگ میں جل کر دیکھ اگر کچھ سوزِ دل رکھتا ہے تو۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 25, 2009

دو خوبصورت ادبی بلاگز، غبارِ خاطر اور ناطقہ

جہاں تک میرا مشاہدہ ہے، قریب قریب سبھی اردو بلاگرز اعلیٰ ادبی ذوق کے مالک ہیں اور شعر و ادب کو اپنے اپنے بلاگز کی زینت بناتے رہتے ہیں اور کئی احباب تو بہت اچھی تحاریر بھی لکھتے ہیں جنہیں خالصتاً ادبی تحاریر کہا جا سکتا ہے اور شعر و شاعری بھی اکثر پوسٹ ہوتی رہتی ہے۔ لیکن خالصتاً ادبی بلاگز، یعنی یہ کہ دیگر موضوعات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اگر صرف شعر و ادب وغیرہ کے موضوع تک بلاگ کو محدود رکھا جائے تو، کم کم ہی ہیں اور میرے لیے انتہائی خوشی کی بات ہے کہ حال ہی میں دو انتہائی خوبصورت ادبی بلاگز کا اردو بلاگنگ کی دنیا میں اضافہ ہوا ہے۔
وہاب اعجاز خان صاحب کا "غبارِ خاطر"
وہاب اعجاز خان صاحب کا تعلق صوبہ سرحد سے ہے اور اردو محفل کے اراکین اور قارئین کیلیے ان کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ آپ کا شمار اردو محفل کے ابتدائی اراکین میں ہوتا ہے۔ آپ دو تین سال پہلے تک اردو محفل پر بہت فعال تھے لیکن شاید کسی وجہ سے اب اردو محفل پر کم کم تشریف لاتے ہیں۔ میری بدقسمتی کہ اردو محفل پر میری ان سے زیادہ بات چیت نہیں ہو سکی لیکن اب بلاگ کے حوالے سے انشاءاللہ ان سے ربط رہے گا۔
اردو محفل پر انکے کام اور موضوعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ شعر و ادب اور تنقید انکے خاص موضوعات ہیں اور اپنے بلاگ پر اسی حوالے سے انہوں نے خوبصورت تحاریر لکھنا شروع کی ہیں۔ انکے بلاگ کا عنوان 'غبارِ خاطر' بھی بہت خوبصورت ہے۔ میری طرف سے وہاب اعجاز خان صاحب کو بلاگنگ کی دنیا میں خوش آمدید اور امید ہے کہ انکے بلاگ پر خوبصورت تحاریر ہمیں پڑھنے کو ملتی رہیں گی۔

م۔ م۔ مغل صاحب کا "ناطقہ"
محمد محمود مغل صاحب، ہماری طرح صرف ویب پر فعال نہیں ہیں، بلکہ کراچی کے علمی و ادبی حلقوں میں بھی انتہائی فعال ہیں۔ کئی ایک ادبی تنظمیوں کے عہدیدار ہیں اور اکثر مشاعروں اور ادبی تقاریب کی نظامت کے فرائض بھی سر انجام دیتے ہیں۔ اچھے شاعر ہیں اور انکا کلام بھی اکثر اردو محفل پر پڑھنے کو ملتا ہے۔ شاعری کے ساتھ ساتھ آپ افسانہ نگاری اور کالم نگاری سے بھی شغف رکھتے ہیں۔ مغل صاحب کا تفصیلی تعارف اردو محفل پر دیکھا جا سکتا ہے۔
سیاست اور مذہب، انسانی زندگی سے نہ علیحدہ ہیں اور نہ انہیں علیحدہ کیا جا سکتا ہے اور اسی حوالے سے شاید مغل صاحب بھی ان موضوعات پر اپنے بلاگ پر لکھتے ہیں، جس میں قطعاً کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن مجھے امید ہے بلکہ خواہش بھی ہے کہ وہ اپنے بلاگ پر شعر و ادب کے حوالے سے ہی زیادہ لکھیں گے۔

اور یہ بھی خواہش ہے اور دعا بھی کہ بلاگنگ کی دنیا میں موضوعاتی بلاگز اور علمی و ادبی بلاگز کا اضافہ ہوتا رہے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔