Nov 29, 2009

مسیح الملک حکیم اجمل خان شیدا کی ایک غزل - کچھ بات ہی تھی ایسی کہ تھامے جگر گئے

کچھ بات ہی تھی ایسی کہ تھامے جگر گئے
ہم اور جاتے بزمِ عدو میں؟ مگر گئے

یہ تو خبر نہیں کہ کہاں اور کدھر گئے
لیکن یہاں سے دُور کچھ اہلِ سفر گئے

ارماں جو ہم نے جمع کئے تھے شباب میں
پیری میں وہ، خدا کو خبر ہے، کدھر گئے

رتبہ بلند ہے مرے داغوں کا اس قَدَر
میں ہوں زمیں، پہ داغ مرے تا قمر گئے
Hakim Ajmal Khan, حکیم اجمل خان, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
حکیم اجمل خان دہلوی
Hakim Ajmal Khan
رخسار پر ہے رنگِ حیا کا فروغ آج
بوسے کا نام میں نے لیا، وہ نکھر گئے

دنیا بس اس سے اور زیادہ نہیں ہے کچھ
کچھ روز ہیں گزارنے اور کچھ گزر گئے

جانے لگا ہے دل کی طَرَف ان کا ہاتھ اب
نالے شبِ فراق کے کچھ کام کر گئے

حسرت کا یہ مزا ہے کہ نکلے نہیں کبھی
ارماں نہیں ہیں وہ، کہ شب آئے سحر گئے

بس ایک ذات حضرتِ شیدا کی ہے یہاں
دہلی سے رفتہ رفتہ سب اہلِ ہنر گئے

(مسیح الملک حکیم اجمل خاں شیدا)
ماخذ: نقوش غزل نمبر، لاہور، 1985ء
---------
بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
افاعیل - مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
(آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)
اشاری نظام - 122 1212 1221 212
ہندسے دائیں سے بائیں، اردو کی طرح پڑھیے۔
(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع -
کچھ بات ہی تھی ایسی کہ تھامے جگر گئے
ہم اور جاتے بزمِ عدو میں؟ مگر گئے
کُچ بات - مفعول - 122
ہی تِ ایسِ - فاعلات - 1212
کِ تامے جِ - مفاعیل - 1221
گر گئے - فاعلن - 212

ہم اور - مفعول - 122
جاتِ بزمِ - فاعلات - 1212
عدو مے مَ - مفاعیل - 1221
گر گئے - فاعلن - 212
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 16, 2009

سلسلۂ ٹیگیہ بلاگیہ

جناب خرم بھٹی صاحب نے اس کھیل نما سلسلے میں اس خاکسار کو یاد کیا تھا، بوجوہ جلدی لبیک نہ کہہ سکا لیکن بہرحال حکم کی تعمیل واجب تھی سو حاضر ہوں۔

انٹرنیٹ پر آپ روزانہ کتنا وقت صرف کرتے ہیں؟
بارہ سے چودہ گھنٹے، اس میں دفتری اوقات کے آٹھ، نو گھنٹے بھی شامل ہیں کہ کام کی نوعیت ہی کچھ ایسی ہے۔

انٹرنیٹ آپ کے رہن سہن میں کیا تبدیلی لایا ہے؟
کوئی خاص نہیں، میں پہلے بھی اپنے کمرے میں بند رہتا تھا اور اب بھی رہتا ہوں، ہاں یہ فرق آیا کہ پہلے بستر پر دراز ہو کر پڑھتا رہتا تھا اور اب کرسی پر کمپیوٹر کے سامنے بیٹھا رہتا ہوں۔

کیا انٹرنیٹ نے آپ کی سوشل یا فیملی لائف کو متاثر کیا ہے اور کس طرح؟
میری سوشل لائف میرے گھر کی چاردیواری تک محدود ہے سو اس کو تو قطعاً متاثر نہیں کیا۔ فیملی لائف کی یہ کہ انٹرنیٹ میری زندگی میں پہلے داخل ہوا تھا اور بیوی بچے بعد میں، سو انہوں نے سمجھوتہ کیا ہے میرے ساتھ۔

اس علت سے جان چھڑانے کی کبھی کوشش کی اور کیسے؟
کافی کوشش کر چکا ہوں لیکن یہ علت چھوٹتی نہیں، مطالعہ میرے لیے آکسیجن کی طرح ہے، لیکن پچھلے چند سالوں سے بالخصوص جب سے میں اردو محفل، بلاگ اور فیس بُک پر فعال ہوا ہوں، میرے مطالعے میں بہت بری طرح کمی واقع ہوئی ہے، اسکا مجھے بہت دکھ ہے اور بعض دفع اسی رنج و غم میں گھر میں انٹرنیٹ کو چھوڑ دیتا ہوں اور مطالعے کو زیادہ وقت دیتا ہوں جیسے ابھی پچھلوں دنوں میں یہی کام کر رہا تھا لیکن افسوس کہ میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں لیکن کمبل مجھے نہیں چھوڑتا۔

کیا انٹرنیٹ آپ کی آؤٹ ڈور کھیلوں میں رکاوٹ بن چکا ہے؟
مدت ہوئی لڑکپن گزرے اور اتنا ہی عرصہ ہوا آؤٹ ڈور کھلیوں کو چھوڑے بلکہ آؤٹ ڈور کی کیا تخصیص، ان ڈور کھیلیں بھی میری زندگی میں نہیں بجز کمپیوٹر گیمز کے، جو مجھے بہت پسند ہیں اور کھیلتا بھی ہوں۔

اور اب کچھ دیگر احباب کو ٹیگ کرنا تھا لیکن یہ موضوع کب سے ختم ہو چکا سو اس کو یہیں ختم کرتا ہوں، ان اشعار پر جو کسی شاعر نے سعدی کی مدح میں کہے تھے۔

در شعر سه تن پیمبرانند
هر چند که لانبی بعدی
اوصاف و قصیده و غزل را
فردوسی و انوری و سعدی

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 29, 2009

مولانا رومی کی ایک غزل - نہ من بیہودہ گردِ کوچہ و بازار می گردَم

پچھلے دنوں یوٹیوب پر فارسی کلام ڈھونڈتے ڈھونڈتے مولانا رومی کی ایک غزل تک پہنچ گیا جو استاد نصرت فتح علی خان قوّال نے گائی ہے۔ سوچا فارسی، شاعری، رومی، موسیقی، قوّالی، نصرت یا فقط 'یو ٹیوب' کو پسند کرنے والے احباب کی خدمت میں پیش کر دوں۔

میں اس غزل کے سحر میں کئی دنوں سے گرفتار ہوں اور اس اسیری سے رہائی بھی نہیں چاہتا، فقط ایک کمی محسوس ہوتی ہے کہ اس غزل کے صرف وہی پانچ اشعار مل سکے جو نصرت نے گائے ہیں۔ رومی ایسے شعراء کیلیے پندرہ بیس اشعار کی غزل کہنا ایک عام بات تھی، تین تو مطلعے ہیں اس غزل کے۔

آن لائن یونی کوڈ دیوانِ شمس (مولانا رومی کا دیوان جو انہوں نے اپنے مرشد شمس تبریز کے نام کیا ہے) میں بھی یہ غزل نہیں ملی۔ کہتے ہیں کہ سلامِ دہقانی خالی از مطلب نیست سو اس غزل کو یہاں پوسٹ کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اگر کسی دوست کو یہ غزل کہیں سے مل سکے تو ضرور شیئر کریں۔

اس غزل کی ردیف، می گردم (میں گھومتا ہوں) میں مولوی رومی یا سلسلۂ مولویہ کا فلسفہ مضمر ہے، اس سلسلے کے ترک درویش سماع کے وقت ایک مخصوص اندازمیں گھومتے ہیں۔ اسطرح کے گھومنے سے انکی مراد کائنات کی گردش کے ساتھ مطابقت یا synchronization ہے۔ ہاتھوں اور سر کا انداز بھی مخصوص ہوتا ہے، عموماً دایاں ہاتھ اوپر کی طرف اور بایاں نیچے کی طرف ہوتا کہ اوپر والے ہاتھ سے کائنات یا آسمان سے مطابقت اور نیچے والے سے زمین کے ساتھ ہو رہی ہے، سر کا جھکاؤ دائیں طرف یعنی نگاہیں دل کی طرف ہوتی ہیں۔ کمال اتا ترک کے انقلاب سے پہلے یہ مخصوص رقص ترکی میں بہت عام تھا اور ہر خانقاہ اور زاویے پر اسکی محفلیں منعقد کی جاتی تھیں، اتا ترک نے اور بہت سی چیزوں کے ساتھ ساتھ اس سماع اور رقص کو بھی بند کرا دیا تھا اور اسکی اجازت فقط مولانا کے عرس کے موقعے پر قونیہ میں انکے مزار پر تھی۔

تقریباً اسی زمین میں شیخ سیّد عثمان شاہ مروندی معروف بہ لال شہاز قلندر کی بھی ایک خوبصورت غزل ہے

نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم
مگر نازم بہ آں ذوقے کہ پیشِ یار می رقصم
(یہ غزل اس ربط پر پڑھی جا سکتی ہے)

تقریباً اس لیے کہا کہ کسی شاعر کی زمین میں غزل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف اسکی بحر بلکہ قافیہ اور ردیف (ردیف اگر ہے) بھی ایک جیسی ہونی چاہیے، یہ دونوں غزلیں ایک ہی بحر میں، ایک ہی قافیے کے ساتھ ہیں لیکن ردیف مختلف ہے، مولانا رومی کی ردیف اگر انکے سلسلے کے رقص و سماع کی آئینہ دار ہے تو شیخ عثمان کی ردیف، می رقصم (میں رقص کرتا ہوں) انکے سلسلے کی، قلندری دھمال کی شہرت چہار دانگ عالم ہے۔ میں نہیں جانتا کہ پہلے کس نے غزل کہی اور کس نے دوسرے کی زمین استعمال کی کہ دونوں بزرگ ہمعصر تھے اور یہ بات بھی مشہور ہے کہ انکے روابط بھی تھے۔

اور دھمال سے ایک واقعہ یاد آ گیا، پچھلی صدی کی نوے کی دہائی کے نصف کی بات ہے، خاکسار لاہور میں زیرِ تعلیم تھا اور جائے رہائش گلبرگ مین مارکیٹ تھی، ایک دن وہاں شاہ جمال کے عرس کیلیے چندہ جمع کرنے کیلیے ایک 'چادر' نکلی جس میں پپو سائیں ڈھول بجا رہا تھا اور ساتھ میں دھمال پارٹی تھی۔ پپو سائیں اب تو پوری دنیا میں اپنے ڈھول بجانے کے فن کی وجہ سے مشہور ہو گیا ہے لیکن اس وقت اس کی مقامی شہرت کا آغاز ہو رہا تھا۔ اسی شہرت کو 'کیش' کرانے کے متعلق کچھ رازِ ہائے درونِ خانہ بھی اس خاکسار کے سینے میں ہیں کہ اسی وجہ سے اب تک ایک نوجوان کسی جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے۔ خیر ذکر دھمال کا تھا، شام کو جب سب دوست کمرے میں اکھٹے ہوئے تو اس بات کا ذکر ہوا، خوشاب کے ایک دوست نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک دوسرے سیالکوٹی دوست سے کہا کہ اگر آج یہ دھمال کہیں اور ہو رہی ہوتی تو اسکی دھمال بھی دیکھنے والی ہوتی مگر یہ اس وجہ سے رک گیا کہ یہاں اسکے کچھ شناسا موجود تھے۔

اور میں اس دوست کی بات سن کر حیران پریشان رہ گیا کہ اس کو میرے دل کی منافت کا کیسے علم ہو گیا گو یہ منافقت بہت سالوں بعد ختم ضرور ہوئی۔ 'می رقصم' کی تو یہ رہی، 'می گردم' نے بھی لاہور کی گلیوں اور کوچہ بازاروں کے بہت چکر لگوائے ہیں، خیر جانے دیجیئے، آپ بھی کیا کہیں گے کہ یہ غزل سے غزالاں تک جا پہنچا۔

غزل پیشِ خدمت ہے

نہ من بیہودہ گردِ کوچہ و بازار می گردَم
مذاقِ عاشقی دارم، پئے دیدار می گردَم

میں کُوچہ بازار میں یونہی آوارہ اور بے وجہ نہیں گھومتا بلکہ میں عاشقی کا ذوق و شوق رکھتا ہوں اور یہ سب کچھ محبوب کے دیدار کے واسطے ہے۔

خدایا رحم کُن بر من، پریشاں وار می گردم
خطا کارم گنہگارم، بہ حالِ زار می گردم

اے خدا مجھ پر رحم کر کہ میں پریشان حال پھرتا ہوں، خطار کار ہوں، گنہگار ہوں اور اپنے اس حالِ زار کی وجہ سے ہی گردش میں ہوں۔

Mazar Maulana Rumi, مزار مولانا رُومی, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
Mazar Maulana Rumi, مزار مولانا رُومی
شرابِ شوق می نوشم، بہ گردِ یار می گردم
سخن مستانہ می گویم، ولے ہشیار می گردم

میں شرابِ شوق پیتا ہوں اور دوست کے گرد گھومتا ہوں، میں اگرچہ شرابِ شوق کی وجہ سے مستانہ وار کلام کرتا ہوں لیکن دوست کے گرد طواف ہوشیاری سے کرتا ہوں یعنی یہ ہوش ہیں کہ کس کے گرد گھوم رہا ہوں۔

گہے خندم گہے گریم، گہے اُفتم گہے خیزم
مسیحا در دلم پیدا و من بیمار می گردم

اس شعر میں ایک بیمار کی کیفیات بیان کی ہیں جو بیم و رجا میں الجھا ہوا ہوتا ہے کہ کبھی ہنستا ہوں، کبھی روتا ہوں، کبھی گرتا ہوں اور کبھی اٹھ کھڑا ہوتا ہوں اور ان کیفیات کو گھومنے سے تشبیہ دی ہے کہ میرے دل میں مسیحا پیدا ہو گیا ہے اور میں بیمار اسکے گرد گھومتا ہوں۔ دل کو مرکز قرار دے کر اور اس میں ایک مسیحا بٹھا کر، بیمار اسکا طواف کرتا ہے۔

بیا جاناں عنایت کُن تو مولانائے رُومی را
غلامِ شمس تبریزم، قلندر وار می گردم

اے جاناں آ جا اور مجھ رومی پر عنایت کر، کہ میں شمس تبریز کا غلام ہوں اور دیدار کے واسطے قلندر وار گھوم رہا ہوں۔ اس زمانے میں ان سب صوفیا کو قلندر کہا جاتا تھا جو ہر وقت سفر یا گردش میں رہتے تھے۔

یو ٹیوب ویڈیوز بشکریہ ثاقب طاہر۔




مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 28, 2009

ایک تازہ غزل

ایک تازہ غزل دوستوں کے نام

تازہ ہوا کا جھونکا بنایا گیا مجھے
دنیائے بے نمو میں پھرایا گیا مجھے
میں آنکھ سے گرا تو زمیں کے صدف میں تھا
بہرِ جمالِ عرش اُٹھایا گیا مجھے
سازش میں کون کون تھا، مجھ کو نہیں ہے علم
مُصحَف میں اک ہی نام بتایا گیا مجھے
بخشی گئی بہشت مجھے کس حساب میں؟
دوزخ میں کس بنا پہ جلایا گیا مجھے؟
چیخا کبھی جو دہر کے ظلم و ستم پہ میں
قسمت کی لوری دے کے سُلایا گیا مجھے
بیدادِ دہر نے جو کیا سنگ دل ہمیں
تو کربلا دکھا کے رُلایا گیا مجھے
تسخیرِ کائنات کا تھا مرحلہ اسد
یوں ہی نہیں یہ علم سکھایا گیا مجھے

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 19, 2009

نظیری نیشاپوری کی ایک شاہکار غزل - کرشمہ دامنِ دل می کشَد کہ جا اینجاست

نظیری نیشاپوری کی ایک شاہکار غزل
محمد حسین نظیری نیشاپوری کا شمار مغلیہ دور کے عظیم ترین شعراء میں سے ہوتا ہے۔ اس دور کی روایت کے عین مطابق نظیری نے بہت قصیدے لکھے اور بہت عرصے تک خانخاناں کے دربار سے وابستہ رہے اور خوب خوب مدح سرائی کی لیکن نظیری کی اصل شہرت انکی غزلیات کی وجہ سے ہے جس میں جدت طرازی انکا طرۂ امتیاز ہے۔
مولانا شبلی نعمانی انکے متعلق 'شعر العجم' (جلد سوم) میں لکھتے ہیں۔
"ابتدائے تمدن میں میں معشوق کے صرف رنگ و روپ اور تناسبِ اعضا کا خیال آیا اور اس کیلیے حسن ایک عام لفظ ایجاد کیا گیا لیکن جب رنگینیِ طبع اور نکتہ سنجی بڑھی تو معشوق کی ایک ایک ادا الگ الگ نظر آئی اور وسعتِ زبان نے انکے مقابلہ میں نئے نئے الفاظ مثلاً کرشمہ، غمزہ، ناز، ادا وغیرہ وغیرہ تراشے۔ اس قسم کے الفاظ اور ترکیبیں جدت پسند طبیعتیں ایجاد کرتی ہیں اور یہی طبعیتیں ہیں جن کو اس شریعت کا پیغمبر کہنا چاہیے۔ ان الفاظ کی بدولت آیندہ نسلوں کو سیکڑوں، ہزاروں خیالات اور جذبات کے ادا کرنے کا سامان ہاتھ آ جاتا ہے، نظیری اس شریعت کا اولوالعزم پیغمبر ہے، اس نے سیکڑوں نئے الفاظ اور سیکڑوں نئی ترکیبیں ایجاد کیں، یہ الفاظ پہلے سے موجود تھے لیکن جس موقع پر اس نے کام لیا یا جس انداز سے ان کو برتا شاید پہلے اس طرح برتے نہیں گئے تھے۔"
نظیری کی غزل پیشِ خدمت ہے۔
حریفِ صافی و دُردی نہ ای خطا اینجاست
تمیزِ ناخوش و خوش می کُنی بلا اینجاست

تُو نہ تو صاف اور نہ ہی تلچھٹ پینے کا متحمل ہے اور یہی تیری خطا ہے، تُو ناخوش اور خوش کی تمیز کرتا ہے یہی تیری بلا ہے۔ یعنی زندگی کے صرف ایک اور اچھے رخ کی خواہش یا آرزو ہی مصیبت کی جڑ ہے۔
بغیرِ دل ھمہ نقش و نگار بے معنیست
ھمیں ورق کہ سیہ گشتہ مدّعا اینجاست

دل کے بغیر تمام نقش و نگار بے معنی ہیں، یہی ورق (یعنی دل) جو سیاہ ہو گیا ساری بات اور سارا مدعا تو یہیں ہے یعنی ظاہری نقش و نگار چاہے جتنے بھی خوب ہوں سیاہ دل کے ساتھ بے معنی ہیں۔
یہ شعر سب سے پہلے میں نے مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب 'غبارِ خاطر' میں پڑھا تھا اور بہت پسند آیا، مولانا کو بھی بہت پسند رہا ہوگا کہ یہ شعر دو مختلف جگہوں پر لکھا ہے اور میرے لیے اسی شعر نے غزل ڈھونڈنے کیلیے مہمیز کا کام کیا جو بلآخر ایک درسی کتاب میں مل ہی گئی۔
ز فرق تا قَدَمَش ہر کجا کہ می نگرَم
کرشمہ دامنِ دل می کشَد کہ جا اینجاست

اسکے سر سے لیکر اسکے قدموں تک میں جہاں بھی (جس حصے کو بھی) دیکھتا ہوں انکی رعنائی میرے دامنِ دل کو کھینچتی ہے کہ دیکھنے کی جگہ یہیں ہے، محبوب کی تعریف سر سے پاؤں تک کر دی ہے۔
خطا بہ مردمِ دیوانہ کس نمی گیرَد
جنوں نداری و آشفتہ ای خطا اینجاست

کسی دیوانے کو کوئی بھی خطا وار نہیں سمجھتا، (لیکن اے عاشق تجھ پر جو لوگ گرفت کر رہے ہیں اسکی وجہ یہ ہے کہ) تو پریشان حال تو ہو گیا ہے لیکن جنون نہیں رکھتا اور یہی تیری خطا ہے جس پر پکڑ ہے، یعنی ابھی تیرا عشق خام ہے، جب اس مفلوک الحالی میں جنون بھی شامل ہو جائے گا تو پھر تُو کامل ہوگا اور دنیا کی گرفت سے آزاد۔
ز دل بہ دل گذَری ہست، تا محبت ہست
رہِ چمن نتواں بست تا صبا اینجاست

جب تک محبت ہے دل کو دل سے راہ رہے گی، جب تک بادِ صبا یہاں ہے چمن کا راستہ بند نہیں کیا جا سکتا یعنی حسن و عشق کا تعلق تب تک رہے گا جب تک چمن اور صبا کا تعلق ہے یعنی تا قیامت۔
بدی و نیکیِ ما، شکر، بر تو پنہاں نیست
ہزار دشمنِ دیرینہ، آشنا اینجاست

شکر ہے (خدا کا) کہ ہماری بدی اور نیکی تجھ (محبوب) سے پنہاں نہیں ہے کہ ہمارے ہزار پرانے آشنا دشمن یہاں موجود ہیں، مطلب یہ کہ وہ ہماری کوئی بھی برائی اگر تمھارے سامنے کریں گے تو پروا نہیں کہ تو پہلے ہی سے جانتا ہے۔
سرشکِ دیدۂ دل بستہ بے تو نکشایَد
اگرچہ یک گرہ و صد گرہ کشا اینجاست

میرے دیدۂ دل کے آنسوؤں کی جو گرہ بند گئی ہے وہ تیرے بغیر نہیں کھلنے کی، اگرچہ اس دنیا میں بہت سے گرہ کھولنے والے (مشکل کشا) موجود ہیں لیکن عاشق کا مسئلہ تو محبوب ہی حل کرے گا۔
بہ ہر کجا رَوَم اخلاص را خریداریست
متاع کاسِد و بازارِ ناروا اینجاست

میں جہاں کہیں بھی جاؤں میرے اخلاص کے خریدار موجود ہیں لیکن صرف اسی جگہ ہماری متاع (خلوص) ناقص ٹھہرا ہے اور بازار ناروا ہے۔
ز کوئے عجز نظیری سرِ نیاز مَکَش
ز ہر رہے کہ درآیند انتہا اینجاست

اے نظیری عجز و انکساری کے کوچے سے اپنا سرِ نیاز مت اٹھا، کہ جس راستے سے بھی آئیں انتہا تو یہیں (کوئے عجز) ہے۔ میری نظر میں یہ شعر بیت الغزل ہے۔
----------
بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
(آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فعِلان بھی آ سکتے ہیں)
اشاری نظام - 2121 2211 2121 22
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)
پہلے شعر کی تقطیع -
حریفِ صافی و دُردی نہ ای خطا اینجاست
تمیزِ ناخوش و خوش می کُنی بلا اینجاست
حریفِ صا - 2121 - مفاعلن
فِ یُ دردی - 2211 - فعِلاتن
نہ ای خطا - 2121 - مفاعلن
ای جاس - 122 - فعلان (چونکہ جاست میں پے در پے تین ساکن آ گئے یعنی الف سین اور ت سو تیسرا ساکن 'ت' ساقط ہو گیا ہے کہ اصول کے مطابق فقط دو ساکن ہی محسوب ہوتے ہیں اور اسکے بعد والے ساقط ہو جاتے ہیں اور کوئی وزن نہیں رکھتے، پوری غزل کی ردیف میں یہی معاملہ ہے)۔
تمیزِ نا - 2121 - مفاعلن
خُ شُ خُش می - 2211 - فعلاتن
کُنی بلا - 2121 - مفاعلن
ای جاس - 122 - فعلان
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 16, 2009

مثنوی 'اشتہار پنج آہنگ' از مرزا غالب

غالب کی ایک مثنوی 'قادر نامہ' ویب کی دنیا میں پہلی بار پیش کرنے کے بعد 'نسخۂ مہر' سے غالب کی ایک اور مثنوی لکھ رہا ہوں کہ یہ بھی ویب پر 'غیر مطبوعہ' ہے۔
تعارف
'پنج آہنگ' غالب کی فارسی نثر کی کتاب ہے اور پانچ حصوں پر مشتمل ہے جس میں غالب نے القاب و آداب، لغاتِ فارسی، اشعارِ مکتوبی، تقاریظ اور مکاتیب وغیرہ لکھے ہیں۔ یہ کتاب سب سے پہلے اگست 1849ء میں شاہی قلعے کے مطبع میں شائع ہوئی اور اس کتاب کی اشاعت سے پہلے غالب نے اسکا ایک منظوم اشتہار مثنوی کی صورت میں لکھا جو اخبار میں شائع ہوا۔
مولانا غلام رسول مہر مثنوی کے تعارف میں رقم طراز ہیں:
"پنج آہنگ" کا منظوم اشتہار بھی ایک نادر چیز ہے، یہ مثنوی میں نے سب سے پہلے علی گڑھ کالج میگزین کے "غالب نمبر" (حصہ آثارِ غالب مرتبہ قاضی عبدالودود صاحب) میں دیکھی تھی۔
مثنوی سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اس زمانے میں لکھی گئی تھی جب پنج آہنگ شاہی مطبع میں زیرِ طبع تھی اور مطبع حکیم احسن اللہ خان کے اہتمام میں تھا۔ اشتہار حکیم غلام نجف خاں کی طرف سے تھا جیسا کہ آخر میں واضح کر دیا گیا ہے۔ عرشی صاحب کے بیان کے مطابق 'اسعد الاخبار' آگرہ میں چھپی تھی۔"
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee، Mirza Ghalib, مرزا غالب
Mirza Ghalib, مرزا غالب


مثنوی "اشتہار پنج آہنگ" از مرزا اسد اللہ خان غالب
مژدہ اے رہروانِ راہِ سخن
پایہ سنجانِ دستگانِ سخن
طے کرو راہِ شوق زود ازود
آن پہنچی ہے منزلِ مقصود
پاس ہے اب سوادِ اعظمِ نثر
دیکھیے چل کے نظمِ عالمِ نثر
سب کو اس کا سواد ارزانی
چشمِ بینش ہو جس سے نورانی
یہ تو دیکھو کہ کیا نظر آیا
جلوۂ مدّعا نظر آیا
ہاں یہی شاہراہِ دہلی ہے
مطبعِ بادشاہِ دہلی ہے
منطبع ہو رہی ہے پنج آہنگ
گل و ریحان و لالہ رنگا رنگ
ہے یہ وہ گلشنِ ہمیشہ بہار
بارور جس کا سرو، گُل بے خار
نہیں اس کا جواب عالم میں
نہیں ایسی کتاب عالم میں
اس سے اندازِ شوکتِ تحریر
اخذ کرتا ہے آسماں کا دبیر
مرحبا طرزِ نغز گفتاری
حبَّذا رسم و راہِ نَثّاری
نثرِ مدحت سراے ابراہیم (1)
ہے مقرّر جواب، پئے تعلیم
اس کے فقروں میں کون آتا ہے؟
کیا کہیں کیا وہ راگ گاتا ہے
تین نثروں سے کام کیا نکلے (2)
ان کے پڑھنے سے نام کیا نکلے
ورزشِ قصّۂ کہن کب تک؟
داستانِ شہِ دکن کب تک؟ (3)
تا کجا درسِ نثر ہائے کہن
تازہ کرتا ہے دل کو تازہ سخن
تھے ظہوری و عرفی و طالب
اپنے اپنے زمانے میں غالب
نہ ظہوری ہے اب، نہ طالب ہے
اسد اللہ خانِ غالب ہے
قول حافظ کا ہے بجا اے دوست
"ہر کرا پنج روز نوبتِ اوست"
کل وہ سرگرمِ خود نمائی تھے
شمعِ بزمِ سخن سرائی تھے
آج یہ قدر دانِ معنی ہے
بادشاہِ جہانِ معنی ہے (4)
نثر اس کی، ہے کارنامۂ راز
نظم اس کی، نگار نامۂ راز
دیکھو اس دفترِ معانی کو
سیکھو آئینِ نکتہ دانی کو
اس سے جو کوئی بہرہ ور ہوگا
سینہ گنجینۂ گہر ہوگا
ہو سخن کی جسے طلب گاری
کرے اس نسخے کی خریداری
آج جو دیدہ ور کرے درخواست
تین بھیجے روپے وہ بے کم و کاست
منطبع جب کہ ہو چکے گی کتاب
زرِ قیمت کا ہوگا اور حساب
چار سے پھر نہ ہوگی کم قیمت
اس سے لیویں گے کم نہ ہم قیمت (5)
جس کو منظور ہو کہ زر بھیجے
احسن اللہ خاں کے گھر بھیجے
وہ بہارِ ریاضِ مہر و وفا
جس کو کہتے ہیں عمدۃ الحکما
میں جو ہوں درپئے حصولِ شرف
نام عاصی کا ہے غلامِ نجف
ہے یہ القصّہ حاصلِ تحریر
کہ نہ ارسالِ زر میں ہو تاخیر
چشمۂ انطباع جاری ہے
ابتدائے ورق شماری ہے

حواشی از مولانا غلام رسول مہر
1- ابراہیم عادل شاہ فرمانروائے بیجا پور اور اسکا مدحت سرا ظہوری تھا جس نے ابراہیم کی مدح میں 'سہ نثر' لکھی۔ وہی نثر اس زمانے میں اور خود ہمارے زمانے میں پڑھائی جاتی تھی۔
2- سہ نثر
3- ابراہیم بادشاہ بیجا پور
4- یعنی ایک زمانے میں ظہوری، عرفی اور طالب سرگرمِ خود نمائی تھے، اب غالب جہانِ معنی کا بادشاہ ہے۔
5- مطلب یہ کہ دورانِ انطباع میں 'پنج آہنگ' کی قیمت تین روپے رکھی گئی تھی اور بعدِ انطباع چار روپے کا فیصلہ ہو گیا تھا۔ اس میں کمی کا کوئی امکان نہ تھا۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہو سکتا ہے کہ بادشاہی مطبع میں کتابوں کی قیمت بہت زیادہ تھی۔ دوسرے مطبعوں میں تمام کتابیں نسبتاً ارزاں ملتی تھیں، پھر منشی نول کشور نے تو ارزانی کی حد کر دی کہ بڑی بڑی اور ضخیم کتابیں بہت کم قیمت پر بازار میں پہنچا دیں۔ کتاب حکیم نجف خاں نے چھاپی تھی اور شاہی مطبع حکیم احسن اللہ خان کے زیرِ اہتمام تھا۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jul 28, 2009

مثنوی 'قادر نامہ' از غالب - ویب کی دنیا میں پہلی بار

ویب کی دنیا میں غالب کے اردو کلام کا شاید ہی کوئی حصہ ہوگا جو موجود نہ ہو لیکن جو مثنوی میں آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں وہ ویب کی دنیا میں پہلی بار پیش ہو رہی ہے، میرے لیے یہ سعادت تو ہے ہی لیکن حیرت بھی ہے کہ ابھی تک کسی کی نظر اس پر کیوں نہیں پڑی۔

مثنوی قادر نامہ کا تعارف
غالب کے سات بچے تھے لیکن افسوس ان میں سے کوئی بھی پندرہ ماہ سے زائد تک نہ جیا اور غالب لاولد ہی مرے۔ اپنی اسی تنہائی اور بعض دیگر وجوہات کی بنا پر غالب نے زین العابدین خاں عارف کو متبنیٰ بنا لیا تھا جو انکی بیوی کے بھانجے تھے۔ عارف خوش ذوق شاعر تھے اور انہوں نے غالب کی شاگردی بھی اختیار کر لی تھی لیکن وائے رے قسمت کہ عین شباب کے عالم، پینتیس سال کی عمر میں، عارف بھی وفات پا گئے، اور عارف کی جواں مرگ پر غالب کی ایک رثائی غزل انکے دیوان میں موجود ہے۔

ہاں اے فلکِ پیر، جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑتا، جو نہ مرتا کوئی دن اور

اور انہی عارف مرحوم کے چھوٹے چھوٹے یتیم بچوں کیلیے غالب نے 'مثنوی قادر نامہ' لکھی تھی۔ دراصل یہ مثنوی ایک طرح کی لغت نامہ ہے جس میں غالب نے عام استعمال کے فارسی اور عربی الفاظ کے ہندی یا اردو مترادف بیان کیے ہیں تا کہ پڑھنےوالوں کے ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ ہو سکے، بقولِ غالب

جس نے قادر نامہ سارا پڑھ لیا
اُس کو آمد نامہ کچھ مشکل نہیں

اس مثنوی کے محاسن تو اہلِ نظر ہی دیکھیں گے میں تو یہ دیکھ رہا ہوں کہ اولاد کی طرف سے انتہائی بدقسمت غالب، اپنے لے پالک کے یتیم بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں تو اس میں کیا کیا محبت اور کیسی کیسی شفقت شامل نہیں ہوگی اور غالب کا دل کسطرح کے جذبات سے لبریز ہوگا جب انہوں نے یہ مثنوی کہی ہوگی۔
یہ مثنوی مولانا غلام رسول مہر نے اپنے مرتب کردہ 'دیوانِ غالب' میں تیسرے ضمیمے کے طور پر شامل کی ہے، لیکن دیوانِ غالب کی مشہور و معروف شرح 'نوائے سروش' میں اسے شامل نہیں کیا، نہ جانے کیوں۔ میں یہ مثنوی اسی مذکورہ دیوان سے لکھ رہا ہوں۔ پہلی بار یہ مثنوی 1856ء میں شائع ہوئی تھی۔

گو یہ مثنوی غالب نے بچوں کیلیے لکھی تھی لیکن ہے بڑوں کے بڑے کام کی چیز، یقین نہ آئے تو پڑھ کے دیکھیئے۔

Mirza Ghalib, مرزا غالب, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Masnavi, مثنوی
Mirza Ghalib, مرزا غالب

مثنوی 'قادر نامہ' از مرزا اسد اللہ خان غالب
قادر اور اللہ اور یزداں، خدا -- ہے نبی، مُرسل، پیمبر، رھنما

پیشوائے دیں کو کہتے ہیں امام -- وہ رسول اللہ کا قائم مقام

ہے صحابی دوست، خالص ناب ہے --  جمع اس کی یاد رکھ اصحاب ہے

بندگی کا ہاں عبادت نام ہے --  نیک بختی کا سعادت نام ہے

کھولنا افطار ہے اور روزہ صوم --  لیل یعنی رات، دن اور روز، یوم


ہے صلوٰۃ اے مہرباں اسمِ نماز --  جس کے پڑھنے سے ہو راضی بے نیاز


جا نماز اور پھر مصلّا ہے وہی --  اور سجّادہ بھی گویا ہے وہی


اسم وہ ہے جس کو تم کہتے ہو نام --  کعبہ، مکّہ وہ جو ہے بیت الحرام


گرد پھرنے کو کہیں گے ہم طواف --  بیٹھ رہنا گوشے میں ہے اعتکاف

پھر فلک، چرخ اور گردوں اور سہپر --  آسماں کے نام ہیں اے رشکِ مہر


مہر سورج، چاند کو کہتے ہیں ماہ --  ہے محبت مہر، لازم ہے نباہ


غرب پچھّم اور پورب شرق ہے --  ابر بدلی اور بجلی برق ہے


آگ کا آتش اور آذر نام ہے --  اور انگارے کا اخگر نام ہے


تیغ کی ہندی اگر تلوار ہے --  فارسی پگڑی کی بھی دستار ہے


نیولا راسُو ہے اور طاؤس مور --  کبک کو ہندی میں کہتے ہیں چکور


خم ہے مٹکا اور ٹھلیا ہے سبو --  آب پانی، بحر دریا، نہر جُو


چاہ کو ہندی میں کہتے ہیں کنواں --  دُود کو ہندی میں کہتے ہیں دھواں


سینہ چھاتی، دست ہاتھ اور پائے پاؤں --  شاخ ٹہنی، برگ پتا، سایہ چھاؤں


ماہ چاند، اختر ہیں تارے، رات شب -- دانت دنداں، ہونٹ کو کہتے ہیں لب


استخواں ہڈّی ہے اور ہے پوست کھال --  سگ ہے کتّا اور گیدڑ ہے شغال


تِل کو کنجد اور رُخ کو گال کہہ --  گال پر جو تل ہو اس کو خال کہہ


کیکڑا سرطان ہے، کچھوا سنگ پشت -- 
ساق پنڈلی، فارسی مٹھی کی مشت

ہے شکم پیٹ، اور بغل آغوش ہے --  کہنی آرنج اور کندھا دوش ہے

دودھ جو پینے کا ہے وہ شیر ہے --  طفل لڑکا اور بوڑھا پیر ہے


ہندی میں عقرب کا بچھّو نام ہے --  فارسی میں بھوں کا ابرو نام ہے


ہے وہی کژدُم جسے عقرب کہیں --  نیش ہے وہ ڈنگ جس کو سب کہیں


ہے لڑائی، حرب اور جنگ ایک چیز --  کعب، ٹخنہ اور شتالنگ ایک چیز


ناک بینی، پرّہ نتھنا، گوش کان --  کان کی لو نرمہ ہے، اے مہربان


چشم ہے آنکھ اور مژگاں ہے پَلک --  آنکھ کی پتلی کو کہیے مردمک


منہ پر گر جھری پڑے آژنگ جان --  فارسی چھینکے کی تو آونگ جان


مسا، آژخ اور چھالہ، آبلہ --  اور ہے دائی،جنائی، قابلہ


اونٹ اُشتر اور اُشغر سیّہ ہے --  گوشت ہے لحم اورچربی پیّہ ہے


ہے زنخ ٹھوڑی، گلا ہے خنجرہ --  سانپ ہے مار اور جھینگر زنجرہ


ہے زنخ ٹھوڑی، ذقن بھی ہے وہی --  خاد ہے چیل اور زغن بھی ہے وہی


پھر غلیواز اس کو کہیے جو ہے چیل --  چیونٹی ہے مور اور ہاتھی ہے پیل


لومڑی روباہ اور آہو ہرن --  شمس سورج اور شعاع اسکی کرن


اسپ جب ہندی میں گھوڑا نام پائے --  تازیانہ کیوں نہ کوڑا نام پائے


گربہ بلّی، موش چوہا، دام جال --  رشتہ تاگا، جامہ کپڑا، قحط کال


خر گدھا اور اس کو کہتے ہیں اُلاغ --  دیگ داں چولہا جسے کہیے اُجاغ


ہندی چڑیا، فارسی کنجشک ہے --  مینگنی جس کو کہیں وہ پشک ہے


تابہ ہے بھائی توے کی فارسی --  اور تیہو ہے لوے کی فارسی


نام مکڑی کا کلاش اور عنکبوت --  کہتے ہیں مچھلی کو ماہی اور حوت


پشّہ مچھّر، اور مکھّی ہے مگس --  آشیانہ گھونسلا، پنجرہ قفس


بھیڑیا گرگ اور بکری گوسپند --  میش کا ہے نام بھیڑ اے خود پسند


نام گُل کا پھول، شبنم اوس ہے --  جس کو نقّارہ کہیں وہ کوس ہے


خار کانٹا، داغ دھبّا، نغمہ راگ --  سیم چاندی، مس ہے تانبا، بخت بھاگ


سقف چھت ہے، سنگ پتھّر، اینٹ خشت --  جو بُرا ہے اس کو ہم کہتے ہیں زشت


زر ہے سونا اور زرگر ہے سنار --  موز کیلا اور ککڑی ہے خیار


ریش داڑھی، مونچھ سلبت اور بُروت --  احمق اور نادان کو کہتے ہیں اُوت


زندگانی ہے حیات اور مرگ موت --  شوے خاوند اور ہے انباغ سَوت


ہفت سات اور ہشت آٹھ اور بست بیس --  سی اگر کہیے تو ہندی اس کی تیس


ہے چہل چالیس اور پنجہ پچاس --  ناامیدی یاس، اور اُمّید آس


جملہ سب، اور نصف آدھا، ربع پاؤ --  صرصر آندھی، سیل نالا، باد باؤ


ہے جراحت اور زخم اور گھاؤ ریش --  بھینس کو کہتے ہیں بھائی گاؤمیش


دوش کل کی رات اور امروز آج --  آرد آٹا اور غلّہ ہے اناج


چاہیے ہے ماں کو مادر جاننا --  اور بھائی کو برادر جاننا


پھاوڑا بیل اور درانتی واس ہے --  فارسی کاہ اور ہندی گھاس ہے


سبز ہو جب تک اسے کہیے گیاہ -- خشک ہو جاتی ہے جب، کہتے ہیں کاہ


چکسہ پڑیا، کیسہ کا تھیلی ہے نام -- فارسی میں دھپّے کا سیلی ہے نام


اخلگندو جھجھنا، نیرو ہے زور -- بادفر، پِھرکی اور ہے دُزد چور


انگبیں شہد اور عسل، یہ اے عزیز --  ام کو ہیں تین، پر ہے ایک چیز


آجُل اور آروغ کی ہندی ڈکار -- مے شراب اور پینے والا میگسار


روئی کو کہتے ہیں پنبہ سن رکھو -- آم کو کہتے ہیں انبہ سن رکھو


خانہ گھر ہے اور کوٹھا بام ہے -- قلعہ دژ، کھائی کا خندق نام ہے


گر دریچہ فارسی کھڑکی کی ہے -- سرزنش بھی فارسی جھڑکی کی ہے


ہے بنولا، پنبہ دانہ، لاکلام -- اور تربُز، ہندوانہ، لاکلام


ہے کہانی کی فسانہ فارسی -- اور شعلہ کی زبانہ فارسی


نعل در آتش اسی کا نام ہے -- جو کہ بے چین اور بے آرام ہے


پست اور ستّو کو کہتے ہیں سویق -- ژرف اور گہرے کو کہتے ہیں عمیق


تار، تانا، پود بانا، یاد رکھ -- آزمودن، آزمانا یاد رکھ


یوسہ، مچھّی، چاہنا ہے خواستن -- کم ہے اندک اور گھٹنا کاستن


خوش رہو، ہنسنے کو خندیدن کہو -- گر ڈرو، ڈرنے کو ترسیدن کہو


ہے ہراسیدن بھی ڈرنا، کیوں ڈرو؟ -- اور جنگیدن ہے لڑنا، کیوں لڑو؟


ہے گزرنے کی گزشتن فارسی -- اور پھرنے کی ہے گشتن فارسی


وہ سرودن ہے جسے گانا کہیں -- ہے وہ آوردن جسے لانا کہیں


زیستن کو جانِ من جینا کہو -- اور نوشیدن کو تم پینا کہو


دوڑنے کی فارسی ہے تاختن -- کھیلنے کی فارسی ہے باختن


دوختن سینا، دریدن پھاڑنا -- کاشتن بونا ہے، رُفتن جھاڑنا


کاشتن بونا ہے اور کشتن بھی ہے -- کاتنے کی فارسی رِشتن بھی ہے


ہے ٹپکنے کی چکیدن فارسی -- اور سننے کی شنیدن فارسی


کودنا جستن، بریدن کاٹنا -- اور لیسیدن کی ہندی چاٹنا


سوختن جلنا، چمکنا تافتن -- ڈھونڈنا جستن ہے، پانا یافتن


دیکھنا دیدن، رمیدن بھاگنا -- جان لو، بیدار بودن، جاگنا


آمدن آنا، بنانا ساختن -- ڈالنے کی فارسی انداختن


باندھنا بستن، کشادن کھولنا -- داشتن رکھنا ہے، سختن تولنا


تولنے کو اور جو سنجیدن کہو -- پھر خفا ہونے کو رنجیدن کہو


فارسی سونے کی خفتن جانیے -- منہ سے کچھ کہنے کو گفتن جانیے


کھینچنے کی ہے کشیدن فارسی -- اور اُگنے کی دمیدن فارسی


اونگھنا پوچھو، غنودن جان لو -- مانجنا چاہو، زدودن جان لو


ہے قلم کا فارسی میں خامہ نام -- ہے غزل کا فارسی میں چامہ نام


کس کو کہتے ہیں غزل؟ ارشاد ہو -- ہاں غزل پڑھیے، سبق گر یاد ہو


غزل
صبح سے دیکھیں گے رستہ یار کا
جمعہ کے دن وعدہ ہے دیدار کا


وہ چُراوے باغ میں میوہ، جسے
پھاند جانا یاد ہو دیوار کا


پُل ہی پر سے پھیر لائے ہم کو لوگ
ورنہ تھا اپنا ارادہ پار کا


شہر میں چھڑیوں کے میلے کی ہے دھوم
آج عالم اور ہے بازار کا


لال ڈِگی پر کرے گا جا کے کیا
پُل پہ چل، ہے آج دن اتوار کا


گر نہ ڈر جاؤ تو دکھلائیں تمھیں
کاٹ اپنی کاٹھ کی تلوار کا


واہ بے لڑکے پڑھی اچھّی غزل
شوق ابھی سے ہے تجھے اشعار کا

لو سنو کل کا سبق آ جاؤ تم -- پوزی افسار اور دمچی پاردم


چھلنی کو غربال، پرویزن کہو -- چھید کو تم رخنہ اور روزن کہو


چہ کے معنی کیا، چگویم کیا کہوں -- من شَوَم خاموش، میں چُپ ہو رہوں


بازخواہم رفت، میں پھر جاؤں گا -- نان خواہم خورد، روٹی کھاؤں گا


فارسی کیوں کی چرا ہے یاد رکھ -- اور گھنٹے کی درا ہے یاد رکھ


دشت صحرا اور جنگل ایک ہے -- پھر سہ شنبہ اور منگل ایک ہے


جس کو ناداں کہیے وہ انجان ہے -- فارسی بینگن کی بادنجان ہے


جس کو کہتے ہیں جمائی فازہ ہے -- جو ہے انگڑائی، وہی خمیازہ ہے


یارہ کہتے ہیں کڑے کو ہم سے پوچھ -- پاڑ ہے تالار، اک عالم سے پوچھ


جس طرح گہنے کی زیور فارسی -- اسی طرح ہنسلی کی پرگر فارسی


بھِڑ کی بھائی، فارسی زنبور ہے -- دسپنا اُنبر ہے اور انبور ہے


فارسی آئینہ، ہندی آرسی -- اور ہے کنگھی کی شانہ فارسی


ہینگ انگوزہ ہے اور ارزیر رانگ -- ساز باجا اور ہے آواز بانگ


لوہے کو کہتے ہیں آہن اور حدید -- جو نئی ہے چیز اسے کہیے جدید


زوجہ جورو، یزنہ بہنوئی کو جان -- خشم غصہ اور بدخوئی کو جان


ہے نوا آواز ساماں اور اول -- نرخ، قیمت اور بہا،یہ سب ہیں مول


سیر لہسن، تُرب مولی، ترہ ساگ -- کھا بخور، برخیز اُٹھ، بگریز بھاگ


روئی کی پونی کا ہے پاغُند نام -- دُوک تکلے کو کہیں گے، لاکلام


گیتی اور گیہاں ہے دنیا یاد رکھ -- اور ہے ندّاف، دُھنیا یاد رکھ


کوہ کو ہندی میں کہتے ہیں پہاڑ -- فارسی گلخن ہے اور ہندی ہے بھاڑ


تکیہ بالش اور بچھونا بسترا -- اصل بستر ہے سمجھ لو تم ذرا


بسترا بولیں سپاہی اور فقیر -- ورنہ بستر کہتے ہیں برنا و پیر


پیر بوڑھا اور برنا ہے جواں -- جان کو البتہ کہتے ہیں رواں


اینٹ کے گارے کا نام آژند ہے -- ہے نصیحت بھی وہی جو پند ہے


پند کو اندرز بھی کہتے ہیں ،ہاں -- ارض ہے، پر،مرز بھی کہتے ہیں ہاں


کیا ہے ارض اور مرز تم سمجھے؟ زمیں -- عنق گردن اور پیشانی جبیں


آس چکّی، آسیا مشہور ہے -- اور فَوفل چھالیا مشہور ہے


بانسلی نے اور جلاجل جانجھ ہے -- پھر ستَروَن اور عقیمہ بانجھ ہے


کُحل سرمہ اور سلائی میل ہے -- جس کو جھولی کہتے ہیں زنبیل ہے

پایا قادر نامہ نے آج اختتام -- اک غزل اور پڑھ لو، والسّلام


غزل
شعر کے پڑھنے میں کچھ حاصل نہیں
مانتا لیکن ہمارا دل نہیں


علم ہی سے قدر ہے انسان کی
ہے وہی انسان جو جاہل نہیں


کیا کہِیں کھائی ہے حافظ جی کی مار؟
آج ہنستے آپ جو کِھل کِھل نہیں


کس طرح پڑھتے ہو رک رک کر سبق
ایسے پڑھنے کا تو میں قائل نہیں


جس نے قادر نامہ سارا پڑھ لیا
اس کو آمد نامہ کچھ مشکل نہیں

-------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jul 25, 2009

شفیق الزماں کی خطاطی کے نمونے

اردو محفل فورم پر ایک سلسلے میں پاکستان کے بین الاقوامی شہرت کے حامل خطاط شفیق الزماں کے متعلق ایک مضمون اور انکی خطاطی کے چند خوبصورت نمونے پیش کیے تھے۔ مضمون تو کافی طویل ہے اور ڈر ہے کہ یہاں لکھ دیا تو پڑھنے والوں کیلیے 'مشکل' ہو جائے گی سو شائقین مضمون تو اس ربط پر پڑھ سکتے ہیں، خطاطی کے نمونے میں یہاں پوسٹ کر رہا ہوں۔ مضمون اور خطاطی دونوں، اکادمی ادبیات پاکستان کے سہ ماہی مجلے 'ادبیات' کے شمارہ نمبر 35، 36، 1996ء سے لیے ہیں۔ بڑی تصویر دیکھنے کیلیے تصویر پر 'کلک' کیجیئے۔


شفیق الزماں - خطاطی

شفیق الزماں - خطاطی

شفیق الزماں - خطاطی
شفیق الزماں - خطاطی
شفیق الزماں - خطاطی
شفیق الزماں - خطاطی
شفیق الزماں - خطاطی
شفیق الزماں - خطاطی
شفیق الزماں - خطاطی
شفیق الزماں - خطاطی
شفیق الزماں - خطاطی
شفیق الزماں - خطاطی
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jul 13, 2009

نکمّے

"کون؟ مسلمان؟"
"نہیں۔"
"ہمارے حکمران؟"
"نہیں۔"
"سیاستدان؟"
"نہیں۔"
"مذہب کے ٹھیکیدار؟"
"نہیں۔"
"سرکاری افسران؟"
"نہیں۔"
"پُلسیے؟"
"نہیں۔"
"سرکاری اسکولوں کے ماسٹر؟"
"نہیں۔"
"کاروباری لوگ؟ دکاندار؟"
"نہیں۔"
"کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی؟"
"نہیں۔"
"ہا ہا ہا، شاعر؟"
"نہیں۔"
"تو پھر آخر کون؟"
"پاکستانی فوج کے جرنیل!"
"جرنیل؟، جنہوں نے باسٹھ سالوں میں سے آدھے سال اس ملک پر حکمرانی کی، وہ اور نکمّے؟"
"ہاں، وہی نکمّے، انہوں نے باقی کے آدھے سال اس نکمّوں کے مُلک پر حکمرانی کرنے کے موقعے ضائع کر دیئے۔"
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jul 6, 2009

رعنائیِ خیال - ایک اور خوبصورت ادبی بلاگ

مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے ایک اور خوبصورت ادبی بلاگ کا تعارف لکھتے ہوئے، ایک اور اچھے شاعر نے اپنا بلاگ شروع کیا ہے اس سے زیادہ خوشی کی بات میرے لیے کیا ہوگی بھلا۔ یہ بلاگ 'رعنائیِ خیال' خوبصورت لب و لہجے کے نوجوان شاعر جناب محمد احمد صاحب کا ہے۔

احمد صاحب کا تعلق کراچی سے ہے، اور انٹرنیٹ کی دنیا کے علاوہ کراچی کے ادبی حلقوں میں بھی فعال ہیں، ہماری ان سے شناسائی 'اردو محفل' پر ہوئی تھی جہاں انہوں نے اپنی خوبصورت شاعری سے اس خاکسار کا دل موہ لیا۔ احمد صاحب کی شاعری کی سب سے اہم بات جو مجھے نظر آئی کہ بھیڑ چال سے الگ ہو کر، انہوں نے اپنی شاعری میں خیال آفرینی کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور یہی بات ان کو دیگر نوجوان شعراء سے ممتاز کرتی ہے، ان کے کچھ اشعار دیکھیئے۔

سمندر کتنا گہرا ہے، کنارے سوچتے ہوں گے
زمیں سے آسماں تک استعارے سوچتے ہوں گے

نظارہ منظروں کی کتنی پرتوں سے عبارت ہے
کوئی ہو دیدۂ بینا، نظارے سوچتے ہوں گے
----
حسین شعر کہنے کا عمل بذاتِ خود ایک حسین عمل ہے، احمد صاحب کے اشعار دیکھیئے، مجھے پورا یقین ہے کہ ایسے اشعار تخلیق کرتے ہوئے وہ خود بھی بہت محظوظ ہوئے ہونگے۔

رات کی رانی، اوس کا پانی، جگنو، سرد ہوا
مُسکاتی، خوشبو مہکاتی، جنگل جنگل شام

رنگ سُنہرا دھوپ سا اُس کا، گیسو جیسے رات
چاند سا اُجلا اُجلا چہرہ، اُس کا آنچل شام
-----
چھوٹی بحر اس خاکسار کو انتہائی پسند ہے، اور چھوٹی بحر میں شعر کہنا ایک مشکل ترین امر ہے کہ اس میں بھرتی کے الفاظ کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہوتی، احمد صاحب کے شعر دیکھیئے

کچھ کسی کو نظر نہیں آتا
روشنی بے حساب ہے شاید

کیا محبت اُسے بھی ہے مجھ سے
مختصر سا جواب ہے 'شاید'
----
امید کرتا ہوں کہ احمد صاحب اسی طرح کی خوبصورت شاعری تخلیق کرتے رہیں گے اور اپنے بلاگ پر پیش کرتے رہیں گے اور اس بات کا بھی یقین ہے کہ انہوں نے اردو سیارہ پر اپنے بلاگ کی شمولیت کی درخواست ضرور دے دی ہوگی تا کہ جیسے ہی انکے بلاگ کی عمر 'دو ماہ' ہو وہ اردو سیارہ پر ظاہر ہونا شروع ہو جائے اور احمد صاحب کی تخلیقات قارئین تک اور قارئین ان تک پہنچ سکیں۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔