Jul 15, 2010

مظلوم الشعرا - میرزا یاس یگانہ عظیم آبادی

یگانہ ایک قادر الکلام شاعر تھے لیکن جب وہ پچھلی صدی کے اوائل میں عظیم آباد سے ہجرت کر کے لکھنؤ آئے تو لکھنؤ والوں نے ان کی بالکل ہی قدر نہ کی۔ اس وقت لکھنؤ والے اپنے برے سے برے شاعر کو بھی باہر والے اچھے سے اچھے شاعر کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دیتے تھے اور یگانہ چونکہ "باہر والے" تھے سو لکھنؤ والوں کو ایک آنکھ نہ بھائے۔ بقول مجنوں گورکھپوری، "لکھنؤ کے لوگوں میں اتنا ظرف کبھی نہ تھا کہ کسی باہر کے بڑے سے بڑے شاعر کو لکھنؤ کے چھوٹے سے چھوٹے شاعر کے مقابلے میں کوئی بلند مقام دے سکیں۔" (غزل سرا، نئی دہلی 1964ء بحوالہ چراغِ سخن از یگانہ، مجلسِ ترقیِ ادب، لاہور، 1996ء)۔

اور یہیں سے یگانہ اور لکھنؤ کے شعرا کے درمیان ایک ایسی چشمک شروع ہو گئی جو یگانہ کی موت پر بھی ختم نہ ہوئی، مزید برآں یہ کہ اس وقت لکھنؤ کے شعرا غالب کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے اور اپنے ہر اس شاعر کو مسندِ علم و فضل پر بٹھا دیتے تھے جو غالب کے رنگ میں کہتا تھا چاہے جتنا بھی برا کہتا تھا سو یگانہ کی اپنی محرومی کے سبب غالب سے بھی دشمنی پیدا ہو گئی اور آخری عمر تک غالب کے کلام میں نقص تلاش کرتے رہے اور انکا اظہار کرتے رہے۔

لیکن ہمیشہ کی طرح، ادبی چشمکوں میں صرف دھول ہی نہیں اڑتی اور کاغذ سامنے رکھ کر ایک دوسرے کے منہ پر صرف سیاہی ہی نہیں ملی جاتی بلکہ ان چشمکوں سے کچھ ایسے نوادر کا بھی ظہور ہوتا ہے جو شاید عام حالات میں کبھی مسندِ شہود پر نہ آتے اور انہی میں یگانہ کی علمِ عروض پر لازوال اور "اتھارٹی" کا درجہ حاصل کرنے والی کتاب "چراغِ سخن" ہے جو انہیں معرکوں کی یادگار ہے جس کے سرورق پر مرحوم نے لکھا تھا۔

مزارِ یاس پہ کرتے ہیں شُکر کے سجدے
دعائے خیر تو کیا اہلِ لکھنؤ کرتے

urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Yas Yagana Changezi, یاس یگانہ چنگیزی
Yas Yagana Changezi,
یاس یگانہ چنگیزی

کاغذوں پر سیاہی خیر ملی ہی جاتی ہے، لیکن اس مظلوم الشعرا کے ساتھ ایک ایسا واقعہ بھی ہوا کہ کسی اہلِ قلم کے ساتھ نہ ہوا ہوگا۔ انہوں نے ایک اخبار میں ایک مضمون لکھا جس میں ایک فرقے کے خلاف کچھ تند و تیز و متنازعہ جملے تھے سو قلم کی پاداش میں دھر لیے گئے، جس محلے میں رہتے تھے وہاں اسی فرقے کی اکثریت تھی، اور چونکہ تھے بھی بے یار و مددگار، سو اہلیانِ محلہ نے پکڑ لیا، منہ پر سیاہی ملی، جوتوں کا ہار پہنایا، گدھے پر سوار کیا اور شہر میں جلوس نکال دیا۔

مدیر نقوش، محمد طفیل نے یگانہ سے ان کے آخری دنوں میں ملاقات کی تھی، اس ملاقات کی روداد انہوں نے اپنی کتاب "جناب" میں یگانہ پر خاکہ لکھتے ہوئی لکھی ہے، مذکورہ واقعہ کا ذکر کچھ یوں آیا ہے۔

"بیٹھے بیٹھے ہنسنے لگے اور پھر مجھ سے پوچھا۔ "آپ نے میرا جلوس دیکھا تھا؟"
"کیسا جلوس؟"
"اجی وہی جس میں مجھے جوتوں کے ہار پہنائے گئے تھے، میرا منہ بھی کالا کیا گیا تھا اور گدھے پر سوار کر کے مجھے شہر بھر میں گھمایا گیا تھا۔"
"اللہ کا شکر ہے کہ میں نے وہ جلوس نہیں دیکھا۔"
"واہ صاحب وا، آپ نے تو ایسے اللہ کا شکر ادا کیا ہے جیسے کوئی گھٹیا بات ہو گئی ہو، سوچو تو سہی کہ آخر کروڑوں آدمیوں میں سے صرف مجھی کو اپنی شاعری کی وجہ سے اس اعزاز کا مستحق کیوں سمجھا گیا؟ جب کہ یہ درجہ غالب تک کو نصیب نہ ہوا، میر تک کو نصیب نہ ہوا۔"
میں چاہتا تھا کہ میرزا صاحب اس تکلیف دہ قصہ کو یہیں ختم کر دیں مگر وہ مزے لے لے کر بیان کر رہے تھے جیسے انہوں نے کوئی بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہو اور اسکے بدلے یہ گراں قدر انعام پایا ہو۔

یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد فوراً دو غزلہ کے مُوڈ میں آ گئے۔ "جی ہاں جناب، آپ کے لاہور میں بھی گرفتار ہوئے تھے۔"
"وہ قصہ کیا تھا۔"
"جناب قصہ یہ تھا کہ میرزا یگانہ چنگیزی یہاں سے کراچی کا پاسپورٹ لے کے چلے تھے اور لاہور پہنچ کر اپنے ایک دوست کے ساتھ پنجاب سے نکل کر سرحد پہنچ گئے تھے، واپسی پر گرفتار کر لیا گیا۔ (ایک دم جمع سے واحد کے صیغے پر آ گئے)۔ اکیس روز جیل میں بند رہا، ہتھکڑی لگا کر عدالت میں لایا گیا، پہلی پیشی پر مجسٹریٹ صاحب نے نام پوچھا۔ میں نے بڑھی ہوئی داڑھی پر ہاتھ پھیر کر بڑی شان سے بتایا۔ "یگانہ"۔
ساتھ کھڑے ہوئے ایک وکیل صاحب نے بڑی حیرت سے مجھ سے سوال کیا۔ "یگانہ چنگیزی؟"۔
"جی ہاں جناب۔"
یہ سنتے ہی مجسٹریٹ صاحب نے (غالباً آفتاب احمد نام بتایا تھا) میری رہائی کا حکم صادر فرما دیا۔
جب رہا ہو گیا تو جاتا کدھر؟ اور پریشان ہو گیا، مجسٹریٹ صاحب نے میری پریشانی کو پڑھ لیا، میں نے ان سے عرض کیا، میرے تمام روپے تو تھانے والوں نے جمع کر لیے تھے، اب مجھے دلوا دیجیئے۔ اس پر مجسٹریٹ صاحب نے کہا، درخواست لکھ دیجیئے۔ میرے پاس پھوٹی کوڑی نہ تھی، کاغذ کہاں سے لاتا اور کیسے درخواست لکھتا، اس پر بہ کمالِ شفقت مجسٹریٹ صاحب نے مجھے ایک آنہ دیا اور میں نے کاغذ خرید کر درخواست لکھی جس پر مجھے فوراً روپے مل گئے۔ آپ لاہور جائیں تو آفتاب احمد صاحب کے پاس جا کر میرا سلام ضرور عرض کریں۔
اور ہاں آپ بھی لاہور جا کر اب یہ کہیں گے کہ یگانہ سے ملے تھے، آپ یگانہ سے کہاں ملے ہیں؟ یگانہ کو گوشت پوست کے ڈھانچے میں دیکھنا غلط ہے، یگانہ کو اس کے شعروں میں دیکھنا ہوگا، یگانہ کو اس ٹوٹی ہوئی چارپائی پر دیکھنے کی بجائے اس مسند پر دیکھنا ہوگا جس پر وہ آج سے پچاس برس بعد بٹھایا جائے گا۔"
یگانہ کی مظلومیت یہیں ختم نہیں ہوتی، ان کو موت کے بعد بھی نہ بخشا گیا، ان کا جنازہ پڑھنا حرام قرار دے دیا گیا اور کہا جاتا ہے کہ فقط کچھ لوگ ہی انکے جنازے میں شامل تھے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔


شہرہ ہے یگانہ تری بیگانہ روی کا
واللہ یہ بیگانہ روی یاد رہے گی


تخلیقاتِ یگانہ
(بحوالہ چراغِ سخن، مجلسِ ترقیِ ادب، لاہور، 1996ء)

- نشترِ یاس (شعری مجموعہ)، لکھنؤ، 1914ء
- چراغِ سخن (رسالہ عروض و قوافی)، لکھنؤ، 1914ء
- شہرتِ کاذبہ المعروف بہ خرافاتِ عزیز (عزیز لکھنؤی کی شاعری پر اعتراضات)، لکھنؤ۔ 1923ء
- آیاتِ وجدانی مع محاضرات (شعری مجموعہ)، لاہور، 1927ء
- ترانہ (مجموعۂ رباعیات)، لاہور، 1934ء
- غالب شکن (مکتوبِ یگانہ بنام مسعود حسن رضوی ادیب)، حیدرآباد دکن، 1934ء
- گنجینہ (مجموعۂ غزلیات و رباعیات)، لاہور، 1948

urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Yas Yagana Changezi, یاس یگانہ چنگیزی


کلامِ یگانہ

(1)
کس کی آواز کان میں آئی
دُور کی بات دھیان میں آئی

ایسی آزاد رُوح اس تن میں
کیوں پرائے مکان میں آئی

آپ آتے رہے بلاتے رہے
آنے والی اک آن میں آئی

ہائے کیا کیا نگاہ بھٹکی ہے
جب کبھی امتحان میں آئی

علم کیا، علم کی حقیقت کیا
جیسی جس کے گمان میں آئی

یہ کنارہ چلا کہ ناؤ چلی
کہیے کیا بات دھیان میں آئی

حُسن کیا خواب سے ہوا بیدار
جان تازہ جہان میں آئی

جان لیوا ہے یہ کڑی تیوری
یہ کشش کس کمان سے آئی

بات ادھوری مگر اثر دونا
اچھی لکنت زبان میں آئی

آنکھ نیچی ہوئی، ارے یہ کیا؟
کیوں غرض درمیان میں آئی

میں پیمبر نہیں یگانہ سہی
اس سے کیا کسر شان میں آئی
------

(2)
لذّتِ زندگی مُبارک باد
کل کی کیا فکر؟ ہر چہ بادا باد

اے خوشا زندگی کہ پہلوئے شوق
دوست کے دم قدم سے ہے آباد

دل سلامت ہے، دردِ دل نہ سہی
درد جاتا رہا کہ درد کی یاد؟

زیست کے ہیں یہی مزے واللہ
چار دن شاد، چار دن ناشاد

کون دیتا ہے دادِ ناکامی
خونِ فرہاد برسرِ فرہاد

صبر اتنا نہ کر کہ دشمن پر
تلخ ہو جائے لذّتِ بیداد

صلح کر لو یگانہ غالب سے
وہ بھی استاد، تم بھی اک استاد

----

(3)
خودی کا نشہ چڑھا، آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا

پیامِ زیرِ لب ایسا کہ کچھ سنا نہ گیا
اشارہ پاتے ہی انگڑائی لی، رہا نہ گیا

ہنسی میں وعدۂ فردا کو ٹالنے والو
لو دیکھ لو وہی کل آج جن کے آ نہ گیا

گناہِ زندہ دلی کہیے یا دل آزاری
کسی پہ ہنس لئے اتنا کہ پھر ہنسا نہ گیا

سمجھتے کیا تھے مگر سنتے تھے ترانۂ درد
سمجھ میں آنے لگا جب تو پھر سنا نہ گیا

کروں تو کس سے کروں دردِ نا رسا کا گلہ
کہ مجھ کو لے کے دلِ دوست میں سما نہ گیا

بتوں کو دیکھ کے سب نے خدا کو پہچانا
خدا کے گھر تو کوئی بندۂ خدا نہ گیا

کرشن کا ہوں پجاری، علی کا بندہ ہوں
یگانہ شانِ خدا دیکھ کر رہا نہ گیا

urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Yas Yagana Changezi, یاس یگانہ چنگیزی
مرزا یاس یگانہ چنگیزی عظیم آبادی
Yas Yagana Changezi,
----

(4)
مجھے دل کی خطا پر یاس شرمانا نہیں آتا
پرایا جرم اپنے نام لکھوانا نہیں آتا

بُرا ہو پائے سرکش کا کہ تھک جانا نہیں آتا
کبھی گمراہ ہو کرراہ پر آنا نہیں آتا

مجھے اے ناخدا آخر کسی کو منہ دکھانا ہے
بہانہ کر کے تنہا پار اُتر جانا نہیں آتا

مصیبت کا پہاڑ آخر کسی دن کٹ ہی جائے گا
مجھے سر مار کر تیشے سے مر جانا نہیں آتا

اسیرو، شوقِ آزادی مجھے بھی گدگداتا ہے
مگر چادر سے باہر پاؤں پھیلانا نہیں آتا

دلِ بے حوصلہ ہے اک ذرا سی ٹھیس کا مہماں
وہ آنسو کیا پئے گا جس کو غم کھانا نہیں آتا

سراپا راز ہوں، میں کیا بتاؤں کون ہوں، کیا ہوں
سمجھتا ہوں مگر دنیا کو سمجھانا نہیں آتا

-----

(5)
حُسن پر فرعون کی پھبتی کہی
ہاتھ لانا یار کیوں کیسی کہی

دامنِ یوسف ہی بھڑکاتا رہا
عشق اور ترکِ ادب اچھی کہی

کوئی ضد تھی یا سمجھ کا پھیر تھا
من گئے وہ، میں نے جب اُلٹی کہی

درد سے پہلے کروں فکرِ دوا
واہ یہ اچھی الٹوانّسی کہی

دوست سے پردہ کیا یہ کیا کیا
آپ بیتی چھوڑ جگ بیتی کہی

شک ہے کافر کو مرے ایمان میں
جیسے میں نے کوئی منہ دیکھی کہی

کیا خبر تھی یہ خدائی اور ہے
ہائے میں نے کیوں خدا لگتی کہی

مفت میں سُن لی یگانہ کی غزل
ان سُنی کر دی جو مطلب کی کہی

----

(6)
کارگاہِ دنیا کی نیستی بھی ہستی ہے
اک طرف اُجڑتی ہے، ایک سمت بستی ہے

بے دلوں کی ہستی کیا، جیتے ہیں نہ مرتے ہیں
خواب ہے نہ بیداری، ہوش ہے نہ مستی ہے

کیمیائے دل کیا ہے، خاک ہے مگر کیسی؟
لیجیے تو مہنگی ہے، بیچیے تو سستی ہے

خضرِ منزل اپنا ہوں، اپنی راہ چلتا ہوں
میرے حال پر دنیا، کیا سمجھ کے ہنستی ہے

کیا کہوں سفر اپنا، ختم کیوں نہیں ہوتا
فکر کی بلندی یا حوصلہ کی پستی ہے

حُسنِ بے تماشہ کی، دھوم کیا معمّہ ہے
کان بھی ہیں نا محرم، آنکھ بھی ترستی ہے

چتونوں سے ملتا ہے، کچھ سراغ باطن کا
چال سے تو کافر پر، سادگی برستی ہے

ترکِ لذّتِ دنیا، کیجیے تو کس دل سے
ذوقِ پارسائی کیا فیضِ تنگ دستی ہے

دیدنی ہے یاس اپنے رنج و غم کی طغیانی
جھوم جھوم کر کیا کیا یہ گھٹا برستی ہے

-----

(7)
ہنوز زندگیٔ تلخ کا مزا نہ ملا
کمالِ صبر ملا صبر آزما نہ ملا

مری بہار و خزاں جس کے اختیار میں ہے
مزاج اس دلِ بے اختیار کا نہ ملا

جواب کیا، وہی آوازِ بازگشت آئی
قفس میں نالۂ جانکاہ کا مزا نہ ملا

امیدوارِ رہائی قفس بدوش چلے
جہاں اشارۂ توفیقِ غائبانہ ملا

ہوا کے دوش پہ جاتا ہے کاروانِ نفَس
عدم کی راہ میں کوئی پیادہ پا نہ ملا

ہزار ہا اسی جانب ہے منزلِ مقصود
دلیلِ راہ کا غم کیا، ملا ملا نہ ملا

امید و بیم نے مارا مجھے دوراہے پر
کہاں کے دیر و حرم گھر کا راستہ نہ ملا

خوشا نصیب جسے فیضِ عشقِ شور انگیز
بقدرِ ظرف ملا، ظرف سے سوا نہ ملا

سمجھ میں آ گیا جب عذرِ فطرتِ مجبور
گناہگارِ ازل کو نیا بہانہ ملا

------

(8)
رنگ لاتی ہے آخر ایک جُنبشِ لب کیا
دیکھئے دکھاتا ہے وعدۂ مذبذب کیا

چُلّو بھر میں متوالی، دو ہی گھونٹ میں خالی
یہ بھری جوانی کیا، جذبۂ لبالب کیا

ہاں دعائیں لیتا جا، گالیاں بھی دیتا جا
تازگی تو کچھ پہنچے، چابتا رہوں لب کیا

شامت آ گئی آخر کہہ گیا خدا لگتی
راستی کا پھل پاتا، بندۂ مقرّب کیا

اُلٹی سیدھی سنتا رہ، اپنی کہہ تو اُلٹی کہہ
سادہ ہے تو کیا جانے، بھانپنے کا ہے ڈھب کیا

سب جہاد ہیں دل کے، سب فساد ہیں دل کے
بے دِلوں کا مطلب کیا اور ترکِ مطلب کیا

ہو رہے گا سجدہ بھی جب کسی کی یاد آئی
یاد جانے کب آئے، زندہ داریٔ شب کیا

کارِ مرگ کے دن کا تھوڑی دیر کا جھگڑا
دیکھنا ہے یہ ناداں جینے کا ہے کرتب کیا

پڑ چکے بہت پالے، ڈس چکے بہت کالے
موذیوں کے موذی کو، فکرِ نیشِ عقرب کیا

میرزا یگانہ واہ، زندہ باد زندہ باد
اک بلائے بے درماں جب تو کیا تھے اور اب کیا

------

(9)
جب تک خلشِ دردِ خدا داد رہے گی
دنیا دلِ ناشاد کی آباد رہے گی

دنیا کی ہوا راس نہ آئے گی کسی کو
ہر سر میں ہوائے عدم آباد رہے گی

چونکائے گی رہ رہ کے تو غفلت کا مزہ کیا
ساتھ اپنے اجل صورتِ ہمزاد رہے گی

دل اور دھڑکتا ہے ادب گاہِ قفس میں
شاید یہ زباں تشنۂ فریاد رہے گی

جو خاک کا پُتلا، وہی صحرا کا بگولا
مٹنے پہ بھی اک ہستیِ برباد رہے گی

ہر شام ہوئی صبح کو اک خوابِ فراموش
دنیا یہی دنیا ہے تو کیا یاد رہے گی

شہرہ ہے یگانہ تری بیگانہ روی کا
واللہ یہ بیگانہ روی یاد رہے گی

-----
(10)
مزاج آپ کا دنیا سے کچھ کشیدہ سہی
فریب کھاؤ گے پھر بھی، فریب دیدہ سہی

یہ سبز باغ کا عالم، یہ رنگِ لیل و نہار
بہل ہی جائے گا دل، آپ سے رمیدہ سہی

یہ غنچہ کیسا کہ دیکھے سے دل دھڑکتا ہے
ارے یہ ایک ہی فتنہ ہے، نو دمیدہ سہی

نگاہِ شوق کی گرمی خدا کی قدرت ہے
مزے پہ آ ہی گیا حُسن، نارسیدہ سہی

کھٹکتی رہتی ہے دل میں نگاہِ دُزدیدہ
خطائے حُسن کہے کون، چشم دیدہ سہی

نگاہِ حُسن سے اب تک وفا ٹپکتی ہے
ستم رسیدہ سہی، پیرہن دریدہ سہی

فریبِ ابرِ کرم بھی بڑا سہارا ہے
بلا سے نخلِ تمنّا خزاں رسیدہ سہی

پتے کی کہیے تو ظالم کا رنگ اُڑتا ہے
زبانِ حال سے اک حرف ناشنیدہ سہی

قریب ہوں مگر اتنا کہ جیسے کوسوں دُور
مجھے نہ دیکھ سکو گے، زمانہ دیدہ سہی

مری نظر کی خطا ہوگی یا گُلوں کی خطا
تمھارے راج میں کانٹا ہی برگزیدہ سہی

یگانہ ٹھن گئی بیڈھب تو سوچتے کیا ہو
شریکِ کار نہیں تو نہیں جریدہ سہی

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 23, 2010

خدا کہوں گا تمھیں، ناخدا کہوں گا تمھیں ۔ جمیل الدین عالی کی ایک غزل

جمیل الدین عالی یوں تو اردو شاعری میں اپنے دوہوں کی وجہ سے جانے جاتے ہیں، اور انکے چند دوہے پہلے لکھ چکا ہوں لیکن انہوں نے خوبصورت غزلیں بھی کہی ہیں اور انہی میں ایک غزل جو مجھے بہت پسند ہے۔

خدا کہوں گا تمھیں، ناخدا کہوں گا تمھیں
پکارنا ہی پڑے گا تو کیا کہوں گا تمھیں

مری پسند مرے نام پر نہ حرف آئے
بہت حسین بہت با وفا کہوں گا تمھیں
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Jamil-ud-Din Aali, جمیل الدین عالی
Jamil-ud-Din Aali, جمیل الدین عالی
ہزار دوست ہیں، وجہِ ملال پوچھیں گے
سبب تو صرف تمھی ہو، میں کیا کہوں گا تمھیں

ابھی سے ذہن میں رکھنا نزاکتیں میری
کہ ہر نگاہِ کرم پر خفا کہوں گا تمھیں

ابھی سے اپنی بھی مجبوریوں کو سوچ رکھو
کہ تم ملو نہ ملو مدعا کہوں گا تمھیں

الجھ رہا ہے تو الجھے گروہِ تشبیہات
بس اور کچھ نہ کہوں گا ادا کہوں گا تمھیں

قسم شرافتِ فن کی کہ اب غزل میں کبھی
تمھارا نام نہ لوں گا صبا کہوں گا تمھیں

----

بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
(آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فعِلان بھی آ سکتے ہیں)
اشاری نظام - 2121 2211 2121 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 1 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)
پہلے شعر کی تقطیع -

خدا کہوں گا تمھیں، ناخدا کہوں گا تمھیں
پکارنا ہی پڑے گا تو کیا کہوں گا تمھیں

خُدا کہو - مفاعلن - 2121
گَ تُ مے نا - فعلاتن - 2211
خدا کہو - مفاعلن -2121
گَ تُ مے - فعلن - 211
پکارنا - مفاعلن - 2121
ہِ پَ ڑے گا - فعلاتن - 2211
تُ کا کہو - مفاعلن - 2121
گَ تُ مے - فعلن - 211


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 18, 2010

مجلسِ خدایانِ اقوامِ قدیم - جاوید نامہ از علامہ اقبال سے ایک اقتباس

زندہ رود (علامہ اقبال) کا افلاک کا سفر پیر رومی کی معیت میں جاری ہے اور انکے ساتھ ساتھ ہمارا بھی۔ اس سے پہلے کی دو پوسٹس میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ فلکِ قمر پر علامہ نبوت کی چار تعلیمات (طواسین) دیکھتے ہیں اور وہیں علامہ نے "طاسینِ محمد (ص)" کے تحت حرمِ کعبہ میں ابوجہل کی روح کا نوحہ لکھا ہے۔

فلکِ قمر سے رومی و علامہ، فلکِ عطارد پر پہنچتے ہیں اور وہاں سید جمال الدین افغانی اور سعید حلیم پاشا کی ارواح کی زیارت کرتے ہیں۔ کافی دلچسپ حصہ ہے اور علامہ ان دونوں مصلحان سے اسلامی اور عالمی امور پر گفتگو کرتے ہیں جیسے اشتراکیت و ملوکیت، محکماتِ عالمِ قرآنی، خلافتِ آدم، حکومت الٰہی وغیرہ۔ اسکے علاوہ روسی قوم کے نام جمال الدین افغانی کا ایک پیغام بھی اس حصے میں شامل ہے۔

فلکِ عطارد سے علامہ اور انکے راہبر پیرِ رومی، فلکِ زہرہ کی طرف پرواز کر جاتے ہیں، اور یہی حصہ ہماری اس پوسٹ کا موضوع ہے۔ فلکِ زہرہ کا تعارف کرواتے ہوئے، رومی علامہ سے فرماتے ہیں۔

اندروں بینی خدایانِ کہن
می شناسم من ہمہ را تن بہ تن

یہاں، زہرہ کے اندر، تُو قدیم خداؤں کو دیکھے گا اور میں ان سب کو ایک ایک کر کے پہچانتا ہوں۔

اور وہ خدا کون کون سے تھے

بعل و مردوخ و یعوق و نسر و فسر
رم خن و لات و منات و عسر و غسر

یہ سب بتوں کے نام ہیں جو قدیم عرب، بابل اور مصر کے معبود و خدا تھے

رومی، علامہ کی معلومات میں مزید اضافہ فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ

بر قیامِ خویش می آرد دلیل
از مزاجِ ایں زمانِ بے خلیل

یہ سارے مرے اور مٹے ہوئے معبود ایک بار پھر اپنے قیام یعنی زندہ ہونے پر موجودہ زمانے کے مزاج سے جو کہ بغیر خلیل (ع) کے ہے، دلیل لاتے ہیں یعنی یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں کوئی بُت شکن نہیں ہے سو ہم پھر سے زندہ ہو گئے ہیں۔

اس تمہید کے بعد رومی علامہ کو زہرہ کے اندر لے جاتے ہیں، اس موقع پر علامہ نے زہرہ کی فضا کی نقشہ کشی دلپذیر انداز میں کی ہے، اور وہاں وہ ایک مجلس دیکھتے ہیں، "مجلسِ خدایانِ اقوامِ قدیم" یعنی قدیم اقوام کے خداؤں کے مجلس۔ علامہ مجلس کی نقشہ کشی کرنے کے بعد اس مجلس کے اراکین کا تعارف کچھ یوں کرواتے ہیں۔

اندریں وادی خدایانِ کہن
آں خدائے مصر و ایں رب الیمن

اس وادی کے اندر پرانے خدا تھے، وہ اگر مصر والوں کا خدا تھا تو یہ یمن والوں کا رب۔

آں ز اربابِ عرب ایں از عراق
ایں الہ الوصل و آں رب الفراق

کوئی عرب والوں کے خداؤں میں سے تھا تو کوئی عراق والوں کے، کوئی وصال (صلح و امن) کا الہ تھا تو کوئی فراق (جنگ و جدل) کا خدا۔

ایں ز نسلِ مہر و دامادِ قمر
آں بہ زوجِ مشتری دارد نظر

کوئی سورج کی نسل میں سے تھا (سوریہ ونشی) تو کوئی چاند کا داماد تھا اور کسی نے مشتری سے شادی کرنے پر نظر رکھی ہوئی تھی یعنی مشتری کا چاہنے والا دیوتا تھا۔

آں یکے در دستِ اُو تیغِ دو رو
واں دگر پیچیدہ مارے در گلو

ایک کے ہاتھ میں دو منہ والی تلوار تھی تو دوسرے نے سانپ اپنے گلے میں لٹکائے ہوئے تھے۔

ہر یکے ترسندہ از ذکرِ جمیل
ہر یکے آزردہ از ضربِ خلیل

لیکن یہ سب کے سب ذکرِ جمیل یعنی ذکرِ حق سے ڈرے ہوئے تھے اور ضربِ خلیل (ع) ) سے آزردہ خاطر تھے کہ اس ضرب نے ان کو پاش پاش کر دیا تھا۔

اسی منظر کی نقشہ کشی جمی انجنیئر نے بھی کی ہے، جو کہ اقبال اکادمی کے شائع کردہ جاوید نامہ ڈیلکس ایڈیشن میں شامل ہے، وہ ملاحظہ کیجیئے، بڑی تصویر دیکھنے کیلیے اس پر کلک کیجیے۔

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال, Javiad Nama, جاوید نامہ, Maulana Rumi, مولانا رومی

اب اس تعارف کے بعد، اس مجلس کی کچھ روداد بھی سنیے۔

گفت مردوخ، آدم از یزداں گریخت
از کلیسا و حرم نالاں گریخت

مردوخ نے کہا، (آج کا آدمی) خدا سے دُور بھاگ گیا ہے، وہ کلیسا اور حرم یعنی مذہب سے نالہ و فریاد (یعنی اسکی برائیاں) کرتا ۔ہوا نکل آیا ہے

تا بیَفزایَد بہ درّاک و نظر
سوئے عہدِ رفتہ باز آید نگر

یہ آدمی (اس امید میں کہ) اپنے ادراک و عقل و سمجھ و نطر کو فزوں کرے یعنی بڑھائے، دیکھو گزرے ہوئے یعنی ہمارے عہد کی طرف دوبارہ واپس آ رہا ہے۔

می برد لذّت ز آثارِ کہن
از تجلی ہائے ما دارد سخن

وہ پرانے آثار سے لذت حاصل کر رہا ہے، اور ہماری تجلیوں کے بارے میں گفتگو کر رہا ہے۔

روزگار افسانۂ دیگر کشاد
می وزد زاں خاکداں بادِ مراد

اس زمانے نے ایک اور افسانے کا باب کھولا ہے، اور اس خاکدان سے ہمارے لیے بادِ مراد آ رہی ہے یعنی یہ زمانہ ہمارے لیے سازگار ہو رہا ہے۔

بعل از فرطِ طرب خوش می سرود
بر خدایاں راز ہائے ما کشود

بعل (مرودوخ کی یہ باتیں سن کر بہت خوش ہوا اور) فرطِ خوشی میں نغمہ گانے لگا اور ان خداؤں پر ہمارے یعنی موجودہ انسان کے راز کھولنے لگا۔

اب نغمۂ بعل بھی سن لیجیے

نغمۂ بعل
پہلا پند

آدم ایں نیلی تتق را بر درید
آں سوئے گردوں خدائے را ندید

انسان نے اس آسمان کو تو پھاڑ ڈالا ہے یعنی ستاروں تک پہنچ رہا ہے لیکن اُس نے آسمان کی دوسری طرف خدا کو نہیں دیکھا۔

در دلِ آدم بجز افکار چیست
ہمچو موج ایں سر کشید و آں رمید

انسان کے دل میں افکار کے سوا اور کچھ نہیں ہے، اور بھی سب عارضی کہ موج کی طرح سر اٹھاتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔

جانش از محسوس می گیرد قرار
بو کہ عہدِ رفتہ باز آید پدید

اُس کی جان صرف محسوسات یعنی حواسِ خمسہ ہی سے چین و قرار پاتی ہے اور اس وجہ سے پوری امید ہے کہ گزرا ہوا دور یعنی ہمارا عہد واپس آ جائے گا۔

زندہ باد افرنگیِ مشرق شناس
آں کہ ما را از لحد بیروں کشید

مشرق کے مزاج کو پہچانچے والا فرنگی زندہ رہے کہ اس نے ہمیں ہماری قبروں سے باہر کھینچ لیا ہے یعنی پھر سے زندہ کر دیا ہے۔

اے خدایانِ کہن وقت است وقت
اے پرانے خداؤ (یہی) وقت ہے وقت ہے (تمھارے عروج کا)۔

دوسرا بند

در نگر آں حلقۂ وحدت شکست
آلِ ابراہیم بے ذوقِ الست

دیکھو، وہ توحید کا حلقہ ٹوٹ گیا ہے، آلِ ابراہیم الست کے ذوق کے بغیر ہے، تلمیح ہے آیت الست بربکم (کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں) کی طرف۔

صحبتش پاشیدہ، جامش ریز ریز
آن کہ بود از بادۂ جبریل مست

اُس کی محفل پراگندہ اور اسکے جام ریزہ ریزہ ہیں، وہ کہ جو کبھی بادۂ جبریل سے مست تھا۔

مردِ حر افتاد در بندِ جہات
با وطن پیوست و از یزداں گسست

آزاد مرد جہات (حواسِ خمسہ) کی قید میں جکڑا ہوا ہے، وہ وطن سے جڑ گیا ہے اور خدا سے جدا ہو گیا ہے۔

خونِ اُو سرد از شِکوہِ دیریاں
لا جرم پیرِ حرم زنار بست

اُس کا خون دیر والوں (کافروں) کی شان و شوکت سے سرد ہو چکا ہے، جس کا نتیجہ ہے کہ پیرِ حرم نے زنار پہن لیا ہے۔

اے خدایانِ کہن وقت است وقت
اے پرانے خداؤ (یہی) وقت ہے وقت ہے (تمھارے عروج کا)۔

تیسرا بند

در جہاں باز آمد ایّامِ طرب
دیں ہزیمت خوردہ از ملک و نسب

دنیا میں ہماری خوشی کا دور پھر واپس آ گیا ہے، دین نے ملک و نسب سے شکست کھا لی ہے۔

از چراغِ مصطفیٰ اندیشہ چیست؟
زاں کہ او را پف زند صد بولہب

اب ہمیں چراغِ مصطفیٰ (یعنی اسلام سے) کیا ڈر اور خطرہ کہ اس چراغ کو بجھانے کیلیے سینکڑوں ابولہب پھونکیں مار رہے ہیں۔

گرچہ می آید صدائے لا الہٰ
آں چہ از دل رفت کے ماند بہ لب

اگرچہ ابھی تک لا الہٰ کی صدا آ رہی ہے لیکن جو دل سے چلا گیا ہے وہ لب پر بھی کب تک رہے گا۔

اہرمن را زندہ کرد افسونِ غرب
روزِ یزداں زرد رو از بیمِ شب

مغرب کے جادو نے اہرمن (شیطان) کو زندہ کر دیا ہے، اور خدا کا دن رات کے خوف سے زرد ہے۔

اے خدایانِ کہن وقت است وقت
اے پرانے خداؤ (یہی) وقت ہے وقت ہے (تمھارے عروج کا)۔

چوتھا بند

بندِ دیں از گردنش باید کشود
بندۂ ما بندۂ آزاد بود

اُس یعنی مسلمانوں کی گردن سے دین کا پھندا کھول دینا چاہیئے کیونکہ ہمارا بندہ تو آزاد بندہ تھا اور یہ مخلتف قیود و حدود میں جکڑے ہوئے ہیں۔

تا صلوٰۃ او را گراں آید ہمے
رکعتے خواہیم و آں ہم بے سجود

چونکہ اس کیلیے نماز ایک کارِ گراں اور بوجھ بن چکی ہے سو ہم چاہتے ہیں کہ اس کیلیے ایک ہی رکعت ہو اور وہ بھی بغیر سجدے کے۔

جذبہ ہا از نغمہ می گردد بلند
پس چہ لذت در نمازِ بے سرود

چونکہ نغمہ و موسیقی سے جذبات بلند ہوتے ہیں سو اس نماز میں کیا لذت ہوگی جس میں راگ رنگ نہ ہو (سو ہماری نماز میں راگ رنگ بھی شامل ہوگا)۔

از خداوندے کہ غیب او را سزد
خوشتر آں دیوے کہ آید در شہود

اُس خدا سے جو غیب میں رہنا پسند کرتا ہے، (انسانوں کیلیے) وہ دیوتا زیادہ بہتر ہے جو سامنے اور مشاہدے میں ہو۔

اے خدایانِ کہن وقت است وقت
سو اے پرانے خداؤ (یہی) وقت ہے وقت ہے (تمھارے عروج کا)۔

یہاں علامہ اور انکے راہبر پیر رومی اس مجلس کو چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں اور فلکِ زہرہ کے دریا میں اترتے ہیں اور وہاں حضرت موسیٰ والے فرعون اور فیلڈ مارشل ہربرٹ کچنر کی روحوں کو دیکھتے ہیں اور ان سے گفتگو کرتے ہین۔ لارڈ کچنر ایک مشہور اور متنازعہ انگریز جنرل تھا جس نے درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشہور مجاہد مہدی سوڈانی کی قبر کھود ڈالی اور لاش کو سزا دی۔

اس ملاقات میں اسی واقعے کے متعلق باتیں ہیں لیکن ہم یہاں اس خوبصورت مجلس سے جدا ہوتے ہیں اس وعدے کے ساتھ کہ اس محفل میں پھر حاضر ہونگے۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 15, 2010

خوشا وہ دل کہ ہو جس دل میں‌ آرزو تیری - آتش کی ایک غزل

خواجہ حیدر علی آتش کی ایک غزل

خوشا وہ دل کہ ہو جس دل میں‌ آرزو تیری
خوشا دماغ جسے تازہ رکھّے بُو تیری

پھرے ہیں مشرق و مغرب سے تا جنوب و شمال
تلاش کی ہے صنم ہم نے چار سُو تیری
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Khwaja Haider Ali Aatish, خواجہ حیدر علی آتش, classical urdu poetry, کلاسیکی اردو شاعری
خواجہ حیدر علی آتش
Khwaja Haider Ali Aatish
شبِ فراق میں اک دم نہیں قرار آیا
خدا گواہ ہے، شاہد ہے آرزو تیری

دماغ اپنا بھی اے گُلبدن معطّر ہے
صبا ہی کے نہیں حصّے میں آئی بُو تیری

مری طرف سے صبا کہیو میرے یوسف سے
نکل چلی ہے بہت پیرہن سے بو تیری

شبِ فراق میں، اے روزِ وصل، تا دمِ صبح
چراغ ہاتھ میں ہے اور جستجو تیری

جو ابر گریہ کناں ہے تو برق خندہ زناں
کسی میں خُو ہے ہماری، کسی میں خُو تیری

کسی طرف سے تو نکلے گا آخر اے شہِ حُسن
فقیر دیکھتے ہیں راہ کو بہ کو تیری

زمانے میں کوئی تجھ سا نہیں ہے سیف زباں
رہے گی معرکے میں آتش آبرو تیری

------

بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
(آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فعِلان بھی آ سکتے ہیں)
اشاری نظام - 2121 2211 2121 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 1 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)
پہلے شعر کی تقطیع -

خوشا وہ دل کہ ہو جس دل میں‌ آرزو تیری
خوشا دماغ جسے تازہ رکھّے بُو تیری

خُ شا وُ دل - مفاعلن - 2121
ک ہُ جس دل - فعلاتن - 2211
مِ آ ر زو - مفاعلن - 2121
تے ری - فعلن - 22
خُ شا د ما - مفاعلن - 2121
غ جِ سے تا - فعلاتن - 2211
زَ رک کِ بُو - مفاعلن - 2121
تے ری - فعلن - 22

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 9, 2010

شورشِ زنجیر بسم اللہ - فیض

فیض احمد فیض کی ایک نظم جو مجھے بہت پسند ہے۔

شورشِ زنجیر بسم اللہ

ہوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بسم اللہ
ہر اک جانب مچا کہرامِ دار و گیر بسم اللہ
گلی کوچوں میں بکھری شورشِ زنجیر بسم اللہ

درِ زنداں پہ بُلوائے گئے پھر سے جنوں والے
دریدہ دامنوں والے، پریشاں گیسوؤں والے
جہاں میں دردِ دل کی پھر ہوئی توقیر بسم اللہ
ہوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بسم اللہ
Faiz Ahmed Faiz, فیض احمد فیض, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
Faiz Ahmed Faiz, فیض احمد فیض

گِنو سب داغ دل کے، حسرتیں شوقیں نگاہوں کی
سرِ دربار پُرسش ہو رہی ہے پھر گناہوں کی
کرو یارو شمارِ نالۂ شبگیر بسم اللہ

ستم کی داستاں، کشتہ دلوں کا ماجرا کہیے
جو زیرِ لب نہ کہتے تھے وہ سب کچھ برملا کہیے
مُصر ہے محتسب رازِ شہیدانِ وفا کہیے
لگی ہے حرفِ نا گفتہ پر اب تعزیر بسم اللہ

سرِ مقتل چلو بے زحمتِ تقصیر بسم اللہ
ہوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بسم اللہ

لاہور جیل
جنوری 1959ء
------

بحر - بحر ہزج مثمن سالم
افاعیل - مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن
اشاری نظام - 2221 2221 2221 2221
(ہندسوں کو اردو طریقے سے پڑھیں یعنی دائیں سے بائیں یعنی 1 پہلے ہے)
تقطیع -
ہوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بسم اللہ
ہر اک جانب مچا کہرام دار و گیر بسم اللہ
گلی کوچوں میں بکھری شورشِ زنجیر بسم اللہ

ہُ ئی پر ام - مفاعیلن - 2221
تِ حا نے عش - مفاعیلن - 2221
ق کی تد بی - مفاعیلن - 2221
ر بس مِل لا - مفاعیلن - 2221
ہَ رِک جا نب - مفاعیلن - 2221 (الف کا وصال نوٹ کریں)۔
مچا کہرا - مفاعیلن - 2221
مِ دا رو گی - مفاعیلن - 2221
ر بس مِل لا - مفاعیلن - 2221
گلی کو چو - مفاعیلن - 2221
مِ بکری شو - مفاعیلن - 2221
ر شے زن جی - مفاعیلن - 2221
ر بس مِل لا - مفاعیلن - 2221

لفظ 'اللہ' کے وزن کے بارے میں ایک وضاحت یہ کہ اسکا صحیح وزن تو ال لا ہ یعنی مفعول یا 2 2 1 ہے اور کچھ ماہرینِ عروض اس لفظ کی آخری 'ہ' کو گرانا جائز نہیں سمجھتے لیکن شعرا عموماً اسکی پروا نہیں کرتے اور بلا تکلف اس کو 'ال لا' یعنی فعلن 2 2 باندھتے ہیں۔ لیکن اس نظم میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے گو میں نے تقطیع میں ہ کو حذف کر دیا ہے لیکن اگر ہ کو نہ بھی گرایا جائے تو آخری رکن مفاعیلن کی جگہ مفاعیلان بنے گا جو کے اسے بحر میں جائز ہے۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 6, 2010

شیخ فخر الدین عراقی کی ایک غزل - دلے یا دلبرے، یا جاں و یا جاناں، نمی دانم

شیخ فخر الدین عراقی نامور صوفی شاعر تھے، انکے کچھ حالات اور ایک غزل پہلے لکھ چکا ہوں، انکی ایک اور خوبصورت غزل لکھ رہا ہوں۔

دلے یا دلبرے، یا جاں و یا جاناں، نمی دانم
ہمہ ہستی تو ای فی الجملہ ایں و آں نمی دانم

تُو دل ہے یا دلبر، تُو جان ہے یا جاناں، میں نہیں جانتا۔ ہر ہستی و ہر چیز تو تُو ہی ہے، میں یہ اور وہ کچھ نہیں جانتا۔

بجز تو در ہمہ عالم دگر دلبر نمی دانم
بجز تو در ہمہ گیتی دگر جاناں نمی دانم

سارے جہان میں تیرے علاوہ میں اور کسی دلبر کو نہیں جانتا، ساری دنیا میں تیرے علاوہ میں اور کسی جاناں کو نہیں پہچانتا۔

بجز غوغائے عشقِ تو، درونِ دل نمی یابم
بجز سودائے وصلِ تو، میانِ جاں نمی دانم

تیرے عشق کے جوش و خروش کے علاوہ میں اپنے دل میں کچھ اور نہیں پاتا، تیرے وصل کے جنون کے علاوہ میں اپنی جان میں کچھ اور نہیں دیکھتا۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Fakhruddin Iraqi, شیخ فخرالدین عراقی ایک خاکہ
شیخ فخرالدین عراقی ایک خاکہ
Fakhruddin Iraqi
مرا با توست پیمانے، تو با من کردہ ای عہدے
شکستی عہد، یا ہستی بر آں پیماں؟ نمی دانم
میرے ساتھ تیرے پیمان ہیں اور تو نے میرے ساتھ عہد کیے، تُو نے اپنے عہد توڑ دیے یا ابھی تک انہی پر ہے، میں کچھ نہیں جانتا، یعنی مجھے اس سے غرض نہیں ہے، عشق میں عہد و پیمان کچھ معنی نہیں رکھتے۔

بہ اُمّیدِ وصالِ تو دلم را شاد می دارم
چرا دردِ دلِ خود را دگر درماں نمی دانم؟

تیرے وصال کی امید سے اپنے دل کو شاد رکھتا ہوں، میں اسی لیے اپنے دل کے درد کیلیے کوئی اور درمان نہیں ڈھونڈتا، یعنی صرف اور صرف تیرے وصل کی امید ہی دردِ دل کا پہلا اور آخری علاج ہے۔

نمی یابم تو را در دل، نہ در عالم، نہ در گیتی
کجا جویم تو را آخر منِ حیراں؟ نمی دانم

مجھ (ہجر کے مارے) کو نہ تُو دل میں ملتا ہے اور نہ جہان و کائنات میں، میں حیران (و پریشان) نہیں جانتا کہ آخر تجھ کو کہاں ڈھونڈوں؟ شاعر کا حیران ہونا ہی اس شعر کا وصف ہے کہ یہیں سے سارے راستے کھلیں گے۔

عجب تر آں کہ می بینم جمالِ تو عیاں، لیکن
نمی دانم چہ می بینم منِ ناداں؟ نمی دانم

یہ بھی عجیب ہے کہ تیرا جمال ہر سُو اور ہر طرف عیاں دیکھتا ہوں، اور میں نادان یہ بھی نہیں جانتا کہ کیا دیکھ رہا ہوں۔

ھمی دانم کہ روز و شب جہاں روشن بہ روئے توست
و لیکن آفتابے یا مہِ تاباں؟ نمی دانم

یہ جانتا ہوں کہ جہان کے روز و شب تیرے ہی جمال سے روشن ہیں لیکن یہ نہیں جانتا کہ تو سورج ہے یا تابناک چاند۔ یہ شعر اور اس سے قبل کے دو اشعار قطعہ محسوس ہوتے ہیں۔

بہ زندانِ فراقت در عراقی پائے بندم شد
رہا خواہم شدن یا نے؟ ازیں زنداں، نمی دانم

عراقی کے پاؤں ہجر کے قید خانے میں بندھے ہوئے ہیں، اور اس قید سے رہا ہونا بھی چاہتا ہوں یا نہیں، نہیں جانتا۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 5, 2010

چند تازہ رباعیاں، بلاگ کے حوالے سے

صریرِ خامۂ وارث کو اس "نقار خانے" میں دو سال ہو گئے، اسی حوالے سے کچھ رباعیاں کل شام سے ذہن میں گردش کر رہی تھیں سو "جیسی ہیں جہاں ہیں" کی بنیاد پر لکھ رہا ہوں۔ ان رباعیوں میں اگر آپ کو دل برداشتہ اور قلم برداشتہ نظر آؤں تو مجھے انسان سمجھ کر معاف فرما دیں کہ "پتھّر نہیں ہوں میں"، اور کیا لکھوں کہ باقی سب کچھ تو رباعیوں میں لکھ دیا ہے، لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ بلاگ سے یاری جاری ہے۔

اک رسم تھی، سو ہے اب تلک وہ جاری
محنت جو لگی خوب تو چوٹیں کاری
جانے کیا سوچ کے بنایا تھا بلاگ
خود ہی میں لکھاری ہوں خود ہی قاری

سوچا ہے سیاست پہ لکھوں گا میں بھی
یعنی کہ غلاظت پہ لکھوں گا میں بھی
اپنی تو نظر آتی نہیں کوئی برائی
اوروں کی نجاست پہ لکھوں گا میں بھی

قاری بڑھ جائیں گے، لکھوں مذہب پر
الفاظ و افکار کے ماروں پتھّر
عالِم ہوں، فاضِل ہوں, پڑھا ہے کلمہ
بس میں ہوں مسلماں باقی سب کافر

یہ بھی ہے بلاگ پہ لکھوں میں گالی
پھر دیکھنا کیسے بجتی ہے تالی
جو عقلِ سلیم آئے سمجھانے کو
تو کہہ دوں، چل بھاگ، حرامی، سالی

محبوب کے انکار میں اقرار کو دیکھ
اپنوں پہ نظر رکھ، نہ تُو اغیار کو دیکھ
کیوں ہوتا ہے گرفتہ دل میرے اسد
چھوڑ اسکی برائیاں فقط "یار" کو دیکھ

والسلام


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 3, 2010

صادقین کی کچھ رباعیات

عالمی شہرفت یافتہ سید صادقین احمد نقوی مرحوم، دنیائے خطّاطی و نقّاشی و مصوّری میں ایک زندہ و جاوید نام ہیں۔ اس درویش صفت انسان کی ہمہ جہتی شخصیت کا ایک پہلو ان کی اردو رباعیات ہیں، رباعی سے شاید انہیں اتنا ہی عشق تھا جتنا اپنی خطاطی اور مصوری سے۔ رباعیات پر مشتمل ان کی دو کتب، "رباعیاتِ صادقین خطّاط" اور "رباعیاتِ صادقین نقّاش" چھپ چکی ہیں۔

اپنے بلاگ کے قارئین کیلیے صادقین کی کچھ رباعیات لکھ رہا ہوں، یہ رباعیات "صادقین فاؤنڈیشن" ویب سائٹ اور اردو محفل سے حاصل کی ہیں۔ صادقین کی سوانح عمری اور انکی فن و شخصیت کے بارے میں کچھ خوبصورت اردو مضامین اس ویب سائٹ پر پڑھے جا سکتے ہیں

(1)
ہم، حُسن پرستی کے قرینوں کے لیے
ہوجاتے ہیں معتکف مہینوں کے لیے
تصویر بناتے ہیں خود اپنی خاطر
اور شاعری کرتے ہیں حسینوں کے لیے

(2)
کرتا ہے یہ شور و شین، آیا کیوں ہے؟
کیا اس کو نہیں ہے چین، آیا کیوں ہے؟
خیّام نے سرمد سے یہ پوچھا، آخر
اِس کُوچے میں صادقین آیا کیوں ہے؟

(3)
ہو شغلِ مے و جام میں، آوارہ ہو
لگ جاؤ کسی کام میں، آوارہ ہو
اے سیّدِ صادقین احمد نقوی
کیوں کوچۂ خیّام میں آوارہ ہو

(4)
جاناں کے جمال کا جو کچھ ہو ادراک
ہوجاتی ہے اظہار کی صورت بیباک
لیلائے خیالات کا تن ڈھانپنے کو
ہیں طغرہ و تصویر و رباعی پوشاک

(5)
میں خانۂ زردار سجاؤں کیسے؟
افسانہ، حقیقت کو بتاؤں کیسے؟
موجود ہیں زندہ خار، آخر تصویر
اِن کاغذی پھولوں کی بناؤں کیسے؟

(6)
ہم اپنے ہی دل کا خوں بہانے والے
اک نقشِ محبّت ہیں بنانے والے
عشرت گہِ زردار میں کھینچیں تصویر؟
ہم کوچۂ جاناں کو سجانے والے

(7)
خون اپنا بہانے کو ہے حاضر فنکار
اِس بات پہ لیکن وہ نہیں ہے تیّار
جاسوس جہاں کھیل رہے ہوں پتّے
ہو ایسی کمیں گاہ میں اُس کا شہکار

urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Sadequain, صادقین, Rubai, رباعی
Sadequain, صادقین
(8)
کر کے کوئی تدبیر نہیں کھینچنے کا
نقش ایسا یہ دلگیر نہیں کھینچنے کا
رانی کی بناؤں گا کہ مہ وش وہ ہے
راجہ کی میں تصویر نہیں کھینچنے کا

(9)
ہر نقش میں تھا جلوۂ ایماں ساقی
آ کر ہوئے مایوس و پریشاں ساقی
کل میری نمائش میں بڑے مولوی آئے
یہ سُن کے کہ تصویریں ہیں عریاں ساقی

(10)
حرفِ غیرت مٹا گیا ہے پانی
نقشِ وحشت بنا گیا ہے پانی
سُن کر مری تصویروں کے دو اک عنوان
ملّاؤں کے منہ میں آ گیا ہے پانی

(11)
میں نے، تھی جگہ خالی، تو لکھّیں آیات
دیکھیں لٹیں جب کالی تو لکھّیں آیات
آیات کو دیکھا تو بنائے مکھڑے
مکھڑوں پہ نظر ڈالی تو لکھّیں آیات

(12)
دیکھا قد و گیسو میں کمالِ محبوب
اُف کتنے حسیں ہیں خد و خالِ محبوب
یہ طغرہ و تصویر نہیں لوحوں پر
ہے سایۂ سایۂ جمالِ محبوب

(13)
یہ دیکھ کے، رکھتا ہے خیالاتِ جدید
اس کو زر و دینار سے نفرت ہے شدید
پھر رُوح القدس کے ہاتھ بھیجی تھی مجھے
ابجد کے خزانے کی مشّیت نے کلید

(14)
منہ میں لیے اک چاندی کا چمچہ ساقی
دشمن ہوا اک قصر میں پیدا ساقی
اور چٹکی میں ابجد کے خزانے کی کلید
میں لے کے ہوں آفاق میں آیا ساقی


urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Sadequain, صادقین, Rubai, رباعی
سید صادقین احمد نقوی
Sadequain
(15)
مہ پاروں کے گھیرے میں بھی لکھ سکتا ہوں
شام اور سویرے میں بھی لکھ سکتا ہوں
مکھڑوں کے تصوّر کے جلا کے میں چراغ
زلفوں کے اندھیرے میں بھی لکھ سکتا ہوں

(16)
لو وادیٔ الہام میں آ پہنچا ہے
لو، مملکتِ جام میں آ پہنچا ہے
مانی بھی اُسی شوخ کا جلوہ کرنے
اب کوچۂ خیّام میں آ پہنچا ہے

(17)
ہیں گیسو و ابرو کے یہی خم اے یار
خامے میں ہے موقلم کا عالَم اے یار
عرفی کم و بیش تھا مصوّر جتنا
اتنا ہی میں شاعر ہوں کم از کم اے یار

(18)
دو دن کو ہوں اس شہر میں اشعار کے میں
جو کچھ ہے چلا جاؤں گا سب ہار کے میں
کرتا ہوں نگارِ شعر، تیری خاطر
معشوقۂ تصویر کا حق مار کے میں

(19)
عاشق کیلیے رنج و الم رکھے ہیں
شاہوں کیلیے تاج و علم رکھے ہیں
میرے لیے کیا چیز ہے؟ میں نے پوچھا
آئی یہ صدا لوح و قلم رکھے ہیں

(20)
اس صنف پہ عاشق تھا گواہی دو نجوم
تختی پہ لکھا کرتا تھا جب تھا معصوم
طفلی میں رباعیاں کئی تھیں مجھے یاد
کیا لفظ غزل ہے یہ نہیں تھا معلوم

(21)
روٹھا جو جمال ہے منایا میں نے
اک جشنِ وصال ہے منایا میں نے
اس عمرِ عزیز کا رباعی کہہ کر
چالیسواں سال ہے منایا میں نے

(22)
تخلیق میں معتکف یہ ہونا میرا
اب تک شبِ ہستی میں نہ سونا میرا
خطّاطی ادھر ہے تو ادھر نقّاشی
وہ اوڑھنا میرا یہ بچھونا میرا


urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Sadequain, صادقین, Rubai, رباعی
Sadequain, صادقین
(23)
مکھڑے کی تو تنویر سے باتیں کی تھیں
اور زلف کی زنجیر سے باتیں کی تھیں
کل اک تری تصویر بنا کر میں نے
پھر کچھ تری تصویر سے باتیں کی تھیں

(24)
ایک بار میں ساحری بھی کرکے دیکھوں
کیا فرق ہے شاعری بھی کرکے دیکھوں
تصویروں میں اشعار کہے ہیں میں نے
شعروں میں مصوّری بھی کرکے دیکھوں

(25)
کیں لغزشیں شاعری میں واپس آیا
پھر کوچۂ بت گری میں واپس آیا
تصویروں نے سینے سے لگایا مجھ کو
جب شہرِ مصوّری میں واپس آیا

(26)
وعدہ جو کیا نورِ سحر سے میں نے
مقتل میں وفا کیا وہ سر سے میں نے
جلّاد کا کرنے کے لیے استقبال
چھڑکاؤ کیا خونِ جگر سے میں نے

(27)
یہ تو نہیں قدرت کا اشارہ نہ ہوا
میں پھر چلا سوئے کفر، یارا نہ ہوا
اسلام سے بندے کا مشرّف ہونا
اسلام کے مفتی کو گوارا نہ ہوا

(28)
سختی سے چٹانوں کی نہ ہمّت ہارا
پھر موم سے بھی نرم تھا سنگِ خارا
پھوٹا وہیں فوّارۂ آبِ شیریں
کل سنگ پہ پھاوڑہ جو میں نے مارا

(29)
دنیا کو اٹھا تھا میں دکھانے کیا کیا
دنیا ہی سے بیٹھا ہوں چھپانے کیا کیا
قالین کے اوپر ہیں صحیفے لیکن
قالین کے نیچے ہے نہ جانے کیا کیا

(30)
دل کی مرے دنیا کہ بڑی ہے کالی
باتوں میں مری چھائی ہوئی ہریالی
جس شخص کو دیتا ہوں میں دل میں گالی
کہتا ہوں زبان سے، جنابِ عالی

مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 23, 2010

میرا جی کی کچھ غزلیات

میرا جی کا شمار، ن م راشد کے ساتھ ساتھ، جدید نظم کے آئمہ کبار میں ہوتا ہے، لیکن ہم جیسے قتیلانِ غزل، ان نظم کے شاعروں کے کلام سے بھی اپنے مطلب کی چیز یعنی غزل ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔ ن م راشد نے اپنے ابتدائی زمانے کی غزلیات سے اعلانِ لاتعلقی کر دیا تھا، لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے وہ غزلیں رہیں گی تو ان کی ہی جیسے ایک باپ اگر اپنے بیٹے کو عاق بھی کر دے تو وہ بیٹا تو اسی کا ہی رہے گا۔ لیکن خوش قسمتی سے میرا جی نے ایسا کوئی اعلان نہیں کیا تھا ان کی غزلیات ان کے کلام میں ملتی ہیں۔

سعد اللہ شاہ صاحب نے، "انتخابِ میرا جی" کے نام سے ان کا کچھ کلام مرتب کیا تھا جس میں نظمیں، گیت اور کچھ غزلیں شامل ہیں انہیں میں سے میرا جی کی غزلیات لکھ رہا ہوں، کچھ غزلیں نقوش کے "غزل نمبر" سے لی ہیں۔ ویب پر بھی میرا جی کی کچھ غزلیں ملتی ہیں لیکن وہ یا تو نامکمل ہیں یا اغلاط سے بھری ہوئی، جو جو غزل مکمل کر سکتا تھا وہ میں نے کر دی ہے۔

(1)
ہنسو تو ساتھ ہنسے گی دنیا، بیٹھ اکیلے رونا ہوگا
چپکے چپکے بہا کر آنسو، دل کے دکھ کو دھونا ہوگا

بیرن ریت بڑی دنیا کی، آنکھ سے ٹپکا جو بھی موتی
پلکوں ہی سے اٹھانا ہوگا، پلکوں ہی سے پرونا ہوگا

پیاروں سے مل جائیں پیارے، انہونی کب ہونی ہوگی
کانٹے پھول بنیں گے کیسے، کب سکھ سیج بچھونا ہوگا

بہتے بہتے کام نہ آئے لاکھوں بھنور طوفانی ساگر
اب منجدھار میں اپنے ہاتھوں جیون ناؤ ڈبونا ہوگا

میرا جی کیوں سوچ ستائے، پلک پلک ڈوری لہرائے
قسمت جو بھی رنگ دکھائے، اپنے دل میں سمونا ہوگا
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Meera Ji, میرا جی
Meera Ji, میرا جی
----
(2)
نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستا بُھول گیا
کیا ہے تیرا کیا ہے میرا اپنا پرایا بھول گیا

کیا بُھولا، کیسے بُھولا، کیوں پوچھتے ہو؟ بس یوں سمجھو
کارن دوش نہیں ہے کوئی، بھولا بھالا بھول گیا

کیسے دن تھے، کیسی راتیں، کیسی باتیں گھاتیں تھیں
من بالک ہے، پہلے پیار کا سُندر سپنا بھول گیا

اندھیارے سے ایک کرن نے جھانک کے دیکھا، شرمائی
دھندلی چھب تو یاد رہی کیسا تھا چہرہ، بھول گیا

یاد کے پھیر میں آ کر دل پر ایسی کاری چوٹ لگی
دکھ میں سکھ ہے، سکھ میں دکھ ہے، بھید یہ نیارا بھول گیا

ایک نظر کی، ایک ہی پل کی بات ہے ڈوری سانسوں کی
ایک نظر کا نور مِٹا جب اک پل بیتا بھول گیا

سوجھ بوجھ کی بات نہیں ہے، من موجی ہے مستانہ
لہر لہر سے جا سر ٹپکا، ساگر گہرا بھول گیا

ہنسی ہنسی میں، کھیل کھیل میں، بات کی بات میں رنگ مٹا
دل بھی ہوتے ہوتے آخر گھاؤ کا رِسنا بھول گیا

اپنی بیتی جگ بیتی ہے جب سے دل نے جان لیا
ہنستے ہنستے جیون بیتا رونا دھونا بھول گیا

جس کو دیکھو اُس کے دل میں شکوہ ہے تو اتنا ہے
ہمیں تو سب کچھ یاد رہا، پر ہم کو زمانہ بھول گیا

کوئی کہے یہ کس نے کہا تھا، کہہ دو جو کچھ جی میں ہے
میرا جی کہہ کر پچھتایا اور پھر کہنا بھول گیا

----

(3)
لذّتِ شام، شبِ ہجر خدا داد نہیں
اِس سے بڑھ کر ہمیں رازِ غمِ دل یاد نہیں

کیفیت خانہ بدوشانِ چمن کی مت پُوچھ
یہ وہ گُلہائے شگفتہ ہیں جو برباد نہیں

یک ہمہ حُسنِ طلب، یک ہمہ جانِ نغمہ
تم جو بیداد نہیں ہم بھی تو فریاد نہیں

زندگی سیلِ تن آساں کی فراوانی ہے
زندگی نقش گرِ خاطرِ ناشاد نہیں

اُن کی ہر اِک نگہ آموختۂ عکسِ نشاط
ہر قدم گرچہ مجھے سیلیِ استاد نہیں

دیکھتے دیکھتے ہر چیز مٹی جاتی ہے
جنّتِ حُسنِ نفَس و جنّتِ شدّاد نہیں

ہر جگہ حُسنِ فزوں اپنی مہک دیتا ہے
باعثِ زینتِ گُل تو قدِ شمشاد نہیں

خانہ سازانِ عناصر سے یہ کوئی کہہ دے
پُرسکوں آبِ رواں، نوحہ کناں باد نہیں

--------

(4)
خاکِ جامِ مے ہے گردِ کارواں
اب نہیں اندیشۂ سود و زیاں

اب نَفَس کا زیر و بم کیا ہے؟ فقط
حاصلِ امّید مرگِ ناگہاں

عشرتِ حُسنِ نظر ہے بازگشت
اور تفکّر اک فریبِ رائیگاں

اب نجاتِ دائمی ہےایک لفظ
اور وہ اک لفظ بھی رازِ عیاں

ایک پردہ روز و شب شام و سحر
راز جُو اور جستجو کے درمیاں

اک تخیّل کے سوا کچھ بھی نہیں
رشتۂ دورِ زماں، دورِ مکاں

حاصلِ عمر دو روزہ ہے بہت
گر کبھی منزل کرے عمرِ رواں

کیوں نہ یہ تارِ رگِ جاں توڑیے
دیکھیے پھر کیوں نہ عیشِ جاوداں

سوچتے ہی سوچتے آیا خیال
کچھ نہیں ہستی سوائے جسم و جاں

وقت کی پرواز کے ہمدوش ہی
بہتا جائے گا یہ دریائے رواں

تم بھی یہ کہتے ہو بڑھتے چلو
الاماں، منزل کہاں، منزل کہاں؟

-----

urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Meera Ji, میرا جی
Meera Ji, میرا جی
(5)
غم کے بھروسے کیا کچھ چھوڑا، کیا اب تم سے بیان کریں
غم بھی راس نہ آیا دل کو، اور ہی کچھ سامان کریں

کرنے اور کہنے کی باتیں، کس نے کہیں اور کس نے کیں
کرتے کہتے دیکھیں کسی کو، ہم بھی کوئی پیمان کریں

بھلی بُری جیسی بھی گزری، اُن کے سہارے گزری ہے
حضرتِ دل جب ہاتھ بڑھائیں، ہر مشکل آسان کریں

ایک ٹھکانا آگے آگے، پیچھے پیچھے مسافر ہے
چلتے چلتے سانس جو ٹوٹے، منزل کا اعلان کریں

مجبوروں کی مختاروں سے دُوری اچھی ہوتی ہے
مل بیٹھیں تو مبادا دونوں باہم کچھ احسان کریں

دستِ مزد میں خشتِ رنگیں اس کا اشارہ کرتی ہے
ایک ہی نعرہ کافی ہے، بربادیِ ہر ایوان کریں

میر ملے تھے میرا جی سے، باتوں سے ہم جان گئے
فیض کا چشمہ جاری ہے، حفظ ان کا بھی دیوان کریں

---

(6)
نہیں سنتا دلِ ناشاد میری
ہوئی ہے زندگی برباد میری

رہائی کی اُمیدیں مجھ کو معلوم
تسّلی کر نہ اے صیّاد میری

نہیں ہے بزم میں ان کی رسائی
یہ کیا فریاد ہے فریاد میری

میں تم سے عرض کرتا ہوں بہ صد شوق
سنو گر سن سکو روداد میری

مجھے ہر لمحہ آئے یاد تیری
کبھی آئی تجھے بھی یاد میری

------

(7)
دل محوِ جمال ہو گیا ہے
یا صرفِ خیال ہو گیا ہے

اب اپنا یہ حال ہو گیا ہے
جینا بھی محال ہو گیا ہے

ہر لمحہ ہے آہ آہ لب پر
ہر سانس وبال ہو گیا ہے

وہ درد جو لمحہ بھر رکا تھا
مُژدہ کہ بحال ہو گیا ہے

چاہت میں ہمارا جینا مرنا
آپ اپنی مثال ہو گیا ہے

پہلے بھی مصیبتیں کچھ آئیں
پر اب کے کمال ہو گیا ہے

--------

(8)
زندگی ایک اذیّت ہے مجھے
تجھ سے ملنے کی ضرورت ہے مجھے

دل میں ہر لحظہ ہے صرف ایک خیال
تجھ سے کس درجہ محبت ہے مجھے

تری صورت، تری زلفیں، ملبوس
بس انہی چیزوں سے رغبت ہے مجھے

مجھ پہ اب فاش ہوا رازِ حیات
زیست اب سے تری چاہت ہے مجھے

تیز ہے وقت کی رفتار بہت
اور بہت تھوڑی سی فرصت ہے مجھے

سانس جو بیت گیا، بیت گیا
بس اسی بات کی کلفت ہے مجھے

آہ میری ہے، تبسّم تیرا
اِس لیے درد بھی راحت ہے مجھے

اب نہیں دل میں مرے شوقِ وصال
اب ہر اک شے سے فراغت ہے مجھے

اب نہ وہ جوشِ تمنّا باقی
اب نہ وہ عشق کی وحشت ہے مجھے

اب یونہی عمر گذر جائے گی
اب یہی بات غنیمت ہے مجھے

---

(9)
چاند ستارے قید ہیں سارے وقت کے بندی خانے میں
لیکن میں آزاد ہوں ساقی چھوٹے سے پیمانے میں

عمر ہے فانی، عمر ہے باقی، اس کی کچھ پروا ہی نہیں
تو یہ کہہ دے وقت لگے گا کتنا آنے جانے میں

تجھ سے دُوری، دُوری کب تھی، پاس اور دُور تو دھوکا ھیں
فرق نہیں انمول رتن کو کھو کر پھر سے پانے میں

دو پل کی تھی اندھی جوانی، نادانی کی، بھر پایا
عمر بھلا کیوں بیتے ساری رو رو کر پچھتانے میں

پہلے تیرا دیوانہ تھا اب ہے اپنا دیوانہ
پاگل پن ہے ویسا ہی، کچھ فرق نہیں دیوانے میں

خوشیاں آئیں؟ اچھا، آئیں مجھ کو کیا احساس نہیں
سُدھ بُدھ ساری بھول گیا ہوں دکھ کے گیت سنانے میں

اپنی بیتی کیسے سنائیں، بدمستی کی باتیں ہیں
میرا جی کا جیون بیتا، پاس کے اک مے خانے میں

----

(10)
ڈھب دیکھے تو ہم نے جانا دل میں دھن بھی سمائی ہے
میرا جی دانا تو نہیں ہے، عاشق ہے، سودائی ہے

صبح سویرے کون سی صورت پھلواری میں آئی ہے
ڈالی ڈالی جھوم اٹھی ہے، کلی کلی لہرائی ہے

جانی پہچانی صورت کو اب تو آنکھیں ترسیں گی
نئے شہر میں جیون دیوی نیا روپ بھر لائی ہے

ایک کھلونا ٹوٹ گیا تو اور کئی مل جائیں گے
بالک، یہ انہونی تجھ کو کس بیری نے سُجھائی ہے

دھیان کی دھن ھے امر گیت، پہچان لیا تو بولے گا
جس نے راہ سے بھٹکایا تھا، وہی راہ پر لائی ہے

بیٹھے ہیں پھلواری میں، دیکھیں کب کلیاں کِھلتی ہیں
بھنور بھاؤ تو نہیں ہے، کس نے اتنی راہ دکھائی ہے؟

جب دل گھبرا جاتا ھے تو آپ ہی آپ بہلتا ہے
پریم کی ریت اسے جانو پر ہونی کی چترائی ہے

اُمّیدیں، ارمان سبھی جل دے جائیں گے، جانتے تھے
جان جان کے دھوکے کھائے، جان کے بات بڑھائی ہے

اپنا رنگ بھلا لگتا ہے، کلیاں چٹکیں، پھول بنیں
پھول پھول یہ جھوم کے بولا، کلیو، تم کو بدھائی ہے

آبشار کے رنگ تو دیکھے، لگن منڈل کیوں یاد نہیں
کِس کا بیاہ رچا ہے؟ دیکھو، ڈھولک ہے شہنائی ہے

ایسے ڈولے من کا بجرا جیسے نین بیچ ہو کجرا
دل کے اندر دھوم مچی ہے، جگ میں اداسی چھائی ہے

لہروں سے لہریں ملتی ہیں، ساگر اُمڈ آتا ہے
منجدھار میں بسنے والے نے ساحل پر جوت جگائی ہے

آخری بات سنائے کوئی، آخری بات سنیں کیوں ہم نے
اس دنیا میں سب سے پہلے آخری بات سنائی ہے

---

urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Meera Ji, میرا جی
Meera Ji, میرا جی
(11)
جیسے ہوتی آئی ہے، ویسے بسر ہو جائے گی
زندگی اب مختصر سے مختصر ہو جائے گی

گیسوئے عکسِ شبِ فرقت پریشاں اب بھی ہے
ہم بھی تو دیکھیں کہ یوں کیوں کر سحر ہو جائے گی

انتظارِ منزلِ موہوم کا حاصل یہ ہے
ایک دن ہم پر عنایت کی نظر ہو جائے گی

سوچتا رہتا ہے دل یہ ساحلِ اُمّید پر
جستجو، آئینۂ مدّ و جزر ہو جائے گی

درد کے مشتاق گستاخی تو ہے لیکن معاف
اب دعا، اندیشہ یہ ہے، کارگر ہو جائے گی

سانس کے آغوش میں ہر سانس کا نغمہ یہ ہے
ایک دن، اُمّید ہے اُن کو خبر ہو جائے گی

----

(12)
دیدۂ اشکبار ہے اپنا
اور دل بے قرار یے اپنا

رشکِ صحرا ھے گھر کی ویرانی
یہی رنگِ بہار ہے اپنا

چشمِ گریاں سے چاکِ داماں تک
حال سب آشکار ہے اپنا

ہاؤ ہو میں ہر ایک کھویا ہے
کون یاں غمگسار ہے اپنا

بزم سے ان کی جب سے نکلا ہوں
دل غریب الدّیار ہے اپنا

ہم کو ہستی رقیب کی منظور
پھول کے ساتھ خار ہے اپنا

ہے یہی رسمِ میکدہ شاید
نشّہ ان کا خمار ہے اپنا

کیا غلط سوچتے ہیں میرا جی
شعر کہنا شعار ہے اپنا

----

(13)
گناہوں سے نشو و نما پا گیا دل
درِ پختہ کاری پہ پہنچا گیا دل

اگر زندگی مختصر تھی تو پھر کیا
اسی میں بہت عیش کرتا گیا دل

یہ ننھی سی وسعت یہ نادان ہستی
نئے سے نیا بھید کہتا گیا دل

نہ تھا کوئی معبود، پر رفتہ رفتہ
خود اپنا ہی معبود بنتا گیا دل

نہیں گریہ و خندہ میں فرق کوئی
جو روتا گیا دل تو ہنستا گیا دل

پریشاں رہا آپ تو فکر کیا ھے
ملا جس سے بھی اس کو بہلا گیا دل

کئی راز پنہاں ہیں لیکن کھلیں گے
اگر حشر کے روز پکڑا گیا دل

بہت ہم بھی چالاک بنتے تھے لیکن
ہمیں باتوں باتوں میں بہکا گیا دل

مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 18, 2010

مینوں پاگل پن درکار - استاد دامن

پنجابی شاعری کے حوالے سے استاد دامن کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے، انکی ایک نظم جو مجھے پسند ہے۔

Ustad Damin, استاد دامن, Punjabi Poetry, پنجابی شاعری
Ustad Damin, استاد دامن
مَینوں پاگل پن درکار
مَینوں پاگل پن درکار

لکھاں بھیس وَٹا کے ویکھے
آسن کِتے جما کے ویکھے
متھے تِلک لگا کے ویکھے
کدھرے مون مَنا کے ویکھے
اوہو ای رستے، اوہو ای پَینڈے
اوہو ای آں میں چلّن ہار
مَینوں پاگل پن درکار

ہتھ کسے دے آؤ نا کیہ اے؟
ملاں نیں جتلاؤ نا کیہ اے؟
پنڈت پلّے پاؤ نا کیہ اے؟
رات دنے بس گلاں کر کر
کجھ نہیں بن دا آخر کار
مَینوں پاگل پن درکار

میں نہیں سکھیا علم ریاضی
ناں میں پنڈت، ملاں، قاضی
ناں میں دانی، ناں فیاضی
ناں میں جھگڑے کر کر راضی
ناں میں منشی، عالم فاضل
ناں میں رند تے ناں ہشیار
مَینوں پاگل پن درکار



میں نہیں کھاندا ڈَکّو ڈولے
رتھ جیون نُوں لا ہچکولے
اینویں لبھدا پھراں وچولے
کوئی بولے تے کوئی نہ بولے
ملے گلے دا آدر کر کے
کرناں اپنا آپ سدھار
مَینوں پاگل پن درکار

سب دسدے نیں ون سوَنے
کول جاؤ تے خالی چھنّے
دل نہ منے، تے کیہ منے
اینویں من منوتی کاہدی
گل نہ ہندی ہنے بنے
اندر کھوٹ تے باہر سچیار
مَینوں پاگل پن درکار

ایہہ دنیا کیہ رولا گولا
کوئی کہندا اے مولا مولا
کوئی کردا اے ٹال مٹولا
کوئی پاؤندا اے چال مچولا
مینوں کجھ پتہ نہیں چلدا
کیہ ہندا اے وچ سنسار
مَینوں پاگل پن درکار

ولی، پیر میں پگڑ پگڑ کے
گٹے گوڈے رگڑ رگڑ کے
دل نوں ہن تے جکڑ جکڑ کے
اینویں جھگڑے جھگڑ جھگڑ کے
چھڈ دتے نیں جھگڑے جھانجے
لمے چوڑے کھل کھلار

مَینوں پاگل پن درکار
ربّا، مَینوں پاگل پن درکار


استاد دامن کی مزید پنجابی شاعری اس ربط پر پڑھیے
مزید پڑھیے۔۔۔۔