Oct 31, 2010

کیا حال سناواں دل دا - کافی خواجہ غلام فرید

اس کافی میں کوئی سحر ہے اور میں بھی اسکے سحر میں لڑکپن کے زمانے سے گم ہوں جب پی ٹی وی پر اسے پٹھانے خان کی آواز میں پہلی بار سنا تھا، سمجھ تب بھی نہیں آئی تھی اور اب بھی نہیں آتی تھی کیونکہ سرائیکی میں ہے، تاوقتیکہ چند دن پہلے میرے ہاتھوں بی۔اے پنجابی کی ایک کتاب لگی اور اس میں یہ کافی ترجمے سمیت مل گئی۔ اس کافی کے ساتھ میری بہت سی یادیں وابستہ ہیں، ان کو دہرانے کا یہ محل نہیں ہے لیکن اپنے دل و دماغ میں تو تازہ کر ہی سکتا ہوں سو کر رہا ہوں، آپ بھی کیجیے۔

کیا حال سُناواں دِل دا
کوئی محرم راز نہ مِل دا

دلِ زار کا حال کیا سناؤں کہ کوئی محرم راز ہی نہیں ملتا۔

مونہہ دُھوڑ مٹی سر پایم
سارا ننگ نموج ونجایم
کوئی پُچھن نہ ویہڑے آیم
ہتھوں اُلٹا عالم کِھل دا

ننگ نموج - عزت و شرم، ونجایم - گم کرنا، ہتھوں - بلکہ، کھل دا - ہنستا ہے
اس عشق نے میرے چہرے اور سر میں مٹی ڈال دی ہے اور ساری عزت و شرم و وقار برباد ہو گیا ہے، اور کوئی بھی میرا یہ حال دیکھنے میرے گھر نہیں آیا بلکہ الٹا لوگ ٹھٹھا اور مذاق کرتے ہیں۔

آیا بھار برہوں سِر باری
لگی ہو ہو شہر خواری
روندے عمر گذاریم ساری
ناں پایم ڈس منزل دا

برہوں - ہجر، ڈس - سراغ
میرے سر پر ہجر کا بھاری بوجھ آن پڑا ہے، اور شہر شہر رسوائی اور خواری ہو رہی ہے، اور اسی حالت میں ساری عمر روتے روتے گزر گئی ہے لیکن پھر بھی منزل کا کوئی سراغ نہیں ملا۔

دل یار کِتے کُرلاوے
تڑپاوے تے غم کھاوے
دُکھ پاوے سُول نبھاوے
ایہو طَور تینڈے بیدل دا

میرا دل یار کی جدائی میں روتا ہے، تڑپتا ہے اور غم کھاتا ہے، دکھ سہتا ہے اور درد برداشت کرتا ہے، تیرے عاشق کی یہی حالت ہے۔

مزار خواجہ غلام فرید, Punjabi Poetry, پنجابی شاعری, Khawaja Ghulam Farid
Mazar Khawaja Ghulam Farid, مزار خواجہ غلام فرید
کئی سہنس طبیب کماون
سے پڑیاں گھول پیاون
مینڈے دل دا بھید نہ پاون
پوے فرق نہیں ہِک تِل دا

سہنس - تجربہ کار، سے - سو
کئی سیانے اور تجربہ کار طبیب مرا علاج کر رہے ہیں، سو سو دوائیں گھول گھول کر پلا رہے ہیں، لیکن وہ میرے دل کا راز نہیں پاتے اور انکے اس درمان سے مجھے کوئی ذرہ برابر فرق نہیں پڑتا۔

پُنوں ہُوت نہ کھڑ موکلایا
چھڈ کلہڑی کیچ سدھایا
سُوہنے جان پچھان رُلایا
کُوڑا عذر نبھایم گِھل دا

نہ کھڑ موکلایا - ساتھ نہ لے کے گیا، کُوڑا - جھوٹا، گِھل دا، کچی نیند کا
پنوں مجھے ساتھ نہیں لے کے گیا اور اکیلی چھوڑ کر کیچ چلا گیا ہے، اس کی جان پہچان نے رلایا ہے اور اس نے سب کچھ بھلا دیا ہے اور میں نے اس حالتِ زار میں کچی نیند کا جھوٹا بہانہ کر لیا ہے۔

سُن لیلیٰ دھانہہ پکارے
تینڈا مجنوں زار نزارے
سُوہنا یار توڑیں ہک وارے
کدی چا پردہ محمِل دا

دھانہہ -فریاد، زار نزار - غموں کا مارا ہوا، کمزور
اے لیلیٰ میری فریاد سن لے، تیرا یہ مجنوں غموں کا مارا ہوا ہے۔ اے دوست کبھی ایک بار محمل کا پردہ اٹھا کر مجھے اپنا دیدار عطا کر دے۔

دل پریم نگر ڈوں تانگھے
جتھاں پینڈے سخت اڑانگے
نہ یار فرید نہ لانگھے
ہے پندھ بہوں مشکِل دا

ڈوں - طرف، تانگھے - چاہے، اڑانگے - دشوار، لانگھے - رستے، پندھ - سفر
دل پریم نگر کی طرف جانے کی چاہ رکھتا ہے، لیکن وہاں کے راستے بڑے دشوار ہی ہیں اور فرید ادھر کی راہوں سے واقف نہیں ہے، یہ سفر بہت ہی مشکل ہے۔

کیا حال سناواں دل دا
کوئی محرم راز نہ مِل دا


اور پٹھانے خان کی خوبصورت گائیکی




مزید پڑھیے۔۔۔۔

Oct 14, 2010

اندھے

پنجابی کا ایک بڑا پیارا محاورہ ہے، "لیروں لیر کرنا"، پنجابی دوست اس محاورے کی روح تک پہنچ گئے ہوں گے، اردو میں اس کا قریب ترین مترادف شاید دھجیاں اڑانا ہوگا لیکن جو "لیروں لیر" کرنے میں مولوی مدن کی سی بات ہے وہ دھجیاں اڑانے میں کہاں۔ نہ جانے کیوں جب بھی "لیروں لیر" میرے ذہن میں آتا ہے تو ساتھ ہی "لیگوں لیگ" بھی آ جاتا ہے۔ اردو کے حروفِ تہجی گنتے جایئے ختم ہو جائیں گے لیکن مسلم لیگ کے ساتھ جڑے ہوئے حروف ختم نہیں ہونگے۔ لیگ کی تقسیم تو تقسیم سے پہلے ہی شروع ہو گئی تھی، جناح لیگ اور شفیع لیگ تاریخ پر نظر رکھنے والے احباب سے پوشیدہ نہیں ہونگی لیکن وہ دونوں واقعی لیڈر تھے اور پھر ان کے درمیان "بائنڈنگ فورس" کے طور پر علامہ بھی حیات تھے سو اتحاد ہو گیا، لیکن تقسیم کے بعد الامان و الحفیظ، لیگ نے باندیوں والا روپ دھار لیا اور اسکا حشر بھی ویسا ہی ہوا۔

اس معروضے سے یہ نہ سمجھا جائے کہ خاکسار پیپلز پارٹی کا حامی ہے، حامی ہونا تو دور کی بات مجھے تو اس پارٹی کے نام کا مطلب ہی ایک زمانے کے بعد سمجھ میں آیا، یادش بخیر، بچپن کے دن تھے، بھٹو مرحوم کو پھانسی دی گئی تو والدہ نے رو رو کر بُرا حال کر لیا، ماموں مرحوم انکے غم میں برابر کے شریک تھے لیکن اللہ جنت نصیب کرنے والدِ مرحوم، کہ "جماعتیے" تھے، برابر اپنے موقف پر اڑے رہے کہ جو بھی ہوا صحیح ہوا۔ نتیجتہً گھر کی فضا مکدر رہنے لگی لیکن پھر ایک جادو گر نے ایسا جادو کیا اور "اِس لام اُس لام" کا ایسا جنتر منتر کیا کہ والدہ اور ماموں بھی پکے لام لیگیے ہو گئے، لیکن گھر میں "پپل پارٹی پپل پارٹی" کی تکرار برابر ہوتی رہتی تھی اور یہ خاکسار انہی الفاظ کی جھنکار و تکرار میں پروان چڑھا۔

پپل پارٹی سے ہمیشہ میرے ذہن میں پپل (پیپل) کا درخت آتا تھا جو گھر کے باہر سڑک کے کنارے موجود تھا اور سارا دن اسکی چھاؤں میں کھیلتے گذر جاتا تھا۔ وہ بھی کیا دن تھے، گاؤں میں گھر کے اندر درخت ہوتے تھے اور محلوں میں گھر کے باہر، کہیں پیپل، کہیں ٹاہلی، کہیں کیکر اور کہیں "دریک" (نہ جانے اس کو اردو میں کیا کہتے ہیں)، اب تو مدت ہو گئی "دریک" کا درخت دیکھے ہوئے گو ٹاہلی اور کیکر پھر کہیں نظر آ جاتے ہیں۔ دریک پر جب اسکے "درکونے" لگتے تھے تو ان سے جیبیں بھر لی جاتی تھیں اور ہر آتے جاتے لڑکے کے سر میں چھپ کر "درکونا" مارنے کا لطف لیا جاتا تھا۔ درکونے، غلیلے کے طور پر بھی کام آتے تھے اور چھوٹی موٹی چڑیا اس سے مر بھی جاتی تھی، ہزاروں بار غلیل چلائی ہوگی لیکن مجھ سے تو آج تک ایک چڑیا بھی زخمی نہ ہوئی کہ ہمیشہ نشانہ خطا ہی ہوا بلکہ الٹا غلیل کا گوپیا اور اسکی ربر میرے دوسرے ہاتھ پر زور سے لگتی تھی اور میں "سی سی" کر اٹھتا تھا۔ لیکن آفرین ہے ان بندوقوں والوں پر، دہائیوں سے بندوقیں چلا رہے ہیں، شکار پر شکار کرتے چلے جا رہے ہیں، کبھی کوئی نشانہ خطا نہیں ہوا اور کبھی "بیک فائر" بھی نہیں ہوا۔

اسی پیپل کی چھاؤں میں اکثر بنٹے کھیلا کرتا تھا، دو یا چار حریف جب آمنے سامنے بیٹھ کر بنٹے کھیلتے تھے تو اکثر ایک یا دو یا عموماً چاروں ہی ایک نعرہ لگاتے تھے" یا بے ایمانی تیرا ہی آسرا"، یہ اس بات کی علامت ہوتا تھا کہ اس جنگ میں سب جائز ہے، کھیلتے سب تھے لیکن ہاتھ ایک مار جاتا تھا۔ ہڑبونگ اس وقت مچتی تھی جب کہیں سے اچانک بوڑھا ماما محمد حسین چھاپا مارتا تھا اور لڑکوں سے سارے بنٹے چھین کر قریب بہنے والی بڑی سی بدرو میں پھینک دیتا تھا۔

اپنے "اِس لامی جمہور (یا) پاکستان" کا بھی اس وقت کچھ یہی حال ہے، چاروں طرف سے "یا بے ایمانی تیرا ہی آسرا، یا بے ایمانی تیرا ہی آسرا" کے نعرے بلند ہو رہے ہیں اور ادھر ماما محمد حسین کہیں تاک میں لگا ہوا ہے، کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونا ہے، بہتر ہے اندھے ہی ہو جائیں۔ کہتے ہیں، ایک دفعہ میانوالی کے کسی دُور افتادہ گاؤں کے دو مُلّے کسی کام سے کراچی گئے اور وہاں ہاکس بے چلے گئے، کچھ دیر تو وہ دونوں مبہوت کھڑے وہاں کے "نظارے" دیکھتے رہے، پھر ایک دوسرے سے کہنے لگا، "اُوئے مام دینا میں تے انّاں ہو گیاں تُوں اکھاں بند کر لے"۔

----------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Oct 4, 2010

در حلقۂ فقیراں، قیصر چہ کار دارد؟ - شیخ فخرالدین عراقی کی ایک غزل

در حلقۂ فقیراں، قیصر چہ کار دارد؟
در دستِ بحر نوشاں، ساغر چہ کار دارد؟

فقیروں کی مجلس میں قیصر (و کسریٰ، بادشاہوں) کا کیا کام، دریا نوشوں کے ہاتھ میں ساغر کا کیا کام۔

در راہِ عشق بازاں، زیں حرف ہا چہ خیزد؟
در مجلسِ خموشاں، منبر چہ کار دارد؟

عشاق کی راہ میں، یہ الفاظ سے کیا اٹھتے ہیں ( ان کو عقل و دانش و وعظ و پند سے کیا واسطہ) کہ خاموشوں کی مجلس میں منبر کا کیا کام۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Fakhruddin Iraqi, شیخ فخرالدین عراقی ایک خاکہ
شیخ فخرالدین عراقی ایک خاکہ
Fakhruddin Iraqi
جائے کہ عاشقاں را درسِ حیات باشد
ایبک چہ وزن آرد؟ سنجر چہ کار دارد؟

اس جگہ جہاں عاشقوں کو درس حیات ملتا ہے، ایبک کا کیا وزن اور سنجر (یعنی بادشاہوں) کا کیا کام۔

جائے کہ ایں عزیزاں جامِ شراب نوشند
آبِ زلال چبود؟ کوثر چہ کار دارد؟

اور یہ عزیز (عشاق) جہاں جامِ شراب پیتے ہیں وہاں آب حیات کیا اور (آبِ) کوثر کیا۔

در راہِ پاکپازاں، ایں حرف ہا چہ خیزد؟
بر فرقِ سرفرازاں، افسر چہ کار دارد؟

پاکبازوں کی راہ میں یہ الفاظ سے کیا اٹھتے ہیں (انکی بے سر و سامانی پر) کہ کامیاب لوگوں کے سر پر تاج کا کیا کام ہے۔

دائم تو اے عراقی، می گوئی ایں حکایت
با بوئے مشکِ معنی، عنبر چہ کار دارد؟

اے عراقی تو ہمیشہ ہی ایسی حکایتیں کہتا رہ، کہ تیرے کلام کے معنی میں جو خوشبو ہے اسکے آگے عنبر کی خوشبو کیا۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 12, 2010

امیر خسرو کی ایک غزل - از من آں کامیاب را چہ غمست - مع تراجم

امیر خسرو کی اس غزل کا شمار غزلِ مسلسل میں ہوتا ہے، اور ایک ہی خیال کو مختلف حقیقتوں سے واضح کیا ہے اور کیا خوب تشبیہات و استعارات اس غزل میں بیان کئے ہیں۔

شعرِ خسرو
از من آں کامیاب را چہ غمست
زیں شبِ ماہتاب را چہ غمست


ترجمہ
اس کامیاب (محبوب) کو مجھ سے کیا غم ہے، ماہتاب کو رات کا غم کب ہوتا ہے۔

منظوم ترجمہ مسعود قریشی
میرا اس کامیاب کو غم کیا
رات کا ماہتاب کو غم کیا
Amir Khusro, امیر خسرو, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
Amir Khusro, امیر خسرو
شعرِ خسرو
ذرّہ ہا گر شوند زیر و زبر
چشمۂ آفتاب را چہ غمست


ترجمہ
اگر تمام ذرے زیر و زبر بھی ہو جائیں تو سورج کے چشمے کو انکے زیر و زبر ہونے کا کیا غم ہے۔

قریشی
ذرّے زیر و زبر جو ہوں تو ہوں
چشمۂ آفتاب کو غم کیا

شعرِ خسرو
گر بسوزد ہزار پروانہ
مشعلِ خانہ تاب را چہ غمست


ترجمہ
اگر ہزار پروانے بھی جل مریں تو گھر کو روشن کرنے والی مشعل کو اسکا کیا غم ہے۔

قریشی
جل مریں گو ہزار پروانے
مشعلِ خانہ تاب کو غم کیا

شعرِ خسرو
خرمنِ من کہ گشت خاکستر
آتشِ پُر عذاب را چہ غمست


ترجمہ
میری جان کی کھیتی جل کر راکھ ہوگئی مگر عذاب سے پُر آگ کو اس کا کیا غم ہے۔

قریشی
خرمنِ جاں جو جل کے راکھ ہوا
آتشِ پر عذاب کو غم کیا

شعرِ خسرو
گر مرا نیست خوابے اندر چشم
چشمِ آں نیم خواب را چہ غمست


ترجمہ
اگر میری آنکھوں میں نیند نہیں رہی تو اسکا اس نیم خواب آنکھوں (والے) کو کیا غم ہے۔

قریشی
رتجگے ہیں اگر نصیب مرا
دیدۂ نیم خواب کو غم کیا

شعرِ خسرو
خسرو ار جاں دہد تو دیر بہ ذی
ماہی ار میرد آب را چہ غمست


ترجمہ
خسرو تو جان دیتا ہے لیکن تو دیر تک زندہ رہ کہ مچھلی کے مرنے کا پانی کو کیا غم۔

قریشی
جان خسرو نے دی، تُو جُگ جُگ جی
مرگِ ماہی پہ آب کو غم کیا

----------
بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
(مسعود قریشی کا منظوم ترجمہ بھی اسی بحر میں ہے)

افاعیل - فاعِلاتُن مفاعِلُن فعلُن
(اس بحر میں آٹھ وزن جمع ہو سکتے ہیں، تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)

اشاری نظام - 2212 2121 22
(ہندسوں کا اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیں یعنی پہلے 2 پھر 1 پھر 2)

تقطیع

از من آں کامیاب را چہ غمست
زیں شبِ ماہتاب را چہ غمست

از مَ نا کا - 2212- فاعلاتن (من اور آں میں الف کا وصال ہوا)۔
م یا ب را - 2121 - مفاعلن
چ غَ مست - 1211 - فَعِلان (فعلن کی جگہ فَعِلان اس بحر میں جائز ہے)۔

زی شَ بے ما - 2212 - فاعلاتن
ہ تا ب را - 2121 - مفاعلن
چ غَ مست - 1211 - فعلان
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jul 15, 2010

مظلوم الشعرا - میرزا یاس یگانہ عظیم آبادی

یگانہ ایک قادر الکلام شاعر تھے لیکن جب وہ پچھلی صدی کے اوائل میں عظیم آباد سے ہجرت کر کے لکھنؤ آئے تو لکھنؤ والوں نے ان کی بالکل ہی قدر نہ کی۔ اس وقت لکھنؤ والے اپنے برے سے برے شاعر کو بھی باہر والے اچھے سے اچھے شاعر کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دیتے تھے اور یگانہ چونکہ "باہر والے" تھے سو لکھنؤ والوں کو ایک آنکھ نہ بھائے۔ بقول مجنوں گورکھپوری، "لکھنؤ کے لوگوں میں اتنا ظرف کبھی نہ تھا کہ کسی باہر کے بڑے سے بڑے شاعر کو لکھنؤ کے چھوٹے سے چھوٹے شاعر کے مقابلے میں کوئی بلند مقام دے سکیں۔" (غزل سرا، نئی دہلی 1964ء بحوالہ چراغِ سخن از یگانہ، مجلسِ ترقیِ ادب، لاہور، 1996ء)۔

اور یہیں سے یگانہ اور لکھنؤ کے شعرا کے درمیان ایک ایسی چشمک شروع ہو گئی جو یگانہ کی موت پر بھی ختم نہ ہوئی، مزید برآں یہ کہ اس وقت لکھنؤ کے شعرا غالب کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے اور اپنے ہر اس شاعر کو مسندِ علم و فضل پر بٹھا دیتے تھے جو غالب کے رنگ میں کہتا تھا چاہے جتنا بھی برا کہتا تھا سو یگانہ کی اپنی محرومی کے سبب غالب سے بھی دشمنی پیدا ہو گئی اور آخری عمر تک غالب کے کلام میں نقص تلاش کرتے رہے اور انکا اظہار کرتے رہے۔

لیکن ہمیشہ کی طرح، ادبی چشمکوں میں صرف دھول ہی نہیں اڑتی اور کاغذ سامنے رکھ کر ایک دوسرے کے منہ پر صرف سیاہی ہی نہیں ملی جاتی بلکہ ان چشمکوں سے کچھ ایسے نوادر کا بھی ظہور ہوتا ہے جو شاید عام حالات میں کبھی مسندِ شہود پر نہ آتے اور انہی میں یگانہ کی علمِ عروض پر لازوال اور "اتھارٹی" کا درجہ حاصل کرنے والی کتاب "چراغِ سخن" ہے جو انہیں معرکوں کی یادگار ہے جس کے سرورق پر مرحوم نے لکھا تھا۔

مزارِ یاس پہ کرتے ہیں شُکر کے سجدے
دعائے خیر تو کیا اہلِ لکھنؤ کرتے

urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Yas Yagana Changezi, یاس یگانہ چنگیزی
Yas Yagana Changezi,
یاس یگانہ چنگیزی

کاغذوں پر سیاہی خیر ملی ہی جاتی ہے، لیکن اس مظلوم الشعرا کے ساتھ ایک ایسا واقعہ بھی ہوا کہ کسی اہلِ قلم کے ساتھ نہ ہوا ہوگا۔ انہوں نے ایک اخبار میں ایک مضمون لکھا جس میں ایک فرقے کے خلاف کچھ تند و تیز و متنازعہ جملے تھے سو قلم کی پاداش میں دھر لیے گئے، جس محلے میں رہتے تھے وہاں اسی فرقے کی اکثریت تھی، اور چونکہ تھے بھی بے یار و مددگار، سو اہلیانِ محلہ نے پکڑ لیا، منہ پر سیاہی ملی، جوتوں کا ہار پہنایا، گدھے پر سوار کیا اور شہر میں جلوس نکال دیا۔

مدیر نقوش، محمد طفیل نے یگانہ سے ان کے آخری دنوں میں ملاقات کی تھی، اس ملاقات کی روداد انہوں نے اپنی کتاب "جناب" میں یگانہ پر خاکہ لکھتے ہوئی لکھی ہے، مذکورہ واقعہ کا ذکر کچھ یوں آیا ہے۔

"بیٹھے بیٹھے ہنسنے لگے اور پھر مجھ سے پوچھا۔ "آپ نے میرا جلوس دیکھا تھا؟"
"کیسا جلوس؟"
"اجی وہی جس میں مجھے جوتوں کے ہار پہنائے گئے تھے، میرا منہ بھی کالا کیا گیا تھا اور گدھے پر سوار کر کے مجھے شہر بھر میں گھمایا گیا تھا۔"
"اللہ کا شکر ہے کہ میں نے وہ جلوس نہیں دیکھا۔"
"واہ صاحب وا، آپ نے تو ایسے اللہ کا شکر ادا کیا ہے جیسے کوئی گھٹیا بات ہو گئی ہو، سوچو تو سہی کہ آخر کروڑوں آدمیوں میں سے صرف مجھی کو اپنی شاعری کی وجہ سے اس اعزاز کا مستحق کیوں سمجھا گیا؟ جب کہ یہ درجہ غالب تک کو نصیب نہ ہوا، میر تک کو نصیب نہ ہوا۔"
میں چاہتا تھا کہ میرزا صاحب اس تکلیف دہ قصہ کو یہیں ختم کر دیں مگر وہ مزے لے لے کر بیان کر رہے تھے جیسے انہوں نے کوئی بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہو اور اسکے بدلے یہ گراں قدر انعام پایا ہو۔

یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد فوراً دو غزلہ کے مُوڈ میں آ گئے۔ "جی ہاں جناب، آپ کے لاہور میں بھی گرفتار ہوئے تھے۔"
"وہ قصہ کیا تھا۔"
"جناب قصہ یہ تھا کہ میرزا یگانہ چنگیزی یہاں سے کراچی کا پاسپورٹ لے کے چلے تھے اور لاہور پہنچ کر اپنے ایک دوست کے ساتھ پنجاب سے نکل کر سرحد پہنچ گئے تھے، واپسی پر گرفتار کر لیا گیا۔ (ایک دم جمع سے واحد کے صیغے پر آ گئے)۔ اکیس روز جیل میں بند رہا، ہتھکڑی لگا کر عدالت میں لایا گیا، پہلی پیشی پر مجسٹریٹ صاحب نے نام پوچھا۔ میں نے بڑھی ہوئی داڑھی پر ہاتھ پھیر کر بڑی شان سے بتایا۔ "یگانہ"۔
ساتھ کھڑے ہوئے ایک وکیل صاحب نے بڑی حیرت سے مجھ سے سوال کیا۔ "یگانہ چنگیزی؟"۔
"جی ہاں جناب۔"
یہ سنتے ہی مجسٹریٹ صاحب نے (غالباً آفتاب احمد نام بتایا تھا) میری رہائی کا حکم صادر فرما دیا۔
جب رہا ہو گیا تو جاتا کدھر؟ اور پریشان ہو گیا، مجسٹریٹ صاحب نے میری پریشانی کو پڑھ لیا، میں نے ان سے عرض کیا، میرے تمام روپے تو تھانے والوں نے جمع کر لیے تھے، اب مجھے دلوا دیجیئے۔ اس پر مجسٹریٹ صاحب نے کہا، درخواست لکھ دیجیئے۔ میرے پاس پھوٹی کوڑی نہ تھی، کاغذ کہاں سے لاتا اور کیسے درخواست لکھتا، اس پر بہ کمالِ شفقت مجسٹریٹ صاحب نے مجھے ایک آنہ دیا اور میں نے کاغذ خرید کر درخواست لکھی جس پر مجھے فوراً روپے مل گئے۔ آپ لاہور جائیں تو آفتاب احمد صاحب کے پاس جا کر میرا سلام ضرور عرض کریں۔
اور ہاں آپ بھی لاہور جا کر اب یہ کہیں گے کہ یگانہ سے ملے تھے، آپ یگانہ سے کہاں ملے ہیں؟ یگانہ کو گوشت پوست کے ڈھانچے میں دیکھنا غلط ہے، یگانہ کو اس کے شعروں میں دیکھنا ہوگا، یگانہ کو اس ٹوٹی ہوئی چارپائی پر دیکھنے کی بجائے اس مسند پر دیکھنا ہوگا جس پر وہ آج سے پچاس برس بعد بٹھایا جائے گا۔"
یگانہ کی مظلومیت یہیں ختم نہیں ہوتی، ان کو موت کے بعد بھی نہ بخشا گیا، ان کا جنازہ پڑھنا حرام قرار دے دیا گیا اور کہا جاتا ہے کہ فقط کچھ لوگ ہی انکے جنازے میں شامل تھے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔


شہرہ ہے یگانہ تری بیگانہ روی کا
واللہ یہ بیگانہ روی یاد رہے گی


تخلیقاتِ یگانہ
(بحوالہ چراغِ سخن، مجلسِ ترقیِ ادب، لاہور، 1996ء)

- نشترِ یاس (شعری مجموعہ)، لکھنؤ، 1914ء
- چراغِ سخن (رسالہ عروض و قوافی)، لکھنؤ، 1914ء
- شہرتِ کاذبہ المعروف بہ خرافاتِ عزیز (عزیز لکھنؤی کی شاعری پر اعتراضات)، لکھنؤ۔ 1923ء
- آیاتِ وجدانی مع محاضرات (شعری مجموعہ)، لاہور، 1927ء
- ترانہ (مجموعۂ رباعیات)، لاہور، 1934ء
- غالب شکن (مکتوبِ یگانہ بنام مسعود حسن رضوی ادیب)، حیدرآباد دکن، 1934ء
- گنجینہ (مجموعۂ غزلیات و رباعیات)، لاہور، 1948

urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Yas Yagana Changezi, یاس یگانہ چنگیزی


کلامِ یگانہ

(1)
کس کی آواز کان میں آئی
دُور کی بات دھیان میں آئی

ایسی آزاد رُوح اس تن میں
کیوں پرائے مکان میں آئی

آپ آتے رہے بلاتے رہے
آنے والی اک آن میں آئی

ہائے کیا کیا نگاہ بھٹکی ہے
جب کبھی امتحان میں آئی

علم کیا، علم کی حقیقت کیا
جیسی جس کے گمان میں آئی

یہ کنارہ چلا کہ ناؤ چلی
کہیے کیا بات دھیان میں آئی

حُسن کیا خواب سے ہوا بیدار
جان تازہ جہان میں آئی

جان لیوا ہے یہ کڑی تیوری
یہ کشش کس کمان سے آئی

بات ادھوری مگر اثر دونا
اچھی لکنت زبان میں آئی

آنکھ نیچی ہوئی، ارے یہ کیا؟
کیوں غرض درمیان میں آئی

میں پیمبر نہیں یگانہ سہی
اس سے کیا کسر شان میں آئی
------

(2)
لذّتِ زندگی مُبارک باد
کل کی کیا فکر؟ ہر چہ بادا باد

اے خوشا زندگی کہ پہلوئے شوق
دوست کے دم قدم سے ہے آباد

دل سلامت ہے، دردِ دل نہ سہی
درد جاتا رہا کہ درد کی یاد؟

زیست کے ہیں یہی مزے واللہ
چار دن شاد، چار دن ناشاد

کون دیتا ہے دادِ ناکامی
خونِ فرہاد برسرِ فرہاد

صبر اتنا نہ کر کہ دشمن پر
تلخ ہو جائے لذّتِ بیداد

صلح کر لو یگانہ غالب سے
وہ بھی استاد، تم بھی اک استاد

----

(3)
خودی کا نشہ چڑھا، آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا

پیامِ زیرِ لب ایسا کہ کچھ سنا نہ گیا
اشارہ پاتے ہی انگڑائی لی، رہا نہ گیا

ہنسی میں وعدۂ فردا کو ٹالنے والو
لو دیکھ لو وہی کل آج جن کے آ نہ گیا

گناہِ زندہ دلی کہیے یا دل آزاری
کسی پہ ہنس لئے اتنا کہ پھر ہنسا نہ گیا

سمجھتے کیا تھے مگر سنتے تھے ترانۂ درد
سمجھ میں آنے لگا جب تو پھر سنا نہ گیا

کروں تو کس سے کروں دردِ نا رسا کا گلہ
کہ مجھ کو لے کے دلِ دوست میں سما نہ گیا

بتوں کو دیکھ کے سب نے خدا کو پہچانا
خدا کے گھر تو کوئی بندۂ خدا نہ گیا

کرشن کا ہوں پجاری، علی کا بندہ ہوں
یگانہ شانِ خدا دیکھ کر رہا نہ گیا

urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Yas Yagana Changezi, یاس یگانہ چنگیزی
مرزا یاس یگانہ چنگیزی عظیم آبادی
Yas Yagana Changezi,
----

(4)
مجھے دل کی خطا پر یاس شرمانا نہیں آتا
پرایا جرم اپنے نام لکھوانا نہیں آتا

بُرا ہو پائے سرکش کا کہ تھک جانا نہیں آتا
کبھی گمراہ ہو کرراہ پر آنا نہیں آتا

مجھے اے ناخدا آخر کسی کو منہ دکھانا ہے
بہانہ کر کے تنہا پار اُتر جانا نہیں آتا

مصیبت کا پہاڑ آخر کسی دن کٹ ہی جائے گا
مجھے سر مار کر تیشے سے مر جانا نہیں آتا

اسیرو، شوقِ آزادی مجھے بھی گدگداتا ہے
مگر چادر سے باہر پاؤں پھیلانا نہیں آتا

دلِ بے حوصلہ ہے اک ذرا سی ٹھیس کا مہماں
وہ آنسو کیا پئے گا جس کو غم کھانا نہیں آتا

سراپا راز ہوں، میں کیا بتاؤں کون ہوں، کیا ہوں
سمجھتا ہوں مگر دنیا کو سمجھانا نہیں آتا

-----

(5)
حُسن پر فرعون کی پھبتی کہی
ہاتھ لانا یار کیوں کیسی کہی

دامنِ یوسف ہی بھڑکاتا رہا
عشق اور ترکِ ادب اچھی کہی

کوئی ضد تھی یا سمجھ کا پھیر تھا
من گئے وہ، میں نے جب اُلٹی کہی

درد سے پہلے کروں فکرِ دوا
واہ یہ اچھی الٹوانّسی کہی

دوست سے پردہ کیا یہ کیا کیا
آپ بیتی چھوڑ جگ بیتی کہی

شک ہے کافر کو مرے ایمان میں
جیسے میں نے کوئی منہ دیکھی کہی

کیا خبر تھی یہ خدائی اور ہے
ہائے میں نے کیوں خدا لگتی کہی

مفت میں سُن لی یگانہ کی غزل
ان سُنی کر دی جو مطلب کی کہی

----

(6)
کارگاہِ دنیا کی نیستی بھی ہستی ہے
اک طرف اُجڑتی ہے، ایک سمت بستی ہے

بے دلوں کی ہستی کیا، جیتے ہیں نہ مرتے ہیں
خواب ہے نہ بیداری، ہوش ہے نہ مستی ہے

کیمیائے دل کیا ہے، خاک ہے مگر کیسی؟
لیجیے تو مہنگی ہے، بیچیے تو سستی ہے

خضرِ منزل اپنا ہوں، اپنی راہ چلتا ہوں
میرے حال پر دنیا، کیا سمجھ کے ہنستی ہے

کیا کہوں سفر اپنا، ختم کیوں نہیں ہوتا
فکر کی بلندی یا حوصلہ کی پستی ہے

حُسنِ بے تماشہ کی، دھوم کیا معمّہ ہے
کان بھی ہیں نا محرم، آنکھ بھی ترستی ہے

چتونوں سے ملتا ہے، کچھ سراغ باطن کا
چال سے تو کافر پر، سادگی برستی ہے

ترکِ لذّتِ دنیا، کیجیے تو کس دل سے
ذوقِ پارسائی کیا فیضِ تنگ دستی ہے

دیدنی ہے یاس اپنے رنج و غم کی طغیانی
جھوم جھوم کر کیا کیا یہ گھٹا برستی ہے

-----

(7)
ہنوز زندگیٔ تلخ کا مزا نہ ملا
کمالِ صبر ملا صبر آزما نہ ملا

مری بہار و خزاں جس کے اختیار میں ہے
مزاج اس دلِ بے اختیار کا نہ ملا

جواب کیا، وہی آوازِ بازگشت آئی
قفس میں نالۂ جانکاہ کا مزا نہ ملا

امیدوارِ رہائی قفس بدوش چلے
جہاں اشارۂ توفیقِ غائبانہ ملا

ہوا کے دوش پہ جاتا ہے کاروانِ نفَس
عدم کی راہ میں کوئی پیادہ پا نہ ملا

ہزار ہا اسی جانب ہے منزلِ مقصود
دلیلِ راہ کا غم کیا، ملا ملا نہ ملا

امید و بیم نے مارا مجھے دوراہے پر
کہاں کے دیر و حرم گھر کا راستہ نہ ملا

خوشا نصیب جسے فیضِ عشقِ شور انگیز
بقدرِ ظرف ملا، ظرف سے سوا نہ ملا

سمجھ میں آ گیا جب عذرِ فطرتِ مجبور
گناہگارِ ازل کو نیا بہانہ ملا

------

(8)
رنگ لاتی ہے آخر ایک جُنبشِ لب کیا
دیکھئے دکھاتا ہے وعدۂ مذبذب کیا

چُلّو بھر میں متوالی، دو ہی گھونٹ میں خالی
یہ بھری جوانی کیا، جذبۂ لبالب کیا

ہاں دعائیں لیتا جا، گالیاں بھی دیتا جا
تازگی تو کچھ پہنچے، چابتا رہوں لب کیا

شامت آ گئی آخر کہہ گیا خدا لگتی
راستی کا پھل پاتا، بندۂ مقرّب کیا

اُلٹی سیدھی سنتا رہ، اپنی کہہ تو اُلٹی کہہ
سادہ ہے تو کیا جانے، بھانپنے کا ہے ڈھب کیا

سب جہاد ہیں دل کے، سب فساد ہیں دل کے
بے دِلوں کا مطلب کیا اور ترکِ مطلب کیا

ہو رہے گا سجدہ بھی جب کسی کی یاد آئی
یاد جانے کب آئے، زندہ داریٔ شب کیا

کارِ مرگ کے دن کا تھوڑی دیر کا جھگڑا
دیکھنا ہے یہ ناداں جینے کا ہے کرتب کیا

پڑ چکے بہت پالے، ڈس چکے بہت کالے
موذیوں کے موذی کو، فکرِ نیشِ عقرب کیا

میرزا یگانہ واہ، زندہ باد زندہ باد
اک بلائے بے درماں جب تو کیا تھے اور اب کیا

------

(9)
جب تک خلشِ دردِ خدا داد رہے گی
دنیا دلِ ناشاد کی آباد رہے گی

دنیا کی ہوا راس نہ آئے گی کسی کو
ہر سر میں ہوائے عدم آباد رہے گی

چونکائے گی رہ رہ کے تو غفلت کا مزہ کیا
ساتھ اپنے اجل صورتِ ہمزاد رہے گی

دل اور دھڑکتا ہے ادب گاہِ قفس میں
شاید یہ زباں تشنۂ فریاد رہے گی

جو خاک کا پُتلا، وہی صحرا کا بگولا
مٹنے پہ بھی اک ہستیِ برباد رہے گی

ہر شام ہوئی صبح کو اک خوابِ فراموش
دنیا یہی دنیا ہے تو کیا یاد رہے گی

شہرہ ہے یگانہ تری بیگانہ روی کا
واللہ یہ بیگانہ روی یاد رہے گی

-----
(10)
مزاج آپ کا دنیا سے کچھ کشیدہ سہی
فریب کھاؤ گے پھر بھی، فریب دیدہ سہی

یہ سبز باغ کا عالم، یہ رنگِ لیل و نہار
بہل ہی جائے گا دل، آپ سے رمیدہ سہی

یہ غنچہ کیسا کہ دیکھے سے دل دھڑکتا ہے
ارے یہ ایک ہی فتنہ ہے، نو دمیدہ سہی

نگاہِ شوق کی گرمی خدا کی قدرت ہے
مزے پہ آ ہی گیا حُسن، نارسیدہ سہی

کھٹکتی رہتی ہے دل میں نگاہِ دُزدیدہ
خطائے حُسن کہے کون، چشم دیدہ سہی

نگاہِ حُسن سے اب تک وفا ٹپکتی ہے
ستم رسیدہ سہی، پیرہن دریدہ سہی

فریبِ ابرِ کرم بھی بڑا سہارا ہے
بلا سے نخلِ تمنّا خزاں رسیدہ سہی

پتے کی کہیے تو ظالم کا رنگ اُڑتا ہے
زبانِ حال سے اک حرف ناشنیدہ سہی

قریب ہوں مگر اتنا کہ جیسے کوسوں دُور
مجھے نہ دیکھ سکو گے، زمانہ دیدہ سہی

مری نظر کی خطا ہوگی یا گُلوں کی خطا
تمھارے راج میں کانٹا ہی برگزیدہ سہی

یگانہ ٹھن گئی بیڈھب تو سوچتے کیا ہو
شریکِ کار نہیں تو نہیں جریدہ سہی

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 23, 2010

خدا کہوں گا تمھیں، ناخدا کہوں گا تمھیں ۔ جمیل الدین عالی کی ایک غزل

جمیل الدین عالی یوں تو اردو شاعری میں اپنے دوہوں کی وجہ سے جانے جاتے ہیں، اور انکے چند دوہے پہلے لکھ چکا ہوں لیکن انہوں نے خوبصورت غزلیں بھی کہی ہیں اور انہی میں ایک غزل جو مجھے بہت پسند ہے۔

خدا کہوں گا تمھیں، ناخدا کہوں گا تمھیں
پکارنا ہی پڑے گا تو کیا کہوں گا تمھیں

مری پسند مرے نام پر نہ حرف آئے
بہت حسین بہت با وفا کہوں گا تمھیں
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Jamil-ud-Din Aali, جمیل الدین عالی
Jamil-ud-Din Aali, جمیل الدین عالی
ہزار دوست ہیں، وجہِ ملال پوچھیں گے
سبب تو صرف تمھی ہو، میں کیا کہوں گا تمھیں

ابھی سے ذہن میں رکھنا نزاکتیں میری
کہ ہر نگاہِ کرم پر خفا کہوں گا تمھیں

ابھی سے اپنی بھی مجبوریوں کو سوچ رکھو
کہ تم ملو نہ ملو مدعا کہوں گا تمھیں

الجھ رہا ہے تو الجھے گروہِ تشبیہات
بس اور کچھ نہ کہوں گا ادا کہوں گا تمھیں

قسم شرافتِ فن کی کہ اب غزل میں کبھی
تمھارا نام نہ لوں گا صبا کہوں گا تمھیں

----

بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
(آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فعِلان بھی آ سکتے ہیں)
اشاری نظام - 2121 2211 2121 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 1 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)
پہلے شعر کی تقطیع -

خدا کہوں گا تمھیں، ناخدا کہوں گا تمھیں
پکارنا ہی پڑے گا تو کیا کہوں گا تمھیں

خُدا کہو - مفاعلن - 2121
گَ تُ مے نا - فعلاتن - 2211
خدا کہو - مفاعلن -2121
گَ تُ مے - فعلن - 211
پکارنا - مفاعلن - 2121
ہِ پَ ڑے گا - فعلاتن - 2211
تُ کا کہو - مفاعلن - 2121
گَ تُ مے - فعلن - 211


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 18, 2010

مجلسِ خدایانِ اقوامِ قدیم - جاوید نامہ از علامہ اقبال سے ایک اقتباس

زندہ رود (علامہ اقبال) کا افلاک کا سفر پیر رومی کی معیت میں جاری ہے اور انکے ساتھ ساتھ ہمارا بھی۔ اس سے پہلے کی دو پوسٹس میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ فلکِ قمر پر علامہ نبوت کی چار تعلیمات (طواسین) دیکھتے ہیں اور وہیں علامہ نے "طاسینِ محمد (ص)" کے تحت حرمِ کعبہ میں ابوجہل کی روح کا نوحہ لکھا ہے۔

فلکِ قمر سے رومی و علامہ، فلکِ عطارد پر پہنچتے ہیں اور وہاں سید جمال الدین افغانی اور سعید حلیم پاشا کی ارواح کی زیارت کرتے ہیں۔ کافی دلچسپ حصہ ہے اور علامہ ان دونوں مصلحان سے اسلامی اور عالمی امور پر گفتگو کرتے ہیں جیسے اشتراکیت و ملوکیت، محکماتِ عالمِ قرآنی، خلافتِ آدم، حکومت الٰہی وغیرہ۔ اسکے علاوہ روسی قوم کے نام جمال الدین افغانی کا ایک پیغام بھی اس حصے میں شامل ہے۔

فلکِ عطارد سے علامہ اور انکے راہبر پیرِ رومی، فلکِ زہرہ کی طرف پرواز کر جاتے ہیں، اور یہی حصہ ہماری اس پوسٹ کا موضوع ہے۔ فلکِ زہرہ کا تعارف کرواتے ہوئے، رومی علامہ سے فرماتے ہیں۔

اندروں بینی خدایانِ کہن
می شناسم من ہمہ را تن بہ تن

یہاں، زہرہ کے اندر، تُو قدیم خداؤں کو دیکھے گا اور میں ان سب کو ایک ایک کر کے پہچانتا ہوں۔

اور وہ خدا کون کون سے تھے

بعل و مردوخ و یعوق و نسر و فسر
رم خن و لات و منات و عسر و غسر

یہ سب بتوں کے نام ہیں جو قدیم عرب، بابل اور مصر کے معبود و خدا تھے

رومی، علامہ کی معلومات میں مزید اضافہ فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ

بر قیامِ خویش می آرد دلیل
از مزاجِ ایں زمانِ بے خلیل

یہ سارے مرے اور مٹے ہوئے معبود ایک بار پھر اپنے قیام یعنی زندہ ہونے پر موجودہ زمانے کے مزاج سے جو کہ بغیر خلیل (ع) کے ہے، دلیل لاتے ہیں یعنی یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں کوئی بُت شکن نہیں ہے سو ہم پھر سے زندہ ہو گئے ہیں۔

اس تمہید کے بعد رومی علامہ کو زہرہ کے اندر لے جاتے ہیں، اس موقع پر علامہ نے زہرہ کی فضا کی نقشہ کشی دلپذیر انداز میں کی ہے، اور وہاں وہ ایک مجلس دیکھتے ہیں، "مجلسِ خدایانِ اقوامِ قدیم" یعنی قدیم اقوام کے خداؤں کے مجلس۔ علامہ مجلس کی نقشہ کشی کرنے کے بعد اس مجلس کے اراکین کا تعارف کچھ یوں کرواتے ہیں۔

اندریں وادی خدایانِ کہن
آں خدائے مصر و ایں رب الیمن

اس وادی کے اندر پرانے خدا تھے، وہ اگر مصر والوں کا خدا تھا تو یہ یمن والوں کا رب۔

آں ز اربابِ عرب ایں از عراق
ایں الہ الوصل و آں رب الفراق

کوئی عرب والوں کے خداؤں میں سے تھا تو کوئی عراق والوں کے، کوئی وصال (صلح و امن) کا الہ تھا تو کوئی فراق (جنگ و جدل) کا خدا۔

ایں ز نسلِ مہر و دامادِ قمر
آں بہ زوجِ مشتری دارد نظر

کوئی سورج کی نسل میں سے تھا (سوریہ ونشی) تو کوئی چاند کا داماد تھا اور کسی نے مشتری سے شادی کرنے پر نظر رکھی ہوئی تھی یعنی مشتری کا چاہنے والا دیوتا تھا۔

آں یکے در دستِ اُو تیغِ دو رو
واں دگر پیچیدہ مارے در گلو

ایک کے ہاتھ میں دو منہ والی تلوار تھی تو دوسرے نے سانپ اپنے گلے میں لٹکائے ہوئے تھے۔

ہر یکے ترسندہ از ذکرِ جمیل
ہر یکے آزردہ از ضربِ خلیل

لیکن یہ سب کے سب ذکرِ جمیل یعنی ذکرِ حق سے ڈرے ہوئے تھے اور ضربِ خلیل (ع) ) سے آزردہ خاطر تھے کہ اس ضرب نے ان کو پاش پاش کر دیا تھا۔

اسی منظر کی نقشہ کشی جمی انجنیئر نے بھی کی ہے، جو کہ اقبال اکادمی کے شائع کردہ جاوید نامہ ڈیلکس ایڈیشن میں شامل ہے، وہ ملاحظہ کیجیئے، بڑی تصویر دیکھنے کیلیے اس پر کلک کیجیے۔

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال, Javiad Nama, جاوید نامہ, Maulana Rumi, مولانا رومی

اب اس تعارف کے بعد، اس مجلس کی کچھ روداد بھی سنیے۔

گفت مردوخ، آدم از یزداں گریخت
از کلیسا و حرم نالاں گریخت

مردوخ نے کہا، (آج کا آدمی) خدا سے دُور بھاگ گیا ہے، وہ کلیسا اور حرم یعنی مذہب سے نالہ و فریاد (یعنی اسکی برائیاں) کرتا ۔ہوا نکل آیا ہے

تا بیَفزایَد بہ درّاک و نظر
سوئے عہدِ رفتہ باز آید نگر

یہ آدمی (اس امید میں کہ) اپنے ادراک و عقل و سمجھ و نطر کو فزوں کرے یعنی بڑھائے، دیکھو گزرے ہوئے یعنی ہمارے عہد کی طرف دوبارہ واپس آ رہا ہے۔

می برد لذّت ز آثارِ کہن
از تجلی ہائے ما دارد سخن

وہ پرانے آثار سے لذت حاصل کر رہا ہے، اور ہماری تجلیوں کے بارے میں گفتگو کر رہا ہے۔

روزگار افسانۂ دیگر کشاد
می وزد زاں خاکداں بادِ مراد

اس زمانے نے ایک اور افسانے کا باب کھولا ہے، اور اس خاکدان سے ہمارے لیے بادِ مراد آ رہی ہے یعنی یہ زمانہ ہمارے لیے سازگار ہو رہا ہے۔

بعل از فرطِ طرب خوش می سرود
بر خدایاں راز ہائے ما کشود

بعل (مرودوخ کی یہ باتیں سن کر بہت خوش ہوا اور) فرطِ خوشی میں نغمہ گانے لگا اور ان خداؤں پر ہمارے یعنی موجودہ انسان کے راز کھولنے لگا۔

اب نغمۂ بعل بھی سن لیجیے

نغمۂ بعل
پہلا پند

آدم ایں نیلی تتق را بر درید
آں سوئے گردوں خدائے را ندید

انسان نے اس آسمان کو تو پھاڑ ڈالا ہے یعنی ستاروں تک پہنچ رہا ہے لیکن اُس نے آسمان کی دوسری طرف خدا کو نہیں دیکھا۔

در دلِ آدم بجز افکار چیست
ہمچو موج ایں سر کشید و آں رمید

انسان کے دل میں افکار کے سوا اور کچھ نہیں ہے، اور بھی سب عارضی کہ موج کی طرح سر اٹھاتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔

جانش از محسوس می گیرد قرار
بو کہ عہدِ رفتہ باز آید پدید

اُس کی جان صرف محسوسات یعنی حواسِ خمسہ ہی سے چین و قرار پاتی ہے اور اس وجہ سے پوری امید ہے کہ گزرا ہوا دور یعنی ہمارا عہد واپس آ جائے گا۔

زندہ باد افرنگیِ مشرق شناس
آں کہ ما را از لحد بیروں کشید

مشرق کے مزاج کو پہچانچے والا فرنگی زندہ رہے کہ اس نے ہمیں ہماری قبروں سے باہر کھینچ لیا ہے یعنی پھر سے زندہ کر دیا ہے۔

اے خدایانِ کہن وقت است وقت
اے پرانے خداؤ (یہی) وقت ہے وقت ہے (تمھارے عروج کا)۔

دوسرا بند

در نگر آں حلقۂ وحدت شکست
آلِ ابراہیم بے ذوقِ الست

دیکھو، وہ توحید کا حلقہ ٹوٹ گیا ہے، آلِ ابراہیم الست کے ذوق کے بغیر ہے، تلمیح ہے آیت الست بربکم (کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں) کی طرف۔

صحبتش پاشیدہ، جامش ریز ریز
آن کہ بود از بادۂ جبریل مست

اُس کی محفل پراگندہ اور اسکے جام ریزہ ریزہ ہیں، وہ کہ جو کبھی بادۂ جبریل سے مست تھا۔

مردِ حر افتاد در بندِ جہات
با وطن پیوست و از یزداں گسست

آزاد مرد جہات (حواسِ خمسہ) کی قید میں جکڑا ہوا ہے، وہ وطن سے جڑ گیا ہے اور خدا سے جدا ہو گیا ہے۔

خونِ اُو سرد از شِکوہِ دیریاں
لا جرم پیرِ حرم زنار بست

اُس کا خون دیر والوں (کافروں) کی شان و شوکت سے سرد ہو چکا ہے، جس کا نتیجہ ہے کہ پیرِ حرم نے زنار پہن لیا ہے۔

اے خدایانِ کہن وقت است وقت
اے پرانے خداؤ (یہی) وقت ہے وقت ہے (تمھارے عروج کا)۔

تیسرا بند

در جہاں باز آمد ایّامِ طرب
دیں ہزیمت خوردہ از ملک و نسب

دنیا میں ہماری خوشی کا دور پھر واپس آ گیا ہے، دین نے ملک و نسب سے شکست کھا لی ہے۔

از چراغِ مصطفیٰ اندیشہ چیست؟
زاں کہ او را پف زند صد بولہب

اب ہمیں چراغِ مصطفیٰ (یعنی اسلام سے) کیا ڈر اور خطرہ کہ اس چراغ کو بجھانے کیلیے سینکڑوں ابولہب پھونکیں مار رہے ہیں۔

گرچہ می آید صدائے لا الہٰ
آں چہ از دل رفت کے ماند بہ لب

اگرچہ ابھی تک لا الہٰ کی صدا آ رہی ہے لیکن جو دل سے چلا گیا ہے وہ لب پر بھی کب تک رہے گا۔

اہرمن را زندہ کرد افسونِ غرب
روزِ یزداں زرد رو از بیمِ شب

مغرب کے جادو نے اہرمن (شیطان) کو زندہ کر دیا ہے، اور خدا کا دن رات کے خوف سے زرد ہے۔

اے خدایانِ کہن وقت است وقت
اے پرانے خداؤ (یہی) وقت ہے وقت ہے (تمھارے عروج کا)۔

چوتھا بند

بندِ دیں از گردنش باید کشود
بندۂ ما بندۂ آزاد بود

اُس یعنی مسلمانوں کی گردن سے دین کا پھندا کھول دینا چاہیئے کیونکہ ہمارا بندہ تو آزاد بندہ تھا اور یہ مخلتف قیود و حدود میں جکڑے ہوئے ہیں۔

تا صلوٰۃ او را گراں آید ہمے
رکعتے خواہیم و آں ہم بے سجود

چونکہ اس کیلیے نماز ایک کارِ گراں اور بوجھ بن چکی ہے سو ہم چاہتے ہیں کہ اس کیلیے ایک ہی رکعت ہو اور وہ بھی بغیر سجدے کے۔

جذبہ ہا از نغمہ می گردد بلند
پس چہ لذت در نمازِ بے سرود

چونکہ نغمہ و موسیقی سے جذبات بلند ہوتے ہیں سو اس نماز میں کیا لذت ہوگی جس میں راگ رنگ نہ ہو (سو ہماری نماز میں راگ رنگ بھی شامل ہوگا)۔

از خداوندے کہ غیب او را سزد
خوشتر آں دیوے کہ آید در شہود

اُس خدا سے جو غیب میں رہنا پسند کرتا ہے، (انسانوں کیلیے) وہ دیوتا زیادہ بہتر ہے جو سامنے اور مشاہدے میں ہو۔

اے خدایانِ کہن وقت است وقت
سو اے پرانے خداؤ (یہی) وقت ہے وقت ہے (تمھارے عروج کا)۔

یہاں علامہ اور انکے راہبر پیر رومی اس مجلس کو چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں اور فلکِ زہرہ کے دریا میں اترتے ہیں اور وہاں حضرت موسیٰ والے فرعون اور فیلڈ مارشل ہربرٹ کچنر کی روحوں کو دیکھتے ہیں اور ان سے گفتگو کرتے ہین۔ لارڈ کچنر ایک مشہور اور متنازعہ انگریز جنرل تھا جس نے درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشہور مجاہد مہدی سوڈانی کی قبر کھود ڈالی اور لاش کو سزا دی۔

اس ملاقات میں اسی واقعے کے متعلق باتیں ہیں لیکن ہم یہاں اس خوبصورت مجلس سے جدا ہوتے ہیں اس وعدے کے ساتھ کہ اس محفل میں پھر حاضر ہونگے۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 15, 2010

خوشا وہ دل کہ ہو جس دل میں‌ آرزو تیری - آتش کی ایک غزل

خواجہ حیدر علی آتش کی ایک غزل

خوشا وہ دل کہ ہو جس دل میں‌ آرزو تیری
خوشا دماغ جسے تازہ رکھّے بُو تیری

پھرے ہیں مشرق و مغرب سے تا جنوب و شمال
تلاش کی ہے صنم ہم نے چار سُو تیری
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Khwaja Haider Ali Aatish, خواجہ حیدر علی آتش, classical urdu poetry, کلاسیکی اردو شاعری
خواجہ حیدر علی آتش
Khwaja Haider Ali Aatish
شبِ فراق میں اک دم نہیں قرار آیا
خدا گواہ ہے، شاہد ہے آرزو تیری

دماغ اپنا بھی اے گُلبدن معطّر ہے
صبا ہی کے نہیں حصّے میں آئی بُو تیری

مری طرف سے صبا کہیو میرے یوسف سے
نکل چلی ہے بہت پیرہن سے بو تیری

شبِ فراق میں، اے روزِ وصل، تا دمِ صبح
چراغ ہاتھ میں ہے اور جستجو تیری

جو ابر گریہ کناں ہے تو برق خندہ زناں
کسی میں خُو ہے ہماری، کسی میں خُو تیری

کسی طرف سے تو نکلے گا آخر اے شہِ حُسن
فقیر دیکھتے ہیں راہ کو بہ کو تیری

زمانے میں کوئی تجھ سا نہیں ہے سیف زباں
رہے گی معرکے میں آتش آبرو تیری

------

بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
(آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فعِلان بھی آ سکتے ہیں)
اشاری نظام - 2121 2211 2121 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 1 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)
پہلے شعر کی تقطیع -

خوشا وہ دل کہ ہو جس دل میں‌ آرزو تیری
خوشا دماغ جسے تازہ رکھّے بُو تیری

خُ شا وُ دل - مفاعلن - 2121
ک ہُ جس دل - فعلاتن - 2211
مِ آ ر زو - مفاعلن - 2121
تے ری - فعلن - 22
خُ شا د ما - مفاعلن - 2121
غ جِ سے تا - فعلاتن - 2211
زَ رک کِ بُو - مفاعلن - 2121
تے ری - فعلن - 22

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 9, 2010

شورشِ زنجیر بسم اللہ - فیض

فیض احمد فیض کی ایک نظم جو مجھے بہت پسند ہے۔

شورشِ زنجیر بسم اللہ

ہوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بسم اللہ
ہر اک جانب مچا کہرامِ دار و گیر بسم اللہ
گلی کوچوں میں بکھری شورشِ زنجیر بسم اللہ

درِ زنداں پہ بُلوائے گئے پھر سے جنوں والے
دریدہ دامنوں والے، پریشاں گیسوؤں والے
جہاں میں دردِ دل کی پھر ہوئی توقیر بسم اللہ
ہوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بسم اللہ
Faiz Ahmed Faiz, فیض احمد فیض, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
Faiz Ahmed Faiz, فیض احمد فیض

گِنو سب داغ دل کے، حسرتیں شوقیں نگاہوں کی
سرِ دربار پُرسش ہو رہی ہے پھر گناہوں کی
کرو یارو شمارِ نالۂ شبگیر بسم اللہ

ستم کی داستاں، کشتہ دلوں کا ماجرا کہیے
جو زیرِ لب نہ کہتے تھے وہ سب کچھ برملا کہیے
مُصر ہے محتسب رازِ شہیدانِ وفا کہیے
لگی ہے حرفِ نا گفتہ پر اب تعزیر بسم اللہ

سرِ مقتل چلو بے زحمتِ تقصیر بسم اللہ
ہوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بسم اللہ

لاہور جیل
جنوری 1959ء
------

بحر - بحر ہزج مثمن سالم
افاعیل - مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن
اشاری نظام - 2221 2221 2221 2221
(ہندسوں کو اردو طریقے سے پڑھیں یعنی دائیں سے بائیں یعنی 1 پہلے ہے)
تقطیع -
ہوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بسم اللہ
ہر اک جانب مچا کہرام دار و گیر بسم اللہ
گلی کوچوں میں بکھری شورشِ زنجیر بسم اللہ

ہُ ئی پر ام - مفاعیلن - 2221
تِ حا نے عش - مفاعیلن - 2221
ق کی تد بی - مفاعیلن - 2221
ر بس مِل لا - مفاعیلن - 2221
ہَ رِک جا نب - مفاعیلن - 2221 (الف کا وصال نوٹ کریں)۔
مچا کہرا - مفاعیلن - 2221
مِ دا رو گی - مفاعیلن - 2221
ر بس مِل لا - مفاعیلن - 2221
گلی کو چو - مفاعیلن - 2221
مِ بکری شو - مفاعیلن - 2221
ر شے زن جی - مفاعیلن - 2221
ر بس مِل لا - مفاعیلن - 2221

لفظ 'اللہ' کے وزن کے بارے میں ایک وضاحت یہ کہ اسکا صحیح وزن تو ال لا ہ یعنی مفعول یا 2 2 1 ہے اور کچھ ماہرینِ عروض اس لفظ کی آخری 'ہ' کو گرانا جائز نہیں سمجھتے لیکن شعرا عموماً اسکی پروا نہیں کرتے اور بلا تکلف اس کو 'ال لا' یعنی فعلن 2 2 باندھتے ہیں۔ لیکن اس نظم میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے گو میں نے تقطیع میں ہ کو حذف کر دیا ہے لیکن اگر ہ کو نہ بھی گرایا جائے تو آخری رکن مفاعیلن کی جگہ مفاعیلان بنے گا جو کے اسے بحر میں جائز ہے۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 6, 2010

شیخ فخر الدین عراقی کی ایک غزل - دلے یا دلبرے، یا جاں و یا جاناں، نمی دانم

شیخ فخر الدین عراقی نامور صوفی شاعر تھے، انکے کچھ حالات اور ایک غزل پہلے لکھ چکا ہوں، انکی ایک اور خوبصورت غزل لکھ رہا ہوں۔

دلے یا دلبرے، یا جاں و یا جاناں، نمی دانم
ہمہ ہستی تو ای فی الجملہ ایں و آں نمی دانم

تُو دل ہے یا دلبر، تُو جان ہے یا جاناں، میں نہیں جانتا۔ ہر ہستی و ہر چیز تو تُو ہی ہے، میں یہ اور وہ کچھ نہیں جانتا۔

بجز تو در ہمہ عالم دگر دلبر نمی دانم
بجز تو در ہمہ گیتی دگر جاناں نمی دانم

سارے جہان میں تیرے علاوہ میں اور کسی دلبر کو نہیں جانتا، ساری دنیا میں تیرے علاوہ میں اور کسی جاناں کو نہیں پہچانتا۔

بجز غوغائے عشقِ تو، درونِ دل نمی یابم
بجز سودائے وصلِ تو، میانِ جاں نمی دانم

تیرے عشق کے جوش و خروش کے علاوہ میں اپنے دل میں کچھ اور نہیں پاتا، تیرے وصل کے جنون کے علاوہ میں اپنی جان میں کچھ اور نہیں دیکھتا۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Fakhruddin Iraqi, شیخ فخرالدین عراقی ایک خاکہ
شیخ فخرالدین عراقی ایک خاکہ
Fakhruddin Iraqi
مرا با توست پیمانے، تو با من کردہ ای عہدے
شکستی عہد، یا ہستی بر آں پیماں؟ نمی دانم
میرے ساتھ تیرے پیمان ہیں اور تو نے میرے ساتھ عہد کیے، تُو نے اپنے عہد توڑ دیے یا ابھی تک انہی پر ہے، میں کچھ نہیں جانتا، یعنی مجھے اس سے غرض نہیں ہے، عشق میں عہد و پیمان کچھ معنی نہیں رکھتے۔

بہ اُمّیدِ وصالِ تو دلم را شاد می دارم
چرا دردِ دلِ خود را دگر درماں نمی دانم؟

تیرے وصال کی امید سے اپنے دل کو شاد رکھتا ہوں، میں اسی لیے اپنے دل کے درد کیلیے کوئی اور درمان نہیں ڈھونڈتا، یعنی صرف اور صرف تیرے وصل کی امید ہی دردِ دل کا پہلا اور آخری علاج ہے۔

نمی یابم تو را در دل، نہ در عالم، نہ در گیتی
کجا جویم تو را آخر منِ حیراں؟ نمی دانم

مجھ (ہجر کے مارے) کو نہ تُو دل میں ملتا ہے اور نہ جہان و کائنات میں، میں حیران (و پریشان) نہیں جانتا کہ آخر تجھ کو کہاں ڈھونڈوں؟ شاعر کا حیران ہونا ہی اس شعر کا وصف ہے کہ یہیں سے سارے راستے کھلیں گے۔

عجب تر آں کہ می بینم جمالِ تو عیاں، لیکن
نمی دانم چہ می بینم منِ ناداں؟ نمی دانم

یہ بھی عجیب ہے کہ تیرا جمال ہر سُو اور ہر طرف عیاں دیکھتا ہوں، اور میں نادان یہ بھی نہیں جانتا کہ کیا دیکھ رہا ہوں۔

ھمی دانم کہ روز و شب جہاں روشن بہ روئے توست
و لیکن آفتابے یا مہِ تاباں؟ نمی دانم

یہ جانتا ہوں کہ جہان کے روز و شب تیرے ہی جمال سے روشن ہیں لیکن یہ نہیں جانتا کہ تو سورج ہے یا تابناک چاند۔ یہ شعر اور اس سے قبل کے دو اشعار قطعہ محسوس ہوتے ہیں۔

بہ زندانِ فراقت در عراقی پائے بندم شد
رہا خواہم شدن یا نے؟ ازیں زنداں، نمی دانم

عراقی کے پاؤں ہجر کے قید خانے میں بندھے ہوئے ہیں، اور اس قید سے رہا ہونا بھی چاہتا ہوں یا نہیں، نہیں جانتا۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔