Sep 8, 2011

نظم - میرے گھر میں روشن رکھنا - امجد اسلام امجد

میرے گھر میں روشن رکھنا

چینی کی گُڑیا سی جب وہ
چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی
میری جانب آتی ہے تو
اُس کے لبوں پر ایک ستارہ کِھلتا ہے
"پاپا"
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Amjad Islam Amjad, امجد اسلام امجد
امجد اسلام امجد
Amjad Islam Amjad
اللہ۔ اس آواز میں کتنی راحت ہے
ننھے ننھے ہاتھ بڑھا کر جب وہ مجھ سے چُھوتی ہے تو
یوں لگتا ہے
جیسے میری رُوح کی ساری سچّائی
اس کے لمس میں جاگ اٹھتی ہے
اے مالک، اے ارض و سما کو چُٹکی میں بھر لینے والے
تیرے سب معمور خزانے
میری ایک طلب
میرا سب کچھ مجھ سے لے لے
لیکن جب تک
اس آکاش پہ تارے جلتے بُجھتے ہیں
میرے گھر میں روشن رکھنا
یہ معصوم ہنسی

اے دنیا کے رب
کوئی نہیں ہے اس لمحے تیرے میرے پاس
سچ سچ مجھ سے کہہ
تیرے ان معمور خزانوں کی بے انت گرہ میں
بچے کی معصوم ہنسی سے زیادہ پیاری شے
کیا کوئی ہے؟

(امجد اسلام امجد)
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 6, 2011

علامہ اقبال کی ایک فارسی غزل - ز سلطاں کُنَم آرزوے نگاہے

زبورِ عجم میں سے علامہ اقبال کی درج ذیل غزل ایک خوبصورت غزل ہے۔ اس غزل میں ترنم ہے، شعریت ہے، اوجِ خیال ہے اور علامہ کا وہ روایتی اسلوب ہے جو اول و آخر صرف انہی سے منسوب ہے۔ اسی اسلوب کی وجہ سے ایران میں علامہ ہندوستان کے سب سے اہم فارسی شاعر سمجھے جاتے ہیں۔

ز سلطاں کُنَم آرزوے نگاہے
مسَلمانم از گِل نہ سازَم الٰہے


میں تو (حقیقی) سلطان ہی سے نگاہ کی آرزو رکھتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں مٹی سے معبود نہیں بناتا۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال
علامہ محمد اقبال
Allama Iqbal
دلِ بے نیازے کہ در سینہ دارَم
گدا را دھَد شیوۂ پادشاہے


وہ بے نیاز دل جو میں اپنے سینے میں رکھتا ہوں، گدا کو بھی بادشاہ کا انداز عطا کر دیتا ہے۔

ز گردوں فتَد آنچہ بر لالۂ من
فرَوریزَم او را بہ برگِ گیاہے


آسمان سے جو کچھ بھی میرے پھول (دل) پر نازل ہوتا ہے میں اسے گھاس کے پتوں پر گرا دیتا ہوں (عام کر دیتا ہوں)۔

چو پرویں فرَو ناید اندیشۂ من
بَدریوزۂ پر توِ مہر و ماہے


میرا فکر ستاروں کی طرح نیچے نہیں آتا کہ چاند اور سورج سے روشنی کی بھیک مانگے۔

اگر آفتابے سُوئے من خرَامَد
بشوخی بگردانَم او را ز راہے


اگر سورج میری طرف آتا ہے (مجھے روشنی کی بھیک دینے) تو میں شوخی سے اسے راستہ میں ہی سے واپس کر دیتا ہوں۔

بہ آں آب و تابے کہ فطرت بہ بَخشَد
درَخشَم چو برقے بہ ابرِ سیاہے


اس آب و تاب سے جو مجھے فطرت نے بخشی ہے، میں سیاہ بادلوں پر بجلی کی طرح چمکتا ہوں۔

رہ و رسمِ فرمانروایاں شَناسَم
خراں بر سرِ بام و یوسف بچاہے


میں حکمرانوں (صاحبِ اختیار) کے راہ و رسم کو پہچانتا ہوں کہ (ان کی کج فہمی سے) گدھے چھت (سر) پر ہیں اور یوسف کنویں میں۔
--------

بحر - بحر متقارب مثمن سالم
افاعیل - فَعُولُن فَعُولُن فَعُولُن فَعُولُن

اشاری نظام - 221 221 221 221

تقطیع -

ز سلطاں کُنَم آرزوے نگاہے
مسَلمانم از گِل نہ سازَم الٰہے

ز سُل طا - فعولن - 221
کُ نَم آ - فعولن - 221
ر زو اے - فعولن - 221
نِ گا ہے - فعولن - 221

مُ سل ما - فعولن - 221
نَ مز گِل - فعولن - 221 (الفِ وصل استعمال ہوا ہے)
نَ سا زم - فعولن - 221
اِ لا ہے - فعولن - 221

-----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 3, 2011

یہ بھی سُنو ۔۔۔۔۔۔

قلتِ سامعین و قارئین کا شور ہر طرف ہے، کسی سے بات کر کے دیکھ لیں، کسی عالم فاضل سے، کسی خطیب مقرر سے، کسی ادیب سے، کسی شاعر کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیں، حتٰی کہ کسی بلاگر کا حالِ دل پوچھ لیں، یہی جواب ملے گا کہ جناب اب اچھے قاری یا سامع کہاں ملتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ قارئین اور سامعین کا جواب بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔

دوسروں تک اپنی آواز پہنچانا اور کچھ نہ کچھ سنانا شاید بہت ضروری ہے، لیکن ضروری تو نہیں کہ ہر کسی کی اس نقار خانے میں سنی جائے مرزا غالب فرماتے ہیں۔

کب وہ سنتا ہے کہانی میری
اور پھر وہ بھی زبانی میری

ہاں مرزا کے 'روگ' کچھ ایسے ہی تھے لیکن یہ بھی چنداں ضروری نہیں کہ ہر کسی کا مرزا والا حشر ہی ہو، مولانا رومی علیہ الرحمہ ایسی آواز سنا گئے کہ صدیاں گزر گئیں لیکن آج تک ہر طرف صاف صاف اور واضح سنائی دیتی ہے، 'مثنوی' کا آغاز اسی سننے سنانے سے کیا ہے اور کیا خوب آغاز کیا ہے، فرماتے ہیں۔

بِشنو، از نَے چوں حکایت می کُنَد
وَز جدائی ہا شکایت می کُنَد
بانسری کی سنو، کیا حکایت بیان کرتی ہے، اور (ازلی) جدائیوں کی کیا شکایت کرتی ہے۔

اور داستان سنانے والا، اللہ کا ایک بندہ ایسا گزرا ہے کہ سلطانِ وقت نے اسے ایک ایک شعر کے بدلے ایک ایک اشرفی دینے کا وعدہ کیا اور اس نے چالیس ہزار ایسے اشعار سنائے کہ ابد تک اشرفیوں میں تلتے رہیں گے۔ لیکن وائے اس شاہ پر کہ اپنے وعدے سے مکر گیا اور سونے کی اشرفیوں کو چاندی کے سکوں سے بدل دیا، خود دار فردوسی نے سلطان محمود غزنوی کی اس وعدہ خلافی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا، 'شاہنامہ' کو بغل میں دابا اور اسکے پایہ تخت سے بھاگ گیا۔ 'زود پشیماں' سلطان کو سالہا سال کے بعد احساس ہوا اور جب اس شاعرِ بے مثال کے شہر پہنچا تو اسکے گھر چالیس ہزار اشرفیاں لیکر حاضر ہوا لیکن درویش شاعر دنیا سے کوچ کر چکا تھا، خوددار باپ کی خوددار بیٹی نے سلطان سے اشرفیاں لینے سے بھی انکار کر دیا۔

سلطان کی یہ ناگفتنی کہانی بھی ہمیشہ سنائی جاتی رہے گی لیکن کہاں دنیا کا سلطان اور کہاں اقلیم سخن کا فرمارواں، فردوسی پورے جوش و جذبے سے فرماتے ہیں

ع- دگرہا شنیدستی ایں ھَم شَنَو
دیگر تو بہت کچھ سن چکے اب یہ بھی سنو۔

خیر کہاں یہ بزرگ 'بزورِ بازو' سنانے والے کہ اتنا زورآور قلم کسی کو ہی نصیب ہوا ہوگا اور کہاں ہم جیسے طفلانِ مکتب جو کسی کا یہ شعر گنگنا کر ہی دل خوش کر لیتے ہیں۔

وہی قصّے ہیں وہی بات پرانی اپنی
کون سنتا ہے بھلا آج کہانی اپنی

اب سننے سنانے کی بات 'پرانی کہانیوں' تک پہنچ ہی گئی ہے تو اس طفلِ مکتب کی ایک رباعی بھی سن لیں جو کچھ سال پرانی ہے اور میری پہلی رباعی ہے۔

بکھرے ہوئے پُھولوں کی کہانی سُن لے
ہے چار دنوں کی زندگانی سُن لے
پیری میں تو ہوتے ہیں سبھی وقفِ عشق
کرتا ہے خراب کیوں جوانی سُن لے

سنایا تو ظاہر ہے اپنے آپ کو ہی ہے، ہاں اگر کسی قاری کو لگے کہ ان کو سنا رہا ہوں تو انہیں مبارک باد کہ ابھی تک جوان ہیں یا کم از کم اپنے آپ کو جوان سمجھتے ہیں۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 2, 2011

ملتے ہی خود کو آپ سے وابستہ کہہ دیا - مرتضیٰ برلاس

ملتے ہی خود کو آپ سے وابستہ کہہ دیا
محسوس جو کیا وہی برجستہ کہہ دیا

میں چپ ہُوا تو زخم مرے بولنے لگے
سب کچھ زبانِ حال سے لب بستہ کہہ دیا

خورشیدِ صبحِ نو کو شکایت ہے دوستو
کیوں شب سے ہم نے صبح کو پیوستہ کہہ دیا

چلتا رہا تو دشت نوردی کا طنز تھا
ٹھہرا ذرا تو آپ نے پا بستہ کہہ دیا

دیکھا تو ایک آگ کا دریا تھا موجزن
اس دورِ نا سزا نے جسے رستہ کہہ دیا

دیکھی گئی نہ آپ کی آزردہ خاطری
کانٹے ملے تو ان کو بھی گلدستہ کہہ دیا


(مرتضٰی برلاس)

----

بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف

افاعیل - مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
(آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)

اشاری نظام - 122 1212 1221 212
ہندسے دائیں سے بائیں، اردو کی طرح پڑھیے۔
(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

ملتے ہی خود کو آپ سے وابستہ کہہ دیا
محسوس جو کیا وہی برجستہ کہہ دیا

ملتے ہِ - مفعول - 122
خُد کُ آپ - فاعلات - 1212
سِ وابستہ - مفاعیل - 1221
کہہ دیا - فاعلن - 212

محسوس - مفعول - 122
جو کیا وَ - فاعلات - 1212
ہِ برجستہ - مفاعیل - 1221
کہہ دیا - فاعلن - 212

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 26, 2011

نظیری نیشاپوری کے کچھ متفرق اشعار

مشہور فارسی شاعر محمد حُسین نظیری نیشاپوری کے کچھ خوبصورت اشعار۔

دل کہ جمع است، غم از بے سر و سامانی نیست
فکرِ جمعیّت اگر نیست، پریشانی نیست

دل (خاطر) جمع ہے، سو بے سر و سامانی کا کوئی غم نہیں ہے، اگر جمع کرنے کی فکر نہ ہو تو (دنیا میں) کوئی پریشانی نہیں ہے۔
---------

نیست در خشک و ترِ بیشۂ من کوتاہی
چوبِ ہر نخل کہ منبر نشَوَد دار کنم

نہیں ہے میرے جنگل ( خدا کی دنیا) میں کوئی بھی خشک و تر چیز بیکار، جس درخت کی لکڑی سے منبر نہیں بن سکتا میں اس سے سولی بنا لیتا ہوں۔
---------

رُوئے نِکو معالجۂ عمرِ کوتہ ست
ایں نسخہ از علاجِ مسیحا نوشتہ ایم

کسی نیک آدمی کا چہرہ (دیدار) عمرِ کوتاہ کا علاج ہے، یہ نسخہ میں نے مسیحا کے علاج (نسخوں) میں سے لکھا ہے۔
---------

بزیرِ خرقہ نہاں بادہ می خورد صوفی
حکیم و عارف و زاہد ازیں مستند

(ریا کار) صُوفی شراب اپنی گدڑی کے نیچے چھپا کر پیتا ہے (اور اس کے بھائی بند) حکیم، عارف، زاہد سبھی اسی (طرح پینے) سے مست ہیں۔
---------

ایں رسمہائے تازہ ز حرمانِ عہدِ ماست
عنقا بروزگار کسے نامہ بَر نہ شُد

یہ نئی رسمیں ہمارے عہد (وعدہ) کی نا امیدی و حسرت و بد نصیبی کی وجہ سے ہیں، دنیا میں عنقا تو کسی کا نامہ بر نہ ہوا تھا۔
---------

مَحبّت در دلِ غم دیدہ الفت بیشتر گیرَد
چراغے را کہ دودے ہست در سر زود در گیرَد

غم دیدہ دل میں محبت بہت اثر کرتی ہے، (جیسا کہ) جس چراغ میں دھواں ہو (یعنی وہ ابھی ابھی بجھا ہو) وہ بہت جلد آگ پکڑ لیتا ہے۔
---------

چہ خوش است از دو یکدل سرِ حرف باز کردن
سخنِ گذشتہ گفتن، گلہ را دراز کردن

کیا ہی اچھا (ہوتا) ہے دو گہرے دوستوں کا (آپس میں) گفتگو کا آغاز کرنا، بیتی باتیں کرنا اور گلوں کو دراز کرنا۔
---------

بغیرِ دل ھمہ نقش و نگار بے معنیست
ھمیں ورق کہ سیہ گشتہ مدّعا اینجاست

دل کے بغیر تمام نقش و نگار بے معنی ہیں، یہی ورق (یعنی دل) جو سیاہ ہو گیا ساری بات اور سارا مدعا تو یہیں ہے یعنی ظاہری نقش و نگار چاہے جتنے بھی خوب ہوں سیاہ دل کے ساتھ بے معنی ہیں۔

ز فرق تا قَدَمَش ہر کجا کہ می نگرَم
کرشمہ دامنِ دل می کشَد کہ جا اینجاست

اسکے سر سے لیکر اسکے قدموں تک میں جہاں بھی (جس حصے کو بھی) دیکھتا ہوں انکی رعنائی میرے دامنِ دل کو کھینچتی ہے کہ دیکھنے کی جگہ یہیں ہے، محبوب کی تعریف سر سے پاؤں تک کر دی ہے۔

ز کوئے عجز نظیری سرِ نیاز مکش
ز ہر رہے کہ درآیند انتہا اینجاست

نظیری، عجز کے کوچے سے اپنا سرِ نیاز مت اٹھا کہ جس راہ سے بھی آئیں انتہا تو یہیں ہے۔
---------

مجلس چو بر شکست تماشا بما رسید
در بزم چوں نماند کسے، جا بما رسید

مجلس جب اختتام کو پہنچی تو ہماری دیکھنے کی باری آئی، جب بزم میں کوئی نہ رہا ہمیں جگہ ملی۔
---------

منظورِ یار گشت نظیری کلامِ ما
بیہودہ صرفِ حرف نکردیم دودہ را

نظیری ہمارا کلام یار کو پسند آ گیا، (تو گویا) ہم نے حرفوں پر فضول سیاہی خرچ نہیں کی۔
---------

سماعِ دُرد کشاں، صُوفیاں چہ می دانند
ز شیوہ ہائے سَمندر، سپند را چہ خبر

تلچھٹ (دُرد) پینے والوں کے سماع کو صُوفی کیا جانیں، آگ میں جل کر زندہ رہنے والے (سمندر) کے طریق کا آگ میں جل کر ختم ہو جانے والی حرمل کو کیا خبر۔

--------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 23, 2011

صائب تبریزی کے کچھ متفرق اشعار - 1

مشہور فارسی شاعر مرزا محمد علی صائب تبریزی کے کچھ متفرق اشعار

گرفتم سہل سوزِ عشق را اوّل، ندانستم
کہ صد دریائے آتش از شرارے می شود پیدا

اول اول میں نے سوزِ عشق کو آسان سمجھا اور یہ نہ جانا کہ اسی ایک چنگاری سے آگ کے سو سو دریا جنم لیتے ہیں۔
---------

مرا ز روزِ قیامت غمے کہ ھست، اینست
کہ روئے مردُمِ عالم دوبارہ باید دید

(روزِ قیامت کا مجھے جو غم ہے وہ یہی ہے کہ دنیا کے لوگوں کا چہرہ دوبارہ دیکھنا پڑے گا)
---------
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, saib tabrizi, صائب تبریزی
مجسمہ صائب تبریزی
ہَماں بہتر کہ لیلٰی در بیاباں جلوہ گر باشَد
ندارَد تنگنائے شہر تابِ حسنِ صحرائی

یہی بہتر ہے کہ لیلٰی کسی بیاباں میں جلوہ گر ہو، کہ تنگنائے شہر (شہر کے تنگ کوچے / تنگ دل لوگ) حسنِ صحرائی کی تاب (قدر) نہیں رکھتے۔
---------

صائب دوچیز می شکند قدرِ شعر را
تحسینِ ناشناس و سکوتِ سخن شناس

اے صائب، دو چیزیں (کسی) شعر کی قدر و قیمت ختم کر دیتی ہیں، ایک (سخن) ناشناس کی پسندیدگی (شعر کی داد دینا) اور دوسری سخن شناس کا خاموش رہنا (شعر کی داد نہ دینا)۔
---------

خواھی بہ کعبہ رو کن و خواھی بہ سومنات
از اختلافِ راہ چہ غم، رھنما یکے است

چاہے کعبہ کی طرف جائیں یا سومنات کی طرف، اختلافِ راہ کا غم (نفرت؟) کیوں ہو کہ راہنما تو ایک ہی ہے۔

ایں ما و من نتیجۂ بیگانگی بود
صد دل بہ یکدگر چو شود آشنا، یکے است

یہ میرا و تیرا (من و تُو کا فرق) بیگانگی کا نتیجہ ہے۔ سو دل بھی جب ایک دوسرے کے آشنا ہو جاتے ہیں تو وہ ایک ہی ہوتے ہیں (ایک ہی بن جاتے ہیں)۔
---------

من آں وحشی غزَالَم دامنِ صحراے امکاں را
کہ می‌ لرزَم ز ہر جانب غبارے می ‌شوَد پیدا

میں وہ وحشی (رم خوردہ) ہرن ہوں کہ صحرائے امکان میں کسی بھی جانب غبار پیدا ہو (نظر آئے) تو لرز لرز جاتا ہوں۔
---------

خار در پیراهنِ فرزانہ می ‌ریزیم ما
گل بہ دامن بر سرِ دیوانہ می‌ ریزیم ما

ہم فرزانوں کے پیراہن پر کانٹے (اور خاک) ڈالتے ہیں، اور دامن میں جو گل ہیں وہ دیوانوں کے سر پر ڈالتے ہیں۔

در دلِ ما شکوه‌ٔ خونیں نمی ‌گردد گره
هر چہ در شیشہ است، در پیمانہ می‌ ریزیم ما

ہمارے دل میں کوئی خونی شکوہ گرہ نہیں ڈالتا (دل میں کینہ نہیں رکھتے) جو کچھ بھی ہمارے شیشے میں ہے وہ ہم پیمانے میں ڈال دیتے ہیں۔
---------

اگرچہ وعدۂ خوباں وفا نمی دانَد
خوش آں حیات کہ در انتظار می گذرَد

اگرچہ خوباں کا وعدہ، وفا ہونا نہیں جانتا (وفا نہیں ہوتا، لیکن) میں اس زندگی سے خوش ہوں کہ جو (تیرے) انتظار میں گزر رہی ہے۔
---------

ز چرخ شیشہ و از آفتاب ساغر کُن
بطاقِ نسیاں بگزار جام و مینا را

آسمان کو شیشہ (بوتل) اور سورج کو پیمانہ بنا، اور جام و مینا کو طاقِ نسیاں پر رکھ دے۔
---------

دوست دشمن می شود صائب بوقتِ بے کسی
خونِ زخمِ آہواں رہبر شود صیاد را

مشکل وقت میں دوست بھی دشمن ہو جاتے ہیں جیسے ہرن کے زخموں سے بہنے والا خون شکاری کی رہنمائی کرتا ہے
---------

گر چہ صائب دستِ ما خالیست از نقدِ جہاں
چو جرَس آوازۂ در کارواں داریم ما

صائب اگرچہ ہمارے ہاتھ دنیا کے مال و دولت سے خالی ہیں لیکن ہم کارواں میں وہی حیثیت رکھتے ہیں جو جرس کی آواز کی ہوتی ہے (کہ اسی آواز پر کارواں چلتے ہیں)۔
---------

مولانا شبلی نعمانی، 'شعر العجم' میں میرزا صائب تبریزی کے احوال میں، سرخوش کے تذکرہ 'کلمات الشعراء' کے حوالے سے لکھتے ہیں:

"ایک دفعہ [صائب تبریزی] راہ میں چلا جا رہا تھا، ایک کتے کو بیٹھا ہوا دیکھا، چونکہ کتا جب بیٹھتا ہے تو گردن اونچی کر کے بیٹھتا ہے، فوراً یہ مضمون خیال میں آیا

شوَد ز گوشہ نشینی فزوں رعونتِ نفس
سگِ نشستہ ز استادہ، سرفراز ترست"

گوشہ نشینی سے رعونتِ نفس اور بھی بڑھ گئی کہ بیٹھے ہوئے کتے کا سر کھڑے ہوئے کتے سے بھی بلند ہوتا ہے۔ 'سرفراز' کا لفظ عجب لطف دے رہا ہے شعر میں۔

---------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 20, 2011

ابر اُٹھا وہ ناگہاں - جوش ملیح آبادی کی ایک شاہکار نظم

شاعرِ انقلاب جوش ملیح آبادی کی ایک انتہائی خوبصورت نظم، موسم کی مناسبت سے۔

ابر اُٹھا وہ ناگہاں
نغمہ زناں، ترانہ خواں
تُند عناں، رواں دواں
رقص کناں و پر فشاں
ساقیٔ بادہ فام ہاں

ابر اٹھا وہ ناگہاں
مُژدہ ہو خیلِ مے کشاں
ابر اٹھا وہ ناگہاں

سرخ و سیاہ روز و شب
غرقِ تلاطمِ عَنَب
ارض و سما بہ صد طرَب
سینہ بہ سینہ، لب بہ لب
چشم بہ چشم، جاں بہ جاں

ابر اٹھا وہ ناگہاں
مژدہ ہو خیلِ مے کشاں
ابر اٹھا وہ ناگہاں
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee,josh malihabadi, جوش ملیح آبادی
josh malihabadi, جوش ملیح آبادی

ہمہمہ، ہاؤ ہو، ہُمَک
دھوم، دھمک، دہل، دمَک
جھوم، جھڑی، جھلک، جھمَک
گونج، گرج، گھمر، گمَک
کوہ و کمر کشاں کشاں

ابر اٹھا وہ ناگہاں
مژدہ ہو خیلِ مے کشاں
ابر اٹھا وہ ناگہاں

گنگ و جمن میں کھلبلی
دشت و جبَل پہ تیرگی
طاق و رواق اگرَئی
پست و بلند سرمئی
ارض و سما دُھواں دُھواں

ابر اٹھا وہ ناگہاں
مژدہ ہو خیلِ مے کشاں
ابر اٹھا وہ ناگہاں

ابرِ سیہ جھکا، رکا
عمرِ رواں رسَن بہ پا
ظلمت و نور ہم رِدا
نصب ہے خیمہ وقت کا
شام و سحر کے درمیاں

ابر اٹھا وہ ناگہاں
مژدہ ہو خیلِ مے کشاں
ابر اٹھا وہ ناگہاں

چرخِ ترانہ بار پر
چادرِ زرنگار پر
جادۂ لالہ کار پر
مینہ کے ہر ایک تار پر
دُھنکی ہوئی دھنک دواں

ابر اٹھا وہ ناگہاں
مژدہ ہو خیلِ مے کشاں
ابر اٹھا وہ ناگہاں

غرقِ نشاط، بحر و بر
آبِ غنا کمر کمر
تھاپ کی گونج الحذر
جھوم گئے شجر و حَجَر
کُوک اٹھیں جوانیاں

ابر اٹھا وہ ناگہاں
مژدہ ہو خیلِ مے کشاں
ابر اٹھا وہ ناگہاں

کھول رہی ہے بال، نَے
گھول رہی ہے سُر میں لَے
تول رہی ہے رُخ کو مَے
ڈول رہا ہے فرِّ کَے
بول رہی ہیں انکھڑیاں

ابر اٹھا وہ ناگہاں
مژدہ ہو خیلِ مے کشاں
ابر اٹھا وہ ناگہاں

سانولیاں مہک گئیں
نشہ چڑھا، دہک گئیں
مست ہوئیں، بہک گئیں
چوڑیاں سب کھنک گئیں
تن میں کڑک اٹھی کماں

ابر اٹھا وہ ناگہاں
مژدہ ہو خیلِ مے کشاں
ابر اٹھا وہ ناگہاں

رقص کے پھر علَم گڑے
لَے نے ہوا پہ نگ جڑے
بجنے لگے کڑے چھڑے
کیف میں پاؤں یوں پڑے
فرش ہوا رواں دواں

ابر اٹھا وہ ناگہاں
مژدہ ہو خیلِ مے کشاں
ابر اٹھا وہ ناگہاں

گائے نرَت میں ولولے
بھاؤ میں بول جاگ اٹھے
تال کے بال کُھل گئے
ہاتھ اٹھے جُڑے جُڑے
قوسِ قزح کا سائباں

ابر اٹھا وہ ناگہاں
مژدہ ہو خیلِ مے کشاں
ابر اٹھا وہ ناگہاں

جھول رہے ہیں سیم تن
جُھوم رہا ہے بانکپن
زیر و زبر ہے پھول بن
چیخ رہے ہیں یوں بدن
گونج رہی ہیں چولیاں

ابر اٹھا وہ ناگہاں
مژدہ ہو خیلِ مے کشاں
ابر اٹھا وہ ناگہاں

با ہمہ شوخی و فسوں
زیرِ نوائے ارغنُوں
شرم کی جھلکیاں ہیں یوں
جیسے کھڑی ہیں سرنگوں
بیاہیوں میں کنواریاں

ابر اٹھا وہ ناگہاں
مژدہ ہو خیلِ مے کشاں
ابر اٹھا وہ ناگہاں

اُف یہ رقیق اوڑھنی
بوندیوں کی بنی ہوئی
مے میں سموئی سر خوشی
نَے میں ڈھلی شگفتگی
لے میں پروئی بوندیاں

ابر اٹھا وہ ناگہاں
مژدہ ہو خیلِ مے کشاں
ابر اٹھا وہ ناگہاں

سُوئے زمیں گھٹا چلی
چھائی گھٹا، فضا چلی
گائی فضا، ہوا چلی
آئی ہوا، نوا چلی
زیرِ نوا چھنن چھناں

ابر اٹھا وہ ناگہاں
مژدہ ہو خیلِ مے کشاں
ابر اٹھا وہ ناگہاں

آبِ رواں شَرَر شَرَر
اولتیاں جَھرَر جَھرَر
برقِ تپاں کَرَر کَرَر
جام و سبو جَگر جَگر
چرخِ کہن گھنن گھناں

ابر اٹھا وہ ناگہاں
مژدہ ہو خیلِ مے کشاں
ابر اٹھا وہ ناگہاں

کاگ اُڑے، جلا اگر
پردہ ہلا، اٹھی نظر
آئی وہ دخترِ قمر
شیشے جھکے، بجا گجَر
قُلقلِ مے نے دی اذاں

ابر اٹھا وہ ناگہاں
مژدہ ہو خیلِ مے کشاں
ابر اٹھا وہ ناگہاں

اُف یہ غزالہ خُو سفر
اُف یہ خروشِ بال و پر
بہرِ خدا، ٹھہر، ٹھہر
فرشِ زمیں کدھر؟ کدھر؟
چرخِ بریں، کہاں کہاں؟

ابر اٹھا وہ ناگہاں
مژدہ ہو خیلِ مے کشاں
ابر اٹھا وہ ناگہاں

"فنون، جولائی 1963ء"

------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 15, 2011

سو بار چمن مہکا، سو بار بہار آئی -- صُوفی غلام مُصطفٰی تبسم

سو بار چمن مہکا، سو بار بہار آئی
دنیا کی وہی رونق، دل کی وہی تنہائی

اک لحظہ بہے آنسو، اک لحظہ ہنسی آئی
سیکھے ہیں نئے دل نے اندازِ شکیبائی

یہ رات کی خاموشی یہ عالمِ تنہائی
پھر درد اٹھا دل میں پھر یاد تری آئی

اس عالمِ ویراں میں کیا انجمن آرائی
دو روز کی محفل ہے اک عمر کی تنہائی

اس موسمِ گل ہی سے بہکے نہیں دیوانے
ساتھ ابرِ بہاراں کے وہ زلف بھی لہرائی

urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, sufi ghulam mustafa tabassum, صوفی غلام مصطفیٰ تبسم
صوفی غلام مصطفیٰ تبسم
Sufi Ghulam Mustafa Tabassum
ہر دردِ محبّت سے الجھا ہے غمِ ہستی
کیا کیا ہمیں یاد آیا جب یاد تری آئی

چرکے وہ دیے دل کو محرومیٔ قسمت نے
اب ہجر بھی تنہائی اور وصل بھی تنہائی

جلوؤں کے تمنّائی جلوؤں کو ترستے ہیں
تسکین کو روئیں گے جلوؤں کے تمنّائی

دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبّت کے
آغاز بھی رسوائی، انجام بھی رسوائی

دنیا ہی فقط میری حالت پہ نہیں چونکی
کچھ تیری بھی آنکھوں میں ہلکی سی چمک آئی

اوروں کی محبت کے دہرائے ہیں افسانے
بات اپنی محبت کی ہونٹوں پہ نہیں آئی

افسونِ تمنّا سے بیدار ہوئی آخر
کچھ حسن میں بے باکی کچھ عشق میں زیبائی

وہ مست نگاہیں ہیں یا وجد میں رقصاں ہے
تسنیم کی لہروں میں فردوس کی رعنائی

آنکھوں نے سمیٹے ہیں نظروں میں ترے جلوے
پھر بھی دلِ مضطر نے تسکین نہیں پائی

سمٹی ہوئی آہوں میں جو آگ سلگتی تھی
بہتے ہوئے اشکوں نے وہ آگ بھی بھڑکائی

یہ بزمِ محبّت ہے، اس بزمِ محبّت میں
دیوانے بھی شیدائی، فرزانے بھی شیدائی

پھیلی ہیں فضاؤں میں اس طرح تری یادیں
جس سمت نظر اُٹّھی آواز تری آئی

اک ناز بھرے دل میں یہ عشق کا ہنگامہ
اک گوشہٴ خلوت میں یہ دشت کی پنہائی

ان مدھ بھری آنکھوں میں کیا سحر تبسّم تھا
نظروں میں محبت کی دنیا ہی سمٹ آئی

(صوفی غلام مصطفٰی تبسم)
——–
بحر - بحر ہزج مثمن اخرب
(یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی ہر مصرع دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا ہے اور ہر ٹکڑا، ایک مصرع کے احکام میں آ سکتا ہے۔ )

افاعیل - مَفعُولُ مَفَاعِیلُن / مَفعُولُ مَفَاعِیلُن

اشاری نظام - 122 2221 122 2221

تقطیع -
سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی
دنیا کی وہی رونق، دل کی وہی تنہائی
سو بار - مفعول - 122
چمن مہکا - مفاعیلن - 2221
سو بار - مفعول - 122
بہا رائی - مفاعیلن - 2221 (الفِ وصل ساقط ہوا ہے)۔

دنیا کِ - مفعول - 122
وہی رونق - مفاعیلن - 2221
دل کی وَ - مفعول - 122
ہِ تنہائی - مفاعیلن - 2221

----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 13, 2011

ضبط اپنا شعار تھا، نہ رہا - فانی بدایونی

ضبط اپنا شعار تھا، نہ رہا
دل پہ کچھ اختیار تھا، نہ رہا

دلِ مرحوم کو خدا بخشے
ایک ہی غم گسار تھا، نہ رہا

موت کا انتظار باقی ہے
آپ کا انتظار تھا، نہ رہا

اب گریباں کہیں سے چاک نہیں
شغلِ فصلِ بہار تھا، نہ رہا

آ، کہ وقتِ سکونِ مرگ آیا
نالہ نا خوش گوار تھا، نہ رہا
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Fani Badayuni, فانی بدایونی
فانی بدایونی Fani Badayuni

ان کی بے مہریوں کو کیا معلوم
کوئی اُمّیدوار تھا، نہ رہا

آہ کا اعتبار بھی کب تک
آہ کا اعتبار تھا، نہ رہا

کچھ زمانے کو سازگار سہی
جو ہمیں سازگار تھا، نہ رہا

مہرباں، یہ مزارِ فانی ہے
آپ کا جاں نثار تھا، نہ رہا

(فانی بدایونی)

-----


بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن مُفاعِلُن فَعلُن

اشاری نظام - 2212 2121 22
ہندسوں کو اردو رسم الخط کے مطابق پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 2212 پہلے پڑھیے۔

تقطیع -

ضبط اپنا شعار تھا، نہ رہا
دل پہ کچھ اختیار تھا، نہ رہا

ضبط اپنا - فاعلاتن - 2212
شعار تھا - مفاعلن - 2121
نَ رہا - فَعِلن - 211

دل پ کچ اخ - فاعلاتن - 2212
تیار تھا - مفاعلن - 2121
نَ رہا - فَعِلن - 211

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 9, 2011

عشق میں بے خوف و خطر چاہئے - میر تقی میر

عشق میں بے خوف و خطر چاہئے
جان کے دینے کو جگر چاہئے

قابلِ آغوش ستم دیدگاں
اشک سا پاکیزہ گہر چاہئے

شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہئے

عشق کے آثار ہیں اے بوالہوس
داغ بہ دل، دست بہ سر چاہئے

سینکڑوں مرتے ہیں سدا، پھر بھی یاں
واقعہ اک شام و سحر چاہئے

meer, taqi, meer taqi, meer, classical urdu poetry, urdu poetry, میر، تقی، میر تقی میر، کلاسیکی اردو شاعری، اردو شاعری, ilm-e-arooz, taqtee,Mir Taqi Mir
Mir Taqi Mir, میر تقی میر

حال یہ پہنچا ہے کہ اب ضعف سے
اٹھتے پلک، ایک پہر چاہئے

کم ہیں شناسائے زرِ داغِ دل
اس کے پرکھنے کو نظر چاہئے

خوف قیامت کا یہی ہے کہ میر
ہم کو جیا بارِ دگر چاہئے

(میر تقی میر)

-----

بحر - سریع مسدّس مطوی مکسوف

افاعیل - مُفتَعِلُن مُفتَعِلُن فاعِلُن

اشاری نظام - 2112 2112 212

تقطیع -

عشق میں بے خوف و خطر چاہئے
جان کے دینے کو جگر چاہئے

عشق مِ بے - مُفتَعِلُن - 2112
خوف خطر - مُفتَعِلُن - 2112
چاہیے - فاعلن - 212

جان کِ دے - مُفتَعِلُن - 2112
نے کُ جگر - مُفتَعِلُن - 2112
چاہیے - فاعلن - 212

------
مزید پڑھیے۔۔۔۔