Sep 14, 2012

حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا - قتیل شفائی

حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا
ٹوٹے بھی جو تارا تو زمیں پر نہیں گرتا

گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا

سمجھو وہاں پھل دار شجر کوئی نہیں ہے
وہ صحن کہ جِس میں کوئی پتھّر نہیں گرتا

اِتنا تو ہوا فائدہ بارش کی کمی سے
اِس شہر میں اب کوئی پھسل کر نہیں گرتا

انعام کے لالچ میں لکھے مدح کسی کی
اتنا تو کبھی کوئی سخنور نہیں گرتا

حیراں ہے کوئی روز سے ٹھہرا ہوا پانی
تالاب میں اب کیوں کوئی کنکر نہیں گرتا
Qateel Shifai, قتیل شفائی, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Urdu Poetry, Urdu Shairy, Urdu Ghazl, Taqtee, Behr, علم عروض، تقطیع، اردو شاعری، اردو غزل
Qateel Shifai, قتیل شفائی

اُس بندہٴ خوددار پہ نبیوں کا ہے سایا
جو بھوک میں بھی لقمہٴ تر پر نہیں گرتا

کرنا ہے جو سر معرکہِ زیست تو سُن لے
بے بازوئے حیدر، درِ خیبر نہیں گرتا

قائم ہے قتیل اب یہ مرے سر کے ستوں پر
بھونچال بھی آئے تو مرا گھر نہیں گرتا
-----

قافیہ - اَر یعنی رے ساکن اور اس سے پہلے زبر کی آواز جیسے قلندر میں دَر، پَر، سمندر میں دَر، پتھر میں تھَر، کر وغیرہ۔

ردیف - نہیں گرتا

بحر - بحرِ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف

 افاعیل: مَفعُولُ مَفَاعیلُ مَفَاعیلُ فَعُولُن
آخری رکن فعولن کی جگہ مسبغ رکن فعولان بھی آ سکتا ہے۔

علامتی نظام - 122 / 1221 / 1221 / 221
(آخری رکن 221 کی جگہ 1221 بھی آ سکتا ہے)
ہندسوں کو اردو رسم الخظ کے مطابق یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی  122 پہلے ہے اور اس میں بھی 2 پہلے ہے۔

 تقطیع -

حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا
ٹوٹے بھی جو تارا تو زمیں پر نہیں گرتا

حالات - مفعول - 122
کِ قدمو پِ - مفاعیل - 1221
قلندر نَ - مفاعیل - 1221
ہِ گرتا - فعولن - 221

ٹوٹے بِ - مفعول - 122
جُ تارا تُ - مفاعیل - 1221
زمی پر نَ - مفاعیل - 1221
ہِ گرتا - فعولن - 221
----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 12, 2012

نوائے سروش - 5

ایک صاحب نے اکبر الہٰ آبادی کو لکھتا۔ " میں صاحبِ ذوق ہوں۔ آپ کی الہامی شاعری کا پرستار اور والہ و شیدا، اتنی استطاعت نہیں کہ آپ کے دیوان یا کلیات کو خرید کر پڑھ سکوں۔ اس لیے ازراہِ علم دوستی اپنے دیوان کی ایک جلد بلا قیمت مرحمت فرما کر ممنون فرمائیے۔"

خط دیکھ کر کہنے لگے۔ " اور سنئے ۔۔۔۔ آج مفت دیوان طلب فرما رہے ہیں، کل فرمائش کریں گے کہ صاحبِ ذوق ہوں، مفت میں " جانکی بائی " کا گانا سنوا دیجیے۔"
-----

ایک مرتبہ اکبر الٰہ آبادی کے دوست نے انہیں ایک ٹوپی دکھائی جس پر قل ہو اللہ کڑھا ہوا تھا۔ آپ نے دیکھتے ہی فرمایا “بھئی عمدہ چیز ہے۔ کسی دعوت میں کھانا ملنے میں دیر ہو تو یہ ٹوپی پہن لیا کرو، سب سمجھ جائیں گے کہ انتڑیاں قل ہو اللہ پڑھ رہی ہیں۔“
----------

بمبئی (ممبئی) میں جوش ملیح آبادی ایک ایسے مکان میں ٹھہرے جس میں اوپر کی منزل پر ایک اداکارہ رہتی تھی، لیکن مکان کی ساخت کچھ ایسی تھی کہ انہیں دیدار نہ ہو سکتا تھا، لہذا انہوں نے یہ رباعی لکھی:

میرے کمرے کی چھت پہ اُس بُت کا مکان
جلوے کا نہیں ہے پھر بھی کوئی امکان
گویا اے جوش میں ہوں ایسا مزدور
جو بھوک میں ہو سر پہ اُٹھائے ہوئے خوان
------

دلی میں ایک بہت مشہور گانے والی تھی جس کا نام 'شیریں' تھا مگر اسکی ماں بہت بیڈول اور بُری شکل کی تھی، ایک مجلس میں شیریں اپنی ماں کے ساتھ گانے اور مجرے کیلیے آئی، سر سید بھی وہاں موجود تھے اور انکے برابر انکے ایک ایرانی دوست بیٹھے ہوئے تھے، وہ شیریں کی ماں کو دیکھ کر کہنے لگے "مادرش بسیار تلخ است" (اسکی ماں بہت تلخ ہے)۔ اس پر سر سید نے فوراً جواب دیا۔

"گرچہ تلخ است ولیکن بر شیریں دارد" (اگرچہ وہ تلخ ہے لیکن پھل 'شیریں' رکھتی ہے)
-----

سعادت حسن منٹو نے کافی لوگوں کے سکیچ لکھے ہیں اور اس سلسلے میں انکی کتاب گنجے فرشتے کافی مشہور ہے۔

جب ان سے احمد ندیم قاسمی کا کیریکٹر سکیچ لکھنے کی فرمائش کی گئی تو وہ اداس ہو کر نہایت بجھے بجھے لہجہ میں کہنے لگے۔

"قاسمی کا سکیچ؟ وہ بھی کوئی آدمی ہے، جتنے صفحے چاہو سیاہ کرلو، لیکن بار بار مجھے یہی جملہ لکھنا پڑے گا۔

قاسمی بہت شریف آدمی ہے، قاسمی بہت شریف آدمی ہے۔"
-------
Ilmi-o-adabi latefay, tanza-o-mazah, علمی و ادبی لطیفے، طنز و مزاح، نوايے سروش


مشہور شاعر محسن احسان علیل تھے۔ احمد فراز عیادت کے لئے گئے۔ دیکھا کہ محسن احسان کے بستر پر کتابوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ چادر بھی میلی تھی۔ احمد فراز نے صورت حال دیکھ کر مسکراتے ہوے محسن سے کہا

یار اگر بیوی بدل نہیں سکتے تو کم از کم بستر ہی بدل دیجئے
------

فیروز خان نون کی پہلی بیوی بیگم نون کے نام سے موسوم تھیں۔ جب فیروز خان نون نے دوسری شادی کر لی تو ان کی ایک شناسا نے مولانا عبدالمجید سالک سے بطور مشورہ پوچھا، “ اب دوسری بیوی کو کیا کہا جائے گا؟“

مولانا نے بے ساختہ جواب دیا، “آفٹر نون۔“
-------

ایک دفعہ ایک مشہور شاعر کسی ہوٹل میں کھانا کھانے کے لیے جا رہے تھے۔ راستے میں ایک دوست مل گئے۔ انہیں بھی ساتھ لیا۔ ہوٹل پہنچ کر شاعر صاحب نے پوچھا : “کیا کھاؤ گے؟“

ان صاحب نے جواب دیا، “میں تو کھانا کھا کر آیا ہوں۔ اگر آپ اتنا ہی اصرار کر رہے ہیں تو دودھ پی لیتا ہوں۔“

چناں چہ انہوں نے اپنے لیے مرغی اور دوست کے لیے دودھ منگوایا۔ جب شاعر صاحب مرغی کھا چکے تو اس کی ہڈیوں پر زور آزمائی کرنے لگے۔ جب ہڈیوں میں سے کڑاک کڑاک کی آوازیں آنے لگیں تو ان کے دوست نے ان سے طنزیہ پوچھا، “ آپ کے شہر کے کُتے کیا کرتے ہیں؟“

شاعر نے اپنے کام کو بڑے اطمینان و سکون سے جاری رکھتے ہوے کہا، “بھئی وہ دراصل دودھ پیتے ہیں۔“
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 11, 2012

یہی دھڑکا مرے پندار سے باندھا ہوا ہے - شیخ خالد کرار

ریاست جموں و کشمیر، ہندوستان سے ہمارے کرما فرما اور "اردو جاوداں" کے مدیر جناب شیخ خالد کرار صاحب کی ایک غزل۔ انکی مزید شاعری انکی ویب سائٹ "ورود"ربط پر پڑھی جا سکتی ہے۔

یہی دھڑکا مرے پندار سے باندھا ہوا ہے
مرے اثبات کو انکار سے باندھا ہوا ہے

مرے ہاتھوں میں کِیلیں گاڑھ رکھّی ہیں کسی نے
مرے ہی جسم کو دیوار سے باندھا ہوا ہے

یا رستہ دائروں کی قید میں ہے میری خاطر
یا میرے جسم کو پرکار سے باندھا ہوا ہے
Khalid Karrar, خالد کرار، Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, Urdu Poetry, Urdu Ghazal, Urdu Shairi, اردو شاعری، علم عروض، تقطیع، بحر، بحر مجتث, اردو غزل
Khalid Karrar, خالد کرار

حویلی میں مرے اجداد رہتے تھے مگر اب
انا کے سانپ کو دستار سے باندھا ہوا ہے

مجھے واپس اُسی جنگل میں جانا ہے کسی دن
مجھے تہذیب نے بازار سے باندھا ہوا ہے

میں اُس کو سر اٹھا کر دیکھنا تو چاہتا ہوں
مگر کندھوں کو اُس نے بار سے باندھا ہوا ہے

مجھے ہر گام ہے تازہ ہزیمت عمر بھر کی
کہ میں نے آئنہ کردار سے باندھا ہوا ہے

حیاداری کے دھاگے نے پرو رکھّا ہے خالد
بھرم نے مجھ کو میرے یار سے باندھا ہوا ہے

شیخ خالد کرار
-----

قافیہ - آر یعنی الف رے اور ان سے پہلے زبر کی آواز جیسے پندار میں دار، انکار میں کار، دیوار میں وار وغیرہ۔

ردیف - سے باندھا ہوا ہے

بحر - بحر ہزج مثمن محذوف

افاعیل - مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن فعولن

علامتی نظام - 2221 / 2221 / 2221 / 221
ہندسوں کو اردو طرز یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 2221 پہلے ہے اور اس میں بھی 1 پہلے ہے۔

تقطیع-

یہی دھڑکا مرے پندار سے باندھا ہوا ہے
مرے اثبات کو انکار سے باندھا ہوا ہے

یہی دڑکا - مفاعیلن - 2221
مرے پندا - مفاعیلن - 2221
ر سے بادا - مفاعیلن - 2221
ہوا ہے - فعولن - 221

مرے اثبا - مفاعیلن - 2221
ت کو انکا - مفاعیلن - 2221
ر سے بادا - مفاعیلن - 2221
ہوا ہے - فعولن - 221
-----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 6, 2012

کہاں کسی کی حمایت میں مارا جاؤں گا - رانا سعید دوشی

رانا سعید دوشی کی ایک خوبصورت غزل

کہاں کسی کی حمایت میں مارا جاؤں گا
میں کم شناس مروّت ميں مارا جاؤں گا

میں مارا جاؤں گا پہلے کسی فسانے میں
پھر اس کے بعد حقیقت میں مارا جاؤں گا

مجھے بتایا ہوا ہے مری چھٹی حس نے
میں اپنے عہدِ خلافت میں مارا جاؤں گا

مرا یہ خون مرے دشمنوں کے سر ہوگا
میں دوستوں کی حراست ميں مارا جاؤں گا

یہاں کمان اٹھانا مری ضرورت ہے
وگرنہ میں بھی شرافت میں مارا جاؤں گا
Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, Urdu Poetry, Urdu Ghazal, Urdu Shairi, اردو شاعری، علم عروض، تقطیع، بحر، بحر مجتث, اردو غزل
Rana Saeed Doshi, رانا سعید دوشی

میں چپ رہا تو مجھے مار دے گا میرا ضمیر
گواہی دی تو عدالت میں مارا جاؤں گا

میں ورغلایا ہوا لڑرہا ہوں اپنے خلاف
میں اپنے شوقِ شہادت میں مارا جاؤں گا

فراغ میرے لیے موت کی علامت ہے
میں اپنی پہلی فراغت میں مارا جاؤں گا

بس ایک صلح کی صورت میں جان بخشی ہے
کسی بھی دوسری صورت میں مارا جاؤں گا

نہیں مروں گا کسی جنگ میں یہ سوچ لیا
میں اب کی بار محبّت میں مارا جاؤں گا

رانا سعید دوشی، واہ کینٹ
------

قافیہ - اَت یعنی تے اور اس سے پہلے زبر کی آواز جیسے حمایت میں یَت، مروّت میں وَت، حقیقت میں قَت وغیرہ۔

ردیف - میں مارا جاؤں گا

بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فَعِلان بھی آ سکتے ہیں۔ جیسے چھٹے شعر میں الفاظ "میرا ضمیر" کا ٹکڑا "رَ ضمیر" فَعِلان پر تقطیع ہوتا ہے اور آخری شعر میں "سوچ لیا" کا ٹکڑا "چ لیا" فَعِلن پر تقطیع ہوتا ہے۔

علامتی نظام - 2121 / 2211 / 2121 / 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 2121 پہلے ہے اور اس میں بھی 1 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)

تقطیع -

کہاں کسی کی حمایت میں مارا جاؤں گا
میں کم شناس مروّت ميں مارا جاؤں گا

کہا کسی - مفاعلن - 2121
کِ حمایت - فعلاتن - 2211
مِ مارَ جا - مفاعلن - 2121
ؤ گا - فعلن - 22

مِ کم شنا - مفاعلن - 2121
س مروّت - فعلاتن - 2211
مِ مارَ جا - مفاعلن - 2121
ؤ گا - فعلن - 22
-----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 3, 2012

شُکر کرتا ہوُں، گِلہ لگتا ہے - احمد ندیم قاسمی

احمد ندیم قاسمی مرحوم کی ایک خوبصورت غزل

سانس لینا بھی سزا لگتا ہے
اب تو مرنا بھی روا لگتا ہے

موسمِ گُل میں سرِ شاخِ گلاب
شعلہ بھڑکے تو بجا لگتا ہے

مُسکراتا ہے جو اِس عالم میں
بخدا، مجھ کو خُدا لگتا ہے

اتنا مانوس ہوُں سناّٹے سے
کوئی بولے تو بُرا لگتا ہے

کوہِ غم پر سے جو دیکھوں، تو مجھے
دشت، آغوشِ فنا لگتا ہے

سرِ بازار ہے یاروں کی تلاش
جو گزرتا ہے، خفا لگتا ہے
Ahmed Nadeem Qasmi, احمد ندیم قاسمی, urdu poetry, urdu shairy, urdu ghazal, ilm-e-arooz, ilm-e-Arooz, taqtee, behr, اردو شاعری، اردو غزل، تقطیع، بحرعلم عروض
Ahmed Nadeem Qasmi, احمد ندیم قاسمی

اُن سے مِل کر بھی نہ کافور ہوُا
درد یہ سب سے جُدا لگتا ہے

نطق کا ساتھ نہیں دیتا ذہن
شُکر کرتا ہوُں، گِلہ لگتا ہے

اِس قدَر تُند ہے رفتارِ حیات
وقت بھی رشتہ بپا لگتا ہے

احمد ندیم قاسمی
----

قافیہ - آ یعنی الف اور اس سے پہلے زبر کی آواز جیسے سزا میں زا، روا میں وا، بُرا میں را وغیرہ۔

ردیف۔ لگتا ہے

بحر - بحر رمل مسدس مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
پہلے رکن میں فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن اور آخری رکن میں فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آ سکتے ہیں یوں اس بحر میں آٹھ اوزان جمع ہو سکتے ہیں۔

علامتی نظام - 2212 / 2211 / 22
ہندسوں کو اردو رسم الخط یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 2212 پہلا رکن ہے اس میں بھی پہلے 2  پھر 1 اور اسی ترتیب سے باقی ہندسے ہیں۔ پہلے رکن 2212 کی جگہ 2211 بھی آسکتا ہے اور آخری رکن 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آسکتے ہیں۔

تقطیع-

سانس لینا بھی سزا لگتا ہے
اب تو مرنا بھی روا لگتا ہے

ساس لینا - فاعلاتن - 2212 - سانس میں نون مخلوط یا ہندی ہے جس کا وزن نہیں ہوتا۔
بِ سزا لگ - فعلاتن - 2211
تا ہے - فعلن - 22

اب تُ مرنا - فاعلاتن - 2212
بِ روا لگ - فعلاتن - 2211
تا ہے - فعلن - 22
------

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 30, 2012

اس کی عادت بھی آدمی سی ہے - غزلِ گلزار

شام سے آنکھ میں نمی سی ہے
آج پھر آپ کی کمی سی ہے

دفن کردو ہمیں کہ سانس ملے
نبض کچھ دیر سے تھمی سی ہے

کون پتھّرا گیا ہے آنکھوں میں
برف پلکوں پہ کیوں جمی سی ہے

وقت رہتا نہیں کہیں ٹک کر
اس کی عادت بھی آدمی سی ہے
Urdu Poetry, Urdu Ghazal, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, اردو شاعری، اردو غزل، علم عروض، تقطیع, Gulzar, گلزار
Gulzar, گلزار

کوئی رشتہ نہیں رہا پھر بھی
ایک تسلیم لازمی سی ہے

آئیے راستے الگ کر لیں
یہ ضرورت بھی باہمی سی ہے

گلزار
----

قافیہ - آمی یعنی می اور اس سے پہلے زبر کی آواز جیسے نمی، کمی، آدمی میں دَمی وغیرہ۔

ردیف - سی ہے

 بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن مُفاعِلُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)۔ تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)

علامتی  نظام - 2212 2121 22
ہندسوں کو اردو رسم الخط کے مطابق پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 2212 پہلے پڑھیے۔ اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

شام سے آنکھ میں نمی سی ہے
آج پھر آپ کی کمی سی ہے

شام سے آ - فاعلاتن - 2212
ک مے نمی - مفاعلن - 2121 -لفظ  آنکھ میں نون مخلوط یا ہندی ہے جس کا وزن نہیں ہوتا۔
سی ہے - فعلن - 22

آج پر آ - فاعلاتن - 2212
پ کی کمی - مفاعلن - 2121
سی ہے - فعلن - 22
-----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 28, 2012

رباعیاتِ سرمد شہید مع اردو ترجمہ - 5

(28)
ہستی بہ نظر، چہ شد اگر پنہانی
ایں رازِ نہفتہ را تو ہم می دانی
چوں شمع ز فانوس نمائی خود را
پیوستہ دریں لباسِ خود عریانی

تو میری نظر میں موجود ہے کیا ہوا اگر تو پنہاں ہے۔ اور یہ راز میرے ساتھ ساتھ تُو بھی جانتا ہے۔ جیسے شمع اگر فانوس میں بھی ہو تو نمایاں ہوتی ہے تو بھی ایسے ہی نمایاں ہے، تیرے اس لباس یعنی مستور ہونے سے بھی تیری عریانی یعنی ظاہر ہونا پیوستہ ہے۔
------

(29)
گر مُتّقیَم، کار بہ یار است مرا
با سبحہ و زنّار چہ کار است مرا
ایں خرقہٴ پشمینہ کہ صد فتنہ دروست
بارَش نہ کشم بدوش، عار است مرا

اگر میں متقی ہوں تو میرا کام صرف میرے یار ہی سے ہے(نہ کہ دنیا کو دکھانے کیلیے متقی بنا ہوا ہوں)۔ اس لیے مجھے تسبیح اور زنار سے کیا کام۔ یہ خرقہٴ پشمینہ کہ اس میں (ریا کار صوفیوں کے) سو سو فتنے ہیں، میں اس کا وزن اپنے کندھوں پر نہیں اٹھاتا کہ یہ میرے لیے عار ہے۔
------

(30)
آں کس کہ ترا تاجِ جہانبانی داد
مار را ہمہ اسبابِ پریشانی داد
پوشاند لباس ہر کرا عیبے دید
بے عیباں را لباسِ عریانی داد

وہ کہ جس نے تجھے جہانبانی کا تاج پہنایا اس نے ہمیں اسبابِ پرشیان دیے یعنی جمع کرنے کی ہر فکر سے آزاد کر دیا۔ یعنی جہاں جہاں اس نے عیب دیکھے ان کیلیے لباس دے دیا اور اور جس میں کوئی عیب نہیں تھا اس کو لباسِ عریانی یعنی کچھ نہیں دیا۔
-----

(31)
در کوئے مغاں، موسمِ گُل، منزل کُن
خود را بدرِ جنوں بزن، غافل کُن
ایں خرقہٴ پشمینہ کہ بارست و وبال
از دوش بنہ، فراغتے حاصل کُن

موسمِ گُل میں کوئے مغاں میں جا کر بیٹھ جا، خود پر جنون طاری کر لے اور ہر چیز سے غافل ہوجا، یہ خرقہٴ پشمینہ کہ جو بوجھ اور وبال بنا ہوا ہے اس کے اپنے کاندھے سے اتار دے اور ہر قسم کے بوجھ اور وبال سے فارغ ہوجا۔
------

(32)
من تخمِ ہوس کاشتہ ام، غمگینم
صد رنگ گُلِ داغ ازو می چینم
طوفاں بشود اگر نہ گردد خاموش
ایںِ آتشِ خواہش کہ بخود می بینم

میں نے ہوس اور لالچ کے بیج بوئے سو ہر وقت غمگین ہی رہتا ہوں۔ اور ان بیجوں سے سو سو قسم کے بدنما پھول حاصل کر رہا ہوں۔ اگر خاموش نہ ہوئی اور نہ بجھی تو ایک  طوفان بن جائے گی یہ خواہشوں کی آگ جو میں اپنے آپ میں لگی دیکھ رہا ہوں۔
-----
Rubaiyat-e-Sarmad Shaheed, mazar Sufi sarmad shaheed, persian poetry with urdu translation, farsi poetry with urdu translation, rubai, ، رباعیات سرمد شہید مع اردو ترجمہ،  مزار صوفی سرمد شہید، فارسی شاعری مع اردو ترجمہ، رباعی
Mazar Sufi Sarmad Shaheed, مزار صوفی سرمد شہید

(33)
ہرگز بخدا زہدِ ریائی نہ کنم
غیر از درِ معرفت گدائی نہ کنم
شاہی کنم و ملکِ فراغت گیرم
پیوستہ ز میخانہ جدائی نہ کنم

بخدا میں نے ہرگز ہرگز بھی ریاکاری کا زہد نہیں اپنایا اور درِ معرفت کے سوا کسی بھی در کی گدائی نہیں کی۔ میں اپنے ملکِ فراغت کی بادشاہی کرتا ہوں یعنی ہر طرح کی خواہشات سے بے فکر ہوں، میخانے سے پیوستہ ہوں اور اس سے کبھی بھی جدا نہیں ہوتا۔
------

(34)
دل باز گرفتارِ نگارے شدہ است
از فکر و غمِ لالہ عذارے شدہ است
من پیر و دلم ذوقِ جوانی دارد
ہنگامِ خزاں جوشِ بہارے شدہ است

دل ایک بار پھر محبوب کے عشق میں گرفتار ہو گیا ہے، اور اس لالہ رخ کے فکر و غم میں مبتلا ہو گیا ہے۔ میں بوڑھا ہوں لیکن میرا دل ذوقِ جوانی رکھتا ہے۔ یعنی خزاں کے ہنگام میں جوشِ بہاری پیدا ہو گیا ہے۔
------

(35)
از مردمِ دنیا و ز دنیا وحشت
ہرچند بگیری، نہ کف آری راحت
ہنگامِ بہار و ہم خزانش دیدم
در باغِ جہاں نیست گُلے جز عبرت

دنیا کے لوگوں اور دنیا سے وحشت اور دُوری ہی بہتر ہے۔ ہرچند کہ کہ تو اس کو چاہے اور حاصل کر لے ازلی راحت تیرے ہاتھ نہ آئے گی بلکہ دنیاوی خواہشات بڑھتی ہی چلی جائیں گی۔ میں نے بہار کے ہنگامے اور اسکی خزاں کے جلوے سب دیکھے ہیں لیکن دنیا کے باغ میں کوئی پھول نہیں ہے بجز عبرت کے پھول کے۔
-----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 16, 2012

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام - غزل اکبر الہ آبادی

غمزہ نہیں ہوتا کہ اشارہ نہیں ہوتا
آنکھ ان سے جو ملتی ہے تو کیا کیا نہیں ہوتا

جلوہ نہ ہو معنی کا تو صورت کا اثر کیا
بلبل گلِ تصویر کا شیدا نہیں ہوتا

اللہ بچائے مرضِ عشق سے دل کو
سنتے ہیں کہ یہ عارضہ اچھّا نہیں ہوتا
Urdu Poetry, Akbar Allahabadi, اکبر الہ آبادی, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-urooz, Prosody, meters, Behr, Taqtee, ااردو شاعری، اردو غزل، تقطیع، علم عروض،
Akbar Allahabadi, اکبر الہ آبادی

تشبیہ ترے چہرے کو کیا دوں گُلِ تر سے
ہوتا ہے شگفتہ مگر اتنا نہیں ہوتا

میں نزع میں ہوں آئیں تو احسان ہے اُن کا
لیکن یہ سمجھ لیں کہ تماشا نہیں ہوتا

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
-----

قافیہ - آ یعنی الف اور اس سے پہلے زبر کی آواز جیسے اشارہ کا را، کیا کا آ، شیدا کا دا وغیرہ۔

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ایسے قافیے ہائے ہوز یعنی ہ کے ساتھ بھی کیے جا سکتے ہیں جیسے اشارہ میں قافیہ را کی بجائے رہ ہے لیکن اس کی اجازت ہے بشرطیکہ اس کا اعلان مطلع میں کیا جائے یعنی ایک ایسا قافیہ مطلع میں لایا جائے اور بعد میں جتنے مرضی لے آئیں جیسے اس غزل میں چہرہ قافیہ بھی آ سکتا تھا۔

ردیف - نہیں ہوتا

بحر - بحرِ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف

 افاعیل: مَفعُولُ مَفَاعیلُ مَفَاعیلُ فَعُولُن
آخری رکن فعولن کی جگہ مسبغ رکن فعولان بھی آ سکتا ہے، جیسے کہ اس غزل کے آخری شعر کے پہلے مصرعے میں الفاظ "ہیں بدنام" کی تقطیع فعولان کے وزن پر ہوگی۔

علامتی نظام - 122 / 1221 / 1221 / 221
(آخری رکن 221 کی جگہ 1221 بھی آ سکتا ہے)
ہندسوں کو اردو رسم الخظ کے مطابق یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی  122 پہلے ہے اور اس میں بھی 2 پہلے ہے۔

 تقطیع -

غمزہ نہیں ہوتا کہ اشارہ نہیں ہوتا
آنکھ ان سے جو ملتی ہے تو کیا کیا نہیں ہوتا

غمزہ نَ - مفعول - 122
ہِ ہوتا کِ - مفاعیل - 1221
اشارہ نَ - مفاعیل - 1221
ہِ ہوتا - فعولن - 221

آ کُن سِ - مفعول - 122 - یہاں "آنکھ ان" میں الف کا وصال نوٹ کریں۔
جُ ملتی ہِ - مفاعیل - 1221
تُ کا کا نَ - مفاعیل - 1221
ہِ ہوتا - فعولن - 221
-----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 10, 2012

مُسلمِ اوّل شہِ مرداں علی - اشعار از اسرارِ خودی از علامہ محمد اقبال

اکیس ۲١ رمضان المبارک حضرت علی ع کا یومِ شہادت ہے، اسی مناسبت سے علامہ اقبال کے کچھ اشعار انکی کتاب اسرارِ خودی سے۔

مُسلمِ اوّل شہِ مرداں علی
عشق را سرمایۂ ایماں علی

پہلے مسلمان علی ع ہیں، مردوں کے سردار علی ہیں۔ عشق کیلیے ایمان کا سرمایہ علی ہیں۔

از ولائے دودمانش زندہ ام
در جہاں مثلِ گہر تابندہ ام

میں انکے خاندان کی محبت سے زندہ ہوں، اور دنیا میں موتیوں کی مانند چمک رہا ہوں۔

زمزم ار جوشد ز خاکِ من، ازوست
مے اگر ریزد ز تاکِ من، ازوست

اگر میری خاک سے زمزم ابلتے ہیں تو یہ انہی علی ہی سے ہے اور اگر میری انگور کی شاخ سے مے ٹپکتی ہے تو یہ انہی علی ہی سے ہے۔

از رُخِ اُو فال پیغمبر گرفت
ملّتِ حق از شکوہش فر گرفت

انکے چہرۂ مبارک سے پیغمبر (ص) فال لیا کرتے تھے، ملّتِ حق نے انکی شان و شوکت سے عزت حاصل کی۔

Allama Iqbal's Persian/Farsi poetry with Urdu Translation, علامہ اقبال کی فارسی شاعری مع اردو ترجمہ
قوّتِ دینِ مُبیں فرمودہ اش
کائنات آئیں پذیر از دودہ اش

آپ (ص) نے علی (ع) کو روشن اور غالب دین کی قوت فرمایا، دنیا نے آپکے خاندان سے آئین اور قانون حاصل کیا۔

مُرسلِ حق کرد نامش بُو تراب
حق ید اللہ خواند در امّ الکتاب

اللہ کے سچے رسول (ص) نے آپ کو ابو تُراب کا نام (لقب) دیا، اللہ نے قرآن میں آپ کو ید اللہ (اللہ کا ہاتھ) قرار دیا۔

ہر کہ دانائے رموزِ زندگیست
سرّ اسمائے علی داند کہ چیست

ہر وہ کہ جو زندگی کے رموز جانتا ہے، جانتا ہے کہ علی کے ناموں کے اسرار کیا ہیں۔

شیرِ حق ایں خاک را تسخیر کرد
ایں گِلِ تاریک را اکسیر کرد

اللہ کے شیر نے اس خاک کو تسخیر کیا اور اس تاریک مٹی کو اکسیر کر دیا۔

مرتضیٰ کز تیغِ او حق روشن است
بوتراب از فتح اقلیمِ تن است

مرتضیٰ کہ انکی تلوار سے حق روشن اور آشکار ہوا  اور وہ بوتراب یعنی مٹی کے باپ ہیں کہ انہوں نے تن کی سلطنت کو فتح کیا۔

زیرِ پاش اینجا شکوہِ خیبر است
دستِ اُو آنجا قسیمِ کوثر است

اس جگہ یعنی اس دنیا میں خیبر کی شان و شکوت و شکوہ انکے پاؤں کے نیچے ہے اور اُس جہاں میں انکا ہاتھ آبِ کوثر تقسیم کرنے والا ہے۔

ذاتِ اُو دروازہٴ  شہرِ علوم
زیرِ فرمانش حجاز و چین و روم

انکی ذات شہر علوم کا دروازہ ہے اور انکے فرمان کے زیر تابع حجاز و چین و روم یعنی ساری دنیا ہے۔

(علامہ اقبال، اسرارِ خودی، در شرحِ اسرارِ اسمائے علی مرتضیٰ)
-----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jul 24, 2012

روش روش پہ ہیں نکہت فشاں گُلاب کے پھول- مجید امجد

مجید امجد کی ایک خوبصورت غزل

روش روش پہ ہیں نکہت فشاں گُلاب کے پھول
حسیں گلاب کے پھول، ارغواں گُلاب کے پھول

اُفق اُفق پہ زمانوں کی دُھند سے اُبھرے
طیور، نغمے، ندی، تتلیاں، گلاب کے پھول

کس انہماک سے بیٹھی کشید کرتی ہے
عروسِ گُل بہ قبائے جہاں، گلاب کے پھول

جہانِ گریۂ شبنم سے کس غرور کے ساتھ
گزر رہے ہیں، تبسّم کناں، گلاب کے پھول

یہ میرا دامنِ صد چاک، یہ ردائے بہار
یہاں شراب کے چھینٹے، وہاں گلاب کے پھول

کسی کا پھول سا چہرہ اور اس پہ رنگ افروز
گندھے ہوئے بہ خمِ گیسواں، گلاب کے پھول

خیالِ یار، ترے سلسلے نشوں کی رُتیں
جمالِ یار، تری جھلکیاں گلاب کے پھول
Majeed Amjad, مجید امجد, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, Urdu Poetry, Urdu Shairi, اردو شاعری، علم عروض، تقطیع، بحر، بحر مجتث
Majeed Amjad, مجید امجد

مری نگاہ میں دورِ زماں کی ہر کروٹ
لہو کی لہر، دِلوں کا دھواں، گلاب کے پھول

سلگتے جاتے ہیں چُپ چاپ ہنستے جاتے ہیں
مثالِ چہرہِ پیغمبراں گلاب کے پھول

یہ کیا طلسم ہے یہ کس کی یاسمیں باہیں
چھڑک گئی ہیں جہاں در جہاں گلاب کے پھول

کٹی ہے عمر بہاروں کے سوگ میں امجد
مری لحد پہ کھلیں جاوداں گلاب کے پھول

(مجید امجد)
-----

قافیہ - آں یعنی الف نون غنہ اور ان سے پہلے زبر کی آواز جیسے فشاں، ارغواں، تتلیاں، دھواں وغیرہ۔

ردیف - گلاب کے پھول

بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
(آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فعِلان بھی آ سکتے ہیں)

علامتی نظام - 2121 / 2211 / 2121 / 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 2121 پہلے ہے اور اس میں بھی 1 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)

پہلے شعر کی تقطیع -

روش روش پہ ہیں نکہت فشاں گُلاب کے پھول
حسیں گلاب کے پھول، ارغواں گُلاب کے پھول

روش روش - مفاعلن - 2121
پ ہِ نکہت - فعلاتن - 2211
فشا گلا - مفاعلن - 2121
ب کِ پھول - فَعِلان - 1211

حسی گلا - مفاعلن - 2121
ب کِ پھولر - فعلاتن - 2211، الف کا وصال یا سقوط ہوا ہے۔
غوا گلا - مفاعلن - 2121
ب کِ پھول - فَعِلان - 1211
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔