Nov 20, 2019

شیخ سعدی شیرازی کے کچھ متفرق اشعار - 2

گُل نسبتے ندارد، با روئے دلفریبَت
تو درمیانِ گُل ہا، چوں گُل میانِ خارے

پُھول تیرے دلفریب چہرے کے ساتھ کوئی نسبت ہی نہیں رکھتا کیونکہ تُو پھولوں کے درمیان ایسے ہی ہے جیسے کہ کوئی  پھول کانٹوں کے درمیان۔
----------

من اگر ہزار خدمت بکنم گناہگارم
تو ہزار خون ناحق بکنی و بے گناہی

میں اگر ہزار خدمت بھی کروں تو پھر بھی گناہگار ہوں اور تُو ہزاروں خون ناحق کرتا ہے اور پھر بھی بے گناہ ہے۔
-----------

خواہی کہ دگر حیات یابم
یکبار بگو کہ "کشتۂ ماست"

اگر تُو چاہے کہ مجھے دوسری بار زندگی مل جائے تو بس ایک بار کہہ دے کہ "یہ ہمارا مارا ہوا ہے"۔
----------

برگِ تر خشک می شَوَد بہ زماں
برگِ چشمانِ ما ہمیشہ تر است

سرسبز پتے وقت کے ساتھ سُوکھ جاتے ہیں، لیکن ہماری آنکھوں کے برگ ہمیشہ تر اور سرسبز  ہی رہتے ہیں۔
----------

عجب نیست در خاک اگر گُل شگفت
کہ چندیں گُل اندام در خاک خُفت

اگر خاک میں سے پُھول کھلتے ہیں تو یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے کیونکہ بہت سے گُل اندام (پھولوں جیسے بدن والے) اِسی خاک میں سوئے ہوئے ہیں۔
----------

گرچہ لایق نبوَد دستِ من و دامنِ تو
ہر کجا پائے نہی فرقِ سر آں جا دارم

چونکہ میرے ہاتھ تیرے دامن کے لایق نہیں ہیں سو تُو جہاں کہیں بھی اپنے پاؤں رکھتا ہے میں وہاں اپنی پیشانی رکھ دیتا ہوں۔
----------
فارسی شاعری مع اردو ترجمہ، فارسی شاعری بمع اردو ترجمہ، شیخ سعدی شیرازی، persian poetry with urdu translation, farsi poetry with urdu translation, sheikh saadi
مزارِ شیخ سعدی رح

گر دوست واقف است کہ بر من چہ می روَد
باک از جفائے دشمن و جورِ رقیب نیست

اگر دوست اِس بات سے واقف ہے کہ مجھ پر کیا گزر رہی ہے تو پھر مجھے دشمنوں اور رقیبوں کے جور و جفا کا کوئی ڈر نہیں ہے، کوئی پروا نہیں ہے۔
----------

بہ لالہ زار و گلستاں نمی روَد دلِ من
کہ یادِ دوست گلستان و لالہ زار من است

میرا دل لالہ زار اور گلستان کی طرف نہیں جاتا کہ دوست کی یاد ہی میرا گلستان اور لالہ زار ہے۔
----------

دو چیز طیرۂ عقل است، دَم فرو بستن
بوقتِ گفتن و گفتن بوقتِ خاموشی

دو چیزیں عقل کے لیے سبکی اور شرمساری کا باعث ہیں، چُپ رہنا بولنے کے وقت، اور بولنا چُپ رہنے کے وقت۔
----------

سارباں آہستہ رو، آرامِ جاں در محمل است
اشتراں را بار بر پشت است و ما را بر دل است

اے ساربانو، آہستہ چلو کہ ہمارا آرامِ جاں، ہمارا محبوب محمل میں ہے، اُونٹوں کی تو پشت پر بوجھ ہے اور ہمارے دل پر بوجھ ہے۔
----------

مرا بہ ہیچ بدادی و من ہنوز بر آنم
کہ از وجودِ تو موئے بعالمے نفروشم

تُو نے مجھے ایسے ہی بغیر کسی چیز کے بدلے میں دے دیا (بیچ دیا) اور میں ابھی بھی اسی بر (قائم) ہوں کہ تیرے وجود کا ایک بال بھی ساری دنیا کے بدلے میں نہ بیچوں۔
----------

باز آ کہ در فراقِ تو چشمِ اُمیدوار
چوں گوشِ روزہ دار بر اللہ اکبر است

واپس آ جا کہ تیری جدائی میں، میری منتظر اور اُمیدوار آنکھوں کی بالکل وہی حالت ہے جیسی افطار کے وقت اللہ اکبر (اذان) کا انتظار کرتے ہوئے روزہ دار کے کانوں کی ہوتی ہے۔
----------

مزید پڑھیے۔۔۔۔