Showing posts with label ولی دکنی. Show all posts
Showing posts with label ولی دکنی. Show all posts

Jan 27, 2009

بابائے اردو شاعری، ولی دکنی کی ایک غزل - تجھ لب کی صِفَت لعلِ بدخشاں سوں کہوں گا

بابائے اردو شاعری، شمس ولی اللہ المعروف بہ ولی دکنی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ آپ نے اردو شاعری کو حسن عطا کیا اور جو شاعری پہلے صرف منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے کی جاتی تھی آپ نے اسے باقاعدہ ایک صنف کا درجہ دیا اور یوں ایک ایسی بنیاد رکھی جس پر اردو شاعری کی پرشکوہ عمارت تعمیر ہوئی۔
مولانا محمد حسین آزاد، "آبِ حیات" میں فرماتے ہیں۔
ولی دکنی, Wali Dakani, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
ولی دکنی ایک خاکہ، Wali Dakani
"اس زمانے تک اردو میں متفرق شعر ہوتے تھے۔ ولی اللہ کی برکت نے اسے وہ زور بخشا کہ آج کی شاعری، نظمِ فارسی سے ایک قدم پیچھے نہیں، تمام بحریں فارسی کی اردو میں لائے۔ شعر کو غزل اور غزل کو قافیہ ردیف سے سجایا، ردیف وار دیوان بنایا۔ ساتھ اسکے رباعی، قطعہ، مخمس اور مثنوی کا راستہ بھی نکالا۔ انہیں ہندوستان کی نظم میں وہی رتبہ ہے جو انگریزی کی نظم میں چوسر شاعر کو اور فارسی میں رودکی کو اور عربی میں مہلہل کو۔"

مولانا آزاد کے زمانے تک ولی دکنی کو اردو کا پہلا شاعر مانا جاتا تھا، جدید تحقیق سے گو یہ اعزاز تو انکے پاس نہیں رہا لیکن اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے جو اوپر مولانا نے کہی ہے۔

ولی کی ایک خوبصورت غزل لکھ رہا ہوں، اس غزل میں جو متروک الفاظ ہیں انکے مترادف پہلے لکھ دوں تاکہ قارئین کو دشواری نہ ہو۔

سوں - سے
کوں - کو، کر
یو - یہ
سری جن - محبوب

تجھ لب کی صِفَت لعلِ بدخشاں سوں کہوں گا
جادو ہیں ترے نین، غزالاں سوں کہوں گا

دی حق نے تجھے بادشَہی حسن نگر کی
یو کشورِ ایراں میں سلیماں سوں کہوں گا

تعریف ترے قد کی الف دار، سری جن
جا سرو گلستاں کوں خوش الحاں سوں کہوں گا

مجھ پر نہ کرو ظلم، تم اے لیلٰیِ خوباں
مجنوں ہوں، ترے غم کوں بیاباں سوں کہوں گا

دیکھا ہوں تجھے خواب میں اے مایۂ خوبی
اس خواب کو جا یوسفِ کنعاں سوں کہوں گا

جلتا ہوں شب و روز ترے غم میں اے ساجن
یہ سوز ترا مشعلِ سوزاں سوں کہوں گا

یک نقطہ ترے صفحۂ رخ پر نہیں بے جا
اس مُکھ کو ترے صفحۂ قرآں سوں کہوں گا

زخمی کیا ہے مجھ تری پلکوں کی انی نے
یہ زخم ترا خنجر و بھالاں سوں کہوں گا

بے صبر نہ ہو اے ولی اس درد سے ہرگاہ
جلدی سوں ترے درد کی درماں سوں کہوں گا

———————

بحر - بحرِ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف

افاعیل: مَفعُولُ مَفَاعیلُ مَفَاعیلُ فَعُولُن(آخری رکن فعولن کی جگہ فعولان یا مفاعیل بھی آ سکتا ہے)

اشاری نظام - 122 1221 1221 221
(آخری رکن 221 کی جگہ 1221 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

تجھ لب کی صِفَت لعلِ بدخشاں سوں کہوں گا
جادو ہیں ترے نین، غزالاں سوں کہوں گا

تج لب کِ - مفعول - 122
صِفَت لعل - مفاعیل - 1221
بدخشا سُ - مفاعیل - 1221
کہو گا - فعولن - 221

جادو ہِ - مفعول - 122
ترے نین - مفاعیل - 1221
غزالا سُ - مفاعیل - 1221
کہو گا - فعولن - 221
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Oct 25, 2008

ولی دکنی کی ایک غزل - دل ہوا ہے مرا خرابِ سُخَن

ولی دکنی کسی زمانے میں اردو کے پہلے شاعر مانے جاتے تھے، گو جدید تحقیق نے انکا یہ مرتبہ تو انکے پاس نہیں رہنے دیا لیکن ولی دکنی کو اب بھی اردو شاعری کا پہلا باقاعدہ اور اہم غزل گو شاعر ضرور مانا جاتا ہے اور مانا جاتا رہے گا۔
ولی دکنی کی ایک خوبصورت غزل جو مجھے بہت پسند ہے:

دل ہوا ہے مرا خرابِ سُخَن
دیکھ کر حُسن بے حجابِ سُخَن

راہِ مضمونِ تازہ بند نہیں
تا قیامت کُھلا ہے بابِ سُخَن

بزمِ معنی میں سر خوشی ہے اسے
جس کو ہے نشّۂ شرابِ سخن

جلوہ پیرا ہو شاہدِ معنی
جب زباں سوں اٹھے نقابِ سُخَن

گوھر اسکی نظر میں جا نہ کرے
جن نے دیکھا ہے آب و تابِ سخن
ولی دکنی, Wali Dakani, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
ولی دکنی, Wali Dakani
ہرزہ گویاں کی بات کیونکے سنے
جو سنا نغمۂ ربابِ سخن

ہے تری بات اے نزاکت فہم
لوح دیباچۂ کتابِ سخن

لفظِ رنگیں ہے مطلعِ رنگیں
نورِ معنی ہے آفتابِ سخن

شعر فہموں کی دیکھ کر گرمی
دل ہوا ہے مرا کبابِ سخن

عُرفی و انوَری و خاقانی
مجھ کوں دیتے ہیں سب حسابِ سُخَن

اے ولی دردِ سر کبھو نہ رہے
جو ملے صندل و گلابِ سخن
———-
بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن مفاعِلُن فعلُن
(اس بحر میں آٹھ وزن جمع ہو سکتے ہیں، تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)
اشاری نظام - 2212 2121 22
تقطیع
دل ہوا ہے مرا خرابِ سُخَن
دیکھ کر حُسن بے حجابِ سُخَن
دل ہوا ہے - فاعلاتن - 2212
مرا خرا - مفاعلن - 2121
بِ سخن - فَعِلُن - 211
دیک کر حس - فاعلاتن - 2212
نِ بے حجا - مفاعلن - 2121
بِ سخن - فَعِلُن - 211
مزید پڑھیے۔۔۔۔