Showing posts with label اردو شاعری. Show all posts
Showing posts with label اردو شاعری. Show all posts

Sep 19, 2017

کہتے ہیں اِک فریبِ مُسلسل ہے زندگی ۔ اصغر گونڈوی

 آلامِ روزگار کو آساں بنا دیا
جو غم ہوا اُسے غمِ جاناں بنا دیا

میں کامیابِ دید بھی، محرومِ دید بھی
جلووں کے اژدہام نے حیراں بنا دیا

یوں مسکرائے جان سی کلیوں میں پڑ گئی
یوں لب کشا ہوئے کہ گُلِستاں بنا دیا

کچھ شورشوں کی نذر ہوا خونِ عاشقاں
کچھ جم کے رہ گیا اسے حرماں بنا دیا

اے شیخ، وہ بسیط حقیقت ہے کفر کی
کچھ قیدِ رسم نے جسے ایماں بنا دیا

کچھ آگ دی ہوس میں تو تعمیر عشق کی
جب خاک کر دیا اسے عِرفاں بنا دیا

کیا کیا قُیود دہرمیں ہیں، اہلِ ہوش کے
ایسی فضائے صاف کو زنداں بنا دیا

اک برق تھی ضمیر میں فِطرت کے موجزن
آج اس کو حُسن و عشق کا ساماں بنا دیا

مجبوریِ حیات میں رازِ حیات ہے
زنداں کو میں نے روزنِ زنداں بنا دیا

وہ شورشیں، نظامِ جہاں جن کے دم سے ہے
جب مختصر کِیا انہیں انساں بنا دیا
Urdu Poetry, Classical Urdu Poetry, Urooz, Arooz, Taqtee, Urdu Meters
ہم اس نِگاہِ ناز کو سمجھے تھے نیشتر
تم نے تو مسکرا کے رگِ جاں بنا دیا

بلبل بہ آہ و نالہ و گُل مستِ رنگ و بُو
مجھ کو شہیدِ رسمِ گُلِستاں بنا دیا

کہتے ہیں اِک فریبِ مُسلسل ہے زندگی
اس کو بھی وقفِ حسرت و حرماں بنا دیا

عالَم سے بے خبربھی ہوں، عالَم میں بھی ہوں میں
ساقی نے اِس مقام کو آساں بنا دیا

اس حُسنِ کاروبار کو مستوں سے پوچھیئے
جس کو فریبِ ہوش نے عصیاں بنا دیا

اصغر گونڈوی
-------
قافیہ - آں یعنی الف نون غنہ ساکن اور الف سے پہلے زبر کی حرکت جیسے آساں میں ساں، جاناں میں ناں، گلستان میں تاں، حرماں میں ماں وغیرہ۔

ردیف - بنا دیا

بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف

 افاعیل: مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے۔

علامتی نظام - 122 / 1212 / 1221 / 212
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 122 پہلے ہے اور اس میں بھی 22 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)

 تقطیع -

آلامِ روزگار کو آساں بنا دیا
جو غم ہوا اُسے غمِ جاناں بنا دیا

آلام - مفعول - 122
روزگار - فاعلات - 1212
کُ آسا بَ - مفاعیل - 1221
نا دیا - فاعلن - 212

جو غم ہُ - مفعول - 122
وا اُسے غَ - فاعلات - 1212
مِ جانا بَ - مفاعیل - 1221
نا دیا - فاعلن - 212
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 2, 2015

سودا کی اپنی ہی غزل پر تضمین

مرزا رفیع سودا کی یہ غزل بہت مشہور ہے اور یقیناً سودا کو بھی بہت پسند ہوگی اسی لیے اِس پر مخمس کی شکل میں تضمین بھی کہی ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

کرے جو ظلم و ستم کرنے دو، ہوا سو ہوا
جفا و ظلم ستی مت ڈرو، ہوا سو ہوا
یہ میرے غم کی نہ شہرت کرو، ہوا سو ہوا
"جو گزری مجھ پہ مت اُس سے کہو، ہوا سو ہوا
بلاکشانِ محبت پہ جو، ہوا سو ہوا"

اگرچہ روزِ ازل سے تھی میری یہ تقدیر
کہ دامِ عشق میں اپنے کرے مجھے تو اسیر
کرے جو ذبح تو مجھ کو پچھاڑ جوں نخچیر
"مبادا ہو کوئی ظالم ترا گریباں گیر
مرے لہو کو تو دامن سے دھو، ہوا سو ہوا"

وہ کون دن تھا کہ ہم بھی ہوئے تھے یار ترے
کسی طرح سے ترا دل بھی اس جفا سے پھرے
اگر کہے تو یہ آ کر ترے قدم پہ گرے
"خدا کے واسطے آ، درگزر گنہ سے مرے
نہ ہوگا پھر کبھو اے تُند خو، ہوا سو ہوا"

مرزا، رفیع، سودا، مرزا رفیع سودا، اردو شاعری، کلاسیکی اردو شاعری، mirza, rafi, sauda, mirza rafi sauda, classical urdy poetry, urdu poetry

کیے ہیں جن نے دوانے کئی مَلَک یارو
دکھا کے چہرے کی اپنے ٹک اک جھلک یارو
ہوا ہے میرا بھی قاتل وہ یک بیک یارو
"پہنچ چکا ہے سرِ زخم دل تلک یارو
کوئی سیو، کوئی مرہم کرو، ہوا سو ہوا"

دیا ہے آپ سے تم نے جو دل کو اپنے کبھو
تو چاہیے کہ رہو ہاتھ اُس سے بھی تم دھو
عبث ہے یہ کہ جو باتیں کرو ہو تم رو رو
"یہ کون حال ہے احوالِ دل پہ اے آنکھو
نہ پھوٹ پھوٹ کے اتنا بہو، ہوا سو ہوا"

دلوں کے قتل کے تئیں الامان ہے سودا
جنوں کی فوج کا یارو نشان ہے سودا
کِیا جب اُن نے قلندر، ندان ہے سودا
"دیا اُسے دل و دیں اب یہ جان ہے سودا
پھر آگے دیکھیے جو ہو سو ہو، ہوا سو ہوا"

(کلیاتِ سودا، جلد اول)
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 11, 2014

اوّل شب وہ بزم کی رونق شمع بھی تھی پروانہ بھی - آرزو لکھنوی

اوّل شب وہ بزم کی رونق شمع بھی تھی پروانہ بھی
رات کے آخر ہوتے ہوتے ختم تھا یہ افسانہ بھی

قید کو توڑ کے نکلا جب میں اُٹھ کے بگولے ساتھ ہوئے
دشتِ عدم تک جنگل جنگل بھاگ چلا ویرانہ بھی

ہاتھ سے کس نے ساغر پٹکا موسم کی بے کیفی پر
اتنا برسا ٹوٹ کے بادل ڈوب چلا مے خانہ بھی

ایک لگی کے دو ہیں اثر اور دونوں حسبِ مراتب ہیں
لو جو لگائے شمع کھڑی ہے ، رقص میں ہے پروانہ بھی

حسن و عشق کی لاگ میں اکثر چھیڑ ادھر سے ہوتی ہے
شمع کا شعلہ جب لہرایا اُڑ کے چلا پروانہ بھی

دونوں جولاں گاہ جنوں ہیں ، بستی کیا ویرانہ کیا
اٹھ کے چلا جب کوئی بگولا دوڑ پڑا ویرانہ بھی

دورِ مسرّت آرزو اپنا کیسا زلزلہ آگیں تھا
ہاتھ سے منہ تک آتے آتے چھُوٹ پڑا پیمانہ بھی

(آرزو لکھنوی)
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 22, 2013

باپ کا ہے جبھی پسر وارِث - خواجہ الطاف حُسین حالی

باپ کا  ہے جبھی پسر وارِث
ہو ہنر کا بھی اُس کے گر وارِث

گھر ہنر ور کا ناخلف نے لیا
تیرا ہے کون اے ہنر وارث

فاتحہ ہو کہاں سے میّت کی
لے گئے ڈھو کے سیم و زر وارث

ہوں اگر ذوقِ کسب سے آگاہ
کریں میراث سے حذر وارث

خاک و کرمانِ گور و خویش و تبار
ایک میّت اور اس قدَر وارث

واعظو دین کا خدا حافظ
انبیا کے ہو تم اگر وارث

قوم بے پر ہے، دین بے کس ہے
گئے اسلام کے کدھر وارث
Altaf، Hussain، Hali, Altaf Hussain Hali, urdu poetry, poetry, classical urdu poetry, ghazal, خواجہ، الطاف، حسین، حالی، خواجہ الطاف حسین حالی، اردو شاعری، کلاسیکی اردو شاعری، شاعری، غزل, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Behr, Taqtee, علم عروض، تقطیع، بھر
Altaf Hussain Hali, خواجہ الطاف حسین حالی
تصویر بشکریہ کرناٹک اردو اکاڈمی، بنگلور

ہم پہ بیٹھے ہیں ہاتھ دھوئے حریف
جیسے مردہ کے مال پر وارث

ترکہ چھوڑا ہے کچھ اگر حالی
کیوں ہیں میّت پہ نوحہ گر وارث

خواجہ الطاف حسین حالی
-----


قافیہ - اَر یعنی رے ساکن اور اُس سے پہلے زبر کی حرکت جیسے پسر میں سَر، گر، ہنر میں نَر، زر، اگر میں گر، وغیرہ۔

ردیف -وارث۔

 بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن مُفاعِلُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)۔ تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)

علامتی  نظام - 2212 / 2121 / 22
ہندسوں کو اردو رسم الخط کے مطابق پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 2212 پہلے پڑھیے۔ اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

باپ کا ہے جبھی پسر وارث
ہو ہنر کا بھی اُس کے گر وارث

باپ کا ہے - فاعلاتن - 2212
جَبی پسر - مفاعلن - 2121
وارث - فعلن - 22

ہو ہنر کا - فاعلاتن - 2212
بِ اُس کِ گر - مفاعلن - 2121
وارث - فعلن - 22
-----


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 16, 2013

عکسِ جاناں ہم، شہیدِ جلوہٴ جانانہ ہم - احسان دانش

عکسِ جاناں ہم، شہیدِ جلوہٴ جانانہ ہم
آشنا سے آشنا، بیگانہ سے بیگانہ ہم

تجھ کو کیا معلوم گزری کس طرح فرقت کی رات
کہہ پھرے اک اک ستارے سے ترا افسانہ ہم

بند ہیں شیشوں میں لاکھوں بجلیاں پگھلی ہوئیں
کب ہیں محتاجِ شرابِ مجلسِ میخانہ ہم

ہے دمِ آخر، سرھانے لوریاں دیتی ہے موت
سنتے سنتے کاش سو جائیں ترا افسانہ ہم

پڑ گئی کس مہرِ سیما کی نگاہِ برق پاش
دیکھتے ہیں دل میں دنیا بے تجلّی خانہ ہم
Ehsan Danish, احسان دانش، Urdu Poetry, Urdu Shairi, Urdu Ghazal, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, اردو شاعری، اردو غزل، علم عروض، تقطیع، بحر
Ehsan Danish, احسان دانش

تیرے ہر ذرّے پہ تا روزِ قیامت سجدہ ریز
ہم رہیں گے، اے زمینِ کوچہٴ جانانہ، ہم

منزلِ اُلفت میں ہیں احسان دونوں سدّ ِ راہ
کھائیں کیوں آخر فریبِ کعبہ و بتخانہ ہم

احسان دانش
------

قافیہ - نانہ یعنی الف، نون، ہ اور الف سے پہلے زبر کی آواز یا حرکت جیسے جانانہ میں نانہ،۔ بیگانہ میں گانہ، افسانہ میں سانہ، میخانہ میں خانہ، خانہ، وغیرہ۔

ردیف - ہم۔

بحر - بحر رمل مثمن محذوف

 افاعیل: فاعلاتُن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
آخری رکن فاعلن میں مسبغ رکن فاعلان بھی آ سکتا ہے جیسے دوسرے شعر کے پہلے مصرعے کے الفاظ "فرقت کی رات" میں ٹکڑے "قت کی رات" کی تقطیع فاعلان ہوگی، وغیرہ۔

علامتی نظام - 2212 / 2212 / 2212 / 212
ہندسوں کو اردو طرز پر پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 2 پہلے اور 1 بعد میں ہے۔ آخری 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے۔

تقطیع -

عکسِ جاناں ہم، شہیدِ جلوہٴ جانانہ ہم
آشنا سے آشنا، بیگانہ سے بیگانہ ہم

عکس جانا - فاعلاتن - 2212
ہم شہیدے - فاعلاتن - 2212
جلوَ اے جا - فاعلاتن - 2212
نانہ ہم - فاعلن - 212

آشنا سے - فاعلاتن - 2212
آشنا بے - فاعلاتن - 2212
گانہ سے بے - فاعلاتن - 2212
گانہ ہم - فاعلن - 212
-----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 14, 2013

سرِ حیات اک الزام دھر گئے ہم بھی - خالد احمد

سرِ حیات اک الزام دھر گئے ہم بھی
کلام بھی نہ جیا اور مر گئے ہم بھی

یہ عہد ایک مسیحا نفَس میں زندہ تھا
رہا نہ وہ بھی سلامت، بکھر گئے ہم بھی

چمک اُٹھا تھا وہ چہرہ، دھڑک اُٹھا تھا یہ دل
نہ اُس نے راستہ بدلا، نہ گھر گئے ہم بھی

بتوں کی طرح کھڑے تھے ہم اک دوراہے پر
رُخ اُس نے پھیر لیا، چشمِ تر گئے ہم بھی

کچھ ایسے زور سے کڑکا فراق کا بادل
لرز اُٹھا کوئی پہلو میں، ڈر گئے ہم بھی
Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, Urdu Poetry, Urdu Shairi, اردو شاعری، علم عروض، تقطیع، بحر، بحر مجتث, خالد احمد، Khalid Ahmad
Khalid Ahmad, خالد احمد

جدائی میں بھی ہم اک دوسرے کے ساتھ رہے
کڈھب رہا نہ وہ، خالد سنور گئے ہم بھی

خالد احمد
-----

قافیہ - اَر یعنی رے ساکن اور اس سے پہلے زبر کی آواز جیسے دھر، مر، بکھر، گھر وغیرہ۔

ردیف - گئے ہم بھی۔

بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فَعِلان بھی آ سکتے ہیں۔

علامتی نظام - 2121 / 2211 / 2121 / 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 2121 پہلے ہے اور اس میں بھی 1 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)

تقطیع -

سرِ حیات اک الزام دھر گئے ہم بھی
کلام بھی نہ جیا اور مر گئے ہم بھی

سرے حیا - مفاعلن - 2121
ت اِ کل زا - فعلاتن - 2211 اک اور الزام میں الف کا وصال ہوا ہے۔
م در گئے - مفاعلن - 2121
ہم بی -فعلن - 22

کلام بی - مفاعلن - 2121
نَ جیا او - فعلاتن - 2211
ر مر گئے - مفاعلن - 2121
ہم بی -فعلن - 22
-----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 16, 2013

اک معمّہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا - فانی بدایونی

خلق کہتی ہے جسے دل ترے دیوانے کا
ایک گوشہ ہے یہ دنیا اسی ویرانے کا

اک معمّہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا

حُسن ہے ذات مری، عشق صفَت ہے میری
ہوں تو میں شمع مگر بھیس ہے پروانے کا

کعبہ کو دل کی زیارت کے لیے جاتا ہوں
آستانہ ہے حرم میرے صنم خانے کا

مختصر قصّہٴ غم یہ ہے کہ دل رکھتا ہوں
رازِ کونین خلاصہ ہے اس افسانے کا

زندگی بھی تو پشیماں ہے یہاں لا کے مجھے
ڈھونڈتی ہے کوئی حیلہ مرے مر جانے کا
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, ilm-e-urooz, behr, taqtee, Fani Badayuni, فانی بدایونی، اردو شاعری، اردو غزل، تقطیع، بحر، علم عروض
Fani Badayuni, فانی بدایونی
تصویر بشکریہ کرناٹک اردو اکاڈمی، بنگلور
تم نے دیکھا ہے کبھی گھر کو بدلتے ہوئے رنگ
آؤ دیکھو نہ تماشا مرے غم خانے کا

اب اسے دار پہ لے جا کے سُلا دے ساقی
یوں بہکنا نہیں اچھّا ترے مستانے کا

دل سے پہنچی تو ہیں آنکھوں میں لہو کی بوندیں
سلسلہ شیشے سے ملنا تو ہے پیمانے کا

ہڈّیاں ہیں کئی لپٹی ہوئی زنجیروں میں
لیے جاتے ہیں جنازہ ترے دیوانے کا

وحدتِ حُسن کے جلووں کی یہ کثرت اے عشق
دل کے ہر ذرّے میں عالم ہے پری خانے کا

چشمِ ساقی اثرِ مے سے نہیں ہے گل رنگ
دل مرے خون سے لبریز ہے پیمانے کا

لوح دل کو، غمِ الفت کو قلم کہتے ہیں
کُن ہے اندازِ رقم حُسن کے افسانے کا

ہر نفَس عمرِ گزشتہ کی ہے میّت فانی
زندگی نام ہے مر مر کے جیے جانے کا

فانی بدایونی

-----

قافیہ - آنے یعنی الف، نون  اور رے اور الف سے پہلے زبر کی آواز جیسے دیوانے میں وانے، ویرانے میں رانے، پیمانے میں مانے، صنم خانے میں خانے، سمجھانے میں جھانے وغیرہ وغیرہ ۔

ردیف - کا

بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)۔ جیسے ساتویں شعر کے پہلے مصرعے کا آخری ٹکڑا "ہوئے رنگ" فَعِلان پر تقطیع ہوگا۔ اسی طرح دسویں شعر کے دوسرے مصرعے کا پہلا ٹکڑا "لیے جاتے" فَعِلاتن پر تقطیع ہوگا۔ بارہویں شعر کے پہلے مصرعے کا آخری ٹکڑا "گل رنگ" فعلان پر تقطیع ہوگا۔ وغیرہ وغیرہ

علامتی نظام - 2212 / 2211 / 2211 / 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

خلق کہتی ہے جسے دل ترے دیوانے کا
ایک گوشہ ہے یہ دنیا اسی ویرانے کا

خلق کہتی - فاعلاتن - 2212
ہِ جسے دل - فعلاتن - 2211
ترِ دیوا - فعلاتن - 2211
نے کا - فعلن - 22

ایک گوشہ - فاعلاتن - 2212
ہِ یِ دنیا - فعلاتن - 2211
اسِ ویرا - فعلاتن - 2211
نے کا - فعلن - 22
---

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 12, 2013

کُوچہٴ دلبر میں مَیں، بُلبُل چمن میں مست ہے - غزلِ آتش

کُوچہٴ دلبر میں مَیں، بُلبُل چمن میں مست ہے
ہر کوئی یاں اپنے اپنے پیرہن میں مست ہے

نشّہٴ دولت سے منعم پیرہن میں مست ہے
مردِ مفلس حالتِ رنج و محن میں مست ہے

دورِ گردوں ہے خداوندا کہ یہ دورِ شراب
دیکھتا ہوں جس کو میں اس انجمن میں مست ہے

آج تک دیکھا نہیں یاں آنکھوں نے روئے خمار
کون مجھ سا گنبدِ چرخِ کہن میں مست ہے

گردشِ چشمِ غزالاں، گردشِ ساغر ہے یاں
خوش رہیں اہلِ وطن، دیوانہ بن میں مست ہے

Khwaja Haider Ali Aatish, خواجہ حیدر علی آتش، Urdu Poetry, Urdu Shairi, Urdu Ghazal, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, اردو شاعری، اردو غزل، علم عروض، تقطیع، بحر
Khwaja Haider Ali Aatish, خواجہ حیدر علی آتش

ہے جو حیرانِ صفائے رُخ حلب میں آئنہ
بوئے زلفِ یار سے آہو ختن میں مست ہے

غافل و ہشیار ہیں اُس چشمِ میگوں کے خراب
زندہ زیرِ پیرہن، مردہ کفن میں مست ہے

ایک ساغر دو جہاں کے غم کو کرتا ہے غلط
اے خوشا طالع جو شیخ و برہمن میں مست ہے

وحشتِ مجنوں و آتش میں ہے بس اتنا ہی فرق
کوئی بن میں مست ہے کوئی وطن میں مست ہے

خواجہ حیدر علی آتش
-------

قافیہ - مَن یعنی نون ساکن اور اس سے پہلے زبر کی آواز جیسے چمن میں من، پیرہن میں ہن محن میں حن، انجمن میں من، بن وغیرہ۔

ردیف - میں مست ہے۔

بحر - بحر رمل مثمن محذوف

 افاعیل: فاعلاتُن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
آخری رکن فاعلن میں مسبغ رکن فاعلان بھی آ سکتا ہے جیسے تیسرے شعر کے پہلے مصرعے کے الفاظ "دورِ شراب" میں ٹکڑے "رے شراب" کی تقطیع فاعلان ہوگی، وغیرہ۔

علامتی نظام - 2212 2212 2212 212
ہندسوں کو اردو طرز پر پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 2 پہلے اور 1 بعد میں ہے۔ آخری 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے۔

تقطیع -

کُوچہٴ دلبر میں مَیں، بُلبُل چمن میں مست ہے
ہر کوئی یاں اپنے اپنے پیرہن میں مست ہے

کُوچہ اے دل - فاعلاتن - 2212
بر مِ مےبُل - فاعلاتن - 2212
بُل چمن مے - فاعلاتن - 2212
مست ہے - فاعلن - 212

ہر کُ ئی یا - فاعلاتن - 2212
اپ نِ اپنے - فاعلاتن - 2212
پیرہن مے - فاعلاتن - 2212
مست ہے - فاعلن - 212
-----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 29, 2012

جو دلوں کو فتح کر لے، وہی فاتحِ زمانہ - جگر مرادآبادی

یہ فلک یہ ماہ و انجم، یہ زمین یہ زمانہ
ترے حُسن کی حکایت، مرے عشق کا فسانہ

یہ ہے عشق کی کرامت، یہ کمالِ شاعرانہ
ابھی مُنہ سے بات نکلی، ابھی ہو گئی فسانہ

یہ علیل سی فضائیں، یہ مریض سا زمانہ
تری پاک تر جوانی، ترا حُسنِ معجزانہ

یہ مرا پیام کہنا تُو صبا مؤدّبانہ
کہ گزر گیا ہے پیارے، تجھے دیکھے اِک زمانہ

مجھے چاکِ جیب و دامن سے نہیں مناسبت کچھ
یہ جُنوں ہی کو مبارک، رہ و رسمِ عامیانہ

تجھے حادثاتِ پیہم سے بھی کیا ملے گا ناداں؟
ترا دل اگر ہو زندہ، تو نفَس بھی تازیانہ

تری اِک نمود سے ہے، ترے اِک حجاب تک ہے
مری فکرِ عرش پیما، مرا نازِ شاعرانہ

وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کر لے، وہی فاتحِ زمانہ
Jigar Muradabadi, جگر مُرادآبادی، Urdu Poetry, Urdu Shairi, Urdu Ghazal, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, اردو شاعری، اردو غزل، علم عروض، تقطیع، بحر
Jigar Muradabadi, جگر مُرادآبادی

یہ ترا جمالِ کامل، یہ شباب کا زمانہ
دلِ دشمناں سلامت، دلِ دوستاں نشانہ

کبھی حُسن کی طبیعت نہ بدل سکا زمانہ
وہی نازِ بے نیازی، وہی شانِ خسروانہ

مجھے عشق کی صداقت پہ بھی شک سا ہو چلا ہے
مرے دل سے کہہ گئی کیا، وہ نگاہِ ناقدانہ

تجھے اے جگر ہوا کیا کہ بہت دنوں سے پیارے
نہ بیانِ عشق و مستی، نہ حدیثِ دلبرانہ
-----

قافیہ - آنہ یعنی ا ن ہ اور اس سے پہلے زبر کی آواز جیسے زمانہ میں مانہ، فسانہ میں سانہ، معجزانہ میں زانہ، عامیانہ میں یانہ وغیرہ۔

ردیف - اس غزل کی کوئی ردیف نہیں یعنی یہ غزل غیر مردف ہے۔

بحر - بحر رمل مثمن مشکول

 افاعیل: فَعِلاتُ فاعلاتُن / فَعِلاتُ فاعلاتُن
یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی ہر مصرع دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا ہے اور ہر ٹکڑا بھی ایک مصرعے کے حکم میں آ سکتا ہے یعنی اس میں عملِ تسبیغ کیا جا سکتا ہے یعنی ہر فاعلاتن کو فاعلاتان بنایا جا سکتا ہے۔

علامتی نظام -  1211 2212 / 1211 2212
ہندسوں کو اردو طرز پر پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 1211 کا ٹکڑا پہلا ہے اور اس میں بھی 11 پہلے ہے۔ ہر 2212 کو 12212 بنایا جا سکتا ہے۔

تقطیع -

یہ فلک یہ ماہ و انجم، یہ زمین یہ زمانہ
ترے حُسن کی حکایت، مرے عشق کا فسانہ

ی فلک ی - فعلات - 1211
ماہ انجم - فاعلاتن - 2212
ی زمین - فعلات - 1211
یہ زمانہ - فاعلاتن - 2212

ترِ حُسن - فعلات - 1211
کی حکایت - فاعلاتن - 2212
مرِ عشق - فعلات - 1211
کا فسانہ - فاعلاتن - 2212
----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 22, 2012

میرے سنگِ مزار پر فرہاد - غزلِ میر تقی میر

میرے سنگِ مزار پر فرہاد
رکھ کے تیشہ کہے ہے یا اُستاد

ہم سے بن مرگ کیا جدا ہو ملال
جان کے ساتھ ہے دلِ ناشاد

آنکھیں موند اور سفر عدم کا کر
بس بہت دیکھا عالمِ ایجاد

فکرِ تعمیر میں نہ رہ منعم
زندگانی کی کچھ بھی ہے بنیاد؟

خاک بھی سر پہ ڈالنے کو نہیں
کس خرابہ میں ہم ہوئے آباد

سنتے ہو، ٹک سنو کہ پھر مجھ بعد
نہ سنو گے یہ نالہ و فریاد

لگتی ہے کچھ سموم سی تو نسیم
خاک کس دل جلے کی کی برباد

بھُولا جا ہے غمِ بُتاں میں جی
غرض آتا ہے پھر خدا ہی یاد
Mir Taqi Mir, میر تقی میر, Urdu Poetry, Urdu Shairi, Urdu Ghazal, Classical Urdu Poetry, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, Meer Taqi Meer, اردو شاعری، اردو غزل، کلاسیکی ارو شاعری، علم عروض، تقطیع، بحر
Mir Taqi Mir, میر تقی میر

تیرے قیدِ قفس کا کیا شکوہ
نالہ اپنے سے، اپنے سے فریاد

ہرطرف ہیں اسیر ہم آواز
باغ ہے گھر ترا تو اے صیّاد

ہم کو مرنا یہ ہے کہ کب ہوں گے
اپنی قیدِ حیات سے آزاد

ایسا ہرزہ ہے وہ کہ اٹھتے صبح
سو جگہ جانا اس کی ہے معتاد

نقش صورت پذیر نہیں اس کا
یوں ہی تصدیع کھینچے ہے بہزاد

خوب ہے خاک سے بزرگاں کی
چاہنا تو مرے تئیں امداد

پر مروّت کہاں اسے اے میر
تو ہی مجھ دل جلے کو کر ناشاد

نامرادی ہو جس پہ پروانہ
وہ جلاتا پھرے چراغِ مراد

میر تقی میر
-----

قافیہ - آد یعن ساکن الف دال اور ان سے پہلے زبر کی آواز جیسے استاد میں تاد، فرہاد میں ہاد، ناشاد میں شاد، ایجاد میں جاد وغیرہ۔

ردیف - اس غزل کی کوئی ردیف نہیں یعنی یہ غیر مردف ہے۔

 بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن مُفاعِلُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)۔ تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)

علامتی  نظام - 2212 2121 22
ہندسوں کو اردو رسم الخط کے مطابق پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 2212 پہلے پڑھیے۔ اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

میرے سنگِ مزار پر فرہاد
رکھ کے تیشہ کہے ہے یا استاد

میرِ سنگے - فاعلاتن - 2212
مزار پر - مفاعلن - 2121
فرہاد - فعلان - 122

رک کِ تیشہ - فاعلاتن - 2212
کہے ہِ یا - مفاعلن - 2121
استاد - فعلان - 122
----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 28, 2012

شامِ غم کی سحر نہیں ہوتی - ابنِ انشا

شامِ غم کی سحر نہیں ہوتی
یا ہمیں کوخبر نہیں ہوتی

ہم نے سب دُکھ جہاں کے دیکھے ہیں
بے کلی اِس قدر نہیں ہوتی

نالہ یوں نا رسا نہیں رہتا
آہ یوں بے اثر نہیں ہوتی

چاند ہے، کہکشاں ہے، تارے ہیں
کوئی شے نامہ بر نہیں ہوتی

ایک جاں سوز و نامراد خلش
اِس طرف ہے اُدھر نہیں ہوتی

دوستو، عشق ہے خطا لیکن
کیا خطا درگزر نہیں ہوتی؟

رات آ کر گزر بھی جاتی ہے
اک ہماری سحر نہیں ہوتی
Urdu Poetry, Urdu Ghazal, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, اردو شاعری، اردو غزل، علم عروض، تقطیع, Ibn-e-Insha, behr, بحر خفیف، ابن انشا
Ibn-e-Insha, ابنِ انشا

بے قراری سہی نہیں جاتی
زندگی مختصر نہیں ہوتی

ایک دن دیکھنے کو آجاتے
یہ ہوس عمر بھر نہیں ہوتی

حُسن سب کو، خدا نہیں دیتا
ہر کسی کی نظر نہیں ہوتی

دل پیالہ نہیں گدائی کا
عاشقی در بہ در نہیں ہوتی

ابنِ انشا
----

قافیہ - اَر یعنی رے ساکن اور اس سے پہلے زبر کی آواز جیسے سحر میں حر، خبر میں بر، قدر میں در، اثر میں ثر، بر وغیرہ۔

ردیف - نہیں ہوتی

 بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن مُفاعِلُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)۔ تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)

علامتی  نظام - 2212 2121 22
ہندسوں کو اردو رسم الخط کے مطابق پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 2212 پہلے پڑھیے۔ اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

شامِ غم کی سحر نہیں ہوتی
یا ہمیں کوخبر نہیں ہوتی

شام غم کی - فاعلاتن - 2212
سحر نہی - مفاعلن - 2121
ہوتی - فعلن - 22

یا ہمی کو - فاعلاتن - 2212
خبر نہی - مفاعلن - 2121
ہوتی - فعلن - 22
-----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 23, 2012

یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے - حفیظ جالندھری

لباس ہے پھٹا ہوا، غُبار میں اٹا ہوا
تمام جسمِ نازنیں، چھدا ہوا کٹا ہوا
یہ کون ذی وقار ہے، بلا کا شہ سوار ہے
کہ ہے ہزاروں قاتلوں کے سامنے ڈٹا ہوا
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

یہ کون حق پرست ہے، مئے رضائے مست ہے
کہ جس کے سامنے کوئی بلند ہے نہ پست ہے
اُدھر ہزار گھات ہے، مگر عجیب بات ہے
کہ ایک سے ہزار کا بھی حوصلہ شکست ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

یہ جسکی ایک ضرب سے، کمالِ فنّ ِ حرب سے
کئی شقی گرئے ہوئے تڑپ رہے ہیں کرب سے
غضب ہے تیغِ دوسرا کہ ایک ایک وار پر
اُٹھی صدائے الاماں زبانِ شرق وغرب سے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

عبا بھی تار تار ہے، تو جسم بھی فگار ہے
زمین بھی تپی ہوئی  فلک بھی شعلہ بار ہے
مگر یہ مردِ تیغ زن، یہ صف شکن فلک فگن
کمالِ صبر و تن دہی سے محوِ کارزار ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے
Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, Urdu Poetry, Urdu Shairi, اردو شاعری، علم عروض، تقطیع، بحر، بحر ہزج, سلام, Salam; hafeez jalandhari، حفیظ جالندھری
Hafeez Jalandhari، حفیظ جالندھری

دلاوری میں فرد ہے، بڑا ہی شیر مرد ہے
کہ جس کے دبدبے سے رنگ دشمنوں کا زرد ہے
حبیبِ مُصطفیٰ ہے یہ، مجاہدِ خدا ہے یہ
جبھی تو اس کے سامنے، یہ فوج گرد گرد ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

اُدھر سپاہِ شام ہے، ہزار انتظام ہے
اُدھر ہیں دشمنانِ دیں، اِدھر فقط اِمام ہے
مگر عجیب شان ہے غضب کی آن بان ہے
کہ جس طرف اُٹھی ہے تیغ بس خدا کا نام ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

حفیظ جالندھری
-----

بحر - بحرِ ہزج مثمن مقبوض

افاعیل - مفاعلن مفاعلن مفاعلن مفاعلن

علامتی نظام - 2121 / 2121 / 2121 /2121
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2121 میں 1 پہلے ہے

تقطیع -

لباس ہے پھٹا ہوا، غبار میں اٹا ہوا
تمام جسمِ نازنیں، چھدا ہوا کٹا ہوا

لباس ہے - مفاعلن - 2121
پٹا ہوا - مفاعلن - 2121
غبار مے - مفاعلن - 2121
اٹا ہوا - مفاعلن - 2121

تمام جس - مفاعلن - 2121
مِ نازنی - مفاعلن - 2121
چھدا ہوا - مفاعلن - 2121
کٹا ہوا - مفاعلن - 2121

یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نورِ عین ہے

یِ بل یقی - مفاعلن - 2121
حُسین ہے - مفاعلن - 2121
نبی کَ نُو - مفاعلن - 2121
رِ عین ہے - مفاعلن - 2121
-----


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 20, 2012

قرنِ اوّل کی روایت کا نگہدار حُسین - سلام از آغا شورش کاشمیری

قرنِ اوّل کی روایت کا نگہدار حُسین
بس کہ تھا لختِ دلِ حیدرِ کرّار حُسین

عرصۂ شام میں سی پارۂ قرآنِ حکیم
وادیٔ نجد میں اسلام کی للکار حُسین

سر کٹانے چلا منشائے خداوند کے تحت
اپنے نانا کی شفاعت کا خریدار حُسین

کوئی انساں کسی انساں کا پرستار نہ ہو
اس جہاں تاب حقیقت کا علمدار حُسین

ابوسفیان کے پوتے کی جہانبانی میں
عزّتِ خواجۂ گیہاں کا نگہدار حُسین

کرۂ ارض پہ اسلام کی رحمت کا ظہور
عشق کی راہ میں تاریخ کا معمار حُسین
Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, Urdu Poetry, Urdu Shairi, اردو شاعری، علم عروض، تقطیع، بحر، بحر رمل, Agha Shorish Kashmiri, آغا شورش کاشمیری، سلام, Salam
Agha Shorish Kashmiri, آغا شورش کاشمیری

جان اسلام پہ دینے کی بنا ڈال گیا
حق کی آواز، صداقت کا طرفدار حُسین

دینِ قیّم کے شہیدوں کا امامِ برحق
حشر تک امّتِ مرحوم کا سردار حُسین

ہر زمانے کے مصائب کو ضرورت اس کی
ہر زمانے کے لیے دعوتِ ایثار حُسین

کربلا اب بھی لہو رنگ چلی آتی ہے
دورِ حاضر کے یزیدوں سے ہے دوچار حُسین

آغا شورش کاشمیری
----

قافیہ - آر یعنی ساکن الف اور رے اور الف سے پہلے زبر کی آواز جیسے نگہداد میں دار، کرّار میں رار، للکار میں کار، علمدار میں دار وغیرہ۔

ردیف - حُسین

بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)

علامتی نظام - 2212 / 2211 / 2211 / 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

قرنِ اوّل کی روایت کا نگہدار حُسین
بس کہ تھا لختِ دلِ حیدرِ کرّار حُسین

قرنِ او ول - فاعلاتن - 2212
کِ روایت - فعلاتن - 2211
کَ نگہدا - فعلاتن - 2211
ر حُسین - فَعِلان - 1211

بس کہ تھا لخ - فاعلاتن - 2212
تِ دلے حے - فعلاتن - 2211
دَرِ کر را - فعلاتن - 2211
ر حُسین - فَعِلان - 1211
-----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 17, 2012

حسین ابنِ علی کو امام جانتا ہوں - سلام از حفیظ تائب

رموزِ عشق و محبّت تمام جانتا ہوں
حسین ابنِ علی کو امام جانتا ہوں

انہی کے در کو سمجھتا ہوں محورِ مقصود
انہی کے گھر کو میں دارالسّلام جانتا ہوں

میں ان کی راہ کا ہوں ایک ذرۂ ناچیز
کہوں یہ کیسے کہ ان کا مقام جانتا ہوں

مجھے امام نے سمجھائے ہیں نکاتِ حیات
سوادِ کفر میں جینا حرام جانتا ہوں

نگاہ کیوں ہے مری ظاہری وسائل پر
جو خود کو آلِ نبی کا غلام جانتا ہوں
Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, Urdu Poetry, Urdu Shairi, اردو شاعری، علم عروض، تقطیع، بحر، بحر مجتث, Salam, Hafeez Taib, سلام، حفیظ تائب
Hafeez Taib, حفیظ تائب

میں جان و مال کو پھر کیوں عزیز رکھتا ہوں
جو خود کو پیروِ خیر الانام جانتا ہوں

شکارِ مصلحت و یاس کیوں ہو پھر تائب
جو اس کٹے ہوئے سر کا پیام جانتا ہوں
---

قافیہ - آم یعنی ساکن الف میم اور الف سے پہلے زبر کی آواز جیسے تمام میں مام، سلام میں لام، مقام میں قام، حرام میں رام وغیرہ۔

ردیف - جانتا ہوں

بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فَعِلان بھی آ سکتے ہیں۔

علامتی نظام - 2121 / 2211 / 2121 / 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 2121 پہلے ہے اور اس میں بھی 1 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)

تقطیع -

رموزِ عشق و محبت تمام جانتا ہوں
حسین ابنِ علی کو امام جانتا ہوں

رموز عش - مفاعلن - 2121
ق محبت - فعلاتن - 2211
تمام جا - مفاعلن - 2121
ن تَ ہو - فَعِلن - 211

حسین اِب - مفاعلن - 2121
نِ علی کو - فعلاتن - 2211
امام جا - مفاعلن - 2121
ن تَ ہو - فَعِلن - 211
-----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 1, 2012

نہ یہ شیشہ، نہ یہ ساغر، نہ یہ پیمانہ بنے - اصغر گونڈوی

نہ یہ شیشہ، نہ یہ ساغر، نہ یہ پیمانہ بنے
جانِ میخانہ، تری نرگسِ مستانہ بنے

مرتے مرتے نہ کبھی عاقل و فرزانہ بنے
ہوش رکھتا ہو جو انسان تو دیوانہ بنے

پرتوِ رخ کے کرشمے تھے سرِ راہ گذار
ذرّے جو خاک سے اٹھّے، وہ صنم خانہ بنے

موجِ صہبا سے بھی بڑھ کر ہوں ہوا کے جھونکے
ابر یوں جھوم کے چھا جائے کہ میخانہ بنے

کارفرما ہے فقط حُسن کا نیرنگِ کمال
چاہے وہ شمع بنے چاہے وہ پروانہ بنے
urdu poetry, urdu shairy, urdu ghazal, ilm-e-arooz, ilm-e-Urooz, taqtee, behr, اردو شاعری، اردو غزل، تقطیع، بحرعلم عروض, Asghar Gondvi, اصغر گونڈوی
Asghar Gondvi, اصغر گونڈوی

چھوڑ کر یوں درِ محبوب چلا صحرا کو؟
ہوش میں آئے ذرا قیس نہ دیوانہ بنے

خاک پروانے کی برباد نہ کر بادِ صبا
عین ممکن ہے کہ کل تک مرا افسانہ بنے

جرعہٴ مے تری مستی کی ادا ہو جائے
موجِ صہبا تری ہر لغزشِ مستانہ بنے

اُس کو مطلوب ہیں کچھ قلب و جگر کے ٹکڑے
جیب و دامن نہ کوئی پھاڑ کے دیوانہ بنے

رند جو ظرف اٹھا لیں وہی ساغر بن جائے
جس جگہ بیٹھ کے پی لیں وہی میخانہ بنے

اصغر گونڈوی
-----

قافیہ - آنہ یعنی نہ اور اسے پہلے الف ساکن اور زبر کی آواز جیسے پیمانہ میں مانہ، مستانہ میں تانہ، فرزانہ میں زانہ، دیوانہ میں وانہ وغیرہ۔

ردیف - بنے

بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)

علامتی نظام - 2212 / 2211 / 2211 / 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

نہ یہ شیشہ، نہ یہ ساغر، نہ یہ پیمانہ بنے
جانِ میخانہ، تری نرگسِ مستانہ بنے

نہ یہ شیشہ - فَعِلاتن - 2211
نہ یہ ساغر - فَعِلاتن - 2211
نہ یہ پیما - فَعِلاتن - 2211
نہ بنے - فَعِلن - 211

جانِ میخا - فاعلاتن - 2212
نہ تری نر - فَعِلاتن - 2211
گَسِ مستا - فعلاتن - 2211
نہ بنے - فَعِلن - 211
-----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Oct 2, 2012

ہر غنچہ لب سے عشق کا اظہار ہے غَلَط - مومن خان مومن

ہر غنچہ لب سے عشق کا اظہار ہے غَلَط
اس مبحثِ صحيح کی تکرار ہے غَلَط

کہنا پڑا درست کہ اتنا رہے لحاظ
ہر چند وصلِ غير کا انکار ہے غلط

کرتے ہيں مجھ سے دعویِ الفت، وہ کيا کريں
کيونکر کہيں مقولہٴ اغيار ہے غلط

يہ گرم جوشياں تری گو دل سے ہوں ولے
تاثیرِ نالہ ہائے شرر بار ہے غلط

کرتے ہو مجھ سے راز کی باتیں تم اس طرح
گويا کہ قولِ محرمِ اسرار ہے غلط
Momin Khan Momin, مومن خان مومن، Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Urdu Poetry, Urdu Shairy, Urdu Ghazl, Taqtee, Behr, علم عروض، تقطیع، اردو شاعری، اردو غزل
Momin Khan Momin, مومن خان مومن

اٹھ جا کہاں تلک کوئی باتيں اٹھائے گا
ناصح تو خود غلط تری گفتار ہے غلط

سچ تو يہ ہے کہ اس بُتِ کافر کے دور ميں
لاف و گزافِ مومنِ ديندار ہے غلط

----

قافیہ - آر یعنی الف اور رے ساکن اور ان سے پہلے زبر کی آواز جیسے اظہار میں ہار، تکرار میں رار، انکار میں کار، شرر بار میں بار وغیرہ۔

ردیف - ہے غلط

بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف

 افاعیل: مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے، جیسے اس غزل کے دوسرے شعر کے پہلے مصرعے میں لفظ لحاظ آیا ہے اور الفاظ "رہے لحاظ" میں ٹکڑا "ہے لحاظ" فاعلان پر تقطیع ہوگا۔

علامتی نظام - 122 / 1212 / 1221 / 212
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 122 پہلے ہے اور اس میں بھی 22 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)

 تقطیع -

ہر غنچہ لب سے عشق کا اظہار ہے غلط
اس مبحثِ صحيح کی تکرار ہے غلط

ہر غنچَ - مفعول - 122
لب سِ عشق - فاعلات - 1212
کَ اظہار - مفاعیل - 1221
ہے غلط - فاعلن - 212

اس مبحَ - مفعول - 122
ثے صحیح - فاعلات - 1212
کِ تکرار - مفاعیل - 1221
ہے غلط - فاعلن - 212
----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 14, 2012

حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا - قتیل شفائی

حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا
ٹوٹے بھی جو تارا تو زمیں پر نہیں گرتا

گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا

سمجھو وہاں پھل دار شجر کوئی نہیں ہے
وہ صحن کہ جِس میں کوئی پتھّر نہیں گرتا

اِتنا تو ہوا فائدہ بارش کی کمی سے
اِس شہر میں اب کوئی پھسل کر نہیں گرتا

انعام کے لالچ میں لکھے مدح کسی کی
اتنا تو کبھی کوئی سخنور نہیں گرتا

حیراں ہے کوئی روز سے ٹھہرا ہوا پانی
تالاب میں اب کیوں کوئی کنکر نہیں گرتا
Qateel Shifai, قتیل شفائی, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Urdu Poetry, Urdu Shairy, Urdu Ghazl, Taqtee, Behr, علم عروض، تقطیع، اردو شاعری، اردو غزل
Qateel Shifai, قتیل شفائی

اُس بندہٴ خوددار پہ نبیوں کا ہے سایا
جو بھوک میں بھی لقمہٴ تر پر نہیں گرتا

کرنا ہے جو سر معرکہِ زیست تو سُن لے
بے بازوئے حیدر، درِ خیبر نہیں گرتا

قائم ہے قتیل اب یہ مرے سر کے ستوں پر
بھونچال بھی آئے تو مرا گھر نہیں گرتا
-----

قافیہ - اَر یعنی رے ساکن اور اس سے پہلے زبر کی آواز جیسے قلندر میں دَر، پَر، سمندر میں دَر، پتھر میں تھَر، کر وغیرہ۔

ردیف - نہیں گرتا

بحر - بحرِ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف

 افاعیل: مَفعُولُ مَفَاعیلُ مَفَاعیلُ فَعُولُن
آخری رکن فعولن کی جگہ مسبغ رکن فعولان بھی آ سکتا ہے۔

علامتی نظام - 122 / 1221 / 1221 / 221
(آخری رکن 221 کی جگہ 1221 بھی آ سکتا ہے)
ہندسوں کو اردو رسم الخظ کے مطابق یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی  122 پہلے ہے اور اس میں بھی 2 پہلے ہے۔

 تقطیع -

حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا
ٹوٹے بھی جو تارا تو زمیں پر نہیں گرتا

حالات - مفعول - 122
کِ قدمو پِ - مفاعیل - 1221
قلندر نَ - مفاعیل - 1221
ہِ گرتا - فعولن - 221

ٹوٹے بِ - مفعول - 122
جُ تارا تُ - مفاعیل - 1221
زمی پر نَ - مفاعیل - 1221
ہِ گرتا - فعولن - 221
----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 11, 2012

یہی دھڑکا مرے پندار سے باندھا ہوا ہے - شیخ خالد کرار

ریاست جموں و کشمیر، ہندوستان سے ہمارے کرما فرما اور "اردو جاوداں" کے مدیر جناب شیخ خالد کرار صاحب کی ایک غزل۔ انکی مزید شاعری انکی ویب سائٹ "ورود"ربط پر پڑھی جا سکتی ہے۔

یہی دھڑکا مرے پندار سے باندھا ہوا ہے
مرے اثبات کو انکار سے باندھا ہوا ہے

مرے ہاتھوں میں کِیلیں گاڑھ رکھّی ہیں کسی نے
مرے ہی جسم کو دیوار سے باندھا ہوا ہے

یا رستہ دائروں کی قید میں ہے میری خاطر
یا میرے جسم کو پرکار سے باندھا ہوا ہے
Khalid Karrar, خالد کرار، Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, Urdu Poetry, Urdu Ghazal, Urdu Shairi, اردو شاعری، علم عروض، تقطیع، بحر، بحر مجتث, اردو غزل
Khalid Karrar, خالد کرار

حویلی میں مرے اجداد رہتے تھے مگر اب
انا کے سانپ کو دستار سے باندھا ہوا ہے

مجھے واپس اُسی جنگل میں جانا ہے کسی دن
مجھے تہذیب نے بازار سے باندھا ہوا ہے

میں اُس کو سر اٹھا کر دیکھنا تو چاہتا ہوں
مگر کندھوں کو اُس نے بار سے باندھا ہوا ہے

مجھے ہر گام ہے تازہ ہزیمت عمر بھر کی
کہ میں نے آئنہ کردار سے باندھا ہوا ہے

حیاداری کے دھاگے نے پرو رکھّا ہے خالد
بھرم نے مجھ کو میرے یار سے باندھا ہوا ہے

شیخ خالد کرار
-----

قافیہ - آر یعنی الف رے اور ان سے پہلے زبر کی آواز جیسے پندار میں دار، انکار میں کار، دیوار میں وار وغیرہ۔

ردیف - سے باندھا ہوا ہے

بحر - بحر ہزج مثمن محذوف

افاعیل - مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن فعولن

علامتی نظام - 2221 / 2221 / 2221 / 221
ہندسوں کو اردو طرز یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 2221 پہلے ہے اور اس میں بھی 1 پہلے ہے۔

تقطیع-

یہی دھڑکا مرے پندار سے باندھا ہوا ہے
مرے اثبات کو انکار سے باندھا ہوا ہے

یہی دڑکا - مفاعیلن - 2221
مرے پندا - مفاعیلن - 2221
ر سے بادا - مفاعیلن - 2221
ہوا ہے - فعولن - 221

مرے اثبا - مفاعیلن - 2221
ت کو انکا - مفاعیلن - 2221
ر سے بادا - مفاعیلن - 2221
ہوا ہے - فعولن - 221
-----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 6, 2012

کہاں کسی کی حمایت میں مارا جاؤں گا - رانا سعید دوشی

رانا سعید دوشی کی ایک خوبصورت غزل

کہاں کسی کی حمایت میں مارا جاؤں گا
میں کم شناس مروّت ميں مارا جاؤں گا

میں مارا جاؤں گا پہلے کسی فسانے میں
پھر اس کے بعد حقیقت میں مارا جاؤں گا

مجھے بتایا ہوا ہے مری چھٹی حس نے
میں اپنے عہدِ خلافت میں مارا جاؤں گا

مرا یہ خون مرے دشمنوں کے سر ہوگا
میں دوستوں کی حراست ميں مارا جاؤں گا

یہاں کمان اٹھانا مری ضرورت ہے
وگرنہ میں بھی شرافت میں مارا جاؤں گا
Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, Urdu Poetry, Urdu Ghazal, Urdu Shairi, اردو شاعری، علم عروض، تقطیع، بحر، بحر مجتث, اردو غزل
Rana Saeed Doshi, رانا سعید دوشی

میں چپ رہا تو مجھے مار دے گا میرا ضمیر
گواہی دی تو عدالت میں مارا جاؤں گا

میں ورغلایا ہوا لڑرہا ہوں اپنے خلاف
میں اپنے شوقِ شہادت میں مارا جاؤں گا

فراغ میرے لیے موت کی علامت ہے
میں اپنی پہلی فراغت میں مارا جاؤں گا

بس ایک صلح کی صورت میں جان بخشی ہے
کسی بھی دوسری صورت میں مارا جاؤں گا

نہیں مروں گا کسی جنگ میں یہ سوچ لیا
میں اب کی بار محبّت میں مارا جاؤں گا

رانا سعید دوشی، واہ کینٹ
------

قافیہ - اَت یعنی تے اور اس سے پہلے زبر کی آواز جیسے حمایت میں یَت، مروّت میں وَت، حقیقت میں قَت وغیرہ۔

ردیف - میں مارا جاؤں گا

بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فَعِلان بھی آ سکتے ہیں۔ جیسے چھٹے شعر میں الفاظ "میرا ضمیر" کا ٹکڑا "رَ ضمیر" فَعِلان پر تقطیع ہوتا ہے اور آخری شعر میں "سوچ لیا" کا ٹکڑا "چ لیا" فَعِلن پر تقطیع ہوتا ہے۔

علامتی نظام - 2121 / 2211 / 2121 / 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 2121 پہلے ہے اور اس میں بھی 1 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)

تقطیع -

کہاں کسی کی حمایت میں مارا جاؤں گا
میں کم شناس مروّت ميں مارا جاؤں گا

کہا کسی - مفاعلن - 2121
کِ حمایت - فعلاتن - 2211
مِ مارَ جا - مفاعلن - 2121
ؤ گا - فعلن - 22

مِ کم شنا - مفاعلن - 2121
س مروّت - فعلاتن - 2211
مِ مارَ جا - مفاعلن - 2121
ؤ گا - فعلن - 22
-----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 3, 2012

شُکر کرتا ہوُں، گِلہ لگتا ہے - احمد ندیم قاسمی

احمد ندیم قاسمی مرحوم کی ایک خوبصورت غزل

سانس لینا بھی سزا لگتا ہے
اب تو مرنا بھی روا لگتا ہے

موسمِ گُل میں سرِ شاخِ گلاب
شعلہ بھڑکے تو بجا لگتا ہے

مُسکراتا ہے جو اِس عالم میں
بخدا، مجھ کو خُدا لگتا ہے

اتنا مانوس ہوُں سناّٹے سے
کوئی بولے تو بُرا لگتا ہے

کوہِ غم پر سے جو دیکھوں، تو مجھے
دشت، آغوشِ فنا لگتا ہے

سرِ بازار ہے یاروں کی تلاش
جو گزرتا ہے، خفا لگتا ہے
Ahmed Nadeem Qasmi, احمد ندیم قاسمی, urdu poetry, urdu shairy, urdu ghazal, ilm-e-arooz, ilm-e-Arooz, taqtee, behr, اردو شاعری، اردو غزل، تقطیع، بحرعلم عروض
Ahmed Nadeem Qasmi, احمد ندیم قاسمی

اُن سے مِل کر بھی نہ کافور ہوُا
درد یہ سب سے جُدا لگتا ہے

نطق کا ساتھ نہیں دیتا ذہن
شُکر کرتا ہوُں، گِلہ لگتا ہے

اِس قدَر تُند ہے رفتارِ حیات
وقت بھی رشتہ بپا لگتا ہے

احمد ندیم قاسمی
----

قافیہ - آ یعنی الف اور اس سے پہلے زبر کی آواز جیسے سزا میں زا، روا میں وا، بُرا میں را وغیرہ۔

ردیف۔ لگتا ہے

بحر - بحر رمل مسدس مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
پہلے رکن میں فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن اور آخری رکن میں فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آ سکتے ہیں یوں اس بحر میں آٹھ اوزان جمع ہو سکتے ہیں۔

علامتی نظام - 2212 / 2211 / 22
ہندسوں کو اردو رسم الخط یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 2212 پہلا رکن ہے اس میں بھی پہلے 2  پھر 1 اور اسی ترتیب سے باقی ہندسے ہیں۔ پہلے رکن 2212 کی جگہ 2211 بھی آسکتا ہے اور آخری رکن 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آسکتے ہیں۔

تقطیع-

سانس لینا بھی سزا لگتا ہے
اب تو مرنا بھی روا لگتا ہے

ساس لینا - فاعلاتن - 2212 - سانس میں نون مخلوط یا ہندی ہے جس کا وزن نہیں ہوتا۔
بِ سزا لگ - فعلاتن - 2211
تا ہے - فعلن - 22

اب تُ مرنا - فاعلاتن - 2212
بِ روا لگ - فعلاتن - 2211
تا ہے - فعلن - 22
------

مزید پڑھیے۔۔۔۔